• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۲:
۱۸۸۰ء کے درمیانی زمانہ میں بوقت تالیف '' براہین احمدیہ'' مرزا صاحب نے ایک الہام سنایا تھا:
شاتانِ تُذْبَحَانِ وَکُلّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ
دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا کوئی پیچھے اسے جا ملا۔(۷۰۷)
کیا بے تعیین و تخصیص عام رنگ کا الہام ہے دنیا میں ہر روز ہزارہا بکرے ذبح ہوتے ہیں۔ خود مرزا صاحب کو ایک ''الہام'' ہوا تین بکرے ذبح کئے جائیں گے آپ نے تین بکرے اس کے بعد ذبح کر دئیے۔(۷۰۸)
جو ایک معمولی بات ہے مگر چونکہ مرزا صاحب کا مطلب ان جیسے الہاموں کے گھڑنے سے کچھ اور ہی تھا۔ چنانچہ اس الہام پر جب قریباً ۱۵،۱۷ برس گزر گئے تو منکوحہ آسمانی کی پیشگوئی کے دوران میں آپ کو یہ یاد آیا۔ پھر کیا تھا نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ آپ نے جھٹ سے اس الہام کو آسمانی خسر اور زمینی رقیب مرزا احمد بیگ و سلطان محمد پر لگا دیا کہ دو بکریوں سے یہ مراد ہیں جو یقینا ذبح ہوں گی۔(۷۰۹)
چونکہ قدرت کو مرزا کا کذب منظور تھا وہ بھی اچھی طرح ذلت و خواری کے بعد اس لیے سلطان محمد نہ مرا اور یہ الہام جوں کا توں رہ گیا آخر سوچتے سوچتے ۱۹۰۳ء میں اسے بھی عبداللطیف و عبدالرحمن کابلی مقتولوں پر چسپاں کرنے کی سوجھی۔ چنانچہ آپ نے بکمال '' شان نبوت'' اس الہام کو ان کی موت پر لگا دیا۔
'' خدا تعالیٰ (براہین احمدیہ میں) فرماتا ہے دو بکریاں ذبح کی جائینگی یہ پیشگوئی مولوی عبداللطیف اور ان کے شاگرد عبدالرحمن کے بارے میں ہے جو پورے تئیس برس بعد پوری ہوئی۔'' (۷۱۰)
ہندو ، مسلم، سکھ اور مسیح بھائیو! کہہ دو۔ غلام احمد کی جے۔(۷۱۱)
------------------------------------
روحانی ص۷۵،ج۲۰ و حاشیہ تذکرہ ص۴۵۰
(۷۰۷) براھین احمدیہ ص۵۱۱، ج۴ وتذکرہ ص۸۸ و روحانی ص۶۱۰،ج۱
(۷۰۸) بدر جلد ۲ نمبر۱ مورخہ ۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد نمبر۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۵۸۹ والبشرٰی ص۱۰۵، ج۲
(۷۰۹) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷ و روحانی ص۳۴۱، ج۱۱
(۷۱۰) تذکرۃ الشھادتین ص۷۱ و روحانی ص۷۲، ج۲۰
(۷۱۱) یہ بھی مرزا جی کا الہام ہے ، تذکرہ ص۷۲۳ و مکاشفات مرزا ص۶۰
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۳:
۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ ء کے اخبار الحکم صفحہ ۹ پر مرزا صاحب کے کئی الہام درج ہیں۔ ان میں سے یکم جون ۴ء کا الہام ہے:
عَفَتِ الدیار مَحَلُّھَا وَمَقَامُھَا ۔(۷۱۲)
خطوط وحدانی کے اندر اس کے آگے لکھا ہے (متعلقہ طاعون) اسی کی تائید مزید اشتہار الوصیت میں یوں کی گئی ہے:
دوستو! میں نے خدا کی طرف سے اطلاع پا کر یہ وحی شائع کرائی تھی عَفَتِ الدِّیَارُ مُحَلُّھنا ومقامُھا (دیکھو اخبار الحکم ۳۰؍ مئی ۱۹۰۴ء (غلط ہے)۔ صحیح ۳۱؍ مئی ہے ناقل) نمبر ۱۸ جلد ۸ کالم ۳ (یہ بھی جھوٹ ہے کالم ۴ میں ہے) قرآن میں بھی آتا ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی۔ میرے الہام عفت الدیار محلھا ومقامھا کے یہی معنی ہیں۔ (۷۱۳)
معلوم ہوا کہ اس الہام میں طاعون کی پیشگوئی ہے مگر اب مرزا صاحب کی استادی دیکھو کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پنجاب میں زلزلہ عظیم آیا تو مرزا صاحب نے جھٹ سے الہام کو چالاک عطار کی طرح اس زلزلے پر لگا دیا۔ چنانچہ اشتہار '' الانذار'' مؤرخہ ۸؍ اپریل ۵ء پر یوں لکھا:
دیکھو وہ نشان کیسا پورا ہوا، پیشگوئی اس زلزلہ سے پہلے شائع کردی گئی۔ پیشگوئی یہ ہے عفت الدیار محلھا ومقامھا اے عزیزو اس کے یہی معنی ہیں کہ محلوں اور مقاموں کا نام و نشان نہ رہے گا۔ (سبحان اللہ! کیا عربی دانی ہے لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل) طاعون تو صرف صاحب خانہ کو لیتی ہے۔ مگر جس حادثہ کی اس وحی میں خبر دی گئی تھی اس کے معنی تو یہی ہیں نہ خانہ رہے گا نہ صاحبِ خانہ سو خدا کا فرمودہ پورا ہوا۔(۷۱۴)
دیکھا جناب کہ ایک ہی الہام سے طاعون مراد لی اور وہ بھی بصورت حصر اور قرآن کی تائید سے اور پھر اسی سے زلزلہ بھی۔
مغالطہ در مغالطہ:
اس الہام کو سناتے وقت تو اسے متعلقہ طاعون ظاہر کیا اور اس کے بعد اشتہار الوصیت میں بھی بڑے زور سے ''یہی'' کے لفظ سے طاعون کے بارے میں کہا مگر جب زلزلہ پر لگایا اور لوگوں نے اس پر اعتراض کیا کہ پہلے آپ اسے طاعون کے متعلق کہہ چکے ہیں تو جواب دیا کہ:
اسے طاعون کے متعلق لکھنا ایڈیٹر الحکم کی غلطی ہے اور اجتہادی غلطی انبیاء سے بھی ہو جاتی رہی ہے۔(۷۱۵)
کس قدر مغالطہ ہے ایڈیٹر الحکم کی کیا مجال کہ وہ '' حضرت مسیح موعود نبی اللہ'' کی زندگی میں ان کے پاس رہتے ہوئے از خود ان کے ایک گول مول الہام کو متعین کردے۔ اسے بھی چھوڑو بھلا اخبار الحکم کے الفاظ پر تو یہ عذر کردیا۔ مگر ہاتھی کے کانوں جتنے لمبے طویل طویل اشتہار ''الوصیت'' میں بھی ایڈیٹر الحکم نے اسے طاعون کے متعلق لکھا ہے؟ وہ تو خود مرزا صاحب کا اشتہار ہے۔ کہیے اس کی کیا تاویل ہے؟
------------------------------------
(۷۱۲) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء ص۹ والبدر جلد ۳ نمبر ۲۰،۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء ص۱۵
(۷۱۳) اشتھار مرزا مورخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۱۵، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۷۲ تا ۷۵، ج۱۰
(۷۱۴) مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۲۳، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۸، ج۱۰
(۷۱۵) براھین احمدیہ ص۱۵، ج۱۵ و روحانی ص۱۶۸، ج۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۴:
البشریٰ جلد ۲ ص ۹۹ پر الہام:
'' خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا الخ۔'' (۷۱۶)
گو ایک سابقہ مرید کی صحت پر لگایا ہے (۷۱۷) مگر تتمہ حقیقۃ الوحی کہا کہ:
'' مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی موت کے بارے میں یہ الہام تھا۔''(۷۱۸)
مثال نمبر ۵:
ایسا ہی مرزا جی کا الہام '' ۴۷ سال کی عمر انا اللہ'' اور اخبار الحکم ۱۰؍ دسمبر ۵ء میں لکھا کہ '' یہ الہام اس شخص کے متعلق ہے جس کا خط آیا ہے کہ میں نے ۴۷ سال یونہی گناہوں میں زندگی خراب کردی''(۷۱۹) مگر تتمہ حقیقۃ الوحی میں اسے بھی مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی موت پر چسپاں کردیا۔(۷۲۰)
اس قسم کے مغالطوں کی بیسیوں مثالیں الہامات مرزا میں موجود ہیں مگر بنظرِ اختصار اسی پر بس کرکے چند ایک دوسری قسم کے مرزا صاحب کے مغالطے درج کئے جاتے ہیں تاکہ صاحب انصاف لوگ ہر طور پر مرزا صاحب کے غیر صادق ہونے کو ملاحظہ فرمالیں۔
مثال نمبر ۶:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود حضرت مسیح ابن مریمi کو فرمایا ہے چونکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد اور مال کا نام چراغ بی بی تھا۔(۷۲۱) اس لیے آپ نے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کو یہ چال چلی کہ بعض ''اکابر صوفیہ'' کی کتابوں میں تصرف کرکے کہا کہ آنے والا مسیح صرف بروزی رنگ میں ہے نہ کہ حقیقی ۔ چنانچہ ایک شخص نے مرزا جی سے سوال کیا کہ '' صرف الفاظ عیسیٰ یا مسیح اگر احادیث میں ہوتا تو مثل کی گنجائش تھی لیکن ابن مریم سے اصل ہی کا آنا ثابت ہوتا ہے'' جواباً مرزا جی نے لکھا:
'' ہم بھی کہتے ہیں مثیل آیا، مگر بطور بروز، دیکھ تو اقتباس مقام کتاب جس میں لکھی ہیں یہ تمام رموز، روحانیت کمل گاہے بر ارباب ریاضت چناں تصرف میفر مائد کہ فاعل افعال شان میگردد وایں مرتبہ را صوفیا بروز میگوئیذ و بعضے براند کہ روح عیسیٰ در مہدی بروز کنند و نزول عبارت ازیں بروز است مطابق ایں حدیث لا مھدی الا عیسیٰ ۔ (۷۲۲)
مرزا جی مزید لکھتے ہیں:
'' کتاب اقتباس الانوار میں جو تصنیف شیخ محمد اکبر صابری ہے۔ جس کو صوفیوں میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے یہ عبارت لکھی ہے۔'' (۷۲۳)
تحریر مذکورہ میں مرزا صاحب نے '' حضرت شیخ محمد اکرم صابری'' کی مقدس وذی حرمت ہستی کا سکہ بٹھاتے ہوئے اپنی من گھڑت تاویل (آمد مسیح بصورت بروز) کی تائید میں ان کی کتاب کو پیش کیا ہے۔ حالانکہ کتاب اقتباس الانوار میں اس بروز وغیرہ کے عقیدے کو بغایت بودا لکھا ہے۔ چنانچہ عبارت ذیل ملاحظہ ہو:
'' وبعضے براند کہ روح عیسیٰ در مہدی بروز کنند و نزول عبارت ازیں بروز است مطابق حدیث لا مَھْدِیَّ الاَّ عِیْسیٰ وایں مقدمہ بغایت ضعیف است۔'' (۷۲۴)
آگے چل کر صفحہ ۷۲ پر فرماتے ہیں:
'' یک فرقہ برآں رفتہ اند کہ مہدی آخر الزماں عیسی ابن مریم است وایں روایت بغایت ضعیف است زیرا کہ اکثر احادیث صحیح و متواتر از حضرت رسالت پناہ در دو یافتہ کہ مہدی از بنی فاطمہ خواہد بود و عیسیٰ بن مریم باو اقتدا کردہ نماز خواہد گزار دو جمیع عارفین صاحب تمکین بریں متفق اند!۔''(۷۲۵)
حضرات! ملاحظہ ہو اس تحریر میں بالفاظ اصرح حضرت شیخ محمد اکرم صاحب صابری جن کے نام پر مرزا صاحب نے عوام کو مغالطہ دیا ہے اس قول کو مردود قرار دیتے ہیں اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے نزول کو احادیث صحیحہ و متواترہ سے مدلل و مبرہن بتا کر جمیع عارفان باتمکین کا متحدہ و متفقہ عقیدہ ظاہر فرماتے ہیں۔
بھائیو! یہ ہے دیانت اور ایمانداری مرزا صاحب مدعی نبوت و رسالت کی کہ دھاک تو بٹھاتے ہیں شیخ محمد اکرم صاحب کے نام کی اور اقوال وہ پیش کرتے ہیں جنہیں خود شیخ موصوف مردود کہہ چکے ہیں۔ قطع نظر اس مغالطہ مرزا کے شیخ موصوف کی عبارت سے واضح ہے کہ روایت لَا مَھْدِی الاعیسیٰ بغایت ضعیف ہے۔
احمدی دوستو! دیکھو تمہارے نبی کے مسلمہ بزرگ کی زبان سے ثابت ہوگیا ہے کہ مرزا صاحب مہدی و مسیح کو ایک بتاتے اور روایت لَا مھدی الاعیسیٰ کو صحیح ٹھہرانے میں جھوٹا ہے کہو تم اس '' اکابر از صوفیا متاخرین بودہ اند'' کے قول پر ایمان لاتے ہو یا ان کی بزرگی و للہیت کا انکار کرے مرزا صاحب کی تکذیب پر آمادہ ہو:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

--------------------------------
(۷۱۶) بدر جلد ۱ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۵؍ جون ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء ص۴ وتذکرہ ص۵۵۶
(۷۱۷) ہم قارئین کے سامنے پوری عبارت رکھتے ہیں تاکہ ناظرین فیصلہ خود کرلیں، تذکرۃ ص۵۵۶ میں بحوالہ اخبار، بدر، احد، الحکم ، مرزا کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ ہماری جماعت کے چار آدمیوں میں سے جو سخت بیمار ہوئے تھے اسی جگہ باغ میں ان میں سے ایک کے متعلق الہام ہوا۔ خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا۔ بے نیازی کے کام ہیں۔ اعجاز المسیح، یعنی اس کی موت تقریر مبرم کی طرح تھی گویا مبرم تھی مگر یہ معجزہ مسیح موعود ہے کہ اسی کو خدا نے اچھا کردیا، انتھی بلفظہٖ۔ ابو صہیب
(۷۱۸) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۷۱۹) بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳ وتذکرہ ص۵۶۲ و البشرٰی ص۱۰، ج۲
(۷۲۰) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۷۲۱) تاریخ احمدیت ص۶۷،ج۱
(۷۲۲) ایام الصلح ص۱۳۵ و روحانی ص۳۷۹، ج۱۴
(۷۲۳) ایضًا ص۱۳۸ و روحانی ص۳۸۳، ج۱۴
(۷۲۴) اقتباس الانوار ص۵۲
(۷۲۵) ایضًا ص۷۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۷:
مرزا صاحب نے تو ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی امرتسری سے پندرہ دن مباحثہ کرنے کے بعد یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میرے آسمانی عجائبات، روحانی معارف، قادیانی علم کلام سے ایک بھنگی بھی متاثر نہیں ہوا۔ آخری روز یہ پیشگوئی جڑی کا میرا حریف اور مد مقابل پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں گرے گا۔ ایسا نہ ہو تو مجھے لعنتی ٹھہرا کر پھانسی کے تختے پر لٹکا دینا وغیرہ۔(۷۲۶)
قدرت کے بھی عجیب کام ہیں کہ وہ سال خوردہ بڈھا جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا۔ ان پندرہ ماہ میں شکار موت تو درکنار معمولی معمولی امراض زکام وغیرہ سے بھی محفوظ و مامون رہا۔ جس سے قادیانی قصر نبوت میں تہلکہ مچ گیا۔ بڑے بڑے مقرب حواری جو آہنی میخوں اور چوبی شہیتروں کی مانند اس کے مامن و ملجا اور زینت و آرائش تھے، ڈگمگا اٹھے اور کئی ایک مریدان باصفا عیسائی ہوگئے۔ (۷۲۷)
تب مرزا صاحب نے یہ '' عذر گناہ بدتر از گناہ'' پیش کیا کہ وہ عبداللہ آتھم دل میں ڈر گیا ہے۔ چنانچہ میرے ملہم نے مجھے اس کی اطلاع دی ہے۔ اگر آتھم انکاری ہو تو حلف مؤکد بعذاب میعادی ایک سال اٹھاوے۔(۷۲۸)
مقصود اس سے مرزا جی کا یہ تھا کہ بصورت قسم کھانے عبداللہ آتھم کے اول تو پہلی رسوائی دور ہو جائے گی۔ دوئم آئندہ ایک سال کے لیے مہلت بڑھ جائے گی جس کے دوران میں اگر اتفاقاً مر گیا تو چاندی ہے ورنہ اور چال چلیں گے اور کہہ دیں کے رجوع بحق کی شرط الہام میں موجود ہے۔ سو عبداللہ آتھم نے قسم کھانے سے اپنا رجوع ثابت کردیا۔ کیونکہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے اور آتھم نے قسم کھا کر ترک عیسائیت کا ثبوت دیا ہے۔
فھو المطلوب
مگر ڈپٹی آتھم اپنے مذہب سے پورا ماہر، دوربین، نکتہ شناس تھا وہ بھلا ان چالوں میں کب آنے والا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ حضرت! میں ان جھانسوں میں آنے والا نہیں ہوں۔ کیا آپ کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا کہ اب ایک سال کی مہلت مانگتے ہو۔ باقی رہا قسم کھانے کا معاملہ۔ سو جبکہ میرے مذہب میں ممنوع ہے تو میں کیسے کھا سکتا ہوں۔
تب مرزا صاحب نے باوجود یہ جاننے کے واقعی آتھم کے مذہب میں قسم کھانا ناروا ہے۔ اپنے مریدوں اور عامہ اہل اسلام اور متبعین غیر ادیان کو یوں مغالطہ دیا کہ:
(ا) وہ ایک جھوٹا عذر کر رہے ہیں کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے۔ (۷۲۹)
(ب) یہ سب جھوٹے بہانے ہیں کہ قسم کھانا ممنوع ہے۔(۷۳۰)
آہ! کس قدر شوخی ہے کہ ایک صحیح بات سے انکار کرکے عوام کو دھوکہ میں ڈالا ہے۔
مرزائی دوستو! اگر اس تحریر کی بنا پر تم کسی مجلس مناظرہ یا پرائیویٹ گفتگو میں عبداللہ آتھم کے اس عذر ''ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے'' کو جھوٹا بہانہ کہہ اٹھو اور مخاطب علاوہ انجیل کے خود تمہارے مجدد مسیح زمان مرزائے قادیان کی کتاب کشتی نوح نکال کر تمہارے رو برو پیش کردے جس میں مرزا صاحب صاف اقراری ہیں کہ:
'' قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ۔'' (۷۳۱)
تو بتلاؤ اور ایمانداری سے بتلاؤ کہ اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی؟
---------------------------------------
(۷۲۶) جنگ مقدس ص۱۸۸ تا ۱۸۹ و روحانی ص۲۹۲، ج۶ وتذکرہ ص۲۲۶ و مجموعہ اشتھارات ص۴۳۵، ج۱
(۷۲۷) حاشیہ انور الاسلام ص۲۷ و روحانی ص۲۸ ، ج۹
(۷۲۸) اشتھار مرزا مورخہ ۹ ؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۱، ج۲
(۷۲۹) اشتھار مرزا مورخہ ۲۷ ؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا ص۹۳، ج۲ وروحانی ص۱۰۰، ج۹
(۷۳۰) تریاق القلوب ص۹۸ و روحانی ص۳۶۲، ج۵
(۷۳۱) کشتی نوح ص۲۷ و روحانی ص۲۹، ج۱۹
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۸:
مرزا صاحب ابتداء ایک مسلم الہام یافتہ کی حیثیت میں ظاہر ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے اس کے اوپر کے زینہ پر قدم رکھا یعنی اپنی وحی کو انبیاء کرام علیہ السلام کی وحی کی مانند قرار دیا۔ تب بقول مرزا صاحب بعض علماء نے اس قسم کی وحی کے نزول سے انکار کیا۔ جس کے جواب میں مرزا جی نے حضرت مجدد سرہندی رحمہ اللہ کی ایک تحریر اپنی تائید میں بایں الفاظ پیش کی:
'' امام ربانی اپنے مکتوبات میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات حضرت احدیت سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے مرتبہ سے اس کا مرتبہ قریب واقع ہوتا ہے۔''(۷۳۲)
حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ کی تحریر کے جن کے الفاظ غیر نبی محدث کو ہم نے نمایاں کرکے لکھا ہے ناظرین انہیں یاد رکھیں۔ اس کے بعد جب مرزا جی نے کھلم کھلا نبوت کا دعویٰ کیا تو انہی حضرت مجدد صاحب کی اسی تحریر کو یوں نقل کیا:
مجدد سر ہندی رحمہ اللہ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے وہ نبی کہلاتا ہے۔(۷۳۳)
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے۔ اس جگہ مرزا صاحب نے کیسے صریح الفاظ میں عوام کو مغالطہ دیا ہے کہ لفظ غیر نبی محدث کو اڑا کر نبی کا لفظ لکھ دیا وہ بھی بایں طرز کہ جن الفاظ کو حضرت مجدد رحمہ اللہ صاحب کی طرف منسوب کیا ہے ان پر خط کھینچ دیا ہے گو یہ اصل الفاظ حضرت موصوف کے ہیں۔ معاذ اللہ کتنی مجرمانہ جرأت اور بے باکانہ جسارت ہے کہ بے خبر لوگوں کو مغالطہ دینے کے لیے اور نبوتِ کاذبہ کو منوانے کے لیے مقبولانِ خدا کی تحریروں میں خیانت کی جاتی ہے آہ :
نہ پہنچا ہے نہ پہنچے گا تمہاری ستم کیشی کو
اگرچہ ہوچکے ہیں تم سے پہلے فتنہ گر لاکھوں

-----------------------------
(۷۳۲) براھین احمدیہ ص۵۴۶، ج۴ و روحانی ص۶۵۲،ج۱
(۷۳۳) حقیقت الوحی ص۳۹۰ و روحانی ص۴۰۶، ج۲۲ نوٹ: مرزا جی کی یہ ڈھٹائی اوردیدہ دلیری دیکھئے کہ اپنی نبوت کازبہ ثابت کرنے کے لیے مجدد الف ثانی کی عبارت نقل کی ہے اور اس میں ایک لفظ خود اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے حالانکہ حضرت مجدد الف ثانی کی جس عبارت کا حوالہ مرزا جی نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ اعلم ایھا الصدیق ان کلامہ سبحان مع البشر قدیکون شفاھا وذالک لافراد من الانبیاء وقد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثًا ۔ مکتوبات ص۹۹، ج۲ ملاحظہ کریں کہ حضرت کی عبارت 'محدث' کے لفظ کو نبی کے لفظ سے بدل دیا ہے۔ خود مرزا نے ازالہ اوہام ص۹۱۵ میں تحفہ بغداد ص۲۱ میں اور براہین احمدیہ ص۵۴۶ میں لفظ 'محدث' سے نقل کی ہے مگر جب ۱۹۰۱ء میں نبوت کا کھل کے دعوی کیا تو حقیق الوحی میں محدث کے لفظ کو نبی میں بدل دیا۔ محمد علی مرزائی لاہوری اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: جب ہم مجدد صاحب کے مکتوبات کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ نہیں پاتے کہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ پانے والا نبی کہلاتا ہے بلکہ وہاں لفظ محدث ہے ''النبوۃ فی الاسلام ص۲۴۸'' پھر آگے اس صریح خیانت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ در حقیقت مرزا نے یہاں لفظ نبی کو محدث ہی کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے اور اگر اس توجیہہ کو قبول نہ کیا جائے تو حضرت مسیح موعود پر یہ الزام عائد ہوگا کہ آپ نے تعوذ باللہ اپنی مطلب برآری کے لیے مجدد صاحب کی عبارت میں تحریف کی ہے، حوالہ ایضًا ، حالانکہ مرزا خود لفظ نبی کو اپنے کلام میں محدث کے معنی میں استعمال کرتے تو ایک بات بھی تھی حضرت کی طرف زبردستی لفظ نبی منسوب کرکے اسے محدث کے معنیٰ میں قرار دینا کونسی شریعت اور عقل کی رو سے جائز ہے؟ حیرت ہے ان لوگوں کی عقلوں پر جو مرزا کے کلام میں ایسی ایسی صریح خیانتیں دیکھتے ہیں اور پھر اسے نبی مسیح موعود' محدث' اور مجدد قرار دینے پر مصر ہیں۔ ابو صہیب
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۹:
صوفیاء عظام میں ایک بزرگ شیخ ابنِ عربی رحمہ اللہ گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ''فصوص الحکم'' میں ایک پیش گوئی کی ہے کہ:
'' بنی نوع انسان میں ایک آخری لڑکا ہوگا جس کے بعد نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے گا لوگ اس وقت بکثرت نکاح کریں گے مگر بوجہ مرض عقم کوئی اولاد نہ ہوگی۔ اس لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوگی جس اس سے پہلے نکلے گی اور وہ بعد پیدا ہوگا۔ اس کا سر اس لڑکی کے پاؤں کے ساتھ ملا ہوگا۔ وہ لڑکا ملک چین میں پید اہوگا۔ اس کی بولی بھی چینی ہوگی وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائے گا کوئی نہ مانے گا۔'' (۷۳۴)
اس پیشگوئی میں بعبارت النص مسطور ہے کہ وہ لڑکا چین میں پیدا ہوگا اور وہیں کی بولی بولتا ہوگا۔ ادھر مرزا صاحب نے حسب ''الہام خود'' ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے(۷۳۵)
اس کو اپنے پر چسپاں کرنے کی ٹھانی۔ حالانکہ ان کی پیدائش چین میں نہیں بلکہ قادیان (پنجاب) میں ہوئی۔ ایسا ہی نہ صرف مرزا صاحب بلکہ ان کا ملہم بشرطیکہ کوئی ہو چین کی زبان سے اتنا ہی نابلد تھا جتنا ایک گھاس خور ماس کے ذائقہ سے۔ اس لیے مرزا صاحب نے اپنی مایہ ناز کتاب حقیقۃ الوحی میں لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کو شیخ موصوف کی پیشگوئی میں تحریف کی کہ:
'' شیخ ابن عربی نے لکھا ہے کہ وہ چینی الاصل ہوگا۔''(۷۳۶)
صاحبانِ دیانت غور فرمائیں کہ شیخ موصوف تو لکھتے ہیں یَکُوْنُ مَوْلَدُہَ بِالصِّیْنِ اس کی ولادت سرزمین چین میں ہوگی ولغتہ لغۃ بَلَدِہٖ اس کی بولی اس شہر کی ہوگی۔ (۷۳۷) مگر مرزا صاحب کس دلیری سے ان کی عبارت میں تحریف بلکہ مکمل تبدیلی کرتے ہیں کہ '' ابن عربی نے لکھا ہے وہ چینی الاصل ہوگا واہ رے تیری مسیحائی! مطلب اس تحریف سے مرزا جی کا یہ تھا کہ اس پیشگوئی کو وسعت دی جائے۔ چنانچہ بعد تحریف کے اس کو اپنے وجود پر یوں لگایا ہے:
'' اس پیشگوئی سے مطلب یہ ہے کہ اس خاندان میں ترک کا خون ملا ہوگا۔ ہمارا خاندان جو اپنی شہرت کے لحاظ سے مغلیہ خاندان کہلاتا ہے اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔'' (۷۳۸)
اس پر سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ سخت ترین مکروہ اور فرعونی ازالہ میں لکھتے ہیں:
'' کوئی نرابے حیا نہ ہو تو اس کے لیے اس سے چارہ نہیں کہ میرے دعویٰ کو اسی طرح مان لے جیسا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانا ہے۔'' (۷۳۹)
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
---------------------------
(۷۳۴) تریاق القلوب ص۱۵۸ و روحانی ص۴۸۲، ج۱۵ مفہوماً
(۷۳۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۱ و بدر جلد ۳ نمبر۱۵ مورخہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۴ والبشرٰی ص۹۰، ج۲ وتذکرہ ص۵۰۸
(۷۳۶) حقیقت الوحی ص۲۰۱ و روحانی ص۲۰۹، ج۲۲
(۷۳۷) تریاق القلوب ص۱۵۸ و روحانی ص۴۸۲، ج۱۵ وفصوص الحکم فص شیشہ
(۷۳۸) حقیقت الوحی ص۲۰۱ و روحانی ص۲۰۹، ج۲۲
(۷۳۹) تذکرۃ الشھادتین ص۳۸ و روحانی ص۴۰، ج۲۰
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال نمبر ۱۰:
۱۸۸۶ء میں مرزا صاحب کی بیوی حاملہ تھی۔ تب آپ نے ۲۰؍ فروری کو بطور پیشگوئی اشتہار دیا کہ ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوگا جو گویا ایسا ہوگا جیسا خدا آسمانوں سے اتر آیا وغیرہ؟ (۷۴۰)
اس حمل سے تو لڑکی پیدا ہوئی۔(۷۴۱) مگر اس کے دوسرے حمل سے مؤرخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جسے مرزا صاحب نے مصلح موعود ظاہر کیا۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہ لڑکا اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں واپس بلا لیا گیا۔ (۷۴۲)
پھر کیا تھا مخالفین نے مرزا صاحب کو دھر رگڑا اور گرما گرم تحریرات سے ان کے سینہ مملوازکینہ کو خوب جلایا۔ جواباً مرزا صاحب نے بھی علاوہ ایک ایک کی دس دس سنانے کے یہ بھی گل کھلایا کہ:
''حضرت موسیٰ نے بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اجتہادی غلطی تھا۔'' (۷۴۳)
اس سے بھی بڑھ کر آپ نے اپنی نفسانی باد سموم سے گلستان رسالت کو جلانے کی یوں ناپاک کوشش کی کہ:
'' بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں۔'' (۷۴۴)
اس تحریر پُترتزویر کو مان کر کون دانا ہے جو سلسلہ انبیاء کرام کو بنظرِ عزت و تکریم دیکھے گا۔
اف قصر نبوت پر کس غضب کا بم مارا ہے کہ چار سو بنی کی خبر غلط نکلی معاذ اللہ تم معاذ اللہ۔ مگر کیا یہ صحیح ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! سو ہزار بار نہیں! مرزا صاحب نے اس جگہ دجل سے کام لے کر اس مقام کی بنا پر لوگوں کو مغالطہ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نبی خدا کے نبی نہ تھے بلکہ کافر بت پرست تھے جو مرزا صاحب کی طرح اپنے آپ کو نبی کہلاتے تھے چنانچہ ہم یہ عبارت بائیبل سے آگے چل کر نقل کریں گے۔ (ملاحظہ ہو ص۳۳)
مرزائی صاحبان نے اس صریح جھوٹ اور بدیہی مغالطہ کو صحیح بنانے کی حتی الامکان پوری کوشش کی ہے اس لیے ہم ان کی قدر کرنے کو ان کے جملہ عذرات آپ کے سامنے پیش کرکے ان کا جواب دیتے ہیں۔
ہم نے اخبار اہل حدیث مؤرخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۳۲ء میں مرزا صاحب کے خائن مغالطہ باز ہونے پر یہ قصہ بطور دلیل پیش کیا تھا۔ جس کے جواب میں مولوی اللہ دتا قادیانی مبلغ نے قلم اٹھایا چنانچہ انہوں نے جو کچھ لکھا وہ یہ ہے:
قادیانی مجیب کا پہلا عذر یہ ہے کہ:
'' بائیبل کے چار سو نبی بائیبلی محاورہ کے مطابق نبی تھے اور یہ بات عیسائیوں اور یہود پر حجت ہے (حضرت مرزا صاحب) کے بیان کا یہی مقصد ہے۔'' (الفضل ۲۰؍ نومبر ۳۲ء)(۷۴۵)
اس عبارت کا بظاہر یہی مفہوم ہے کہ مرزا صاحب انہیں خود تو نبی نہیں سمجھتے تھے البتہ بطور حجت ملزمہ کے یہود و نصاریٰ کا منہ بند کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ مرزا صاحب یقینا انہیں صادق نبی اللہ ظاہر کرتے تھے اسی لیے تو انہوں نے سبز اشتہار کی عبارت میں اپنی جھوٹی پیشگوئی کی نظیر میں ان کی غلط خبر کو پیش کیا ہے وہ بھی یوں کہ ان کے مقابلہ پر اپنے لیے ''عاجز'' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے۔ ناظرین کرام! آپ ورق الٹ کر اس مقام کی عبارت کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ مزید وضاحت کے لیے ہم مرزا صاحب کی دو ایک اور تحریریں بھی پیش کرتے ہیں جن سے ہر ایک منصف مزاج اور متدین شخص پر بخوبی عیاں ہو جائے گا کہ مرزا جی نے ان اشخاص کو صادق انبیاء کی شکل میں یہود و نصاریٰ نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے ملاحظہ ہو مرزا صاحب راقم ہیں:
(۱) مولوی محی الدین صاحب لکھوی اور مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے مرزا صاحب کو بہ تمسک اپنے الہامات کے ملحد و کافر وغیرہ لکھا تو ان کے جواب میں مرزا صاحب نے کہا:
کہ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر بلا توقف نکالا جاتا ہے اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: { وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ الا اذا تَمَنّٰی اَلقی الشیطان فی اُمْنِیَّتِہٖ الخ }(۱) اور ایسا ہی انجیل میں بھی لکھا ہے کہ شیطان اپنی شکل نوری فرشتوں کے ساتھ بدل(۲) کر بعض لوگوں کے پاس آجاتا ہے دیکھو خط دوم کو نتھیوں کے نام باب۱۱ آیت ۲۱۴ اور مجموعہ توریت میں سے سلاطین اول باب ۲۲ آیت ۱۹ میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا اس کا سبب یہ تھا کہ دراصل وہ الہام ایک ناپاک روح کی طرف سے تھا ان نبیوں نے دھوکا کھا کر زبانی سمجھ لیا تھا (گویا وہ نبی تو صادق تھے، مگر انہیں دھوکا لگا) ۔ (۷۴۶)
۱۔ یوں تو مرزا کا دعویٰ تھا کہ میرا ہر قول و فعل و حی الٰہی سے ہے مفہوم ص۷۱،۷۲ ریویو جلد ۲، مگر حالت یہ ہے کہ دیگر صدہا اغلاط تو درکنار خود قرآن پاک کی بیسیوں آیات غلط لکھیں۔ اسی جگہ دیکھیے ایک آیت میں دو غلطیاں پہلے تو لفظ مِنْ قَبْلِکَ ہضم ۔ پھر الاندارد۔ صحیح آیت یوں ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِّیٍّ اِلاَّ اِذٓ تَمَنّٰی الخ ۱۷۔پ ع ۔اس پر طرفہ یہ کہ اس کے دو سال بعد آئینہ کمالات لکھی جس کے صفحہ ۹۳ پر باوجود یہ ڈینگ مارنے کے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت، ہردم، ہرلحظہ، بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے۔
اسی کتاب کے ص۳۵۲ پر اسی آیت کو پھر غلط ہی لکھا۔ وہاں بھی یہ الفاظ نہ لکھے ۱۲ منہ۔
۲۔ زیر خط الفاظ انجیل میں نہیں ہیں ۱۲ منہ۔
(ب) '' جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے بائیبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی (۱) الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیشگوئی کی آخر وہ بڑی ذلت سے مارا گیا۔'' (۷۴۷)
۱۔ یہ بھی مرزا صاحب کا جھوٹ ہے بائیبل میں صاف مرقوم ہے کہ وہ الہام ایک روح یعنی فرشتہ کی طرف سے بدعا الٰہی تھا کہ شاہ اخی اب ذلت کی موت مرنے کو میدان میں نکلے ۱۲ منہ۔
ان تحریروں سے صاف عیاں ہے کہ مرزا صاحب ان چار سو اشخاص کو در حقیقت نبی اللہ جانتے اور مانتے تھے اور یہ بھی کہ مرزا جی ان کی مثال اہل اسلام کے سامنے پیش کر رہے ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ کے رو برو۔ پس مرزائی مولوی کا مغالطہ قابل افسوس ہے۔
----------------------------------------
(۸۴۰) مجموعہ اشتھارات ص۱۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۳۹ و روحانی ص۶۴۷، ج۵
(۷۴۱) تاریخ احمدیت ص۱۲۲، ج۲ و حیات طیبہ ص۸۸ و حیات احمد ص۱۷۵، ج۳
(۷۴۲) اشتھار مرزا مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات ص۱۶۳
(۷۴۳) ایضًا حاشیہ ص۱۶۷، ج۱
(۷۴۴) ایضًا ص۱۶۹، ج۱
(۷۴۵) الفضل مورخہ ۲۰؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۷۴۶) ازالہ اوہام ص۶۲۹ طبعہ اول ص۱۳۰۸ء ریاض ہند پریس امرتسر
(۷۴۷) ضرورۃ الامام ص۱۷ و روحانی ص۴۸۸، ج۱۳
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ناظرین کرام! چونکہ یہ اعتقاد سخت گندہ ہے کہ یوں کھلے بندوں انبیاء کرام کی ایک کثیر تعداد کو شیطانی پھندے میں پھنسا ہوا تسلیم کیا جائے وہ بھی اس رنگ میں کہ آخری وقت تک وہ اپنی کذب گوئی پر مصر بلکہ حسب بیان بائیبل لڑنے مرنے پر نظر آئیں اور یہ لڑائی بھی ایک صادق بنی کے ساتھ ہو جو رو در رو کہہ رہا ہے کہ یہ پیشگوئی جھوٹی ہے (جیسا کہ آگے چل کر ہم یہ تمام واقعہ نقل کریں گے) اس لیے مرزائی مجیب اس مقام پر فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ (۷۴۸) کا زندنہ نمونہ بن رہا ہے۔ اگر وہ ان کو نبی تسلیم کرتا ہے تو علم و دیانت پر چھری پھیرنے کے علاوہ اس کا ضمیر بھی اسے ملامت کرتا ہے اور اگر نبی نہیں مانتا تو مرزا صاحب کی نبوت جو ذریعہ معاش ہے ہاتھ سے چھوٹی جاتی ہے۔ بیچارہ کرے تو کیا کرے آخر بصد غور و فکر ان لوگوں کی راہ چلتا ہے جن کے حق میں وارد ہے:
وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ۔
ایک تیسری صورت نکالتا ہے کہ وہ اشخاص نہ نبی تھے نہ متنبی بلکہ:
'' وہ صرف محدث کے درجے پر تھے، ان کی وحی دخل شیطان سے پاک نہ تھی، بموجب آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ من رسول ولا نبی صرف انبیاء کی وحی دخل شیطان سے پاک کی جاتی ہے۔ (مفہوم الفضل ۲۰؍ نومبر ۳۲ء) (۷۴۹)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی مجیب اپنے دل میں سمجھ رہا ہے کہ میرے مضامین پڑھنے والے مرزائی ہی تو ہیں جو ایمان و اسلام کے علاوہ عدل و انصاف سے بھی مبرا ہیں۔ اس لیے جو چاہوں لکھوں۔ مرزا صاحب نے سچ فرمایا ہے کہ:
'' جب انسان حیا کو چھوڑ دیتا ہے تو جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے۔'' (۷۵۰)
مگر جناب ہم تو جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر چھوڑیں گے۔ سنیے صاحب! یہ اشخاص محدث بھی نہیں بنائے جاسکتے کیونکہ تمہارے نبی کے فرمان کے موحب محدث کی وحی بھی دخل شیطان سے پاک ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو تحریر ذیل :
'' محدث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے۔ رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتا ہے۔'' (۷۵۱)
اسی طرح ایک اور مقام پر خاص اسی آیت کی رو سے جو مرزائی مجیب نے صرف انبیاء کی وحی کے متعلق لکھی ہے حسب قرأت ابن عباس مرزا صاحب نے محدث کو بھی اسی میں داخل کیا ہے۔ (۷۵۲)لہٰذا مرزائی صاحب کا ان چار سو اشخاص کو محدثین میں شامل کرنا جھوٹ ہے، فریب ہے، بہتان ہے کیونکہ ان کی وحی غلطی سے پاک نہیں کی گئی۔ جیسا کہ بائیبل کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے اور خود ہمارے مخاطب نے اپنی کتاب تفہیمات ربانیہ میں تسلیم کیا ہے:
'' تورات سے ان نبیوں کا جو حال ثابت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اخیر تک اپنی بات پر ضد رہے۔'' (۷۵۳)
پھر اور سنیے مرزا صاحب کے نزدیک ''محدث ارشاد و ہدایت خلق اللہ کے لیے مامور ہوتا ہے۔'' (۷۵۴)بخلاف اس کے یہ چار سو صاحب مامور خدا وہادی خلق اللہ تو کیا۔ انتہائی گمراہی پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں چنانچہ آپ خود مانتے ہیں کہ وہ اپنی غلط پیشگوئیوں پر یوں اڑے بیٹھے تھے کہ جب ان کے رو برو ایک '' صادق نبی اللہ'' نے ان کی کذب گوئی عیاں کی تو:
'' ان میں سے ایک نے میکا یاہ نبی کی راست گوئی پر ایک تھپڑ بھی مار دیا۔''(۷۵۵)
حیرت ہے کہ باوجود اس کافرانہ جرأت و جسارت کے بھی انہیں مامور الٰہی محدث وغیرہ تسلیم کیا جاتا ہے:
ہوا تھا کبھی سر قلم قاصدوں کا
یہ تیرے زمانے میں دستور نکلا

آگے چل کر اور گل کھلایا ہے کہ :
'' بلعم بن باعور کی طرح ناتمام سالک تھے۔''
کہاں نبی اللہ۔ کہاں محدث اور کہاں ناتمام سالک جو بقول مرزا آیت ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ کے تحت داخل ہیں۔(۷۵۶)
اس ''کوڑھ پہ کھاج'' اور ملاحظہ ہو کر یہی صاحب اپنی کتاب تفہیمات ربانیہ میں یہ بھی لکھ گئے کہ :
' ' بائیبل کے ان چار سو نبیوں کی حیثیت معمولی کاہنوں کی حیثیت تھی۔'' (۷۵۷)
واہ رے تیری تہافت، اچھا صاحب اگر یہ محض معمولی کاہنوں کی حیثیت میں تھے تو آپ کے نبی نے ان کاہنوں کی کذب گوئی کو اپنی پیشگوئی پر بطور نظیر کیوں پیش کیا اور ان کے مقابلے پر اپنے لیے لفظ '' عاجز'' کیوں لکھا؟ کیا مرزا صاحب ان جیسے یا ان سے بھی گئے گزرے تھے؟
میرے پہلو سے کیا پالا ستم گر سے پڑا
مل گئی مرزا تجھے کفران نعمت کی سزا

مولوی صاحب آئیے آپ کے نبی کی تحریر سے تمہیں کاہنوں کی تصویر کے درشن کراؤں۔ ہوش و حواس کو قائم کرکے اپنے ایمان کے آئینہ میں ان کا عکس جمائیے کیوں کہ آخر بقول شمایہ آپ کے مسلمہ مقتدا کے ہم شکل ہیں ملاحظہ ہو مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' اللہ نے جو کاہنوں اور مجنونوں کی تردید کی ہے تو اسی واسطے کہ آخر ان کو بھی بعض باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔'' (۷۵۸)
معلوم ہوا کہ کاہن زمرہ مردودین میں داخل ہیں۔ مولوی صاحب آپ نے لکھا تھا کہ ''اہلحدیث'' اپنے دعویٰ یعنے اشخاص کے جھوٹے نبی ہونے کا ثبوت دے۔ لیجئے ہم نے بائیبل کے حوالہ سے پہلے پہلے خود آپ ہی کی تحریرات سے ثابت کردیا کیا کہتے ہو؟ اگر کچھ کسر ہے تو اور سنیے خود آپ کے قلم سے حق تعالیٰ نے لکھوا دیا ہے کہ وہ جھوٹے نبی تھے۔ ملاحظہ ہو آپ لکھتے ہیں:
'' حضرت (مرزا صاحب) نے بائیبل کے چار سو نبیوں والے قصہ کو متعدد کتب میں ذکر فرمایا ہے ضرورۃ الامام میں ان کے الہام کو شیطانی قرار دیا (ص۱۷) اور ازالہ اوہام میں ان کے جھوٹے ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔'' (۷۵۹)
کیا خوب:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

-----------------------------
(۷۴۸) پ۳ البقرہ آیت نمبر ۲۵۸
(۷۴۹) مفہوم اخبار ، الفضل ۲۰ ؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۷۵۰) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹، ج۱۹
(۷۵۱) توضیح مرام ص۱۸ و روحانی ص۶۰، ج۲
(۷۵۲) ازالہ اوہام ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۱، ج۳ و تفیسر مرزا ص۱۵۳، ج۶
(۷۵۳) تفہیمات ربانیہ ص۳۸۸
(۷۵۴) ضرورۃ الامام ص۲۴ و روحانی ص۴۹۴، ج۱۳ و مفہوم توضیح مرام ۱۸ روحانی ص۶۰، ج۲
(۷۵۵) تفہیمات ربانیہ ص۳۹۳، نوٹ: اللہ دتہ جالندھری کا سورہ الحج کی آیت سے انبیاء کے علاوہ کی وحی میں دخل شیطانی کے ہونے کا استدلال کرنا، مرزا کی تصریحات کے خلاف ہے، چنانچہ مرزا کہ جس طرح نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت (سورہ حج) میں پایا جاتا ہے، الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۲ء ص۶ بحوالہ تفسیر مرزا ص۱۶۳، ج۶
(۷۵۶) ضرورۃ الامام ص۱۳ و روحانی ص۴۸۴، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۳۷۴، ج۶
(۷۵۷) تفہیمات ربانیہ ص۳۹۳
(۷۵۸) الحکم جلد ۱۱ نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۷ء ص۸ و ملفوظات مرزا ص۳۴۸، ج۵
(۷۵۹) الفضل ۲۰؍ نومبر ۱۹۳۲ء
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
قطع نظر ان ہیرا پھیریوں کے جو مرزائی صاحب نے کی ہیں۔ ابھی یہ سوال باقی ہے کہ انہوں نے جو بلعم بن باعور کو ناتمام سالک لکھ کر زمرہ افاک واثیم میں داخل کیا ہے یہ کس بنا پر؟
مولوی صاحب! آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کے نبی نے اسے ہلاک شدہ لکھا ہے (ص۳ ضرورۃ الامام)(۷۶۰) اس لیے آپ نے بھی ان کی اندھی تقلید میں ٹھوکر کھائی ہے۔ اے جناب غلط قصہ جات کی بنا پر کسی ''لحب اللہ'' کو اخوان الشیطن میں داخل کرنا۔ علم و دیانت عقل و اخلاق کے منافی ہے۔ اتقوا اللّٰہ
ناظرین کرام! مرزائی تحریر کے بخئے ادھیڑنے کے بعد اب ہم بائیبل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ چار صد شخص کافر محب الشیاطین تھے بحولہ وقوتہٖ:
'' اور شاہ یہوداہ کی سلطنت کے اٹھتیسویں سال اخی اب بنی اسرائیل کا بادشاہ ہوا (اس نے) خداوند کے حضور بدکاریاں ۱۶،۳۰ کیں۔ اس نے یہ سمجھ کر کہ یربعام کے گناہوں کی راہ چلنا چھوٹی (حقیر) بات ہے۔ صیدانیوں کے بادشاہ استبعل کی بیٹی ایزبل سے بیاہ کیا اور جاکے بعل (بت) کو پوجا ۱۶،۳۱ اور بعل کے گھرجو اس نے بنایا تھا بعل کے لیے ایک مذبح تیار کیا ۱۶،۳۲، اور ایک گھنا باغ لگایا (ناظرین گھنے باغ کو خوب یاد رکھیں ۱۶،۳۲) اس سے آگے جناب ایلیاہ '' بنی اللہ'' اور شاہ اخی اب کا مکالمہ درج ہے ایلیاہ کا قحط کی پیشگوئی کرکے چلا جانا مرقوم ہے اور ایسا ہوا کہ بہت دنوں کے بعد خداوند کا کلام ایلیاہ پر نازل ہوا کہ جا اور اپنے تئیں اخی اب کو دکھا میں زمین پر برساؤں گا ۱۸،۱ ، سو ایلیاہ روانہ ہوا ۱۸،۲، اس وقت اخی اب نے عبدیاہ کو جو اس گھر کا دیوان تھا طلب کیا ۱۸،۳، اور عبدیاہ خداوند سے بہت ڈرتا تھا کیونکہ جس وقت (اخی اب کی کافرہ بیوی) ایزبل نے خداوند کے (صادق) نبیوں کو قتل کیا تو عبدیاہ نے سو نبیوں کو چھپا دیا اور انہیں روٹی پانی سے پالا ۱۸،۵۰۳(اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ اخی اب اور اس کی بیوی کے سامنے جتنے صادق نبی تھے وہ سب کے سب قتل کئے گئے بجز ایک سو کے جن کو عبدیاہ نے چھپا دیا ہے۔ ناقل) اور ایسا ہوا کہ جب (ایلیاہ) اخی اب (کے سامنے آیا تو اس) نے ایلیاہ کو کہا کیا تو ہی اسرائیل کا ایذا دینے والا ہے ۱۸،۱۷ وہ (ایلیاہ) بولا نہیں بلکہ تو اور تیرے باپ کاگھرانا ہے کہ تم نے خداوند کے حکموں کو ترک اور بعلیم کے پیرو ہوئے ۱۸،۱۸ اب تو لوگ بھیج اور سارے اسرائیل کو اور بعل کے ساڑھے چار سو نبیوں کو اور گھنے باغوں کے چار سو نبیوں کو جو ایزبل کے دستر خوان پر کھاتے ہیں کوہ کر مل پر میرے پاس اکٹھا کر ۱۸،۱۹ (تحریر ہذا صاف مظہر ہے کہ بعل کے ۴۵۰ نبی اور گھنے باغوں کے چار سو نبی جملہ ۸۵۰ کافر ہی تھے کیونکہ ایزبل صادقوں کی دشمن اور قاتلہ تھی اور یہ بدبخت اس کے دستر خوان کی مکھیاں تھے۔ ناقل) چنانچہ اخی اب نے سارے بنی اسرائیل کو طلب کیا اور نبیوں کو کوہ کرمل پر اکٹھا کیا ۱۸،۲۰، اور ایلیاہ نے لوگوں کے درمیان آکر کہا کہ تم کب تک دو فکروں میں لٹکے رہو گے۔ اگر خداوند خدا ہے تو اس کے پیرو رہو۔ اگر بعل ہے تو اس کے پیرو ہو۔ مگر لوگوں نے اس کے جواب میں ایک بات نہ کہی ۱۸،۲۲ تب ایلیاہ نے کہا کہ خداوند کے نبیوں میں سے میں ہاں میں ہی اکیلا باقی ہوں (یہ بیان کھلے طور پر شاہد ہے کہ اس وقت سوائے ایلیاہ جملہ ۸۵۰ نبی خدا کے نبی نہ تھے۔ ناقل) پر بعل کے نبی کہلانے والے چار سو پچاس ہیں ۱۸،۲۲ سو وہ ہم کو دو بیل دیں اور اپنے لیے (ان میں سے) ایک پسند کرلیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کریں اور لکڑیوں پر دھریں اور آگ نہ دیں اور میں دوسرا بیل لوں گا اور اسے لکڑیوں پر دھروں گا اور آگ نہ دوں گا ۱۸،۳ تب تم اپنے خداؤں کا نام لو اور میں یہوداہ کا نام لوں گا۔ (ان الفاظ سے ثابت ہے کہ جناب ایلیاہ کے مقابلہ پر بعل کے چار سو پچاس نبی آئے تھے دوسرے ۴۰۰ نبی جو اس کافرہ ایزبل کے دست نگر اور اس کے ایوانِ نعمت کے چوہے تھے وہ مقابلہ پر نہیں بلائے گئے (اس سے آگے مذکور ہے کہ ۴۵۰ اشخاص بعل کے نبی بوجہ نہ دکھا سکنے معجزہ کے بذلت دخواری جناب ایلیاہ کے ہاتھوں قتل کئے گئے آگے ملاحظہ ہو) پھر اخی اب نے سب کچھ ایزبل سے آکر کہا کہ ایلیاہ نے یوں یوں کیا اور کیونکر اس نے (بعل کے) سارے نبیوں کو تہ تیغ کیا ۱۹،۱ سو ایزبل نے قاصد کی معرفت ایلیاہ کو کہلا بھیجا کہ اگر میں کل کے دن اسی وقت تجھے بھی ان میں کا ایک (یعنی مقتول) نہ کردوں تو معبود مجھے ایسا ایسا کریں ۱۹، ۲ یہ سن کر ایلیاہ وہاں سے جان بچا کر بھاگ گیا (اور) ایک غار میں گیا اور وہیں رہا اور دیکھو کہ خداوند کا کلام اس پر نازل ہوا اور اس نے کہا اے ایلیاہ تو کیا کرتا ہے ۱۹،۹ وہ بولا خداوند بنی اسرائیل نے تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور میں ہاں میں ہی اکیلا جیتا بچا۔ سو وہ میری جان کے خواباں ہیں کہ اسے لیں ۱۹،۱۰ (اس کے آگے بنی اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی لمبی کہانی ہے۔ اس ضمن میں جناب ایلیاہ کی پیشگوئی ہے کہ اخی اب یوں مرے گا وغیرہ آگے باب ۲۲ سے ملاحظہ ہو) بعد اس کے تین برس تک اسرائیل اور ارام کے درمیان لڑائی نہ ہوئی اور تیسرے سال ایسا ہوا کہ یہوداہ کا بادشاہ یہوسفط شاہ اسرائیل کے یہاں اتر آیا ۲۲،۲۰۱ تب شاہ اسرائیل نے اپنے ملازموں سے کہا تم جانتے ہو کہ رات جلعاد ہمارا ہے کیا ہم چپکے رہیں اور شاہ ارام کے ہاتھ سے پھر نہ لے لیں؟ ۲۲،۳ یہوسفط نے شاہ سے کہا آج دن خداوند کی مرضی الہام سے دریافت کیجئے ۲۲،۵ تب شاہ اسرائیل نے اس روز نبیوں کو جو قریب چار سو کے تھے اکٹھا کیا (ناظرین!) یہ چار سو نبی شاہ اسرائیل کے خوشامدی وہی پرانے پاپی گھنے باغ والے بت پرست ایزبل کے مصاحب اس کے خوانِ طعام کی ہڈیاں چچوڑنے والے انسان نما حیوان ہیں۔ ناقل) اور ان سے پوچھا میں رامات جلعاد پر بڑھنے چڑھوں یا اس سے باز رہوں؟ وہ بولے چڑھ جا کہ خداوند اسے بادشاہ کے قبضے میں کردے گا ۲۲،۶ پھر یہوسفط بولا کہ ان (بناوٹی نبیوں) کے سوا خداوند کا کوئی نبی ہے کہ ہم اس سے پوچھیں ۲۲،۷ تب شاہ اسرائیل نے یہوسفط سے کہا کہ ایک شخص املہ کا بیٹا میکایاہ تو ہے (یہ نبی یا تو ان سو نبیوں سے ہے جن کو قتل ہونے سے بچا کر عبدیاہ نے چھپا دیا تھا۔ یا پھر جناب ایلیاہ کے چلے جانے کے بعد خلعت نبوت سے مقلع کیا گیا ہوگا) اس (میکایاہ) سے ہم خداوند کی مشورت پوچھ سکتے ہیں لیکن میں اس سے دشمنی رکھتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے حق میں بدی کی پیش خبری کرتا ہے۔ تب یہوسفط بولا بادشاہ ایسا نہ فرمائیے ۲۲،۸ تب شاہ اسرائیل نے ایک خواجہ سرا کو حکم کیا کہ املہ کے بیٹے میکایاہ کو لا ۲۲،۱۰ سو وہ شاہ پاس آیا ۲۲،۱۵ پھر اس نے کہا کہ اس لیے کہ تم خداوند کے سخن کو سنو۔ میں نے خداوند کو کرسی پر بیٹھے دیکھا اور آسمانی لشکر آس پاس اس کے داہنے اور اس کے بائیں ہاتھ کھڑا تھا ۲۲،۱۹ خداوند نے فرمایا کہ اخی اب کو کون ترغیب دے گا کہ وہ چڑھ جائے اور رامات جلعاد کے سامنے کھیت آئے تب ایک اس طرح سے بولا اور ایک اُس طرح سے ۲۲،۲۰ ایک روح اس وقت نکل کے خداوند کے سامنے آکھڑی ہوئی اور بولی کہ میں اسے ترغیب دوں گی ۲۲،۲۱ پھر خداوند نے فرمایا کہ کس طرح سے وہ بولی میں روانہ ہوں گی اور جھوٹی روح بن کے اس کے سارے نبیوں کے منہ میں پڑوں گی وہ بولا تو اسے ترغیب دے گی اور غالب بھی ہوگی۔ روانہ ہو اور ایسا کر ۲۲، ۲۳ یہ بیان کرکے جناب میکایاہ نے فرمایا) سو دیکھ خداوند نے تیرے ان سب نبیوں کے منہ میں جھوٹی روح ڈالی ہے اور (مجھے) خداوند ہی نے تیری بابت بری خبر دی ہے ۲۲۔۲۳ ،الخ (۷۶۱)
معزز قارئین کرام! بائیبل کی اس تمام عبارت سے ظاہر باہر ثابت و عیاں ہے کہ وہ چار سو اشخاص جن کو مرزا قادیانی نے خدا کے نبی قرار دے کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ جھوٹے کافر بت پرست تھے۔ خاص کر آخری سطور میں اس آسمانی روح یعنی فرشتے کا بیان جس نے ان نبیوں کو فتح کی خبر دی اور جناب میکایاہ کے یہ الفاظ:
'' میں جھوٹی روح بن کے اس کے نبیوں کے منہ پڑوں گی'' خداوند نے تیرے ان نبیوں کے منہ میں جھوٹی روح ڈالی ہے۔
تو اور بھی وضاحت کر رہے ہیں کہ وہ نبی خدا کے رسول نہ تھے بلکہ شاہ اخی اب کے مزعومہ نبی تھے وھذ اھو المطلوب ۔(۷۶۲)
----------------------------------------------------------------------
(۷۶۰) ضرورۃ الامام ص۳ و روحانی ص۴۷۳، ج۱۳
(۷۶۱) ملخصًا ، سلاطین باب ۱۶ کی آیت نمبر ۲۹ سے لے کر باب ۲۲ کی آیت نمبر ۲۳ تک مندرجہ مجموعہ بائبل ، عہد نامہ قدیم ص۳۴۴ تا ۳۵۲، طبعہ بائبل سوسائٹی لاہور ۱۸۹۶ء
(۷۶۲) اس پر مزید بحث عصاء موسٰی ص۲۳۹ طبعہ ... مؤلفہ مولانا الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ میں دیکھئے
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر نویں دلیل

توہین انبیاء کرام علیہم السلام
مرزا صاحب نے جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کی ۔ خاص کر حضرت مسیح علیہ السلام کو تو کھلے الفاظ میں گالیاں دی ہیں۔ مسیح علیہ السلام کو کھلی کھلی گالیاں دینے کا سبب یہ تھا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ مسیح ہونے کا تھا اور حضرت ان کے دعویٰ میں روک تھے۔ اس لیے حسبِ قاعدۂ ذیل ضروری تھا کہ حضرت مسیح کی توہین کرتے۔
'' جاہلوں کا ہمیشہ سے یہی اصول ہوتا ہے کہ وہ اپنی بزرگی کی پٹڑی جمنا اسی میں دیکھتے ہیں کہ بزرگوں کی خواہ مخواہ تحقیر کریں۔''(۷۶۳)
مگر یاد رکھو:
'' وہ (شخص) بڑا ہی خبیث اور ملعون اور بدذات ہے جو خدا کے برگزیدہ و مقدس لوگوں کو گالیاں دیتا ہے۔'' (۷۶۴)
'' اسلام میں کسی نبی کی بھی تحقیر کرنا کفر ہے اور سب پر ایمان لانا فرض ہے۔'' (۷۶۵)
مرزا صاحب کی گالیاں بحق مسیح علیہ السلام
۱۔ '' حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا بد زبانی میں اس قدر بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا۔ اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں۔'' (۷۶۶)
۲۔ '' انجیل میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے یسوع کو نیک کہا تو جناب نے جواب دیا۔ تو نے مجھے کیوں نہیں کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔'' (۷۶۷)
مرزا صاحب کو تسلیم ہے کہ نیک نہ کہلانے والا حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھا:
'' حضرت مسیح تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک کہے۔''(۷۶۸)
مگر جب مرزا صاحب پر غیظ و غضب کا زور ہوا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین کا بھوت سوار ہوا تو آپ نے لکھا:
'' یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چال چلن۔'' (۷۶۹)
۳۔ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ آپ نے ایک بدکار عورت سے عطر ملوایا (بہ روایت مرزا)۔ (۷۷۰)
مرزا صاحب مانتے ہیں کہ عطر ملوانے والا یسوع در حقیقت حضرت مسیح علیہ السلام تھا اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس فعل پر اعتراض کرنے والا شیطان طینت بدخصلت انسان ہے۔ (۷۷۱)جیسا کہ ہم باب کذبات مرزا صاحب پاکٹ بک ہذا پر آئینہ کمالات کے حوالہ سے لکھ آئے ہیں۔ مگر جب مرزا صاحب کو حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین مطلوب ہوئی تو اسی فعل پر یوں اعتراض کیا کہ:
'' آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چال چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔ '' (۷۷۲)
۴۔ مرزا صاحب باوجود یہ ماننے کے کہ '' شراب ام الخبائث ہے۔'' (۷۷۳)پھر بھی لکھتے ہیں کہ:
(۱) عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ یا پرانی عادت کی وجہ سے مگر قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا۔(۷۷۴)
(ب) '' میرے نزدیک مسیح شراب سے پرہیز رکھنے والا نہیں تھا۔'' (۷۷۵)
(ج) کسی نے مرزا صاحب کو مرض ذیابیطس کے علاج کے لیے افیون کھانے کا مشورہ دیا تو مرزا نے کہا:
'' میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کرکے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا دوسرا افیونی۔''(۷۷۶)
مرزائی عذر:
مرزا صاحب نے انجیل کے حوالہ سے ایسا لکھا ہے۔(۷۷۷)
الجواب:
گو انجیل کے حوالہ سے ہی کہا ہو۔ مگر خود ان کا اپنا مذہب بھی اس بارے میں یہی ہے۔ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے۔
۵۔ مرزا صاحب یہ مانتے ہوئے کہ انبیاء کا خاندان ہمیشہ پاک ہوتا ہے۔(۷۷۸) پھر بھی حضرت مسیح علیہ السلام پر بدیں دریدہ دہنی زبان طعن کھولتے ہیں۔
(ا) '' آپ (یسوع) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کیسی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔(۷۷۹)
اعتراض:
یہ سب اعتراضات انا جبل کے بیانات کی بنا پر ہیں اور یہاں یسوع کا ذکر ہے نہ کہ مسیح کا۔
الجواب:
(۱) جن نبیوں کا اس وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا ہے وہ دو نبی میں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔(۷۸۰)
(۲) '' ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں ایک بندہ عاجز مگر نبی مانتا ہوں۔'' (۷۸۱)
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام یسوع اور جیزس یایوز آسف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ (۷۸۲)
(۴) یہ اعتقاد رکھنا پڑتا ہے کہ جیسا کہ ایک بندہ خدا کا عیسیٰ نام جس کوعبرانی میں یسوع کہتے ہیں تیس برس تک موسیٰ رسول اللہ کی شریعت کی پیروی کرکے خدا کا مقرب بنا۔(۷۸۳)
-------------------------------------------------------------------------------------------------
(۷۶۳) ست بچن ص۸ و روحانی ص۱۲۰، ج۱۰
(۷۶۴) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء و ملفوظات مرزا ص۶۶۵، ج۵ نوٹ: مولانا معمار رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا جی کی عبارت کا مفہوم بیان کیا ہے جبکہ مرزا کے الفاظ ہیں کہ اور مجھ پر خواہ مخواہ جھوٹ اور تہمت سے الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ میں پیغمبروں کو گالیاں دیتا ہوں مگر کیسا ہی خبیث اور ملعون ہے وہ شخص جو کہ برگزیدہ بندوں کا انکار کرے یا ان کی کسی طرح سے اپنے قول سے یا فعل سے توہین کرے۔ انتھی بلفظہٖ ۔ ابو صہیب
(۷۶۵) ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۸ و روحانی ص۳۹۰، ج۲۳
(۷۶۶) چشمہ مسیحی ص۱۱ و روحانی ص۳۴۶، ج۲۰
(۷۶۷) انجیل مرقس باب ۱۰ آیت: ۱۸
(۷۶۸) چشمہ مسیحی ص۵۷ و روحانی ص۳۷۵،ج۲۰
(۷۶۹) حاشیہ ست بچن ص۱۷۲ و روحانی ص۲۹۶، ج۱۰
(۷۷۰) آئینہ کمالات ص۵۹۷
(۷۷۱) ایضًا ص۵۹۷
(۷۷۲) حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۷ و روحانی ص۳۹۱، ج۱۱
(۷۷۳) نصرۃ الحق ص۲۶ و روحانی ص۳۶، ج۲۱
(۷۷۴) حاشیہ کشتی نوح ص۶۵ و روحانی ص۷۱، ج۱۹
(۷۷۵) ریویو ص۱۲۴،ج۱ ، ۱۹۰۲ء
(۷۷۶) نسیم دعوت ص۶۹ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۹
(۷۷۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۵۶ طبعہ ۱۹۴۵
(۷۷۸) اعجاز احمدی ص۷۱ و روحانی ص۱۸۳ تا ۱۸۴، ج۱۹
(۷۷۹) حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۷ و روحانی ص۲۹۱، ج۱۱
(۷۸۰) توضیح مرام ص۳ و روحانی ص۵۲، ج۲ نوٹ: حضرت یوحنا علیہ السلام کا نام ادریس نہیں بلکہ الیاس علیہ السلام تھا مرزا قرآن و حدیث کی طرح تاریخ انبیاء سے بھی نابلد محض تھے۔ ابو صہیب
(۷۸۱) مکتوب مرزا بنام ڈوئی مورخہ سمتبر ۱۹۰۲ء مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ستمبر ۱۹۰۲ء ص۳۴۴ و تاریخ احمدیت ص۲۴۹، ج۳ و مجدد اعظم ص۸۶۸، ج۲
(۷۸۲) راز حقیقت ص۱۹ و روحانی ص۱۷۱، ج۱۴
(۷۸۳) چشمہ مسیحی ص۶۷ و روحانی ص۳۸۱ و تفسیر مرزا ص۲۵۸، ج۱ نوٹ: مرزائی کہا کرتے ہیں کہ خاتم النبیین کا معنیٰ افضل و مہر ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ایک امتی شخص مقام نبوت حاصل کرسکتا ہے، دیکھئے حقیقت النبوۃ ص۱۸۵ تا ۱۸۸۔ جبکہ چشمہ مسیحی کی مذکورہ عبارت صاف دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مقام نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی اور اتباع کامل سے پایا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسا وصف ہے جس میں کوئی دوسرا نبی شریک وسہیم نہیں ہے۔ (دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک میں ختم نبوت پر دوسری حدیث)
اگر یہی خاتم النبیین کی تفسیر ہے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص نہ رہی بلکہ بقول مرزا اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام شریک و سہیم ہوئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تخصیص کا دعویٰ فرما رہے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قادیانیوں کی تفسیر اور معنیٰ غلط اور باطل ہے۔ ابو صہیب
 
Top