• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یسوع مسیح اور عیسیٰ ایک ہی ہستی کا نام ہے۔
علاوہ ازیں مرزا صاحب مانتے ہیں کہ جس یسوع کی دادیوں نانیوں پر اعتراض ہے وہ حضرت مسیح علیہ السلام میں اور ساتھ ہی یہ بھی مانتے ہیں کہ اعتراض واقعی وزنی ہے۔ ایسا وزنی کہ مجھ کو بھی اس کا جواب نہیں آتا چنانچہ عیسائیوں کے جواب میں لکھتے ہیں:
'' ہاں مسیح کی دادیوں اور نانیوں کی نسبت جو اعتراض ہے اس کا جواب بھی کبھی آپ نے سوچا ہوگا۔ ہم تو سوچ کر تھک گئے اب تک کوئی عمدہ جواب خیال میں نہیں آیا۔ کیا ہی خوب خدا سے جس کی دادیاں نانیاں اس کمال کی ہیں۔'' (۷۸۴)
۶۔ مرزا صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام کا مقابلہ کرتے ہوئے ہاں یسوع کا نام لے کر نہیں بلکہ ''حضرت مسیح'' ( علیہ السلام ) کا نام لے کر مقابلہ کرتے ہوئے لکھا کہ:
'' مسیح کا چال چلن کیا تھا ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر خودبین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔'' (ص۲۱ تا ص۲۴ مکتوباتِ احمدیہ جلد ۳) (۷۸۵)
۷۔ جناب یسوع علیہ السلام کے معجزات پر بھی یہود نے اعتراضات کئے ہیں۔ مرزا صاحب اقراری ہیں کہ یسوع در حقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
'' عیسائیوں کو کس بات پر ناز ہے۔ اگر ان کا خدا ہے تو وہی ہے جو مدت ہوئی مر گیا اور سری نگر محلہ خان یار کشمیر میں اس کی قبر سے اور اگر اس کے معجزات میں تو دوسرے نبیوں سے بڑھ کر نہیں بلکہ الیاس نبی کے معجزات اس سے بہت زیادہ ہیں اور بموجب بیان یہودیوں کے اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا محض فریب اور مکر تھا کیا دنیا کی بادشاہت حضرت عیسیٰ کو پیشگوئی کے موافق مل گئی۔'' (۷۸۶)
اس بیان سے ظاہر ہے کہ عیسائی جسے خدا سمجھتے جس کے معجزات یہود، فریب اور مکر کے الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ بہت خوب۔ ناظرین اسے ملحوظ رکھ کر یہود ثانی کا بیان سنیں۔
'' آپ (یسوع) کے ہاتھ میں سوا مکرو فریب کے کچھ نہیں تھا۔'' (۷۸۷)
۸۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بعض پیشگوئیاں منسوب کی گئی ہیں۔ جو بظاہر الفاظ صحیح نہیں نکلیں۔ ہمارے نزدیک تو اناجیل غیر معتبر ہیں اور مرزا صاحب بھی یہی مانتے ہیں۔(۱) مگر چونکہ خود مرزا صاحب کی اکثر پیشگوئیاں جھوٹی نکلی ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی کالک دھونے کی بجائے حضرات انبیاء کرام کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی ناپاک کوشش کی اور یہود نا مسعود کی کتب کی بنا پر عیسائیوں کے سامنے ہی نہیں خود اہل اسلام کے مقابلہ پر بھی انجیلی غلط پیشگوئیاں کو پیش کیا چنانچہ لکھا ہے:
۱۔ مرزا صاحب خود لکھتے ہیں کہ '' یہ چاروں انجیلیں ایک زرہ قابل اعتبار نہیں۔'' (۷۸۸)
(ا) '' جو اس فاضل یہودی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں پر اعتراض کئے ہیں وہ نہایت سخت اعتراض ہیں۔ بلکہ وہ ایسے اعتراض ہیں کہ ان کا تو ہمیں بھی جواب نہیں آتا۔ اگر مولوی ثناء اللہ یا مولوی محمد حسین یا کوئی پادری صاحبوں سے ان اعتراضات کا جواب دے سکے تو ہم ایک سو روپیہ نقد بطور انعام کے اس کے حوالے کریں گے۔ خدا کہلا کر پیشگوئیاں کا یہ حال ہے اس سے تو ہمیں بھی تعجب ہے ایسی پیشگوئیوں پر توفسخ بھی جاری نہیں ہو سکتا نا یہ خیال کیا جائے کہ وہ منسوخ ہوگئیں ہاں وعید کی پیشگوئیاں جیسا کہ آتھم کی پیشگوئی یا احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی، ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کی قرآن اور توریت کی رو سے تاخیر بھی ہوسکتی ہے اور ان کا التوا ان کے کذب کو مستلزم نہیں۔ (۷۸۹)
(ب) یہود تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں بغیر اس کے کہ کہہ دیں کہ ضرور عیسیٰ نبی ہے کیونکہ قرآن نے اس کو نبی قرار دیا ہے۔ (۷۹۰)
(ج) ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشگوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔ (۷۹۱)
----------------------------------------------------------------
(۷۸۴) مکتوبات احمدیہ ص۲۱، ۲۴، ج۳
(۷۸۵) نور القرآن ص۱۲ حصہ دوم و روحانی ص۳۸۷، ج۹
(۷۸۶) چشمہ مسیحی ص۹ تا ۱۰ و روحانی ص۳۴۴، ج۲۰
(۷۸۹) اعجاز احمدی ص۵ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۹
(۷۹۰) ایضًا ص۱۳ و روحانی ص۱۲۰، ج۱۹
(۷۹۱) ایضًا ص۱۴ و روحانی ص۱۲۱، ج۱۹
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
برادران! دیکھئے کس یقینی انداز میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں کو جھوٹا قرار دیا ہے حالانکہ یہی مرزا صاحب انہی مسیح علیہ السلام کے متعلق لکھ آئے ہیں کہ:
'' قرآن شریف میں ہے بلکہ توریت کے بعض صحیفوں میں بھی ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی (یہ جھوٹی ہے ناقل) بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے اور ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں۔'' (۷۹۲)
۹۔ مردمی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ (۷۹۳)
۱۰۔ خدا کے نبی توحید سکھانے آتے ہیں اب اگر نادان لوگ انہیں خدا بنا لیں تو اس میں انبیاء کا کوئی قصور نہیں۔ اس بنا پر نبیوں کو مورد طعن بنانے والا بد دیانت انسان کہلائے گا مگر افسوس کہ مرزا صاحب اس خصوص میں بھی پیش پیش ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
'' ایک دفعہ حضرت عیسیٰ زمین پر آئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ کئی کروڑ مشرک دنیا میں ہوگئے۔ دوبارہ آکر وہ کیا بنائیں گے کہ لوگ ان کے آنے کے خواہشمند ہیں۔'' (۷۹۴)
معاذ اللہ۔ استغفر اللہ۔ کیسا صریح توہین آمیز بہتان ہے۔
ناظرین! یہ اقوال صرف بطور نمونہ سمجھیں۔ ورنہ اس قسم کے بیسیوں حوالے ہیں۔ جن میں مرزا جی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین کی ہے۔
مرزائی عذر:
یہ تحریرات جوابی طور پر لکھی گئی ہیں۔ (۷۹۵)
الجواب:
'' مسلمانوں سے یہ ہرگز ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔'' (۷۹۶)
مرزائی عذر:
مرزا صاحب نے یسوع کو برا کہا ہے نہ کہ مسیح علیہ السلام کو۔ (۷۹۷)
الجواب:
یہ بھی غلط عذر ہے کیونکہ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ یسوع اور مسیح دونوں ایک ہی ہیں پھر لطف یہ کہ مرزا صاحب کی اکثر تحریریں ہم نقل کر آئے ہیں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے ہیں۔ ماسوا اس کے اگر مان بھی لیا جائے کہ بعض جگہ اپنی کتب میں مرزا صاحب نے عیسائیوں کے کسی فرضی یسوع کو برا بھلا کہا ہے۔ تو یہ بھی خود مرزا صاحب کے نزدیک ایک گندہ طریقہ ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
(ا) اس کتاب (براہین احمدیہ) میں کوئی ایسا لفظ نہیں کہ جس میں کسی بزرگ یا پیشوا کسی فرقے کی کسرِ شان لازم آوے۔ خود تم ایسے الفاظ کو صراحتاً یا کنایۃً اختیار کرنا حدیث عظیم سمجھتے ہیں اور مرتکب ایسے امر کو پرلے درجے کا شریر النفس خیال کرتے ہیں۔
مختلف فرقوں کے بزرگ ہادیوں کو بدی اور بے ادبی سے یاد کرنا پرلے درجے کی خباثت اور شرارت ہے۔ (۷۹۸)
(ب) مولوی اللہ د تا جالندھری احمدی اپنی کتاب '' تفہیمات ربانیہ'' میں لکھتا ہے:
'' میں دنیا کے شرفا کے سامنے اس ذہنیت پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایک شخص لاکھوں انسانوں کے پیشوا جان و مال اور عزت سے بدرجہا محبوب پیشوا پر حملے کرتا ہے اور ناواجب اور سوقیانہ الفاظ استعمال کرتا ہے لاکھوں بندگانِ خدا کے دلوں کو دکھ دیتا ہے۔ اور پھر اس کو خدمت دین سمجھتا ہے کیا سچ مچ اسلام کا یہی منشا ہے؟ کیا بانیٔ اسلام کا یہی اسوہ ہے؟ اور پھر کیا اسی طریق سے اصلاح ہوسکتی ہے؟'' (۷۹۹)
----------------------------------
(۷۹۲) کشتی نوح ص۵ و روحانی ص۵، ج۱۹
(۷۹۳) ملخصًا نور القرآن ص۱۷، ج۲ و روحانی ص۳۹۲،ج۹
(۸۹۴) بدر جلد ۶، نمبر۱۹ مورخہ ۹؍ مئی ۱۹۰۷ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۱۸۸، ج۵
(۷۹۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۷۴
(۷۹۶) ضمیمہ تریاق القلوب نمبر۳ ص، ج و روحانی ص۴۹۱، ج۱۵ و مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۱۴۲، ج۲
(۷۹۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۵۶
(۷۹۸) براھین احمدیہ ص۱۰۱ تا ۱۰۲، ج۲ و روحانی ص۹۰ تا ۹۲، ج۱
(۷۹۹) تفہیمات ربانیہ ص۴
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ضمیمہ توہین مسیح علیہ السلام
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تیس ۳۰،۲۰ دجال و کذاب پیدا نہ ہولیں کُلُّھُمْ یَزْعَمُ اِنَّہٗ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیْین لَا نَبِیَّ بَعْدِی ۔ (۸۰۰)ہر ایک ان میں سے دعویٰ نبوۃ کا کرے گا حالانکہ میں ''ختم کرنے والا نبیوں'' کا ہوں۔ (۸۰۱)میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔ حدیث بالا کو ملحوظ رکھ کر مرزا صاحب کے حالات پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوگا کہ آپ یقینا تیس میں سے ایک ہیں۔
مرزا جی نے جب تک دعویٰ مسیحیت و نبوت نہ کیا تھا تب تک وہ مسلمانوں کی طرح عقائد رکھتے تھے اور معجزات انبیاء کے قائل تھے جو نہی انہوں نے دعویٰ رسالت کیا۔ حدیث نے اپنی صداقت کا جلوہ دکھایا کہ مرزا جی عقائد کے حصار سے نکل کر دجالوں، کذابوں کی ٹولی کی طرف سرکنا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ان سے بھی دس قدم آگے بڑھ گئے۔
انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو جادو، شعبدہ، مکرو فریب وغیرہ کہنا کفار کی سنت مستمرہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیات بینات لے کر آئے تو کفار نے کہا ھذا سحر مبین (النمل ۱ع) یہ تو کھلا جادو ہے۔ ایسا ہی:
'' صریح قرآن شریف میں وارد ہوا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور جب کافروں نے یہ نشان دیکھا تو کہا جادو ہے۔'' (۸۰۲)
اسی طرح یہود نامسعود نے:
'' حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر ان سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ '' (۸۰۳)
بلکہ یہاں تک عداوت و ظلم پر اتر آئے کہ مسیح سے:
'' کوئی معجزہ نہیں ہوا محض فریب اور مکر تھا۔'' (۸۰۴)
بخلاف اس کے مومن باللہ انسان کبھی اس قسم کی ظالمانہ جرأت و گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے اور ہمیشہ اس قسم کے اقوال کفر یہ و شبہات باطلہ واہیہ سے محفوظ رہے۔ چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' جن لوگوں نے منقولی معجزات کو مشاہدہ کیا ان کے لیے وہ تسلی تام کا موجب نہیں ٹھہر سکے کیونکہ بہت سے ایسے عجائبات بھی ہیں کہ ارباب شعبدہ بازی دکھلاتے پھرتے ہیں گو وہ اور ہیں مگر اب مخالف بداندیش پر کیونکہ ثابت کرکے دکھلا دیں کہ انبیاء سے جو عجائبات ظاہر ہوئے ہیں یہ اس قسم کی دست بازیوں سے منزہ ہیں۔ یہ مشکلات ممکن ہے انہی زمانوں میں پیدا ہوگئی ہوں مثلاً جب ہم یوحنا کی انجیل دیکھتے ہیں تو اس میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور یروشلم میں باب الضان کے پاس ایک حوض ہے اس کے پانچ اسارے ہیں ان میں اندھوں لنگڑوں کی ایک بھیڑ پانی کے ہلنے کی منتظر تھی پانی ہلنے کے بعد جو کوئی پہلے اس میں اترتا کیسی ہی بیماری کیوں نہ ہو اس سے چنگا ہو جاتا وہاں ایک شخص تھا جو کہ اٹھتیس برس سے بیمار تھا یسوع نے جب اسے پڑے ہوئے دیکھا تو کہا کیا تو چاہتا ہے کہ چنگا ہو جائے۔ بیمار نے کہا کہ اے خداوند میرے پاس آدمی نہیں کہ جب پانی ہلے تو مجھے اس میں ڈال دے ۔'' (یہ بیان انجیل سے نقل کرکے مرزا صاحب لکھتے ہیں۔ناقل) اب ظاہر ہے کہ جو شخص حضرت عیسیٰ کی نبوت کا منکر ہے اور ان کے معجزات کا انکاری ہے جب (انجیل) یوحنا کی یہ عبارت پڑھے گا تو خواہ و مخواہ اس کے دل میں ایک قوی خیال پیدا ہوگا کہ حضرت کا ممدوح اسی حوض کے پانی میں کچھ تصرف کرکے ایسے خوارق دکھلاتے ہوں گے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے اندھوں لنگڑوں وغیرہ کو شفا حاصل ہوئی تو بالیقین یہ نسخہ حضرت مسیح نے اسی حوض سے اڑایا ہوگا۔ بالخصوص جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح (انجیل میں یسوع لکھا ہے) اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے غرض اس بات کے ثبوت میں بہت سی مشکلات پڑتی ہیں کہ یہودیوں کی رائے کے موافق مسیح مکار اور شعبدہ باز نہیں اور سچ مچ معجزات ہی دکھائے ہیں اگرچہ قرآن شریف پر ایمان لانے کے بعد ان دساوس سے نجات حاصل ہو جاتی ہے مگر جو شخص قرآن شریف پر ایمان نہیں لایا اور یہودی یا ہندو یا عیسائی ہے وہ کیونکر ایسے دساوس سے نجات پاسکتا ہے۔'' (۸۰۵)
تحریر بالا مزید تشریح کی محتاج نہیں۔ صاف واضح ہے کہ انجیل کا جسے یہود مکار و شعبدہ باز کہتے تھے دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں اور ان کے معجزات کا انکار کرنے والا ان کے معجزات کو حوض کی تاثیر بتانے والا قرآن شریف کا منکر، معجزات بلکہ نبوتِ مسیح کا کافر بے ایمان ہے، بہت خوب!
آئیے اب مرزا صاحب کی تحریرات پڑھیں کہ ان میں معجزات مسیحیہ کو کس نظر سے دیکھا ہے یہ تحریر مرزا صاحب کی اس وقت کی ہے جب انہوں نے دعویٰ رسالت کا ذبہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے جب دعویٰ کیا۔ اور لوگوں نے ان سے مثیل مسیح ہونے کے ثبوت میں معجزات عیسویہ علیہ السلام کی مثال مانگی تو مرزا صاحب نے وہی جواب دیا جو کفار منکرین نبوت کی سنت ہے چنانچہ کہیں تو مسیحی معجزات کو ناچیز محض اسی تالاب کی وجہ سے مشکوک قرار دیا۔ (۸۰۶)اور کہیں مسمریزم، عمل ترب، فطرتی طاقت خداداد بتایا۔ مگر بایں گستاخی کہ میں اس عمل کو مکروہ قابل نفرت سمجھتا ہوں اور کہیں کھلونے ساز بخاروں کی مثال دے کر معجزات مسیحی کو مصنوعی قرار دیا۔ (۸۰۷)آخر بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ:
'' عیسائیوں نے آپ (یسوع مسیح) کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا ممکن ہے آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کو ر وغیرہ کا علاج کیا ہو مگر بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا۔ اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کردیا کہ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اسی تالاب کا معجزہ ہے۔ آپ کے ہاتھ میں سوائے مکر اور فریب کے کچھ نہ تھا۔'' (۸۰۸)
-----------------------------------------------
(۸۰۰) مسند امام ص۲۷۸، ج۵ و ابوداؤد ص۲۳۴، ج۲ فی الفتن وترمذی مع تحفہ ص۲۲۷،ج۳ فی الفتن وابن ماجہ ص۲۹۲ فی الفتن والحاکم فی المستدرک ص۴۴۹، ج۴ کتاب الفتن من روایت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ
(۸۰۱) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۳ وتفسیر مرزا ص۵۲،ج۷
(۸۰۲) سرمہ چشم آریہ ص۶۲ و روحانی ص۱۱۰، ج۲ وتفسیر مرزا ص۳۷،ج۸
(۸۰۳) نصرۃ الحق ص۳۲ و روحانی ص۴۲،ج۲۱
(۸۰۴) چشمہ مسیحی ص۹ و روحانی ص۳۴۴، ج۲۰
(۸۰۵) براھین احمدیہ ص۴۳۱ تا ۴۴۹، ج۴ و روحانی ص۵۵۵، ج۱
(۸۰۶) ازالہ اوہام ص۷ و روحانی ص۱۰۶،ج۳
(۸۰۷) ایضًا ص۳۰۹ تا ۳۲۲ و روحانی ص۲۵۷ تا ۲۶۳، ج۳
(۸۰۸) حاشیہ انجام آتھم ص۶،۷ و روحانی ص۲۹۰،۲۹۱،ج۱۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے۔ وہی یسوع مسیح۷ انجیلی ہے وہی اس کے معجزات، وہی تالاب کا قصہ، اور وہی مرزا صاحب قادیانی۔
پہلے بیانوں میں جو مسلم نما حالت کے ہیں۔ ان معجزات کو ''سچ مچ'' من عند اللہ مان کر ان کے انکار کرنے والے کو۔ یا اسے حوض کی وجہ سے مشکوک ٹھہرانے والے کو:
بد اندیش مخالف، یہودی، ہندو، منکر قرآن، خارج اسلام قرار دیا ہے مگر اس جگہ بعد دعویٰ نبوت کے اسی یسوع کے معجزات کو۔
حق بات یہی ہے کہ اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ کہہ کر انہیں یہود کی طرح، مکار، فریبی لکھا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین
ہم سابقاً معیار انبیاء میں قرآن پاک سے ثابت کر آئے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ نبی اپنی ساری عمر بھر کسی وحی الٰہی کو نہ سمجھ سکے۔
۱۔ چونکہ مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ نشانیاں اور علامات جو مسیح موعود کے وقت کی ہیں۔ آپ میں پائی نہیں گئیں اس لیے مرزا صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یہ گستاخانہ حملہ کیا کہ:
'' ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت منکشف نہ ہوئی ہو۔ اور دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت نہ کھلی ہو۔ اور نہ یاجوج ماجوج دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ظاہر فرمائی گئی۔'' (۸۰۹)
بخلاف اس کے اپنے مریدوں کا حال یہ لکھتے ہیں کہ:
'' اب رہی اپنی جماعت کا خدا کا شکر ہے کہ (انہوں) نے دمشق کے منارہ پر مسیح کے اترنے کی حقیقت، دجال کی حقیقت، ایسا ہی دابۃ الارض (وغیرہ کے بارے میں) خدا نے ان کو معرفت کے مقام تک پہنچا دیا ہے۔'' (۸۱۰)
۲۔ مرزا صاحب '' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو صرف تین ہزار معجزات بتاتے ہیں۔ ''(۸۱۱) مگر اپنے ''دس لاکھ نشان۔'' (۸۱۲)
واضح رہے کہ مرزا صاحب کے نزدیک نشان اور معجزہ ایک ہی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
'' سچا مذہب ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے۔'' (۸۱۳)
-----------------------------------------------------------------------
(۸۰۹) ازالہ اوہام ص۶۹۱ و روحانی ص۴۷۳، ج۳
(۸۱۰) فتاوٰی احمدیہ ص۵۱، ج۱
(۸۱۱) تحفہ گولڑویہ ص۴۰ و روحانی ص۱۵۳، ج۱۷
(۸۱۲) تذکرۃ الشھادتین ص۴۱ و روحانی ص۴۳، ج۲۰
(۸۱۳) نصرۃ الحق ص۵۰ و روحانی ص۶۳،ج۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
۳۔ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا (قرآن شریف میں انگل کا اشارہ مذکورہ نہیں یہ قرآن پر جھوٹ ہے۔ ناقل) اور کفار نے اس معجزہ کو دیکھا اس کے جواب میں یہ کہنا کہ ایسا وقوع میں آنا خلاف علم ہیئت ہے یہ سراسر فضول باتیں ہیں۔ (۸۱۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کو از قسم کسوف خسوف کہنا اس کی عظمت کو کم کرنا ہے جیسا کہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' اگر آج شق القمر کا معجزہ ہو تو یہ ہیئت و طبعی کے ماہر اور سائنس کے دلدادہ فی الفور اس کو کسوف خسوف میں داخل کرکے اس کی عظمت کو کم کرنا چاہیں گے۔'' (۸۱۵)
مگر افسوس کہ مرزا صاحب نے نہ صرف اس معجزہ نبوی کو کسوف و خسوف ہی قرار دیا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی عظمت جتانے کو یوں لکھا ہے کہ:
'' اس کے لیے چاند کا خسوف کا نشان ظاہر ہوا ہے اور میرے لیے چاند سورج دونوں کا۔''(۸۱۶)
خیال زاغ کو بلبل سے برتری کا ہے
غلام زادے کو دعویٰ پیمبری کا ہے

۴۔ مرزا صاحب خطبہ الہامیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی فوقیت ایک عجیب فریب میں بتاتے ہیں کہ:
'' حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت، (برنگِ مرزا) چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں اقویٰ اکمل اشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح اسلام ملال (پہلی رات کے چاند کا وصفی نام ہلال ہے۔ ناقل)(۸۱۷) کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ آخری زمانہ (یعنی مرزا کے زمانہ) میں بدر (چودھویں شب کے چاند کا وصفی نام بدر ہے ناقل ) کی شکل اختیار کرے۔'' (۸۱۸)
ناظرین کرام! دیکھئے کس فریب آمیز طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہونے کا دعویٰ کیا ہے:
بت کریں آرزو خدائی کی
شان ہے تیری کبریائی کی

قطع نظر اس سے صاحب علم غور کریں کہ اسلام کی ابتدا جسے مرزا پہلی کے چاند جیسا لکھتے ہیں ایسی درخشندہ ہے کہ جب سے دنیا کی بنیاد پڑی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، مٹھی بھر نہتے اور غیر مدنی بے سروسامان انسانوں نے اپنی اولو العزنی، یک جہتی، جان نثاری اور وفاداری سے قیصر و کسریٰ ایسے جابر و قاہر بادشاہوں کے تختوں کو الٹ دیا۔ ان کی تہذیب دینداری خدا پرستی غرض جملہ اوصاف شرافت ایسے نمایاں ہیں کہ آج غیروں میں تو درکنار خود مسلمانوں میں بھی ایک شخص ڈھونڈھتے سے ان جیسا نہیں ملتا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ان کے بھی مزکی تھے، آپ کی روحانیت کا تو ٹھکانا ہی کیا۔ بقول مرزا صاحب:
'' آدم سے لے کر اخیر تک کسی نبی کو ایسی قوت قدسی نہیں دی گئی جو آنحضرت کو عطا کی گئی اور افسوس ہے کہ ایسی جماعت ہم کو بھی نہیں ملی۔'' (۸۱۹)
پس مرزا صاحب کا اپنے وقت کی روحانیت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چودہ حصے بڑھ کر لکھنا سراسر خلاف واقعات اور ایک سفید جھوٹ ہے جو توہین نبوی ہے۔
۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذہنی ارتقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھا اس زمانہ میں تمدنی ترقی زیادہ ہوئی ہے اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حاصل ہوئی ہے۔ (قادیانی ریویو ماہ مئی ۱۹۲۹ء) (۸۲۰)
------------------------------------------
(۸۱۴) ضمیمہ چشمہ معرفت ص۴۱ و روحانی ص۴۱۱، ج۲۳
(۸۱۵) تقریر مرزا برجلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء مندرجہ رپورٹ جلسہ ص۱۵۸ وملفوظات مرزا ص۸۹، ج۱
(۸۱۶) اعجاز احمدی ص۷۱ و روحانی ص۱۸۳، ج۱۹
(۸۱۷) خطبہ الھامیہ ص۱۸۱ و روحانی ص۲۷۲، ج۱۶
(۸۱۸) ایضًا ص۱۸۴ و روحانی ص۲۷۵،ج۱۶
(۸۱۹) الحکم جلد ۱۰ نمبر۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۶ء و ملفوظات مرزا ص۵۹۱ تا ۵۹۲،ج۴ ملخصًا
(۸۲۰) مضمون ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی ریویو مورخہ مئی ۱۹۲۹ء
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
۶۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کرسکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے حتیٰ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ (۸۲۱)
۷۔ ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کر کھڑا کیا۔ (۸۲۲)
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر دسویں دلیل مبالغاتِ مرزا
مثال اوّل:
مرزا صاحب مبالغہ گوئی میں اپنی مشاقی کا ثبوت دینے کو یوں راقم ہیں:
دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اس کے ارادہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ (۸۲۳)
اس قول میں حضرت قابض الارواح جل شانہ کی صفت اہلاک کا جس انتہائی مبالغہ آرائی سے اظہار کیا گیا ہے۔ اس کی نظیر انبیاء صادقین کی تحریروں میں تو کہاں ملے گی، کسی افسانہ گو شاعر کی تالیفات میں بھی ... شاذ و نادر نظر آئے گی۔
خدا نہ کرے کہ کسی وقت فی الواقع ارادہ الٰہی بموجب تحریر مرزا ظہور کرے ... اگر ایسا ہو جائے تو غالباً بلکہ یقینا دو تین دن کے اندر ہی سب جانداروں کا صفایا ہو جائے۔ رہ جائیں دو دو تین تین کے چھوٹے چھوٹے بچے سو وہ بھی ایک دو دن میں بلبلاتے ہوئے بحر فنا میں غرق ہو جائیں اور ربع مسکون پر ایک متنفس بھی جیتا جاگتا چلتا پھرتا نظر نہ آئے۔ پناہ بہ خدا!
مرزائیو! تم بلکہ تمہارے اعلیٰ حضرت بھی انجیل کے اس قول پر کہ:
'' بہت سے کام میں جو یسوع نے کئے، اگر وے جُدا جُدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں دنیا میں نہ سما سکتیں۔'' (۸۲۴)
چٹخارے لے لے کر بڑی ترنگ میں جھوم جھوم کر زبان طعن اور آوازۂ تضحیک دراز کیا کرتے ہو۔ خدارا کبھی اپنے ان مہمل اور بے معنی مبالغات پر بھی نظر ڈالا کرو، کیا وہی بات تو نہیں کہ:
'' ظالم کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا پر غیر کی آنکھ کا تنکا بھی خار بن کر اس کے سینہ میں کھٹکتا ہے۔''
--------------------------------------------------------
(۸۲۱) ڈائری مرزا محمود مندرجہ الفضل جلد ۱۰نمبر ۵ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۲۲ء ص۵
(۸۲۲) کلمۃ الفصل ص۱۱۳ مندرجہ ریویو ریلیجنز جلد ۱۴ نمبر ۱۳
(۸۲۳) کشتی نوح ص۳۷ و روحانی ص۴۱، ج۱۹
(۸۲۴) انجیل یوحنا باب ۲۱ آیت: ۲۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال دوم:
مرزا صاحب نے اپنی زندگی میں جو اشتہار دئیے وہ انگلیوں پر شمار ہوسکتے ہیں چنانچہ منشی قاسم علی احمدی نے تبلیغ رسالت جلد اول سے دس تک میں ان کو درج کیا ہے جن کی جملہ تعداد ۲۶۱ہے(۸۲۵) مگر مرزا صاحب نے جس مبالغہ آرائی سے اس کا ذکر کیا ہے وہ قابلِ دید و شنید ہے، آپ لکھتے ہیں:
'' میں نے چالیس کتابیں تالیف کی ہیں اور ساٹھ ہزار کے قریب اپنے دعویٰ کے ثبوت کے متعلق اشتہارات شائع کئے ہیں وہ سب میری طرف سے بطور چھوٹے چھوٹے رسالوں کے ہیں۔'' (۸۲۶)
مرزائیو! ایمان سے کہو (اگر تم میں کچھ ایمان باقی ہے) کہ یہ سچ ہے قادیانی دروغ بے فروغ؟ بصورت اثبات ان ساٹھ ہزار رسالوں کا ذرا ہمیں بھی درشن کرانا بصورتِ ثانیہ افترا اور جھوٹ کی وعید شدید اِنما یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْن یٰایَتِ اللّٰہ سے ڈرو۔
مثالِ سوم:
مرزا صاحب نے اسی کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ (۸۲۷) ان سب کو (۸۲۸)اکٹھا کیا جائے تو بمشکل ایک الماری بھرے گی مگر مرزا صاحب قادیانی اپنی جبلی عادت مبالغہ گوئی سے مجبور ہو کر فرماتے ہیں:
میری عمر کا اکثر حصہ سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔(۸۲۹)
اس اظہارِ وفا داری پر حکومت کا مرزا صاحب کو کوئی خطاب نہ دینا پرلے درجے کی ناقدر شناسی ہے :
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

حالانکہ مرزا صاحب نے خطاب کی آرزو میں الہام بھی گھڑنا شروع کردئیے کہ '' لَکَ خَطَابُ الْعِزَّتِ لَکَ خَطَابُ الْعِزت ''۔ (۸۳۰)
تیرے لیے عزت کا خطاب تیرے لیے عزت کا خطاب۔ مگر۔ ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
-------------------------------------
(۸۲۵) مرزائی عبداللطیف بہاولپوری نے جو مجموعہ اشتھارات مرزائی کے عنوان سے شائع کیا ہے اس میں کل اشتھارات ۲۸۳ ہیں۔ ابو صہیب
(۸۲۶) اربعین ص۲۹ نمبر۳ و روحانی ص۴۱۸،ج۱۸
(۸۲۷) پ ۱۴ النحل آیت : ۱۰۶
(۸۲۸) تاریخ احمدیت ص۴۰۰،ج۳
(۸۲۹) تریاق القلوب ص۱۵ و روحانی ص۱۵۵، ج۱۵
(۸۳۰) ضمیمہ تریاق القلوب ص۱ و روحانی ص۵۰۱،ج۱۵ و تذکرہ ص۳۳۹ و اربعین ص۳۷ نمبر ۳ و روحانی ص۴۲۸،ج۱۷
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مثال چہارم:
ریویو بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء میں قول مرزایوں مسطور ہے:
'' اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے توبہ کرچکے ہیں۔'' (۸۳۱)
اس تحریر کے تین سال پانچ ماہ گیارہ دن بعد لکھتے ہیں:
'' میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے معاصی سے توبہ کی۔'' (۸۳۲)
کس قدر مبالغہ ہے کہ ستمبر ۱۹۰۲ء سے مارچ ۱۹۰۶ء تک تین لاکھ انسانوں نے بیعت کی۔ یعنی مرزا صاحب متواتر ساڑھے تین سال صبح ۶ بجے سے شام ۶ بجے تک ہر روز لگاتار بیعت ہی لیتے رہے تھے جس کا حساب یوں لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ہر ماہ میں ۷۱۴۳ یا ہر دن میں ۲۳۸ یا فی گھنٹہ ۱۹ یا ہر تین منٹ کے عرصہ میں دس شرائط بیعت سنا کر اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ لے کر ایک مرید پھانستے رہے۔
مثال پنجم:
مرزا صاحب اپنے مرنے سے قریباً ساڑھے چار سال پہلے فرماتے ہیں:
'' میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے۔'' (۸۳۳)
مگر مرزا صاحب کی کتنی بڑی کرامت ہے کہ اس کے بعد انہوں نے دو تین منٹ کے اندر ہی اسی کتاب کے اسی صفحہ میں صرف دو سطر بعد '' صدہا نشان'' کو '' دو لاکھ'' بنا ڈالا آگے چل کر صفحہ ۴۱ پر جو مشین مبالغہ کے کل پرزوں کو حرکت دی تو بیک جنبش قلم ''دس لاکھ'' تک نوبت پہنچا دی۔ (۸۳۴)
--------------------------------------------------------
(۸۳۱) ریویو ص۲۴۰، ج۲ والحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء و ملفوظات مرزا ص۳۰۵، ج۲
(۸۳۲) تجلیات الٰہیہ ص۵ و روحانی ص۳۹۷،ج۲۰ مرقومہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء قلت مرزا جی نے مذکورہ کتاب ۹ مارچ ۱۹۰۶ء میں تحریر کی تھی اور ا س کی پہلی بار اشاعت ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔ ابو صہیب
(۸۳۳) تذکرۃ الشھادتین ص۳۴ و روحانی ص۳۶، ج۲۰
(۸۳۴) ایضًا ص۴۱ و روحانی ص۴۳،ج۲۰
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دلائل مرزائیہ کا جواب
دلیل نمبر ۱ پاکیزہ زندگی
اعتراض :

قرآن مجید میں ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۂ یونس:۲ع) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو! میں تم میں ایک عرصہ تک زندگی گزار چکا ہوں۔ کیا تم نہیں سوچتے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ زندگی کو اپنی نبوت کی دلیل قرار دیا ہے ایسا ہی مرزا صاحب کا حال ہے۔ کوئی شخص آپ کی پہلی زندگی میں عیب نہیں نکال سکتا بلکہ آپ کے اشد ترین مخالفوں کی شہادت موجود ہے کہ آپ بڑے پاک تھے چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ کو اعتراف پر ہے۔ (۸۳۵)
الجواب:
(۱) بلاشبہ انبیاء کرام کی پہلی کیا ساری زندگی پاک ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا پاکیزہ زندگی کو دلیل نبوت قرار دیا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ہزارہا ایسے اشخاص ملیں گے جن کی زندگی عیوب سے خالی ہے پھر کیا وہ بھی نبی مانے جائیں؟
نبی اپنی زندگی کو کئی حیثیتوں میں پیش کرسکتا ہے اول یہ کہ میں امیر ابن امیر ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو پھر کیا میں نے کسی لالچ کی بنا پر دعویٰ نبوت کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت مقصود نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم بیکس اور غریب تھے۔
دوم یہ کہ نبی کے مخالف اس کو مجنوں وغیرہ قرار دیں (جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا گیا) اور اس کے جواب میں نبی خدا انہیں متوجہ کرے کہ میں تو تم میں کافی عمر گزار چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ میں صحیح الدماغ ہوں پھر کیا تم نہیں سوچتے۔
مرزائی صاحبان کو مسلم ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت بھی مراد نہیں۔
تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ میں نے آج تک اقرار نہیں کیا پھر اب کیسے کرسکتا ہوں۔ یہ صورت بھی غیر معقول ہے کیونکہ کسی شخص کا چالیس سالہ عمر کے بعد مفتری ہو جانا محال نہیں ممکن ہے اور یوں بھی یہ غیر معقول ہے کیونکہ محض پاکیزہ زندگی دلیل نبوت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
(ا) '' پاک ناپاک ہونا بہت کچھ دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا حال سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس پاک وہ ہے جس کے پاک ہونے پر خدا گواہی دے۔'' (۸۳۶)
(ب) '' ایک ظاہری راستباز کے لیے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اس کی راستبازی پر گواہ ہو۔ کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام کے فسق و فجور سے پاک ہے مگر ایسے دعویٰ پر تسلی کیوں کر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے اگر کسی میں ماوہ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اگر فسق و فجور سے بچ گیا تو تہی دستی بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن خوف سے کوئی پارسا بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید در پردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ الخ''(۸۳۷)
تحریرات مرقومہ بالا شاہد ہیں کہ پاک ہونا دلیل صداقت نہیں ہوسکتا پس قرآن کی یہ منشا بھی نہیں۔
اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آیت زیر غور کا سیاق و سباق شاہد ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل دو یا اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ جس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بھلے لوگو! غور تو کرو کہ میں ایک آئی اَن پڑھ ناخواندہ محض انسان ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو کیونکہ میں عرصہ تک تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یہ مجھ اَن پڑھ کی کتاب ہی نہیں ہوسکتی تو میں اسے بدل کیسے سکتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اَن پڑھ ہونا جملہ مخالفین کو مسلم ہے خود مرزا صاحب کو بھی۔ (۸۳۸)
'' حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اچھا جرنیل نبی ہوتا ہے؟ تو میں کہوں گا یہ ضروری نہیں لیکن کامل نبی کے لیے اچھا جرنیل ہونا ضروری ہے اسی طرح اعلیٰ درجہ کا قاضی ضروری نہیں نبی ہو کافر بھی اچھے جج ہوتے ہیں۔ تو ہر اچھا قاضی بیشک نبی نہیں ہوسکتا۔ لیکن نبی کے لیے اچھا قاضی ہونا ضروری ہے۔'' (قول میاں محمود احمد خلیفہ قادیان) (۸۳۹)
ٹھیک اسی طرح ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر نبی بیشک پاک ہوتا ہے مگر ہر ایک پاک شخص نبی نہیں ہوتا۔ پس بفرضِ محال مرزا صاحب پاک بھی ہوں تاہم ان کی پاکیزگی نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
باقی رہا مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ صاحب کا مرزا پر ابتداء حسن ظن رکھنا۔ سو گزارش ہے کہ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سید المرسلین کو بغیر وحی الٰہی کے معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے اردگرد منافق بہ شکل مومنین منڈلاتے پھرتے میں وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَردُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ (۸۴۰)الایہ اور اہل مدینہ سے کئی منافق ہیں جنہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں تو اس کے مقابل مذکورہ بزرگوں کا مرزا صاحب کی ظاہری شکل پر دھوکہ کھا جانا کون سی بڑی بات ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------------
(۸۳۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۶۲ وضمیمہ تفہیمات ربانیہ ص۴۰
(۸۳۶) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر۱۷ مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۸ ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷،ج۵
(۸۳۷) براھین احمدیہ ص۴۸،ج۵ وروحانی ص۶۲،ج۲۱
(۸۳۸) ایضًا ص۴۷۸ تا ۴۸۱، ج۴ و روحانی ص۵۶۹ تا ۵۷۲، ج۱ وچشمہ معرفت ص۲۵۳ تا ۲۵۴ و روحانی ص۲۶۵،ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۴۲۸، ج۶
(۸۳۹) الفضل مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء ص۷
(۸۴۰) پ۱۱ التوبہ آیت : ۱۰۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
الغرض نصرۃ الحق کی تحریر سے یہ عبارت النص ثابت ہے کہ پاک زندگی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بلکہ دلیل صداقت معجزات و آسمانی نشان ہیں۔ اس کی مزید تائید قول ذیل سے ہوتی ہے:
'' سو عزیزو! یقینا سمجھو کہ صادق کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے قدیم قانون میں ایک ہی راہ ہے۔ اور وہ یہ کہ آسمانی نشانوں سے ثابت کر دیوے کہ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔'' (۸۴۱)
پس ہر ایک دانا انسان پر فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے مرزا صاحب کے روحانی کمالات آسمانی نشانات یعنی پیشگوئیاں وغیرہ دیکھے۔ اگر وہ جھوٹی ہیں تو مرزا صاحب جھوٹے۔
معیار نبوت وہ ہے جس پر تمام انبیاء ورسل برابر اتریں۔ انبیاء سابقین نے نہ تو اپنی گذشتہ زندگی بطور معیار کے پیش کی نہ اس معیار پر تمام انبیاء علیہم السلام اجمعین پورے اتر سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس معیار کا صاف انکار کیا ہے جب کہ فرعون نے ان کی سابقہ زندگی کو قتل قبطی اور احسان فراموشی وغیرہ سے متہم کیا تھا اور کہا تھا:
قَالَ اَلَمْ نربک فینا ولیدًا ولبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکفرین ۔
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
قَالَ فَعَلْتُھَا اِذًاوّ اَنَا مِنَ الضَّآلِیْنَ فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمّا خِفْتُکُمْ ۔ (۸۴۲)
مطلب یہ کہ میں اپنی صداقت میں اپنی پہلی زندگی نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ معجزہ عصاوید بیضا پیش کرتا ہوں اور مرزا صاحب نے بھی شہادۃ القرآن صفحہ ۷۳ پر اس کی تصدیق کی ہے جس کا اقتباس اوپر گزر چکا ہے۔
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف بھیجے گئے حالانکہ وہ چونکہ سدوم کے باشندے نہ تھے تو سدوم والے حضرت لوط علیہ السلام کی پہلی زندگی سے کیونکر واقف ہوسکتے تھے؟ پس پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت نہیں ہوسکتی۔
بفرض محال اگر پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت بھی ہوسکتی تو پھر مرزا صاحب اس پر پورے نہیں اتر سکتے کیونکہ وہ بالکل غیر معروف آدمی تھے تو وہ کیونکر اس معیار پر پورے اتر سکتے ہیں وہ خود مانتے ہیں:
'' پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ اس گذشتہ زمانہ میں جس کو سترہ برس گزر گئے یعنی اس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز گوشہ گمنامی پڑا ہوا تھا اور کوئی نہ جانتا تھا کہ کون ہے اور نہ کوئی آتا تھا۔'' (۸۴۳)
'' اس بات کو عرصہ قریباً بیس برس کا گزر چکا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ مجھ کو بجز قادیان کے چند آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا تھا یہ الہام ہوا۔'' (۸۴۴)
انبیاء کرام شرک و کفر سے پیدائشاً پاک ہوتے ہیں بخلاف اس کے مرزا صاحب قادیانی قبل از دعویٰ نبوت کے بقول خود مشرک تھے کیونکہ وہ عرصہ دراز (۵۲ سال) تک عقیدہ حیات مسیح کے معتقد بلکہ مشتہر و مبلغ رہے اور بعد میں آپ نے کھلے الفاظ میں اس عقیدہ کو شرک قرار دیا نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب پہلے '' خود مشرک تھے۔''
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی اور کی قسم کھانا شرک ہے مگر آپ نے دوسرے وقت ایک شخص کے باپ کی خود قسم کھائی جیسا کہ حدیث میں ہے قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ (مسلم ص۲۴ باب الایمان باللہ وشرائع الدین) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ نجات پا گیا ہے۔ (۸۴۵)
جواب نمبر۱:
اس حدیث میں ایک لفظ محذوف ہے۔ مطلب حدیث کا یہ ہے '' قَدْ اَفْلَحَ وَرَبِّ اَبِیْہِ '' اس شخص کے باپ کے رب کی قسم یہ نجات پا گیا۔ اس طرح کہ یہ حذف، محذوف کلام عرب میں بکثرت ہوتے ہیں خود قرآن مجید میں ہی مواقع کثیرہ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں بطور نمونہ ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ یوسف '' واسئل القریۃ '' (۸۴۶)اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ''پوچھ لے قریہ سے'' حالانکہ قریہ کوئی قابل استفسار ہستی نہیں سو اس آیت میں بھی ایک لفظ اہل محذوف ہے جس کے ملانے سے عبارت یہ ہوگی کہ '' پوچھ لے بستی میں رہنے والوں سے'' اور یہی صحیح ہے حاصل یہ کہ حدیث میں غیر اللہ کی قسم ہرگز نہیں کھائی گئی۔
-----------------------------------------------------------
(۸۴۱) شھادۃ القرآن ص۷۱،۷۲ و روحانی ص۳۶۷ تا ۳۶۸، ج۶
(۸۴۲) پ۱۹ الشعراء آیت : ۱۹ تا ۲۲
(۸۴۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۲ و روحانی ص۲۸۶، ج۱۱
(۸۴۴) تریاق القلوب ص۵۶ و روحانی ص۲۵۴،ج۱۵
(۸۴۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۶۵ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۸۴۶) پ۱۳ یوسف آیت ۸۳ نوٹ: مرزا محمود اپنی تفسیر، کبیر ص۳۴۷،ج۳ میں لکھتا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں وسئل القریۃ کے معنیٰ اکثر مفسرین نے اہل قریۃ یعنی بستی کے رہنے والے کیے ہیں۔ انتھی بلفظہٖ۔ ابو صہیب
 
Top