وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
نیز مرزا صاحب کو مسلم ہے کہ:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات نے کروڑہا انسانوں کو بتوں اور عیسیٰ پرستی اور مخلوق پرستی سے نجات دے کر لا الہ الا اللہ پر قائم کیا۔'' (۸۴۷)
یہ نہیں ہوسکتا کہ انبیاء جو شرک مٹانے آتے ہیں خود شرک میں مبتلا رہیں اس کی تائید مرزا صاحب سے بھی مرقوم ہے جیسا کہ لکھا ہے:
'' اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جبکہ ان (انبیاء) کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کے احکام پر چلادیں تو گویا وہ خدا کے احکام کو عمل درآمد لانے والے ہوتے ہیں اس لیے اگر وہ خود ہی احکام کی خلاف ورزی کریں تو پھر عمل درآمد کرنے والے نہ رہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نبی نہ رہے وہ خدا تعالیٰ کے مظہر اور اس کے اقوال و افعال کے مظہر ہوتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ان کی طرف منسوب بھی نہیں ہوسکتی۔'' (۸۴۸)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا تھا:
(۱) من کان حالفًا فلا یحلف الا باللّٰہ وکانت قریش تحلف بابائھا فقال لا تحلفوا بابائکم ۔ (۸۴۹)
(۲) [ARB]لا تحلفوا بالطواغی ولا بٰابآئکم[/ARB]۔ (۸۵۰)
جواب نمبر ۲:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے مگر الفاظ وَابیہ منقول نہیں ہیں قد افلح ان صدق اور یہی الفاظ مسلم کی ایک روایت میں ہیں قد افْلَحَ اِنْ صَدَقَ (۸۵۱)اور جس حدیث میں یہ الفاظ قد اَفْلَحَ وابیہ ان صدق آئے ہیں اس میں راوی کو خود شک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے یا وہ۔ لہٰذا یہ الفاظ قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ زیادہ صحیح ہیں کیونکہ یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ ایسے نقادِ حدیث نے نقل کئے ہیں اور مرزا صاحب کا یہ فتویٰ ہے کہ:
'' یہ کتاب اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔'' (۸۵۲)
بلکہ مرزا صاحب نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو حدیث بخاری میں نہ ہو وہ ضعیف ہے۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے منارۂ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں:
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (۸۵۳)
لہٰذا یہ الفاظ ( قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ )قابل حجت نہیں، کیونکہ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور صحیح الفاظ یہ ہیں ( قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ ) کیونکہ ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل
لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَ خَذْنَا مِنْہ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لقطعنا منہ الوتین ۔
سکہ اگر یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ کر ان کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ گویا اگر کوئی جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو صداقت کی کسوٹی ہیں، آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی مدعی الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (۸۵۴)بشرطیکہ وہ مجنون نہ ہو (۸۵۵)وہ مدعی الوہیت نہ ہو الخ۔(۸۵۶)
لَو تقول سے پاگل۔ نفسانی خوابوں اور الہام والا۔ یا بد ہضمی انجرہ کی شدت و کثرت کی وجہ سے یا شیطانی الہام والا اپنے آپ کو خدا قرار دینے والا۔ یہ لوگ مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔(۸۵۷)
------------------------------------------------------------------------------------------------
(۸۴۷) ست بچن ص۷۳ و روحانی ص۱۹۷،ج۱۰
(۸۴۸) ریویو ص۷۱،۷۲، ج۲ مفہوم
(۸۴۹) صحیح مسلم ص۴۶،ج۲ فی الایمان باب النھی عن الحلف
(۸۵۰) ایضًا ص۴۶،ج۲
(۸۵۱) صحیح بخاری ص۱۲،ج۱ فی الایمان باب الزکاۃ من الاسلام و صحیح مسلم ص۳۰،ج۱ فی الایمان باب بیان الصلوٰۃ التی ھی احد ارکان الاسلام
(۸۵۲) شھادۃ القرآن ص۴۰ و روحانی ص۳۳۷،ج۶ و ازالہ اوہام ص۷۶۲ و روحانی ص۵۱۱،ج۳ تحفہ گولڑویہ ص۲۵ و انجام آتھم ص۱۳۷، نوٹ: (۱) مرزا غلام قادیانی نے کتب حدیث کے تین طبقات بیان کیے ہیں (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳)ترمذی ، ابن ماجہ، موطا امام مالک، سنن نسائی، ابوداؤد، دارقطنی، دوسرے طبقہ کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے کے لیے بخاری و مسلم دونوں کے مخالف ۔ اشتہار مرزا مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۵ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۹،ج۲ و ملحقہ آریہ دھرم ص۸ و روحانی ص۸۶، ج۱۰۔ جب مرزائیوں کے امام و مقتدا کا یہ اصول ہے تو پھر بخاری کی روایت کے بالمقابل صحیح مسلم کی روایت کو پیش کرنا اپنے ہی اصول سے انحراف اور فرار ہے، (۲) مولف مرزائی پاکٹ بک نے مشکوٰۃ ص۳۷۰ سے بحوالہ ابوداؤد یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' ذلک وابی الجوع'' ص۵۶۵ واضح ہو کہ اول تو مذکورہ روایت مرزا جی کے اصول کے خلاف ہے (دوم) یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام بیہقی نے صراحت کی ہے کہ ''وفی ثبوت ہذا الاحادیث نظر'' السنن الکبریٰ ص۳۵۷،ج۹، یعنی اس حدیث کے ثبوت میں کلام ہے۔ ابو صہیب
(۸۵۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،ج۳
(۸۵۴) احمدیہ پاکٹ ص۵۷۱
(۸۵۵) ایضًا ص۵۸۵
(۸۵۶) ایضًا ص۵۸۶
(۸۵۷) مضمون مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مندرجہ، ریویو، مئی ۱۹۲۴ء ص۲۹ تا ۳۰ نوٹ: فاضل جالندھری صاحب نے اپنی تالیف، تفہیمات ربانیہ ص۲۶، میں چار شرائط مزید لگائی ہیں کہ
(۱)مدعی الہام یہ جانتا ہو کہ میں مفتری ہوں (۲) خدا کی ہستی کا قائل ہو (۳) مدعی لفظی الہام کا قائل ہو (۴) مدعی اپنے دعویٰ کو علی الاعلان شائع کرے۔ انتھی ملخصًا
اولاً پہلی شرط کے بارے میں گزارش ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ مرزا جی یہ نہیں جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں جبکہ مرزا کی روش اور ان کی زندگی کے حالات اس بات کا قرینہ ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ میں مفتری ہوں جس کی دلیل یہ ہے کہ مرزا جی فرماتے ہیں کہ:
اگرچہ قرآن و حدیث اور میرے الہامات میں وفات مسیح کا ذکر ہے مگر چونکہ صریح اور واضح نہیں اس لیے میں نے وفات مسیح کو تسلیم نہیں کیا اور حیات مسیح ہی مانتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ صریح اور واضح طور پر وفات مسیح بتائے گا تو تسلیم کرلوں گا اور کامل دس سال تک انتظار کیا، مفہوم ، حمامۃ البشریٰ ص۱۳ و روحانی ص ۱۹۱، ج۷ حالانکہ یہ مرزا کا صریحاً جھوٹ ہے کیونکہ ان دس سال کے بعد قرآن و حدیث اور سابقہ الھامات کے علاوہ جو صریحاً وفات مسیح کا الہام نازل ہوا تھا جس کی وجہ سے مرزا نے حیات کا انکار اور وفات کا اقرار اور دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کیا تھا وہ کونسا ہے یقین جانئے کہ قادیانی اور لاہوری ملکر اور سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود مرزا کا کوئی ایسا الہام ثابت نہیں کرسکتے (یہاں پر، ازالہ اوہام، کے ایک الہام کا ذکر نہ کیجئے گا کیونکہ یہ الہام ۱۸۹۱ء کا ہے جیسا کہ تذکرہ ص۱۸۳ میں اس کی صراحت کردی گئی ہے جبکہ مرزا نے دعویٰ مسیح موعود ۱۸۹۰ء کے آخر میں کیا تھا) لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا خود بھی جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں (۲) مرزا نے ابتدا میں علی الاعلان دعوی نبوت بھی نہیں کیا بلکہ نومبر ۱۹۰۱ء میں کھل کر نبوت کا دعویٰ کیا (جس کی ضروری تفصیل باب ہذا کے حاشیہ ۳۶۸ میں گزر چکی ہے) لیکن اس کے بعد مرزا ۲۳ سال زندہ نہیں رہے۔ ابو صہیب
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات نے کروڑہا انسانوں کو بتوں اور عیسیٰ پرستی اور مخلوق پرستی سے نجات دے کر لا الہ الا اللہ پر قائم کیا۔'' (۸۴۷)
یہ نہیں ہوسکتا کہ انبیاء جو شرک مٹانے آتے ہیں خود شرک میں مبتلا رہیں اس کی تائید مرزا صاحب سے بھی مرقوم ہے جیسا کہ لکھا ہے:
'' اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جبکہ ان (انبیاء) کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کے احکام پر چلادیں تو گویا وہ خدا کے احکام کو عمل درآمد لانے والے ہوتے ہیں اس لیے اگر وہ خود ہی احکام کی خلاف ورزی کریں تو پھر عمل درآمد کرنے والے نہ رہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نبی نہ رہے وہ خدا تعالیٰ کے مظہر اور اس کے اقوال و افعال کے مظہر ہوتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ان کی طرف منسوب بھی نہیں ہوسکتی۔'' (۸۴۸)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا تھا:
(۱) من کان حالفًا فلا یحلف الا باللّٰہ وکانت قریش تحلف بابائھا فقال لا تحلفوا بابائکم ۔ (۸۴۹)
(۲) [ARB]لا تحلفوا بالطواغی ولا بٰابآئکم[/ARB]۔ (۸۵۰)
جواب نمبر ۲:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے مگر الفاظ وَابیہ منقول نہیں ہیں قد افلح ان صدق اور یہی الفاظ مسلم کی ایک روایت میں ہیں قد افْلَحَ اِنْ صَدَقَ (۸۵۱)اور جس حدیث میں یہ الفاظ قد اَفْلَحَ وابیہ ان صدق آئے ہیں اس میں راوی کو خود شک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے یا وہ۔ لہٰذا یہ الفاظ قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ زیادہ صحیح ہیں کیونکہ یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ ایسے نقادِ حدیث نے نقل کئے ہیں اور مرزا صاحب کا یہ فتویٰ ہے کہ:
'' یہ کتاب اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔'' (۸۵۲)
بلکہ مرزا صاحب نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو حدیث بخاری میں نہ ہو وہ ضعیف ہے۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے منارۂ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں:
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (۸۵۳)
لہٰذا یہ الفاظ ( قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ )قابل حجت نہیں، کیونکہ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور صحیح الفاظ یہ ہیں ( قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ ) کیونکہ ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل
لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَ خَذْنَا مِنْہ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لقطعنا منہ الوتین ۔
سکہ اگر یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ کر ان کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ گویا اگر کوئی جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو صداقت کی کسوٹی ہیں، آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی مدعی الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (۸۵۴)بشرطیکہ وہ مجنون نہ ہو (۸۵۵)وہ مدعی الوہیت نہ ہو الخ۔(۸۵۶)
لَو تقول سے پاگل۔ نفسانی خوابوں اور الہام والا۔ یا بد ہضمی انجرہ کی شدت و کثرت کی وجہ سے یا شیطانی الہام والا اپنے آپ کو خدا قرار دینے والا۔ یہ لوگ مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔(۸۵۷)
------------------------------------------------------------------------------------------------
(۸۴۷) ست بچن ص۷۳ و روحانی ص۱۹۷،ج۱۰
(۸۴۸) ریویو ص۷۱،۷۲، ج۲ مفہوم
(۸۴۹) صحیح مسلم ص۴۶،ج۲ فی الایمان باب النھی عن الحلف
(۸۵۰) ایضًا ص۴۶،ج۲
(۸۵۱) صحیح بخاری ص۱۲،ج۱ فی الایمان باب الزکاۃ من الاسلام و صحیح مسلم ص۳۰،ج۱ فی الایمان باب بیان الصلوٰۃ التی ھی احد ارکان الاسلام
(۸۵۲) شھادۃ القرآن ص۴۰ و روحانی ص۳۳۷،ج۶ و ازالہ اوہام ص۷۶۲ و روحانی ص۵۱۱،ج۳ تحفہ گولڑویہ ص۲۵ و انجام آتھم ص۱۳۷، نوٹ: (۱) مرزا غلام قادیانی نے کتب حدیث کے تین طبقات بیان کیے ہیں (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳)ترمذی ، ابن ماجہ، موطا امام مالک، سنن نسائی، ابوداؤد، دارقطنی، دوسرے طبقہ کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے کے لیے بخاری و مسلم دونوں کے مخالف ۔ اشتہار مرزا مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۵ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۹،ج۲ و ملحقہ آریہ دھرم ص۸ و روحانی ص۸۶، ج۱۰۔ جب مرزائیوں کے امام و مقتدا کا یہ اصول ہے تو پھر بخاری کی روایت کے بالمقابل صحیح مسلم کی روایت کو پیش کرنا اپنے ہی اصول سے انحراف اور فرار ہے، (۲) مولف مرزائی پاکٹ بک نے مشکوٰۃ ص۳۷۰ سے بحوالہ ابوداؤد یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' ذلک وابی الجوع'' ص۵۶۵ واضح ہو کہ اول تو مذکورہ روایت مرزا جی کے اصول کے خلاف ہے (دوم) یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام بیہقی نے صراحت کی ہے کہ ''وفی ثبوت ہذا الاحادیث نظر'' السنن الکبریٰ ص۳۵۷،ج۹، یعنی اس حدیث کے ثبوت میں کلام ہے۔ ابو صہیب
(۸۵۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،ج۳
(۸۵۴) احمدیہ پاکٹ ص۵۷۱
(۸۵۵) ایضًا ص۵۸۵
(۸۵۶) ایضًا ص۵۸۶
(۸۵۷) مضمون مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مندرجہ، ریویو، مئی ۱۹۲۴ء ص۲۹ تا ۳۰ نوٹ: فاضل جالندھری صاحب نے اپنی تالیف، تفہیمات ربانیہ ص۲۶، میں چار شرائط مزید لگائی ہیں کہ
(۱)مدعی الہام یہ جانتا ہو کہ میں مفتری ہوں (۲) خدا کی ہستی کا قائل ہو (۳) مدعی لفظی الہام کا قائل ہو (۴) مدعی اپنے دعویٰ کو علی الاعلان شائع کرے۔ انتھی ملخصًا
اولاً پہلی شرط کے بارے میں گزارش ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ مرزا جی یہ نہیں جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں جبکہ مرزا کی روش اور ان کی زندگی کے حالات اس بات کا قرینہ ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ میں مفتری ہوں جس کی دلیل یہ ہے کہ مرزا جی فرماتے ہیں کہ:
اگرچہ قرآن و حدیث اور میرے الہامات میں وفات مسیح کا ذکر ہے مگر چونکہ صریح اور واضح نہیں اس لیے میں نے وفات مسیح کو تسلیم نہیں کیا اور حیات مسیح ہی مانتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ صریح اور واضح طور پر وفات مسیح بتائے گا تو تسلیم کرلوں گا اور کامل دس سال تک انتظار کیا، مفہوم ، حمامۃ البشریٰ ص۱۳ و روحانی ص ۱۹۱، ج۷ حالانکہ یہ مرزا کا صریحاً جھوٹ ہے کیونکہ ان دس سال کے بعد قرآن و حدیث اور سابقہ الھامات کے علاوہ جو صریحاً وفات مسیح کا الہام نازل ہوا تھا جس کی وجہ سے مرزا نے حیات کا انکار اور وفات کا اقرار اور دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کیا تھا وہ کونسا ہے یقین جانئے کہ قادیانی اور لاہوری ملکر اور سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود مرزا کا کوئی ایسا الہام ثابت نہیں کرسکتے (یہاں پر، ازالہ اوہام، کے ایک الہام کا ذکر نہ کیجئے گا کیونکہ یہ الہام ۱۸۹۱ء کا ہے جیسا کہ تذکرہ ص۱۸۳ میں اس کی صراحت کردی گئی ہے جبکہ مرزا نے دعویٰ مسیح موعود ۱۸۹۰ء کے آخر میں کیا تھا) لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا خود بھی جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں (۲) مرزا نے ابتدا میں علی الاعلان دعوی نبوت بھی نہیں کیا بلکہ نومبر ۱۹۰۱ء میں کھل کر نبوت کا دعویٰ کیا (جس کی ضروری تفصیل باب ہذا کے حاشیہ ۳۶۸ میں گزر چکی ہے) لیکن اس کے بعد مرزا ۲۳ سال زندہ نہیں رہے۔ ابو صہیب