• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
نیز مرزا صاحب کو مسلم ہے کہ:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات نے کروڑہا انسانوں کو بتوں اور عیسیٰ پرستی اور مخلوق پرستی سے نجات دے کر لا الہ الا اللہ پر قائم کیا۔'' (۸۴۷)
یہ نہیں ہوسکتا کہ انبیاء جو شرک مٹانے آتے ہیں خود شرک میں مبتلا رہیں اس کی تائید مرزا صاحب سے بھی مرقوم ہے جیسا کہ لکھا ہے:
'' اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جبکہ ان (انبیاء) کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کے احکام پر چلادیں تو گویا وہ خدا کے احکام کو عمل درآمد لانے والے ہوتے ہیں اس لیے اگر وہ خود ہی احکام کی خلاف ورزی کریں تو پھر عمل درآمد کرنے والے نہ رہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نبی نہ رہے وہ خدا تعالیٰ کے مظہر اور اس کے اقوال و افعال کے مظہر ہوتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ان کی طرف منسوب بھی نہیں ہوسکتی۔'' (۸۴۸)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا تھا:
(۱) من کان حالفًا فلا یحلف الا باللّٰہ وکانت قریش تحلف بابائھا فقال لا تحلفوا بابائکم ۔ (۸۴۹)
(۲) [ARB]لا تحلفوا بالطواغی ولا بٰابآئکم[/ARB]۔ (۸۵۰)
جواب نمبر ۲:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے مگر الفاظ وَابیہ منقول نہیں ہیں قد افلح ان صدق اور یہی الفاظ مسلم کی ایک روایت میں ہیں قد افْلَحَ اِنْ صَدَقَ (۸۵۱)اور جس حدیث میں یہ الفاظ قد اَفْلَحَ وابیہ ان صدق آئے ہیں اس میں راوی کو خود شک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے یا وہ۔ لہٰذا یہ الفاظ قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ زیادہ صحیح ہیں کیونکہ یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ ایسے نقادِ حدیث نے نقل کئے ہیں اور مرزا صاحب کا یہ فتویٰ ہے کہ:
'' یہ کتاب اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔'' (۸۵۲)
بلکہ مرزا صاحب نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو حدیث بخاری میں نہ ہو وہ ضعیف ہے۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے منارۂ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں:
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (۸۵۳)
لہٰذا یہ الفاظ ( قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ )قابل حجت نہیں، کیونکہ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور صحیح الفاظ یہ ہیں ( قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ ) کیونکہ ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل
لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَ خَذْنَا مِنْہ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لقطعنا منہ الوتین ۔
سکہ اگر یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ کر ان کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ گویا اگر کوئی جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو صداقت کی کسوٹی ہیں، آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی مدعی الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (۸۵۴)بشرطیکہ وہ مجنون نہ ہو (۸۵۵)وہ مدعی الوہیت نہ ہو الخ۔(۸۵۶)
لَو تقول سے پاگل۔ نفسانی خوابوں اور الہام والا۔ یا بد ہضمی انجرہ کی شدت و کثرت کی وجہ سے یا شیطانی الہام والا اپنے آپ کو خدا قرار دینے والا۔ یہ لوگ مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔(۸۵۷)
------------------------------------------------------------------------------------------------
(۸۴۷) ست بچن ص۷۳ و روحانی ص۱۹۷،ج۱۰
(۸۴۸) ریویو ص۷۱،۷۲، ج۲ مفہوم
(۸۴۹) صحیح مسلم ص۴۶،ج۲ فی الایمان باب النھی عن الحلف
(۸۵۰) ایضًا ص۴۶،ج۲
(۸۵۱) صحیح بخاری ص۱۲،ج۱ فی الایمان باب الزکاۃ من الاسلام و صحیح مسلم ص۳۰،ج۱ فی الایمان باب بیان الصلوٰۃ التی ھی احد ارکان الاسلام
(۸۵۲) شھادۃ القرآن ص۴۰ و روحانی ص۳۳۷،ج۶ و ازالہ اوہام ص۷۶۲ و روحانی ص۵۱۱،ج۳ تحفہ گولڑویہ ص۲۵ و انجام آتھم ص۱۳۷، نوٹ: (۱) مرزا غلام قادیانی نے کتب حدیث کے تین طبقات بیان کیے ہیں (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳)ترمذی ، ابن ماجہ، موطا امام مالک، سنن نسائی، ابوداؤد، دارقطنی، دوسرے طبقہ کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے کے لیے بخاری و مسلم دونوں کے مخالف ۔ اشتہار مرزا مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۵ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۹،ج۲ و ملحقہ آریہ دھرم ص۸ و روحانی ص۸۶، ج۱۰۔ جب مرزائیوں کے امام و مقتدا کا یہ اصول ہے تو پھر بخاری کی روایت کے بالمقابل صحیح مسلم کی روایت کو پیش کرنا اپنے ہی اصول سے انحراف اور فرار ہے، (۲) مولف مرزائی پاکٹ بک نے مشکوٰۃ ص۳۷۰ سے بحوالہ ابوداؤد یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' ذلک وابی الجوع'' ص۵۶۵ واضح ہو کہ اول تو مذکورہ روایت مرزا جی کے اصول کے خلاف ہے (دوم) یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام بیہقی نے صراحت کی ہے کہ ''وفی ثبوت ہذا الاحادیث نظر'' السنن الکبریٰ ص۳۵۷،ج۹، یعنی اس حدیث کے ثبوت میں کلام ہے۔ ابو صہیب
(۸۵۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،ج۳
(۸۵۴) احمدیہ پاکٹ ص۵۷۱
(۸۵۵) ایضًا ص۵۸۵
(۸۵۶) ایضًا ص۵۸۶
(۸۵۷) مضمون مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مندرجہ، ریویو، مئی ۱۹۲۴ء ص۲۹ تا ۳۰ نوٹ: فاضل جالندھری صاحب نے اپنی تالیف، تفہیمات ربانیہ ص۲۶، میں چار شرائط مزید لگائی ہیں کہ
(۱)مدعی الہام یہ جانتا ہو کہ میں مفتری ہوں (۲) خدا کی ہستی کا قائل ہو (۳) مدعی لفظی الہام کا قائل ہو (۴) مدعی اپنے دعویٰ کو علی الاعلان شائع کرے۔ انتھی ملخصًا
اولاً پہلی شرط کے بارے میں گزارش ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ مرزا جی یہ نہیں جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں جبکہ مرزا کی روش اور ان کی زندگی کے حالات اس بات کا قرینہ ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ میں مفتری ہوں جس کی دلیل یہ ہے کہ مرزا جی فرماتے ہیں کہ:
اگرچہ قرآن و حدیث اور میرے الہامات میں وفات مسیح کا ذکر ہے مگر چونکہ صریح اور واضح نہیں اس لیے میں نے وفات مسیح کو تسلیم نہیں کیا اور حیات مسیح ہی مانتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ صریح اور واضح طور پر وفات مسیح بتائے گا تو تسلیم کرلوں گا اور کامل دس سال تک انتظار کیا، مفہوم ، حمامۃ البشریٰ ص۱۳ و روحانی ص ۱۹۱، ج۷ حالانکہ یہ مرزا کا صریحاً جھوٹ ہے کیونکہ ان دس سال کے بعد قرآن و حدیث اور سابقہ الھامات کے علاوہ جو صریحاً وفات مسیح کا الہام نازل ہوا تھا جس کی وجہ سے مرزا نے حیات کا انکار اور وفات کا اقرار اور دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کیا تھا وہ کونسا ہے یقین جانئے کہ قادیانی اور لاہوری ملکر اور سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود مرزا کا کوئی ایسا الہام ثابت نہیں کرسکتے (یہاں پر، ازالہ اوہام، کے ایک الہام کا ذکر نہ کیجئے گا کیونکہ یہ الہام ۱۸۹۱ء کا ہے جیسا کہ تذکرہ ص۱۸۳ میں اس کی صراحت کردی گئی ہے جبکہ مرزا نے دعویٰ مسیح موعود ۱۸۹۰ء کے آخر میں کیا تھا) لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا خود بھی جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں (۲) مرزا نے ابتدا میں علی الاعلان دعوی نبوت بھی نہیں کیا بلکہ نومبر ۱۹۰۱ء میں کھل کر نبوت کا دعویٰ کیا (جس کی ضروری تفصیل باب ہذا کے حاشیہ ۳۶۸ میں گزر چکی ہے) لیکن اس کے بعد مرزا ۲۳ سال زندہ نہیں رہے۔ ابو صہیب
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
الجواب الاوّل
مصنف مرزائی پاکٹ بک نے دلیل مذکورہ کی تائید میں بعض مفسرین کے اقوال بھی پیش کئے ہیں اور شرح عقائد نسفی و ابن قیم کی تحریرات بھی پیش کی میں جن میں اکثر جگہ خیانت مجرمانہ سے کام لیا ہے۔ مگر ہم سردست اس بحث کو چھوڑتے ہیں کیونکہ علمائے امت کے اقوال کا اگر وہی مطلب ہو جو مرزائی لیتے ہیں تو بھی انہیں مفید اور ہمیں مضر نہیں۔ کیونکہ ہمارا اور ان کا مسلمہ ہے کہ اقوال الرجال حجت شرعی اور لائق استناد نہیں ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب تو اس بارے میں اس قدر بے باک واقع ہوئے ہیں کہ لکھتے ہیں:
(ا) امت کا کورانہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے۔ (۸۵۸)
(ب) تفسیر کی کتابوں میں چھ چھ سات سات اقوال متضادہ ہیں۔ (۸۵۹)
اب رہا اصل دلیل کا معاملہ سو بالکل واضح ہے یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے اور آپ ہی اس کے مخاطب ہیں۔ اس کی نظیر وہ آیت ہے جس میں ارشاد ہے:
{ وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ وَاِذًا لَّا تَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً۔ وَ لَوْ لااَآ اَنْ ثَبَّتْنکَاٰالَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلااًا۔ اِذًا لَّااَذَقْنکَاٰا ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لااَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا }(۸۶۰)
یعنی وہ کافر تو تجھے وحی الٰہی کے خلاف لے جانے میں کوشاں ہیںجو ہم نے تجھ پر اتاری ہے تاکہ تو ہم پر افترا کرے اور وہ تجھے اس صورت میں دوست بنا لیتے۔ اگر ہم تجھے ثابت قدم نہ رکھتے تو آجاتا ان کے داؤ میں۔ اندریں صورت ہم تجھے دنیا و آخرت میں دوگنا عذاب چکھاتے اور کوئی شخص بھی تجھے ہم سے نہ بچا سکتا۔
پس جس طرح اس آیت میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں اسی طرح مرزائیوں کی پیش کردہ آیت بھی مخصوص ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو خدا تعالیٰ نے جملہ مخلوق سے بزرگ و برتر مراتب پر فائز کیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں نبوت کی آپ پر تمام کردی ہیں اور دنیا کی کوئی خوبی نہیں جو آپ میں جمع نہیں کی گئی۔ باوجود اس کے بھی اگر آپ خداپر افترا کریں اور خدا کی بھیجی ہوئی وحی میں ''بعض'' افتریات ملا دیں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم آپ کی قطع و تین کردیں۔
اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ شخص جو پرلے سرے کا دجال و کذاب ہے اور خدا کی رحمت سے ہزارہا کوس دور۔ زمرۂ شیاطین کا سرتاج جس پر خدا نے اپنی رحمت و انعاماتِ روحانیہ کا قطرہ بلکہ قطرے کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ڈالا ہے۔ وہ اگر اپنی خباثت طبعی کے زیر اثر خدا پر افترا کرے تو خدا اسے ہلاک کردے گا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اکثر طور پر ضلالت و گمراہی کے بدترین فرزندوں کو جو مفتری علی اللہ اور روحانیت سے کورے دنیا جیفہ کے طالب، مدعیان کاذب ہوں، ان کو کبھی کبھی ڈھیل دیتا ہے:
{ قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لااَا یُفْلِحُوْنَ۔ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیْقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْن }(۸۶۱)
''کہہ! جو لوگ خدا پر جھوٹ افترا کرنے والے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے۔ ہاں انہیں دنیا میں بیشک فائدہ ہے۔ مگر جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم انہیں عذابِ شدید میں مبتلا کریں گے۔ ''
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی علی اللّٰہِ کَذِبًا او کذب بالحق لَمَّا جَائَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَھَنمَّ مثوی لِلْکٰفِرِیْنَ ۔ (۸۶۲)
اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے کہ وہ خدا پر افترا کرے، یا سچائی کی تکذیب کرے (یہ مت سمجھنا کہ ان کا یہ ظلم بالا بالا جائے گا) کیا کفاروں کا ٹھکانا جہنم نہیں؟ یعنی یہ ظالم جہنم میں ڈالے جائیں گے :
{ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَراٰاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ }(۸۶۳)
لا ریب وہ بڑا ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھ پر وحی ہوتی ہے حالانکہ نہ ہوتی ہو۔ اے نبی تو دیکھے ان کی درگت بنتی جب ہوتے ہیں یہ موت کی بیہوشی میں اور فرشتے پھیلا رہے ہاتھ کہ نکالو اپنی جانوں کو آج بدلہ ملے گا تم کو عذاب ذلیل کرنے والا بسبب اس کے کہ تم خدا پر جھوٹ باندھتے تھے :
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفلحُوْن مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَلَھَمْ عذاب الیم }(۸۶۴)
تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے انہیں نفع تھوڑا ہے عذاب دردناک قُلْ مَنْ کان فے الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہٗ الرَّحْمٰنُ مَدّاً۔ حَتی اِذَا رَأَوْا مَا یُوْعَدُونَ ۔(۸۶۵)کہہ دے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم گمراہی کے مجسمول کو بعض اوقات خدا تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس عذاب موت تک پہنچ جائیں جس کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے!
-----------------------------------------------------------------------------------
(۸۵۸) ازالہ اوہام ص۱۴۲ و روحانی ص۱۷۲، ج۳
(۸۵۹) ایضاً ص۵۵۲ و روحانی ص۳۹۷ ج۳
(۸۶۰) پ۱۵ بنی اسرائیل آیت ۹ تا ۷۴ تا ۷۹
(۸۶۱) پ۱۱ یونس آیت ۷۰ تا ۷۱
(۸۶۲) پ ۲۱ العنکبوت آیت ۶۹
(۸۶۳) پ۷ الانعام آیت ۹۴
(۸۶۴) پ۱۴ النحل آیت نمبر ۱۱۷، ۱۱۸
(۸۶۵) پ۱۶ مریم آیت ۷۶
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مختصر یہ کہ ان اور ان جیسی دیگر کئی آیات سے عیاں ہے کہ مدعیان نبوت کاذبہ اور مفتریان علی اللہ اخوان الشیاطین کو بجہت قانون مقررہ مرنے کے بعد سزا ملتی ہے الا ماشاء اللہ۔ ایک ابلیس لعین ہی کو دیکھئے کہ اس کو قیامت تک ڈھیل دی گئی ہے۔
جواب دوم
اس کو بھی چھوڑئیے۔ آئیے ہم بطور فرض محال مان لیتے ہیں کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا الایۃ عام ہے جو ہر مفتری مدعی نبوت کو شامل ہے تو بھی مرزا صاحب بہ اصولِ خود اس آیت کی رُو سے کاذب ثابت ہوتے ہیں ناظرین بغور سنیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ آیت مدعیان نبوت کے بارے میں ہے۔
۱۔ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے اب اس کے مقابل پر یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یا روشن دین جالندھری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے اور وہ الہام پیش کرنا چاہیے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔ غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہیے کہ کونسا کلام الٰہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہیے کہ جو تئیس برس تک کلام الٰہی اس پر نازل ہوتا رہا وہ کیا ہے؟ جب تک ایسا ثبوت نہ ہو تب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا شریر لوگوں کا کام ہے۔(۸۶۶)
۲۔ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افترا کرکے تئیس برس تک مہلت پاسکے ضرور ہلاک ہوگا۔ (۸۶۷)
۳۔ صادقوں کا پیمانۂ عمر (تئیس سال) کاذب کو نہیں ملتا۔(۸۶۸)
۴۔ اے مؤمنو اگر تم ایک ایسے شخص کو پاؤ جو تئیس برس تک وحی الٰہی پانے کا دعویٰ کرتا رہا تو یقینا سمجھو کہ وہ خدا کی طرف سے ہاں اس بات یا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے تئیس برس کی مدت حاصل کرلی ہے۔(۸۶۹)
تحریراتِ مذکورہ سے ثابت ہے کہ یہ آیت مدعی نبوت کے دعویٰ سے مخصوص ہے اور زمانہ میعاد ۲۳ سال ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کب کیا اور اس کے بعد کے سال زندہ رہے۔ سو ہمارے مخاطبین قادیانی مرزائیوں کو مسلم ہے کہ:
'' تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست ۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی آپ مرزا صاحب کا یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے (۱۹۰۲ء) کے بعد میں آپ (مرزا) کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں۔'' (۸۷۰)
عبارت مرقومہ بالا سے صاف ظاہر ہے کہ مرزا نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۲ء میں کیا اس کے بعد آپ ۱۹۰۸ء میں مر گئے۔ یعنی بعد نبوت صرف ۶ سال کے قریب زندہ رہے حالانکہ اگر وہ صادق ہوتے تو لازمی تھا کہ وہ تئیس سال دعویٰ نبوت کے بعد زندہ رہتے چنانچہ ہم ان کا قول نقل کر آئے ہیں کہ:
'' ہرگز ممکن نہیں کہ جھوٹا تئیس برس مہلت پاسکے ضرور ہلاک ہوگا۔'' (۸۷۱)
ناظرین کرام! اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب نے بہت سے مغالطے اور بکثرت کذب بیانیاں کی ہیں۔ کہیں اس آیت کو عام مدعیان الہام کے بارے میں لکھا ہے اور کہیں خاص مدعیان نبوت کے حق میں کہیں مفتری کی سزا طبعی موت بتائی اور کہیں قتل، کہیں دست بدست اور جلدی فوراً مفتری کا مارا جانا قانون قرار دیا اور کہیں مدت ۲۳ سال مقرر کی پھر کسی جگہ ۱۱ سال لکھی تو کسی جگہ ۱۲ سال۔ کہیں ۱۴ سال کہیں سولہ سال کہیں ۲۰ سال کہیں ۲۳ سال کہیں ۲۴ سال کہیں ۲۵ اور کہیں ۳۰ بلکہ اس سے بھی زیادہ میعاد بتائی۔
اسی طرح اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق بنانے کو کتنی جگہ ایک ہی سال کی تصنیفات میں کہیں اپنی عمر ۲۰ سال لکھی ہے دوسری طرف اسی سال کی دیگر کتب میں ۲۵ سال۔ آج اگر ۱۱ سال لکھی تو چند دن بعد ۲۰ سال پھر لطف یہ کہ اس کے تھوڑا عرصہ بعد صرف ۱۵،۱۶ سال عمر بتائی غرض کئی ایک اس طرح کے فریب کھیلے ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------
(۸۶۶) ضمیمہ اربعین ۳،۴ ص۱۱ و روحانی ص۴۷۷، ج۱۷
(۸۶۷) اربعین نمبر ۴، ص۵ و روحانی ص۴۳۴، ج۱۷
(۸۶۸) ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴ ص۲ و روحانی ص۴۶۸، ج۱۷ ملخصاً
(۸۶۹) اربعین نمبر ۳ ص۲۲ و روحانی ص۴۰۹، ج۱۷
(۸۷۰) القول الفصل ص۲۴، نوٹ، حقیقت یہ ہے کہ مرزا نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ میں کہا تھا اور مرزا محمود نے بھی بعد میں مرزائی محمد علی لاہوری کے اعتراض کرنے پر، حقیقت النبوۃ ص۱۲۴، میں القول الفصل کی مذکورہ عبارت کی تردید کردی تھی۔ ابو صہیب
(۸۷۱) اربعین نمبر ۲، ص۵ و روحانی ص۴۳۴، ج۱۷
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
جوابِ سوم
بفرض محال یہ آیت عام ہو تو بھی مرزا صاحب اس کے مصداق اس وجہ سے نہیں بن سکتے کہ وہ مراقی ہیں اور بقول مولوی نور الدین خلیفہ اول قادیان مراق ایک شعبہ جنون کا سا ہے۔ ماسوا اس کے مرزا صاحب متخالف الاقوال شخص کو پاگل اور مجنون فرماتے ہیں۔ (۸۷۲)اور ان کے اقوال میں صدہا اختلاف ہیں۔
نیز انہوں نے خدائی کا دعویٰ بھی کیا ہے جیسا کہ ثبوت دیا جا چکا پس وہ افترا کی سزا سے باہر ہیں کیونکہ مصنف مرزائی پاکٹ بک مولوی، اللہ دتا احمدی وغیرہ کا اقرار ہے کہ ایسا شخص لو تقول کی سزا کا مستحق نہیں اگر کہا جائے کہ مرزا کا دعویٰ خدائی خواب ہے تو جواب یہ ہے تم مرزا کو نبی مانتے ہو اور خود تمہیں مسلم ہے کہ رؤیا النبی وحی۔ (۸۷۳)
ایسا ہی مرزا صاحب نے بھی لکھا ہے۔ (۸۷۴)
'' پیغمبر کا کشف اور خواب وحی ہے۔''
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
جواب چہارم
یہ استدلال کہ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال تک زندہ رہنے والا سچا نبی ہوتا ہے ابھی درست نہیں۔ کیونکہ اس قاعدے کا ذکر قرآن شریف نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ۲۳ سال کے الفاظ قرآن مجید سے نکال سکتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد زندہ رہے تو یہ عمر مقدر کی وجہ سے ہے اس سے عام قاعدہ مستنبط نہیں ہوسکتا۔ قادیانیوں کا یہ استدلال اس لیے بھی غلط ہے کہ کفار بنی اسرائیل نے جو حضرت یحییٰ نبی اللہ علیہ السلام کو قتل کیا تھا تو وہ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال گزر جانے کے بعد قتل کیا تھا یا پہلے۔ اگر بعد قتل کیا گیا تھا تو اس کی سند درکار ہے جو نہیں ملے گی۔ بلکہ اس کے برخلاف ثابت ہے کہ آپ دعویٰ نبوت کے تھوڑے عرصہ بعد ہی قتل کردئیے گئے تھے اور اگر ۲۳ سال سے پہلے قتل ہوئے تھے جو بالکل درست ہے۔ تو مرزائیوں کو دو باتوں میں سے ایک بات ضروری ماننی پڑے گی۔ یا تو معاذ اللہ حضرت یحییٰ نبی صادق نہ ہوں گے یا قادیانیوں کا قاعدہ غلط ہوگا۔ چونکہ حضرت یحییٰ معاذ اللہ جھوٹے نبی ہرگز نہ تھے لہٰذا قاعدہ بالکل غلط ہے۔
----------------------------------------
(۸۷۲) ست بچن ص ۳۰ و روحانی ص۱۴۲، ج۱۰
(۸۷۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۵۱ طبعہ ۱۹۴۵ و ص۴۲۷ طبعہ ۱۶۳۲ء

(۸۷۴) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۹۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
جواب پنجم
اگر یہ غلط استدلال بفرض محال صحیح ہو تو پھر بہاؤ اللہ سچا ہے کیونکہ وہ بعد از دعویٰ چالیس سال تک زندہ رہا۔
۱۔ حضرت بہاء اللہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۱۲۶۹ھ میں کیا۔ اور آپ ۱۳۰۹ھ تک زندہ رہے۔ (۸۷۵)
۲۔ حضرت بہاء اللہ کا یہ دعویٰ تھا کہ مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔ (۸۷۶)
۳۔ حضرت بہاء اللہ بعد از دعویٰ وحی چالیس سال تک زندہ رہے آپ اپنے دعویٰ پر اخیر دم تک قائم رہے۔ (۸۷۷)
مرزائیوں کی تیسری دلیل
یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَائَ ھُمْ کہ نبی کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹے کو۔ گویا جس طرح بیوی کی پاکیزگی خاوند کے لیے اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا اسی کا بچہ ہے اسی طرح مدعی نبوت کی قبل از دعویٰ پاکیزگی اس کی صداقت پر دلیل ہوتی ہے۔(۸۷۸)
الجواب
اس استدلال میں مرزا صاحب نے یہود نا مسعود سے بھی بڑھ کر تحریف و دجالیت سے کام لیا ہے۔ آیت کا سیاق و سباق یہ ہے کہ جب حضور علیہ السلام کو بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو سفہاء مکہ نے اس پر اعتراض کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِم الایۃ اور بلاشبہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ تغیر و تنسیخ قابلِ اعتراض نہیں کتب سابقہ اس پر شاہد ہیں کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر اور کبھی سزا کے طور پر اور کبھی ابتلا کے طور پر احکام جدید بھیجا کرتا ہے پس اس معاملہ میں بھی وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔ اب رہے ضدی متمرد شخص سو اگر تو دنیا جہان کی نشانیاں اور دلائل بھی ان کے رو برو پیش کرے مَا تبعوا قبلتک نہ چلیں تیرے قبلے پر اور نہ پیروی کر تو ان کے (منسوخ شدہ) قبلے کی۔ اگر تُو نے بعد اس کے بھی ان کی ہوائے نفسانی کی اتباع کی تو بیشک تو بے انصاف ہوگا الذین اتینھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم الایۃ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو (اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کی کتابوں میں مرقوم و موجود ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک اور شریعت آنے والی ہے) مگر افسوس سے ان کی حالت پر کہ وَاِنَّ فِریقًا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون الحق من ربک فلا تکون من المُمْتَرِیْنَ (۸۷۹) کہ ایک فریق باوجود جاننے بوجھنے کے صدا حق کو چھپا رہا ہے ان کی اس کج ردی پر دھیان نہ کرو۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے سو تم ان شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔ ایسا ہی کفار کے جواب میں دوسری جگہ فرمایا: اَ فَمَنْ کَانَ عَلٰی بینتہ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتاب موسی اماماً ورحمۃ اولئک یؤمنون بہ الی فلا تکن فی مریۃ منہ انہ الحق من ربک الآیۃ بھلا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلے کھلے دلائل پاچکا ہے کہ وہ دلائل آپ اپنی صداقت پر گواہ ہیں پھر موسیٰ علیہ السلام کی کتاب بھی اس کی سچائی پر راہنما ہے (وہ کیسے شک کرسکتا ہے لاریب جو صاحب عقل و علم واقف تورات و انجیل ہیں) وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ پس تو کسی قسم کے شبہ میں نہ پڑ بیشک وہ خدا کی طرف سے سچ ہے۔(۸۸۰)
ناظرین کرام! یہ ہے تفسیر القرآن بالقرآن یعنی اس آیت میں قرآن مجیدکو بیٹوں کی طرح پہچاننے کا ذکر ہے۔ مگر مرزائی محرف نے اس کو یہود کی طرح اُلٹ پلٹ دیا۔
دوسرا جواب
بعض مفسرین رَحِم اللّٰہُ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ نے اس آیت یَعْرِفُوْنَہٗ کی ضمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیری ہے یعنی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو۔ اس صورت میں بھی مطلب واضح ہے ارشاد الٰہی ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یجدونہ مکتوبا عندھم فی التَّوْرٰۃ والانجیل الآیہ ہے۔(۸۸۱) وہ لوگ جو تابعداری کرتے ہیں اس رسول اَن پڑھ کی (محض تقلیداً یا کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ) وہ لکھا ہوا پاتے ہیں تورات و انجیل میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
حدیث میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کا قرض دینا تھا۔ اس نے ایک دن مانگا حضور نے کہا کہ اس وقت موجود نہیں۔ اس نے سختی کی یہاں تک کہ صحابہ کرام میں سخت غم و غصہ اور رنج کی لہر دوڑ رہی تھی حضور نے انہیں فرمایا کہ اس پر ہاتھ اٹھانا بڑا ظلم ہے مجھے خدا نے اس سے منع فرمایا ہے۔ یہ سن کر وہ یہودی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اور اپنی ساری جائیداد میں سے آدھی اللہ کی راہ میں وقف کردی۔ پھر اپنی اس سختی اور انتہائی تقاضا کا سبب بیان کیا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ: لا نظر الی نعتک فی التوراۃ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکۃ ومھاجرہ بطیبۃ وملکہ بالشام لیس بفظ ولا غلیظ ولا سخاب فی الاسواق ولا متزی بالفحش ولا قول الخنا ۔ (۸۸۲)
تا امتحان کروں میں ان امور میں آپ کا جو تورات میں مذکور میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ولادت اس کی مکہ شریف، ہجرت گاہ طیبہ مقدسہ مملکت شام میں ہوگی نہ وہ بد زبان ہے۔ نہ سخت دل، نہ بازاروں میں چلانے والا، نہ فحش گو، نہ بیہودہ قول کا قائل۔
اندریں حالات مطلب آیت کا یہ ہے کہ بعض یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بوجہ لکھا ہوا ہونے تورات میں خوب جانتے ہیں۔ مگر تعصب کی راہ سے حق سے اعراض کرتے ہیں۔ پس اس آیت سے خواہ مخواہ پاکیزہ زندگی کی طرف اشارہ نکالنا یہودیانہ تحریف ہے بحالیکہ خود مرزائیوں کا بنی صاف صاف لکھ گیا ہے کہ:
'' پاک زندگی اگر ہو بھی تو پھر بھی دلیل صداقت نبوت نہیں۔''
-----------------------------------------------------
(۸۷۴) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۹۲
(۸۷۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴
(۸۷۶) کتاب الفرائد ص۲۵ والحکم جلد ۸ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۴ء ص۱۹و ادعیہ محبوب ص۲۸ والحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴
(۸۷۷) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴، ایضاً ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۴ء ص۱۹ وکتاب الفرائد ص۲۵،۲۶
(۸۷۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۵ طبعہ ۱۶۳۲
(۸۷۹) پ۳ البقرہ رکوع نمبر ۱
(۸۸۰) پ۱۲ ھود آیت نمبر ۱۷
(۸۸۱) پ۹ الاعراف آیت نمبر ۱۵۷
(۸۸۲) دلائل النبوۃ للبیھقی والحاکم ف المستدرک ص۶۰۵، ج۳ وقال صحیح الاسناد و وافق الذھبی ومشکوٰۃ ص۵۲۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
تیسرا جواب خود مرزا صاحب کی تحریر سے
مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امیت ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہوچکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلتا ہے وہ کسی امی اور ناخواندہ کا کام نہیں جو ان میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کرچکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور ان پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا : یَعْرِفُوْنَہٗ کَما یعرفون ابناء ھم یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو۔'' (۸۸۳)
برادران مرزا صاحب کی اس تحریر کو بغور پڑھیے۔ پھر اس کے بعد مرزائی پاکٹ بک کے مصنف کی یہودیانہ تحریف اور دجالانہ دلیل بازی کو ملاحظہ فرمائیے۔ آپ پر صاف عیاں ہو جائے گا کہ اس فرقہ کے تمام چھوٹے بڑے ایمان و دیانت سے دور۔ حق و انصاف کے دشمن۔ عدل و ایمان سے عاری۔ محض دنیا کے بندے ہیں۔ خدا ان سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین
مرزائیوں کی چوتھی دلیل
یَا صَالِحُ قَدْ کَنْتَ فِینَا مَرْجُوَّا قَبْلِ ھٰذَا کہ جب حضرت صالح علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ اے صالح علیہ السلام آج سے پہلے تیرے ساتھ ہماری بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ تجھ کو کیا ہوگیا کہ تو نبی بن بیٹھا۔ گویا جب نبی دعویٰ نہیں کرتا قوم اس کی مداح ہوتی ہے مگر جب دعویٰ کر دیتا ہے تو کَذَّابٌ اَشِرٌ کہنے لگ جاتے ہیں۔ (۸۸۴)
الجواب:
بیشک اکثر انبیاء کرام ابتدا سے ہی قوم کی امید گاہ ہوئے ہیں اکثر کا لفظ ہم نے اس لیے لکھا ہے کہ بعض انبیاء کی پیدائش کے وقت ہی ان پر بدظنی کی گئی ہے جیسا کہ مسیح کے ساتھ ہوا۔ مثل مشہور ہے کہ '' ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات'' لوگ ابتدا سے ہی مخالف کیوں نہ ہوں مگر اللہ والوں میں شروع سے رشد و ہدایت کا اظہار ہوتا ہے ہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعض بد انجام لوگوں سے ابتدا امیدیں وابستہ نہیں ہوتیں۔ دنیا کے ہر ایک نیک و بد کے بچپن میں اس کے حوالی موالی، خویش و اقربا، ماں باپ، اس سے نیک امیدیں رکھتے ہیں۔ مگر کیا سب نیک ہی ہوتے ہیں؟ نہیں بعض نیک اور بعض آخری درجہ کے چھٹے ہوئے بدمعاش نکلتے ہیں۔ بعض شریف طبع، بعض بد اخلاق، بعض سعید، بعض شقی، عام کی امیدوں کا تو کیا ذکر۔ آئیے ہم کتب مرزا سے اس کی مثالیں پیش کریں۔ ملاحظہ ہو مرزا صاحب جو مدعی نبوت تھے جن کا ہر قول و فعل، ہر حرکت و سکون بقولِ خود تصرفِ قدرت کے تحت تھا، بعض لوگوں کے بارے میں یہ امید رکھتے تھے:
۱۔ '' خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ان کے چہرہ پر نیک بختی کے نشان پاتا ہوں۔''(۸۸۵)
۲۔ '' محمد علی صاحب ایم اے پلیڈر ہیں۔ ان کے آثار بہت عمدہ پاتا ہوں۔ الخ'' (۸۸۶)
۳۔ ' ' ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کو اصحابِ بدر کی طرح قرار دے کر تین سو تیرہ اصحابیوں میں داخل کیا۔'' (۸۸۷)
۴۔ میر عباس علی لدھیانوی کے متعلق تو الہام اتارا کہ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء ۔(۸۸۸)
قادیانی احمدی دوستو! یہ چاروں شخص جن سے تمہارے نبی کی بہت سی عمدہ رائیں اور امیدیں تھیں حق پر رہے؟ پہلے دو صاحب تو مدعی نبوت کو دجال کذاب کہنے میں ہمارے ہمنوا اور دوسرا صاحب مرزا صاحب پر انگلی رکھ کر انہیں جھوٹا قرار دے گئے۔ حالانکہ یہ سب ایک '' نبی اللہ'' کے ممدوح تھے۔ پھر اگر بعض عوام مسلمانوں نے مرزا صاحب کی ابتدا منافقانہ سعادت سے دھوکہ کھا کر انہیں نیک کہا تو کیا وہ در حقیقت نیک ہو جائیں گے۔ واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون ۔(۸۸۹)
تیری تکذیب کی شمس و قمر نے
ہوا تیرا خراب انجام مرزا

---------------------------
(۸۸۳) براھین احمدیہ ص۴۹۵ تا ۴۹۶ ج۴ و روحانی ص۵۹۰، ج۱ و تفسیر مرزا ص۲۱۲، ج۲
(۸۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۶ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۸۸۵) ضمیمہ انجام آتھم ص۳۱ و روحانی ص۳۱۵، ج۱۱
(۸۸۶) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۸، ج۲ و تبلیغ رسالت ص۶۸ ج۸
(۸۸۷) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۳ نمبر ۱۵۹ و روحانی ص۳۲۷، ج۱۱ نوٹ، مرزا ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب مرحوم کے بارے میں لکھتا ہے کہ جواں صالح ہے علامات رشد و سعادت اس کے چہرے سے نمایاں ہیں زیرک اور فہیم آدمی ہے امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کئی خدمات اسلام ان کے ہاتھ سے پوری کرے گا، ازالہ اوہام ص۸۰۸ و روحانی ص۵۳۷، ج۳۔ ابو صہیب
(۸۸) ازالہ اوہام ص۷۹۱ و روحانی ص۵۲۸، ج۳ و حقیقت الوحی ص۲۹۴ و روحانی ص۳۰۷ ج۲۲ و مکتوب مرزا مندرجہ تذکرہ ص۵۸
(۸۸۹) پ۲۸ المنٰفقون آیت نمبر ۱
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیوں کی پانچویں دلیل!
مرزا صاحب کی دو کتب اعجاز المسیح و اعجاز احمدی کا بے نظیر ہونا بتایا ہے۔ (۸۹۰)
الجواب:
اعجاز المسیح کے متعلق مرزا صاحب نے دعویٰ کیا تھا۔ یہ میں نے ستر دن میں لکھی ہے۔ اور اعجاز احمدی پانچ دن میں اس کا جواب بھی میعادی مانگا تھا۔ ہمارا اس پر اعتراض یہ ہے کہ نہ تو مرزا صاحب نے اعجاز المسیح ستر دن میں تالیف کی تھی اور نہ اعجازِ احمدی پانچ دن میں یہ بالکل جھوٹ اور افترا اور دھوکا ہے۔ بھلا یہ کیا دلیل ہے کہ آپ تو سالہا سال کی مدت میں قصائد لکھیں یا کسی سے لکھوائیں۔ مگر مخالفوں سے ستر دن اور ۵ دن کی میعاد کے اندر جواب طلب کریں۔ کہا جاتا ہے کہ قصیدہ اعجازِ احمدی مباحثہ مد کے بعد کی تصنیف ہے جیسا کہ اس کے مضمون میں اس مباحثہ کا ذکر ہے۔ اور یہ مباحثہ ۲۹،۳۰؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ہوا تھا۔ اور قصیدہ ۱۲؍ نومبر ۲ء تک تیار ہوگیا تھا۔(۸۹۱) جواباً گزارش ہے کہ اس لحاظ سے بھی اگر مرزا صاحب کا یہ بیان سچا سمجھا جائے کہ موضع مد سے ۲؍نومبر کو ہمارے دوست (مولانا ثناء اللہ سے شکست کھا کر۔ ناقل) قادیان میں پہنچے اور ۷؍ نومبر۲ء میں ایک گواہی کے لیے کچہری میں گیا تھا۔(۸۹۲) تو بھی ۳؍ نومبر سے ۱۲ نومبر تک ۱۰ دن ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک دن کچہری جانے کا نکال دیں تو ۹ دن باقی رہے۔ پس پانچ دن میں کہنا صریح جھوٹ ہے مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ ۸ نومبر کو میں نے لکھنا شروع کیا تھا بے ثبوت بات ہے اور ہم اس میں مرزا صاحب کو سچا نہیں مانتے۔ خیر یہ تو مرزا صاحب کی دروغ گوئی کا ذکر تھا۔
قصیدہ اعجاز احمدی عربی و اردو ہر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ عربی اشعار ۵۳۳ ہیں جن میں سے صرف ۹۰ شعر ایسے ہیں جن میں مباحثہ مد کا ذکر ہے ان سب میں اگر صرف معمولی سا لفظی تغیر نہ مانا جاوے تو انہیں مباحثہ مد کے بعد تصنیف شدہ کہا جاسکتا ہے۔ مگر باقی کے ۴۴۳ اشعار میں نہ تو اس مباحثہ کا ذکر ہے۔ نہ مولانا ثناء اللہ مخاطب بلکہ ان میں سے ۳،۴ حصہ تو اپنی خود ستائی سے بھرا ہوا ہے اور ۱،۴ حصہ مخالفین کو گالی گلوچ ائمہ مطہرین مثل حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کی توہین سے پُر ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ سب کے سب اشعار مباحثہ مد کے پہلے سے تیار کئے ہوئے ہیں۔ جن میں بعد کو کچھ اشعار مباحثہ مد کے ساتھ ملا کر دنیا کو دھوکا دیا گیا۔
احمدی دوستو! بتلاؤ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ سب شعر بعد مباحثہ لکھے گئے؟ ہمارا یہ اعتراض ایسا ہے جس کی اہمیت خود مرزا صاحب کو مسلم ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
'' مولوی ثناء اللہ صاحب سے اگر صرف کتاب اعجاز المسیح کی نظیر طلب کی جائے تو وہ اس میں ضرور کہیں گے کہ کیونکر ثابت ہو کہ ستر دن کے اندر یہ تالیف کی گئی ہے۔ اگر وہ یہ حجت پیش کریں کہ یہ دو برس میں بنائی ہے ہمیں بھی دو برس کی مہلت ملے۔ تو مشکل ہوگا کہ ہم صفائی سے ان کو ستر دن کا ثبوت دے سکیں۔'' (۸۹۳)
ناظرین کرام! مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے دو کتابیں بطور اعجاز پیش کی تھیں۔ جن میں سے ایک کی ''ٹانگ'' خود مرزا صاحب نے توڑ دی اور دوسری کی کمر ہم توڑ دیتے ہیں کہ اعجاز احمدی کا وہ حصہ جس میں مباحثہ کا ذکر نہیں پہلے کی تالیف ہے اور یقینا ہمارے اس اعتراض کا جواب دینا بشرطیکہ احمدی صاحبان میں حیا ہو۔ بقول مرزا صاحب ''مشکل'' ہے۔ فلہ الحمد
-----------------------------------------------------------------------
(۸۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۹۴
(۸۹۱) اعجاز احمدی ص۳۶ و روحانی ص۱۴۶، ج۱۹
(۸۹۲) ایضًا ص۸۹ و روحانی ص۲۰۳، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۳۷۸ ج۳
(۸۹۳) ایضًا ص ۳۵ و روحانی ص ۱۴۶، ج۱۹
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دوسری طرز سے
برادران اعجاز احمدی کے دو حصے ہیں۔ ایک عربی جس کا ذکر ہوچکا ، دوسرا اردو جو ۳۹ صفحات کا مضمون ہے۔ مرزا صاحب نے ۲۰ دن کی میعاد میں عربی اردو دونوں حصوں کا جواب مانگا ہے وہ بھی اس طرز میں کہ '' کوئی بات رہ نہ جائے۔'' (۸۹۴)پھر کمال یہ کہ ۲۰ دن صرف جواب لکھنے کے لیے نہیں بلکہ لکھ کر اور چھپوا کر مرزا صاحب کے پاس پہنچا دینے کے لیے۔ صاحبان اتنے سے ہی مرزا کی اعجاز نمائی پر مطلع ہوسکتے ہیں۔ بیس روز کی قلیل مدت میں تین چار کام کیسے ہوں۔
(۱) تصنیف کتاب مع قصیدہ طویلہ عربیہ (۲) کاتب کی کتابت (۳) مطبع کا فعل طباعت (۴)تہ بندی و سلائی (۵) مرزا صاحب کے پاس پہنچانے کے لیے ڈاک خانہ کے دن جو خود مرزا صاحب نے ''تین دن'' مانے ہیں۔ (۸۹۵)
بھائیو! انصاف کیجئے کہ مرزا صاحب کا یہ مقابلہ مخالف علماء سے تھا یا کہ کاتب اور پریس سے بھی؟ غور کرو کہ اگر ایک مصنف بڑا جلد نویس ہو تو بھی ایک ایسے مضمون کا لکھنا جس میں مخالف کی باتوں کا اور اس کی پیشگوئیوں وغیرہ کا جواب اسی کی کتابوں کو دیکھ بھال کر دینا ہو بڑے سے بڑا پانچ صفحات روزانہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ فرض کے طور پر دس صفحات روزانہ بھی شمار کریں تو ۹ دن میں کتاب تیار ہوئی۔ اب کاتب کی باری آئی ۔ بتلائیے وہ ۲۰،۲۶ تقطیع کے نوے صفحات کتنے دنوں میں لکھے گا؟ بڑا تیز نویس ہو تو بھی فی یوم ۶ صفحوں سے زیادہ نہ لکھ سکے گا۔ پس ۱۵ یوم میں کتاب ختم ہوئی۔ اس کے بعد ابھی پریس کا مسئلہ باقی ہے۔ تجربہ کار اصحاب جانتے ہیں کہ جلدی سے جلدی دیں تو دو ہفتہ تک دیں گے پھر سلائی اور تہ بندی پر کتنے یوم خرچ ہوتے ہیں فرمائیے؟ یہ مہینے سوا مہینے کا کام ۲۰ دنوں میں کس طرح ہوسکتا ہے یہ بھی ہم نے سرسری طور پر حساب لگایا ہے۔ ورنہ اعجازِ احمدی میں عربی قصیدہ کے علاوہ جن باتوں کا ترتیب وار جواب مانگا گیا ہے۔ ایک انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ بیس پچیس دن میں طبع کرا دینا تو درکنار صرف جواب ہی لکھ سکے۔ ملاحظہ ہوں وہ امور یہ ہیں:
(۱) طاعون مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے مطابق آئی یا نہیں؟
(۲) طلوع ستارہ ذوالسنن علامت مسیح ہے یا نہیں؟
(۳) اونٹوں کی بیکاری جو علامت مسیح موعود ہے وہ پوری ہوچکی یا نہیں؟
(۴) کسوف خسوف کی روایت صحیح ہے یا موضوع؟
(۵) بشق اول مرزا کے وقت جو کسوف و خسوف ہوا وہ اس روایت کے مطابق ہے یا نہیں؟
(۶) بشق ثانی اس روایت کا موضوع ہونا ثابت کرنا۔
(۷) پسر مصلح موعود کی پیشگوئی جو مرزا نے کی تھی اس کا ردّ ۔
(۸) لیکھ رام والی پیشگوئی کا ردّ۔
(۹) عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا جواب۔
(۱۰) محمدی بیگم کے نکاح والی پیشگوئی کا رد۔
(۱۱) مرزا صاحب نے جو چیلنج مباہلہ علماء کو دیا تھا اس کا جواب۔
(۱۲) دلائل وفاتِ مسیح علیہ السلام جو مرزا نے پیش کیں ان کا جواب۔
(۱۳) حیاتِ مسیح علیہ السلام کا ثبوت۔
(۱۴) حضرت مسیح علیہ السلام پر جو اعتراضات مرزا نے بہ تمسک کتب یہود کے کئے ان کا جواب۔
(۱۵) احادیث میں جو تضاد ہے ان میں تطبیق متعلقہ حیاتِ وفاتِ مسیح علیہ السلام ۔
یہ پندرہ مضمون تو اردو حصہ کے قابلِ جواب ملے۔ ایسے کئی مسائل عربی قصیدے میں ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے بعض مسائل ایسے ہیں جن پر سَو سَو صفحات لکھنے ضروری ہیں۔ فرمائیے! ایک انسان سے کیا یہ ممکن ہے؟ پھر اس پر بھی مرزا صاحب کی چالاکی باقی ہے۔ بفرضِ محال کوئی ایسا کر بھی لے تو مرزا صاحب جھوٹے بننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ جواب کے بعد بیسیوں عذر پیش کئے جاسکتے تھے کہ ہم نے جو دس ہزار روپے کا انعامی اشتہار جواب دینے کے لیے مقرر کیا ہے وہ یونہی محض جواب دینے سے نہیں مل سکتا۔ منصف مقرر کرو۔ پھر منصف کے تقرر میں، ایچ پیچ، پھر جواب الجواب کا ڈھکوسلہ۔ غرض یہ سب مرزا صاحب کی چال بازیاں ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت مولانا صاحب نے ایک نزدیک ترین راہ سے مرزا صاحب کو پکڑا۔ چنانچہ آپ نے ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء کو اشتہار دیا کہ:
آپ پہلے ایک مجلس میں اس قصیدے اعجاز یہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کردیں۔ تو پھر میں آپ سے زانو بہ زانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زور لگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہ ہو محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کا منہ ہے ادھر ہی خدا کا منہ ہے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں آکر طبع آزمائی نہ کریں بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی۔
بنائی آڑکیوں دیوار گھر؟
نکل دیکھیں ہم تیری شعر خوانی
'' حرم سرا سے ہی گولہ باری کریں۔'' (۸۹۶)
چونکہ مرزا صاحب اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے خوب واقف تھے اس لیے وہ میدان میں نہ نکلے اور گھر میں ہی شور مچاتے رہے الغرض مرزا صاحب کا اس قصیدے کے جواب پر قلیل میعاد مقرر کرنا ہی ان کی اندرونی کمزوری پردال ہے۔ اگر مرزا صاحب کا کلام واقعی اس خدا کی طرف سے ہے جس نے قرآنِ پاک کی مثل لانے پر کوئی میعاد مقرر نہیں کی تو مرزا صاحب کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔
اعتراض:
ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ قرآنِ (پاک) کی برابری نہ ہو۔
جواب:
جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف چاند کا خسوف اور اپنے لیے چاند اور سورج دونوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی حالت پہلی رات کے چاند کی طرح اور اپنے وقت میں چودھویں رات کے چاند جیسی بتائی ہے وہاں یہ ادب کیوں روانہ رکھا گیا۔ ہاں اپنے ''معجزات و کرامات'' کو جہاں لوگوں کو پھنسانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا ہے وہاں اگر قرآنی برکات سے بے مثل کلام الیٰ یومِ القیام کا دعویٰ کیا جاتا تو اس سے قرآن اور نبی علیہ السلام کی عزت و دبالا ہوتی نہ کہ گھٹ جاتی۔ ہاں ہاں جب یہ دعویٰ ہے کہ:
'' میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔'' (۸۹۷)
پھر اس جگہ کیوں دبک گئے۔ اچھا اگر قرآن کا اتنا ہی ادب ... ملحوظ تھا تو کم از کم دو چار دس پانچ سال کی میعاد تو مقرر کر دیتے۔ نہ سہی دس پانچ ماہ کی ہی کردیتے۔ جس سے قرآن کا مقابلہ بھی نہ ہوتا اور لوگوں پر حق واضح ہو جاتا، حجت پوری ہو جاتی اصل بات وہی ہے کہ مرزا صاحب اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کو ایسی ویسی بیہودہ شرائط میں منہ چھپاتے رہے۔
بیخودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

----------------------
(۸۹۴) ایضاً ص۹۰ و روحانی ص۲۰۴، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۴۷۹، ج۳
(۸۹۵) ایضاً
(۸۹۶) الہامات مرزا ص۹۶ و فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری ص۸۰
(۸۹۷) بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ و تذکرہ ص۶۷۴ والبشرٰی ص۱۱۹، ج۲ و ملفوظات مرزا ص۲۹۶، ج۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
تیسری طرز سے
مولانا غنیمت حسین صاحب مونگیری نے اعجازِ احمدی کے جواب میں کتاب ابطال اعجاز مرزا دو حصوں میں لکھی پہلے حصے میں مرزا صاحب کے اشعار کی صرنی، نحوی، عروضی اور ادبی غلطیاں ظاہر کیں اور دوسرے حصے میں چھ سو سے زائد اشعار کا عربی قصیدہ لکھا جو نہایت فصیح و بلیغ ہے اور اغلاط سے پاک۔
دیگر یہ کہ مرزا صاحب نے حضرت مولانا اصغر علی صاحب روحی سابق پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور کی گرفت و اعتراضات پر اپنے اغلاط کو خود تسلیم کرلیا کہ میں نہ عربی کا عالم ہوں نہ شاعر ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (۸۹۸)نیز مرزا صاحب کے مقابلے میں قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم پروفیسر عربی اورنٹیل کالج لاہور نے قصیدہ رائیہ بجواب قصیدہ مرزا لکھا اور وہ نہایت فصیح و بلیغ اور مطابق قواعد عروض و قوافی ہے۔ اور صرنی و نحوی، عروضی، ادبی اغلاط سے پاک ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب نے جب اپنا کلام مصر بھیجا تو وہاں کے ادیبوں نے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور اسے پراز اغلاط پاکر لچر قرار دیا۔ چنانچہ مرزا صاحب اپنی کتاب الہدیٰ میں اس کی شکایت کرتے ہیں کہ '' اہل مصر نے خصوصاً مدیر''المنار'' نے میرے کلام کی قدر نہیں کی'' بلکہ بعض مصری جرائد و رسائل نے یہاں تک لکھ دیا کہ مرزا قادیانی کے کلام کے مطالعہ سے دماغی اور ادبی سل ودِق ہو جاتی ہے۔ ان رسائل و جرائد میں ''الفتح'' پیش پیش ہے۔ (۸۹۹)
-------------------------------------------------------------------------
(۸۹۸) الحکم جلد نمبر ۳۸ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء ص۵
(۸۹۹) اخبار المنار ص۴۶۵،۵۴۵، ج۴ والھدٰی والتبصرۃ لمن یرٰی ص۱۱ و روحانی ص۲۵۶ ج۱۸
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیوں کی چھٹی دلیل
یہودیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم خدا کے دوست ہیں۔ خدا نے کہا اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ مگر انہوں نے نہ کی۔ پس ثابت ہوا کہ جھوٹا موت کی تمنا نہیں کرتا۔ حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا کہ اے خدا اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے مار دے مگر خدا نے آپ کو ترقی دی پس ثابت ہوا کہ آپ سچے ہیں۔ (۹۰۰)
الجواب:
یہ سچ ہے کہ یہودیوں کو ایسا حکم ہوا تھا مگر اس واقعہ کو عام بنانا کس بنا پر ہے؟ ان کے متعلق تو خدا نے وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ موت مانگیں گے تو خدا انہیں مزہ چکھائے گا۔ مگر یہ وعدہ عام تو نہیں ہے کہ جو شخص بھی اپنے حق میں موت کا عذاب طلب کرے گا وہ اس میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔ قرآن شریف کے اس مقام کو عام قاعدہ قرار دینا یہودیانہ تحریف ہے دیکھئے کفار مکہ نے بھی تو موت مانگی تھی فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِ ائتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ (سورۂ الانفال ع۴) اے خدا ہم پر پتھر برسا یا درد ناک عذاب لے آ۔ جواب ملا مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ معذبھم وھم یستغفرون (۹۰۱)خدا تعالیٰ ان لوگوں پر جن میں تو موجود ہے یا جو استغفار کرنے والے ہیں عذاب نہیں بھیجے گا۔
عذر:
'' یہ دعا ابو جہل نے کی تھی۔ جنگ بدر میں قتل ہوا۔ خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ (الآیہ)کا ارشاد فرمایا گویا کفار آسمانی پتھروں سے ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ اس نے ڈبل بد دعا کی تھی پہلی کے مطابق وہ آسمانی پتھر کا نشانہ بنا، دوسری کے مطابق مقتول ہوا۔'' (ملخص ص۳۸۰ پاکٹ بک مرزائی مطبوعہ ۱۹۳۲ء)(۹۰۲)
جواب:
اللہ تعالیٰ نے تو کفار کی بد دعا پر عذاب کی نفی کی ہے مگر مرزائی تحریف ملاحظہ ہو کہ کس دھڑلے سے قرآن پاک کی تکذیب پر کمر بستہ ہے۔ استغفر اللہ
برادران جبکہ قرآن پاک شاہد ہے کہ ان کی بد دعا کے جواب میں عذاب نہ اتارنے کا وعدہ الٰہی ہے تو یقینا ان کی موت اس بد دعا کے تحت نہیں ہوسکتی خود مرزائی پاکٹ بک کا مصنف اسی کتاب کے صفحہ ۴۳۳،۴۳۸ پر اسی آیت سے استدلال کرتا ہے کہ جب سلطان محمد (مرزا صاحب کی منکوحہ آسمانی کا خاوند) نے توبہ کرلی۔ وہ ہلاکت سے بچ گیا۔
خدا توبہ کرنے والوں پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ اسی طرح مرزا صاحب قادیانی بھی اس آیت کا یہی مطلب بتاتے ہیں:
مَا کَان اللّٰہُ اَنْ یُعذبھم وانت فیھم خدا ایسا نہیں کہ مکہ والوں پر عذاب نازل کرے اور تو اُن میں ہو۔ (۹۰۳)
مگر جب مرزائی صاحب کو مرزا کی نبوت بنانے کی ضرورت ہوئی تو اس مسلمہ ترجمہ سے روگردانی کرکے وعدہ الٰہی کو غلط ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کر رہا ہے۔
حاصل یہ کہ ہر بد دعا مانگنے والے کی دعا قبول ہو جانے کا قاعدہ نہیں ہے۔ فھو المطلوب
-------------------------------------------------------
(۹۰۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۰۳
(۹۰۱) پ۹ انفال آیت نمبر ۳۳، ۳۴
(۹۰۲) ملخصًا احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۰ طبعہ ۱۹۳۲
(۹۰۳) انوار الاسلام ص۴۴
 
Top