• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی تفسیر مسیح موعود جدید جلد نمبر 1 یونیکوڈ ، صفحہ 33 تا 100

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ53


عربی متن:

المحبوبیہ و بعضا اخر خطا کثیرا من صفۃ المحبیۃ و كذالك أراد بفضلہ العميم وجوده اقدیم ولما جاء زمن خاتم النبين وسیدنا محمد سید المرسلين. أراد هو سبحانہ ان یجمع هاتین الصفتين في تقیں واحدة تمتعها في نفسه عليه ألف ألف صلو و تونية قلت اليك دگر يا صقة المخبوية و المحبة على رأی هيرو الشورة ليكون إشارة إلى هزي الإرادة. ولی باحتگاؤ أحمد کا على تقنية الأمان و الرجية في هذه الاية قفزه القارة إلى أنه لا جامع لها على الطريقة القرية إلا وجود يا خير البرية وقد عرفت أن هاتين الضفتين أكبر الصقات من صقات الحفر الأكيية. بل قالب البابو حقيقة الحقائق لجميع أشتالي الصقاتية ولها معيار كتابي مي اشتقتل وتعلق بالأخلاق الإلهية وما أغلى تيبا كاملا قا إلا ت ا خائه بسلسلة البؤة فإنه

اردو ترجمہ:

اور اس کے فضل عظیم کے ساتھ آپس میں محبت سے زندگی بسر کریں اس نے ان میں سے بعض کو بو بیت کی صفت سے حصہ وافر عطا فرمایا اور بعض دوسروں کو صفت محبیت کا بہت ساحضہ دیا۔ اور اسی کا خدا تعالی نے اپنے وسیع فضل اور دائی کرم سے ارادہ فرمایا۔ اور جب ہمارے آقا سید المرسلین و خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا تو الله تعالی کی پاک ذات نے ارادہ فرمایا کہ ان دونوں صفات کو ایک ہی شخصیت میں جمع کر دے۔ چنانچہ اس نے آنحضرت کی ذات میں آپ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام ہو ) یہ دونوں صفات جمع کر دیں یہی وجہ ہے کہ خدا تعالی نے سورۃ فاتحہ کے شروع میں صفت محبوبیت اور صفت محبيت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے تا اس سے خدا تعالی کے اس ارادہ کی طرف اشارہ ہو اور اس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد اور احمد رکھا۔ جیسا کہ اس نے اس آیت میں اپنا نام الرحمن اور الرحيم رکھا۔ پس یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں صفات کا ہمارے آقاخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی جامع وجود ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ دونوں صفات خدا تعالی کی صفات میں سے سب سے بڑی صفات ہیں بلکہ یہ اس کے تمام صفاتی ناموں کے خلاصوں کا خلاصہ اور حقیقتوں کی نچوڑ ہیں۔ یہ ہر اس شخص کے کمال کا معیار ہیں جو کمال کا طالب ہے اور اخلاقي الہیہ کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ پھر ان دونوں صفات میں سے کال حصہ صرف ہمارے نبی سلسلہ نبوت کے خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیا گیا ہے

Tafseer_Page_076.png

 
مدیر کی آخری تدوین :

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ54


عربی متن:

أغطيح الشتي گيقلي هاتين الضفتين أولهمادة الكافي أحمد من مملي ټ الگوتن. اما متل ققير از تئی ردآء صقة الأن. وتجلى في كلير الجلالي و التنموية والبيئة والإحسان و أما أم قتلى في محلة الجينية و التحتية والمالية لان الله الذي يتولى المؤمنين بالعوي و الثغرة قصار اشما تبيتا پچ آد صقي تيتا المكان تصوير تعشق ظهرها وراكان متقابلتان. وتفصيل ذالك أن حقيقة صقة التانية عند أهل الوقاي. هي إقاه اليري ډیروجون الإنسان وغير الإنسان من غير عمل شایي بل ايضا على سبيل الإمتنان. ولا شك ولا خلاف أن مقل فيه البيئة الخالصة التي ليث جراء عملي عامل يمن البرية. هي تجيب قلوب المؤمنين إلى القتاء و البيج و المحبة فيتون المحيسن ويون عليه لص القلوب منة الوية. يكون الزمان منا يقيناتج غير وهو يجر إلى التربة. فإن المنية الذي يحسن إلى الناس من غير

اردو ترجمہ:

کیونکہ آپ کو پروردگار دو عالم کے فضل سے ان دونوں صفات کی طرح دو نام دیئے گئے ہیں جن میں سے پہلا محمد ہے اور دوسرا احمد. پس اسم محمد نے عفت الرحمن کی چادر پہنی اور جلال اور محبو بیت کے لباس میں جلوہ گر ہوا اور اپنی نیکی اور احسان کی بناء پر بار بار تعریف بھی کیا گیا۔ اور اسم احمد نے خدا تعالی کے فضل سے جو مومنوں کی مدد اور نصرت کا متولی ہے رحمیت ، محبیت اور جمال کے لباس میں ملی فرمائی ۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نام (محمد اور احمد) ہمارے رب محسن کی دونوں صفتوں ( الرحمان الرحیم ) کے مقابلہ میں منعکسیہ صورتوں کی طرح ہیں جن کو دو مقابل کے آئینے ظاہر کرتے ہیں اس کی تفصیل یوں ہے کہ اہل عرفان کے نزدیک اس صفت رحمانیت کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ذی روح کو انسان ہو یا غیر انسان بغیر کسی سابقہ عمل کے محض احسان کے طور پرفیض پہنچایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں اور کسی اختلاف کی گنجائش ہے کہ اس قسم کا خالص احسان جومحلوق میں سے کسی کام کرنے والے کے کسی کام کا صلہ نہ ہو مومنوں کے دلوں کوحمدوثنا مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے۔ لہذا اور خلوص قلب اور صحت نیت سے اپنے حسن کی حمد و ثناء کرتے ہیں۔ اس طرح بغیر سی وہم کے جوشک وشبہ میں ڈالے خدائے رحمان یقینا قا بل تعریف بن جاتا ہے کیونکہ ایسے انعام کرنے والی ہستی جو لوگوں پر بغیر ان کے کسی حق کے طرح طرح کے احسان کرے اس ہستی کی ہر وہ شخص حد کرے گا جس پر

Tafseer_Page_077.png
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 55


عربی متن :



اردو ترجمہ :

انعام و اکرام کیا جاتا ہے اور یہ بات انسانی فطرت کا خاصہ ہے پھر جب امام نمت کے باعث حد اپنے کمال کو پنج جائے تو وہ کامل محبت کی جانب بن جاتی ہے اور ایان اپنے نبیوں کی نظر میں بہت قابل تعریف اور جبوب بن جاتا ہے اور بی صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے۔ پس آپ قلندروں کی طرح ان باتوں پر غور کیجئے۔ اب اس بیان سے ہر صاحب عرفان پر واضح ہوگیا ہے کہ الن بہت حد کیا گیا ہے اور ( کامل ) حد کیا گیا الرحمن ہے بلاشبہ ان دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور اس سچائی سے ناواقف ہی اس کا انکار کرنے والا ہے۔ لیکن صفت رحیمیت کی حقیقت اور اس کی مخفی روحانی کیفیت یہ ہے کہ بل مسجد کے اعمال پر انعام و برکت کا افاضہ ہو نہ کہ گرجا والوں پر۔ اورقلص کام کرنے والوں کے اعمال کی تکمیل کی جائے اور تلافی کرنے والوں اور معاونوں اور مددگاروں کی طرح ان کی کوتاہیوں کا تدارک کیا جائے۔ بلاشبہ یہ افاضہ (بندوں پر) خدائے رحیم کی طرف سے ان کی تعریف کے حکم میں ہے کیونکہ وہ اس طرح کی رحمت کسی عمل کرنے والے پر اسی وقت نازل کرتا ہے جب کہ بندہ بی طریق پر اس کی تعریف کرتا ہے اور خدا تعالی اس کے عمل پر راضی ہوتا ہے اور اسے اپنے وسیع فضل کا حق پاتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خدا تعالی کا فروں ، مشرکوں ، ریا کاروں اور تکبر وں کے اعمال قبول نہیں کرتا بلکہ ان کے ملوں کو ضائع کر دیتا ہے اورتو اپنی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور نہ د فرماتا ہے

page78output.jpg
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 56


بلکہ انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کسی کی طرف اپنی صفت رحیمیت کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتا اور نہ سی کے عمل کو اپنی نصرت اور اعانت سے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے بجز اس کے کہ بندہ ملا خدا سے راضی ہو اور اس کی امی حد کرے جونزول رحمت کو مستلزم ہو۔ پھر جب مخلصین کے اعمال کے کامل ہونے پر الله تعالی کی طرف سے ان کی حد کمال کو جائے تو اللہ تعالی احمد بن جاتا ہے اور بنده محمد بن جاتا ہے۔ پس پاک ہے اللہ جو سب سے پہلائم اور سب سے پہلا احمد ہے۔ اور اس وقت وہ بندہ جو اپنے مل میں مخلص ہو خدا تعالی کی بارگاہ میں محبوب بن جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے عرش سے اس کی تعریف کرتا ہے اور وہ کسی کی تعریف صرف اسی وقت فرماتا ہے جب اسے اس سے محبت ہوجائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا کمال اللہ تعالی کو محمد اور حبوب بنادیتا ہے اور بندہ کو احمد بنادیتا ہے۔ اور ایسا محب جو ہر دم اپنے محبوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ صفت حمیمیت کا کمال الله تعالی کو احمد (بندے کی تعریف کرنے والا اور محبت بناتا ہے اور بندہ کو مد ( قابل تعریف ) اور محبوب بناتا ہے۔ اسے مخاطب اس بیان سے تو ہمارے امام ہمام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو معلوم کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کا نام محمد اور احد رکھا ہے اور یہ دونوں نام حضرت عیسی اور حضرت موسی کلیم الہ نہیں دیئے اور خدانے رسول الله صلى الله علیہ وسلم کو اپنی ان دو صفات دشمن اور رحیم


page79output.jpg
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 57


میں (خلی طور پر اثر یک کیا ہے کیونکہ آپ پر اس کا بڑافضل تھا اور اس نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ میں صرف اس لئے بیان کیا ہے تالوگ سمجھ لیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ تعالی کے لئے اسم اعظم کے طور پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بارگاه ایزدی سے خلعت کے طور پر ہیں ۔ پس اللہ تعالی نے آپ کا نام محمد رکھا تا کہ اس سے آپ کی صفت محبوبیت کی طرف اشارہ کرے اور آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ آپ کی صفت محبیت کی طرف اشارہ ہو۔ محمد نام اس لئے ہے کہ لوگ کسی شخص کی زیادہ تعریف بھی کرتے ہیں جب وہ ان کے نزدیک محبوب ہو اور احمد نام اس لئے ہے کہ کوئی شخص کسی کی زیادہ تعریف نہیں کرتا بجز اس شخص کے جس سے وہ محبت کرتا اور اسے مطلوب بنا لیتا ہو۔ اور یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ اسم محمد میں بدلالت التزامی محبوبیت کے معنے پائے جاتے ہیں اسی طرح اسم احمد میں خدا تعالی صاحب فضل و انعام کی طرف سے من محبيت پائے جاتے ہیں۔ پی بلاشبہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس لئے محمد رکھا گیا کہ اللہ تعالی نے اراده فرمایا تھا کہ آپ کو اپنی نگاہ میں بھی اور صانے لوگوں کی نظر میں بھی محبوب بنائے ۔ اور ایسا ہی آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ اللہ تعالی کی ذات اور مومن مسلمانوں سے محبت کرنے والے ہوں ۔ پس آپ ایک پہلو سے محمد ہیں اور ایک پہلو سے احمد ہیں۔ اور ان دونوں ناموں میں سے (ظہور کامل کے لحاظ سے ایک نام کو ایک زمانہ سے مخصوص کیا گیا اور دوسرے نام کو دوسرے زمانہ سے۔

page80output.jpg
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 58

اور اللہ تعالی نے آیت دنا فتدلی اور آیت قاب ق ين او آئی میں اسی ( محبوبیت اور محبیت کے مضمون ) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر چونکہ یہ گان پیدا ہو سکتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جولوگوں کے مطامع اور اللہ تعالی کے بہت عبادت گزار ہیں پروردگار عالم کا ان دو صفات سے متصف کرنا لوگوں کو شرک کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ایسے ہی اعتقاد کی بنا پر حضرت عیسی کو معبود بنالیا گیا۔ سو الله تعالی نے ارادہ کیا کہ وہ امت مرحومہ کو بھی (علی حسب مراتب) ظلی طور پر ان دونوں صفات کا وارث بنادے

۔ تاکہ دونوں نام امت کیلئے برکات جاریہ کا موجب بہنیں اور تاصفات الہتہ میں کسی خاص بندہ کے شریک ہونے کا وہ بھی دور ہو جائے۔ پس اللہ تعالی نے آپ کے صحابہ اور بعد آنے والے مسلمانوں کو رحمانی اور جلالی شان کی بنا پر اسم محمد کا مظہر بنایا اور انہیں غلبہ عطا فرمایا۔ اور متواتر عنایات

سے ان کی مدد کی اور مسیح موعود کو اسم احمد کا مظہر بنایا اور اسے رحیمی اور جمالی صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کے دل میں رحمت اور شفقت رکھ دی اور اسے باند اخلاق فاضلہ

کے ساتھ آراستہ کیا۔ اور وہی مہدی معہود ہے جس کے بارے میں لوگ بجھگڑتے ہیں اور جس کی صداقت کے نشانات دیکھ کر بھی سچائی کو قبول نہیں کرتے اور باطل پر اصرار کرتے ہیں اور حق کی طرف رجوع نہیں کرتے یہ وہی مسیح موعود ہے لیکن لوگ اسے نہیں پہچانتے اور ظاہری آنکھوں سے تو اسے دیکھتے ہیں لیکن بصیرت کی آنکھ
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 59


سے نہیں دیکھتے کیونکہ اسم عیسی اور اسم احمد اپنی ماہیت میں ایک ہی ہیں اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے

سے مطابقت رکھتے ہیں اور اپنی کیفیت کے لحاظ سے یہ نام جمال اور تر قتال پر دلالت کرتے ہیں لیکن اسم محمد قہر اور جلال کا نام ہے اور یہ ہر دو نام محمد اور احمد من ورحیم

کے لئے بطور ظل کے ہیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جن نام جو حقیقت محمد ی کا منبع ہے۔ جلال کا ویسے ہی تقاضا کرتا ہے جیسے کہ وہ شان محبوبیت کو چاہتا ہے اور یہ امر الله تعالی کی رحمانیت ہے کہ اس نے انسان کے لئے گائیوں ، بکریوں ، اونٹوں ، خچروں ، بھیڑوں اور دوسرے تمام جانوروں کو مسخر کر دیا۔ اور انسانی جان کی حفاظت کے

لئے بہت سے خون گرانے روا رکھے ۔ یہ امر صرف ایک جلالی معاملہ اور خدائے رحمن کی رحمانیت کا ہی نتیجہ ہے۔

پس ثابت ہوا کہ رحمانیت قبر اور جلال کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی محبوب کی طرف سے اس شخص کے لئے جس پر وہ نوازش کر نا چا ہے ہر بانی بن جاتی ہے۔ دیکھو ) پانی اور ہوا کے بہت سے کیڑے انسان کی خاطر مار دیئے جاتے ہیں بہت سے چوپائے انسان کے لئے خدائے رحمن کی طرف سے بطور انعام دن کئے جاتے ہیں ۔ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام حقیقت مهدی جلالیہ کے مظاہر تھے اس لئے انہیں ان لوگوں کو کرنا پڑا جو درندوں اور جنگی چوپایوں کی طرح تھے تا کہ دوسرے لوگوں کو گمراہی اور کھروی کے قید خانہ سے نجات
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 60


دے کر صلاح و ہدایت کی طرف لے آئیں۔ آپ جان

چکے ہیں کہ حقیقت محمد ی حقیقت رحمانیہ کی مظہر ہے۔ اور جلال اور اس صفت احسان کے درمیان کوئی مغایرت نہیں بلکہ صفت رحمانیت جلال اور ربانی دبدبہ کی مظہر کامل

ہے۔ صفت رحمانیت کی حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ اونٹ کو اعلی کے لئے قربان کیا جائے ۔ انسان اور اس کے علاوہ دوسری مخلوق کی پیدائش کے وقت سے خدائے رحمن کی سہی ست جاری ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ دونوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے ان کے زخموں کے کیڑے کس طرح ہلاک کئے جاتے ہیں اور اونٹوں کو اس لئے دن کیا جاتا ہے تا لوگ ان کے گوشت اور چڑوں

سے فائدہ اٹھائیں اور زیب و زینت کے لئے ان کے بالوں سے لباس بنائیں ۔ یہ سب کچھ نوع انسان اور جنس حیوان کی حفاظت کے لئے صفت رحمانیت کے ذریعہ ہی کیا جارہا ہے۔ پس جس طرح رحمن محبوب ہے ویسے ہی وہ مظہر جلال بھی ہے اور اس وصف میں اسم محمد بھی اسی صفت رحمانیت کی مانند ہے پھر جب صحابہ کرام خدائے بخشندہ کی طرف سے اسم محمد کے وارث ہوئے اور انہوں نے جلال الہی کو ظاہر کیا اور ظالموں کو چوپایوں اور مویشیوں کی طرح قتل کیا اسی طرح مسیح موعود اسم احمد کا وارث ہوا جومظہر رحیمیت و جمال ہے اور اللہ تعالی نے یہ نام اس کے لئے اور اس کے تعین کے لئے جو اس کی آل کی طرح بن گئے اختیار کیا ۔ پس مسیح موعود اپنی جماعت
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 61

سمیت اللہ تعالی کی طرف سے اس کی صفت رحیمیت اور احمدیت کا مظہر ہے۔ تا خدا کا قول’ این مهم ‘‘ الجمعة: 7) پورا ہو ( یعنی صحابہ جیسی ایک اور قوم بھی ہے جو بھی ان سے نہیں ملی اور البی ارادوں کو پورا ہونے

سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نیز رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر پیدا ہونے کی حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے ۔ صفت رحمانیت در میمیت کو بسم اللہ کے ساتھ وابستہ کرنے کی میہی وجہ ہے تا وہ جد واحد دونوں ناموں پر اور ان دونوں کے آئندہ آنے والے مظاہر پر دلالت کرے یعنی صحابہ اور مسیح موعود پر جو رحیمیت اور احمدیت کے لباس میں آنے والے تھے۔ اب ہم

شي اللي الخير الو کی تقریر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں۔

پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ اسم جامد ہے اور اس کے معنے سوائے خدائے خیر ولیم کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اور الله تعالی عزاسمہ نے اس آیت میں اس اسم کی حقیقت بتائی ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے

جورحمانیت اور رحیمیت کی صفات سے متصف ہے لیکن (بلا استحقاق ) احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے وابستہ رحمت ہردورمتوں سے (وہ زات ) متصف ہے۔ یہ دونوں میں صاف پانی اور شہر میں غذا کی مانند ہیں جو ربوبیت کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور ان دونوں کے علاوہ باقی تمام صفات ان دو صفات کے لئے بمنزلہ شاخوں کے
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 62


ہیں اور اصل رحمانیت اور رحیمیت ہی ہے اور یہ دونوں صفات ذات الہی کے جید کی مظہر ہیں ۔ پھر ان دونوں صفات سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صراط مستقیم

کے امام ہیں کامل حصہ عطا کیا گیا۔ پس آپ کا نام محمد بطور رحمان کے خلل کے اور احمد نام بطور رحیم کے تیل کے رکھا

گیا۔ اور اس میں یہ راز ہے کہ کامل انسان الی اخلاق اور ربانی صفات کے رنگ میں رنگین ہونے کے بعد ہی کال ہوتا ہے اور آپ جان چکے ہیں کہ تمام صفات کا مال سہی دو رحمتیں ہیں ۔ جن کا نام ہم نے رحمانیت اور رحیمیت رکھا ہے۔ پھر آپ کو بھی معلوم ہے کہ رحمانیت ایک عام رحمت

ہے جو بطور احسان ہوتی ہے اور اس کا فیضان ہر مومن ، کافر بلکہ ہر نوع حیوان کو پہنچتا ہے لیکن رحیمیت خداۓ أخت الخالقین کی طرف سے ایک رحمت ہے جو جانوروں اور

کافروں کے علاوہ بالضرور صرف مومنوں سے خق ہے۔ پس لازم ہوا کہ انسان کامل یعنی محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں صفات کے مظہر ہوتے۔ اسی لئے پروردگار عالم کی طرف سے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا گیا۔ اللہ تعالی آپ کی شان میں فرماتا ہے:۔ كق جاوه رو تین أنه عثر علي ما عنه و علیکم بالمنين رو رويه * اس آیت میں اللہ تعالی

نے ممی اور خوشی کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالی کے فضل عظیم
 
Top