ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وہ سب خوبیاں اللہ تعالی میں موجود ہیں ۔ اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے۔ مگر اللہ تعالی بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو۔ بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش بی نہیں کر سکتی کہ جوخدا میں نہ پائی جائے ۔ جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من كل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بکلی منزہ ہے (براہین احمدیہ چہارحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۳۵، ۴۳۶ حاشی نمبر۱۱)
عربی متن:
اعلم أن الحمد ثناء على الفعل الجبيل لمن يستحق الثناء. ومدح لمنعم انعم من الإرادة و أحسن کیف شاء. ولا يتحقق حقيقة الحمد كما هو حقها إلا للذ ی هو مندء لجميع الفيوض والانوار. ومحسن على وجه البصيرة لا من غير الشغور ولا من الاضطرار۔ فلا يوجد هذا المعنی إلا في الله الخبير البصير. وإنه هو المحسن ومنہ المنن کلها فی الأول والأخير۔ وله الحمد فی ھذا فيه الداروتلك الدار۔ وإليه يرجع کل حمد ینسب إلى الأغيار. ثم إن لفظ الحمد مصدر مبنی على المعلوم والمجھول وللفاعل و المفعول من الله ذی الجلال. و معناہ أن اللہ هو محمد و هو أحمد على وجه الكمال. و القرينة الدالة على هذا البيان۔ انه تعالى ذكر
اردو ترجمہ:
واضح ہو کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جوکسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو۔ اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور حقیقت حمد کماحقہ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوار کا مبدء ہو اوراعلیٰ وجہ البصیرت کی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے ۔ اور حمد کے معنی صرف خدائے خبیرو بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہی محسن ہے اور اول و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں۔ اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے۔ پھر بھی یادر ہے کہ لفظ حمد جواس آیت میں اللہ ذوالجلال کی طرف سے استعمال ہوا ہے مصدر ہے جو بطور مبنی للمعلوم اور مبنی للمجہول ہے۔ یعنی فاعل اور مفعول دونوں کے لئے ہے۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کامل طور پر تعریف کیا گیا اور تعریف کرنے والا ہے۔ اور اس بیان پر دلالت کرنے والا قرینہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حمد کے بعد اسی صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل عرفان کے
بعد الحمد صفاتا تستلزم هذا المعنی عند أھل العرفان. واللہ سبحانه أوما فی لفظ الحمد إلى صفات توجد في نوره القديم
ثم فسر الحمد وجعله مخدرة سفرت عن وجهها عند ذكر الرحمان والرحيم. فإن الرحمان یدل على أن الحمد مبنی على المعلوم. والرحيم يدل على المجهول كما لا يخفى على أھل العلوم (اعجاز المسيح، روحانی خزائن جلد ۱۸ سنہ ۱۲۹ تا ۱۳۱)
اردو ترجمہ:
نزدیک ان معنی کومستلزم ہیں ۔ اور اللہ تعالی نے لفظ حمد میں ان صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو اس کے ازلی نور میں پائی جاتی ہیں۔
پھر اس نے اس لفظ حمد کی تفسیر فرمائی ہے اور اسے ایک ایسی پردہ نشین قرار دیا ہے جو رحمان اور رحیم کے ذکر پر اپنے چہرہ سے نقاب اٹھاتی ہے کیونکہ رحمٰن کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ لفظ حمد مصدر معروف ہے اور اسی طرح رحیم کا لفظ حمد کے مصدر مجہول ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ اہل علم پر محفی ہیں۔ (ترجمه از مرتب)
حمداس تعریف کو کہتے ہیں جوکسی صاحب اقتة ارشریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم وتکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد رب جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ رب ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے (یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں)۔ اکثر علماء کے نزدیک لفظ شکر حمد سے اس پہلو میں فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات میں مختلف ہے کہ مداح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور یہ امرفصیح وبلیغ علماء اور ماہر ادباء سے مخفی نہیں۔
وإن الله تعالی افتتح كتابه بالحمد لا بالشكر ولا بالثناء لأن الحمد يحيط عليهما بالإستيفاء و قدناب منابھما مع الزيادة فی الرفاء و في التزئين والتحسين. ولان الكفار كانوا يحمدون طواغيتهم بغير حق ویؤثرون لفظ الحمد لمدحھم و يعتقدون أنهم منبع المواهب والجوائز ومن الجوادين. و کذالك كان موتاهم يحمدون عند تعديد النوادب بل فی الميادين و المادب کحمد الله الرازق المتولى الضمين۔ فهذا رد عليهم وعلى کل من أشرك باللہ وذکرللمتوسمين وفي ذلك يلؤم الله تعالى عبدة الاوثان واليھود والنصاری وکل من كان من المشركين فكانہ يقول ایها المشرکون لم تحمدون شركاءکم وتطرون کبرآءکم أهم أربابکم الذين ربوکم و أبناءکم. أم هم الراحمون الذين یرحمونکم ويردون بلاءکم ويدفعون ما ساءکم وضراءکم ویحفظون خیرا جاء کم۔
اردو ترجمہ:
اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے۔ اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے۔ چونکہ کفار بالا وجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کے لفظ کو اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سرچشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں۔ اسی طرح ان کے مردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رازق، متولی اور ضامن اللہ تعالی کی حمد کی جانی چاہئے۔ اس لئے یہ( الحمد للہ ) ایسے لوگوں اور دوسرے تمام مشرکوں کی تردید ہے اور فراست سے کام لینے والوں کے لئے (اس میں) نصیحت ہے۔ اور ان الفاظ میں اللہ تعالی بت پرستوں، یہودیوں، عیسائیوں اور دوسرے تمام مشرکوں کو سرزنش کرتا ہے۔ گویا وہ کہتا ہے
کہ اے مشرکو! تم اپنے شرکاء کی کیوں حمد کرتے ہو اور اپنے بزرگوں کی تعریف بڑھا چڑھا کر کیوں کرتے ہو؟ کیا وہ تمہارے رب ہیں جنہوں نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی پرورش کی ہے یا وہ ایسے رحم کرنے والے ہیں جو تم پر ترس کھاتے ہیں اور تمہاری مصیبتوں کو دور کرتے ہیں اور تمہارے دکھوں اور تکلیفوں کی روک تھام کرتے ہیں۔ یا جو بھلائی تمہیں مل چکی ہے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا
ویرخضون عنکم قشف الشدآئد وتداوون دائکم أم هم مالك يؤم الدين۔ بل الله يربی ویرحم بتکمیل الرفاء وعطاء أسباب الإهتداء و استجابة الدعاء والتنجية من الأعداء وسيعطی أجر العاملين الصالحین
وفی لفظ الحمد إشارة أخرى وهی أن الله تبارك وتعالى يقول أیها العباد العرفونی بصقاتی وتعرفونی بکمالاتی فإنى لست کالناقصین بل یزید حمدی على إطراء الحامدين. ولن تجد محامد لا فی السموات ولا فی الأرضین إلا وتجدها فی وجهي وان اردت اخصاء محامدی فلن تحصيها و إن فكرت بشق نفسك و کلفت فيها کالمستغرقين فانظر هل تزی من كمال بعدمنی ومن حضرتی. فان زعمت کزالک فما عرفتني وأنت من قوم عمين. بل إنني أعرف بمحامدی و کمالای ویری وابلی بسحب برکاتی فالذين حسبونی مستجيع جميع
اردو ترجمہ:
مصائب کی میل کچیل تمہارے وجود سے دھوتے ہیں اور تمہاری بیماری کا علاج کرتے ہیں ۔ کیا وہ جز اسزا کے دن کے مالک ہیں؟ نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالی ہی ہے جو خوشیوں کی تکمیل کرنے ، ہدایت کے اسباب مہیا کرنے ، دعائیں قبول کرنے اور دشمنوں سے نجات دینے کے ذریعہ تم پررحم فرماتا اور تمہاری پرورش کرتا ہے ۔ اور اللہ تعالی نیکو کاروں کو ضرور اجر عطا کرے گا۔
اور لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو ! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو۔ میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد کا مقام انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں۔ اور اگر تم میری قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے۔ اگر چہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی تکلیف اٹھاؤ۔ خوب سوچو! کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو؟ کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو؟ اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو۔ بلکہ یقینا میں (اللہ تعالی) اپنی ستودہ صفات اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں اور میری موسلا دھار
صفات کاملۃ و کمالات شاملۃ وما وجدوا من كمال وما رأوامن جلال إلى جولان خيال إلا ونسبوها إلى وعزوا إلى كل عظمة ظهرت في عقولهم و أنظارهم وکل قدرۃ ترأءت أمام أفكارهم فھم قوم يمشون على طرق معرفتی و الحق معھم و أوليك من الفائزين۔ فقوموا عافاكم الله واستقروا محامدہ عز اسمه و انظروا وأمعنوا فيها کالأكياس و المتفکرین واستنفضوا واستشفوا أنظاركم إلى كل جهة كمال وتحسسوامنہ فی قیض العالم ومحه كما يتحسس الحريض أمانيه بشحه فإذا وجدتم کماله التام وریاء فإذا هوإ ياد و هذاسر لایبدو إلا على المسترشدين. فذالکم ربکم و مولاکم الکامل المستجميع لجميع الصفات الکاملة والمحامد التامة الشاملة ولایعرفہ الا من تدبرفی الفتحہ واستعان بقلب حزین۔ وان إلذین يخلصون مع الله نية العقد
اردو ترجمہ:
بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں نے مجھے تمام صفات کاملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آ یا نہوں نے اسے میری طرف ہی نسبت دی۔ اور ہر عظمت جو ان کی عقلوں اور نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جوان کے افکار کے آئینہ میں انہیں دکھائی دی انہوں نے اسے میری طرف ہی منسوب کیا۔ پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں پر گامزن ہیں ۔ حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالی تمہیں عافیت سے رکھے۔ آٹھو! خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور دانشمندوں اور غور وفکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار اور امعان نظر سے کام لو۔ اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو۔ اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں اسے اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ پس جب تم اس کے کمال تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو پالوتو گویا تم نے اسی کو پایا اور یہ ایساراز ہے جوصرف ہدایت کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے۔ پس ہی تمہارا رب اور تمہارا آقا ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کاملہ اور محامد کا جامع ہے۔ اس کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو سورة فاتحہ میں تدبر کرے اور دردمند دل کے ساتھ خدا تعالی سے مدد مانگے ۔ وہ لوگ جو اللہ تعالی سے عہد باندھتے وقت اپنی نیت کو خالص کر لیتے
ويعطونہ صفقة العھد ويطھرون أنفسهم من الضغن والحقد تفتح عليهم أبوابهاق فاذا هم من المبصرين۔
ومع ذلك فيه إشارة إلى أنه من ھلك بخطاہ فی أمر معرفة الله تعالى أو التخذ إلها غيرہ فقد هلك من رفض رعاية كمالاته و ترک التأنق فی عجائباته والغفلة عما يليق بذاتہ کما هو عادة المبطلين۔ الا تنظر إلى النصاری انھم دعوا إلى التوحيد فما اھلكھم إلا ھذہ العلۃ و سولت لھم النفس المضلۃ والشهوۃ المزلة أن اتخذوا عبدا إلهاوارتضوا عقار الضلالة و الجھالة ونسوا کمال الله تعالى وما يجب لذاته ونحتوا لله البنات و البنين ولو أنهم أمعنوا أنظارهم في صفات الله تعالى وما يليق له من الكمالات كما أخطأ توسمھم وما كانوا من الهالكين فأشار الله تعالى ههنا أن القانون العاصم من الخطأ في معرفة الباری عز اسمہ إمعان النظر في كمالاته وتتبع
اردو ترجمہ:
ہیں اور اس سے عہد بیعت باندھتے ہیں اور اپنے نفوس کو ہر قسم کے بغض اور کینہ سے پاک کرتے ہیں ان پر اس سورة کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ فورا صاحب بصیرت بن جاتے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ہی الحمد للہ میں ایک یہ اشارہ بھی ہے کہ جو معرفت باری تعالی کے معاملہ میں اپنے بد اعمال سے ہلاک ہوا یا اس کے سوا کسی اور کو معبود بنالیا توسمجھو کہ وہ شخص خدا تعالی کے کمالات کی طرف سے اپنی توجہ پھیر لینے، اس کے عجائبات کا نظارہ نہ کرنے اور جو امور اس کی شایان شان ہیں ان سے باطل پرستوں کی طرح غفلت برتنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا۔ کیا تو نصاریٰ کو نہیں دیکھتا کہ انہیں توحید کی دعوت دی گئی تو انہیں اسی بیماری نے ہلاک کیا اور ان کے گمراہ کرنے والےنفس اور پھسلا دینے والی خواہشات نے ان کے لئے ( یہ گمراہ کن ) خیال خوبصورت کر کے دکھا دیا اور انہوں نے ایک ( عاجز) بندے کو خدا بنالیا اور گمراہی اور جہالت کی شراب پی لی۔ اللہ تعالی کے کمال اور اس کی صفات ذاتیہ کو بھول گئے اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں اگر وہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے شایان شان کیالات پر گہری نظر ڈالتے تو ان کی عقل خطانہ کرتی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہو جاتے۔ میں یہاں اللہ تعالی نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کی معرفت کے بارہ میں غلطی سے بچانے والا قانون یہ ہے کہ اس کے کمالات میں پورا غور کیا جائے اور اس کی ذات کے
صفات تليق بذایه و تذکرماهو أولى من جدؤی وأحری من عدوی وتصور ما أثبت بأفعاله من قوته وحوله وقهره وطوله فاحفظه ولاتكن من اللافتين
واعلم أن الربوبية کلها لله والرحمانية کلها لله والرحيمية کلها لله والحكم في يوم المجازاة کله لله فإياك وتأبيك من مطاوعة مربيك وكن من المسلمين الموحدين وأشار فی الأية إلى أنه تعالی منزہ من تجددصفة وځوؤل حالۃ ولحوق وصمۃ وحوربعد کور بل قد ثبت الحمد له أولا وأخراؤ ظاهرا وباطنا إلى أبد الأبدين. ومن قال خلاف ذلك ققدا اخروف وكان من الكافرين
وقدعلمت آن هذا الاية رد على النصاری وعبدة الأوثان فانھم لایوفون الله حقه ولا يرجون له برقه بل يغدفون عليه ستارة الظلام ويلقونه في سبل الألام يبعدونه من الكمال التام ويشر کون به
اردو ترجمہ:
لائق صفات کی جستجو کی جائے اور ان صفات کا ورد کیا جائے جو ہر مادی عطیہ سے بہتر اور ہر مدد سے مناسب تر ہیں اور اس نے اپنے کاموں سے جوصفات ثابت کی ہیں یعنی اس کی قوت اس کی طاقت اس کا غلبہ اور اس کی سخاوت کا تصور کیا جائے۔ پس اس بات کو یاد رکھو اور لا پروامت بنو۔
اور جان لو کہ ربوبیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے۔ اور رحمانیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے۔ اور رحیمیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور جز اسزا کے دن کامل حکومت اللہ کے لئے ہے پس اے مخاطب اپنے پرورش کننده کی اطاعت سے انکار نہ کر اور مؤحد مسلمانوں میں سے بن جا۔ پھر اس آیت میں اللہ تعالی نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ (پہلی صفت کے زوال کے بعد) کسی نئی صفت کو اختیار کرنے اور اپنی شان کے تبدیل ہونے اور کسی عیب کے لاحق ہونے اورنقص کے بعد خوبی کے پانے سے پاک ہے۔ بلکہ اس کے لئے اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ابد الآباد تک حمد ثابت ہے۔ اور جو اس کے خلاف کہے وہ حق سے برگشتہ ہو کر کافروں میں سے ہو گیا۔
آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ آیت نصاری اور بت پرستوں کی تردید کرتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کا حق پوری طرح ادا نہیں کرتے اور اس کی روشنی کے پھیلنے کی امید نہیں رکھتے بلکہ اس پر اندھیرے کا پردہ پھیلا دیتے ہیں۔ اور اس کو دکھوں کی راہوں میں ڈال دیتے ہیں۔ اور اس کو پورے کمال سے دور رکھتے ہیں۔ اور مخلوق میں سے ایک کثیر حصہ کو اس کا شریک
کثرا من المخلوقين. فهذا هو الظن الذی ارداھم والتقليد الذی أبادهم وأهلكهم بماعولواعلى أقوال المفترین وز عموا أنهم من الصادقين۔ و قالوا إن هذہ فی الأثار المنتقاة المدونة عن الثقات وما توجهوا إلى عثر أتبائهم وجهل علمائهم و تشريقهم وتغريبهم من مراكز تعاليم النبیين وتيههم فی کل واد هائمين. والعجب من فهمهم و عقلهم أنھم يعلمون أن اللہ کامل تام لا يجؤز فيه نقص وشنعة وشحوب وذھول و تغيروحوؤل ثم یجوزون فيه کثیرا منها وينسبون إليه کل شقوۃ و خسران وعيب ونقصان و يکذبون ما کانوا صدفوہ أولا ويهذون کالمجانين.
وفی لفظ "الحمد للہ" تعليم للمسلمين أنهم إذا سئلوا وقيل لهم من الهکم فوجب على المسلم أن يجيبه أن إلهی الذی له الحمد کلہ وما من نوع کمال و قدرۃ إلا وله ثابث فلا تكن من الناسین ولو لاحظ
اردو ترجمہ:
قرار دیتے ہیں ۔ پس یہ ایسا غلط خیال ہے جس نے ان کو ہلاک کر دیا ہے۔ اور وہ اندھی تقلید ہے جس نے ان کو برباد کر دیا ہے۔ مفتریوں کے اقوال پر بھروسہ کرنے نے ان کو ہلاک کر دیا اور انہوں نے یہی سمجھ رکھا ہے کہ وہ بچے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں احادیث کی منتخب مدون کتابوں میں ثقہ راویوں سے درج ہیں۔ انہوں نے اپنے آباء کے ٹھوکریں کھانے اور اپنے علماء کے ناواقف ہونے اور ان کے انبیاء کی تعلیموں کے مراکز سے مشرق و مغرب کی طرح دور اور ہر وادی میں حیران و پریشان بھٹکنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ ان کے عقل و فہم پر تعجب ہے کہ وہ جانتے نہیں کہ اللہ تعالی کی ذات پوری طرح کامل ہے اس میں کسی کمی یا قباحت یا میلا پن یا فروگذاشت یا تغیروتبدل کا کوئی جواز نہیں۔ پھر وہ اس میں بہت سی ایسی باتوں کوروارکھتے ہیں اور اس کی طرف ہر بدبختی، گھاٹے ، عیب اور نقصان کو منسوب کرتے ہیں اور اس بات کی خود ہی تکذیب کررہے ہیں جس کی انہوں نے پہلے تصدیق کی تھی اور پاگلوں کی طرح بکواس کرتے رہتے ہیں۔
الحمد للہ کے الفاظ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب ان سے سوال کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ ان کا معبود کون ہے تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یہ جواب دے کہ میرا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے اور کسی قسم کا کوئی کمال اور قدرت ایسی نہیں مگر وہ اس کے لئے ثابت ہے۔ پس تو بھولنے والوں میں سے نہ بن۔
المشرکين حظ الإیمان وأصابھم طل من العرفان لما طاح بھم ظن السؤء بالذی هو يوم العالمين. ولكنهم حسبوہ كرجل شاخ بعد الشباب واحتاج بعد صمديته إلى الأسباب و وقعت عليه شدآئد نحول وقحول و قشف محول ووقع في الأتراب بل قرب من التباب وكان من المتربين
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفہ ۱۰۲ تا ۱۱۰)
اگر مشرکوں پر ایمان کی کچھ بھی جھلک پڑ جاتی اور ان پرعرفان کی ہلکی سی بارش بھی ہوجاتی تو انہیں قیوم عالمین پر بدظنی کرنا تباہ نہ کرتا۔ لیکن انہوں نے خدا تعالی کو ایسے شخص کی مانند سمجھ لیا جو جوانی کے بعد بوڑھا ہو گیا ہو اور اپنی بے نیازی کے بعد محتاج ہو گیا ہو اس پر بڑھاپا اور لاغری کی مصیبتیں اور قحط کی سختیاں وارد ہوئی ہوں اور وہ مٹی میں مل گیا بلکہ تباہی کے کنارے جالگا ہو اور بالکل محتاج ہو گیا ہو۔ (ترجمہ از مرتب)
اس سورة کو الحمد للہ سے شروع کیا گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک حمد اور تعریف اس ذات کے لئے مسلّم ہے جس کا نام اللہ ہے۔ اور اس فقرہ الحمد لله سے اس لئے شروع کیا گیا کہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی کی عبادت روح کے جوش اور طبیعت کی کشش سے ہو اور اسی کشش جوعشق اور محبت سے بھری ہوئی ہو ہرگز کسی کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ و شخص اسی کامل خوبیوں کا جامع ہے جن کے ملاحظہ سے بے اختیار دل تعریف کرنے لگتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ کامل تعریف دوقسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے۔ ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شید اہوجا تا ہے۔ اور قرآن شریف کا بڑ ا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالی کی دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جا ئیں اور روح کے جوش اورکشش سے اس کی بندگی کریں ۔ اس لئے پہلی سورت میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ سواسی غرض سے اس سورة کو الحمد لله سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ اور قرآن کی اصطلاح کی رو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو۔ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ الله کا اسم تب محقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں
پائی جائیں ۔ پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کا ظاہر ہے۔ اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالی کا نام نور ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (النور :۳۲) یعنی اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے۔ ہر ایک نور اسی کے نور کا پرتوہ ہے۔ اور احسان کی خوبیاں اللہ تعالی میں بہت ہیں جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں اور ان کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورہ فاتحہ میں رَبِّ الْعَالَمِينَ کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی ربوبیت یعنی پیدا کرتا اور کمال مطلوب تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری و ساری ہے یعنی عالم سماوی اور عالم ارضی اور عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم جواہر اور عالم اعراض اور عالم حیوانات اور عالم نباتات اور عالم جمادات اور دوسرے تمام قسم کے عالم اس کی ربوبیت سے پرورش پارہے ہیں یہاں تک کہ خود انسان پر ابتد انطفہ ہونے کی حالت سے یا اس سے پہلے بھی جو جو عالم موت تک یا دوسری زندگی کے زمانہ تک آتے ہیں وہ سب چشمه و ربوبیت سے فیض یافتہ ہیں۔ پس ربوبیت الہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح واجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پرمشتمل ہے فیضانِ آعَمّ سے موسوم ہے کیونکہ ہر ایک موجود اس سے فیض پاتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے ہاں البته ر بو بیت الہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالی کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا
رَبِّ الْعَالَمِينَ
ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالی کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے۔ دوسری خوبی خدا تعالی کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضان عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورة فاتحہ میں الرحمٰن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے خدا تعالی کا نام رحمٰن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں۔ پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان