• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آئینہ قادیانیت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث " لو عاش ابراہیم " پرقادیانی اعتراض کا جواب
(۱)… ’’ لو عاش ابراہیم ‘‘
’’ و لو عاش (ابراہیم) لکان صدیقاً نبیا ‘‘ اس سے قادیانی استدلال کرتے ہیں کہ اگر حضورﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی بنتے۔ بوجہ وفات کے حضرت ابراہیم نبی نہیں بن سکے۔ ورنہ نبی بننے کا امکان تو تھا۔
جواب۱… یہ روایت جس کو قادیانی اپنے استدلال میں پیش کرتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اﷲﷺ و ذکروفاتہ میں ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ عن ابن عباسؓ لمامات ابراہیم بن رسول اﷲﷺ صلی رسول اﷲﷺ وقال ان لہ مرضعاً فی الجنۃولوعاش لکان صدیقاً نبیا ولو عاش لعتقت اخوالہ القبط وما استرق قبطی ‘‘
(ابن ماجہ ص ۱۰۸)
ترجمہ: ’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آپﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایاکہ اس کے لئے دودھ پلانے والی جنت میں (مقرر کردی گئی) ہے اور اگر ابراہیم زندہ رہتے تو یقینا نبی ہوتے اور اگر وہ زندہ رہتے تو اس کے قبطی ماموں آزاد کردیتا اور کوئی قبطی قیدی نہ ہوتا۔‘‘
۱… اس روایت کی صحت پر شاہ عبدالغنی مجددیؒ نے انجاح الحاجہ علی ابن ماجہ میں کلام کیا ہے:
’’ وقد تکلم بعض الناس فی صحۃ ھذا الحدیث کما ذکر السید جمال الدین المحدث فی روضۃ الاحباب ‘‘
(انجاح ص ۱۰۸)
’’اس حدیث کی صحت میں بعض (محدثین) نے کلام کیا ہے۔ جیسا کہ روضہ احباب میں سید جمال الدین محدث نے ذکر کیا ہے۔‘‘
۲… موضوعات کبیر کے ص ۵۸ پر ہے:
’’ قال النووی فی تھذیبہ ھذا الحدیث باطل وجسارۃ علی الکلام المغیبات ومجازفۃ وھجوم علی عظیم ‘ ‘
ترجمہ: ’’امام نوویؒ نے تہذیب الاسماء واللغات میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے۔ بڑی بے تکی بات ہے۔‘‘
۳… مدارج النبوۃ ص ۲۶۷ ج ۲ شیخ عبدالحق دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
۴ … ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارہ میں محدثین کی آراء یہ ہیں۔ ثقہ نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ۔ حضرت امام یحییٰؒ۔ حضرت امام دائودؒ۔
منکر الحدیث ہے: حضرت امام ترمذیؒ
متروک الحدیث ہے: حضرت امام نسائی ؒ
اس کا اعتبار نہیں: حضرت امام جوزجانی ؒ
ضعیف الحدیث ہے: حضرت امام ابوحاتم ؒ
ضعیف ہے۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ اس نے حکم سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب ص ۹۴‘۹۵ج۱) (یاد رہے کہ زیر بحث روایت بھی ابوشیبہ نے حکم سے روایت کی ہے۔)
ایسا راوی جس کے متعلق آپ اکابر امت کی آر اء ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اس کی ایسی ضعیف روایت کو لے کر قادیانی اپنا باطل عقیدئہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ عقیدہ کے اثبات کے لئے خبرواحد (اگرچہ صحیح بھی کیوں نہ ہو) معتبر نہیں ہوتی۔ چہ جائیکہ کہ عقائد میں ایک ضعیف روایت کا سہارا لیا جائے۔ یہ تو بالکل ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ والی بات ہوگی۔
جواب۲… اور پھر قادیانی دیانت کے دیوالیہ پن کا اندازہ فرمائیں کہ اسی متذکرہ روایت سے قبل حضرت ابن اوفیؓ کی ایک روایت ابن ماجہ نے نقل کی ہے۔ جو صحیح ہے۔ اس لئے کہ امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح بخاری میں اسے نقل فرمایا ہے۔ جو قادیانی عقیدئہ اجراء نبوت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔
اے کاش! قادیانی اس ضعیف روایت سے قبل والی صحیح روایت کو پڑھ لیتے جو یہ ہے:
’’ قال قلت لعبداﷲ ابن ابی اوفیؓ رأیت ابراہیم بن رسول اﷲﷺ قال مات وھو صغیر ولو قضی ان یکون بعد محمدﷺ نبی لعاش ابنہ ابراہیم ولکن لا نبی بعدہ۰ ابن ماجہ باب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اﷲ وذکر وفاتہ‘‘ (ص ۱۰۸)
ترجمہ: ’’اسماعیل راوی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ ابن اوفی ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اﷲﷺ کے بیٹے ابراہیم کو آپ نے دیکھا تھا؟ عبداﷲ ابن اوفیؓ نے فرمایا کہ وہ (ابراہیم) چھوٹی عمر میں انتقال فرماگئے اور اگر حضورﷺ کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا۔ تو آپﷺ کے بیٹے ابراہیم زندہ رہتے۔ لیکن آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
یہ وہ روایت ہے جسے اس باب میں ابن ماجہ سب سے پہلے لائے ہیں۔ یہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ حضرت امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح کے باب ’’ من سمی باسماء الانبیائ ‘‘ میں اسے مکمل نقل فرمایا۔
(بخاری ج۲ ص ۹۱۴)
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ صحیح روایت جسے ابن ماجہ متذکرہ باب میں سب سے پہلے لائے اور جس کو امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح بخاری میں روایت کیا ہے اور مرزا قادیانی نے اپنی کتاب (شہادت القرآن ص ۴۱،خزائن ص ۳۳۷ ج۶) پر ’’بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ‘‘ تسلیم کیا ہے۔ اگر مرزائیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہوتی تو اس صحیح بخاری کی روایت کے مقابلہ میں ایک ضعیف اور منکرالحدیث کی روایت کو نہ لیتے۔ مگر مرزائی اور دیانت یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔
لیجئے ایک اور روایت۔ انہیں حضرت عبداﷲ بن اوفیؒ سے (مسند احمد ج ۴ ص ۳۵۳) کی ملاحظہ فرمایئے:
’’ حدثنا ابن ابی خالد قال سمعت ابن ابی اوفیؒ یقول لو کان بعدالنبیﷺ نبی مامات ابنہ ابراہیم ‘‘
’’ابن ابی خالد فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیؒ سے سنا۔ فرماتے تھے کہ حضرت رحمت دوعالمﷺ کے بعدکوئی نبی ہوتا تو آپﷺ کے بیٹے ابراہیم فوت نہ ہوتے۔‘‘
حضرت انسؓ سے سدیؒ نے دریافت کیا کہ حضرت ابراہیم کی عمر بوقت وفات کیا تھی؟ آپ نے فرمایا: ’’ قد ملاء المہد ولو بقی لکان نبیاً ولکن لم یکن لیبقی لان نبیکم آخر الانبیائ ‘‘ وہ پنگھوڑے کو بھر دیتے تھے (یعنی بچپن میں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن وہ اتنے بڑے تھے کہ پنگھوڑا بھرا ہوا نظر آتا تھا) اگر وہ باقی رہتے تو نبی ہوتے۔ لیکن اس لئے باقی نہ رہے کہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں۔
(تلخیص التاریخ الکبیر لابن عساکر ص ۴۹۴ ج۱‘ فتح الباری ج۱۰ ص ۴۷۷ باب سمی باسماء الانبیائ)
اب ان صحیح روایات جو بخاری، مسند احمد اور ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف روایت کو جس کا جھوٹا اور مردود ہونا یوں بھی ظاہر ہے کہ یہ قرآن کے نصوص صریحہ اور صدہا احادیث نبویہ کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہی لوگ اپنے عقیدے کے لئے پیش کرسکتے ہیں۔ جن کے متعلق حکم خداوندی ہے:
’’ ختم اﷲ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ(بقرہ: ۷) ‘‘
جواب۳… اس میں حرف لو قابل توجہ ہے۔ اس لئے کہ جیسے: ’’ لوکان فیھما الھۃ الا اﷲ لفسدتا ‘‘ لو عربی میں محال کے لئے بھی آجاتا ہے۔ اس روایت میں بھی تعلیق بالمحال ہے۔ اس سے اثبات عقیدہ کے لئے استدلال کرنا قادیانی علم کلام کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث : ( ولا تقولوا لا نبی بعدہ ) پر قادیانی اعتراض اور اس کا جواب
قادیانی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
’’ قولوا خاتم الانبیاء ولا تقولوا لانبی بعدہ ‘‘
(تکملہ مجمع البحار ج۵ ص ۵۰۲درمنثور ص ۲۰۴ ج۵)
اس سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک نبوت جاری تھی۔
جواب۱حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف اس قول کی نسبت صریحاً بے حد زیادتی ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں اس کی سند متصل مذکور نہیں۔ ایک منقطع السند قول سے نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف استدلال کرنا سراپا دجل و فریب ہے۔
جواب۲… رحمت دوعالمﷺ فرماتے ہیں: ’’ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول: ’’ ولا تقولوا لا نبی بعدہ ‘‘ یہ صریحاً اس فرمان نبویﷺ کے مخالف ہے۔ قول صحابہؓ وقول نبویﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث و فرمان نبوی کو ترجیح ہوگی۔ پھر لا نبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح سندوں سے مذکور ہے اور قول عائشہؓ ایک منقطع السند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت ہوسکتا ہے؟
جواب۳… خود حضرت عائشہ صدیقہؓ سے (کنزالعمال ص ۳۷۱ ج۱۵حدیث ۴۱۴۲۳) میں روایت ہے: ’’ لم یبق من النبوۃ بعدہ شئی الامبشرات ‘‘ اس واضح فرمان کے بعد اس قول کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف منسوب کرنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟
جواب۴… قادیانی دجل ملاحظہ ہوکہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر سند کے نقل کیا گیا ہے۔ استدلال کرتے وقت بھی ادھورا قول نقل کرتے ہیں۔ اس میں ہے: ’’ ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ (تکملہ مجمع البحار ص۵۰۲ ج۵)
اگر ان کا یا مغیرہؓ کا جو قول: ’’ اذا قلت خاتم الانبیاء حسبک ‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ آئے ہیں۔ ان سب کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مسئلہ تھا۔ یہ نہ کہو کہ آپﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں (آئے گا) اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ یہ کہو کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں۔ یعنی آپﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جائے گا۔ اس لئے کہ عیسیٰ علیہ السلام آپﷺ سے پہلے نبی بنائے جاچکے ہیں۔
جواب۵… اس قول ’’ ولا تقولوا لا نبی بعدہ ‘‘ میں ’’ بعدہ ‘‘ خبر کے مقام پر آیا ہے۔ اس لئے اس کا پہلا معنی یہ ہوگا: ’’ لانبی مبعوث بعدہ ‘‘ حضورﷺ کے بعدکسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ مشکوۃ شریف پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے۔ جو صحیح ہے۔
دوسرا معنی… ’’ لا نبی خارج بعدہ ‘‘ حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔ یہ غلط ہے۔ اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔ حضرت مغیرہؓ نے ان معنوں سے : ’’ لا تقولوا لا نبی بعدہ ‘‘ کی ممانعت فرمائی ہے۔ جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
تیسرا معنی… ’’لا نبی حیی بعدہ‘‘ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ ان معنوں کو سامنے رکھ کر حضرت عائشہؓ نے: ’’ لاتقولوا لا نبی بعدہ ‘‘ فرمایا۔ اس لئے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی روایات منقول ہیں۔
قادیانی سوال
اگر اس قول عائشہ صدیقہؓ کی سند نہیں تو کیا ہوا تعلیقات بخاری کی بھی سند نہیں۔
جواب:
یہ بھی قادیانی دجل ہے ورنہ فتح الباری کے مصنف علامہ ابن حجرؒ نے الگ ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے۔ جس کا نام تعلیق التعلیق ہے۔ اس میں تعلیقات صحیح بخاری کو موصول کیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث: ( مسجدی آخر المساجد ) پر قادیانی اعتراض اور اس کا جواب
قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’ مسجدی آخرالمساجد ‘‘ ظاہر ہے کہ حضورﷺ کی مسجد کے بعد دنیا میں ہر روز مسجدیں بن رہی ہیں۔ تو نبی بھی بن سکتے ہیں۔
جواب… یہ اشکال بھی قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ اس لئے جہاں ’’ مسجدی آخر المساجد ‘‘ کے الفاظ احادیث میں آئے ہیں۔ وہاں روایات میں آخر مساجد الانبیاء کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت مبارک یہ تھی کہ وہ اﷲ رب العزت کا گھر (مسجد) بناتے تھے۔ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی مساجد میں سے آخری مسجد۔ مسجد نبوی ہے۔ یہ ختم نبوت کی دلیل ہوئی نہ کہ اجرائے نبوت کی۔
(ترغیب و الترہیب ج۲ ص ۱۷۳ حدیث۱۷۷۱) میں خاتم مساجد الانبیاء کے الفاظ صراحت سے موجود ہیں۔
نیز (کنزالعمال ص ۲۷۰ ج ۱۲ حدیث ۳۴۹۹۹) باب فضل الحرمین میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے:
’’ عن عائشۃ قالت قال رسول اﷲﷺ انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیائ
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث : ( انک خاتم المہاجرین ) پر قادیانی اعتراض کا جواب
قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے فرمایا: ’’ اطمئن یا عم (عباسؓ) فانک خاتم المہاجرین فی الھجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ ‘‘ (کنزالعمال ص ۶۹۹ ج۱۲ حدیث۳۳۳۸۷) اگر حضرت عباسؓ کے بعد ہجرت جاری ہے تو حضورﷺ کے بعد نبوت بھی جاری ہے۔
جواب… قادیانی اس روایت میں بھی دجل سے کام لیتے ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت عباسؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کے سفر پر روانہ ہوگئے تھے۔ مکہ مکرمہ سے چند کوس باہر تشریف لے گئے تو راستہ میں مدینہ طیبہ سے آنحضرتﷺ دس ہزار قدسیوں کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ فتح کرنے کے لئے تشریف لے آئے۔ راستہ میں ملاقات ہوئی تو حضرت عباسؓ کو افسوس ہوا کہ میں ہجرت کی سعادت سے محروم رہا۔ حضورﷺ نے حضرت عباسؓ کو تسلی و حصول ثواب کی بشارت دیتے ہوئے یہ فرمایا۔ اس لئے واقعتاً مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر حضرت عباسؓ تھے۔ اس لئے کہ ہجرت دار الکفر سے دارالاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ رحمت دوعالمﷺ کے ہاتھوں ایسے فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دارالاسلام رہے گا۔ تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر واقعی حضرت عباسؓ ہوئے۔ آپﷺ کا فرمانا: ’’اے چچا تم خاتم المہاجرین ہو‘‘ تمہارے بعد جو بھی مکہ مکرمہ چھوڑ کر آئے گا۔ اسے مہاجر کا لقب نہیں ملے گا۔ اس لئے امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ لاہجرۃ بعد الفتح ‘‘
(بخاری ص ۴۳۳ ج۱)
حضرت حافظ ابن حجر عسقلانیؒ
(اصابہ ص ۲۷۱ ج ۲ طبع بیروت)
میں فرماتے ہیں:’’ ھاجر قبل الفتح بقلیل وشھد الفتح ‘‘
’’حضرت عباسؓ نے فتح مکہ سے قدرے پیشتر ہجرت کی اور آپ فتح مکہ میں حاضر تھے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث : ( ابوبکر خیرالناس ) پر قادیانی اعتراض کا جواب
قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’ ابوبکر خیرالناس الا ان یکون نبی ‘‘ ابوبکر تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ مگر یہ کہ کوئی نبی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت جاری ہے۔
جواب… یہ روایت (کنزالعمال ج۱۱ ص۵۴۳ حدیث۳۲۵۴۷) کی ہے۔ اس کے آگے ہی لکھا ہے: ’’ ھذا الحدیث احد ماانکر ‘‘ یہ روایت ان میں سے ایک ہے۔ جس پر انکار کیا گیا ہے۔
ایسی منکر روایت سے عقیدہ کے لئے استدلال کرنا قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔
جواب۲ کنزالعمال ج۱۱ ص۵۴۶ حدیث ۳۲۵۶۴ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے:
’’ ما صحب النبیین والمرسلین اجمعین ولا صاحب یٰسن۰ افضل من ابی بکر ‘‘
’’ رحمت دوعالمﷺ سمیت تمام انبیاء و رسل کے صحابہؓ سے ابوبکر صدیقؓ افضل ہیں۔‘‘
حاکم میں حضرت ابوہریرہؓ سے (کنزالعمال میں ج ۱۱ ص ۵۶۰ حدیث ۳۲۶۴۵) پر روایت کے الفاظ ہیں:
’’ ابوبکر و عمر خیرالاولین و خیر الاخرین وخیر اھل السموٰات وخیر اھل الارضین الا النبیین والمرسلین ‘‘
’’زمینوں و آسمانوں کے تمام اولین و آخرین میں سوائے انبیاء و مرسلین کے باقی سب سے ابوبکر ؓو عمرؓ افضل ہیں۔‘‘
ان روایات کو سامنے رکھیں تو مطلب واضح ہے کہ انبیاء کے علاوہ ابوبکرؓ باقی سب سے افضل ہیں۔ لیجئے اب ان تمام روایات کے سامنے آتے ہی قادیانی دجل پارہ پارہ ہوگیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
لاہوری اور قادیانی جماعت میں فرق ، اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں
سوال۸… لاہوری اور قادیانی مرزائیوں میں کیا فرق ہے؟ جب لاہوری مرزا غلام احمدقادیانی کو نبی ہی نہیںمانتے تو ان کی وجہ تکفیر کیا ہے؟ دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات کا جائزہ پیش کریں؟
جواب… مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والوں کے دو گروپ ہیں۔ ایک لاہوری دوسرا قادیانی۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور نورالدین کے زمانہ تک یہ ایک تھے۔ مارچ ۱۹۱۴ء میں نور الدین کے آنجہانی ہونے پر لاہوری گروپ کے چیف گرو محمد علی ایم اے اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ نورالدین کی جگہ محمد علی کو قادیانی جماعت کی زمامِ اقتدار سونپ دی جائے گی۔ مگر مرزا قادیانی کے خاندان کے افراد اور مریدوں نے نو عمر مرزا محمود کو مرزا قادیانی کی نام نہاد خلافت کی گدی پر بٹھادیا۔ محمد علی لاہوری اپنے حواریوں سمیت اپناسا منہ لے کر لاہور آگئے۔ تب سے مرزا قادیانی کی جماعت کے دو گروپ بن گئے۔ لاہوری و قادیانی۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ لڑائی صرف اور صرف اقتدار کی لڑائی تھی۔ عقائد کا اختلاف نہ تھا۔ اس لئے کہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی اور نورالدین کے زمانہ تک عقائد میں نہ صرف قادیانی گروپ کا ہمنوا تھا۔ بلکہ اب بھی یہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی کو اس کے تمام دعاوی میں سچا سمجھتا ہے۔ امام، مامور من اﷲ، مجدد، مہدی، مسیح، ظلی و بروزی نبی وغیرہ۔ مرزا کے تمام کفریہ دعاوی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے عقائد کی ترویج اور توسیع اس کی کتب کی اشاعت کرتے ہیں۔ قادیانیوں نے لاہوریوں کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ اقتدار نہ ملنے کے باعث علیحدہ ہوئے ہیں۔ تو لاہوریوں نے اپنے دفاع کے لئے اقتدار کی لڑائی کو عقائد کے اختلاف کا چولا پہنادیا۔ لاہوریوں نے کہا کہ ہمیں قادیانیوں سے تین مسائل میں اختلاف ہے:

  1. قادیانی گروپ مرزا کے نہ ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں۔ ہم ان کو کافر نہیں کہتے۔
  2. قادیانی گروپ مرزا قادیانی کو قرآنی آیت :’’ مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ ہم اس آیت کا مرزا قادیانی کو مصداق نہیں سمجھتے۔
  3. قادیانی گروپ مرزا کو حقیقی نبی قرار دیتا ہے۔ ہم اسے حقیقی نبی قرار نہیں دیتے۔
اس پر ان کے درمیان مناظرے ہوئے۔ ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘ نامی کتاب میں دونوں کے تحریری مناظروں کی روئیداد شائع شدہ ہے۔ فریقین نے مرزا قادیانی کی کتب کے حوالہ جات دیئے ہیں۔ یہ خود مرزا قادیانی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے کہ مرزا قادیانی کے دعاوی ایسے شیطان کی آنت کی طرح الجھے ہوئے ہیں کہ مرزا کے ماننے والے خود فیصلہ نہیں کرپائے کہ مرزا قادیانی کے کیا دعاوی تھے؟ لیکن یہ اقتدار کی رسہ کشی، اور نفس پرستی ہے۔ جب دو گروپ بن گئے ۔ ایک گروپ کا چیف مرزا محمود۔ دوسرے گروپ کا چیف محمد علی لاہوری قرار پائے۔ تو مرزا محمود نوجوان تھا۔ اقتدار اور پیسہ پاس تھا۔ اس نے وہ بے اعتدالیاں کیں کہ مرزا قادیانی کے بعض پکے مرید کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ مرزا محمود کی جنسی بے راہ روی اور رنگینیاں اور سنگینیاں اس داستان نے قادیان سے لاہور تک کا سفر کیا۔ تو لاہوری گروپ نے تاریخ محمودیت، ربوہ کا پوپ، ربوہ کا مذہبی آمر، کمالات محمودیہ۔ ایسی دسیوں کتابیں لکھ کر مرزا محمود کی بدکرداریوں کو الم نشرح کیا۔ مرزا محمود نے جواب آں غزل کے طور پر لاہوریوں کو وہ بے نقط سنائیں کہ الامان والحفیظ۔ ذیل میں حوالے ملاحظہ ہوں:
’’فاروق ‘‘جناب خلیفہ قادیان کے ایک خاص مرید کا اخبار ہے۔ جناب خلیفہ صاحب! کئی مرتبہ اس کی خدمات کے پیش نظر اس کی توسیع اشاعت کی تحریک فرماچکے ہیں۔ سوقیانہ تحریریں شائع کرنے اور گالیاں دینے کے لحاظ سے اس اخبار کو قادیانی پریس میں بہت اونچا درجہ حاصل ہے۔
لاہوری جماعت اور اس کے اکابر کو گالیاں دینا اس اخبار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس کی ۲۸/ فروری ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں ہمارے خلاف چند مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ان میں بے شمار گالیاں دی گئی ہیں۔ جن میں سے چند بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں:
(اخبار پیغام صلح لاہور مورخہ ۱۱/مارچ ۱۹۳۵ئ)


(۱)لاہوری اصحاب الفیل۔ (۲) اہل پیغام کی یہودیانہ قلابازیاں۔ (۳) ظلمت کے فرزند اور زہریلے سانپ۔ (۴) لاہوری اصحاب الاخدود۔ (۵) خباثت اور شرارت اور رزالت کا مظاہرہ۔ (۶) دشمنان سلسلہ کی بھڑکی ہوئی آگ میں یہ پیغامی لاہوری فریق عبادالدنیا وقودالنار بن گئے۔ (۷) نہایت ہی کمینہ سے کمینہ اور رذیل سے رذیل فطرت والا اور احمق سے احمق انسان۔(۸) اصحاب اخدود پیامی۔ (۹) دوغلے اور نیمے دروں نیمے بروں عقائد۔ (۱۰) بدلگام پیغامیو۔ (۱۱) حرکات دنیہ اور افعال شنیعہ۔ (۱۲) محسن کشانہ اورغدارانہ اور نمک حرامانہ حرکات۔ (۱۳) دورخے سانپ کی کھوپڑی کچلنے۔ (۱۴) تم نے اپنے فریب کارانہ پوسٹر میں… تک انگیخت اور اشتعال کا زور لگالیا۔ (۱۵)فوراً کپڑے پھاڑ کر بالکل عریانی پر کمرباندھ لی۔ (۱۶) ایسی کھجلی اٹھی تھی۔ (۱۷) رذیل اور احمقانہ فعل۔ (۱۸) کبوتر نما جانور۔ (۱۹) احمدیہ بلڈنگ (لاہوری جماعت کے مرکز) کے؟ کرمک۔ (۲۰)اے سترے بہترے بڈھے کھوسٹ۔ (۲۱) اے بدلگام تہذیب و متانت کے اجارہ دار پیامیو (فریق لاہور)۔ (۲۲) برخوردار پیامیو۔ (۲۳) جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ (۲۴) کوئی آلو، ترکاری یا لہسن پیاز بیچنے بونے والا نہیں۔ (۲۵)جھوٹ بول کر اور دھوکے دے کر اور فریب کارانہ بھیگی بلی بن کر۔ (۲۶)لہسن پیاز اور گوبھی ترکاری کا بھائو معلوم ہوجاتا۔(۲۷)آخرت کی لعنت کا سیاہ داغ ماتھے پر لگے۔ (۲۸)اگر شرم ہو تو وہیں… چلو بھر پانی لے کر ڈبکی لگالو۔ (۲۹) یہ کسی قدر دجالیت اور خباثت اور کمینگی۔ (۳۰)علی بابا اور چالیس چور بھی اپنی مٹھی بھر جماعت لے کر بلوں میں سے نکل آئے ہیں۔(۳۱) بھلا کوئی ان پیامی ایروں غیروں سے اتنا تو پوچھے۔ (۳۲)سادہ لوح پیامی نادان دشمن۔ (۳۳)پیامیو عقل کے ناخن لو۔(۳۴) نامعقول ترین اور مجہول ترین تجویز۔ (۳۵) سادہ لوح اور احمق۔ (۳۶) اے سادہ لوح یا ابلہ فریب امیر پیغام۔ (۳۷)پیغام بلڈنگ کے اڑہائی ٹوٹرو۔(۳۸) احمق اور عقل و شرافت سے عاری اور خالی۔(۳۹) اہل پیغام (لاہوری فریق) نے جس عیاری اور مکاری اور فریب کاری سے اپنے دجل بھرے پوسٹروں میں۔ (۴۰)چاپلوسی اور پابوسی کا مظاہرہ۔ (۴۱) اہل پیغام کے دو تازہ گندے پوسٹر۔
(منقول از اخبار ’’فاروق‘‘ قادیان پیامی نمبر مورخہ ۲۸/ فروری ۱۹۳۵ئ)

لاہوری مرزائی بھی قادیانیوں کو گالیاں دینے میں کم نہ تھے۔ ملاحظہ ہو:

’’مولوی محمد علی صاحب (لاہوری) کا خطبہ جمعہ ۱۹/ اکتوبر ۱۹۴۵ء ہمارے سامنے ہے۔ یہ خطبہ بھی حسب معمول جماعت احمدیہ اور حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ کے خلاف الزامات اور گالیوں سے پر ہے۔ جناب مولوی صاحب کی گالیوں کی شکایت کہاں تک کی جائے۔ ان کا جوش غیظ و غضب ٹھنڈا ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہم ان کی گالیاں سنتے سنتے تھک گئے ہیں۔ مگر وہ گالیاں دیتے دیتے نہیں تھکے۔ ہر خطبہ گزشتہ خطبہ سے زیادہ تلخ اور طعن آمیز ہوتا ہے۔ بدگوئی اور بدزبانی اب جناب مولوی صاحب کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ کوئی بات طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کی آمیزش کے سوا کرہی نہیں سکتے۔‘‘
(مضمون مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان ج۲۳، نمبر ۲۷۳، ص ۴ مورخہ ۲۲/نومبر ۱۹۴۵ئ)
لیکن گالی گلوچ کی بوچھاڑ تو دونوں جماعتوں کی عادت ہے۔ کبھی ایک سبقت لے جاتی ہے کبھی دوسری۔ اس فن کی بنیاد خود مرزا قادیانی صاحب کی کتابوں میں رکھی گئی ہے۔ پس اتباع لازم ہے۔ مرزا محمود نے محمدعلی کی گالیوں کی شکایت کی۔ اب محمد علی کی مرزا محمود کے متعلق شکایت بھی ملاحظہ ہو:
’’خود جناب میاں محمود احمد صاحب نے مسجد میں جمعہ کے روز خطبہ کے اندر ہمیں دوزخ کی چلتی پھرتی آگ۔ دنیا کی بدترین قوم اور سنڈاس پر پڑے ہوئے چھلکے کہا۔ یہ الفاظ اس قدر تکلیف دہ ہیں کہ ان کو سن کر ہی سنڈاس کی بو محسوس ہونے لگتی ہے۔‘‘
(مولوی محمد علی صاحب قادیانی امیر جماعت لاہور کا خطبہ جمعہ مندرجہ اخبار ’’پیغام صلح‘‘ لاہور جلد۲۲، نمبر ۳۳، ص ۷ مورخہ ۳/جون۱۹۳۴ئ)
مسلمانوں نے (لاہوری و قادیانی)دونوں کی اس باہمی چخ بخ کو ایک سکہ کے دورخ قرار دیا۔ ایک گرو کے دو چیلوں کی اخلاق باختگی کو مرزا قادیانی کی روحانی تربیت کا نتیجہ قرار دیا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سے کسی نے پوچھا کہ لاہوریوں و قادیانیوں میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فی البدیہہ فرمایاکہ برہردولعنت، خنزیر، خنزیر ہوتا ہے، چاہے گورے رنگ کا ہو یا کالے رنگ کا۔ کفر کفر ہے۔ چاہے لاہوری ہو یا قادیانی۔ لاہوریوں کا مرکز لاہور میں ہے۔ قادیانیوں کا مرکز پاکستان بننے کے بعد چناب نگر اور اب ان کا مرکز بہشتی مقبرہ سمیت لندن کو سدھار گیا ہے۔ تمام علمائے اسلام نے دونوں گروپوں کے کفر کا فتویٰ دیا۔ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک سب نے دونوں کو کافرو غیر مسلم گردانا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
لاہوری گروپ کافرکیوں؟
آنحضرتﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے۔ وہ بالاجماع کافر ہے۔ اس کو جو لوگ اپنا امام‘ مجدد‘ مامور من اﷲ‘ مہدی‘ مسیح‘ ظلی نبی‘ تسلیم کریں۔ وہ بھی کافر ہیں۔ حتیٰ کہ مدعی نبوت کو جو لوگ مسلمان سمجھیں۔ بلکہ جو اسے کافر نہ سمجھیں وہ بھی کافر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اپنے فتاویٰ میں‘ عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں، اور اسمبلی نے اپنے قانون میں قادیانیوں کی طرح لاہوری گروپ کو بھی کافر قرار دیا ہے۔ مرزاقادیانی کے کفریہ دعاوی جن کو لاہوری گروپ بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
لاہوری گروپ مرزا قادیانی کو اس کے تمام دعاوی میں سچا مانتا ہے۔مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے کہ:
۱… ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلا ص ۱۱، خزائن ص ۲۳۱ ج۱۸)
۲… ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘

(بدر ۵/مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ص ۱۲۷ ج۱۰)
۳… ’’میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۵۵، حاشیہ خزائن ص ۶۸ ج۲۱)
۴… ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱،خزائن ص ۴۰۶ ج۲۲)
۵… ’’اس امت میں آنحضرتﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ (مرزا) بھی ہوا۔ جو امتی بھی ہے اور نبی بھی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۲۸ حاشیہ، خزائن ص۳۰ ج۲۲)
۶… ’’ہمارے نبی ہونے کے وہی نشانات ہیں جو تورات میں مذکور ہیں۔ میں کوئی نیا نبی نہیں ہوں۔ پہلے بھی کئی نبی گزرے ہیں جنہیں تم لوگ سچے مانتے ہو۔‘‘
(الحکم ۱۰/اپریل ۱۹۰۸ء ملفوظات ص ۲۱۷ ج۱۰)
ان حوالہ جات میں مرزا قادیانی کا صراحت کے ساتھ نبوت کا دعویٰ موجود ہے، اور پہلے انبیاء (سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرتﷺ تک) کی طرح نبی ہونے کے مدعی ہیں۔ اب نبی کے لئے معجزہ چاہئے۔ کوئی نبی ایسانہیں گزرا جس کو اﷲ تعالیٰ نے معجزہ نہ دیا ہو۔ مرزا قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے لئے معجزہ چاہئے۔ چنانچہ وہ اپنے معجزات کے متعلق خود لکھتا ہے:
۷… ’’اگر میں (مرزا) صاحب معجزہ نہیں تو جھوٹا ہوں۔‘‘
(تحفۃ الندوۃ ص ۹،خزائن ص ۹۷ ج۱۹)
۸… ’’مگر میں تو اس سے بڑھ کر اپنا ثبوت رکھتا ہوں کہ ہزارہا معجزات اب تک ظاہر ہوچکے ہیں۔‘‘
(تحفۃ الندوۃ ص ۱۲،خزائن ص۱۰۰ ج۱۹)
۹… ’’اور خدا تعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلارہا ہے کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔ ‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۷، خزائن ص۵۷۵ ج۲۲)

دیکھئے نبی کے لئے وحی نبوت بھی ہونی چاہئے۔ مرزا قادیانی اس کے متعلق لکھتا ہے:
۱۰… ’’اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱، خزائن ص ۴۰۷ ج۲۲)
ان حوالہ جات سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور یہ امر طے شدہ ہے کہ:’’ دعویٰ النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع ‘‘
(شرح فقہ اکبر ملا علی قاری ص ۲۰۷ مصری)
آنحضرتﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے۔ وہ بالاجماع کافر ہے۔ مرزا کے ان کفریہ دعاوی کو لاہوری گروپ بھی صحیح مانتے ہیں۔ اس لئے قادیانیوں کی طرح لاہوری بھی کافر ہیں۔
( مزید تفصیل ’’احتساب قادیانیت‘‘ ج اول میں مولانا لال حسین اخترؒ کی ترک مرزائیت اور ’’تحفہ قادیانیت‘‘ ج۲ میں معرکہ لاہور و قادیان از حضرت لدھیانوی شہیدؒ ملاحظہ کریں)۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دورِ صدیقی سے دورِ حاضر تک کی خدمات کا مختصر اور جامع جائزہ
سوال۹… عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے دور صدیقیؓ سے دور حاضر تک جو خدمات سرانجام دی گئیں ہیں۔ ان کا تذکرہ مختصر مگر جامع انداز میں تحریرکریں؟
جواب … آپﷺ کی ختم نبوت میں امت مسلمہ کی وحدت کا راز مضمر ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں چودہ سو سال سے کبھی بھی امت دورائے کا شکار نہیں ہوئی۔ بلکہ جس وقت کسی شخص نے اس مسئلہ کے خلاف رائے دی امت نے اسے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا۔ ختم نبوت کا تحفظ یا باالفاظ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین کا ہی ایک حصہ ہے۔ دین کی نعمت کا اتمام آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر ہوا۔ اس لئے دین کے اس شعبہ کو بھی اﷲ رب العزت نے خود آنحضرتﷺ سے وابستہ فرمادیا اور سب سے پہلے خود آنحضرتﷺ نے اپنے زمانہ میں پیدا ہونے والے جھوٹے مدعیان نبوت کا استیصال کرکے امت مسلمہ کو اپنے عمل مبارک سے کام کرنے کا عملی نمونہ پیش فرمادیا۔

تحفظ ختم نبوت آنحضرتﷺ کی سنت مبارکہ:

چنانچہ اسود عنسی کے استیصال کے لئے رحمت عالمﷺ نے حضرت فیروز دیلمیؓ کو اور طلیحہ اسدی کے مقابلہ میں جہاد کی غرض سے حضرت ضرار بن ازورؓ کو روانہ فرمایا۔ یہ امت کے لئے خود آنحضرتﷺ کا عملی سبق ہے۔ امت کے لئے خیروبرکت اور فلاح دارین اس سے وابستہ ہے کہ ختم نبوت کے عقیدئہ کا جان جوکھوں میں ڈال کر تحفظ کرے اور منکرین ختم نبوت کو ان کے انجام تک پہنچائے۔ امت نے آنحضرتﷺ کے اس مبارک عمل کو اپنے لئے ایسے طور پر مشعل راہ بنایا کہ خیرالقرون کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ایک لمحہ کے لئے بھی امت اس سے غافل نہیں ہوئی۔ طلیحہ اسدی نے اپنے ایک قاصد عم زاد ’’حیال‘‘ کو حضورﷺ کے پاس بھیج کر اپنی نبوت منوانے کی دعوت دی۔ طلیحہ اسدی کے قاصد کی بات سن کر رحمت عالمﷺ کو بہت فکر دامن گیر ہوئی۔ چنانچہ آپﷺ نے تحفظ ختم نبوت کی پہلی جنگ کے پہلے سپہ سالار کے لئے اپنے صحابی حضرت ضرار بن ازورؓ کا انتخاب فرمایا اور ان قبائل و عمال کے پاس جہاد کی تحریک کے لئے روانہ فرمایا جو طلیحہ کے قریب میں واقع تھے۔ حضرت ضرارؓ نے علی بن اسد سنان بن ابوسنان اور قبیلہ قضا اور قبیلہ بنوورتا وغیرہ کے پاس پہنچ کر ان کو آنحضرتﷺ کا پیغام سنایا اور طلیحہ اسدی کے خلاف فوج کشی اور جہاد کی ترغیب دی۔ انہوں نے لبیک کہا اور حضرت ضرارؓ کی قیادت میں ایک لشکر تیار ہوکر واردات کے مقام پر پڑائو کیا۔ دشمن کو پتہ چلا۔انہوں نے حملہ کیا۔ جنگ شروع ہوئی۔ لشکر اسلام اور فوج محمدی نے ان کو ناکوں چنے چبوادیئے۔ مظفرو منصور واپس ہوئے۔ ابھی حضرت ضرارؓ مدینہ منورہ کے راستہ میں تھے کہ آنحضرتﷺ کا وصال مبارک ہوگیا۔
(تلخیص ائمہ تلبیس ص ۱۷ ج۱)

عہد صدیقیؓ میں تحفظ ختم نبوت کی پہلی جنگ:

حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ یمامہ کے میدان میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت عکرمہؓ پھر حضرت شرحبیلؓ بن حسنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کے لشکر کی کمان فرمائی۔ اس پہلے معرکہ ختم نبوت میں ۱۲ سو صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ شہید ہوئے۔ جن میں سات سو قرآن مجید کے حافظ و قاری تھے اور بہت سے صحابہؓ بدریین تھے ۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ مسیلمہ کذاب کی پارٹی کے تمام بالغ افراد کو بجرم ارتداد قتل کردیا جائے۔ عورتیں اور کم سن لڑکے قیدی بنائے جائیں اور ایک روایت (البدایۃ والنہایۃ ج ۶ ص ۳۱۰ اور طبری تاریخ الامم والملوک کی جلد۲ص۴۸۲) کے مطابق مرتدین کے احراق کا بھی حضرت صدیق اکبرؓ نے حکم فرمایا۔ لیکن آپ کا فرمان پہنچنے سے قبل حضرت خالد بن ولیدؓ معاہدہ کرچکے تھے۔ معاہدہ اس طرح ہوا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسیلمہ کے ایک ساتھی مجاعہ کو گرفتار کرلیا تھا۔ جنگ کے اختتام پر اسے قید سے رہا کرکے فرمایا کہ اپنی قوم کو قلعہ کھولنے پر تیار کرو۔ مجاعہ نے جاکر عورتوں اور بچوں کو پگڑیاں بندھوا کر مسلح کرکے قلعہ کی فصیل پر کھڑا کردیا اور حضرت خالدؓ کو یہ تاثر دیا کہ بہت سا لشکر قلعہ میں جنگ کے لئے موجود ہے۔ حضرت خالدؓ اور مسلمان فوج ہتھیار اتار چکے تھے۔ نئی جنگ کے بجائے انہوں نے چوتھائی مال و اسباب پر مسیلمہ کی فوج سے صلح کرلی۔ جب قلعہ کھول دیا گیا تو وہاں عورتوں اور بچوں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ حضرت خالدؓ نے مجاعہ سے کہا کہ تم نے دھوکہ دیا۔ اس نے کہا کہ اپنی قوم کو بچانے کی خاطر ایسا کیا۔ باوجودیکہ یہ معاہدہ دھوکہ سے ہوا۔ لیکن حضرت خالدؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا۔ مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشیؓ نے قتل کیا تھا اور بدایہ کی روایت کے مطابق طلیحہ کے بعض ماننے والوں کی خاطر بزاخہ میں قیام کے دوران ایک ماہ تک ان کی تلاش میں پھرتے رہے۔ تاکہ آپ ان سے مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لیں۔ جن کو انہوں نے اپنے ارتداد کے زمانہ میں اپنے درمیان رہتے ہوئے قتل کردیا تھا۔ ان میں سے بعض (طلیحی مرتدین) کو حضرت خالدؓ نے آگ میں جلادیا اور بعض کو پتھروں سے کچل دیا، اور بعض کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے گرادیا۔ یہ سب کچھ آپ نے اس لئے کیا تاکہ مرتدین عرب کے حالات سننے والا ان سے عبرت حاصل کریں۔ (البدایہ ج۲ ص ۱۱۶۶ اردو ترجمہ مطبوعہ نفیس اکیڈیمی، کراچی)

اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ باقی تمام فتنوں سے مباحثہ، مجادلہ، مناظرہ و مباہلہ وغیرہ ہوئے۔ لیکن جھوٹے نبیوں سے تو گفتگو کی بھی شریعت نے اجازت نہیں دی اور فصول عمادی میں کلمات کفر شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’وکذالو قال انا رسول اﷲ اوقال بالفارسیۃ من پیغامبرم یریدبہ پیغام می برم یکفر ولو انہ حین قال ھذہ المقالۃ طلب غیرہ منہ المعجزۃ قیل یکفر الطالب والمتأخرون من المشائخ قالوا ان کان غرض الطالب تعجیزہ وافتضاحہ لایکفر(فصول : ۱۳۰۰)‘‘
ترجمہ: ’’اور ایسے ہی اگر کہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں یا فارسی زبان میں کہے من پیغامبرم اور مراد یہ ہو کہ میں پیغام لے جاتا ہوں تو کافر ہوجائے گا اور جب اس نے یہ بات کہی اور کسی شخص نے اس سے معجزہ طلب کیا تو بعض کے نزدیک یہ طالب معجزہ بھی کافر ہوجائے گا۔ لیکن متأخرین نے فرمایا ہے کہ اگر طالب معجزہ کی نیت طلب معجزہ سے محض اس کی رسوائی اور اظہار عجز ہو تو کافر نہ ہوگا۔‘‘
اور خلاصۃ الفتاویٰ جلد ۴ صفحہ ۳۸۶ کتاب الفاظ الکفر فصل ثانی میں امام عبدالرشید بخاریؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ ولوادعیٰ رجل النبوۃ و طلب رجل المعجزۃ قال بعضھم یکفر وقال بعضھم ان کان غرضہ اظہار عجزہ وافتضاحہ لایکفر ‘‘
ترجمہ: ’’اور اگر کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے اس سے معجزہ طلب کیا تو بعض فقہاکے نزدیک یہ طالب معجزہ بھی مطلقاً کافرہوجائے گا اور بعض نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ اگر اس نے اظہار عجز و رسوائی کے لئے معجزہ طلب کیا تھا تو یہ کافر نہ ہوگا۔‘‘
چنانچہ امت کی چودہ سوسال کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی حکومت میں کسی شخص نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو امت نے اس سے دلائل و معجزات مانگنے کی بجائے اس کے وجود سے ہی اﷲ تعالیٰ کی دھرتی کو پاک کردیا۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بطور ’’خودکاشتہ پودا‘‘ آبیاری کی۔ مسلمان قوم مظلوم، محکوم، غلام تھی۔ لاچار امت کو قادیانی گروہ سے مناظرہ کی راہ اختیار کرنی پڑی۔ اﷲ تعالیٰ نے دلائل و براہین، مقدمات ومناظروں، منبرومحراب، عدالتوں و اسمبلی، مکۃ المکرمہ وافریقہ تک جہاں بھی کسی فورم پر قادیانی کیس گیا۔ امت مسلمہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ یہ راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ ورنہ شرعاًجھوٹے مدعی نبوت اور پیروکاروں کا وہی علاج ہے جو صدیق اکبرؓ نے اپنے عہد زرین میں مسیلمہ کذاب کا یمامہ کے میدان میں کیا تھا، اور یقین فرمایئے کہ جب کبھی اس خطہ میں اسلام کی حکومت قائم ہوگی۔ سنت صدیقؓ دھرائی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ امت محمدیہﷺ کو توفیق نصیب فرمائے۔
نوٹ: آج تک جو جھوٹے مدعیان نبوت ہوئے۔ ان کی تفصیل ’’ائمہ تلبیس‘‘ (دوجلد) میں مولانا محمد رفیق دلاوریؒ نے قلمبند کی ہے۔ اس کی تلخیص ۲۲ جھوٹے مدعی نبوت کے نام سے نثار احمد خان فتحی نے کی ہے۔ ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تحفظ ختم نبوت ﷺ کے متعلق ، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اکابرین علمائے دیوبند کی خدمات

سوال… مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد اکابر علمائے دیوبند نے جو گرانقدر خدمات اس محاذ کے مختلف میدانوں میں سرانجام دی ہیں۔ ان کا مختصرتذکرہ کریں؟
جواب … برصغیر میں جب انگریز نے اپنے استبدادی پنجے مضبوطی سے گاڑ لئے تو اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ دیگر ضمیر ودین فروشوں اور فتویٰ بازوں کے علاوہ اسے ایک ایسے مدعی نبوت کی ضرورت پیش آئی جو اس کے ظالمانہ و کافرانہ نظام حکومت کو ’’سندالہام‘‘ مہیا کرسکے۔ اس کے لئے اس نے ہندوستان بھر کے ضمیر فروش طبقات سے اپنے مطلب کا آدمی تلاش کرنے کے لئے سروے شروع کیا۔ اﷲ رب العزت کی قدرت کے قربان جایئے کہ قادیانی فتنہ کے جنم لینے سے قبل دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکیؒ پر بطور کشف کے اﷲ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن ان کے ہاں مولانا پیرمہر علی شاہ گولڑویؒ تشریف لے گئے۔ تو آپ نے حضرت پیر صاحبؒ سے فرمایا:
’’ درہندوستان عنقریب یک فتنہ ظہور کند۔ شما ضرورد ر ملک خود واپس بروید و اگر بالفرض شمادر ہند خاموش نشستہ باشید تاہم آں فتنہ ترقی نہ کندودر ملک آرام ظاہر شودپس مادر یقین خویش وقوع کشف حاجی صاحب رابفتنہ مرزا قادیانی تعبیرمی کنم۔ ‘‘
ترجمہ: ’’ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا۔ تم ضرور اپنے وطن میں واپس چلے جائو۔ اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے۔ تو وہ فتنہ ترقی نہ کرے گا اور ملک میں سکون ہوگا۔ میرے (پیر صاحبؒ) نزدیک حاجی صاحبؒ کی فتنہ سے مراد فتنہ قادیانیت تھی۔‘‘
(ملفوظات طیبہ ص ۱۲۶، تاریخ مشائخ چشت ص ۷۱۳، ۷۱۴، بیس بڑے مسلمان ص ۹۸، مہر منیر ص ۱۲۹)
اس سے اتنی بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ مرزا قادیانی کے فتنہ انکار ختم نبوت سے قبل ہی حق تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو فتنہ قادیانیت کے خلاف کام کرنے کے لئے متوجہ فرمادیا۔ اس پر حق تعالیٰ شانہ کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ سب سے پہلے فتنہ قادیانیت کی تردیدی وتکفیری مہم کے لئے حق تعالیٰ نے جس جماعت کا انتخاب کیا۔ وہ علمائے دیوبند کی جماعت تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز کے منصوبہ کے مطابق مبلغ، مناظر، مجدد، مہدی، مسیح، ظلی و بروزی، تشریعی نبی اور پھر معاذاﷲ خدا ہونے کے دعوے کئے۔ اس کی سب سے پہلی کتاب جس وقت منظر عام پر آئی اور مرزا ابھی تعارف اور جماعت سازی کے ابتدائی مرحلے مکمل کرنے کے درپے تھا۔ اس وقت سب سے پہلے جس مردخدا ، عارف باﷲ نے پڑھنے پڑھانے سے نہیں۔ بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے باطن کی صفائی کی بنیاد پر مرزا کے کافر و مردود اور اسلام سے برگشتہ ہونے کا نعرئہ مستانہ بلند کیا۔ وہ خانوادئہ دیوبند کے سرخیل حضرت میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒتھے۔ میاں شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒ کے پاس مرزا کی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لئے قادیانی وفد حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے پوچھتے ہو تو سن لو۔ یہ شخص تھوڑے دنوں میں ایسے دعوے کرے گا۔ جو نہ رکھے جائیں گے، نہ اٹھائے جائیں گے۔ قادیانی وفد یہ سن کر جزبز ہونے لگا کہ دیکھو علماء تو علمائ۔ درویش کو بھی دوسرے لوگوں کا شہرت پانا گراں گزرتا ہے۔ میاں صاحبؒ نے فرمایا مجھ سے پوچھا ہے تو جو سمجھ میں آیا بتادیا۔ ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے۔ تم آگے دیکھ لینا۔
(ماخوذ از ارشادات قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ ص۱۲۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
علمائے دیوبندکی جانب سے قادیانیوں کےخلاف کچھ فتویٰ جات
قادیانیوں کے خلاف پہلا فتویٰ:
مرزا غلام احمد قادیانی نے اب پرپرزے نکالے۔ جماعت سازی کے لئے۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ آیا تو مولانا محمد لدھیانویؒ، مولانا عبداﷲ لدھیانویؒ اور مولانا محمد اسمٰعیل لدھیانویؒ نے فتویٰ دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مجدّد نہیں بلکہ زندیق اور ملحد ہے۔
(فتاویٰ قادریہ ص۳)
اﷲ رب العزت کا کرم تو دیکھئے! سب سے پہلے دیوبند مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی جماعت کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتو یٰ دینے کی توفیق ہوئی۔ یہ مولانا محمد لدھیانویؒ معروف احرار رہنما مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے دادا تھے۔ ان حضرات کا فتویٰ مرزا قادیانی کے کفر کو الم نشرح کرنے کے لئے کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہوا۔ اس کی لہریں اٹھیں۔ حالات نے انگڑائی لی پھر:

لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ مرزا قادیانی کی کتب پر مثبت رائے کا اظہار کررہے تھے۔ ۱۸۹۰ء میں انہوں نے بھی مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مرزا قادیانی نے انگریز کے ایما پر رسائل و کتب شائع کیں۔ ہندوستان کے علمائے کرام حسب ضرورت اس کی تردید میں کوشاں رہے۔ قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ باضابطہ فتویٰ مرتب کرکے متحدہ ہندوستان کے تمام سرکردہ جید علمائے کرام سے فتویٰ لینے کی سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے دیوبند کو نصیب فرمائی۔

دارالعلوم دیوبند کے مدرس مولانا محمد سہولؒ نے ۱۲؍ صفر ۱۳۳۱ھ کو فتویٰ مرتب کیا کہ:

۱… مرزا غلام احمد قادیانی مرتد، زندیق، ملحد اور کافر ہے۔
۲… یہ کہ اس کے ماننے والوں سے اسلامی معاملہ کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مرزائیوں کو سلام نہ کریں۔ ان سے رشتہ ناتہ نہ کریں۔ ان کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ جس طرح یہود، ہنود، نصاریٰ سے اہل اسلام مذہباً علیحدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں سے بھی علیحدہ رہیں۔ جس طرح بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے۔
۳… مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسے ہے۔ جیسے یہود و نصاریٰ اور ہندو کے پیچھے نماز پڑھنا۔
۴… مرزائی مسلمانوں کی مساجد میں نہیں آسکتے۔ مرزائیوں کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کی اجازت دینا ایسے ہے۔ جیسے ہندوؤں کو مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت دینا۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی، قادیان (مشرقی پنجاب ہندوستان) کا رہائشی تھا۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو ’’قادیانی‘‘ یا ’’فرقہ غلامیہ‘‘ بلکہ جماعت شیطانیہ ابلیسیہ کہا جائے۔


اس فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ، مولانا عبدالسمیع، حضرت مفتی عزیزالرحمن دیوبندیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن ایسے دیگر اکابر علمائے کرام شامل تھے جن کا تعلق دیوبند، سہارنپور، دہلی، کلکتہ، ڈھاکہ، پشاور، رام پور، راولپنڈی، ہزارہ، مراد آباد، وزیر آباد، ملتان اور میانوالی وغیرہ سے تھا۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا وقیع اور جاندار فتویٰ تھا۔ آج سو سال کے بعد جبکہ قادیانیت کا کفر عیاں و عریاں ہے۔ بایں ہمہ اس فتویٰ میں ذرہ برابر زیادتی کرنا ممکن نہیں۔ ان اکابر نے سوچ سمجھ کر اتنا جاندار فتویٰ مرتب کیا۔ اس میں تمام جزئیات کو شامل کرکے اتنا جامع بنادیا کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود اس کی آب و تاب و جامعیت جوں کی توں باقی ہے۔
اس کے بعد ۱۳۳۲ھ میں دارالعلوم دیوبند سے ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں قادیانیوں سے رشتہ ناتہ کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ فتویٰ حضرت مولانا مفتی عزیزا لرحمن صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ اس پر دیوبند سے حضرت مولانا سید اصغر حسینؒ، حضرت مولانا رسول خانؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، حضرت مولانا گل محمد خانؒ، سہارنپور سے مظاہرالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا عنایت الٰہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ، حضرت مولانا عبداللطیفؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، تھانہ بھون سے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ، رائے پور سے حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، دہلی سے حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، غرض کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مرادآباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حیدرآباد دکن، بھوپال، رام پور، وغیرہ سے سینکڑوں علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اس فتویٰ کا نام ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ ہے۔ یہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سے شائع ہوا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top