ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حضرات علمائے دیوبند کی مساعی جمیلہ کے صدقے پوری امت کے تمام مکاتب فکر قادیانیوں کے خلاف صف آرا ہوگئے تو پورے متحدہ ہندوستان میں قادیانیوں کا کفر امت محمدیہؐ پر آشکارا ہوا۔ یوں تو ہندوستان کی مختلف عدالتوں نے قادیانیوں کے خلاف فیصلے دیئے۔ ماریشس تک کی عدالتوں کے فیصلہ جات قادیانیوں کے خلاف موجود ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جس مقدمہ نے شہرت حاصل کی اور جو ہر عام و خاص کی توجہ کا مرکز بن گیا وہ ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ ہے۔ علمائے بہاولپور کی دعوت پر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت مولانا ابو الوفا شاہجہانپوریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ ایسے اکابر علمائے دیوبند نے بہاولپور ایسے دور افتادہ شہر آکر کیس کی وکالت کی۔ اس مقدمہ کی ۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کارروائی چلتی رہی۔ اس مقدمہ میں جج نے قادیانیت کے کفر پر عدالتی مہر لگا کر قادیانیت کے وجود میں ایسی کیل ٹھونکی جس سے قادیانیت بلبلا اٹھی۔ سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کی بنیاد یہی فیصلہ ہے جس کی کامیابی میں فرزندان دیوبند سب سے نمایاں ہیں۔
فالحمد ﷲ اوّلاً و آخراً۔
فرد کا مقابلہ فرد اور جماعت کا مقابلہ جماعت ہی کرسکتی ہے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۳۰ء کو لاہور میں انجمن خدام الدین کے سالانہ اجتماع میں جو حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کی دعوت پر منعقد ہوا تھا۔ ملک بھر سے پانچ سو علمائے کرام کے اجتماع میں امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا اور قادیانیت کے محاذ کی ان پر ذمہ داری ڈالی۔ اس وقت قادیانیت کے خلاف افراد اور اداروں کی محنت میں دارالعلوم دیوبند کا کردار قابل رشک تھا۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ تو گویا تکوینی طور پر محاذ ختم نبوت کے انچارج تھے۔ قادیا نیوں کے خلاف ان کا اور مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ کا وجود ہندوستان کی دھرتی پر درئہ عمرؓ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب جماعتی سطح پر قادیانیوں کے احتساب کے لئے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی ڈیوٹی لگی۔ آپ نے مجلس احرار اسلام ہند میں مستقل شعبہ تبلیغ قائم کردیا۔ جمعیۃ علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کی پوری قیادت کا ان پر اس سلسلہ میں بھرپور اعتماد تھا۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ ایسے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی نے سرپرستی سے سرفراز فرمایا۔
اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے مجلس احرار اسلام ہند نے ۲۰،۲۱، ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں ان اکابرین ملت نے قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ، حضرت مولانا عنایت علی چشتیؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، حضرت مولانا رحمت اﷲ مہاجر مکیؒ وغیر ہ ان سب حضرات نے قادیان میں رہ کر قادیانیت کو ناکوں چنے چبوائے۔ اﷲ تعالیٰ کے کرم کے فیصلوں کو دیکھئے کہ یہ سب حضرات خانوادئہ دیوبند سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کانفرنس میں علمائے کرام نے ملک کے چپہ چپہ میں قادیانی عقائد و عزائم کی قلعی کھولنے کی ایک لہر پیدا کردی۔
مختصر یہ کہ ان اکابر کی قیادت میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے سرفروشوں نے اپنی شعلہ بار خطابت کے ذریعے انگریز اور انگریز کی ساختہ پرداختہ قادیانی نبوت کے خرمن خبیثہ کو پھونک ڈالا۔ تاآنکہ ۱۹۴۷ء میں انگریزی اقتدار رخت سفر باندھ کر رخصت ہوا تو برصغیر کی تقسیم ہوئی اور پاکستان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں قادیانی نبوت کا منبع خشک ہوگیا اور قادیان کی منحوس بستی دارالکفر اور دارالحرب ہندوستان کے حصہ میں آئی۔ قادیانی خلیفہ اپنی ’’ارض حرم‘‘ اور ’’مکۃ المسیح‘‘ (قادیان) سے برقعہ پہن کر فرار ہوا اور پاکستان میںربوہ (اب چناب نگر) کے نام سے نیا دارالکفر تعمیر کرنے کے بعد شاہوار نبوت کی ترکتازیاں دکھانے اور پورے ملک کو مرتد کرنے کا اعلان کرنے لگا۔
قادیانیوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان کے ارباب اقتدار پر ان کا تسلط ہے۔ ملک کے کلیدی مناصب ان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ظفر اﷲ خان خلیفہ قادیان (حال ربوہ) کا ادنیٰ مرید ہے۔ اس لئے پاکستان میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا جعلی سکہ رائج کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ ان کی امید افزائی کا خاص پہلو یہ بھی تھا کہ ’’احرار اسلام‘‘ کا قافلہ تقسیم ملک کی وجہ سے بکھر چکا تھا۔ تنظیم اور تنظیمی وسائل کا فقدان تھا اور پھر ’’احراراسلام‘‘ ناخدایان پاکستان کے دربار میں معتوب تھے۔ اس لئے قادیانیوں کو غرہ تھا کہ اب حریم نبوت کی پاسبانی کے فرائض انجام دینے کی کسی کو ہمت نہیں ہوگی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ حفاظت دین اور ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کا کام انسان نہیں کرتے خدا کرتا ہے اور وہ اس کام کے لئے خود ہی رجال کار بھی پیدا فرمادیتا ہے۔
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور ان کے رفقاء قادیانیوں کے عزائم سے بے خبرنہیں تھے۔ چنانچہ جدید حالات میں قادیانیت کے خلاف کام کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے ملتان کی ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد سراجاں‘‘ (۱۹۴۹ئ) میں ایک مجلس مشاورت ہوئی۔ جس میں امیر شریعت ؒ کے علاوہ مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ مولانا عبدالرحمن میانویؒ‘ مولانا تاج محمودؒ اور مولانا محمد شریف جالندھری ؒ شریک ہوئے۔ غوروفکر کے بعد ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا ابتدائی میزانیہ ایک روپیہ یومیہ تجویز کیا گیا۔ چنانچہ صدرالمبلغین کی حیثیت سے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو‘ جو قادیان میں شعبہ تبلیغ احرار اسلام کے صدر تھے۔ ملتان طلب کیا گیا۔ ان دنوں مسجد سراجاں ملتان کا چھوٹا سا حجرہ مجلس تحفظ ختم نبوت کا مرکزی دفتر تھا۔ وہی دارالمبلغین تھا۔ وہی دارالاقامہ تھا۔وہی مشاورت گاہ تھی اور یہی چھوٹی سی مسجد اس عالمی تحریک ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا ابتدائی کنٹرول آفس تھا۔ شہید اسلام حضرت زیدؓ کے بقول: ’’
وذلک فی ذات الالہ وان یشاء یبارک علی اوصال شلو ممزع
‘‘
حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس نحیف و ضعیف تحریک میں ایسی برکت ڈالی کہ آج اس کی شاخیں اقطار عالم میں پھیل چکی ہیں اور اس کا مجموعی میزانیہ لاکھوں سے متجاوز ہے۔
’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کو یہ سعادت ہمیشہ حاصل رہی ہے کہ اکابر اولیاء اﷲ کی قیادت و سرپرستی اور دعائیں اسے حاصل رہی ہیں۔ حضرت اقدس رائے پوریؒ آخری دم تک اس تحریک کے قائد و سرپرست رہے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ‘ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ‘ حضرت مولانا عبداﷲ درخواستیؒ اور حضرت مولانا خان محمدصاحبؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں۔ اس کے سرپرست ہیں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے بانی اور امیر اول امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔ امیر شریعتؒ کی وفات ۱۹۶۱ء میں ہوئی۔ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو امارت سپرد کی گئی۔ ان کے وصال کے بعد مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ امیر مجلس ہوئے۔ مولانا لال حسین اخترؒ کے بعد عارضی طور پر فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو مسند امارت تفویض ہوئی۔ مگر اپنے ضعف و عوارض کی بناء پر انہوں نے اس گراں باری سے معذرت کا اظہار فرمایا۔ یہ ایک ایسا بحران تھا کہ جس سے اس عظیم الشان تحریک کی پیش قدمی رک جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ کا وعدہ حفاظت دین یکایک ایک ایسی ہستی کو اس منصب عالی کے لئے کھینچ لایا جو اپنے اسلاف کے علوم و روایات کی امین تھی اور جس پر ملت اسلامیہ کو بجاطور پر فخر حاصل تھا۔ میری مراد شیخ الاسلام حضرت العلامہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے ہے۔
تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت‘ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کی وراثت وامانت تھی اور اس کا اہل علوم انوری کے وارث حضرت شیخ بنوری سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضرت امیر شریعت قدس سرہ کی امارت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی خطابت‘ مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری نوراﷲ مرقدہ کی ذہانت‘ مناظراسلام مولانا لال حسین اختر ؒ کی رفاقت‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی بلندئ عزم نے نہ صرف مجلس تحفظ ختم نبوت کی عزت و شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ بلکہ ان حضرات کی قیادت نے قصر قادیانی پر اتنی ضرب کاری لگائی کہ قادیانی تحریک کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر کذب وافتراء کی آئینی مہر لگ گئی۔
’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا مقصد تاسیس‘ عقیدئہ ختم نبوت کی حفاظت اور امت مسلمہ کو قادیانی الحاد سے بچانا تھا۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ جماعت خارزار سیاست میں الجھ کر نہ رہ جائے۔ چنانچہ جماعت کے دستور میں تصریح کردی گئی کہ جماعت کے ذمہ دار ارکان سیاسی معرکوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ کیونکہ سیاسی میدان میں کام کرنے کے لئے دوسرے حضرات موجود ہیں۔ اس لئے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا دائرہ عمل دعوت و ارشاد‘ اصلاح و تبلیغ اور رد قادیانیت تک محدود رہے گا۔ اس فیصلے سے دو فائدے مقصود تھے۔
ایک یہ کہ: ’’جماعت تحفظ ختم نبوت‘‘ کا پلیٹ فارم تمام مسلمانوں کا اجتماعی پلیٹ فارم رہے گا اور عقیدئہ ختم نبوت کا جذبہ اہل اسلام کے اتحاد و اتفاق اور ان کے باہمی ربط تعلق کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔‘‘
دوم یہ کہ: ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا ارباب اقتدار سے یا کسی اور سیاسی جماعت سے تصادم نہیں ہوگا۔ اور امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدئہ ختم نبوت اطفال سیاست کا کھلونا بننے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کو قدرت نے قادیانیت کے خلاف سراپا تحریک بنا دیا تھا۔ آپ نے اپنے شاگردوں کی ایک مستقل جماعت کو قادیانیت کے خلاف تحریری و تقریری میدان میں لگایا تھا۔ حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، مولانا غلام اﷲ خانؒ ایسے جید علمائے امت جنہوں نے قادیانیت کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ سب حضرت کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی مسند ِ حدیث پر بیٹھ کر اس مردِ قلندر نے اس فتنہ عمیاء قادیانیت کے خلاف محاذ قائم کیا۔ جسے دیانت دار مورخ سنہرے حروف سے لکھنے پر مجبور ہے۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا۔ قادیانی جماعت کا لاٹ پادری مرزا محمود قادیان چھوڑ کر پاکستان آگیا۔ پنجاب کے پہلے انگریز گورنر موڈی کے حکم پر چنیوٹ کے قریب ان کو لب دریا ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر الاٹ کی گئی۔ فی مرلہ ایک آنہ کے حساب سے صرف رجسٹری کے کل اخراجات 10,034/-روپے وصول کئے۔ قادیانیوں نے بلاشرکت غیرے وہاں پر اپنی اسٹیٹ ’’مرزائیل‘‘ کی اسرائیل کی طرز پر بنیاد رکھی۔ ظفراﷲ قادیانی پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا۔ اس نے سرکاری خزانہ سے آب و دانہ کھا کر قادیانیت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ انگریز خود چلا گیا۔ مگر جاتے ہوئے اسلامیان برصغیر کے لئے اپنی لے پالک اولاد قادیانیت کے لئے ایک مضبوط بیس مہیا کرگیا۔ قادیانی علی الاعلان اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ قادیانیوں کی تعلّی اور لن ترانیاں دیکھ کر اسلامیان پاکستان کا ہردرد رکھنے والا شخص اس صورت سے پریشان تھا۔ قادیانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہوا پر سوار تھے۔ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن قادیانیوں کو مسلمانوں کا حصہ شمار کیا گیا۔ چنانچہ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے شیر اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو بریلوی مکتبہ فکر کے رہنما مولانا ابوالحسنات قادریؒ کے ہاں بھیجا۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، شیعہ مکاتب فکر اکٹھے ہوئے اور قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ جسے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں مرکزی کردار ابنائے دارالعلوم دیوبند کا تھا۔ اس تحریک نے قادیانیوں کے منہ زور گھوڑے کو لنگڑا کردیا۔ ظفر اﷲ قادیانی ملعون اپنی وزارت سے آنجہانی ہوگیا۔ قادیانیت کی اس تڑاخ سے ہڈیاں ٹوٹیں کہ وہ زمین پر رینگنے لگی۔ عقیدئہ ختم نبوت کی ان عظیم خدمات پر دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
قبل ازیں ۱۹۴۹ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جس پلیٹ فارم کا اعلان ہوا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد اسے مستقل جماعت کے طور پر قادیانیت کے احتساب کے لئے منظم کیا گیا جبکہ سیاسی و مذہبی طور پر اسلامیان پاکستان کی رہنمائی اور اسلامی نظام کے نفاذ اور اشاعت دین کے لئے ’’جمعیت علمائے اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ یہ سب ابنائے دارالعلوم کا کارنامہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے ایوبی دور میں مغربی پاکستان اسمبلی میں شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کے لئے جو خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ غرض مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قادیانیت کا احتساب کیا گیا ’’مغربی آقائوں‘‘ کے اشارے پر قادیانی ’’فوج‘‘ و دیگر سرکاری دوائر میں سرگرم عمل تھے۔ علمائے کرام کی مستقل جماعت مولانا احمد علی لاہوریؒ مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ، مولانا گل بادشاہؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبدالرحمن میانویؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مولانا عبدالقیومؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا محمد عبداﷲ درخواستی ؒ اور ان کے ہزاروں شاگرد لاکھوں متوسلین کروڑوں متعلقین نے جو خدمات سرانجام دیں۔ وہ سب دارالعلوم کا فیضان نظر ہے۔ سب اسماء گرامی کا استحضار و احصاء ممکن نہیں۔ وہ سب حضرات جنہوں نے اس سلسلہ میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ہمارے ان الفاظ کے لکھنے کے محتاج نہیں۔ وہ یقینا رب کریم کے حضور اپنے حسنات کا اجر پاچکے ۔(فنعم اجر العاملین)