ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ہندوستان کے علاقہ چاندا پور ضلع شاہجہانپور میں ایک بڑا سرمایہ دار جاگیر دار ہندو تھاجس کا نام تھا منشی پیارے لال اس کی ایک پورپین پادری نولس سے دوستی ہوگئی اس کی باتیں سن کر اس کادل عیسائیت کی طرف مائل ہواتواس کے ہندو دوستوں نے اس کو مشورہ دیا کہ آپ اپنی زمینوں میں ایک مذہبی مباحثہ رکھیں جس میں ختلف مذاہب کے علماء کو بلا کر مذہبی مناظرہ کروائیںاس نے مسلمانوں ، ہندوئوں اور عیسائیوں کو اس کے لئے دعوت دی۔ اہل علاقہ کے مسلمانوں کوبڑا فکر لگا انہوں نے جن علماء کو اس کے لئے بلایا ان میں سرِ فہرست حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے۔ (مباحثہ شاہجہانپور ص۱۰ ،۱۱) اس جگہ دومرتبہ مباحثہ ہوا پہلا مباحثہ ۱۳۹۳ھ کو دوسرامباحثہ۱۳۹۴ھ کو۔ دونوں مرتبہ حضرت نانوتوی ؒ انتہائی کا میابی کے ساتھ لوٹے۔ ان مباحثوں کی باقاعدہ روئیداد چھپی پہلے مباحثہ کی روئیداد کا نام ہے میلہ خدا شناسی دوسرے کی روئیداد کا نام ہے مباحثہ شاہجہانپور۔خود حضرت نانوتویؒ نے وہاں جانے سے قبل ایک تحریر لکھی جو حجۃ الاسلام کے نام سے طبع ہوئی ۔ ان مباحثوں میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔
۱) بریلی اور اس کے اطراف کے مسلمانوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ آپ کو اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ (میلہ خدا شناسی ص۸،۹سوانح عمری ص۱۵طبع مکتبہ رشیدیہ لاہور) ۲)مسلمانوں نے آپ کو کفر کے مقابلہ میں اسلام کو سچا ترجمان تسلیم کیا
۳)کافروں نے بھی آپ کو مسلمانوں کا بڑا عالم مانا۔
۴) آپ کی جیت کو اسلام اور مسلمانوں کی جیت مانا گیا۔
۵) آپ نے ان مباحثوں میں جابجا عقیدئہ ختم نبوت کوبیان کیااور یہ ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہ ہوگا اب نجات صرف اور صرف نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے میں اور آپ کی اتباع میں ہے۔اس سے ثابت ہواکہ حضرت نانوتویؒ نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺکواللہ کاآخری نبی مانتے تھے بلکہ آپ اس عقیدے کے بہت بڑے مبلغ تھے۔حضرت کی مکمل عبارات ان شاء اللہ کتاب ’’ نبی الانبیاء ﷺ‘‘ میں دی جائیں گی اور اگر اللہ نے چاہا تو اس نام کے ساتھ الگ بھی شائع کی جائیں گی۔
’’حضرت نانوتویؒ اور خدمات ختم نبوت‘‘
آپ کی وفات کے بعد مرزا قادیانی کا فتنہ اٹھاقادیانی نے نبوت کا دعوی کیا پوری امت نے قادیانی پر کفر کا فتوی لگایا۔کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ ایسا ٹھوس عقیدہ ہے جس میں امت مسلمہ نے کبھی اختلاف نہ کیاایک دن راقم نے ایک مرزائی قاضی محمد نذیرکی ایک چھوٹی سی کتاب دیکھی جس کا نام تھا۔
’’احمدیت پر اعتراضات کے جوابات‘‘
راقم کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور دکھ ہوا کہ اس مرزائی نے نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کے جاری ناننے والوں میںبعض اکابر کے ساتھ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کا ذکر بھی کیا اور ان کی مشہور کتاب تحذیر الناس سے ایک عبارت بھی پیش کی ہے۔(دیکھئے احمدیت پر اعتراضات کے جوابات ص۱۰)حالانکہ یہ عقیدہ ایسا ہے جس میں کبھی اختلا ف ہوا ہی نہیںوہ کونسا مسلمان ہے جو ختم نبوت کا قائل نہ ہو۔(ان حضرت کی وہ عبارات اور ان کے صحیح معنی ان شاء اللہ سورۃ احزاب سے دلائل ختم نبوت کے ضمن میں ذکر ہوں گے)
مرزائیوں کے اس الزام کا جواب اتنا ہی کافی تھا کہ تحذیرالناس سے کئی سال بعد یہ شاہجہانپور میں یہ مباحثے ہوئے ہیں چنانچہ تحذیر الناس پہلی مرتبہ مطبع صدیقی سے ۱۲۸۹ھ ۱۸۷۳ء کو چھپی(حاشیہ قاسم العلوم ص۸۴ از پروفیسر انوار الحسن شیرکوٹی ) جبکہ شاہجہانپور کا پہلا مباحثہ ۱۲۹۳ھ کو ہوا۔ اگر بالفرض حضرت نانوتویؒ عقیدئہ ختم نبوت کے منکر ہوتے تو اول تو مسلمان آپ کو اس میں دعوت ہی نہ دیتے دوسرے جب آپ نے وہاں عقیدہ ختم نبوت کوبیان کیا اس وقت عیسائی یا ہندو کہہ دیتے کہ تم تو اس کے قائل ہی نہیں۔ان میں پنڈت دیانند سرسوتی بھی تھاجو بعد میں بھی آپ سے خط وکتابت کرتا رہا مقابلے سے بھاگتا رہا مگر تحذیر الناس کی عبارات کو نہ چھیڑا۔بلکہ حضرت نانوتویؒ کو مسلمانوں کا بڑا عالم تسلیم کرتارہا(دیکھئے انتصار الاسلام ص۳) آپ کے نام خطوط میں لکھتا تھا پیشوائے دین اسلام مولوی محمد قاسم صاحب(دیکھئے قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒص۳۸۸)
اس لئے حضرت نانوتویؒ کو ختم نبوت کا منکر کہنا بالکل باطل اور بے بنیاد بات ہے۔اس کے باوجود راقم الحروف مناسب جانا کہ حضرت نانوتویؒ کی ایسی عبارات کی مفصل توضیح کردے تاکہ کسی شخص کو حضرت پر ایسا الزام لگانے کی جرات نہ ہو اور ان کی اس موضوع پر خدمات کو اجاگر کرے اس سلسلے کی کڑی یہ ایک کتاب بھی ہے۔
راقم الحروف اپنی اس کاوش کا
انتساب
عقیدئہ ختم نبوت کے عظیم مجاہدحجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام کرتا ہے اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں بھی عقیدئہ ختم نبوت کے مبلغین کے خدام میں شامل فرمائے آمین
فقط
بندہ محمد سیف الرحمن قاسم عفی عنہ
جامعۃ الطیبات للبنات الصالحات
۴ کنور گڑھ کالج روڈ گوجرانوالہ پاکستان
۲۲ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ ۲۸مئی ۲۰۰۸ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہٗ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہٗ ! أَمَّا بَعْدُ ،
’’ حضرت محمد رسول اللہ ﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں‘‘یہ عقیدہ اسلام کے ان بنیادی اورٹھوس عقائد میں ہے جو قرآن وحدیث کی قطعی نصوص سے ثابت ہیں ہر دور کے مسلمان کا اس پراجماع رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہ ماننا کفرہے۔
عام لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن پاک سے نبی کریمﷺ کے آخری نبی ہونے کی دلیل صرف یہ ایک آیت کریمہ ہے ’’
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَُبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْمًا
‘‘ (سورۃ الاحزاب :۴۰) (محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور لیکن اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے) جبکہ علماء کرام نے اور بہت سی آیات سے اس موضوع پر استدلال کیا ہے مفسرِ قرآن مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ سابق مفتی دار العلوم دیوبند
حَمَاھَا اللّٰہُ تَعَالیٰنے
اپنی کتاب
ھَدِیَّۃُ الْمَھْدِیِّیْن فِیْ آیَۃِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْن
میں ۳۳آیات سے نبی کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر استدلال کیا ہے( دیکھئے
ھَدِیَّۃُ الْمَھْدِیِّیْن فِیْ آیَۃِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنص
۶۳)۔اور مفتی صاحب نے اپنی دوسری کتاب’’
ختم نبوت کامل
‘‘ میں ایک سو آیات ذکر کی ہیںحضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔
’’ رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا اور آپ کا آخری پیغمبر ہونا آپ کے بعد کسی نبی کا دنیا میں مبعوث نہ ہونا اور ہر مدعی نبوت کا کاذب وکافر ہونا ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابہ کرام سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع واتفاق رہا ہے اس لئے ضرورت نہ تھی کہ اس پر کوئی تفصیلی بحث کی جائے لیکن قادیانی فرقہ نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لئے بڑا زور لگایا ہے سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں شائع کرکے کم علم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے احقر نے اس مسئلہ کی پوری تفصیل ایک مستقل کتاب ’’ ختم نبوت ‘‘ میں لکھ دی ہے جس میں ایک سو آیات اور دو سو سے زائد احادیث اور سینکڑوں اقوال وآثار سلف وخلف سے اس مسئلہ کو پورا واضح کردیا ہے اور قادیانی دجل کے شبہ کا مفصل جواب دیا ہے۔ (معارف القرآن ج۷ ص۱۶۳، ۱۶۴)
راقم الحروف نے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’
تحذیر الناس
‘‘کی تشریح وتوضٰیح اورحضرت ؒ کے دفاع کے سلسلہ میں ایک کتاب شروع کی جس کا نام رکھا ’’ نبیُّ الانبیاء ﷺ‘‘۔ اوریہ نام اس لئے رکھا کہ پوری تحذیر الناس کاخلاصہ حضرت ؒ کی یہ عبارت ہے ۔ ’’ غرض جیسے آپ ﷺ نبی الامۃ ہیں بنی الانبیاء بھی ہیں‘‘ (تحذیر الناس ص۴مطبع قاسمی دیوبند)
اس کتاب میں حضرتؒ کے بیانات اور حضرت کی تحریرات سے ایسی عبارات کو جمع کرنے کا موقع ملا جن میں حضرت نے نبی کریمﷺ کی شان یاآپﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر کیا اس دوران اس عاجز نے ایک مقام پر اللہ کے فضل وکرم سے یہ عبارت لکھ دی۔
’’ غور کریں پنڈت دیانند سرسوتی نے اس وقت نبی کریمﷺکی شخصیت یا نبوت یا ختم نبوت کے بارے میںسوال نہ کیا مگرنبی کریم ﷺ کا یہ دیوانہ بہانے بہانے سے نبی کریم ﷺ کی افضلیت اور آخری نبی ہونے کونئے نئے طریقوں سے بیان کرتاہے
جَزَاہُ اللّٰہُ عَنَّا وَعَنْ سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرًا
۔اور آج طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ قادیانیوں سے اجرائے نبوت پر بات نہ کرنامرزا غلام احمدقادیانی کے کردار پر ہی بات کرنا۔ حضرت نانوتوی ؒ کی کتابوں سے تعلق کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ مرزائیوں سے اس موضوع پر بات کرنا نہ صرف آسان بلکہ نہایت دلچسپ ہوجائے گا۔ اور کوئی مرزائی ان شاء اللہ بھول کر بھی اجرائے نبوت کے موضوع پر بات کرنے کا نام نہ لے گا۔
وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی ذٰلِکَ
‘‘۔
اس کے کچھ دنوں بعد عید الاضحی ۱۴۲۶ھ کی تعطیلات میں ختم نبوت کی دلیل بننے والی آیات کو تلاش کرنے کی نیت سے قرآن پاک کو دیکھنے کا شرف ملا تو پتہ کہ قرآن پاک کی بیسیوں نہیں سینکڑوں آیات عقیدہ ختم نبوت کو ثابت کرتی ہیں چنانچہ اس عاجز نے قرآن پاک کا ایک نسخہ لے لیا اور ایسی آیات کیلئے پینسل کے ساتھ حاشیہ میں نشان لگا دیئے تاکہ کتاب ’’
نَبِیُّ الْاَنْبِیَائِ ﷺ
‘‘ میں جہاں ختم نبوت کے قرآنی دلائل دیئے جائیں وہاں ان آیات کولکھا جائے ۔
گذشتہ سال کچھ طالبات جو عالمیہ کر چکی تھیں راقم نے سوچا کہ اُن کو آیاتِ ختمِ نبوتکا دورہ کروادوں تاکہ اس طرح یہ آیات یک جا ہوجائیں چنانچہ ان کو چند دنوں میں یہ دورہ کروادیا ان طالبات نے بڑی محنت اور دل لگی کے ساتھ ان آیات کو اور وجہ استدلال کو کاپی میں لکھ لیا ثانویہ خاصہ کی طالبات کو بھی یہ دلائل سنائے جاتے وہ بھی بہت محظوظ ہوتیں۔ پھر اللہ کی توفیق سے ان کی کمپوزنگ کی گئی ابتدائی نظر ثانی کا شرف جامعہ کی رئیسۃ المعلمات کو حاصل ہوا اللہ تعالیٰ ان سب کی خدمات کو قبول فرمائے آمین میں سمجھتا ہوں کہ ان سب خواتین کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے جن کو دورانِ تعلیم شانِ رسالت اوراسلام کے اس قطعی عقیدے کی خدمت نصیب ہوئی ــــاللہ تعالیٰ اس محنت کوقبول فرمائے اور آخرت میں نبی کریمﷺ کی شفاعت اور معیت نصیب فرمائے آمین۔
کتاب’’ نبی الانبیاء ﷺ‘‘ کی طباعت میں تاخیر ہوئی تو سوچاکہ’’ آیاتِ ختم نبوت ‘‘کو الگ نام دے کر پہلے شائع کردیا جائے اس کتاب میں سورت اور آیت کا حوالہ دے کر طریق استدلال دیا جائے گا چونکہ مسئلہ واضح ہے عقیدہ قطعی ہے اس لئے غیر صریح استدلال بھی قطعاً مضر نہیں ہے۔کیسی عجیب بات ہے کہ اس موضوع پر قرآنی استدلال کوسمجھنے کیلئے مقدمہ میں سب سے پہلے حضرت نانوتویؒ ہی کے کلام سے رہنمائی مل رہی ہے اس کے بعد بھی جابجا حضرت کے کلام سے استفادہ کیا جائے گا۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ یہ دلائل دراصل کتاب ’’
نَبِیُّ الْاَنْبِیَائِ ﷺ
‘‘ کا حصہ ہے ان شاء اللہ اس کے اندر بھی اس کوشائع کیا جائے گا اُس کتاب میں اللہ نے چاہا تو ’’ احادیث ختم نبوت ‘‘ پر اسی انداز میں کام کیاجائے گا ۔
وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ
۔ ’’احادیث ختم نبوت ‘‘کوان شاء اللہ الگ بھی شائع کیاجائیگا۔
اس کتاب’’
آیاتِ ختمِ نبوت
‘‘ میں ردِ مرزائیت کے بارے میں ان شاء اللہ عجیب وغریب مواد ملے گا اور ضمنی طور پر صاحبِ ذوق کوان شاء اللہ بہت سی نرالی ابحاث نظر آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرف قبولیت عطافرمائے ۔
جب ’’آیاتِ ختمِ نبوت ‘‘ کو شائع کرنے کا ارادہ بنا تو سوچا کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کے موضوع پر تقریریں بھی لگادی جائیں جیسا کہ کتاب ’’ نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ نماز‘‘ کے ساتھ اردو عربی تقاریر دی گئی ہیں۔اب تقاریر کیسی ہوں توجیسے یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد ہے اسی طرح وہ تقاریر بھی منفرد ہونی چاہئیں اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم شامل حال ہوااور نبی کریم ﷺ کی سیرۃ سے ختم نبوت کے شواہدجیسے نایاب موضوع پرمشتمل ایک تقریر تیار ہوگئی ۔یہ تقریر اردو ، عربی اور انگریزی زبان میں خواتین کے پروگراموں میں طالبات سے کروائی بھی گئی۔ اس تقریر کی اہمیت:
یہ تقریر ختم نبوت کے موضوع پر کی گئی تقاریر سے مختلف ہے اس میں بیس کے قریب قرآنی آیات، چالیس کے قریب نبی کریم ﷺ کی احادیث ہیں اس میں سیرۃ النبی ﷺ سے ایسے شواہد دیئے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ مرزائی ہمارے نبی حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کے عنوان سے کتابیں لکھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے لڑکے مرزا بشیر الدین محمود اور لاہوری مرزائیوں کے سربراہ محمد علی کی اس موضوع پر کتابیں راقم کے پاس بھی موجود ہیں لاہوری مرزائیوں کے سربراہ کی کتاب کا نام ہے’’ سیرۃ خیر البشر‘‘ اورمرزا قادیانی کے بیٹے کی کتاب کا نام ہے’’ سیرۃ خیر الرسل‘‘۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت چونکہ ختم نبوت کی دلیل ہے اس لئے ختم نبوت کے منکرین کوسیرۃ النبی ﷺ کے عنوان پر کچھ لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس تقریر کی خصوصیت:
یہ تقریر کیا ہے ؟اللہ کے فضل وکرم سے ختم نبوت کے مضبوط دلائل کی ایک عجیب وغریب عام فہم دستاویز ہے جس میں بہت سے عجیب وغریب مخفی دلائل سامنے آگئے ہیں
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ
اس میں نبی کریم ﷺ کی سیرۃ کلمہ طیبہ اور اسلامی اعمال مثلا وضو نماز اذان اقامت وغیرہ سے عقیدئہ ختم نبوت کو ایسے آسان انداز سے ثابت کیا گیا کہ یہ عقیدہ ہر شخص کو سمجھ آجائے اور ان اعمالِ صالحہ کا شوق بھی پیدا ہو۔اس تقریر کے بعد دلائلِ ختمِ نبوت کا ایک عظیم باب کھلتا ہے اور ختم نبوت پر دلالت کرنے والی آیات واحادیث میں ایک بڑا اضافہ نظر آتا ہے ۔’’ آیاتِ ختمِ نبوت ‘‘ میں اس سے بھی زیادہ مواد ہے اور کتاب ’’نبی الانبیاء ﷺ‘‘ کی اہمیت اپنی جگہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمانِ حقیقی کی حلاوت نصیب فرمائے۔ مناظر کے ساتھ شواہدکی اشاعت:
کتاب’’
نبی الانبیاء ﷺ
‘‘ اورپھر ’’
آیاتِ ختمِ نبوت
‘‘ میں تاخیر کی وجہ سے ارادہ بنا کہ فوری طور پر اس تقریر کو شائع کیا جائے تاکہ جتنی جلدی ہوسکے یہ دلائل مسلمانوں کے سامنے آجائیں اس سے قبل جامعۃ الطیبات سے ’’دعائوں کا حسین گلدستہ ‘‘ نامی کتاب شائع ہوچکی تھی جس میں بچوں کے لئے ہر دعاء کے ساتھ ایک خوبصورت منظر دیاگیا تھادل چاہا کہ اس تقریر کو بھی اس انداز میں شائع کیا جائے اللہ کا خاص فضل وکرم ہوا کہ ہماری اس مرادکو اس نے پورا کیانرالے خوبصورت اندازکے ساتھ بتیس صفحات میں یہ تقریر کتابی شکل میں سامنے آئی، ہر صفحے میں نئی دلیل ہے، موضوع کے مطابق اس کے ساتھ منظر دیا ہوا ہے ایک سرخی منظر کے اوپر ایک نیچے ہے موضوع صفحے کے اندر اندر پورا ہوا نہ صفحے میں خالی جگہ رہی اور نہ ہی مضمون اگلے صفحے پر گیا پھر ہر صفحے کے آخر میں درود شریف بھی ہے ۔ایک صفحہ سوالات پر مشتمل ہے آخر میں مرزائیوں سے گفتگو کرنے کے آسان طریقے بھی دیئے گئے ہیں۔۔اسے ’’ گلدستہ ختم نبوت‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا اور جب یہ محسوس کیا کہ نام سے کتاب کا موضوع پورا واضح نہیں تواس کا نام بدل دیا گیا اب اس کا نام یہ ہے
’’
شواہدِ ختمِ نبوۃ مِنْ سیرۃِ صاحبِ النُّبُوَّۃ
‘‘
یعنی
’’ عقیدئہ ختم نبوۃ سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں‘‘
الحمد للہ یہ مختصر کتاب اردو انگریزی اور عربی زبان میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظرقدرِ توضیح کے ساتھ اس کتاب میں بھی اس تقریر کو رکھا گیا ہے۔
حضرت والد گرامی قدرحاجی عبد الحمید صاحب
مَتَّعَنَا اللّٰہُ بِطُوْلِ حَیَاتہِٖ
کا سایہ اللہ تعالیٰ ہم پر قائم دائم رکھے اس عاجز کی تعلیمی سرگرمیوںمیں اساتذہ اور مشائخ کا فیض تو شامل ہے ہی سچی بات یہ ہے کہ حضرت والد گرامی قدر مدظلہ العالی کی تربیت کا اس میں بڑا دخل ہے زمانہ طالب علمی میں فجر کے بعد درس قرآن میں کبھی دائیں بائیں بات نکل جاتی تووالد صاحب سختی سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن سنائو اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب یعنی اس عاجز کے دادا جان جناب مولوی اسماعیل صاحبؒ المتوفی (۲۲/۳/۱۹۵۳ء) کے پاس ایک حمائل شریف ہوتی تھی اس کو کھول کر لوگوں کوقرآن سنایاکرتے تھے۔
والد صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ایک مرتبہ علاقے میں مرزائی آگئے خطرہ تھا کہ اثر ورسوخ والے لوگ ان سے متاثر ہوجائیں گے بلکہ کچھ لوگوں نے اس دن مرزائیت قبول کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا اور جلسے میں اس کااعلان کرنا تھا انگریز کا زمانہ تھا علاقے کے مولوی صاحب پریشان تو بہت تھے مگرانہوں نے کبھی کسی سے مباحثہ نہ کیاتھاہمارے دادا جی مولوی محمد اسماعیل صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولوی ـصاحب سے لے کر مرزائیوں کی کتابوں کا مطالعہ کیااورجب مرزائی مبلغ تقریر کے لئے بیٹھا تو مرزائیوں کی کتابوں سے یہ ثابت کیاکہ مرزا قادیانی میں کئی ایسے عیوب تھے جن سے انبیاء کرام پاک ہوا کرتے ہیں(۱) اس پر وہ مرزائی مبلغ یہ کہہ کر بھاگ
ـ
(۱) مثلا مزرا قادیانی کو مالیخولیا کی بیماری تھی اس کو مراق کے دورے پڑتے تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو سب سے پہلے مراق کا دورہ اس کے بیٹے بشیر احمد کی موت کے بعد (۱۸۸۸ء کے بعد ) پڑا ۔ مرزائیوں کی کتاب سیرۃ المہدی ج۱ص۱۳ میں ہے ’’بیان کی مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (یعنی والد صاحب ) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا رات کو سوتے وقت آپ کواچھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے خاکسار نے پوچھا دوروں میں کیا ہوتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے خصوصا گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھااور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے مگر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہ رہی اورکچھ طبیعت عادی ہوگئی(سیرۃ المہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی )بحوالہ رد قادیانیت کے زریں اصول ص۱۷۷)
نکلا کہ یہاں لڑائی کا خطرہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی پھرحضرت دادا جی رحمہ اللہ تعالیٰ کی جرات سے ہزاروں مسلمانوں کا ایمان سلامت رہا ۔ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً ۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا کہ گوجرانوالہ گھنٹہ گھر کے پاس علماء ِدیوبند کی ایک مسجد پر اہل بدعت نے قبضہ کرلیا اس سے تھوڑے فاصلے پر گندے پانی کا ایک تالاب تھا دادا جی مرحوم کو خواب آیا کہ وہاں بچے قرآن پاک پڑھ رہے ہیں بیدار ہونے کے بعد دادا جی نے اپنے بیٹوں کو لیا اور اس کے کنارے مٹی ڈلوا کر نمازیں شروع کردیں دادا جی کی رہائش کچھ فاصلے پرتھی نیز وہ باضابطہ عالم نہ تھے اس لئے مسجد کی مستقل آبادی کیلئے مفسر ِ قرآن حضرت صوفی عبد الحمید صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ فاضل دارالعلوم دیوبند(المتوفی۶ اپریل ۲۰۰۸ء ) جو ان دنوں مطب چلاتے تھے لایا گیا۔حضرت صوفی صاحبؒنے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا مسجد کی تعمیرو ترقی ہوئی مدرسہ نصرۃ العلوم شروع ہوا اسی مدرسہ میں امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صاحب صفدردامت برکاتہم نے سالہا سال دورئہ حدیث اور دورئہ تفسیرکروایا۔راقم الحروف کو بھی اس مدرسہ میں دورئہ حدیث اور دورئہ تفسیر کا شرف حاصل ہوا۔ شیخین کی برکت سے اس مدرسہ نے پاکستان کے صف اول کے تعلیمی تحقیقی اور تصنیفی مراکز میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کی علالت کے بعد اس مدرسہ کا اہتمام حضرت کے بڑے صاحبزادے استاذ العلماء حضرت مولانا حاجی فیاض خان سواتی مد ظلہ العالی کے پاس ہے اور اس کے ناظم حضرت کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا ریاض خان سواتی مد ظلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ اور اہل حق کے تمام دینی مدارس کو آباد رکھے اور ان کو دشمنوں کے شر سے اور نظر بد سے محفوظ رکھے آمین۔
فقط
بندہ محمد سیف الرحمن قاسم غَفَرَ اللّٰہُ ذُنُوْبَہٗ وَسَتَرَ عُیُوْبَہٗ ۲۴مئی ۲۰۰۸ء
جامعۃ الطیبات للبنات الصالحاتگوجرانوالہ
{مقدمۃ}
{ فصل اول:قرآن کا وجود ختم نبوت کی دلیل ہے}
چونکہ اس کتاب کی تالیف بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ (المتوفی۱۲۹۷ھ)کی کتاب پر کام کرنے کی برکت سے ہوئی اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس کتاب کے شروع میںحضرت نانوتویؒ کی ذکرکردہ دلیل کو پیش کیا جائے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک مکتوب میںفرماتے ہیں۔(!)
’’دوسرے نبیوں کی نبوت حضرت محمد ﷺ کی نبوت سے فیضیاب ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت دنیا میں دوسروں کی نبوت سے فیض یاب نہیں ہے پس جیسا کہ چاند کی چاندنی سورج سے ہے اور آفتاب کا نور کسی اور نور سے نہیں بلکہ اور کسی سے حصول ِ فیض کا معاملہ ہی ختم ہوگیا اسی طرح دوسروںکی نبوت اور نبی آخر الزمان سمجھنا چاہئے جب صورتحال یہ ہو تو پھر کسی اور نبی کا سرور عالم ﷺ کے بعد آناخود بخود ممنوع ہوجاتا ہے اور باقی نہیں رہتا۔جس طرح سورج نکلنے کے بعد نورِ شفق کے ختم ہونے تک چاند اور ستاروں کی روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح
ـ
(۱) حضرت کی فارسی عبارت یوں ہے نبوت دیگراں مستفاد از حضرت محمدی استﷺ ونبوت آنحضرت ﷺ در عالم اسباب مستفاد از نبوت دیگراں نیست پس چناں کہ نورِ قمر از آفتاب است ونورِ آفتاب از نورِ دیگرنیست بلکہ قصہ استفادہ اختتام یافت ہمچنیں نبوت دیگراں ونبوت نبی آخر الزمان را باید شناخت ﷺ وچون این چنیں باشد آمدن نبی دیگران بعد آں سرورعالم ﷺخود ممنوع بود۔ بعد طلوع آفتاب تا غروب نور شفق چناں کہ حاجت نور کواکب ونور قمر نیفتہ ہمچنیں بعد طلوع ایں آفتاب نبوت تا بقاء نور کلام اللہ کہ از فیوض اوست ومشابہ نور شفق است حاجت نور نبوۃ دیگراں نباشد (قاسم العلوم مترجم ص۵۶)
اس آفتاب نبوت محمدی ﷺ کے طلوع ہونے کے بعد قرآن شریف کے نور باقی رہنے تک کہ آپ کے فیوض میں سے ہے اور نور شفق کے مشابہ ہے دوسروں کی نبوت کے نور کی ضرورت نہیں رہتی ‘‘ (قاسم العلوم مترجم ص۵۶)
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ حضرت نانوتوی ؒ کے کلام کا ماخذ حدیث نبوی ہے حضرت امام بخاری ؒ فرماتے ہیں۔ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ مَا مِنَ الْاَنْبِیَائِ نَبِیٌّ اِلَّا أُعْطِیَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہٗ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَاِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوْتِیْتُہٗ وَحْیًا أَوْحَاہُ اللّٰہُ اِلَیَّ فَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ أَکْثَرَھُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (بخاری مع فتح الباری ج۹ص۳)
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاجو بھی نبی ہوا اس کو ایسا معجزہ دیا گیا کہ انسان اس پر ایمان لے آئے اور مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ تو وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف بھیجی ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے پیروکار یعنی میری امت سب سے زیادہ ہوگی‘‘۔ حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔اَلْمُرَادُ أَنَّ مُعْجِزَاتِ الْاَنْبِیَائِ انْقَرَضَتْ بِانْقِرَاضِ أَعْصَارِھِمْ فَلَمْ یُشَاھِدْھَا اِلَّا مَنْ حَضَرَھَا وَمُعْجِزَۃُ الْقُرْآنِِ مُسْتَمِرَّۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (بخاری مع فتح الباری ج۹ص۷)
’’ مراد یہ ہے کہ دیگر انبیاء کے معجزات ان کے زمانے کے کے جانے کے ساتھ ختم ہوگئے ان کا مشاہدہ وہی لوگ کرسکے جو اس وقت موجود تھے اور قرآن پاک کا معجزہ قیامت تک باقی ہے‘‘۔
ارکان اسلام (کلمہ شہادت ، نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج)سب ہی ختم نبوت کی دلیل ہیں پہلے ایک مشہور حدیث سے اس مضمون کو ثابت کیا جاتا ہے پھر حضرت نانوتویؒ کے کلام سے اس کی تائید ذکر کی جائے گی۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا { بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَہَادَۃِ أَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ} ( بخاری حدیث رقم۸ مسلم کتاب الایمان حدیث رقم ۱۶)
ترجمہ:’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے گواہی اس کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںاور محمد (ﷺ)اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا ، حج کرنااور رمضان کے روزے رکھنا ‘‘۔
یہ حدیث پاک ختم نبوت کی روشن دلیل ہے۔ وہ اس طرح کہ اس میں حضرت محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی کا ذکرہے کسی اور کو آنا ہوتا تو اس کی صراحت یااس کا اشارہ اس کے ساتھ ضرور ہوتا۔مسلمان جب تک اس شہادت پر قائم ہیں اسلام کا پہلا رکن ان کے پا س موجود ہے کسی نئے مدعی نبوت کو نہ ماننے سے ان ارکان میں کوئی نقص یاخلل واقع نہیںہوتااس لئے کسی نئے مدعی نبوت کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ جھوٹے نبی کو ماننے سے انسان ایمان سے محروم ہوجائیگا اور ایمان ہی تو وہ قیمتی دولت ہے جس کے ساتھ آخرت کے دائمی عذاب سے نجات ملتی ہے۔