الصارم المسلول
رکن ختم نبوت فورم
آیت خاتم النبیین ﷺ کی تفسیر
جواب نمبر 1
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (احزاب۔40)
ترجمہ: ''محمدﷺ باپ نہیں تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور
ہے اللہ سب چیزوں کا جاننے والا۔''
شان نزول:-
اس آیت شریفہ کا شان نزول یہ ہے کہ آفتاب نبوت کے طلوع ہونے سے پہلے تمام عرب جن مضحکہ
خیز اور تباہ کن رسومات قبیحہ میں مبتلا تھےان میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ متبنی یعنی لیپالک بیٹے کو
تمام احکام و احوال میں حقیقی اور نسبی بیٹا سمجھتے تھے۔ اور اسی کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ اور مرنے کے
بعد باپ کے لئے بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لیپا لک کی بیوی سے بھی نکاح کو حرام قرار
دیتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
اسلام جو کہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ کفر و ضلالت کی بیہودہ رسوم سے عالم کو پاک کرے۔ اس کا
فرض تھا کہ وہ اس رسم کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی فکر کرتا۔ چنانچہ اس نے اس کے لئے دو طریق
اختیار کئے۔ ایک قولی اور دوسرا عملی۔ ایک طرف تو یہ اعلان فرما دیا۔
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ
هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ (احزاب 5-4)
ترجمہ: ''اور نہیں کیا تمہارے لیپالکوں کو تمہارے بیٹے، یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی، اور اللہ کہتا ہے
ٹھیک بات اور وہی سمجھتا ہے راہ، پکارو لیپالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے یہی پورا انصاف
ہے اللہ کے یہاں۔''
اصل مدعا یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت و حرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا نہ
سمجھا جائے۔ چناچہ اس آیت میں ارشاد ہو گیا کہ لیپالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔
نزول وحی سے پہلے آنحضرت ﷺ نے حضرت زید بن حارث رضي الله عنه کو (جو کہ آپٖﷺ کے
غلام تھے) آزاد فرما کر متبنی بیٹا بنا لیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی عرب کی قدیم رسم
کے مطابق ان کو زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے۔
حضرت عبد بن عمر رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ جب آیت مزکورہ نازل ہوئی اس وقت سے ہم نے اس
طریق کو چھوڑ کر ان کو زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا۔
صحابہ کرام اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قبیح کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ لیکن چونکہ کسی رسم و
رواج کے خلاف کرنے میں اعزاء و اقارب اور اپنی قوم و قبیلہ کے ہزاروں طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑتا
ہے جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے۔ اس لئے خداوند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے
ہاتھوں عملا توڑا جائے۔ چنانچہ حضرت زید رضي الله عنه نے اپنی بیوی زینب رضي الله عنها کو باہمی ناچاقی
کی وجہ سے طلاق دے دی تو خداوند عالم نے اپنے رسولﷺ کو حکم فرمایا کہ ان سے نکاح کر لیں۔
تاکہ اس رسم و عقیدہ کا کلیتہ استیصال ہو جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا۔
ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ (احزاب۔37)
ترجمہ: '' پس جب کہ زید (زینب) سے طالاق دے کر فارغ ہو گئے تو ہم نے ان کا نکاح آپ ٖﷺ سے
کر دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو۔''
آپ ﷺ نے بامر خداوندی نکاح کیا۔ ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا۔ تمام کفار عرب نے شور مچایا کہ
لو اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر بیٹھے۔ ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب
میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی:
''مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ''
جس میں یہ بتایا گیا کہ حضرت محمدﷺ کسی بھی مرد کے نسبی باپ نہیں تو حضرت زید رضي الله عنه کے
بھی نسبی باپ نہ ہوئے۔ لہٰذا آپﷺ کا ان کی سابقہ بیوی سے نکاح کر لینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے اور
اس بارے میں آپﷺ کو مطعون کرنا سرار نادانی اور حماقت ہے۔
ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ آپ ﷺ حضرت زید رضي الله عنه کے باپ نہیں۔
لیکن خداوند عالم نے ان مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ رد کرنے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون
کو اس طرح بیان فرمایا کہ یہی نہیں کہ آپﷺ زید رضي الله عنه کے باپ نہیں۔بلکہ آپﷺ تو کسی
بھی مرد کے باپ نہیں۔ پس ایک ایسی ذات جس کا کوئی بیٹا ہی موجود نہیں یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے
کی بیوی سے نکاح کر لیا کس قدر ظلم اور کج روی ہے۔
اور اگر کہو کہ آنحضرتﷺ کے چار فرزند ہوئے ہیں۔ قاسم اور طیب اور طاہر حضرت خدیجہ رضي الله عنهما
سے اور ابرہیم ماریہ قبطیہ رضي الله عنها کے بطن سے۔ پھر یہ ارشاد کیسے صحیح ہوگا کہ آپﷺ کسی مرد کے
باپ نہیں؟
تو اس کا جواب خود قرآن کریم کے الفاظ میں موجود ہے۔ کیونکہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپﷺ کسی
مرد کے باپ نہیں اور آپ ﷺ کے فرزند بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ ان کو مرد کہے جانے کی نوبت
ہی نہیں آئی۔ آیت میں ''رجالکم'' کی قید اس لئے بڑھائی گئی ہیں۔ بالحملہ اس آیت کے نزول کی غرض
آنحضرتﷺ سے کفار و منافقین کے اعتراضات کا اٹھانا اور آپ ﷺ کی براؑت اور عظمت شان فرمانا ہے
اور یہی آیک کا شان نزول ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے ''ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین'' لیکن رسول ہے
اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر۔
مدیر کی آخری تدوین
: