ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
۲… ابن حجر عسقلانی قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی ہشتم فرماتے ہیں۔
’’
فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی انہ رفع ببدنہ حیا وانما اختلفوا فی ہل مات قبل ان الرفع اونام فرفع
‘‘ (تلخیص الحبیر ج۳ ص۴۶۲، کتاب الطلاق مصنفہ حافظ ابن حجرؒ)
’’تمام محدثین ومفسرین کا عیسیٰ علیہ السلام کے جسم سمیت زندہ اٹھائے جانے پر اجماع ہے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ آیا رفع جسمانی سے پہلے آپ نے وفات پائی (اور پھر زندہ کئے گئے) یا صرف سو گئے۔‘‘
۳… امام شوکانیؒ قادیانیوں کے مسلم مجدد صدی دوازدہم فرماتے ہیں۔
’’
الاحادیث الواردۃ فی نزولہ متواترۃ
‘‘ (کتاب الاذاعۃ للشوکانی ونیز کتاب التوضیح بحوالہ کاویہ ج۱ ص۲۸۵)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق احادیث نبوی متواتر ہیں۔‘‘
۴… ’’قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی ششم ابن کثیرؒ اپنی مشہور تفسیر ابن کثیر میں فرماتے ہیں۔‘‘
’’
قال مجاہد وانہ لعلم للساعۃ ای ایۃ للساعۃ خروج عیسیٰ ابن مریم قبل یوم القیامۃ وہکذا روی عن ابی ہریرۃ وابن عباس وابی العالیہ ابی مالک وعکرمہ والحسن وقتادہ والضحاک وغیرہم وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲﷺ انہ اخبر بنزول عیسیٰ قبل یوم القیامۃ اماماً عادلاً وحکما مقسطاً
‘‘ (ابن کثیر مع البغوی ج۷ ص۴۰۹، بحوالہ عقیدۃ الاسلام ص۴)
’’امام مجاہد شاگرد حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ:
’’
انہ لعلم للساعۃ
‘‘
کے معنی ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانی ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ، ابن عباسؓ، ابی العالیہ، ابی مالک، عکرمہ اور امام حسن، وقتادہ والضحاک وغیرہم سے بھی مروی ہے اور رسول کریمﷺ کی حدیثیں اس بارہ میں حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے امام عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔‘‘
۵… حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قادیانیوں کے مسلم رئیس المکاشفین فرماتے ہیں۔
’’
وانہ لا خلاف انہ ینزل فی آخر الزمان حکما مقسطاً
‘‘ (فتوحات مکیہ ج۲ ص۳، بحث ۷۳)
’’یعنی اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قرب قیامت میں نازل ہوں گے۔ منصف حاکم کی حیثیت سے۔‘‘
۶… شیخ محمد طاہرؒ قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی دہم مجمع البحار میں فرماتے ہیں۔
’’
ویجی آخر الزمان لتواتر خبر النزول
‘‘ (مجمع البحار ج۱ ص۵۳۴، بلفظ حکم)
’’یعنی نزول کی حدیثوں کے تواتر سے آپ کا آخر زمانہ میں آنا ثابت ہوچکا ہے۔‘‘
۷… قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’
انہ یحکم بشرع نبینا ووردت بہ الاحادیث وانعقد علیہ الاجماع
‘‘ (الحاوی للفتاویٰ ج۲ ص۱۵۵)
’’عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو کر ہمارے ہی نبی کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ اس بارہ میں بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور اسی پر سب امت کا اجماع ہے۔‘‘
عیسی علیہ السلام کے زندہ ہونے اور ان کے نازل ہونے کا عقیدہ اجماعی ہے از مرزا غلام احمد قادیانی
اقوال مرزا
۱… ’’تیرھویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا آنا ایک اجماعی عقیدہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۸۵، خزائن ج۳ ص۱۸۹) ۲… ’’یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے۔ جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں ہیں۔ کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔ جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) ۳… ’’اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیش گوئی موجود ہے۔‘‘ (ازالہ ص۶۷۵، خزائن ج۳ ص۴۶۴) ۴… ’’اور یہ آیت کہ: ’’
ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ
‘‘ درحقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۵، خزائن ج۳ ص۴۶۴) ۵… ’’
ولنزول ایضاً حق نظراً علی تواتر الاثار وقد ثبت من طرق فی الاخبار
‘‘
ونزول از روئے تواتر آثار ہم راست است چرا کہ از طرق متعدہ ثابت است۔ (انجام آتھم ص۱۵۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) ’’اور عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا بھی حق ہے۔ کیونکہ احادیث اس بارہ میں متواتر ہیں اور یہ امر مختلف طریقوں سے ثابت ہے۔‘‘
۶… ’’واضح ہو کہ اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے۔ بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے۔ جس کا نام عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم ہوگا اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۲، خزائن ج۶ ص۲۹۸) ۷… ’’مسیح موعود کے بارہ میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف آئمہ حدیث نے چند روایتوں کی بنا پر لکھا ہو۔ بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پیش گوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آئی ہے۔ گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے۔ اسی قدر اس پیش گوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں۔ کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کو ابتداء سے یاد کرتے چلے آتے تھے۔ اگر نعوذ باﷲ یہ افتراء ہے تو اس افتراء کی مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی اور کیوں انہوں نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کس مجبوری نے ان کو اس افتراء پر آمادہ کیا تھا۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸، خزائن ج۶ ص۳۰۴) ۸… ’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہو جائیں گی اور راست بازی ترقی کرے گی۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۳۶، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱) ناظرین! ہم نے مرزاقادیانی کے آٹھ اقوال سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ابن مریم یا عیسیٰ ابن مریم کے نزول کا عقیدہ قرآن میں موجود ہے۔ احادیث نبویہ اس سے بھری پڑی ہیں۔ صحابہ کرام کلہم اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ دنیا کے کروڑہا مسلمانوں میں یہ عقیدہ نزول مسیح کا ابتداء اسلام سے چلا آیا ہے اور یہ کہ نزول مسیح ابن مریم کا مسئلہ حق ہے۔ گویا عیسیٰ ابن مریم کے نزول کے عقیدہ پر نہ صرف صحابہ کا اجماع ہے بلکہ خدا۔ اس کے رسول اﷲﷺ اور دنیا کے کروڑہا مسلمانوں کا اجماع ہے۔
عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے نزول سے مراد اسی عیسیٰ رسول بنی اسرائیل ہی کا نزول ہے۔
اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے نزول سے مراد اسی عیسیٰ رسول بنی اسرائیل ہی کا نزول ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے دلائل کی ضرورت نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے اصل حقیقت واضح ہو جائے گی۔
۱… جب کوئی آدمی کہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرض ہیضہ میں مبتلا ہو کر مرگیا تو اس سے مراد یقینا وہی مرزاغلام احمد قادیانی مدعی نبوت سمجھا جائے گا نہ کہ کوئی مثیل مرزا۔
۲… اور جب یوں کہا جائے۔ مرزاغلام احمد قادیانی ولد حکیم غلام مرتضیٰ مدعی نبوت ومسیحیت مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرگیا تھا۔ اس پر کوئی منچلہ قادیانی یوں کہہ دے کہ نہیں۔ اس سے مراد مثیل مرزاقادیانی ہے نہ کہ خود مرزاقادیانی تو اس کا علاج کیا ہے؟
۳… اگر کوئی کہے مرزامحمود قادیانی سیسل ہوٹل لاہور سے مس روفو اطالوی دوشیزہ کو اپنے ہمراہ بٹھا کر قادیان لے گئے۔ اس کے جواب میں کوئی قادیانی مرید یوں کہہ دے کہ مرزامحمود سے مراد مرزامحمود نہیں بلکہ ان کا کوئی مثیل مراد ہے تو اس کا علاج کیا؟
۴… اس کے جواب میں اگر یوں کہا جائے کہ مس روفو کو بھگا لے جانے والا مرزامحمود قادیانی وہ شخص ہے جو مرزاغلام احمد قادیانی مدعی نبوت کا بیٹا اور خلیفہ ہے تو اس کے جواب میں کوئی لاہوری یوں کہہ دے کہ بھیا تم علم سے بے بہرہ ہو۔ اس جگہ بھی مراد مثیل بشیر ہے اور وہ محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور ہے اور دلیل یہ ہے کہ وہ مرزاقادیانی کا روحانی بیٹا ہے اور قادیان سے مراد اس کا مثیل ہے جو لاہور ہے۔ فرمائیے! اس کا جواب آپ کے پاس سوائے اس کے کیا ہوگا کہ
’’
جواب جاہلاں باشد خموشی
‘‘ حضرات! اگر ہر ایک آدمی الفاظ کا اسی طرح مطلب نکالنا شروع کر دے تو فرمائیے دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے اور ایک دوسرے کے کلام کا مفہوم صحیح معلوم ہوسکتا ہے؟ قرآن کریم میں عیسیٰ ابن مریم مذکور ہے۔ احادیث میں بلا استثناء مسیح ابن مریم، عیسیٰ ابن مریم، ابن مریم کے الفاظ موجود ہیں۔ اگر مراد ان سے مثیل ہوتی تو یوں کہنے میں کون سی چیز مانع تھی۔ مثیل مسیح ابن مریم، مثیل ابن مریم، مثیل عیسیٰ۔
میں قادیانیوں کو مبلغ یکصد روپیہ اور انعام دوںگا۔ اگر قرآن یا حدیث یا اقوال صحابہ یا اقوال مجددین امت سے ثابت کر دیں کہ آنے والے مسیح ابن مریم کے متعلق قرآن، حدیث، اقوال، صحابہ یا اقوال مجددین امت میں کسی ایک جگہ بھی مثیل ابن مریم یا مثیل عیسیٰ لکھا ہوا ہے۔