ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (معراج کی رات عیسیؑ سے ملاقات اور ان سے اللہ کا وعدہ)
حدیث نمبر:۱۱… حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے ابن ماجہ میں موقوفاً اور مسند احمد میں مرفوعاً مروی ہے۔
’’
عن عبداﷲ بن مسعودؓ قال لما کان لیلۃ اسری برسول اﷲﷺ لقی ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ فتذاکروا الساعۃ فبدؤا بابراہیم فسالوہ عنہا فلم یکن عندہ منہا علم ثم سالوا موسیٰ فلم یکن عندہ علم فرو الحدیث الیٰ عیسیٰ ابن مریم فقال قد عہد لیٰ فیما دون وجبتہا فاما وجبتہا فلا یعلمہا الا اﷲ فذکر خروج الدجال قال فانزل فاقتلہ
‘‘ (مسند احمد ج۱ ص۳۷۵، ابن ماجہ ص۲۹۹، باب فتنہ الدجال وخروج عیسی ابن مریم)
یعنی حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ صحابی فرماتے ہیں کہ معراج کی رات رسول کریمﷺ نے ملاقات کی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔ پس انہوں نے قیامت کا ذکر چھیڑدیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی جواب دیا۔ آخر الامر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے ساتھ قرب قیامت کا ایک وعدہ کیاگیا تھا۔ اس کا ٹھیک وقت سوائے خدا عزوجل کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس انہوں نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ پھر میں اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا۔ یہ حدیث مسند احمد میں مرفوعاً مذکور ہے۔ اس میں یہ الفاظ رسول کریمﷺ کی اپنی زبان مبارک سے نکلے ہوئے درج ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قرب قیامت کا ذکر کر کے فرمایا:
’’
ان الدجال خارج ومعی قضیبان فاذا رانی ذاب کما یذوب الرصاص قال فیہلک اﷲ اذا رانی
‘‘
یعنی دجال نکلے گا اور میرے ساتھ تیز تلوار ہوگی۔ پس جب وہ مجھے دیکھے گا تو اسی طرح پگھلے گا جس طرح سکہ (آگ سے پگھلتا ہے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پس اﷲتعالیٰ اسے ہلاک کر دیں گے جب وہ مجھے دیکھے گا۔ تصدیق نمبر:۱… اس حدیث کو مرفوعاً بیان کرنے والے حضرت امام احمد قادیانیوں کے مسلمہ مجدد صدی دوم ہیں۔ پس یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ تصدیق نمبر:۲… اس حدیث کو قادیانیوں کے دو اور مجددین نے صحیح سمجھ کر اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ (درمنثور اور بیہقی) تصدیق نمبر:۳…مولوی محمد احسن امروہی قادیانی نے اپنی کتاب شمس بازغہ ص۹۸ پر اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ نتائج نمبر:۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قرب قیامت کے لئے اپنے نزول کو ایک علامت ٹھہرایا ہے۔ گویا کلام اﷲ کی آیت ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر بیان فرمارہے ہیں۔ نتائج نمبر:۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں اور وہی آسمان والے عیسیٰ ابن مریم نازل ہونے کا وعدہ فرمارہے ہیں۔ نتائج نمبر:۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد دجال کے ساتھ جنگ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ نتائج نمبر:۴… قتل کا لفظ استعمال کر کے قادیانیوں کے تمام تانے بانے کو درہم برہم کر رہے ہیں۔ دجال کا قتل تحریروں اور چندوں سے نہیں ہوگا۔ بلکہ تلوار کے ذریعہ ہوگا۔
یہ ساری باتیں مرزاقادیانی میں کہاں ہیں۔ کیا معراج کی رات مرزاقادیانی نے ہی رسول کریمﷺ سے اپنے نزول کا ذکر کیا تھا اور کیا مرزاقادیانی نے دجال کو قتل کردیا ہے؟ ان کی حالت عجیب ہے۔ کبھی انگریزوں کو دجال بناتے ہیں اور کبھی اولیٰ الامر! پھر عیسائیوں کے ساتھ مباحثوں میں جو مرزاقادیانی کی گت بنا کرتی تھی۔ اس کا کچھ اندازہ لگانا ہو تو مرزاقادیانی کی اپنی مرتب کردہ روئیداد جلسہ مباحثہ باعیسائیاں بنام ’’جنگ مقدس‘‘ سے لگ سکتا ہے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (ابن مریم کا نزول اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا)
حدیث نمبر:۱۲…
’’
عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اﷲﷺ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم
‘‘ (رواہ البخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ فرمایا رسول کریمﷺ (اے مسلمانو!) اس وقت (مارے خوشی کے) تمہارا کیا حال ہوگا۔ جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم تمہارے درمیان نازل ہوں گے اور حال یہ ہوگا کہ تمہارا امام (نماز میں) تمہیں میں سے ہوگا۔ تصدیق نمبر:۱… اس حدیث کو روایت کیاہے۔ امام بخاریؒ نے جن کی صحیح کو مرزاقادیانی
اصح الکتب بعد کتاب اﷲ
سمجھتے ہیں۔ یعنی کلام اﷲ کے بعد دوسرا درجہ صحیح بخاری کا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲، تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵، ایام الصلح ص۴۷، خزائن ج۱۴ ص۲۷۹) تصدیق نمبر:۲… اس حدیث کو خود مرزاقادیانی نے اپنی اکثر کتابوں میں صحیح تسلیم کیا ہے۔ گو معنی غلط سلط کر کے اپنے آپ پر چسپاں کر لئے ہیں۔ مگر معنوں کو چسپاں کرنا ہم ناظرین کی سخن فہمی پر چھوڑتے ہیں۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۶۴، چشمہ معرفت تمہید، خزائن ج۲۳ ص۲، ایام الصلح ص۴۸، خزائن ج۱۴ ص۲۷۹،۱۵۲،۱۵۳، ۳۹۹،۱۴۶،۳۹۳)
پر اس حدیث کا صحیح ہونا مان رہے ہیں۔ تشریح نمبر:۱… اس حدیث میں رسول کریمﷺ مسلمانوں کو ان کی وجدانی مسرت وکیفیت کی خوشخبری سنارہے ہیں۔ ایک طرف دجال بمعہ اپنی تمام افواج جنگ کے لئے تیار ہوگا۔ بالمقابل حضرت امام مہدی اسلامی صفوں کو مرتب کر رہے ہوں گے۔ ایک دم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور مسلمان قرآن کریم اور احادیث نبوی کے مطابق پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے اور ان کی مسرت وبہجت کی کوئی حد نہ رہے گی۔ تشریح نمبر:۲… میں تمام قادیانی امت کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر مذکورہ بالا معنی اور تشریح صحیح نہیں ہے تو وہ محاورہ عرب سے ’’
کیف انتم یا کیف بکم
‘‘ کا مطلب اور اس کی فلاسفی اس حدیث میں سمجھا کر ممنون فرمائیں۔ مرزاقادیانی کا نزول کب مانیں۔
آیا ۱۸۴۰ئ = ماں کے پیش سے باہر نکلنے کو (تریاق القلوب)
یا ۱۸۸۰ئ = تاریخ دعویٰ مجددیت کو
یا ۱۸۹۲ئ = تاریخ دعویٰ مسیحیت کو
یا ۱۹۰۱ئ = تاریخ دعویٰ نبوت حقیقی کو
مسلمانوں کو کیا خوشی ہوئی تھی۔ مرزاقادیانی تو کفر کی مشین گن لے کر آئے تھے اور اس کو مسلمانوں کے خلاف ہی چلانا شروع کر دیا۔ کیا نعوذ باﷲ مسلمانوں کو اس ناگفتہ بہ حالت کی بشارت رسول کریمﷺ دے رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ تشریح نمبر:۳… مجددین امت محمدیہ مسلمہ قادیانی میں سے اگر قادیانی جماعت کسی ایک مجدد کا قول بھی اس حدیث کی تفسیر کے متعلق اپنی تائید میں پیش کر دیں تو علاوہ مقررہ انعام کے مبلغ دس روپے اور انعام دوں گا۔ تشریح نمبر:۴… اس حدیث کے مرزا قادیانی یوں معنی کرتا ہے۔ ’’تمہارا کیا حال ہوگا۔ جب کہ ابن مریم تم میں نازل ہوگا اور وہی تمہارا امام ہوگا۔‘‘
اس کے باطل ہونے کی دو وجوہات تو نمبر۲،۳ میں بیان کر چکا ہوں۔ بقیہ ملاحظہ ہوں:
الف… مرزائی تفسیر علوم عربیہ کے مخالف ہے۔ کیونکہ مرزائی معنی صحیح ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ یعنی فقرہ ’’
امامکم منکم
‘‘ کو ابن مریم کی تفسیر کہا جائے۔ یعنی ’’
عطف تفسیری
‘‘ کہا جائے۔ مگر عطف بیان کے لئے عربی میں واؤ استعمال نہیں کرتے۔ لہٰذا اس کو عطف بیان قرار دے کر ابن مریم کی تفسیر قرار دینا علوم عربیہ اور لسان عربی کے محاورات کو کند چھری سے ذبح کرنے کے مترادف ہے۔
ب… خود مرزاقادیانی کی قلم سے اﷲتعالیٰ نے ہماری تائید میں کئی جگہ شہادت دلادی ہے۔ مرزاقادیانی اپنی امت کو مسلمانوں کے پیچھے نماز میں اقتدا کرنے سے روکنے کی دلیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’چاہئے کہ تمہارا امام وہی ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ ’’امامکم منکم‘‘ یعنی جب مسیح نازل ہوگا… اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۶۴) نوٹ: اس عبارت سے صاف عیاں ہے کہ مسیح نازل ہونے والا کوئی اور ہے اور مسلمانوں کی نماز کا امام کوئی اور، اور یہی حدیث میں مقصود ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے اپنے امام حضرت امام مہدی ہوں گے اور وہی نماز پڑھائیں گے۔
دوسری جگہ اسی حدیث سے استنباط کرتے ہوئے مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج اوّل ص۸۲)
ج… ہم اسلامی تفسیر کی تائید میں رسول کریمﷺ کی اور احادیث پیش کرتے ہیں۔ امید ہے کہ اس کے بعد قادیانی بحکم ’’
تصنیف را مصنف نکوکند بیان
‘‘ رسول کریمﷺ کی تفسیر کو مرزاقادیانی کے بیان پر ترجیح دینے میں کوئی عار نہ سمجھیں گے۔ وہ حدیث درج ذیل ہے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (نماز امام مہدی کی اقتداء میں ادا کریں گے)
حدیث نمبر:۱۳…
مسلم کی طویل حدیث میں ہے۔
’’
عن جابرؓ قال قال رسول اﷲﷺ… فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم تعال صلّ لنا۰ فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذا الامۃ
‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ) تصدیق… روایت کیا اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں جس کی عظمت وصحت کو مرزاقادیانی نے قبول کر لیاہے۔ (ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲) کہ:
’’حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں… پس نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ مسلمانوں کا امیر انہیں کہے گا۔ آئیے ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ فرمائیں گے نہیںَ یہ شرف صرف امت محمدی ہی کو ہے کہ وہ ایک دوسرے کے امیر وامام ہوں۔‘‘
۱… اس حدیث نے فیصلہ کر دیا ہے کہ حدیث نمبر۱۲ میں ’’
وامامکم منکم
‘‘ کے قادیانی معنی سراسر افتراء اور دجل وفریب ہے۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز میں مسلمانوں کی امامت سے انکار کر کے اور امامت نماز کا حق صرف امت محمدی میں سے بعض کے حوالہ کر کے اپنا انجیلی نبی اور عیسیٰ بنی اسرائیلی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ صاف فرما رہے ہیں کہ میں تمہاری امامت نہیں کروں گا۔
کیا مرزاقادیانی بھی مسلمانوں کی امامت سے انکار کرتے تھے؟ سبحان اﷲ! اس دماغ کے آدمی کھڑے ہوکر ’’
انا المسیح الموعود
‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور لطف یہ کہ بعض علوم عربیہ سے بے بہرہ۔ عوام الناس بالخصوص انگریزی تعلیم یافتہ اس آواز پر لبیک کہنے لگ جاتے ہیں۔ کاش وہ علوم عربیہ اور قرآن واحادیث سے واقف ہوتے تو یقینا مرزائی دجل وفریب کا شکار نہ بنتے۔
۳… یہی مضمون سنن ابن ماجہ میں موجود ہے۔ یہ وہی سنن ابن ماجہ حدیث کی کتاب ہے۔ جس کا مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں بہت عظمت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’
عن ابی الامامۃ الباہلیؓ قال قال رسول اﷲﷺ امامہم رجل صالح تقدم یصلی لہم الصبح اذ نزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فرجع ذالک الامام یمشی القہقری لیتقدم عیسیٰ علیہ السلام فیضع یدہ عیسیٰ بین کتفیہ ثم یقول تقدم فصل فانہا لک اقیمت فیصلی بہم امامہم فاذا انصرف قال عیسیٰ افتحوا الباب فیفتح و ورأہ الدجال معہ سبعون الف یہودی… فیدرکہ عند باب لد الشرقی فیقتلہ
‘‘ (سنن ابن ماجہ ص۲۹۸، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم علیہ السلام)
ابو الامامۃ الباہلیؓ صحابی رسول اﷲﷺ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ دجال کے خروج کے زمانہ میں بیت المقدس کے لوگوں کا امام ایک نیک شخص ہوگا۔ ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھانا چاہے گا کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام صبح کے وقت آن اتریں گے۔ یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے گا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے ہوکر نماز پڑھائیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا داہنا ہاتھ اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھ دیں گے اور امام المسلمین سے فرمائیں گے آپ ہی آگے بڑھئیے کہ یہ نماز آپ ہی کے لئے قائم ہوئی تھی۔ پھر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا۔ جب نماز سے فارغ ہوگا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دیا جائے گا۔ وہاں پر دجال ہوگا۔ ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ جن میں سے ہر ایک کے پاس تلوار ہوگی… پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو باب لد شرقی کے پاس جاکر قتل کردیں گے۔
اس حدیث نے اسلامی تفسیر کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اب بھی اگر مرزائی یہی رٹ لگائے جائیں کہ ’’
امامکم منکم
‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام امت محمدی کے ایک بشر ہوں گے۔ تو گواس بیان کا لغو ہونا اظہر من الشمس ہوچکا ہے۔ تاہم ان معنوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان معنوں کو درست تسلیم کر کے مرزائی دجل کی حقیقت طشت ازبام کرتے ہیں۔ اس صورت میں پھر مطلب یہ ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام جو پہلے مستقل نبی ورسول تھے اور خود ایک امت کے رسول تھے۔ اب اسی امت کے ایک فرد کی حیثیت رکھتے ہوں گے۔ گویا وہ بجائے لوگوں کو اپنی نبوت کی طرف دعوت دینے کے خود رسول کریمﷺ کی امت میں شامل ہو جائیں گے اور ایسا کرنا ان پر واجب ہوگا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا ہوا ہے کہ اگر ان کی موجودگی میں حضرت محمد مصطفیﷺ تشریف لے آئیں تو ان کی نبوت پر ایمان لے آئیں اور انہیں کی تائید میں لگ جائیں۔ چنانچہ وہ آیت حسب ذیل ہے۔
’’
واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتٔومنن بہ ولتنصرنہ قال اأقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری۰ قالوا اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین (آل عمران:۸۱)‘‘
مطلب اس آیت کا اگر ہم بیان کریں گے تو قادیانی صاحبان فوراً انکار کر دیں گے۔ ہم اس کا مطلب مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں تاکہ قادیانیوں کے لئے کوئی جائے فرار نہ رہے اور سوائے قبول کر لینے کے چارہ نہ رہے۔ مرزاقادیانی اس آیت کو (ریویو آف ریلیجنز ج اوّل نمبر۵ ص۱۹۶) پر درج کر کے لکھتے ہیں۔
’’اس آیت میں بنص صریح ثابت ہوا کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ مامور تھے کہ آنحضرتﷺ پر ایمان لائیں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے… حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس آیت کی رو سے ان مؤمنین میں داخل ہیں جو آنحضرتﷺ پر ایمان لائے۔‘‘
پھر اسی آیت کو درج کر کے یوں ترجمہ کیا ہے۔
’’اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہوگئے۔ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۳۰، خزائن ج۲۲ ص۱۳۳)
علاوہ ازیں اسی آیت کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا ہے قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی امت میں دخل ہے۔ جیسے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’
لتؤمنن بہ ولتنصرنہ
‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۳، خزائن ج۲۱ ص۳۰۰)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا امت محمدی میں شامل ہونے کے لئے
انجیل برنباس میں جس کے معتبر ہونے پر مرزاقادیانی نے (سرمہ چشمہ آریہ ۲۳۹تا۲۴۳، خزائن ج۲ ص۲۸۷تا۲۹۳) پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا درج ہے۔
’’یا رب بخشش والے اے رحمت میں غنی تو اپنے خادم کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘ (انجیل برنباس فصل ۲۱۲، آیت۱۴)
پس اگر بفرض محال ہم قادیانی معنی اور تفسیر درست تسلیم کر لیں تو بھی مرزاقادیانی کے مسیح موعود بننے کی گنجائش کا امکان نہیں۔ پھر اس کا مطلب صاف ہے کہ اے لوگو! گھبراؤ نہیں تمہارے لئے خوشی اور مسرت کا مقام ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا اولوالعزم رسول بھی تمہاری طرح میرا امتی بن کر رہے گا۔ اس سے امت محمدی کو اس کے عالی مرتبہ ہونے کی بشارت کا اعلان ہے اور واقعی ہمارا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیں میں سے ایک ہوں گے۔ یعنی امت محمدی میں شامل ہوکر رسول کریمﷺ کے دین کی خدمت کریں گے۔
پس حدیث کے خواہ اسلامی معنی قبول کریں۔ خواہ مرزائی بہرحال مرزاقادیانی مسیحیت سے ہاتھ دھو لیں۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (باب لُد کے مقام پر دجال کا قتل اور عیسی ابن مریم)
حدیث نمبر:۱۴…
’’
عن نواس بن سمعانؓ قال قال رسول اﷲﷺ… فبینہما ھو کذالک اذبعث اﷲ المسیح ابن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مہزوذتین واضعا کفیہ علیٰ اجنحۃ ملکین اذطأطا رأسہ قطر واذا رفعہ تحدر منہ مثل جمان کا للؤلؤ فلا یحل لکافر یجد من ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتہی حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ
‘‘ (صحیح مسلم ج۲ ص۴۰۱، باب ذکر الدجال)
قادیانیوں کی عادت ہے کہ وہ ’’
لا نسلم
‘‘ کا بہانہ ڈھونڈھتے ہیں۔ ہم بھی ان کا ناطقہ بند کرنے میں ماشاء اﷲ ماہر واقع ہوئے ہیں۔ ہم ترجمہ حدیث کا مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
’’دجال اسی قسم کی گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوگا کہ ناگہاں مسیح ابن مریم ظاہر ہو جائے گا اور وہ ایک منارہ سفید کے پاس دمشق کے شرقی طرف اترے گا… اور جس وقت وہ اترے گا اس وقت اس کی زرد پوشاک ہوگی۔ یعنی زرد رنگ کے دو کپڑے اس نے پہنے ہوئے ہوں گے اور دونوں ہتھیلی اس کی دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہوں گی… جس وقت مسیح اپنا سر جھکائے گا تو اس کے پسینہ کے قطرات مترشح ہوں گے اور جب اوپر کو اٹھائے گا تو بالوں سے قطرے پسینہ کے چاندی کے دانوں کی طرح گریں گے۔ جیسے موتی ہوتے ہیں اور کسی کافر کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ ان کے دم کی ہوا پاکر جیتا رہے۔ بلکہ فی الفور مر جائے گا اور دم ان کا ان کی حد نظر تک نہ ہوگا پھر حضرت ابن مریم دجال کی تلاش میں لگیں گے اور لد کے دروازے پر جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔ اس کو جاپکڑیں گے اور اس کو قتل کر ڈالیں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۱۹،۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹) تصدیق صحت حدیث
از مرزاقادیانی: ۱… اس حدیث کو مرزاقادیانی نے (ازالہ اوہام ص۲۰۲تا ۲۰۶، خزائن ج۳ ص۱۹۹تا۲۰۱) پر درج کیا ہے اور اس سے اپنی صداقت میں استدلال بھی کیا ہے۔ لیکن حدیث کے الفاظ کی طاقت مرزاقادیانی کو آرام نہیں کرنے دیتی۔ کبھی کہتے ہیں یہ کشف تھا۔ کبھی کہتے ہیں امام بخاریؒ نے اس حدیث کو ضعیف سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ ’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘
خیال فرمائیے! حدیث کو ضعیف بھی سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کو اپنی صداقت میں بطور دلیل بھی پیش کرتے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۲۰۲تا۲۲۰، خزائن ج۳ ص۱۹۹تا۲۰۹) تک مرزاقادیانی کی دماغی پریشانی کا عجیب مظاہرہ ہورہا ہے۔ جو شخص ساری حدیث کو پڑھے گا وہ تو اس حدیث کو کشف نبوی کہنا پرلے درجہ کا کذب وافتراء تصور کرے گا۔ باقی رہا حدیث کا ضعیف ہونا اور اس کی دلیل یہ بیان کرنا کہ ’’یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے۔ جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹) اگر کوئی قادیانی امام بخاریؒ کا قول ان کی کتاب سے دکھادے کہ انہوں نے اس حدیث کو ضعیف سمجھ کر چھوڑ دیا ہے تو ہم مبلغ یک صدروپیہ مزید انعام کا اعلان کرتے ہیں۔
پس اگر قادیانیوں کو حق کے ساتھ ذرا بھی انس ہے تو مرزاقادیانی کا دعویٰ سچا ثابت کریں۔ ورنہ ایسے مفتری سے برأت کا اعلان کر دیں۔ اگر قادیانی یوں کہیں کہ امام بخاریؒ کا اس حدیث کو نقل نہ کرنا خود اس دعویٰ کی صداقت کا ثبوت ہے تو پھر قادیانی مجیب کیا فرمائیں گے۔ ان احادیث کے بارہ میں جن کے سہارے مرزاقادیانی کی مسیحیت ومجددیت کا ڈھانچہ کھڑا کیاگیا ہے۔ حالانکہ ان احادیث کا بخاری شریف میں نام ونشان بھی نہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف چند مثالیں عرض کرتے ہیں۔
۱… ’’حدیث مجدد ’’
ان اﷲ یبعث لہٰذا الامۃ‘‘ الحدیث
‘‘
۲… ’’حدیث کسوف وخسوف‘‘ ’’
ان لمہدینا اٰیتین لم تکونا منذ‘‘ الحدیث
!
۳… ’’حدیث ابن ماجہ
لا مہدی الا عیسیٰ
‘‘ کہ عیسیٰ کے سوائے کوئی مہدی نہیں۔ تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی: ۲… مرزاقادیانی نے اس حدیث کو صحیح تسلیم کر کے اپنی صداقت میں مندرجہ ذیل کتابوں میں پیش کیا ہے۔ (حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰، ازالہ خورد ص۶۹۷تا۶۹۹، خزائن ج۳ ص۴۷۶،۴۷۷، شہادۃ القرآن ص۲، خزائن ج۶ ص۲۹۸، انجام آتھم ص۱۲۹، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی: ۳… مرزاقادیانی نے اس حدیث کی صحت کو اس حد تک تسلیم کر لیا ہے کہ آخر تنگ آکر خود بدولت کو اس حدیث کا مصداق ثابت کرنے کے لئے قادیان کو دمشق ثابت کرنا پڑا اور قادیان میں ایک منارہ بنام منارۃ المسیح تعمیر کر کے اس پر چڑھ کر اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ آپ نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے اخراجات کے لئے اپنی امت سے چندہ کی اپیل کی۔ اشتہار کا نام ہی اشتہار چندہ منارۃ المسیح ہے اور پورا اشتہار (تبلیغ رسالت ج۹ ص۳۳تا۴۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۲) پر درج ہے۔ مرزاقادیانی نے حدیث کو صحیح تسلیم کر لیا ہے۔ صرف تاویلات رکیکہ کو کام میں لارہے ہیں اور پریشانی کا یہ عالم ہے کہ مغرب اور مشرق میں فرق کرنا بھول گئے۔ جنوب کو شمال سے تمیز نہیں کر سکتے۔
مرزاقادیانی کی حواس باختگی
اپنے گھر کی سمت اور پتہ تک یاد نہیں رہا اور قوت متخیلہ مدرکہ نے مل ملا کر عجیب کھچڑ پکایا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے۔ جو لاہور سے گوشہ مغرب جنوب میں واقع ہے۔ وہ دمشق سے ٹھیک شرقی جانب پڑی ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۸)
حضرات غور کیجئے! جناب مرزاقادیانی کو عیسیٰ ابن مریم کی مسند چھیننے کا کس قدر شوق ہے؟ مگر عقل اور تمیز کا یہ حال ہے کہ شمال کی بجائے جنوب اور مشرق کی بجائے مغرب کہہ رہے ہیں۔ قادیانی لوگوں سے تعجب درتعجب ہے کہ وہ ایسے حواس باختہ انسان کو کس نفع اور غرض سے نبی، مسیح موعود اور مجدد مان رہے ہیں۔ کیا مرزاقادیانی سے زیادہ عقل وخرد سے عاری اور کوئی نہیں مل سکتا تھا؟
تصدیق صحت حدیث
از مرزاقادیانی: ۴… ’’شاید ہمارے بعض مخلصوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ منارۃ المسیح کیا چیز ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے۔ سو واضح ہو کہ ہمارے سید ومولیٰ خیرالاصفیاء خاتم الانبیاء سیدنا محمد مصطفیﷺ کی یہ پیش گوئی ہے کہ مسیح موعود جو خدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اور عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں نازل ہوگا۔ اس کا نزول ایک سفید منارہ کے قریب ہوگا۔ جو دمشق سے شرقی طرف واقع ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۵۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۱۵) تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی: ۵…
مفصل دیکھیں (تحفہ گولڑویہ ص۴۴،۴۵، خزائن ج۱۷ ص۱۶۱تا۱۶۳) تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی:۶… (تبلیغ رسالت ج۶ ص۹۸، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۰۱) تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی:۷… (ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲،۷۷،۶۶) تصدیق صحت حدیث از مرزاقادیانی:۸… (فتح اسلام ص۱۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۰)
تصدیق حدیث از مرزامحمود احمد خلیفہ مرزاقادیانی
چھوٹے مرزا نے بڑے مرزا کی نبوت ثابت کرنے کو یہ حدیث بڑے زور شور سے پیش کی ہے۔ (حقیقت النبوۃ ص۱۹۲)
تصدیق از شیخ محی الدین ابن عربیؒ
یہ وہ شخص ہیں جن کے متعلق مرزاقادیانی کا عقیدہ ہے کہ شیخ قدس سرہ صحیح اور ضعیف حدیث کے متعلق خود رسول کریمﷺ سے بالمشافہ ملاقات کر کے پوچھ لیا کرتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
یہ بزرگ ہستی اس حدیث کو فتوحات مکیہ باب ۳۶۰ میں ذکر کر کے اس کو صحیح قرار دے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ مفصل ہم آگے بیان کریں گے۔
ناظرین! اس قدر بحث ہم نے اس حدیث کے صحیح ثابت کرنے میں اس واسطے کی ہے کہ مرزاقادیانی نے سب سے زیادہ اسی حدیث کو ضعیف کہا ہے اور لطف یہ کہ اسی حدیث کو سب سے زیادہ اپنی تصدیق میں پیش بھی کرتا ہے۔ اب ہم اس کی تشریح کرتے ہیں۔
۱… اس کا ترجمہ تو وہی ہے جو مرزاقادیانی نے کیا ہے۔
۲… اس ترجمہ کا تمام مجددین امت محمدیہ نے جن کو مرزائی جماعت سچے مجدد تسلیم کر چکی ہے۔ بلاتاویل حقیقی معنوں میں تسلیم کرتے ہیں۔ پس گویا اس حدیث کے حقیقی معنوں پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ اگر قادیانی اپنی تاویلات رکیکہ کا ثبوت تیرہ سو سال کے قریباً ۸۶مجددین میں سے کسی ایک سے بھی تصدیق کرادیں تو ہم ان کو منہ مانگا انعام دیں گے۔
۳… مرزاقادیانی اس کو صحیح تسلیم کر کے کہتے ہیں کہ یہ رسول کریمﷺ کا کشف تھا۔ اس کی تردید خود نواس بن سمعان صحابیؓ ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
’’
ذکر رسول اﷲﷺ الدجال فقال ان یخرج وانا فیکم
‘‘ یعنی ذکر کیا (صحابہ سے) رسول کریمﷺ نے دجال کا اور فرمایا اگر وہ نکلے درآنحالیکہ میں تم میں موجود ہوں۔ اس کو کون عقل کا اندھا کشفی بیان کہہ سکتا ہے؟ ہاں صاحب الغرض مجنون کا مصداق کہہ سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے ہی لوگ کہا کرتے ہیں۔ دو دونے چار روٹیاں۔
۴… خود مرزاقادیانی نے حدیث کو حقیقی معنوں کے لحاظ سے بھی صحیح تسلیم کر لیا ہے۔
’’میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانہ میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲، خزائن ج۳ ص۱۳۸ حاشیہ)
۵… مرزاقادیانی نے حدیث نواس بن سمعانؓ میں نزول کے معنی آسمان سے اترنا بھی خود ہی مان لئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲)
اور ایسا ماننے سے وہ انکار بھی کیوں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ حدیث معراج سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قرب قیامت میں نازل ہوں گا اور دجال کو قتل کروں گا اور اس حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے دجال کا قتل کیا جانا ثابت ہے اور نزول کا لفظ بھی وہی مستعمل ہے۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول مقبولﷺ کے سامنے ارشاد فرمایا تھا۔ وہی الفاظ رسول پاکﷺ نے اس حدیث میں اپنی امت کو فرماکر اعلان کر دیا کہ نازل ہونے والا وہی ابن مریم ہے۔
۶… ایک اور جگہ مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس نزول کو ’’
نزول من السمائ
‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’
والنزول ایضاً حق نظراً علیٰ تواتر الاثار وقد ثبت من طرق فی الاخبار
‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول تواتر احادیث سے مختلف طریقوں سے ثابت ہے۔ (انجام آتھم ص۱۵۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) اب جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ثابت ہوگیا تو آپ کا صعود یعنی رفع جسمانی خود بخود ثابت ہوگیا۔
کیونکہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’
تعلمون ان النزول فرع للصعود
‘‘ تم جانتے ہو کہ نزول رفع کا نتیجہ ہے۔ (انجام آتھم ص۱۶۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
پھر لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶۹، خزائن ج۳ ص۲۳۶)
پھر لکھتے ہیں: ’’نزول عیسیٰ کو ’’
نزول من السمائ
‘‘ یعنی آسمان سے اترنا تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’
وانی انا المسیح النازل من السمائ
‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳۱، خزائن ج۱۷ ص۸۳)
’’اور تحقیق میں ہی وہ مسیح ہوں جو آسمان سے نازل ہونے والا ہے۔‘‘
حضرات غور کیجئے! آخر شرم وحیا بھی کوئی چیز ہے۔ خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ نزول سے مراد جسمانی نزول ہے۔ خود ہی مانتے ہیں کہ مسیح نے آسمان سے نازل ہونا ہے۔ پھر کس قدر دیدہ دلیری سے مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ آسمان سے میں ہی نازل ہوا ہوں۔ مرزاقادیانی! آپ نے اس دنیا میں اپنا آنا ان الفاظ میں لکھ چکے ہیں۔
’’میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام جنت تھا۔ پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی۔ بعد میں میں نکلا تھا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
فرمائیے! جناب آپ کے خیال میں آسمان کے معنی ماں کا پیٹ بھی ہے۔ نزول کے معنی پیٹ میں سے نکلنا بھی ہے۔ اگر آپ یا آپ کی جماعت آسمان کے معنی ماں کا پیٹ یا نزول کے معنی ماں کے پیٹ سے باہر نکلنا دکھائیں تو یک صد روپیہ نقد قادیانی خزانہ عامرہ میں جمع کرانے کے لئے تیار ہوں۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (عیسیؑ فوت نہیں ہوئے اور قیامت سے پہلے واپس لوٹیں گے)
حدیث نمبر:۱۵…
’’
عن الحسنؒ قال قال رسول اﷲﷺ لیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ
‘‘ (درمنثور ج۲ ص۳۶، زیر آیت یا عیسیٰ انی متوفیک) ’’امام حسن بصریؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول کریمﷺ نے یہود کو مخاطب کر کے کہ تحقیق عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور بیشک وہ تمہاری طرف واپس آئیں گے قیامت سے پہلے۔‘‘ تصدیق حدیث
۱… یہ حدیث بیان کی ہے امام حسن بصریؒ نے جو ہزارہا اولیاء کرام اور بیسیوں مجددین امت کے روحانی پیشوا ہیں۔
۲… اس حدیث کو روایت کیا امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی تفسیر درمنثور میں اور امام جلال الدینؒ تھے نویں صدی کے مجدد اعظم۔
نیز قادیانی نے ان کی شان میں لکھا ہے کہ: ’’وہ صحیح اور ضعیف حدیث میں فرق رسول کریمﷺ سے براہ راست ملاقات کر کے معلوم کر لیا کرتے تھے۔‘‘ (ازالہ خورد ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷) ۳… پھر یہی حدیث قادیانیوں کے مسلم مجدد وامام صدی ششم امام ابن کثیرؒ نے بھی باسناد صحیح اپنی تفسیر میں درج کی ہے۔ اس کا انکار قادیانیوں کے نزدیک فسق اور کفر ہے۔
۴… پھر اس حدیث کو ابن جریرؒ نے بھی صحیح قبول کر لیا ہے۔ جو صحیح معنوں میں مفسر اور محدث تھے۔ (دیکھو چشمہ معرفت ص۲۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱) ہاں ہاں یہ وہی ابن جریرؒ مفسر قرآن ہے جس کی تفسیر کے بے مثل ہونے پر اجماع امت ہے۔
دیکھئے قادیانیوں کے مسلم مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر اتقان میں امام ابن جریر کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
’’
اجمع العلماء المعتبرون علیٰ انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ
‘‘ (اتقان ج۲ ص۳۲۵) ’’معتبر علماء امت کا اجماع ہے کہ ایسی تفسیر کسی نے نہیں لکھی۔‘‘ اس مرتبہ کے بزرگ نے اس حدیث کو اپنی تفسیر میں صحیح سمجھ کر درج کیا ہے۔
۵… قادیانیوں کے بہت بڑے عالم مولوی محمد احسن امروہی نے بھی اپنی کتاب (شمش بازغۃ ص۷۰) پر اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ قادیانی اعتراض
یہ حدیث مرسل ہے۔ اس واسطے قابل قبول نہیں یعنی حدیث مرفوع نہیں۔
جواب… اس کی صحت اور عظمت کے دلائل جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ اوّل تو وہی کافی ہیں۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں اور عرض کرتا ہوں۔
۱… اجی! حضرات آپ یہ میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو، ہمارے سامنے نہیں کر سکتے۔ آپ ہر مجلس میں کسوف وخسوف والی حدیث کو پیش کیا کرتے ہو۔ حالانکہ وہ حدیث رسول نہیں ہے۔ یعنی یہ قول ’’ان لمہدینا آیتین‘‘ راوی اس عبارت کو حدیث رسول نہیں کہتا۔ مگر باوجود اس کے اپنی خودغرضی کے لئے اسے حدیث رسول مانتے ہو یا نہ؟ بالعکس اس کے ہماری پیش کردہ حدیث تو حدیث رسول ہے۔ جیسا کہ راوی زبدۃ العارفین رئیس المکاشفین حضرت امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔
’’قال رسول اﷲﷺ‘‘ جب حسن بصریؒ جیسا راوی اس حدیث کو حدیث رسول کہتا ہے تو اس مذکورہ بالا قول کے ساتھ ذرا مقابلہ تو کرو۔
پھر لطف یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ناشی از جہالت ہے۔ خود مرزاقادیانی ناشی اپنی تعلیمی حالت ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
’’بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اور قسم ہے مجھے اس ذات کی۔ جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اور عملی خوبی یا ذہانت اور دانشمندی کی لیاقت نہیں اور میں کچھ بھی نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ایک خط کا جواب ص۱۶، خزائن ج۳ ص۶۳۵) پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی (اصل اسی طرح ہے۔ ابوعبیدہ) حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔ یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ ص۳۹۴) باقی رہا مرزائی علماء کا حال سو وہ فنا فی القادیان ہیں اور ہزماسٹرس وائس کا مصداق ہیں۔ ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد۔
حدیث دراصل مرسل نہیں بلکہ مرفوع ہی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ امام حسن بصریؒ نے جو احادیث حضرت علیؓ سے روایت کی ہیں۔ ان میں وہ حضرت علیؓ کا نام قصداً حذف کر دیتے ہیں۔ تہذیب الکمال للمزی میں ان کا قول یوں درج ہے۔
’’
کل شیٔ سمعتنی اقول فیہ قال رسول اﷲﷺ فہو عن علیؓ ابن ابی طالب غیر انی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا
‘‘
میں جتنی احادیث میں قال رسول اﷲﷺ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو کہ وہ علیؓ ابن طالب کی روایت ہے۔ میں ایسے (سفاک دشمن آل رسول حجاج کے) زمانے میں ہوں کہ حضرت علیؓ کا نام نہیں لے سکتا۔
لیجئے! دوسری شہادت ملاحظہ کیجئے اور شہادت بھی اس شخص کی جس کو قادیانی جماعت مجدد وامام صدی دہم تسلیم کر چکی ہے۔
یعنی ملا علی قاریؒ شرح نخبہ میں فرماتے ہیں:
’’
وکان قد یحذف اسم علیؓ ایضا بالخصوص لخوف الفتنۃ
‘‘
یعنی امام حسن بصریؒ فتنہ کے خوف سے حضرت علیؓ کا نام مبارک روایت میں خاص طور سے حذف کر جاتے تھے۔
حضرات! اب کس قادیانی کا منہ ہے کہ اپنے ہی ایک مجدد کی شہادت کے برخلاف اس حدیث کو مرسل کہہ کر جان چھڑا سکے؟ پھر لطف یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو مرسل بھی مان لیں تو بھی اس کی عظمت حجیت میں فرق نہیں پڑتا۔ وہ بھی اہل اسلام کے لئے حجت اور دلیل ہے۔ چنانچہ وہی ملا علی قاریؒ قادیانیوں کے مسلم مجدد فرماتے ہیں۔
’’
قال جمہور العلماء المرسل حجۃ مطلقاً‘‘ شرح نخبہ
’’یعنی جمہور علماء اسلام کے نزدیک مرسل حدیث بھی قطعی حجت ہے۔‘‘
نتائج
حضرات! جب اس حدیث کی عظمت ایسے پیرایہ سے ثابت ہو چکی کہ قادیانیوں کو سوائے سرتسلیم خم کرنے کے اور کوئی جائے فرار باقی نہیں رہی تو ہم اس حدیث سے ایسے نتائج بیان کرتے ہیں جو ہر ذکی اور فہیم آدمی کو خود بخود نظر آتے ہیں۔
۱… چونکہ یہ قول رسول کریمﷺ کا یہود کے خطاب میں ہے۔ اس واسطے یہودیوں کے عقیدہ باطلہ قتل مسیح کا رد فرمارہے ہیں اور ایسے الفاظ سے فرماتے ہیں کہ وہ سب قسم کی موت پر حاوی ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’
ان عیسیٰ لم یمت
‘‘ تحقیق عیسیٰ نہیں مرے۔
اس میں موت بالصلیب اور موت طبعی سب قسم کی موت سے انکار کر رہے ہیں۔
۲… قادیانی جماعت کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر کہ عیسیٰ علیہ السلام واقعہ صلیبی سے ۸۷برس بعد طبعی موت سے کشمیر میں فوت ہوگئے تھے۔ اس کا رد بھی فرمارہے ہیں۔
۳… ’’
وانہ راجع الیکم
‘‘ اور بالتحقیق عیسیٰ علیہ السلام تمہاری طرف واپس آئیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں وہ موجود نہیں کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔
وہ کہاں ہیں؟ ہم قرآنی دلائل وحدیثی شواہد سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ آسمان پر ہیں۔
نکتۂ عظیمہ
اﷲ علاّم الغیوب نے رحمتہ اللعالمینﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق جاری فرمادئیے کہ قادیانی جدھر بھاگتا ہے۔ آگے سے پھانس لیتے ہیں۔ اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے ’’نازل‘‘ کے لفظ کو ترک کر کے اور ’’
راجع
‘‘ کا لفظ استعمال کر کے تیرہ سو سال بعد آنے والے ایک مدعی نبوت ومسیحیت کا ناطقہ بند کر کے امت مرحومہ پر وہ احسان فرمایا ہے کہ واﷲ میں تو صرف اسی ایک احسان کے بوجھ سے پسا جارہا ہوں۔ قادیانی ’’نبی‘‘ مرزاغلام احمد قادیانی لکھتا ہے۔
’’اگر اس جگہ (حدیث میں) نزول کے لفظ سے یہ مقصود تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے آئیں گے تو بجائے نزول کے رجوع کہنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جو شخص واپس آتا ہے اس کو عرب زبان میں راجع کہا جاتا ہے۔ نہ نازل۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲) دوسری جگہ لکھتا ہے:
’’اگر کوئی شخص آسمان سے واپس آنے والا ہوتا تو اس موقعہ پر رجوع کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ نہ کہ نزول کا لفظ۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۰، خزائن ج۲۳ ص۲۲۹)
قادیانی ناظرین سے ایک مودبانہ درخواست
مرزاقادیانی کا چیلنج دوبار رجوع وراجع آپ نے ملاحظہ فرما لیا اور حدیث بھی آپ نے پڑھ لی۔ حدیث کی عظمت پر بھی آپ ہی کے مسلمہ مجددین اور آئمہ کرام کی شہادت ثبت کرادی گئی ہے۔ مرزاقادیانی بیچارے تو علم حدیث سے محض کورے اور خالی تھے۔ انہیں یہ صحیح درصحیح مرسل نہ بلکہ مرفوع حدیث (جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں) معلوم نہ تھی۔ مگر آپ کے سمجھانے کے لئے ایک اصول ضرور لکھ گئے۔ یعنی اگر حدیث میں رجوع کا لفظ موجود ہوتو پھر بالیقین عیسیٰ علیہ السلام کا حیات ورفع جسمانی خود بخود ثابت ہوجائے گا۔
پس اگر اسلام کی خاطر نہیں تو کم ازکم مرزاقادیانی کی خوشنودی کی خاطر ہی آپ رجوع کے لفظ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے عقیدہ باطلہ سے رجوع کر لیں۔
۴… ’’
قبل یوم القیامۃ
‘‘ کے الفاظ اسلامی تفسیر کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ کی مکمل شرح ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن‘‘ پر پوری روشنی ڈال رہے ہیں۔
۵… آنحضرتﷺ فرمارہے ہیں کہ آنے والا عیسیٰ علیہ السلام (غلام احمد ابن چراغ بی بی نہ ہوگا) بلکہ وہی ابن مریم ہوگا جو نہیں مرا۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوں گے)
حدیث نمبر:۱۶…
’’
اخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن الربیعؓ قال ان النصاریٰ اتوا رسول اﷲﷺ فخا صموہ فی عیسیٰ ابن مریم وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبیﷺ الستم تعلمون انہ الا یکون ولد الا وھو یشبہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنا فقالوا بلیٰ
‘‘ (درمنثور ج۲ ص۳، زیر آیت ھو الحی القیوم) عظمت وصحت حدیث
اس حدیث کی عظمت کا اندازہ آپ اسی امر سے لگا سکتے ہیں کہ امام ابن جریرؒ جیسے مفسر اعظم ومحدث معتبر مسلم قادیانی (دیکھو حدیث نمبر۱۵ کی ذیل میں) نے اپنی تفسیر میں اس کو درج کیا ہے اور امام جلال الدین سیوطیؒ نویں صدی کے مجدد وامام مسلم قادیانی نے بھی اپنی شہرہ آفاق تفسیر درمنثور میں اس کو صحیح لکھا ہے۔
’’ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں (یعنی توحید وتثلیث پر بحث شروع کر دی) اور کہنے لگے کہ (اگر عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بیٹا نہیں ہے تو بتاؤ) اس کا باپ پھر کون ہے۔ لگے اﷲ پر جھوٹ اور بہتان جڑنے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ولد اﷲ کہنے سے) رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے مشابہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں؟ پھر رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ اﷲتعالیٰ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ یقینا عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوگی۔ تو انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں۔‘‘ ناظرین! اس حدیث سے روز روشن کی طرح چند نتائج مندرجہ ذیل ہویدا ہیں۔
۱… اگرحضرت عیسیٰ علیہ السلام فی الواقعہ فوت ہو چکے ہوتے تو رسول پاکﷺ ’’
وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنا
‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوگی۔ نہ فرماتے بلکہ آپ فرماتے کہ ’’
وان عیسیٰ قد اتٰی علیہ الفنائ
‘‘ کہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہوچکی ہے۔ مگر آپﷺ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئے گی۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ رسول کریمﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ بجسدہ العنصری مانتے تھے۔
۲… الزامی جواب دینا مناظرہ ومباحثہ میں مسلم ہے اور ایسا جواب ہوتا بھی بالکل فیصلہ کن ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں اپنے طرز استدلال کو بہت حد تک قادیانی مسلمات تک ہی محدود رکھا ہے۔ اسی طرح رسول کریمﷺ کو پتہ تھا کہ اگر عیسائی اور یہودی عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر مر جانے کے قائل ہیں۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کا فوت شدہ ہونا یہودی مسلمات اور عیسائی مظنونات میں سے ہے اور موت الوہیت کی (خدائی کی) شان کے منافی (خلاف) ہے۔ اس واسطے رسول کریمﷺ ان کے مسلمات کی رو سے کہہ سکتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو تمہارے عقیدہ کے مطابق فوت ہوچکے ہیں۔ وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور یہ الزامی جواب آپ کا بالکل درست تھا۔
مگر قربان جائیں اس رحمتہ اللعالمین کی دوراندیشی اور ہمدردی کے جو آپﷺ نے اپنے ہر ہر فعل اور ہر ایک قول میں مدنظر رکھی ہے۔ آنحضرتﷺ نے مناظرانہ رنگ میں مسکت اور لاجواب الزامی کی بجائے تحقیقی جواب سے کام لیا جو ببرکت نبوت واقعی ہی لاجواب ثابت ہوا۔ امت مرحومہ کے ساتھ ہمدردی اور شفقت اس بات میں مضمر تھی کہ اگر آپﷺ کی زبان مبارک سے یہ لفظ نکل جاتے (یعنی عیسیٰ علیہ السلام تو تمہارے خیال میں مر چکے ہیں) تو قادیانی ضرور اسے قول نبوی ثابت کر کے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل کے طور پیش کرتے۔ پس اس طرز استدلال سے رسول کریمﷺ نے قادیانیوں کا ناطقہ بند کردیا اور امت مرحومہ کے ہاتھ میں زبردست دلیل حیات عیسیٰ علیہ السلام پر چھوڑ گئے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (ابن مریم روحاء کی گھاٹی میں لبیک پکاریں گے اور حج و عمرہ ادا کرنا)
حدیث نمبر:۱۷… ’’
یحدث ابوہریرہؓ قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجا او معتمرا او لیثنینہما
‘‘ (رواہ مسلم ج۱ ص۴۰۸، باب جواز التمتع فی الحج والقرآن)
عظمت واہمیت حدیث
۱… یہ حدیث امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کی ہے۔ صحیح مسلم کا صحیح ہونا قادیانی مسلمات سے ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
الف… ’’اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کا قائل نہ ہوتا تو میں کیوں باربار ان کو اپنی تائید میں پیش کرتا۔‘‘
(ازالہ اوہام خورد ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲)
ب… ’’صحیحین کو تمام کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵)
۲… کسی مجدد ومحدث نے اس حدیث پر نکتہ چینی نہیں کی۔ گویا تمام امت کا اس کی صحت پر اجماع ہے۔
۳… اسی حدیث کو امام احمد نے اپنی (مسند ج۲ ص۲۴۰،۲۷۲،۵۱۳،۵۴۰) میں غالباً چار جگہ روایت کیا ہے۔ امام احمد، قادیانیوں کے نزدیک مجدد صدی دوم تھے۔
۴… (تفسیر درمنثور ج۲ ص۲۴۳) میں امام جلال الدین سیوطی مجدد صدی نہم نے بھی اس حدیث کو درج فرمایا ہے۔ امام موصوف کی عظمت دیکھنی ہوتو ملاحظہ کریں۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
۵… پھر اس حدیث کو قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی ششم امام ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر ج۳ جب عظمت واہمیت حدیث بالا کی آپ پر ظاہر ہوچکی تو اب ہم اس کا ترجمہ بیان کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول کریمﷺ نے کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم ہے۔ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ضرور ابن مریم روحاء کی گھاٹی میں لبیک پکاریں گے۔ حج کی یا عمرہ کی یا قران کریں گے اور دونوں کی لبیک پکاریں گے ایک ہی ساتھ۔
نتائج:
۱… یہ مضمون رسول کریمﷺ نے چونکہ قسم اٹھا کر بیان فرمایا ہے۔ اس واسطے اس کا تمام مضمون اپنے ظاہری معنوں کے لحاظ سے پورا ہونا ضروری ہے۔ مرزاقادیانی ہماری تائید میں پہلے ہی فرماگئے ہیں۔ ترجمہ قول مرزا ’’نبی کا کسی مضمون کو قسم کھا کر بیان کرنا اس بات پرگواہ ہے کہ اس میں کوئی تاویل نہ کی جائے اور نہ استثناء بلکہ اس کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے ورنہ قسم اٹھانے کا فائدہ کیا ہوا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ)
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آکر حج بیت اﷲ کریں گے اور خود حج کریں گے۔ دوسرا آدمی ان کی بجائے حج نہیں کرے گا۔
۳… پس ضروری ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نزول کے بعد اس قدر امن قائم کر لیں گے کہ کوئی امر حج کرنے سے روک نہ سکے گا۔
۴… حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام ایسی بیماریوں سے محفوظ ہوں گے جو حج کرنے سے مانع ہو سکتی ہیں۔
۵… حضرت ابن مریم سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم ہی ہوں گے۔ کیونکہ ابن مریم سے مراد ابن چراغ بی بی (غلام احمد قادیانی) لینا ظاہر کے خلاف ہے اور بدترین تاویل کی مثال ہے۔
۶… ’’
فج الروحا
‘‘ سے مراد وہی روحا کی گھاٹی لینا پڑے گی نہ کہ قادیان۔
۷… ’’حج‘‘ سے مراد وہی حج اہل اسلام مراد ہوگا۔ اس سے مراد مرزاقادیانی کا لاہور یا دہلی جانا یا محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کرنا یا مقدمات کی وجہ سے جہلم جانا نہیں لے سکتے۔
۸… نزول سے مراد اوپر سے نیچے اترنا ہی لیا جائے گا۔ کیونکہ یہی اس کے ظاہری معنی ہیں۔ اس کے خلاف معنی کرنا مرزاقادیانی کے مذکورہ بالا اصول کے خلاف ہوگا۔
ناظرین! غور کیجئے کبھی آپ نے کسی قادیانی کو وفات مسیح پر بھی اسی طرح کے بولتے ہوئے دلائل بیان کرتے سنا ہے۔ ان کے دلائل کا تجزیہ انشاء اﷲ ہم دوسرے حصہ میں کریں گے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (خنجر نکالیں گے اور دجال کو قتل کر دیں گے)
حدیث نمبر:۱۸…
’’
رواہ احمد عن عثمان بن ابی العاصؓ وھو فی المسجد مع جماعۃ قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول فیخرج الدجال… ومع الدجال سبعون الفاً… وینزل عیسیٰ ابن مریم عند الصلوٰۃ الفجر فیقول لہم امیرہم یا روح اﷲ تقدم صل لنا فیقول ہذہ الامۃ امراء بعضہم علیٰ بعض فیتقدم امیرہم فیصل حتیٰ اذا قضے صلوٰتہ اخذ عیسیٰ حربتہ فیذہب نحو الدجال… فیقتلہ
‘‘ (رواہ احمد فی المسند احمد ج۴ ص۲۱۶،۲۱۷، والحاکم فی المستدرک ج۵ ص۶۷۴، حدیث نمبر۸۵۲۰)
تصدیق:
۱… امام احمد قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی دوم تھے۔ وہ بھلا کوئی غلط حدیث روایت کرسکتے ہیں؟
۲… اس حدیث کو قادیانیوں کے مسلم امام ومجدد صدی چہارم امام حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔
’’حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے ایک جماعت کثیر کے سامنے مسجد میں بیان کیا کہ سنا میں نے رسول کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے… دجال نکلے گا… اور اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے… اس وقت نازل ہوگا عیسیٰ علیہ السلام بیٹا مریم کا صبح کی نماز کے وقت۔ پس مسلمانوں کا امیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہے گا آگے آئیے۔ نماز پڑھائیے۔ پس حضرت کہیں گے کہ یہ شرف امت محمدی ہی کو حاصل ہے کہ اس میں سے بعض اس کے بعض پر امیر ہوتے ہیں۔ پس آگے بڑھے گا امیر مسلمانوں کا اور نماز پڑھائے گا۔ یہاں تک کہ جب نماز پڑھا چکے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا خنجر پکڑیں گے۔ پھر دجال کی طرف جائیں گے… پس اسے قتل کریں گے۔‘‘ (رواہ احمد) نتائج وہی ہیں جو حدیث نمبر دو کے ذیل میں دکھائے گئے ہیں۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( حضرت عیسیؑ کے نازل ہونے کا وقت )
حدیث نمبر:۱۹…
’’
عن ابی امامۃ الباہلیؓ قال خطبنا رسول اﷲﷺ فقالت ام شریک بنت ابی الفکر یا رسول اﷲ فاین العرب یومئذ قال ہم قلیل… وامامہم رجل صالح قد تقدم بہم الصبح اذ نزل عیسیٰ ابن مریم
‘‘ (ابن ماجہ ص۲۹۸، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم)
حضرت ابوامامۃ الباہلیؓ نے بیان کیا کہ رسول کریمﷺ نے ہم صحابہ کو مخاطب کر کے (دجال اور قیامت کا حال بیان فرمایا)… ام شریک بنت ابی الفکر صحابیہ نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ اس دن عرب کہاں ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا وہ تھوڑے ہوں گے اور امام ان کا ایک صالح مرد ہوگا۔ وہ آگے ہوکر انہیں صبح کی نماز پڑھائے گا کہ اچانک عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں گے۔
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث ( عیسی ابن مریمؑ کے ہاتھوں دجال کا قتل)
حدیث نمبر:۲۰…
’’
عن علیؓ انہ خطب الناس
‘‘ الحدیث! (کنزالعمال ج۱۴ ص۶۱۲، حدیث نمبر۳۹۷۰۹، بحوالہ عسل مصفی جلد۲ ص۲۷۶،۲۷۸)
تصدیق
مرزاخدا بخش قادیانی نے اس حدیث کو مرزاغلام احمد قادیانی کی تصدیق میں پیش کیا ہے۔ لہٰذا اس کے صحیح ہونے پر قادیانی کوئی اعتراض نہیں کر سکتے۔ ترجمہ بھی ہم عسل مصفی سے ہی نقل کرتے ہیں۔
’’حضرت علیؓ نے لوگوں کے ساتھ خطبہ پڑھا… پھر تین دفعہ کہا اے لوگو! پیشتر اس کے کہ میں تم سے رخصت ہو جاؤں۔ مجھ سے کچھ پوچھ لو۔ (دجال کے متعلق سوال شروع ہوئے) دجال کے بہت سے گروہ ہوں گے۔ اس کے تابعدار یہودی اور بدکار ہوں گے۔ اﷲتعالیٰ اس کو شام میں ایک ٹیلے پر جس کو افیق کہتے ہیں۔ دن کے تین ساعت میں عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھ سے قتل کرائے گا۔‘‘
نوٹ: آخری حصہ کا ترجمہ مرزاخدابخش قادیانی نے نہیں کیا۔ جس سے اس حدیث کا مرفوع ہونا اظہر من الشمس ہے۔
آخری الفاظ حضرت علیؓ کے یہ ہیں: ’’
لا تسئلونی عما بعد ذالک فان رسول اﷲﷺ عہد الی ان اکتمہ
‘‘ یعنی اے لوگو! اس سے زائد مجھ سے نہ پوچھو۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ نے مجھ سے عہد لیا ہوا ہے کہ اسے چھپاؤں گا۔ (رواہ ابن المناوی) اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کا بیان کردہ تمام مضمون ارشاد نبوی تھا۔ پس یہ سارا مضمون مرفوع حدیث کا حکم رکھتا ہے۔