• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احتسابِ قادیانیت جلدنمبر 14

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توضیح الکلام
فی اثبات
حیات عیسیٰ علیہ السلام
عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی اہمیت

قادیانیوں کے ساتھ مناظرہ کرتے وقت علماء اسلام کے لئے صدق وکذب مرزا کی بحث سے زیادہ عام فہم اور فیصلہ کن اور کوئی مبحث نہیں۔ باوجود اس کے میں نے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں کیوں قلم اٹھایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ کلام اﷲ میں مفصل بیان کیاگیا ہے۔ رسول کریمﷺ کی سینکڑوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ہزارہا صحابہ کرامؓ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ بے شمار اولیائؒ، وصلحاؒ بالخصوص مجددین امتؒ اسی عقیدہ پر قائم رہے۔ پس اگر اب اس کی صداقت سے انکار کیا جائے تو اس سے ایک فساد عظیم برپا ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱… حیات عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کے بعد ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف کا مطلب ساڑھے تیرہ سو سال تک نہ تو رسول کریمﷺ کو سمجھ میں آیا نہ صحابہ کرامؓ نے ہی سمجھا اور نہ کسی مجدد امت یا مفسر قرآن کو اس کی حقیقت معلوم ہوئی اور یہ امر محال عقلی ہے۔
۲… قادیانیوں نے جس قدر تاویلات رکیکہ کر کے حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کو غلط ٹھہرایا ہے۔ اس کے تسلیم کر لینے سے ہر ایک ملحد اور محرف کو کلام اﷲ کا مطلب بگاڑنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ مثلاً گندم بمعنی گڑ، پانی، بمعنی دودھ وبالعکس کرنے والا ایسا ہی سچا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی۔
۳… جب قرآن شریف کی تفسیر رسولﷺ، تفسیر صحابہؓ، تفسیر مجددین قابل اعتبار نہ سمجھی جائے تو اسلام کی تکذیب لازم آتی ہے۔ جس مذہب میں بقول مرزاقادیانی ایک مشرکانہ عقیدہ سینکڑوں سال تک اجماعی صورت میں قائم چلا آیا ہے۔ اس سے اور کون سی امید صداقت کی ہوسکتی ہے؟
۴… اگر کوئی شخص کسی نبی مثلاً یونس علیہ السلام کی نبوت سے انکار کرے یا جنگ بدر یا جنگ احد کی واقعیت سے انکار کرے۔ یا حضرت نوح علیہ السلام کی طوالت عمری کا انکار کرے یا مثلاً یوں کہے کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی نہ تھے۔ یا حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے نہ تھے۔ یا مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائیوں نے کوئی بدسلوکی نہیں کی تھی تو بظاہر یہ سارے اقوال ایسے ہیں کہ ایک ظاہر بین انسان ان کی تردید کرنے کو ایک لایعنی فعل اور فضول کام قرار دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال کی رو سے تکذیب کلام اﷲ لازم آتی ہے۔ مثلاً کلام اﷲ میں حضرت یونس علیہ السلام کی نبوت کا اقرار ہے اور قائل اس سے انکار کرتا ہے۔ پس اس سے تکذیب باری تعالیٰ لازم آتی ہے۔ اسی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے انکار سے تکذیب باری تعالیٰ، تکذیب رسولﷺ، تکذیب صحابہؓ، تکذیب مجددین امت بلکہ تکذیب جمیع اولیاء امت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے قبول کر لینے کے بعد اسلام میں پھر کوئی عقیدہ کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں رہتی۔ اس واسطے میں نے عوام الناس بالخصوص سائنس زدہ انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کے سامنے مسئلہ کی حقیقت الم نشرح کرنی ضروری سمجھی۔
العارض بندہ ابوعبیدہ۔ بی اے
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پہلے مجھے پڑھیں
محترم ناظرین! قادیانی جماعت کی ہر دو صنف اہل السنت والجماعت کے علماء کرام سے مناظرہ کی شرائط طے کرتے ہوئے ہمیشہ حیات وممات مسیح علیہ السلام کو مبحث قرار دینے پر سب سے زیادہ زور دیاکرتے ہیں اور دلیل یہ دیا کرتے ہیں کہ مرزائی جماعت اور مسلمانوں کے درمیان صرف یہی ایک فیصلہ کن مبحث ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسد عنصری آسمان پر موجود ہیں تو مرزائیت کی عمارت خودبخود دھڑام سے گر پڑے گی۔ ہمارے علماء قصداً اس مورچہ (مبحث) پر لڑنا پسند نہیں کرتے۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ علماء اسلام کے پاس حیات عیسیٰ علیہ السلام کے اثبات میں نصوص اور دلائل نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
۱… حیات ووفات عیسیٰ علیہ السلام کی بحث میں مرزاغلام احمد قادیانی کی شخصیت کے پرکھنے کا موقعہ نہیں ملتا۔
۲… عام طور پر مناظروں میں عوام الناس کا مجمع ہوتا ہے۔ وہ علوم عربیہ سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس مبحث میں قادیانی مناظر آیات قرآنی اور احادیث نبوی پڑھ کر ان کے غلط سلط معنی کرتے ہیں۔ علماء اسلام ان کو دقیق علمی گرفت میں گھیر لیتے ہیں۔ عوام الناس ایسی علمی الجھنوں کو سمجھتے نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ: ’’بھائی قرآن اور حدیث تو قادیانی بھی خوب پڑھتے ہیں۔‘‘ حالانکہ وہ بالکل بے محل پڑھتے ہیں اور محض افتراء اور تلبیس سے حق کو چھپاتے ہیں۔ غرضیکہ علماء اسلام اس مسئلہ کو صرف انہیں دو وجہوں سے مبحث بنانا نہیں چاہتے۔ ورنہ حیات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ اس قدر صاف ہے کہ اس سے زیادہ صاف شاید ہی کوئی اور مسئلہ ہو۔ میں اس مختصر رسالے میں اسلامی دلائل کو مختصر طور پر بیان کروں گا۔ لیکن انشاء اﷲ ایسے عام فہم طریقے سے کہ اردو دان طبقہ بھی سمجھنے میں دقت محسوس نہیں کرے گا۔ وما توفیقی الا باﷲ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اعلان انعام
اگر کوئی قادیانی میرے دلائل حیات عیسیٰ علیہ السلام کو غلط ثابت کر دے تو بشرائط ذیل ایک ہزارروپیہ نقد لینے کا مستحق ہوگا اور قانونی طور پر مجھ سے اس رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اگر میں انکار کروں تو میری یہ تحریر بطور دلیل کے عدالت میں پیش کر کے ایک ہزار روپیہ مجھ سے وصول کر سکتا ہے۔

شرائط
  • قادیانی میرے اس رسالہ کا جواب لکھ کر ایک کاپی مجھے دے دیں۔
  • پھر میں جواب الجواب لکھوں گا۔
  • تینوں مضامین تین مسلمہ غیر جانب دار ثالثوں کو دے دئیے جائیں گے۔
  • تینوں ثالثوں کا متفقہ فیصلہ فیریقین کو قبول ہوگا۔
  • اگر ثالثوں کا فیصلہ میرے خلاف ہوتو میں فوراً ایک ہزار روپیہ بطور انعام قادیانی مناظر کو ادا کر دوں گا۔ بشرطیکہ:
  • اگر ثالثوں کا فیصلہ میرے دلائل کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دے تو اوّل تو ساری جماعت قادیانی۔ ورنہ کم ازکم ایک ہزار قادیانی یا صرف مرزابشیرالدین محمود احمد آف قادیان یا صرف محمد علی امیر جماعت احمدیہ لاہور مرزائیت سے توبہ کر کے جمہور اہل اسلام کے ہم عقیدہ ہونے کا اعلان کرنے کو تیار ہوں۔
ناظرین! خوب جانتے ہیں کہ ان میں کوئی شرط غیرمناسب نہیں۔ اب کوئی وجہ نظر نہیں آتی جس کی بناء پر قادیانیت کے علمبردار اپنے مایہ ناز مبحث پر میرے گرانقدر انعام کو لینے کی سعی نہ کریں۔ صرف ایک ہی ممکن وجہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے دلائل کی بودہ پنی اور بوسیدگی کو خوب سمجھتے ہیں۔
پیش گوئی میں توکلاً علی اﷲ اپنے فولادی دلائل قرآنی وحدیثی کے بل بوتے پر اعلان کرتا ہوں کہ قادیانی اور لاہوری دونوں صنفوں میں سے کوئی بھی میرے اس چیلنج کو قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ ان کا جواب ان کے پاس سوائے دجل وفریب کے اور تو کچھ ہے ہی نہیں اور ثالثوں کے سامنے دجل وفریب کی حقیقت الم نشرح کر دی جائے گی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ہمارے دلائل کی فولادی طاقت کا راز
میں اس رسالے میں بحمداﷲ دلائل وہی دوں گا جو علماء اسلام کا معمول بہا ہیں۔ کیونکہ میں فخریہ عرض کرتا ہوں کہ میں انہیں علمبرداران اسلام کا ریزہ چین ہوں۔ مگر میرے دلائل کا لباس اور مزہ رنگ اور کشش بالکل مختلف ہوگا۔ یعنی تمام کے تمام دلائل قادیانیوں کے مسلمہ عقائد واصولوں پر مبنی ہوں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اصول وعقائد
۱…
’’قرآن شریف کے وہ معانی وہ مطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے۔ جن کی تائید قرآن شریف ہی میں دوسری آیات سے ہوتی ہو۔ یعنی شواہد قرآنی۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸)

۲…
جہاں کلام اﷲ کے معانی ومطالب میں اختلاف ہوجائے۔ وہاں رسول کریمﷺ کی تفسیر قابل قبول ہوگی۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’ فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما (نسائ:۶۵) ‘‘
{یعنی اے محمدﷺ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ (یہ لوگ) مؤمن نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ اپنے اختلافات اور جھگڑوں میں آپﷺ کو اپنا ثالث نہ بنائیں۔ پھر آپﷺ کے فیصلے کے بعد وہ اپنے دلوں میں کوئی بوجھ یا کدورت محسوس نہ کریں اور آپﷺ کے سامنے سرتسلیم خوشی کے ساتھ خم کر دیں۔}

چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’دوسرا معیار تفسیر رسول کریمﷺ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ حضرت رسول اﷲﷺ تھے۔ پس اگر آنحضرتﷺ سے تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف اور بلادغدغہ قبول کر لے۔ نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)

۳…
اگر قرآن اور حدیث کے سمجھنے میں اختلاف ہو جائے تو پھر صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع ہونا چاہئے۔
چنانچہ مرزاقادیانی کا ارشاد ملاحظہ ہو۔
’’تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہؓ آنحضرتﷺ کے نوروں کے حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خداتعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ ان کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)

۴…
پھر اگر کسی وقت کلام اﷲ، حدیث رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کلام سمجھنے میں اختلاف رونما ہو جائے اور خلقت گمراہ ہونے لگے تو اﷲتعالیٰ ہر صدی میں ایسے علمائے ربانیین پیدا کرتا رہتا ہے۔ جو اختلافی مسائل کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق حل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’ ان اﷲ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب مایذکر فی قدر المائۃ)
’’یعنی اﷲتعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے علماء مفسرین پیدا کرتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘ اس کی تائید مرزاقادیانی اس طرح کرتے ہیں:
’’جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘
(فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مجدد کا علوم لدنیہ وآیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
تیسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے۔‘‘ وہ فرماتا ہے: ’’ من کفر بعد ذالک فاؤلئک ہم الفاسقون ‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
چوتھی جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
پانچویں جگہ ارشاد ملاحظہ کریں:
’’مجدد مجملات کی تفصیل کرتا اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
چھٹی جگہ لکھا ہے:
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)

اس سارے مضمون کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲﷺ کا جو مفہوم مجددین امت بیان کریں وہی قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔

۵…
الف۔’’نصوص کو ظاہر پر حمل کرنے پر اجماع ہے۔‘‘
(ازالہ خورد ص۴۰۹، خزائن ج۳ ص۳۱۲،۵۴۹، خزائن ج۳ ص۳۹۰)
ب… حدیث بالقسم میں تاویل اور استثناء ناجائز ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’ والقسم یدل علی ان الخبر محمول علیٰ الظاہر لاتاویل فیہ ولا استثناء والا ای فائدۃ فی القسم ‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ)
’’کسی حدیث میں قسم کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کے ظاہری معنی ہی قابل قبول ہوں۔ اس میں تاویل کرنا یا استثناء جائز نہیں۔ ورنہ قسم میں فائدہ کیا رہا۔‘‘

۶…
’’ جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا۔ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میرا مدعا ہے۔ مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔ ‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)

۷…
حدیث نبوی دربارہ تفسیر بالرائے:
(۱)… ’’ من تکلم فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطائ ‘‘
(رواہ النسائی اتقان ج۲ ص۳۰۵ فی شروط المفسر وآدابہ)
(۲)… ’’ من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘
(ترمذی ج۲ ص۱۲۳، باب ماجاء فی الذی بتفسیر القرآن برأیہ، اتقان ج۲ ص۳۰۵ فی شروط المفسر وآدابہ)
اس کی تائید میں مرزاقادیانی کا قول پیش کرتا ہوں۔
’’مؤمن کا کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)

۸…
عسل مصفی مصنفہ مرزا خدا بخش قادیانی، قادیانی مذہب کی مسلمہ کتاب ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی میں اس کا ایک ایک لفظ سنا تھا اور مصنف کی داد دی تھی۔ قادیانی اور لاہوریوں کے سرکردہ ممبروں نے اس پر زبردست تقریظات لکھی ہوئی ہیں۔ بالخصوص محمد علی لاہوری اور مرزابشیرالدین محمود احمد خلیفہ قادیانی نے۔ اس کے (جلد اوّل ص۱۶۲تا۱۶۵) پر گذشتہ تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست درج ہے۔ ہم یہاں مشہور مجددین مفسرین ومحدثین کے اسمائے گرامی ذیل میں آئندہ حوالوں کے لئے درج کرتے ہیں۔

  1. امام شافعی مجدد صدی دوم۔
  2. امام احمد بن محمد بن حنبل مجدد صدی دوم۔
  3. ابوجعفر طحاوی مجدد صدی سوم۔
  4. ابوعبدالرحمان نسائی مجدد صدی سوم۔
  5. حافظ ابونعیم مجدد صدی چہارم۔
  6. امام حاکم نیشاپوری مجدد صدی چہارم۔
  7. امام بیہقی مجدد صدی چہارم۔
  8. امام غزالی مجدد صدی پنجم۔
  9. امام فخرالدین رازی صاحب مجدد صدی ششم۔
  10. امام مفسر ابن کثیر مجدد صدی ششم۔
  11. حضرت شہاب الدین سہروردی مجدد صدی ششم۔
  12. امام ابن جوزی مجدد صدی ششم۔
  13. حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی مجدد صدی ششم۔
  14. امام ابن تیمیہ حنبلی مجدد صدی ہفتم۔
  15. حضرت خواجہ معین الدین چشتی مجدد صدی ہفتم۔
  16. حافظ ابن قیم جوزی مجدد صدی ہفتم۔
  17. حافظ ابن حجر عسقلانی مجدد صدی ہشتم۔
  18. امام جلال الدین سیوطی مجدد صدی نہم۔
  19. ملا علی قاری مجدد صدی دہم۔
  20. محمد طاہر گجراتی مجدد صدی دہم۔
  21. عالمگیر اورنگزیب مجدد صدی یازدہم۔
  22. شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی مجدد صدی یازدہم۔
  23. مرزا مظہر جان جاناں دہلوی مجدد صدی یازدہم۔
  24. حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی مجدد صدی دوازدہم۔
  25. امام شوکانی مجدد صدی دوازدہم۔
  26. سید احمد بریلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  27. شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  28. مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید مجدد صدی سیزدہم۔
  29. شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی مجدد صدی سیزدہم۔
  30. شاہ عبدالقادر صاحب مجدد صدی سیزدہم۔
یہاں تک ہم نے تیرہ صدیوں کے مشہور مشہور مجددین کے اسمائے گرامی درج کر دئیے ہیں۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ چودھویں صدی کے مجدد بھی ہیں۔ اس کے بالمقابل جمہور علماء اسلام کے نزدیک چودھویں صدی کے مجددین میں سے بزرگان ذیل خاص طور پر مشہور ہیں:

  1. شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکیؒ۔
  2. حضرت مولانا رحمتہ اﷲ صاحب مہاجرمکیؒ۔
  3. شیخ العرب والعجم المحدث الفقیہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ۔
  4. قاسم العلوم حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحبؒ بانی دارالعلوم دیوبند۔
  5. حضرت مولانا مولوی محمد علی صاحب مونگیریؒ۔
  6. حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہمؒ۔
جنہوں نے کم وبیش ۱۵۰۰ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ جن میں موجودہ صدی کے پیدا کردہ الحاد کی تردید کر کے دین محمدی کو دوبارہ اصلی شکل میں دکھایا ہے۔ آپ کی تفسیر اور ترجمہ قرآن روئے زمین کے مسلمانوں میں مقبول ہوچکے ہیں۔ اپنی کتابوں سے مرزاقادیانی کی طرح کوئی دنیوی نفع نہیں اٹھایا۔ ۱۵۰۰ کتابوں میں کسی جگہ بھی اپنی تعریف میں کچھ نہیں لکھا۔

۹…
انجیل کو بطور دلیل کے پیش کرنا قادیانیوں کے لئے حجت ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون ‘‘
یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تااصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔
(ازالہ اوہام ص۶۱۶، خزائن ج۳ ص۴۳۳)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’زبردستی سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ ساری کتابیں (انجیل اور توریت) محرف ومبدل ہیں۔ بلاشبہ ان مقامات (رفع جسمانی اور پیش گوئیوں) سے تحریف کا کچھ علاقہ نہیں… پھر ہمارے امام المحدثین حضرت اسماعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی لفظی تحریف نہیں۔‘‘
(ازالہ خورد ص۲۷۳، خزائن ج۳ ص۲۳۸،۲۳۹)
’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۸۷تا۲۹۲ حاشیہ ملخص، خزائن ج۲ ص۲۳۹تا۲۴۱ ملخص)

۱۰…
مرزاقادیانی نے ۱۸۸۰ء یا ۱۳۰۰ھ میں مجدد اور مامور من اﷲ اور ملہم من اﷲ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’کتاب براہین احمدیہ جس کو خداتعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم ومامور ہوکر بغرض اصلاح وتجدید دین تالیف کیا ہے … اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۴،۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳،۲۴)
(ازالہ اوہام خورد ص۱۸۵،۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰)

اب ذرا ملہم کی شان بھی ملاحظ کر لیں۔ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ خداتعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کر سکتے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام

میں اپنے دلائل مندرجہ ذیل ۶ابواب میں بیان کروں گا۔
باب:۱… دلائل از انجیل
باب نمبر:۲… دلائل از قرآن شریف
باب:۳… دلائل از حدیث
با ب نمبر:۴… دلائل از اقوال صحابہؓ
باب:۵… دلائل از ائمہ اسلام بالخصوص مجددین امت جن کو قادیانی بھی مجدد اور ائمہ اسلام تسلیم کر چکے ہیں۔
باب نمبر:۶… دلائل از اقوال مرزا غلام احمد قادیانی


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی ورفع جسمانی کا ثبوت از انجیل:

۱… انجیل متی باب:۲۴ ۔ ’’اور جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا تو اس کے شاگرد الگ اس کے پاس آکر بولے ہمیں بتا کہ یہ سب باتیں کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا۔ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار! کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے… اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھومسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑیں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے… کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے۔ ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا… ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔‘‘
(آیت۳تا۳۰، ص۲۵)

۲… (انجیل مرقس باب:۱۳، آیت:۳تا۲۷، ص۴۸) میں مضمون دیکھیں۔

۳… (انجیل لوقا باب:۲۴، آیت:۳۶تا۵۲، ص۸۷) وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ ان کے بیچ میں آکھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو۔ مگر انہوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھا کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ اس نے (یسوع نے) ان سے کہا کہ تم کیوں گھبراتے ہو اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو۔ کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر اس نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے۔ جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ انہوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اس نے لے کر ان کے روبرو کھایا… پھر وہ انہیں بیت علیاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انہیں برکت دی۔ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔

۴… (مرقس باب:۱۶، آیت:۱۹، ص۵۳) غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا۔

۵… (رسولوں کے اعمال باب اوّل، آیت:۹تا۱۱، ص۱۱۷) ’’یہ کہہ کر وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور اس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آکھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔ اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح پھر آئے گا۔ جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔‘‘

۶… (انجیل برنباس فصل:۲۱۴، آیت:۱تا۴، ص۳۵۷) ’’اور یسوع گھر سے نکل کر باغ کی طرف مڑا۔ تاکہ نماز ادا کرے… اور چونکہ یہودا اس جگہ کو جانتا تھا۔ جس میں یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ تھا۔ لہٰذا وہ کاہنوں کے سردار کے پاس گیا اور کہا اگر تو مجھے وہ دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے تو میں آج کی رات یسوع کو تیرے سپرد کر دوں گا۔ جس کو تم لوگ ڈھونڈھ رہے ہو۔ اس لئے کہ وہ گیاراں رفیقوں کے ساتھ اکیلا ہے۔‘‘ (فصل:۲۱۱۵، آیت:۱تا۶، ص ایضاً) ’’اور جب کہ سپاہی یہودا کے ساتھ اس جگہ کے نزدیک پہنچے۔ جس میں یسوع تھا۔ یسوع نے ایک بھاری جماعت کا نزدیک آنا سنا۔ تب اسی لئے وہ ڈر کر گھر میں چلا گیا اور گیارہوں شاگرد سورہے تھے۔ پس جب کہ اﷲ نے اپنے بندے کو خطرے میں دیکھا۔ اپنے سفیروں جبرائیل، میکائیل، رفائیل اور ادریل کو حکم دیا کہ یسوع کو دنیا سے لے لیں۔ تب پاک فرشتے آئے اور یسوع کو دکھن کی طرف دکھائی دینے والی کھڑکی سے لے لیا۔ پس وہ اس کو اٹھا لے گئے اور اسے تیسرے آسمان میں ان فرشتوں کی صحبت میں رکھ دیا جو کہ ابد تک اﷲ کی تسبیح کرتے رہیں گے۔‘‘
(فصل:۲۱۶، آیت:۱تا۱۰، ص۳۵۸) ’’اور یہودا زور کے ساتھ اس کمرہ میں داخل ہوا۔ جس میں سے یسوع اٹھا لیا گیا تھا اور شاگرد سب کے سب سورہے تھے۔ تب عجیب اﷲ نے ایک عجیب کام کیا۔ پس یہودا بولی اور چہرے میں بدل کر یسوع کے مشابہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے اعتقاد کیا۔ وہی یسوع ہے۔ لیکن اس نے ہم کو جگانے کے بعد تلاش کرنا شروع کیا تھا کہ دیکھے کہ معلم (یسوع) کہاں ہے۔ اس لئے ہم نے تعجب کیا اور جواب میں کہا۔ اے سید تو ہی تو ہمارا معلم ہے۔ پس تو اب ہم کو بھول گیا۔ مگر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیا تم احمق ہو کہ یہودا اسخریوطی کو نہیں پہچانتے اور اسی اثناء میں کہ وہ یہ بات کہہ رہا تھا۔ سپاہی داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے ہاتھ یہودا پر ڈال دئیے۔ اس لئے کہ وہ ہر ایک وجہ سے یسوع کے مشابہ تھا۔ لیکن ہم لوگوں نے جب یہودا کی بات سنی اور سپاہیوں کا گروہ دیکھا۔ تب ہم دیوانوں کی طرح بھاگ نکلے۔‘‘ (شاگردوں کا یسوع کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جانادیکھو مرقس باب:۱۴، آیت:۵۰)
(فصل:۲۱۷، آیت:۱تا۸۰، ص۳۶۳تا۳۸۵) ’’پس سپاہیوں نے یہودا کو پکڑا اور اس کو اسے مذاق کرتے ہوئے باندھ لیا۔ اس لئے کہ یہودا نے ان سے اپنے یسوع ہونے کا انکار کیا۔ بحالیکہ وہ سچا تھا۔ یہودا نے جواب میں کہا۔ شاید تم دیوانے ہوگئے ہو۔ تم تو ہتھیاروں اور چراغوں کو لے کر یسوع ناصری کو پکڑنے آئے ہو۔ گویا کہ وہ چور ہے تو کیا تم مجھی کو باندھ لو گے۔ جس نے کہ تمہیں راہ دکھائی ہے تاکہ مجھے بادشاہ بناؤ۔‘‘
’’یہودا نے بہت سی دیوانگی کی باتیں کیں۔ یہاں تک کہ ہر ایک آدمی نے تمسخر میں انوکھا پن پیدا کیا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ (یہودا) درحقیقت یسوع ہی ہے اور یہ کہ وہ موت کے ڈر سے بناوٹی جنون کا اظہار کر رہا ہے… اور میں یہ کیوں کہوں کہ کاہنوں کے سرداروں ہی نے یہ جانا کہ یہودا یسوع ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یسوع کی بیچاری ماں کنواری نے معہ اس کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے یہی اعتقاد کیا۔ یہاں تک کہ ہر ایک کارنج تصدیق سے بالا تر تھا۔ قسم ہے اﷲ کی جان کی کہ یہ لکھنے والا (میں برنباس حواری) اس سب کو بھول گیا جو کہ یسوع نے اس سے (مجھ سے) کہا تھا۔ ازیں قبیل کہ وہ دنیا سے اٹھا لیا جائے گا اور یہ کہ ایک دوسرا شخص اس کے نام سے عذاب دیا جائے گا اور یہ کہ وہ دنیا کا خاتمہ ہونے کے قریب تک نہ مرے گا۔ اسی لئے یہ لکھنے والا یسوع کی ماں اور یوحنا
کے ساتھ صلیب کے پاس گیا۔ تب کاہنوں کے سردار نے حکم دیا کہ یسوع کو مشکیں بندھا ہوا اس کے روبرو لایا جائے اور اس سے اس کے شاگردوں اور اس کی تعلیم کی نسبت سوال کیا۔ پس یہودا نے اس بارہ میں کچھ جواب بھی نہ دیا۔ گویا کہ وہ دیوانہ ہوگیا۔ اس وقت کاہنوں کے سردار نے اس کو اسرائیل کے جیتے جاگتے خدا کے نام کا حلف دیا کہ وہ اسے سچ کہے۔ یہودا نے جواب دیا۔ میں تم سے کہہ چکا کہ میں وہی یہودا اسخریوطی ہوں۔ جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ یسوع ناصری کو تمہارے ہاتھوں میں سپرد کر دے گا۔ مگر میں نہیں جانتا کہ تم کس تدبیر سے پاگل ہوگئے ہو۔ اس لئے کہ تم ہر ایک وسیلہ سے یہی چاہتے ہو کہ میں ہی یسوع ہو جاؤں۔… کاہنوں کے سردار نے جواب میں کہا (یہودا کو یسوع سمجھتے ہوئے)… کیا اب تم کو یہ خیال سوجھتا ہے کہ اس سزا سے جس کا تو مستحق ہے اور تو اسی لائق ہے۔ پاگل بن کر نجات پاجائے گا۔ قسم ہے اﷲ کی جان کی کہ تو ہرگز اس سے نجات نہ پائے گا… یہودا نے (حاکم سے) جواب میں کہا اے آقا! تو مجھے سچا مان کہ اگر تو میرے قتل کا حکم دے گا تو بہت بڑے ظلم کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ تو ایک بے گناہ کو قتل کرے گا۔ کیونکہ میں خود یہودا اسخریوطی ہوں۔ نہ کہ وہ یسوع جو کہ جادوگر ہے۔ پس اس نے اس طرح اپنے جادو سے مجھ کو بدل دیا ہے… مگر اﷲ نے جس نے انجاموں کی تقدیر کی ہے۔ یہودا کو صلیب کے واسطے باقی رکھا تاکہ وہ اس ڈراؤنی موت کی تکلیف کو بھگتے جس کے لئے اس نے دوسرے کو سپرد کیا تھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی دو چوروں پر صلیب دیے جانے کا حکم لگایا… یہودا کو ننگا کر کے صلیب پر لٹکایا… اور یہودا نے کچھ نہیں کیا۔ سوا اس چیخ کے کہ اے اﷲ! تو نے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ مجرم تو بچ گیا اور میں ظلم سے مر رہا ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہودا کی آواز اور اس کا چہرہ اور اس کی صورت یسوع سے مشابہ ہونے میں اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ یسوع کے سب ہی شاگردوں اور اس پر ایمان لانے والوں نے اس کو یسوع ہی سمجھا۔‘‘ (فصل:۲۳۲، آیت:۱تا۴، ص۳۶۹) ’’یسوع کے چلے جانے کے بعد شاگرد اسرائیل اور دنیا کے مختلف گوشوں میں پراگندہ ہوگئے۔ رہ گیا حق جو شیطان کو پسند نہ آیا۔ اس کو باطل نے دبا لیا۔ جیسا کہ یہ ہمیشہ کا حال ہے۔ پس تحقیق شریروں کے ایک فرقہ نے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یسوع کے شاگرد ہیں۔ یہ بشارت دی کہ یسوع مرگیا اور وہ جی نہیں اٹھا اور دوسروں نے یہ تعلیم پھیلائی کہ وہ درحقیقت مرگیا۔ پھر جی اٹھا اور اوروں نے منادی کی اور برابر منادی کر رہے ہیں کہ یسوع ہی اﷲ کا بیٹا ہے اور انہیں لوگوں کے شمار میں لوبھن نے بھی دھوکا کھایا۔ اب رہے ہم، تو ہم محض اس کی منادی کرتے ہیں جو کہ میں نے ان لوگوں کے لئے لکھا ہے کہ وہ اﷲ سے ڈرتے ہیں تاکہ اخیر دن میں جو اﷲ کی عدالت کا دن ہوگا چھٹکارا پائیں۔ آمین!‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا
(انجیل برنباس فصل:۲۱۲، آیت۱۴، ص۳۵۴) ’’اے رب بخشش والے اور رحمت میں غنی تو اپنے خادم کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘

التماس مؤلف:
ناظرین! میں نے طوالت کے خوف سے انجیل برنباس کی ساری کی ساری عبارت نقل نہیں کی۔ تاہم جتنی عبارت آپ کے سامنے ہے اس سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں۔
(انجیل کی وہ عبارتیں یہاں سے دیکھیں)

  1. یہودیوں اور یہودا حواری نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گرفتار اور قتل کرنے کا منصوبہ کیا۔
  2. خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا۔
  3. یہودا حواری کو اپنی خباثت اور منافقت کی سزا کے طور پر وہی سزا خدا نے دلوائی جو وہ حضرت مسیح کے لئے چاہتا تھا۔
  4. یہودا شکل وصورت اور آواز سب چیزوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہوگیا۔
  5. یہودا منافق حواری نے بہتیرا کہا کہ وہ یہودا اسخریوطی ہے۔ مگر یہودیوں نے اس کو بالکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی سمجھ کر اس کی ایک نہ سنی اور اسے پھانسی پر لٹکا دیا۔
  6. یہودا اسخریوطی جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ مبارک ڈال دی گئی تھی کو بہت ذلت، تضحیک اور بے عزتی کے ساتھ پھانسی دی گئی۔
  7. حواری اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سب کے سب یہودا کی لاش کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لاش سمجھتے رہے۔ تاآنکہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ نازل ہو کر برنباس حواری کو اطلاع دی۔ (دیکھو انجیل برنباس فصل:۲۱۹،۲۲۰،۲۲۱)
  8. یہودی سب کے سب یہودا کے قتل کو قتل مسیح علیہ السلام سمجھتے رہے۔ ایسا ہی عیسائی بھی صرف تھوڑے سے آدمی حقیقت حال سے واقف ہوئے۔ مگر باطل نے حق کو دبالیا اور عیسائیوں میں سے بعض نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل ہوگئے اور باقی کہنے لگے کہ
  9. قتل کے تیسرے دن بعد زندہ ہوکر آسمان پر اٹھالیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ!
  10. یہودا کی گرفتاری اور حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی کے وقت سب حواری بھاگ گئے تھے۔ اس واسطے وہ اصل حقیقت سے بے خبر تھے۔ لہٰذا وہ بھی یہودیوں سے متفق ہوگئے۔
  11. حضرت مسیح علیہ السلام نے امت محمدی میں شامل ہونے کی دعا کی تھی۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
نوٹ: اگر اس بیان کو کوئی قادیانی غلط کہنے کی جرأت کرے تو رسالہ ہذا میں قادیانی اصول، عقائد نمبر:۷ پڑھ کر سنادیں۔ اگر شرافت اور انصاف کا نام بھی ہوگا تو تسلیم کر لے گا۔ ورنہ ’’ ختم اﷲ علی قلوبہم ‘‘ کا مظاہرہ تو ضرور ہی ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت 1
آیت
اعراب کے بغیر عربی:
’’ فلما احس عيسى منهم الکفر قال من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله امنا بالله و اشهد بانا مسلمون آیت 52 ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشهدين آیت 53 و مکروا و مکر الله و الله خير المکرين آیت 54 ‘‘

اعراب کے ساتھ عربی:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ قَالَ الْحَـوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۝۰ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۵۲رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۵۳وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ۧ
(آل عمران:۵۲تا۵۴)

اس کی تفسیر میں ہم خود کچھ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ ہم قادیانیوں کے مسلمہ مجددین امت کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ تاکہ ان کو ہماری دلیل کے رد کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ کیونکہ اپنے تسلیم کئے ہوئے مجددین کی تفسیر کے انکار سے حسب قول مرزاقادیانی انہیں ’’فاسق بننا پڑے گا۔‘‘

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)

تفسیر نمبر:۱…
امام فخر الدین رازی قادیانیوں کے مجدد صدی ششم اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
’’ واما مکرہم بعیسیٰ علیہ السلام فہو انہم ہموا القتلہم وامامکر اﷲ بہم ففیہ وجوہ مکر اﷲ تعالیٰ بہم انہ رفع عیسیٰ علیہ السلام الی السماء وذالک ان یہودا ملک الیہود اراد قتل عیسیٰ وکان جبرائیل علیہ السلام لا یفارقہ ساعۃ وھو معنی قولہ تعالیٰ وایدناہ بروح القدس فلما ارادوا ذالک امرہ جبرائیل ان یدخل بیتافیہ روزنۃ فلما دخلوا البیت اخرجہ جبرائیل من تلک الروزنۃ وکان قد القیٰ شبہ علی غیرہ فاخذ وصلب۰ وفی الجملۃ فالمراد من مکر اﷲ تعالیٰ بہم ان رفعہ الیٰ السماء وما مکنہم من ایصال الشر الیہ
(تفسیر کبیر جز۸ ص۶۹،۷۰)‘‘
اور یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا کہ انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور اﷲ تعالیٰ کا مکر یہود سے۔ سو اس کی کئی صورتیں ہوئیں… ایک صورت یہ کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور جبرائیل علیہ السلام ایک گھڑی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جدا نہ ہوتا تھا اور یہی مطلب ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول کا ’’وایدناہ بروح القدس (بقرہ:۸۷)‘‘ یعنی ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل سے مدد دی۔ پس جب یہود نے قتل کا ارادہ کیا تو جبرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک مکان میں داخل ہو جانے کے لئے فرمایا۔ اس مکان میں کھڑکی تھی۔ پس جب یہود اس مکان میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کھڑکی سے نکال لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک اور آدمی کے اوپر ڈال دی۔ پس وہی پکڑا گیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا۔ غرضیکہ یہود کے ساتھ اﷲ کے مکر کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ شرارت کرنے سے روک لیا۔

تفسیر نمبر:۲…
اب ہم امام جلال الدین یسوطیؒ کی تفسیر نقل کرتے ہیں۔ امام موصوف قادیانی عقیدہ کے مطابق نویں صدی ہجری میں مجدد مبعوث ہوکر آئے تھے اور
’’ان کا مرتبہ ایسا بلند تھا کہ جب انہیں ضرورت پڑتی تھی۔ حضرت رسول کریمﷺ کی بالمشافہ زیارت کر کے دریافت کرلیا کرتے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ فلما احس (علم) عیسیٰ منہم الکفرو (ارادوا قتلہ)… ومکروا (ای کفار بنی اسرائیل بعیسیٰ اذا وکلو بہ من یقتلہ غیلۃ) ومکر اﷲ (بہم بان القیٰ شبہ عیسیٰ علیٰ من قصد قتلہ فقتلوہ ورفع عیسیٰ) واﷲ خیر الماکرین (اعلمہم بہ) ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’پس جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کا کفر معلوم کر لیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کرلیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مکر کیا۔ جب انہوں نے مقرر کیا ایک آدمی کو، کہ وہ قتل کرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکا سے، اور اﷲتعالیٰ نے یہود کے ساتھ مکر کیااس طرح کہ ڈال دی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس شخص پر جس نے ارادہ کیا تھا ان کے قتل کا۔ پس یہود نے قتل کیا اس شبیہ کو، اور اٹھا لئے گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ تمام تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

تفسیر نمبر:۳…
اب ہم اس بزرگ کی تفسیر بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی ولاہوری مجدد صدی دوازدہم مانتے ہیں اور مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ ولی اﷲ صاحب کامل ولی اور صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔ وہ اپنے زمانہ کے مجدد تھے اور عالم ربانی تھے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۶، خزائن ج۷ ص۲۹۱)
شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب تاویل الاحادیث میں فرماتے ہیں:
’’ کان عیسیٰ علیہ السلام کانہ ملک یمشی علی وجہ الارض فاتہمہ الیہود بالزندقۃ واجمعوا علیٰ قتلہ فمکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین۰ فجعل لہ ہیئۃ مثالیۃ ورفعہ الیٰ السماء والقیٰ شبہ علیٰ رجل من شیعتہ او عدوہ فقتل علیٰ انہ عیسیٰ علیہ السلام ثم نصر اﷲ شیعتہ علیٰ عدوہم فاصبحوا ظاہرین ‘‘
’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو گویا ایک فرشتے تھے کہ زمین پر چلتے تھے۔ پھر یہودیوں نے ان پر زندیق ہونے کی تہمت لگائی اور قتل پر جمع ہوگئے۔ پس انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے بھی تدبیر کی اور اﷲبہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اﷲ نے ان کے واسطے ایک صورت مثالیہ بنادی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے گروہ میں سے یا ان کے دشمن کے ایک آدمی کو ان کی صورت کا بنادیا۔ پس وہ قتل کیاگیا اور یہودی اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے۔‘‘
(تاویل الاحادیث ص۶۰)

تفسیر نمبر:۴…
امام وقت شیخ الاسلام حافظ ابن کثیر کی تفسیر (قادیانی اور لاہوری بہ یک زبان) چھٹی صدی کے سر پر تجدید دین کے لئے ان کا مبعوث ہونا مانتے ہیں۔
(عسل مصفیٰ حصہ اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ فلما احاطوا بمنزلۃ وظنوا انہم ظفروا بہ نجاہ اﷲ تعالیٰ من بینہم ورفعہ من روزنۃ ذالک البیت الیٰ السماء والقیٰ شبہ علی رجل ممن کان عندہ فی المنزل فلما دخلوا اولئک اعتقدوہ فی ظلمۃ اللیل عیسیٰ فاخذوہ وصلبوہ ووضعوا علیٰ راسہ الشوک وکان ہذا من مکر اﷲ بہم فانہ نجی نبیہ ورفعہ من بین اظہرہم وترکہم فی ضلالہم یعمہون ‘‘
(ابن کثیر ج۱ ص۳۶۵)
’’جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہو گئے ہیں تو خداتعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا یہی مکر تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔‘‘
ناظرین! جس قدر مجددین امت محمدیہ میں گزرے ہیں۔ اس آیت کی اسی تفسیر پر فوت ہوئے ہیں۔ انجیل برنباس کا بیان بھی اسی تفسیر کا مؤید ہے۔ پس مجددین کی تفسیر ہی قابل قبول ہے اور ان کا منکر فاسق ہے۔ (عقیدہ نمبر۴) اب ناظرین کی تفریح طبع کے لئے ہم مرزاقادیانی کی پر لطف اور پر مذاق تفسیر درج کرتے ہیں۔

یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ
الف… ’’یہود یوں کے علماء نے ان کے (عیسیٰ علیہ السلام کے) لئے ایک کفر کا فتویٰ تیار کیا اور ملک کے تمام علماء کرام وصوفیائے عظام نے اس فتویٰ پر اتفاق کر لیا اور مہریں لگا دیں۔ مگر پھر بھی بعض عوام الناس میں سے جو تھوڑے ہی آدمی تھے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ رہ گئے۔ ان میں سے بھی یہودیوں نے ایک کو کچھ رشوت دے کر اپنی طرف پھیر لیا اور دن رات یہ مشورے ہونے لگے کہ توریت کی نصوص صریحہ سے اس شخص کو کافر ٹھہرانا چاہئے۔ تاعوام بھی یک دفعہ بیزار ہو جائیں اور اس کے بعض نشانوں کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں۔ چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے۔ پھر کام بن جائے گا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے… سو یہودی لوگ اس تدبیر میں لگے رہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۵،۱۰۶)
ب… ’’یہودیوں نے نعوذ باﷲ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا۔ تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسیٰ ابن مریم ان صادقوں میں سے نہیں ہے۔ جن کا رفع الیٰ اﷲ ہوتا رہا ہے۔ مگر خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہود کے مکر سے گھبرانا اور دعا مانگنا
الف… ’’چونکہ مسیح ایک انسان تھا۔ اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس نے برعایت اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مر جاؤں گا۔ سو بباعث ہیبت تجلی جلالی حالت موجودہ کو دیکھ کر ضعف بشریت اس پر غالب ہوگیا تھا۔ تب ہی اس نے دل برداشتہ ہوکر کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور کیوں اس وعدہ کا ایفا نہ کیا جو تو نے پہلے سے کر رکھا تھا کہ تو مرے گا نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳،۳۰۴)
ب… ’’حضرت مسیح نے جو اپنے بچنے کے لئے تمام رات رو کر دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی میں تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
ج… ’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۰ حاشیہ)

حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا مظاہرہ
یعنی یہود کے مکر بہ عیسیٰ علیہ السلام اور خدا کے مکر بہ یہود کا عجیب وغریب نقشہ
الف… ’’پھر بعد اس کے مسیح ان کے (یہود کے) حوالہ کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت… تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھادیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔ مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آگئی۔ جس سے سخت اندھیرا ہوگیا۔ یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ اب اگر اندھیری میں ہی شام ہوگئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہو جائیں گے۔ جس کا ابھی ذکر کیاگیا ہے۔ سو انہوں نے اسی فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا… جب (سپاہی) چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مرچکا ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں… پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۰تا۳۸۲، خزائن ج۳ ص۲۹۵،۲۹۷)
ب… ’’مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں۔ جن سے وہ غشی کی حالت میں ہوگیا۔ یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہیں تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲)
ج… ’’مسیح نے تو سولی پر چڑھ کر بھی یہی کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۴، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱ حاشیہ)
د… ’’حضرت مسیح صلیب سے نجات پاکر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے… وہ ایک مدت کوہ نعمان میں رہے۔ پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے۔ آخر کشمیر میں گئے… آخر سری نگر میں ۱۲۵برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۹)
ہ… ’’توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص صلیب دیا جائے۔ اس کا رفع روحانی نہیں ہوتا… اﷲتعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یہودیوں کے اس اعتراض کو دور کرے اور حضرت مسیح کے رفع روحانی پر گواہی دے۔ سو اسی گواہی کی غرض سے اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ یعنی اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا اور وفات کے بعد تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے ان الزاموں سے پاک کروں گا۔ جو تیرے پر ان لوگوں نے لگائے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۶، خزائن ج۱۴ ص۳۵۳)

نتیجہ نمبر:۱…
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے اور نصاریٰ نے بھی لعنت کو مان لیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)

سوال از روح مرزا
۱… مرزا! آپ کی ساری تحریر کا مطلب تو یہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے کر لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کا مکر تھا۔ اس کے مقابلہ پر خدا نے پھانسی پر جان نہ نکلنے دی اور کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کا سوائے آپ کے پتہ بھی نہ لگ سکا۔ اس بناء پر تو یہودی اپنی تدبیر میں خوب کامیاب ہوگئے۔ یعنی نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملعون ہی ثابت کر دیا بلکہ کروڑہا نصاریٰ سے عیسیٰ علیہ السلام کے ملعون ہونے کے عقیدہ کا اقرار بھی لے لیا۔ پس بتلائیے! کون اپنی تدبیر میں غالب رہا۔ یہودیا خدا احکم الحاکمین؟ آپ کے بیان کے مطابق تو یہود کا مکر ہی غالب رہا۔
سبحان اﷲ! یہ بھی کوئی کمال ہے کہ یہودیوں نے جو کچھ چاہا حضرت مسیح علیہ السلام سے کہہ لیا خدا منع نہ کر سکا۔ اگر کیا تو یہ کہ عزرائیل کو حکم دے دیا کہ دیکھنا اس کی روح مت نکالنا۔ پھر ساتھ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمام تدبیریں کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہوں۔
۲… مرزاقادیانی! آپ نے لکھا کہ توریت میں لکھا ہے ’’جو کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔‘‘ ایمان سے کہئے! کیا وہاں یہ لکھا ہے کہ ہر مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔ کیوں توریت پر افتراء باندھتے ہو؟ بلکہ واجب القتل مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔
(دیکھو توریت استثناء باب:۲۱، آیت:۲۳)
۳… پھر آپ کے خیال میں خدا کے ہاں بھی یہی قانون مروج ہے کہ ہر مصلوب اگرچہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہو لعنتی ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق خدا نے اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح صلیب پر نہ نکلنے دی۔ یہ آپ کا محض افتراء ہے۔ کیا بے گناہ مقتول شہید نہیںہوتا۔ کیا جس قدر انبیاء علیہم السلام قتل کئے گئے۔ وہ سب کے سب نعوذ باﷲ ملعون تھے۔ اﷲتعالیٰ یہود کا حال بیان فرماتے ہیں: ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق (آل عمران:۱۱۲) ویقتلون النبیین (بقرہ:۶۱، آل عمران:۲۱)‘‘
مؤمن کے قتل کرنے والے کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ من قتل مؤمنا متعمدا فجزاہ جہنم خالداً فیہا (النسائ:۹۳) ‘‘ یعنی جو مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کے لئے دائمی جہنم ہے۔ یعنی خود قاتل ملعون ہوجاتا ہے۔
مؤمن مقتول کے متعلق ارشاد ہے:
’’ لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا۰ بل احیاء عند ربہم یرزقون (آل عمران:۱۶۹) ‘‘
{اے مخاطب تو نہ سمجھ مردہ ان لوگوں کو جو خدا کے راستہ میں قتل کئے گئے۔ بلکہ وہ اپنے خدا کے ہاں زندہ ہیں۔ رزق دئیے جاتے ہیں۔}
پس بتلائیے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب دئیے جاتے اور قتل ہو جاتے تو وہ خدا کے ہاں ملعون کس طرح ہو جاتے؟ بلکہ وہ بھی دیگر مقتول انبیاء کی طرح شہید ہوگئے ہوتے۔
نوٹ: ’’صلیب پر مرا ہوا بھی مقتول ہی ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت نمبر 2
۱… آیت : آلعمران : 55
آیت اعراب کے ساتھ:
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَہِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
آیت اعراب کے بغیر:
اذ قال الله يعيسى اني متوفيک و رافعک الي و مطهرک من الذين کفروا و جاعل الذين اتبعوک فوق الذين کفروا الى يوم القيمة ثم الي مرجعکم فاحکم بينکم فيما کنتم فيه تختلفون آیت 55
۱… ’’ (آل عمران:۵۵)‘‘
ہم اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس مفسر اعظم کی زبان سے بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی اور لاہوری، صدی ششم کا مجدد اعظم قرار دے چکے ہیں اور دنیائے اسلام میں وہ امام فخرالدین رازی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ تفسیر کبیر میں بذیل آیت کریمہ فرماتے ہیں اور قریباً سات سو (۷۰۰) سال پیشتر قادیانیوں کے الحاد اور تحریف کا جواب دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ ووجد ہذا المکر اذ قال اﷲ ہذا القول (انی متوفیک) ومعنیٰ قولہ تعالیٰ انی متوفی ای متمم عمرک فحینئذ اتو فاک فلا اترکہم حتیٰ یقتلوک بل انا رافعک الیٰ سمائی ومقر ملائکتی واصونک ان یتمکنوا من قتلک وہذا تاویل حسن… ان التوفی اخذ الشیٔ وافیا ولما علم اﷲ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذین رفعہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علیٰ انہ علیہ الصلوت والسلام رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وبجسدہ… وکان اخرجہ من الارض واصعادہ الیٰ السماء توفیا لہ فان قیل فعلیٰ ہذا الوجہ کان التؤفی عین الرفع الیہ فیصیر قولہ ورافعک الیّٰ تکرارا قلنا قولہ انی متوفیک یدل علیٰ حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضہا بالموت وبعضہا بالاصعاد الیٰ السماء فلما قال بعد ورافعک الیّٰ کان ہذا تعیینا للنوع ولم یکن تکرارا… ومطہرک من الذین کفروا والمعنی مخرجک من بینہم ومفرق بینک وبینہم ‘‘

(تفسیر کبیر جز۸ ص۷۱،۷۲)
امام رازی مجدد صدی ششم فرماتے ہیں: ’’اور یہ مکر الٰہی اس وقت پایا گیا جب کہ کہا خدا نے انی متوفیک اور انی متوفیک کے معنی ہیں (اے عیسیٰ) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لئے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ میں تجھے اپنے آسمان اور ملائکہ کے مقر کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچالوں گا اور یہ تفسیر نہایت ہی اچھی ہے… تحقیق توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں کر لینا اور کیونکہ اﷲتعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض آدمی (سرسید علی گڑھی اور مرزاغلام احمد قادیانی وغیرہم) خیال کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم نہیں بلکہ روح اٹھائی گئی تھی۔ اس واسطے انی متوفیک کا فقرہ استعمال کیا تاکہ یہ کلام دلالت کرے۔ا س بات پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم بمعہ روح آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔ ان کی توفی کے معنی زمین سے نکل کر آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہے اور اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو توفی اور رفع میں کوئی فرق نہ ہوا بلکہ دونوں ہم معنی ہوئے اور اگر ہم معنی ہوئے تو پھر رافعک الیّٰ کا فقرہ بلا ضرورت تکرار کلام میں ثابت ہوا۔ (جس سے کلام اﷲ پاک ہے) جواب اس کا ہم یہ دیتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے قول انی متوفیک سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کا اعلان کرنا ہے اور توفی ایک عام لفظ ہے جس کے ماتحت بہت قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک توفی موت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک توفی آسمان کی طرف بمعہ جسم اٹھالینا ہے۔ پس جب ’’ انی متوفیک ‘‘ کے بعد اﷲتعالیٰ نے فرمایا ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ تو اس فقرہ سے توفی کی ایک قسم مقرر ومعین ہوگئی (یعنی رفع جسمانی) پس کلام میں تکرار نہ رہا اور ’’ مطہرک من الذین کفروا ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میں تجھے ان یہود کی صحبت سے جدا کرنے والا ہوں اور تیرے اور ان کے درمیان علیحدگی کرنے والا ہوں۔‘‘ ختم ہوا ترجمہ تفسیر کبیر کا۔

۲… تفسیر از امام جلال الدین سیوطیؒ جن کو قادیانی اور لاہوری دونوں مجدد صدی نہم ماننے کے علاوہ اس مرتبہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ:
’’وہ آنحضرتﷺ سے بالمشافہ مسائل متنازع فیہ پوچھ لیا کرتے تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ اذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک (قابضک) ورافعک الیّٰ (من الدنیا من غیر موت) ومطہرک (مبعدک) من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک (صدقوا نبوتک من المسلمین والنصاریٰ) فوق الذین کفروا بک وہم الیہود یعلونہم بالحجۃ والسیف ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’جب کہا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تجھ کو اپنے قبضہ میں کرنے والا ہوں اور دنیا سے بغیر موت کے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے الگ کرنے والا ہوں کافروں کی صحبت سے اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک دلائل اور تلوار سے غالب رکھنے والا ہوں۔‘‘

دیگر مجددین امت نے بھی اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی ہی کو ثابت کیا ہے۔ ایک مجدد یا محدث بھی ایسا پیش نہیں کیاجاسکتا جس نے اس آیت میں رفع کے معنی رفع روحانی کئے ہوں۔ ہاں بعض بزرگوں نے اس آیت میں توفی کے مجازی معنی یعنی موت دینا اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر ساتھ ہی تقدیم وتاخیر کی شرط لگا کر پھر بھی رفع جسمانی کے قائل رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیجئے! اس کے متعلق بھی ہم صرف تین مجددین کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ جن کا رد کرنے والا مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

۱… امام فخرالدین رازی مجدد صدی ششم کا ارشاد ملاحظ ہو:
’’ وقولہ رافعک الیّٰ یقتضی انہ رفعہ حیا والوا ولا تقتضی الترتیب فلم یبق الا ان یقول فیہا تقدیم وتاخیر والمعنیٰ انی رافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالی ایاک فی الدنیا ومثلہ من التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
’’قول الٰہی رافعک الیّٰ تقاضا کرتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو زندہ اٹھا لیا اور واؤ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی۔ پس سوائے اس کے کچھ نہ رہا کہ کہا جائے کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار سے بالکل پاک وصاف رکھنے والا ہوں اور تجھے دنیا میں نازل کرنے کے بعد فوت کرنے والا ہوں اور اس قسم کی تقدیم وتاخیر قرآن شریف میں بکثرت ہے۔‘‘
اس سے ذرا پہلے فرماتے ہیں:
’’ ان الواو فی قولہ متوفیک ورافعک الیّٰ لا تفید الترتیب فالایۃ تدل علیٰ انہ تعالیٰ یفعل بہ ہذہ الافعال فاما کیف یفعل ومتی یفعل فالامر فیہ موقوف علیٰ الدلیل وقد ثبت الدلیل انہ حی وورد الخبر عن النبیﷺ انہ سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ یتوفاہ بعد ذالک ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۱،۷۲)
’’واؤ عاطفہ جو اس آیت میں ہے وہ مفید ترتیب نہیں۔ یعنی وہ ترتیب کے لئے نہیں۔ پس یہ آیت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ سب معاملات کرے گا۔ لیکن کس طرح کرے گا اور کب کرے گا۔ پس یہ سب کچھ کسی اور دلیل پر موقوف ہے اور اس کی دلیل ثابت ہوچکی ہے کہ آپ زندہ ہیں اور نبیﷺ سے حدیث وارد ہے کہ آپ ضرور اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ پھر اﷲتعالیٰ آپ کو اس کے بعد فوت کرے گا۔‘‘

۲… امام سیوطیؒ مجدد صدی نہم فرماتے ہیں:
’’ عن الضحاکؒ عن ابن عباسؓ فی قولہ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان ‘‘

(درمنثور ج۲ ص۳۶)
’’حضرت ضحاکؒ تابعی حضرت ابن عباسؓ سے قول الٰہی انی متوفیک ورافعک الیّٰ کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ مراد اس جگہ یہ ہے کہ تجھے اٹھا لوں گا۔ پھر آخری زمانہ میں فوت کروں گا۔‘‘

۳… تفسیر از علامہ محمد طاہر گجراتی مصنف مجمع البحار جن کو قادیانی مجدد صدی دہم تسلیم کرتے ہیں۔
’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ علی التقدیم والتاخیر… ویجییٔ اخر الزمان لتواتر خبر النزول ‘‘ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یعنی معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اوپر اٹھانے والا ہوں اور پھر فوت کرنے والا ہوں… حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں دوبارہ آئیں گے۔ کیونکہ احادیث نبوی نزول کے بارہ میں تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔
غرضیکہ تمام علماء اسلام سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر قادیانی امت ۱۳صدیوں کے علماء مجددین میں سے ایک مجدد بھی ایسا پیش کر سکے۔ جس نے اس آیت میں رفع سے مراد رفع روحانی لیا ہو۔ تو ہم انعام مقررہ کے علاوہ اعلان کرتے ہیں کہ ایک سال تک تردید مرزائیت کا کام چھوڑ دیں گے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ تیرہ صدیوں کے مجددین امت (جن کی فہرست قادیانیوں کی مایہ ناز کتاب (عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۶۲،۱۶۵) پر لکھی ہے) میں سے ایک بھی اس رفع کے معنی رفع روحانی نہیں کرتا۔ بلکہ تمام کے تمام اس کے معنی رفع جسمانی پر ایمان رکھتے ہیں تو جو آدمی ان کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا وہ قادیانی فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

(قادیانی اصول نمبر۴)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی کی پرلطف بحث
میرے معزز ناظرین! توفی کی تفسیر میں نے ایسے مفسرین کی زبان سے بیان کر دی ہے کہ جس آدمی میں ذرا بھی انصاف اور حق پرستی کا مادہ ہو۔ وہ قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ سارے حضرات قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کے مسلمہ مجددین گزرے ہیں اور مجدد علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ علوم قرآنیہ کی صحیح تعلیم کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ وہ دین میں نہ کمی کرتے ہیں نہ زیادتی۔
(قادیانی اصول نمبر۴)
مگر تاہم چونکہ قادیانی مناظر ہر جگہ توفی کے متعلق بڑی تحدی اور زور سے چیلنج دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا مناسب سمجھتا ہوں کہ بقدر ضرورت میں بھی اس پر روشنی ڈال کر اپنے ناظرین کو حقیقت حال سے مطلع کر دوں۔ پہلے میں مرزاقادیانی کے خیالات کو ان کی کتابوں کے حوالہ سے ’’توفی کی بحث‘‘ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس کے بعد خود اپنا ’’مافی الضمیر‘‘ عرض کروں گا۔
سوال نمبر:۱… توفی کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
جواب نمبر:۱… از مرزا ’’توفی کے حقیقی معنی وفات دینے اور روح قبض کرنے کے ہیں۔‘‘
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے معنی حقیقت میں وفات دینے کے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
سوال نمبر:۲… توفی کے مجازی معنی کیا ہیں؟
جواب… ’’(قرآن شریف میں) دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ نوم استعمال کیاگیا ہے۔ یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیاگیا ہے۔ تاہر ایک شخص سمجھ لے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے۔ بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۳… قرآن کریم میں یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
جواب نمبر:۱… از مرزاقادیانی: ’’قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے۔ ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴ حاشیہ)
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے سیدھے اور صاف معنی جو موت ہیں وہی اس جگہ (قرآن کریم میں) چسپاں ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴)
جواب نمبر:۳… ’’ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اوّل سے آخر تک صرف یہی معنی ہر ایک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اس کو بیکار چھوڑ دینا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴۲، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
سوال نمبر:۴… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! یہ کیسے معلوم ہو کہ کوئی لفظ کس جگہ اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا اور کس جگہ مجازی معنوں میں؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’اس بات کے دریافت کے لئے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع ومتعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے۔ مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے۔ اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۵… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! سچ سچ فرمائیے کہ موت یا حیات دینے کا اختیار خدا کے سوا کسی اور ہستی کو بھی ہوسکتا ہے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’خداتعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۴، خزائن ج۳ ص۲۶۰ حاشیہ)
سوال نمبر:۶… از ابوعبیدہ: ’’قرآن شریف میں توفی کا لفظ کتنی جگہ آیا ہے۔ ذرا مکمل فقرات کی صورت میں پیش کیجئے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی:
۱… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۲… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۳… ’’حتیٰ یتوفہن الموت (نسائ)‘‘
۴… ’’توفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نسائ)‘‘
۵… ’’توفتہ رسلنا (انعام)‘‘
۶… ’’رسلنا یتوفونہم (اعراف)‘‘
۷… ’’اذیتوفی الذین کفروا الملئکۃ (انفال)‘‘
۸… ’’فکیف اذا توفتہم الملئکۃ یضربون وجوہہم (محمد)‘‘
۹… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نحل)‘‘
۱۰… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ طیبین (نحل)‘‘
۱۱… ’’قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ)‘‘
۱۲… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (یونس)‘‘
۱۳… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (رعد)‘‘
۱۴… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (مؤمن)‘‘
۱۵… ’’ثم یتوفکم (نحل)‘‘
۱۶… ’’ومنکم من یتوفیٰ (حج)‘‘
۱۷… ’’ومنکم من یتوفیٰ (مؤمن)‘‘
۱۸… ’’وتوفنا مع الابرار (آل عمران)‘‘
۱۹… ’’توفنا مسلمین (اعراف)‘‘
۲۰… ’’توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (یوسف)‘‘
۲۱… ’’ھو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ماجرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمیٰ (انعام)‘‘
۲۲… ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الی اجل مسمیٰ (زمر)‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۳۰،۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۸)
سوال نمبر:۷… ازابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! آپ نے آیات نقل کرنے میں دیانت سے کام نہیں لیا۔ صرف آخری دو آیتیں کما حقہ نقل کی ہیں۔ میں ہر ایک آیت کے متعلق ابھی مفصل عرض کروں گا۔ مگر اتنا تو آپ کے اصول سے سمجھ میں آگیا کہ اگر میں ثابت کر دوں کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں بلکہ جس طرح آپ توفی کے مجازی معنی نیند دینا مانتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح ہم توفی کے مجازی معنی موت دینا بھی مانتے ہیں۔ دلائل ذیل میں ملاحظہ کیجئے اور پھر ایمان سے فرمائیے کہ آپ کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک ہے؟‘‘
توفی کے حقیقی معنی کسی چیز کو اپنے تمام لوازمات کے ساتھ قبضہ میں کر لینا ہے۔ وجہ ملاحظہ کریں:

۱… توفی کا لفظ وفا سے نکلا ہوا ہے اور باب تفعل کا صیغہ ہے۔ اسی طرح ایفاء توفیہ اور استیفاء بھی اسی مادہ وفاء سے بالترتیب باب افعال، تفصیل اور استفعال کے صیغے ہیں۔ اب یہ بات تو ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی صیغہ کے حقیقی معنوں میں مادے (اصلی روٹ) کے معنی ضرور موجود رہتے ہیں۔ پس ان سب صیغوں میں وفا کے معنی پائے جانے ضروری ہیں۔ وفاء کے معنی ہیں پورا کرنا۔ معمولی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ باب تفعل اور استفعال میں اخذ یعنی لینے کے معنی زائد ہو جاتے ہیں۔ پس توفی اور استیفا کے معنی ہوئے۔ ’’ اخذ الشیی وافیاً ‘‘ یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یعنی تمام جزئیات سمیت قابو کر لینا۔ چنانچہ ہم اپنی تصدیق وتائید میں ماہرین زبان عرب کے اقوال پیش کرتے ہیں۔
الف… ’’ اساس البلاغہ ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ استوفاہ وتوفاہ استکملہ ‘‘ یعنی استیفاء اور توفی دونوں کے معنی پورا پورا لے لینا ہے۔
ب… (لسان العرب ج۱۵ ص۳۵۹) میں بھی یہی لکھا ہے۔
ج… تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی مجدد صدی ششم نے بھی دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے۔

۲… مرزاقادیانی! آیت نمبر۴،۵،۷تا۱۱ میں توفی کرنے والے فرشتے قرار دئیے گئے ہیں اور آپ کے جواب نمبر:۵ میں آپ نے فرمایا ہے کہ موت وحیات بغیر خدا کے کوئی دے نہیں سکتا۔ پس ماننا پڑے گا کہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت دینے کے ہیں تو پھر فرشتے آپ کے نزدیک خدا ٹھہریں گے اور اگر فرشتے خدا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہوسکتے اور یقینا نہیں ہوسکتے؟

۳… آیات نمبر:۱،۲ میں ’’ یتوفون ویتوفون ‘‘ دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
پہلی صورت میں فعل مجہول ہے اور دوسری صورت میں معروف ہے۔ دوسری صورت میں توفی بمعنی موت کرنے، ناممکن ہیں۔ کیونکہ والذین اس کا فاعل ضمیر ہے۔ مرزا قادیانی! آپ کے معنی قبول کر لیں تو یوں معنی کرنے پڑیں گے۔ ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو موت دیتے ہیں۔‘‘ یہ بالکل بے معنی ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی موت دینا نہیں۔

۴… آیت نمبر:۳ میں یتوفی کا فاعل الموت ہے۔ اگر توفی بمعنی موت دینا ہو تو آیت کے معنی یوں کریں گے۔ یہاں تک کہ موت ان کو موت دے دے۔
مرزاقادیانی! کچھ تو انصاف کیجئے! کیا موت ہم کو موت دیا کرتی ہے یا خدا؟ موت تو خدا دیتا ہے۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں۔

۵… قرآن شریف میں توفی کے معنی بطور مجاز جہاں موت دینا کئے گئے ہیں۔ وہاں اسی فعل کا فاعل یا تو خدا ہے یا فرشتے۔ یا موت یا خود آدمی۔ حالانکہ اس کے برعکس اماتت جس کے حقیقی معنی موت دینا ہے۔ اس کا فاعل قرآن کریم یا حدیث نبوی یا اقوال صحابہؓ یا اقوال اہل لسان میں کسی جگہ بھی سوائے خدا کے اور کسی کو قرار نہیں دیا۔ اگر توفی کے حقیقی معنی موت ہیں تو قرآن کریم میں اس کا فاعل بھی سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہوتا۔ پس اﷲتعالیٰ کا دونوں فعلوں کے فاعل مقرر کرنے میں اس قدر اہتمام کرنا ثابت کرتا ہے کہ اگر اماتت کے حقیقی معنی موت دینا ہے تو یقینا توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہو سکتے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ کیوں سارے قرآن کریم میں احیاء اور اماتت کے استعمال میں نسبت فاعلی خدا نے اپنی طرف کی ہے اور توفی میں سب طرح جائز رکھا ہے؟

۶… آپ نے جس قدر آیات نقل کی ہیں۔ اگر مکمل پڑھی جائیں تو ہر ایک میں قرینہ موت موجود ہے۔ مثلاً:
آیت نمبر:۱… میں آپ نے صرف اتنا نقل کیا ہے۔ ’’ والذین یتوفون منکم ‘‘ اور اس کے آگے ’’ ویذرون ازواجاً وصیۃ لا زواجہم متاعاً الیٰ الحول غیر اخراج ‘‘ ’’تم میں سے جو لوگ اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔ (یعنی فوت ہو جاتے ہیں) اور چھوڑ جاتے ہیں اپنی عورتیں۔ وہ وصیت کر جایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے۔‘‘
آیت نمبر:۲… میں بھی ’’ویذرون ازواجاً یتربصن بانفسہن اربعۃ اشہر وعشراً‘‘ یہاں بھی بیبیوں کا پیچھے چھوڑ جانا اور ان کی عدت کا حکم صاف صاف قرینہ صارفہ موجود ہے۔ یعنی یتوفون کے معنی ہوں گے اپنی عمر پوری کر لینا۔
اسی طرح آیات نمبر۴ سے۱۱ تک موت کے فرشتوں کا فاعل ہونا قرینہ ہے۔ بعض میں حیات کا ذکر کرنے کے بعد توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جو قرینہ کا کام دیتا ہے۔ بعض آیات میں خاتمہ بالخیر کی دعا قرینہ موت موجود ہے۔ آیت نمبر:۲۱ میں باللیل وغیرہ قرینہ نیند کا موجود ہے۔ اس واسطے یہاں توفی کے معنی نیند دینا ہے۔ ورنہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت کے ہوں تو مرزاقادیانی کو ماننا پڑے گا کہ تمام دنیا رات کو حقیقی موت مرجاتی ہے۔ صبح پھر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے (اور یہ بات مرزائیوں کے نزدیک بھی صحیح نہیں)
آیت نمبر۲۲ تو توفی کے معنوں کا فیصلہ ہی کر دیتی ہے۔ توفی کا مفعول انفس ہے یعنی روح۔ اگر آپ کے معنی قبول کر لئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ روح کو موت دے دیتا ہے۔ حالانکہ یہ امر بالکل غلط ہے۔ ہاں پھر ’’ والتی لم تمت فی منامہا ‘‘ (اور اﷲ ان روحوں کی بھی توفی کرتا ہے جن پر موت وارد نہیں ہوئی) کا اعلان کرکے مرزاقادیانی! آپ کے سارے تانے بانے کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ یہاں توفی کا حکم بھی جاری ہے اور لم تمت (نہیں مریں یعنی زندہ ہیں)کا اعلان بھی ہورہا ہے۔ یعنی توفی کا عمل ہو جانے کے بعد بھی آدمی کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں بلکہ ہر روز کروڑہا انسانوں پر اس کا عمل ہورہا ہے۔ غرضیکہ اس آیت میں ایک ہی لفظ توفی مستعمل ہوا ہے۔ اس کے معنی مجازی طور پر مارنے کے بھی ہیں اور مجازی طور سلانے کے بھی۔

نتیجہ… آپ نے سوال جواب نمبر۴ میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوتو اس کے ساتھ قرائن نہیں ہوتے اور جن کے ساتھ قرینہ موجود ہو۔ وہ ضرور مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام آیات میں موت اور نیند کے معنی کرنے کے لئے زبردست قرائن موجود ہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی صرف اخذ الشیٔ وافیاً یعنی کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لینا ہے اور اس کے معنی کرتے وقت قرینہ کا ضرور خیال رکھنا ہوگا۔ بغیر قرینہ کے اس کو اپنے حقیقی معنوں سے پھیرنا جائز نہ ہوگا۔

۷… قرآن شریف میں حیوٰۃ اور اس کے مشتقات کے مقابلہ پر صرف موت اور اس کے مشتقات ہی مستعمل ہیں۔ تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی حیات کے مقابلہ پر توفی کا استعمال نہیں ہوا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ بمعہ اپنی جماعت کے قرآن کریم ہزارہا احادیث رسول کریمﷺ اقوال صحابہؓ، اقوال بزرگان دین اور سینکڑوں کتب لسان عرب سے کہیں ایک ہی ایسا مقام دکھا دو۔ جہاں احیاء (زندہ کرنا) اور توفی (پوری پوری گرفت کرنا) بالمقابل استعمال ہوئے ہیں۔ انشاء اﷲ تاقیامت نہ دکھاسکو گے۔

۸… امام ابن تیمیہ کو مرزاقادیانی آپ ساتویں صدی کا مجدد تسلیم کر چکے ہیں اور مجدد کے فیصلہ سے انحراف کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ دیکھئے وہ فرماتے ہیں:
’’ لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفیٰ الروح والبدن جمیعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض ‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۰)
’’لفظ توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پوراپورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا اور اس کی پھر تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک نیند کی توفی ہے۔ دوسری موت کی توفی اور تیسری روح اور جسم دونوں کی توفی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام اس تیسری توفی کے ساتھ اہل زمین سے جدا ہوگئے۔‘‘
۹… توفی کے یہی معنی امام فخرالدین رازیؒ آپ کے مجدد صدی ششم اور
۱۰… امام جلال الدین سیوطیؒ آپ کے مجدد صدی نہم بھی تسلیم کر رہے ہیں۔
دیکھئے تفسیر کبیر اور تفسیر جلالین وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
 
Top