اعتراض نمبر۴۳:ثلاثون کذابون والی روایات پر اعتراضات کے جوابات
قادیانی:تیس دجال کی تعیین بتاتی ہے کہ بعد میں کچھ سچے بھی آئیں گے۔
جواب : تیس کی تعیین اس لئے ہے کہ کذاب ودجال صرف تیس ہی ہوں گے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ :’’ لاتقوم الساعۃ یخرج ثلاثون دجالون کلھم یزعم انہ رسول اﷲ ۰ ابوداؤد‘‘(قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہولیں) صاف دال ہے کہ قیامت تک تیس ہی ایسے ہونے والے ہیں ان سے زیادہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی ماتنے ہیں کہ یہ قیامت تک کی شرط ہے۔
’’ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخیر تک تیس کے قریب دجال پیدا ہوں گے۔‘‘(ازالہ اوہام ص ۹۸ خزائن ص ۱۹۷ ج ۳)
باقی رہا یہ کہ کچھ سچے بھی ہوں گے سو اس کے جواب میں وہی الفاظ کافی ہیں جوآنحضرت ﷺ نے ان دجالوں کی تردید میں ساتھ ہی اس حدیث میں فرمائے ہیں:’’ لانبی بعدی ‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
قادیانی: یہ دجال آج سے پہلے پورے ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ اکمال الاکمال میں لکھا ہے۔
جواب : حدیث میں قیامت تک شرط ہے۔ اکمال الااکمال والے کا ذاتی خیال ہے۔ جو سند نہیں۔ بعض دفعہ انسان ایک چھوٹے دجال کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خیال کے مطابق تعداد پوری سمجھ لی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت نے وضاحت کردی کہ ابھی اس تعداد میں کسر باقی ہے۔
مزید برآں حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اس سوال کو حل کرتے ہوئے فرمایا :
’’ ولیس المراد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقا فانھم لایحصون کثرۃ تکون غالبھم ینشالھم ذالک عن جنون وسوداء وانما المراد من قامت لہ الشوکۃ۰ فتح الباری ص ۲۵۵ ج ۶‘‘{اور ہر مدعی نبوت مطلقاً اس حدیث سے مراد نہیں۔ اس لئے کہ آپ ﷺ کے بعدمدعی نبوت تو بے شمار ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ بے بنیاد دعویٰ عموماً جنون یا سوداء سے پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ اس حدیث میں جن تیس دجالوں کا ذکر ہے وہ وہی ہیں جن کی شوکت قائم ہوجائے اور جن کا مذہب مانا جائے اور جن کے متبع زیادہ ہوجائیں۔}
مزیدار بات
اور ملاحظہ ہو ایک طرف تو بحوالہ اکمال الاکمال آج سے چار سو برس تیس دجال کی تعداد ختم لکھی ہے۔ مگرآگے چل کر بحوالہ حجج الکرامہ مصنفہ مولانا نواب صدیق حسن خان ؒ لکھا ہے کہ :
’’ آنحضرت نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی وہ پوری ہوکر ستائیس کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔‘‘(ص ۵۴۰)
گویا اکمال الااکمال والے کا خیال غلط تھا۔ اس کے ساڑھے تیس سو برس بعد تک بھی صرف ستائیس دجال وکذاب ہوئے ہیں۔بہت خوب ۔ حدیث میں تیس کی خبر ہے ۔ جس میں بقول نواب صاحب ؒ مسلمہ شما ۲۷ ہوچکے ہیں۔ اب ان میں ایک متنبی مرزا صاحب کو ملائیں تو بھی ابھی دو کی کسرباقی ہے۔
یہاں تک تومرزائی وکیل نے اس حدیث کو رسول اﷲ کی مانتے ہوئے جواب دئیے۔ مگر چونکہ اس کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ جواب دفع الوقتی اور بددیانتی کی کھینچ تان ہے جسے کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے آگے چل کر عجیب دجالانہ صفائی کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ آہ ! صحاح ستہ خاص کر صحاح سے بھی سب کی سردار کتاب بخاری ومسلم کی حدیث اور ضعیف ؟ اور پھر جرات یہ کہ حجج الکرامۃ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس حدیث تیس دجال والی کو ضعیف لکھا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حجج الکرامہ کی جو عبارت درج کی ہے اگرچہ ساری نہیں درج کی گئی تاہم اس سے ہی اصل حقیقت کھل رہی ہے۔ ملاحظہ ہو لکھا ہے :
’’ در حدیث ابن عمر سی کذاب در روایتی عبداﷲ بن عمر نزد طبرانی است برپانمیشود ساعت تاآنکہ بیرون آیند ہفتاد کذاب ونحوہ عندابی یعلی من حدیث انس حافظ ابن حجر گفۃ کہ سند ایں ہردو حدیث ضعیف است۰‘‘
ناظرین کرام ! حجج الکرامۃ کی عبارت میں تین روایتوں کا ذکر ہے۔ ابن عمر کی تیس دجال والی (یہ صحیح مسلم بخاری وترمذی وغیرہ کی ہے بادنیٰ تغیر) دوسری روایت عبداﷲ بن عمر کی جو طبرانی میں ہے۔ ۷۰ دجال والی ۔اور تیسری روایت انس والی جوابویعلی میں ہے ۔۷۰ دجال والی حافظ صاحب نے پچھلی دونوں روایتوں کو ضعیف کہا ہے۔ مگر مرزائی صحیح حدیث کو بھی اسی صف میں لاکر نہ صرف اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کررہا ہے بلکہ حافظ ابن حجر ؒ اور نواب صدیق حسن خان ؒ پر افتراء کرکے اپنی مرزائیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
اب آئیے ! میں آپ کے سامنے حافظ ابن حجر ؒ کی اصل کتاب جس کا حوالہ دیا گیا پیش کروں:’’ وفی روایۃ عبداﷲ بن عمر عندالطبرانی لاتقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا وسند ھا ضعیف وعندابی یعلی من حدیث انس نحوہ وسندہ ضعیف ایضا ۰ فتح الباری شرح صحیح بخاری مطبوعہ دہلی ص ۵۶۴ جزء ۲۹‘‘
عبداﷲ بن عمر ؓ کی روایت میں امام طبرانی ؒکے نزدیک یہ وارد ہے کہ ستر کذاب نکلیں گے۔ اور اس کی سند ضعیف ہے اور ابویعلی کے نزدیک حضرت انس ؓ کی حدیث سے بھی اسی طرح ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
حاصل یہ کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صرف ۷۰ دجال والی روایت کو جو دو طریق سے مروی ہے۔ ضعیف لکھا ہے۔ نہ کہ تیس دجال والی کو۔
نوٹ: اسی عبارت کو علامہ عینی حنفی نے اپنی شرح صحیح بخاری میں اسی طرح نقل کیا ہے اورمسئلے کو صاف کردیا ہے۔ کہ ستر کی تعداد والی ہر دو روایات جو طبرانی اور ابویعلی نے روایت کی ہیں۔ وہ دونوں ضعیف ہیں۔(عینی ص۳۹۸ ج ۱۱)
جواب : تیس کی تعیین اس لئے ہے کہ کذاب ودجال صرف تیس ہی ہوں گے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ :’’ لاتقوم الساعۃ یخرج ثلاثون دجالون کلھم یزعم انہ رسول اﷲ ۰ ابوداؤد‘‘(قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہولیں) صاف دال ہے کہ قیامت تک تیس ہی ایسے ہونے والے ہیں ان سے زیادہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی ماتنے ہیں کہ یہ قیامت تک کی شرط ہے۔
’’ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخیر تک تیس کے قریب دجال پیدا ہوں گے۔‘‘(ازالہ اوہام ص ۹۸ خزائن ص ۱۹۷ ج ۳)
باقی رہا یہ کہ کچھ سچے بھی ہوں گے سو اس کے جواب میں وہی الفاظ کافی ہیں جوآنحضرت ﷺ نے ان دجالوں کی تردید میں ساتھ ہی اس حدیث میں فرمائے ہیں:’’ لانبی بعدی ‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
قادیانی: یہ دجال آج سے پہلے پورے ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ اکمال الاکمال میں لکھا ہے۔
جواب : حدیث میں قیامت تک شرط ہے۔ اکمال الااکمال والے کا ذاتی خیال ہے۔ جو سند نہیں۔ بعض دفعہ انسان ایک چھوٹے دجال کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خیال کے مطابق تعداد پوری سمجھ لی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت نے وضاحت کردی کہ ابھی اس تعداد میں کسر باقی ہے۔
مزید برآں حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اس سوال کو حل کرتے ہوئے فرمایا :
’’ ولیس المراد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقا فانھم لایحصون کثرۃ تکون غالبھم ینشالھم ذالک عن جنون وسوداء وانما المراد من قامت لہ الشوکۃ۰ فتح الباری ص ۲۵۵ ج ۶‘‘{اور ہر مدعی نبوت مطلقاً اس حدیث سے مراد نہیں۔ اس لئے کہ آپ ﷺ کے بعدمدعی نبوت تو بے شمار ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ بے بنیاد دعویٰ عموماً جنون یا سوداء سے پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ اس حدیث میں جن تیس دجالوں کا ذکر ہے وہ وہی ہیں جن کی شوکت قائم ہوجائے اور جن کا مذہب مانا جائے اور جن کے متبع زیادہ ہوجائیں۔}
مزیدار بات
اور ملاحظہ ہو ایک طرف تو بحوالہ اکمال الاکمال آج سے چار سو برس تیس دجال کی تعداد ختم لکھی ہے۔ مگرآگے چل کر بحوالہ حجج الکرامہ مصنفہ مولانا نواب صدیق حسن خان ؒ لکھا ہے کہ :
’’ آنحضرت نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی وہ پوری ہوکر ستائیس کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔‘‘(ص ۵۴۰)
گویا اکمال الااکمال والے کا خیال غلط تھا۔ اس کے ساڑھے تیس سو برس بعد تک بھی صرف ستائیس دجال وکذاب ہوئے ہیں۔بہت خوب ۔ حدیث میں تیس کی خبر ہے ۔ جس میں بقول نواب صاحب ؒ مسلمہ شما ۲۷ ہوچکے ہیں۔ اب ان میں ایک متنبی مرزا صاحب کو ملائیں تو بھی ابھی دو کی کسرباقی ہے۔
یہاں تک تومرزائی وکیل نے اس حدیث کو رسول اﷲ کی مانتے ہوئے جواب دئیے۔ مگر چونکہ اس کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ جواب دفع الوقتی اور بددیانتی کی کھینچ تان ہے جسے کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے آگے چل کر عجیب دجالانہ صفائی کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ آہ ! صحاح ستہ خاص کر صحاح سے بھی سب کی سردار کتاب بخاری ومسلم کی حدیث اور ضعیف ؟ اور پھر جرات یہ کہ حجج الکرامۃ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس حدیث تیس دجال والی کو ضعیف لکھا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حجج الکرامہ کی جو عبارت درج کی ہے اگرچہ ساری نہیں درج کی گئی تاہم اس سے ہی اصل حقیقت کھل رہی ہے۔ ملاحظہ ہو لکھا ہے :
’’ در حدیث ابن عمر سی کذاب در روایتی عبداﷲ بن عمر نزد طبرانی است برپانمیشود ساعت تاآنکہ بیرون آیند ہفتاد کذاب ونحوہ عندابی یعلی من حدیث انس حافظ ابن حجر گفۃ کہ سند ایں ہردو حدیث ضعیف است۰‘‘
ناظرین کرام ! حجج الکرامۃ کی عبارت میں تین روایتوں کا ذکر ہے۔ ابن عمر کی تیس دجال والی (یہ صحیح مسلم بخاری وترمذی وغیرہ کی ہے بادنیٰ تغیر) دوسری روایت عبداﷲ بن عمر کی جو طبرانی میں ہے۔ ۷۰ دجال والی ۔اور تیسری روایت انس والی جوابویعلی میں ہے ۔۷۰ دجال والی حافظ صاحب نے پچھلی دونوں روایتوں کو ضعیف کہا ہے۔ مگر مرزائی صحیح حدیث کو بھی اسی صف میں لاکر نہ صرف اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کررہا ہے بلکہ حافظ ابن حجر ؒ اور نواب صدیق حسن خان ؒ پر افتراء کرکے اپنی مرزائیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
اب آئیے ! میں آپ کے سامنے حافظ ابن حجر ؒ کی اصل کتاب جس کا حوالہ دیا گیا پیش کروں:’’ وفی روایۃ عبداﷲ بن عمر عندالطبرانی لاتقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا وسند ھا ضعیف وعندابی یعلی من حدیث انس نحوہ وسندہ ضعیف ایضا ۰ فتح الباری شرح صحیح بخاری مطبوعہ دہلی ص ۵۶۴ جزء ۲۹‘‘
عبداﷲ بن عمر ؓ کی روایت میں امام طبرانی ؒکے نزدیک یہ وارد ہے کہ ستر کذاب نکلیں گے۔ اور اس کی سند ضعیف ہے اور ابویعلی کے نزدیک حضرت انس ؓ کی حدیث سے بھی اسی طرح ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
حاصل یہ کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صرف ۷۰ دجال والی روایت کو جو دو طریق سے مروی ہے۔ ضعیف لکھا ہے۔ نہ کہ تیس دجال والی کو۔
نوٹ: اسی عبارت کو علامہ عینی حنفی نے اپنی شرح صحیح بخاری میں اسی طرح نقل کیا ہے اورمسئلے کو صاف کردیا ہے۔ کہ ستر کی تعداد والی ہر دو روایات جو طبرانی اور ابویعلی نے روایت کی ہیں۔ وہ دونوں ضعیف ہیں۔(عینی ص۳۹۸ ج ۱۱)