اعتراض نمبر۴۴:حدیث‘ بنیاسرائیل میں سیاست انبیاء کرتے تھے پر اعتراضات کے جوابات
قادیانی: بنی اسرائیل میں نبی سیاست کرتے رہے مگر میرے بعد خلفاء ہوں گے کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں سیکون کا لفظ وارد ہے ۔ جس کے معنی ہیں عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے۔
جواب : معلوم نہیں کہ اس سے معترض کا مطلب کیا ہے؟۔ ہاں خلافت آپﷺ کے معاً بعد شروع ہونے کا ذکر ہے پھر لکھا ہے :
’’ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت میں خلافت اور نبوت جمع نہ ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ جو بادشاہ خلیفہ ہوگا وہ نبی نہ ہوگا اور جو نبی ہوگا وہ باد شاہ نہ ہوگا۔ کیا کہنے اس یہودیانہ تحریف کے؟۔
حدیث شریف کے الفاظ صاف ہیں کہ بنیاسرائیل کے بادشاہ نبی ہوتے تھے۔ جب ایک فوت ہوتا تو دوسرا اس کا قائم مقام بادشاہ ہوتا۔ اب اس تقریر سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد بھی بادشاہ نبی ہیں۔ لہذا آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کا جانشین بھی نبی ہونا چاہئیے۔
حضور ﷺ نے اس خیال کو یوں حل کیا کہ چونکہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہونا اس لئے میرے بعد میرے جانشین صرف خلفاء ہوں گے۔ جو عنقریب عنان خلافت سنبھالیں گے۔ پھر بکثرت ہوں گے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت بنداور انتظام ملکی کے لئے خلافت جاری ۔
اس خلافت کے مسئلہ کو دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ :
’’ تکون النبوۃ فیکم ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منھاج النبوۃ ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ ملکا عاضا فیکون ماشاء اﷲ ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منہاج النبوۃ۰ رواہ احمد والبیقی مشکوٰۃ کتاب الفتن۰‘‘
رہے گی میری نبوت تمہارے اندر جب تک خدا چاہے پھر ہوگی خلافت منہاج نبوت پر اس کے بعد بادشاہی ہوجائے گی۔ پھر خلافت منہاج نبوت پر ہوگی۔ یعنی امام مہدی کے زمانہ میں۔ یعنی جس طریق پر امور سیاسیہ کو آنحضرت ﷺ نے چلایا اسی طرح مطابق آپ ﷺ کی سنت کے آخری زمانہ میں امام مہدی چلائے گا۔
اور ایک روایت بیہقی میں ہے کہ اس کے بعد فساد پھیل جائے گا: ’’حتی یلقوا اﷲ ‘‘یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔(مشکوٰۃ کتاب الفتن)
حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس امت کے لئے سوائے درجہ ولایت وخلافت وغیرہ کے نبوت کا اجرا نہیں ہوگا۔
بطرز دیگر ’’ سین ‘‘ تحقیق وقوع کے لئے ہے ۔ جیسے :’’ سیطوقون مابخلوا بہ یوم القیامۃ۰ آل عمران۱۸۱ ‘‘ یعنی جس چیز کا وہ بخل کرتے تھے وہ قیامت کے دن ضرور بالضر ور ان کے گلوں میں طوق بناکر ڈالی جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ نبوت منقطع ہوچکی ہے اور اس انقطاع کے بعد ایک چیز یقینا باقی ہے اور وہ خلافت ہے۔
دیگر یہ کہ اسی حدیث میں آپ ﷺ کے بعد فوراً خلافت کامنہاج نبوت پر ہونا مذکور ہے۔ اور اس سے مراد باالخصوص حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ حضرت علی ؓکی خلافت ہے۔ ان زمانوں میں آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق عمل ہوتا رہا۔ اور یہ امر مسلم ہے کہ چاروں حضرات نبی نہ تھے۔ نہ ان میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔ پس یہ حدیث اجرائے نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔
جواب : معلوم نہیں کہ اس سے معترض کا مطلب کیا ہے؟۔ ہاں خلافت آپﷺ کے معاً بعد شروع ہونے کا ذکر ہے پھر لکھا ہے :
’’ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت میں خلافت اور نبوت جمع نہ ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ جو بادشاہ خلیفہ ہوگا وہ نبی نہ ہوگا اور جو نبی ہوگا وہ باد شاہ نہ ہوگا۔ کیا کہنے اس یہودیانہ تحریف کے؟۔
حدیث شریف کے الفاظ صاف ہیں کہ بنیاسرائیل کے بادشاہ نبی ہوتے تھے۔ جب ایک فوت ہوتا تو دوسرا اس کا قائم مقام بادشاہ ہوتا۔ اب اس تقریر سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد بھی بادشاہ نبی ہیں۔ لہذا آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کا جانشین بھی نبی ہونا چاہئیے۔
حضور ﷺ نے اس خیال کو یوں حل کیا کہ چونکہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہونا اس لئے میرے بعد میرے جانشین صرف خلفاء ہوں گے۔ جو عنقریب عنان خلافت سنبھالیں گے۔ پھر بکثرت ہوں گے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت بنداور انتظام ملکی کے لئے خلافت جاری ۔
اس خلافت کے مسئلہ کو دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ :
’’ تکون النبوۃ فیکم ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منھاج النبوۃ ماشاء اﷲ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ ملکا عاضا فیکون ماشاء اﷲ ۔۔۔۔۔۔ ثم تکون۰ خلافۃ علی منہاج النبوۃ۰ رواہ احمد والبیقی مشکوٰۃ کتاب الفتن۰‘‘
رہے گی میری نبوت تمہارے اندر جب تک خدا چاہے پھر ہوگی خلافت منہاج نبوت پر اس کے بعد بادشاہی ہوجائے گی۔ پھر خلافت منہاج نبوت پر ہوگی۔ یعنی امام مہدی کے زمانہ میں۔ یعنی جس طریق پر امور سیاسیہ کو آنحضرت ﷺ نے چلایا اسی طرح مطابق آپ ﷺ کی سنت کے آخری زمانہ میں امام مہدی چلائے گا۔
اور ایک روایت بیہقی میں ہے کہ اس کے بعد فساد پھیل جائے گا: ’’حتی یلقوا اﷲ ‘‘یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔(مشکوٰۃ کتاب الفتن)
حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس امت کے لئے سوائے درجہ ولایت وخلافت وغیرہ کے نبوت کا اجرا نہیں ہوگا۔
بطرز دیگر ’’ سین ‘‘ تحقیق وقوع کے لئے ہے ۔ جیسے :’’ سیطوقون مابخلوا بہ یوم القیامۃ۰ آل عمران۱۸۱ ‘‘ یعنی جس چیز کا وہ بخل کرتے تھے وہ قیامت کے دن ضرور بالضر ور ان کے گلوں میں طوق بناکر ڈالی جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ نبوت منقطع ہوچکی ہے اور اس انقطاع کے بعد ایک چیز یقینا باقی ہے اور وہ خلافت ہے۔
دیگر یہ کہ اسی حدیث میں آپ ﷺ کے بعد فوراً خلافت کامنہاج نبوت پر ہونا مذکور ہے۔ اور اس سے مراد باالخصوص حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ حضرت علی ؓکی خلافت ہے۔ ان زمانوں میں آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق عمل ہوتا رہا۔ اور یہ امر مسلم ہے کہ چاروں حضرات نبی نہ تھے۔ نہ ان میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔ پس یہ حدیث اجرائے نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔