• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اعتراض نمبر۴۹:عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ختم نبوت کے منافی؟

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اعتراض نمبر۴۹:عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ختم نبوت کے منافی؟
قادیانی: عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو اس سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائے گی ۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے منافی ہے۔ حضور ﷺ نے مسلم شریف کی روایت کے مطابق تین دفعہ فرمایا کہ عیسیٰ نبی اﷲ تشریف لائیں گے۔ تو حضو ر ﷺ کی ختم نبوت کے بعد نبی اﷲ کا تشریف لانا یہ ختم نبوت کے منافی ہے۔
جواب ۱: عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری اور مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میںزمین آسمان کا فرق ہے۔ اور ان دونوں باتوں کو باہمی خلط ملط کرنا انصاف کا خون کرنا ہے۔ خاتم النبیین کا تقاضا مفہوم ومعنی یہ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا۔ نبوت ورسالت کسی کو نہیں ملے گی۔ بخلاف عیسیٰ علیہ السلام کے‘ کہ وہ حضور ﷺ سے پہلے کے نبی اور رسول ہیں۔ ان کو آپ ﷺ سے پہلے نبوت اور رسالت مل چکی ہے۔ اس لئے ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے منافی نہیں۔ کشاف‘ تفسیرابی سعود ‘ روح المعانی ‘ مدارک شرح مواہب‘ لرزقانی میں ہے :’’ معنی کونہ آخر الانبیاء ای لاینباء احد بعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ۰‘‘یعنی آخر الانبیاء ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا۔ جبکہ عیسیٰ علیہ السلام ان نبیوں میں سے ہیں جن کو منصب نبوت آنحضرت ﷺ سے پہلے عطا کیا جاچکا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شخص نئے سرے سے منصب نبوت پر فائز نہیں ہوسکتا۔
اب مرزا قادیانی کے کیس پر غور کریں کہ اس نے چودھویںصدی میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا دعویٰ نبوت رحمت دو عالم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بعد ہے۔ لہذا یہ نہ صرف غلط بلکہ ختم نبوت کے منافی ہے۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت کرنا آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق کہ جو شخص میرے بعد دعویٰ نبوت کرے گا دجال کذاب ہوگا۔(ترمذی ‘ ابودائود ‘ مشکوٰۃ ‘ کتاب الفتن) یہ دعویٰ دجل وکذب پر مبنی ہے یہ ہر دو علیحدہ علیحدہ امر ہیں ان کو باہمی خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو نبی یا رسول متعین کرکے معبوث نہ کیا جائے گا۔ اور کوئی بھی فرد آکر حسب سابق یہ نہیں کہے گا کہ :’’ انی رسول من رب العالمین۰‘‘ یا خدااسے کہے :’’ انا ارسلنا۰‘‘چنانچہ جب مسیح آئیں گے تو آکر کوئی دعویٰ یا اعلان نہیں کریں گے۔ بلکہ جب آپ نازل ہوں گے تو آپ کو پہچان لیا جائے گا۔ نہ کوئی اعلان واظہار‘ نہ کوئی دعویٰ وبیان‘ نہ مباحثہ‘ نہ کوئی دلیل وحجت کچھ نہیں ہوگا۔ بخلاف قادیانی کے یہاں سب کچھ ہوا۔مرزا نے کہا مجھے وحی ہوئی مجھے اﷲ تعالیٰ نے کہا کہ :’’ انا ارسلنا احمد الی قومہ۰ تذکرہ ص۳۴۵‘‘ تو یہ سراسر دجل کذب اور ختم نبوت کے منافی ہے۔
جواب ۲: مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے آپ کو والدین کے لئے خاتم الاولاد کہا ہے۔( تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج ۱۵) مرزا نے جب اپنے آپ کو خاتم الاولاد کہا۔اس وقت مرزا قادیانی کا بڑا بھائی مرزا غلام قادر زندہ تھا۔ پہلے بھائی کا زندہ ہونا مرزا کے خاتم الاولاد کے خلاف نہیں ہے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا بھی رحمت دو عالم ﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔
جواب ۳: خاتم النبیین کا معنی یہ کہ انبیاء کا شمار اب بند ہوگیا ہے ۔ اور کوئی ایسا نبی نہ ہوگا۔ جس کے آنے سے انبیاء کی تعداد میں اضافہ ہو آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی انبیاء کا شمار زیادہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ آخری نمبر زمانہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺکا نمبر ٹھہرا۔ فرض کرو کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے ایک لاکھ ایک کم چوبیس ہزار انبیاء ہوچکے تھے ۔ تو آپ ﷺ کے آنے سے پورے ایک لاکھ چوبیس ہزار کی گنتی پوری ہوگئی۔ اب آپ ﷺ نے آکر انبیاء کے شمار وتعداد کو بند کردیا۔اگرچہ آنحضرت ﷺ کی نبوت سب سے اول تھی لیکن زمانہ کے لحاظ سے ظہور آپ ﷺ کا سب سے آخیر میں ہوا۔ اب کسی شخص کو آنحضرت ﷺ کے بعد انبیاء سابقین کے علاوہ اگر منصب نبوت پر فائز کیا جائے تو پھر اس کے آنے سے یقینا انبیاء کے شمار میں اضافہ ہوگا۔ مثلاًپھر ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک نبی ہوجائیں گے۔ اور پہلے انبیاء کی جو گنتی بند ہوچکی تھی وہ بند نہ ہوگی اور اس تعداد پر زیادتی ہوجائے گی اور یہ ختم نبوت کے منافی ہوگا۔
اب اس معنی کے بعد عرض کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اگر آنحضرت ﷺ کے بعد دوبارہ تشریف فرما ہوں تو اس سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کوئی کسی قسم کا خلل واقع نہ ہوگا۔ کیونکہ حضرت مسیح کا شمار تو پہلے ہوچکا ہے۔ اب وہ دوبارہ نہیں۔ اگر بالفرض سہ باربھی آجائیں یا چالیس سال نہیں بلکہ اس سے زیادہ سال بھی ان پر وحی ہوتی رہے بلکہ اس سے بڑھ کر بالفرض اگر تمام انبیاء کرام سابقین بھی دوبارہ آجائیں تو ا س سے ختم نبوت اور خاتم النبیین کے مفہوم میں کسی قسم کی خرابی نہ ہوگی۔ کیونکہ ان سب انبیاء کرام کا شمار پہلے ہوچکا ہے۔اب ان کے دوبارہ آنے سے سابقہ تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہوگا اور آخری نبی اور خاتم النبیین بھی آنحضرت ﷺ ہی رہیں گے۔ کیونکہ ظہور کے لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے آخری نمبر پر آنحضرت ﷺ کوہی نبوت عطا ہوئی ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت عطا نہ ہوگی اسی مفہوم کو ہمارے اہل اسلام علماء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ تفسیر روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲ پر ہے:
’’انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحیتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھا فی ھذہ النشاۃٔ۰‘‘{یعنی اس عالم ظہور میں آنحضرت ﷺ کے منصب نبوت سے ممتاز ہوچکنے کے بعد کسی کو وصف نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔}
تفسیر خازن ص ۲۱۸ ج ۵ :’’ خاتم النبیین ختم بہ النبوۃ بعدہ۰‘‘یعنی آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی کو نبوت حاصل ہو‘ یہ نہ ہوگا۔ بلکہ نبوت ختم ہوچکی ہے نہ یہ کہ پہلے انبیاء کی نبوت بھی سلب ہوگئی ہے۔
تفسیر مدارک ص ۲۱۱ :’’ خاتم النبیین آخرھم یعنی لا ینئبا احد بعدہ۰‘‘ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعداب کسی کو نئی نبوت نہ حاصل ہوگی کیونکہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی آ پ ﷺ کا نمبر زمانہ اور ظہور کے لحاظ سے سب سے آخری نمبر ہے۔
پس حاصل جواب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے انبیاء کرام کے شمار میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جو تعداد انبیاء کرام کی پہلے تھی وہی باقی رہے گی۔
لیکن مرزا قادیانی یا مسیلمہ کذاب یا ان جیسے مدعیان نبوت کی نبوت کو صحیح تسلیم کرنے سے خاتم النبیین اور ختم نبوت کا مفہوم بالکل بگڑجائے گا اور جو شمار انبیاء کرام کا پہلے ہوچکا ہے اس پر یقینا اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ مرزا اور اس کے یاران طریقیت تمام مدعیان کا پہلے اعداد میں شمار نہیں ہوا۔ لہذا وہ پہلے نمبروںپر زائد ہوں گے۔ مثلاً فرض کرو کہ اگر ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء کا شمار تھا تو اب اس عدد پر ایک یا دو یا تیس چالیس کا اضافہ ہوجائے گا اور آخری نمبر پر پھر مرزا قادیانی کاہوگا وہی خاتم النبیین ٹھہرے گا۔(نعوذ باﷲ) اس اجمالی عرض داشت سے مرزا کے آنے سے ختم نبوت کے مفہوم کا بگڑجانا اور حضرت مسیح کے دوبارہ آنے سے مفہوم خاتم النبیین میں کوئی فرق نہ پڑنا بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے۔ فالحمدﷲ علی ذالک ۰
ضمنی بات
ہاں ایک چیز رہ جاتی ہے کہ شاید مرزائی کہہ دے کہ مرزا قادیانی کیونکہ ایک بروزی نبی ہے اور وہ غیر مستقل ہے اس لئے اس کے آنے سے شمار وتعداد میں اضافہ نہیں ہوگا تو یہ باطل ہے۔ کیونکہ انبیاء کی تعداد میں تشریعی اور غیر تشریعی سب شامل ہیں۔ چنانچہ باقرار مرزا قادیانی حضرت یوشع علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام بروزی یا غیر تشریعی نبی اور دوسرے نبی کے متبع تھے۔ تو ان کے آنے سے کیا اضافہ نہیں ہوا؟۔ اور ان کے آنے کو انبیاء کا آنا نہیں سمجھا گیا۔ یقینا ان کو تعداد میں شمار کیا گیا اور ان کو بھی انبیاء کی گنتی میں داخل کیا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء کا یوں ذکر فرمایا :’’وقفینا من بعدہ باالرسل۰‘‘تو ان کو بھی انبیاء ورسل کی صف میں شمار کیا گیا تھا۔ اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو بااقرار خودبروزی انبیاء کی آمد کو انبیاء کی آمد نہ سمجھو اور آیت :’’ وقفینا من بعدہ باالرسل۰‘‘ کا انکار کردو یا پھر تسلیم کرو کہ مرزا قادیانی کے آنے سے انبیاء کی تعداد میں اضافہ ہوگا ‘ ایک نمبر اور بڑھ جائے گا۔ تو آخری نبی آنحضرت ﷺ نہ رہے ۔ نعوذباﷲ
 
Top