بسم اللہ الرحمن الرحیم
زمانہ حال میں اردو دان حضرات عربی کے کئی الفاظ کو اپنے یہاں ان معنوں میں استعمال کرتے ہیں جن معنوں میں عرب استعمال نہیں کرتے تھے۔جیسے "جہاد" وسیلہ"اردو دان طبقہ ان کے اور معنیٰ لیتا ہے اور عرب وہ معنیٰ نہیں کرتے ،اسی طرح "توفی" عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کو اردو میں "وفات" اور"موت" کے معنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔چناچہ کسی کے مرے ہوئے کی تاریخ بتانی ہو تو کہتے ہیں کہ فلاں متوفی سنہ فلاں ۔یعنی وہ فلاں سن میں فوت ہوا ہے ۔پھر ایک غلطی یہ بھی کرتے ہیں کہ اخیر حرف "ی" کو دیکھ کر اس سے ماقبل "ف" کو مکسور اور "ی" کو ساکن پڑھتے ہیں ۔جس سے وہ "مُتَوَفِی" بن جاتا ہے۔جبکہ اس کے معنی ہیں :"وفات دینے والا"۔ حالانکہ دفات دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے : انہ ھو امات و احییٰ:یعنی اس میں کوئی شک نہیں وہ اللہ ہی ہے جو مارتا بھی ہے اور جِلاتا ہے۔
اور وفات پانے والے کو "مُتَوَفیٰ" لکھتے ہیں ۔یعنی عربی قائدہ کے مطابق "ف" کی فتح کے ساتھ "الف" کو "ی" کی شکل دیتے ہیں ۔جیسا کہ یحییٰ، موسیٰ،عیسیٰ،مصطفیٰ،مجتبیٰ،مرتضیٰ، وغیرہ کے آخر میں الف ہے،جو" ی" کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔مگر عربی زبان میں "توفی" کے معنی ہیں "کسی چیزکو پورا پورا لے لینا" جیسا کہ آنے والی تحقیق سے معلوم ہوگا ۔ان شاء اللہ۔البتہ توفی کے معنی "موت" اور " "نیند " کے بھی آتے ہیں ۔ مگر وہ حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی ہیں ۔اسی بات کی وضاحت کے لئے یہ "مقالہ " پیشِ خدمت ہے۔اس کو بنظرِ انابت بغور پڑھیں ۔قادیانیوں کی طرف سے پیش کردہ لا یعنی شبہات اور توہمات دل سے نکل جائیں گے۔لیکن ضد کا کوئی علاج نہیں؟
جاری ہے