مرزا غلام قادیانی کی عادت تھی کہ وہ بے دھڑک قرآن وحدیث پر جھوٹ بولا کرتا تھا ، جھوٹی باتیں اپنی طرف سے بنا کر انہیں " احادیث صحیحہ " کا نام دیا کرتا تھا ، اسی طرح وہ اپنے سے پہلے گزرے بزرگان امت پر بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا تھا ( نمونہ کے طور ہر یہاں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ " خزائن جلد 13 صفحہ 221 پر مرزا نے لکھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ جو اپنے وقت کے امام ہیں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی وفات کے قائل ہیں ، جوکہ صریح جھوٹ ہے ان دونوں حضرات نے اپنی کتابوں میں تصریح کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان میں زندہ ہیں اور وہی نازل ہوں گے ) ، اسی طرح کا ایک اور جھوٹ مرزا نے حضرت مجدد الف ثانی پر بھی بولا ہے اور اس جھوٹ کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب مرزا غلام قادیانی نے خود نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور وہ لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروزاہ بند ہے ، اب کوئی نبی نہیں آئے گا م میں مدعی نبوت کو کافر سمجھتا ہوں ، میرے وہی عقائد ہیں جو اہل سنت کے ہیں ، اس امت میں انبیاء کے قائم مقام محدث ( دال پر شد اور زبر کے ساتھ ) رکھے گئے ہیں تو اس وقت وہ حضرت مجدد الف ثانی کی ایک عبارت پیش کیا کرتا تھا جو کہ عربی میں ہے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات دفتر دوم کے مکتوب نمبر 51 کے شروع میں ہے ، عبارت یوں ہے :
اعلم ایھا الاخ الصدیق ان کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاھاََ وذلک لافراد من الا نبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات وقد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم بالتبعۃ والوراثۃ ایضاََ واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثاََ کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ۔۔"
چناچہ مرزا غلام قادیانی نے یہ عربی عبارت نقل کی اور پھر اس کا ترجمعہ بھی یوں کیا :
اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جل شانہ کا بشر کے ساتھ کلام کرنا کبھی روبرو اور ہم کلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خداتعالیٰ سے ہم کلام ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں اور کبھی یہ ہم کلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے جو نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف کلامی پاتا ہے " اس کو محدث بولتے ہیں "۔۔ ( خزائن جلد 3 صفحہ 601 )
مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی عبارت کے اگلے الفاظ بھی نقل کیے ہیں لیکن اس میں سے " کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ " کے الفاظ نہ جانے کیوں حذف کر دیے شاید اس لئے کہ کوئی یہ سوال نہ کر دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اگر کثرت مکالمہ کت شرف سے مشرف تھے تو پھر وہ نبی کیوں نہ ہوئے ، بہرحال مرزا نے یہاں صاف طور پر یہ ترجمعہ کیا کہ " جو شخص کثرت سے شرف ہم کلامی پاتا ہے اس کو محدث بولتے ہیں " اسی طرح حضڑت مجدد صاحب کی یہی تحریر مرزا نے اپنی دوسری کتاب ( خزائن جلد 7 صفحہ 28 ) پر بھی نقل کی ہے اور یہی الفاظ نقل کیے ہیں ک ہ " واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثاََ" جو شخص کثرت سے شرف ہم کلامی پاتا ہے اس کو محدث بولتے ہیں ، لیکن جب مرزا قادیانی نے خود نبوت کا دعویٰ کیا تو اس نے حضرت مجدد الف ثانی کی اسی تحریر میں تحریف کر دی اور یوں لکھا :
بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہء الہی سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت سے اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امورغیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے ۔۔" ( حقیقہ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
آپ نے دیکھا کہ یہاں حضرت مجدد الف ثانی کی اسی تحریر میں ایک تو ( امورغیبیہ اس پر ظاہر کیے جائیں گے ) کے الفاظ اپنی طرف سے ڈالے اور پھر " وہ محدث کہلاتا ہے " کی جگہ " وہ نبی کہلاتا ہے " لکھ دیا جو کہ حضرت مجدد صاحب کی عبارت میں سراسر تحریف ہے ۔
ایک مرزائی دھوکہ
ایک بار جب ہم نے ایک قادیانی مربی کے سامنے مرز ا کا یہ کارنامہ پیش کیا تو اس نے مرزائی عادت کے مطابق یہ عذر پیش کیا کہ حقیقہ الوحی میں مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی جس تحریر کا حوالہ دیا ہے وہ مجدد صاحب کی وہ عربی تحریرنہیں جس کا حوالہ ہمارے مرزا جی نے ازالہ اوہام میں دیا ہے ، بلکہ یہ حضرت مجدد صاحب کی ایک فارسی تحریر کا ترجمعہ ہے جو کہ آپ کے مکتوبات دفتر اول ، مکتوب نمبر 310 میں ہے ، مولوی خوامخواہ دھوکہ دیتے ہیں اور حقیقہ الوحی والے حوالے اور ازالہ اوہام والے حوالے کو حضرت مجدد صاحب کی ایک ہی تحریر بتا کر بلاوجہ مرزا پر اعتراض کرتے ہیں ۔
جواب
اپنے پیشوا مرزا قادیانی کی طرح اس کے پیروکار بھی دجل وفریب میں کسی سے کم نہیں ، آئیے پہلے حضرت مجدد صاحب کی وہ فارسی تحریر پڑھتے ہیں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ حقیقہ الوحی میں مرزا نے اس کا حوالہ دیا ہے پھر مرزا کے حقیقہ الوحی میں لکھے الفاظ کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس فارسی تحریر میں وہ الفاظ موجود ہیں جو مرزا نے لکھے ہیں ؟ مکتوبات ، دفتر اول ، مکتوب نمبر 310 میں متشابہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں :
قال اللہ تعالیٰ ومایعلم تاویلہ الا اللہ یعنی آں متشابہ را ہیچکس نمی داند مگر خدائے عزوجل پش معلوم شد کہ متشابہ نزد خدائے جل وعلا نیز محمول بر تاویل است واز ظاہر مصروف وعلماء راسخین را نیز علم ایں تاویل نصیے عطا میفر ماید چناچہ بر علم غیب کہ مخصوص باوست سبحانہ خلص رسل را اطلاع می بخشد ۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ " وما یعلم تاویلہ الا اللہ " اس کی تاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، یعنی اس متشابہ کی تاویل ( اصل مراد ) کو اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ، لہذا معلوم ہوا کہ اللہ جل وعلا کے نزدیک متشابہ بھی تاویل پر محمول اور ظاہر سے مصروف ہے ( یعنی ظاہری معنی پر محمول نہیں ) اور علماء راسخین کو بھی اس تاویل کے علم سے ایک حصہ عطا فرمایا ہے ، چناچہ علم غیب جو اس سبحانہ کے لئے مخصوص ہے اپنے خاص رسولوں کو اس سے اطلاع بخشتا ہے ۔
اب حضرت مجدد صاحب کی اس عبارت کے سامنے مرزا قادیانی کی یہ تحریر رکھیں اور بتائیں کہ کیا مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی اس عبارت کا ترجمعہ کیا ہے ؟ مرزا نے لکھا تھا :
بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہء الہی سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت سے اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امورغیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے ۔۔" ( حقیقہ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
کیا یہ الفاظ حضرت مجدد صاحب کے دفتر اول کے مکتوب نمبر 310 میں ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مرزا قادیانی نے حضرت مجدد صاحب کے اسی عربی مکتوب کی طرف اشارہ کیا ہے جو وہ ازالہ اوہام وغیرہ میں نقل کر چکا تھا اور اس نے حضرت مجدد صاحب کی تحریر میں لفظ " محدث " کو لفظ " نبی " کے ساتھ بدل کر بدترین تحریف کا ثبوت دیا ہے ( اور جو شخص قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں تحریف کرنے سے نہ شرماتا ہو اس کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔
اسی طرح مرزائی جماعت کی طرف سے حضرت مجدد صاحب کے ایک اور مکتوب کے کچھ الفاظ کاٹ کریہ دھوکہ دیا جاتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مجدد صاحب آنحضرت ﷺ کے بعد ایک قسم کی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں ، چناچہ حضرت مجدد صاحب کی جس عبارت سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ یہ ہے :
پس حصول کمالات نبوت مر تابعان را بطریق تبعیت ووراثت بعداز بعثت خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ وعلی جمیع الانبیاء والرسل الصلوات والتحیات منافی خاتمیت او نیست " پس آنحضرت ﷺ خاتم الرسل کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کو تبعیت ووراثت کے طریق پر کمالات نبوت کا حاصل ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے ۔ ( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی فارسی ، دفتر اول ، مکتوب نمبر 301 )
معلوم نہیں حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ سے امتی نبوت یا غیر مستقل نبوت کے اجراء کو کس طرح ثابت کیا جاتا ہے ؟ حضرت مجدد صاحب تو یہ فرما رہے ہیں کہ خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد دین کے صحیح تابعداروں لوگوں کو اس اتباع کی بدولت نبوت کے کمالات وفضائل حاصل ہوں تو یہ حضورﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ( اس لئے کہ یہ فضائل وکمالات اجزائے نبوت ہیں اور کسی چیز کے بعض اجزاء کے حاصل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پوری کی پوری چیز حاصل ہوگئی، جیسے مثال کے طور پر حدیث شریف میں رؤیا صالحہ یا اچھے خواب کو اجزاء نبوت میں شمار کیا گیا ہے تو کون جاہل ہے جو یہ کہتا ہے کہ جسے رؤیا صالحہ نصیب ہوں اسے نبوت مل گئی ؟ ) ۔ لہٰذا حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ سے ہر گز کسی قسم کی نبوت کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ نیز اسی مکتوب کے شروع میں حضرت مجدد صاحب نے یہ بھی لکھا ہے :
نبوت عبارت ازقرب الہی است وشائبہء ظلیت ندارد۔۔ ایں قرب بالاصالۃ نصیب انبیاء است علیھم الصلوات والتسلیمات وایں منصب مخصوص بایں بزر گواران است علیہم الصلوات اولبرکات وخاتم ایں منصب سید البشر است علیہ وعلی آلہ االصلاۃ والسلام " نبوت سے مراد قرب الہی ہے جس میں ظلیت کا کچھ بھی شائبہ نہیں ۔۔ ( آگے لکھا ) ۔۔ یہ قرب صرف اانبیاء علیہم السلام کے نصیب میں ہے اور یہ منصب انہی بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے نیز یہ منصب سید البشر ﷺ ہر ختم ہوچکا ہے ۔ ( مکتوبات امام ربانی ۔ دفتر اول ، مکتوب 301 )
حضرت مجدد صاحب کے اس مکتوب کے پہلے جملے نے ہی مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کی دھجیاں بکھیر دیں کیونکہ مرزا قادیانی خود کو ظلی نبی کہتا ہے جبکہ مجدد صاحب کے نزدیک نبوت میں ظلیت کا کچھ شائبہ ہی نہیں ہے ، نیز حضرت مجدد صاحب نے فرمادیا کہ منصب نبوت کا اختتام سید البشر ﷺ پر ہوچکا ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے کی وضاحت
پھر حضرت مجدد صاحب کے اس جملے " حصول کمالات نبوت " سے مراد نبوت نہیں یہ وضاحت خود حضرت مجدد صاحب کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ نے فرما دی ہے ، آپ نے تحریر فرمایا :
ازحصول کمالات نبوت مربعضے افراد امت رابطریق تبعیت ووارثت لازم نمی آید کہ آن بعضے نبی باشد یا مساوات با نبی پیدا کند چہ حصول کمالات نبوت دیگر است وحضول منصب نبوت دیگر چنانچہ تحقیق ایں معنی بتفصیل درمکتوبات قدسی حضرت ایشاں مسطور است والسلام علی من اتبع الھدی " امت کے بعض افراد کو تبعیت ووراثت کے طور پر کمالات نبوت حاصل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خاص فرد نبی ہو جائے یا نبی کے برابر ہو جائے کیونکہ کمالات نبوت حاصل ہونا اور بات ہے اور منصب نبوت کا حاصل ہونا اور بات ہے ، اس معنی کی تحقیق حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات میں تفصیل کے ساتھ لکھی ہے ۔ ( مکتوبات معصومیہ ، دفتر اول فارسی ، مکتوب نمبر 192 صفحہ 369 )
لیجیئے حضرت مجدد صاحب کے صاحبزادے نے تو بات بلکل واضح کردی اور مرزائی تلبیس کو زائل کر دیا
اب ہم حضرت مجدد صاحب کی چند صریح عبارات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے عقیدے کے بارے میں ہر قسم کے شکوک وشبہات کا خاتمہ ہوجائے ۔
سب سے پہلے نبی آدم علیہ اسلام اور سب سے آخری محمدﷺ
اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :
اول انبیاء آدم است علی نبیناوعلیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات والتحیات وآخر ایشان وخاتم نبوت شان حضرت محمد رسول اللہ است علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات بجمیع انبیاء ایمان باید دانست عدم ایمان بیکے ازیں بزرگواران مسلتزم عدم ایمان است بجمیع ایشان علیہم الصلوات والتسلیمات چہ کلمہء ایشاں متفق است واصول دین شاں واحدو حضرت عیسیٰ علیہ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کہ از آسمان نزول خواہد فرمود متابعت شریعت خاتم الرسل خواہد نمود علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ۔۔۔ انبیاء میں سے سب سے پہلے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ہیں اور ان میں سب سے آخری اور خاتم نبوت حضرت محمد رسول اللہ علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ہیں ، لہٰذا تمام انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات پر ایمان لانا چاہیے اور سب کو معصوم اور سچا سمجھنا چاہیے ان میں سے کسی ایک پر ایمان نہ لانا تمام انبیاء پر ایمان نہ لانے کو مستلزم ہے کیونکہ ان سب کا کلمہ متفق ہے اور دین کے اصول بھی ایک ہیں اور حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام جب آسمان سے نزول فرمائیں گے تو وہ خاتم الرسل علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کی شریعت کی پیروی کریں گے ۔ ( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ، دفتر سوم ، مکتوب نمبر17 )
مجدد صاحب کی یہ تحریر ختم نبوت اور نزول عیسیٰ علیہ اسلام پرا تنی واضح ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک یا تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔
منصب نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم
اپنے ایک اور مکتوب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
ودرشان حضرت فاروق رضی اللہ عنہ فرمودہ است علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام لوکان بعدی نبیاََ لکان عمر یعنی لوازم وکمالاتے کہ در نبوت درکار است ہمہ را عمر دارد ، اماچوں منصب نبوت بخاتم الرسل ختم شدہ است علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام بدولت منصب نبوت مشرف نہ گشت " اور حضرت (عمر ) فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں ( آنحضرت ﷺ ) نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ، یعنی جو لوازم وکمالات نبوت درکار ہیں وہ سب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر ہیں لیکن چونکہ نبوت کا منصب خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام پر ختم ہوچکا ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منصب نبوت کی دولت سے مشرف نہ ہوئے ۔( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ، دفتر سوم ، مکتوب نمبر 24 )
حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ کا مفہوم بھی واضح ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت جاری ہوتی تو سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی ہوتے لیکن چونکہ منصب نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا تھا اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ منصب نبوت نہیں مل سکا ۔ اب ان واضح تحریرات کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی یہ کہے کہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اجراء نبوت کے قائل تھے تو اس کی عقل پر صرف رویا ہی جاسکتا ہے ۔
اعلم ایھا الاخ الصدیق ان کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاھاََ وذلک لافراد من الا نبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات وقد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم بالتبعۃ والوراثۃ ایضاََ واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثاََ کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ۔۔"
چناچہ مرزا غلام قادیانی نے یہ عربی عبارت نقل کی اور پھر اس کا ترجمعہ بھی یوں کیا :
اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جل شانہ کا بشر کے ساتھ کلام کرنا کبھی روبرو اور ہم کلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خداتعالیٰ سے ہم کلام ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں اور کبھی یہ ہم کلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے جو نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف کلامی پاتا ہے " اس کو محدث بولتے ہیں "۔۔ ( خزائن جلد 3 صفحہ 601 )
مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی عبارت کے اگلے الفاظ بھی نقل کیے ہیں لیکن اس میں سے " کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ " کے الفاظ نہ جانے کیوں حذف کر دیے شاید اس لئے کہ کوئی یہ سوال نہ کر دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اگر کثرت مکالمہ کت شرف سے مشرف تھے تو پھر وہ نبی کیوں نہ ہوئے ، بہرحال مرزا نے یہاں صاف طور پر یہ ترجمعہ کیا کہ " جو شخص کثرت سے شرف ہم کلامی پاتا ہے اس کو محدث بولتے ہیں " اسی طرح حضڑت مجدد صاحب کی یہی تحریر مرزا نے اپنی دوسری کتاب ( خزائن جلد 7 صفحہ 28 ) پر بھی نقل کی ہے اور یہی الفاظ نقل کیے ہیں ک ہ " واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثاََ" جو شخص کثرت سے شرف ہم کلامی پاتا ہے اس کو محدث بولتے ہیں ، لیکن جب مرزا قادیانی نے خود نبوت کا دعویٰ کیا تو اس نے حضرت مجدد الف ثانی کی اسی تحریر میں تحریف کر دی اور یوں لکھا :
بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہء الہی سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت سے اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امورغیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے ۔۔" ( حقیقہ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
آپ نے دیکھا کہ یہاں حضرت مجدد الف ثانی کی اسی تحریر میں ایک تو ( امورغیبیہ اس پر ظاہر کیے جائیں گے ) کے الفاظ اپنی طرف سے ڈالے اور پھر " وہ محدث کہلاتا ہے " کی جگہ " وہ نبی کہلاتا ہے " لکھ دیا جو کہ حضرت مجدد صاحب کی عبارت میں سراسر تحریف ہے ۔
ایک مرزائی دھوکہ
ایک بار جب ہم نے ایک قادیانی مربی کے سامنے مرز ا کا یہ کارنامہ پیش کیا تو اس نے مرزائی عادت کے مطابق یہ عذر پیش کیا کہ حقیقہ الوحی میں مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی جس تحریر کا حوالہ دیا ہے وہ مجدد صاحب کی وہ عربی تحریرنہیں جس کا حوالہ ہمارے مرزا جی نے ازالہ اوہام میں دیا ہے ، بلکہ یہ حضرت مجدد صاحب کی ایک فارسی تحریر کا ترجمعہ ہے جو کہ آپ کے مکتوبات دفتر اول ، مکتوب نمبر 310 میں ہے ، مولوی خوامخواہ دھوکہ دیتے ہیں اور حقیقہ الوحی والے حوالے اور ازالہ اوہام والے حوالے کو حضرت مجدد صاحب کی ایک ہی تحریر بتا کر بلاوجہ مرزا پر اعتراض کرتے ہیں ۔
جواب
اپنے پیشوا مرزا قادیانی کی طرح اس کے پیروکار بھی دجل وفریب میں کسی سے کم نہیں ، آئیے پہلے حضرت مجدد صاحب کی وہ فارسی تحریر پڑھتے ہیں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ حقیقہ الوحی میں مرزا نے اس کا حوالہ دیا ہے پھر مرزا کے حقیقہ الوحی میں لکھے الفاظ کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا اس فارسی تحریر میں وہ الفاظ موجود ہیں جو مرزا نے لکھے ہیں ؟ مکتوبات ، دفتر اول ، مکتوب نمبر 310 میں متشابہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں :
قال اللہ تعالیٰ ومایعلم تاویلہ الا اللہ یعنی آں متشابہ را ہیچکس نمی داند مگر خدائے عزوجل پش معلوم شد کہ متشابہ نزد خدائے جل وعلا نیز محمول بر تاویل است واز ظاہر مصروف وعلماء راسخین را نیز علم ایں تاویل نصیے عطا میفر ماید چناچہ بر علم غیب کہ مخصوص باوست سبحانہ خلص رسل را اطلاع می بخشد ۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ " وما یعلم تاویلہ الا اللہ " اس کی تاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، یعنی اس متشابہ کی تاویل ( اصل مراد ) کو اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ، لہذا معلوم ہوا کہ اللہ جل وعلا کے نزدیک متشابہ بھی تاویل پر محمول اور ظاہر سے مصروف ہے ( یعنی ظاہری معنی پر محمول نہیں ) اور علماء راسخین کو بھی اس تاویل کے علم سے ایک حصہ عطا فرمایا ہے ، چناچہ علم غیب جو اس سبحانہ کے لئے مخصوص ہے اپنے خاص رسولوں کو اس سے اطلاع بخشتا ہے ۔
اب حضرت مجدد صاحب کی اس عبارت کے سامنے مرزا قادیانی کی یہ تحریر رکھیں اور بتائیں کہ کیا مرزا نے حضرت مجدد صاحب کی اس عبارت کا ترجمعہ کیا ہے ؟ مرزا نے لکھا تھا :
بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہء الہی سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت سے اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امورغیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے ۔۔" ( حقیقہ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
کیا یہ الفاظ حضرت مجدد صاحب کے دفتر اول کے مکتوب نمبر 310 میں ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مرزا قادیانی نے حضرت مجدد صاحب کے اسی عربی مکتوب کی طرف اشارہ کیا ہے جو وہ ازالہ اوہام وغیرہ میں نقل کر چکا تھا اور اس نے حضرت مجدد صاحب کی تحریر میں لفظ " محدث " کو لفظ " نبی " کے ساتھ بدل کر بدترین تحریف کا ثبوت دیا ہے ( اور جو شخص قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں تحریف کرنے سے نہ شرماتا ہو اس کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔
اسی طرح مرزائی جماعت کی طرف سے حضرت مجدد صاحب کے ایک اور مکتوب کے کچھ الفاظ کاٹ کریہ دھوکہ دیا جاتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مجدد صاحب آنحضرت ﷺ کے بعد ایک قسم کی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں ، چناچہ حضرت مجدد صاحب کی جس عبارت سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ یہ ہے :
پس حصول کمالات نبوت مر تابعان را بطریق تبعیت ووراثت بعداز بعثت خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ وعلی جمیع الانبیاء والرسل الصلوات والتحیات منافی خاتمیت او نیست " پس آنحضرت ﷺ خاتم الرسل کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کو تبعیت ووراثت کے طریق پر کمالات نبوت کا حاصل ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے ۔ ( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی فارسی ، دفتر اول ، مکتوب نمبر 301 )
معلوم نہیں حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ سے امتی نبوت یا غیر مستقل نبوت کے اجراء کو کس طرح ثابت کیا جاتا ہے ؟ حضرت مجدد صاحب تو یہ فرما رہے ہیں کہ خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد دین کے صحیح تابعداروں لوگوں کو اس اتباع کی بدولت نبوت کے کمالات وفضائل حاصل ہوں تو یہ حضورﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ( اس لئے کہ یہ فضائل وکمالات اجزائے نبوت ہیں اور کسی چیز کے بعض اجزاء کے حاصل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پوری کی پوری چیز حاصل ہوگئی، جیسے مثال کے طور پر حدیث شریف میں رؤیا صالحہ یا اچھے خواب کو اجزاء نبوت میں شمار کیا گیا ہے تو کون جاہل ہے جو یہ کہتا ہے کہ جسے رؤیا صالحہ نصیب ہوں اسے نبوت مل گئی ؟ ) ۔ لہٰذا حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ سے ہر گز کسی قسم کی نبوت کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ نیز اسی مکتوب کے شروع میں حضرت مجدد صاحب نے یہ بھی لکھا ہے :
نبوت عبارت ازقرب الہی است وشائبہء ظلیت ندارد۔۔ ایں قرب بالاصالۃ نصیب انبیاء است علیھم الصلوات والتسلیمات وایں منصب مخصوص بایں بزر گواران است علیہم الصلوات اولبرکات وخاتم ایں منصب سید البشر است علیہ وعلی آلہ االصلاۃ والسلام " نبوت سے مراد قرب الہی ہے جس میں ظلیت کا کچھ بھی شائبہ نہیں ۔۔ ( آگے لکھا ) ۔۔ یہ قرب صرف اانبیاء علیہم السلام کے نصیب میں ہے اور یہ منصب انہی بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے نیز یہ منصب سید البشر ﷺ ہر ختم ہوچکا ہے ۔ ( مکتوبات امام ربانی ۔ دفتر اول ، مکتوب 301 )
حضرت مجدد صاحب کے اس مکتوب کے پہلے جملے نے ہی مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کی دھجیاں بکھیر دیں کیونکہ مرزا قادیانی خود کو ظلی نبی کہتا ہے جبکہ مجدد صاحب کے نزدیک نبوت میں ظلیت کا کچھ شائبہ ہی نہیں ہے ، نیز حضرت مجدد صاحب نے فرمادیا کہ منصب نبوت کا اختتام سید البشر ﷺ پر ہوچکا ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے کی وضاحت
پھر حضرت مجدد صاحب کے اس جملے " حصول کمالات نبوت " سے مراد نبوت نہیں یہ وضاحت خود حضرت مجدد صاحب کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ نے فرما دی ہے ، آپ نے تحریر فرمایا :
ازحصول کمالات نبوت مربعضے افراد امت رابطریق تبعیت ووارثت لازم نمی آید کہ آن بعضے نبی باشد یا مساوات با نبی پیدا کند چہ حصول کمالات نبوت دیگر است وحضول منصب نبوت دیگر چنانچہ تحقیق ایں معنی بتفصیل درمکتوبات قدسی حضرت ایشاں مسطور است والسلام علی من اتبع الھدی " امت کے بعض افراد کو تبعیت ووراثت کے طور پر کمالات نبوت حاصل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خاص فرد نبی ہو جائے یا نبی کے برابر ہو جائے کیونکہ کمالات نبوت حاصل ہونا اور بات ہے اور منصب نبوت کا حاصل ہونا اور بات ہے ، اس معنی کی تحقیق حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات میں تفصیل کے ساتھ لکھی ہے ۔ ( مکتوبات معصومیہ ، دفتر اول فارسی ، مکتوب نمبر 192 صفحہ 369 )
لیجیئے حضرت مجدد صاحب کے صاحبزادے نے تو بات بلکل واضح کردی اور مرزائی تلبیس کو زائل کر دیا
حضرت مجدد الف ثانی کی ختم نبوت پر چند فیصلہ کن تحریریں
اب ہم حضرت مجدد صاحب کی چند صریح عبارات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے عقیدے کے بارے میں ہر قسم کے شکوک وشبہات کا خاتمہ ہوجائے ۔
سب سے پہلے نبی آدم علیہ اسلام اور سب سے آخری محمدﷺ
اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :
اول انبیاء آدم است علی نبیناوعلیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات والتحیات وآخر ایشان وخاتم نبوت شان حضرت محمد رسول اللہ است علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات بجمیع انبیاء ایمان باید دانست عدم ایمان بیکے ازیں بزرگواران مسلتزم عدم ایمان است بجمیع ایشان علیہم الصلوات والتسلیمات چہ کلمہء ایشاں متفق است واصول دین شاں واحدو حضرت عیسیٰ علیہ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کہ از آسمان نزول خواہد فرمود متابعت شریعت خاتم الرسل خواہد نمود علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ۔۔۔ انبیاء میں سے سب سے پہلے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ہیں اور ان میں سب سے آخری اور خاتم نبوت حضرت محمد رسول اللہ علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ہیں ، لہٰذا تمام انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات پر ایمان لانا چاہیے اور سب کو معصوم اور سچا سمجھنا چاہیے ان میں سے کسی ایک پر ایمان نہ لانا تمام انبیاء پر ایمان نہ لانے کو مستلزم ہے کیونکہ ان سب کا کلمہ متفق ہے اور دین کے اصول بھی ایک ہیں اور حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام جب آسمان سے نزول فرمائیں گے تو وہ خاتم الرسل علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کی شریعت کی پیروی کریں گے ۔ ( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ، دفتر سوم ، مکتوب نمبر17 )
مجدد صاحب کی یہ تحریر ختم نبوت اور نزول عیسیٰ علیہ اسلام پرا تنی واضح ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک یا تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔
منصب نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم
اپنے ایک اور مکتوب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
ودرشان حضرت فاروق رضی اللہ عنہ فرمودہ است علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام لوکان بعدی نبیاََ لکان عمر یعنی لوازم وکمالاتے کہ در نبوت درکار است ہمہ را عمر دارد ، اماچوں منصب نبوت بخاتم الرسل ختم شدہ است علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام بدولت منصب نبوت مشرف نہ گشت " اور حضرت (عمر ) فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں ( آنحضرت ﷺ ) نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے ، یعنی جو لوازم وکمالات نبوت درکار ہیں وہ سب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر ہیں لیکن چونکہ نبوت کا منصب خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام پر ختم ہوچکا ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منصب نبوت کی دولت سے مشرف نہ ہوئے ۔( مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ، دفتر سوم ، مکتوب نمبر 24 )
حضرت مجدد صاحب کے ان الفاظ کا مفہوم بھی واضح ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت جاری ہوتی تو سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی ہوتے لیکن چونکہ منصب نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا تھا اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ منصب نبوت نہیں مل سکا ۔ اب ان واضح تحریرات کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی یہ کہے کہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اجراء نبوت کے قائل تھے تو اس کی عقل پر صرف رویا ہی جاسکتا ہے ۔