مسئلہ ۲۲۸ : ازضلع سیتاپور محلہ قضیارہ مرسلہ الیاس حسین ۲۳ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ
بارہ امام جن کے نام عوام میں مشہورہیں ان میں باستثنائے جناب امام علی مرتضٰی کرم اﷲ وجہہ حضرت امام حسن وحضرت امام حسین وحضرت امام مہدی کے کسی اورامام کی نسبت صحیح حدیثوں میں اشارۃً یاصراحۃً کوئی خبرآئی ہے؟ امامت ان کی ولایت کے درجے پرمانناچاہئے ان کے عقائد واحکام واعمال وغیرہ ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کے مشابہ تھے یاسب سے الگ؟ یہ خود مجتہدتھے یامقلد؟ بعض اعمال وجفروغیرہ کی کتابوں میں ان کے اقوال ملتے ہیں یہ کہاں تک صحیح ہیں؟ بعض کا یہ اعتراض ہے کہ صحاح کی کتابوں میں ان کی روایتیں بہت کم لی گئی ہیں حالانکہ ان کاخاندانی علم تھا ان سے زیادہ دوسرے کوکہاں تک واقفیت ہوسکتی ہے اہلسنّت کی کتابوں میں ان کے حالات کم لکھنے کی کیا وجہ ہے؟
الجواب : امام باقررضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بشارت بتصریح نام گرامی صحیح حدیث میں ہے جابربن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کاذکر فرمایاکہ ان سے ہماراسلام کہنا۔ سیدنا امام محمدباقررضی اﷲ تعالٰی عنہ طلب علم کے لئے سیدناجابررضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس آئے انہوں نے ان کی غایت تکریم کی اورکہا:رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یسلّم علیک۱؎رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم آپ کوسلام فرماتے ہیں، اوراخرج منکما الکثیر الطیب۲؎ (اﷲ تعالٰی تم دونوں کوکثیرپاکیزہ اولاد عطافرمائے) میں ان سب حضرات کی بشارت ہے۔
(۱؎ تاریخ دمشق الکبیر ترجہ ۶۹۰۱ محمدبن علی بن حسین داراحیاء التراث العربی بیروت ۵۷/ ۲۱۵،۲۱۶)
(۲؎ تنزیہ الشریعۃ باب فی مناقب السبطین وامہما وآل البیت دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۱۱)
امامت اگربمعنی مقتدٰی فی الدین ہونے کے ہے توبلاشبہہ ان کے غلام اورغلاموں کے غلام مقتدٰی فی الدین ہیں، اوراگر اصطلاح مقامات ولایت مقصود ہے کہ ہرغو ث کے دووزیرہوتے ہیں عبدالملک و عبدالرب، انہیں امامین کہتے ہیں، توبلاشبہہ یہ سب حضرات خود غوث ہوئے۔ اوراگرامامت بمعنی خلافت عامہ مرادہے تووہ ان میں صرف امیرالمومنین مولٰی علٰی وسیدناامام حسن مجتبٰی کوملی اوراب سیدنا امام مہدی کوملے گی وبس رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، باقی جومنصب امامت ولایت سے بڑھ کرہے وہ خاصہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہے جس کوفرمایاانّی جاعلک للناس اماما۱؎ (میں تمہیں لوگوں کاپیشوا بنانے والاہوں۔ت) وہ امامت کسی غیرنبی کے لئے نہیں مانی جاسکتی،اطیعوااﷲ واطیعواالرسول واولی الامر منکم۲؎ (حکم مانو اﷲ کا اورحکم مانورسول اﷲ کااوران کا جوتم میں حکومت والے ہیں۔ت) ہرغیرنبی کی امامت اولی الامرمنکم تک ہے جسے فرمایا:وجعلنٰھم ائمۃ یھدون بامرنا۳؎ (اورہم نے انہیں امام کیاکہ ہمارے حکم سے بلاتے ہیں۔ت) مگر اطیعوا الرسول کے مرتبے تک نہیں ہوسکتی اس حد پرماننا جیسے روافض مانتے ہیں صریح ضلالت وبے دینی ہے۔ امام جعفر صادق رضی اﷲ تعالٰی عنہ تک توبلاشبہہ یہ حضرات مجتہدین وائمہ مجتہدین تھے، اورباقی حضرات بھی غالباً مجتہد ہوں گے۔واﷲ تعالٰی اعلم ۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۲۴)(۲؎القرآن الکریم ۴/ ۵۹)(۳؎القرآن الکریم ۲۱/ ۷۳)
یہ نظربظاہرہے ورنہ باطنی طورپر کوئی شک کامقام نہیں کہ یہ سب حضرات عین الشریعۃ الکبرٰی تک واصل تھے، جوبسند صحیح ثابت یاکسی فقہ معتمد کی نقل ہے اس کاثبوت ماناجائے گاورنہ مجاہیل یاعوام یاایسی کتاب کی نقل جورطب ویابس سب کی جامع ہوتی ہے کوئی ثبوت نہیں۔ صحاح میں صدیق اکبروفاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی روایات بھی بہت کم ہیں، رحمت الٰہی نے حصے تقسیم فرمادیئے ہیں کسی کوخدمت الفاظ، کسی کوخدمت معانی، کسی کو تحصیل مقاصد، کسی کوایصال الی المطلوب، نہ ظاہری روایت کی کثرت وجہ افضلیت ہے نہ اس کی قلت وجہ مفضولیت۔ صحیحین میں امام احمد سے صدہااحادیث ہیں اورامام اعظم وامام شافعی سے ایک بھی نہیں، اورباقی صحاح میں اگران سے ہیں بھی توبہت شاذونادر، حالانکہ امام احمدامام شافعی کے شاگردہیں، اورامام شافعی امام اعظم کے شاگردوں کے شاگرد رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، بلکہ امام احمد کامنصب بھی بہت ارفع واعلٰی ہے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں رُبع اسلام کہا ہے۔ ہزاروں محدثین جوفقیہ تک نہ تھے ان سے جتنی روایات صحاح میں ملیں گے صدیق وفاروق بلکہ خلفائے اربعہ سے اس کادسواں حصہ بھی نہ ملے گا رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔ یہ محض غلط وافتراء ہے کہ ان کے احوال اہلسنت کی کتابوں میں کم ہیں، اہلسنّت کی جتنی کتابیں بیان حالات اکابرمیں ہیں سب ان پاک مبارک محبوبان خدا کے ذکرسے گونج رہی ہیں اور خود ان کے ذکرمیں مستقل کتابیں ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(فتاویٰ رضویہ جلد26 کتاب الفرائض ، کتاب الشتی ، صفحہ 432 تا 428)