مبشر شاہ صاحب نے بہت ہی جامع جواب دیا ہے ۔ چند ایک میرے نکات بھی پیش خدمت ہیں ۔
آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔
آپ کا پہلا نکتہ ہی غلط ہے کہ حضرت عیسیؑ مسلمانوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے آئیں گے ۔
اور یہ لفظ مبعوث کا جو معنیٰ آپ لینا چاہ رہے ہیں یہاں وہ معنیٰ نہیں ہے " یبعث " کا مطلب صرف بھیجنا ہے اور مسلم کی حدیث میں یہ لفظ ہوا اور پرندوں کے لئے بھی آیا ہے ۔
نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔
یہ
نبی اللہ ہو گا والی بات تو ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہاں حدیث میں نبی اللہ عیسیؑ یعنی اللہ کے نبی عیسیؑ ضرور ہے ۔ یا کسی عالم نے اگر کچھ لکھا ہے تو وہ بھی اللہ کے نبی حضرت عیسیّ ہی ہے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے حضرت عیسیؑ نے ہی آنا ہے کسی مثیل نے نہیں ۔
جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی
کوئی ایک بزرگ یا عالم اس بات کا قائل نہیں کہ اس امت میں کوئی امتی نبی بنایا جائے گا ۔
پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔
یہ تو آپ اپنے مرزا صاحب سے پوچھیں کہ انہوں بھی روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 431 پر خاتم النبیین کا یہی معنی کیا ہے اور
ختم کرنے والا نبیوں کا ۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے یعنی سلسلہ انبیا، کو ختم کرنے والا ۔ کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی ۔
پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔
جناب پھر سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے بنی اسرائیل میں تو اللہ نے تین کتابیں نازل کیں ، صاحب شریعت نبی بھیجے اس کے علاوہ تمام نبی مستقل تھے تو امت محمدیہ کو صرف ایک کتاب اور ایک شریعت اور بقول قادیانی اگر نبوت ہے بھی تو وہ بھی صرف ظلی اور غیر مستقل ۔ بنی اسرائیل میں ایک وقت میں کئی نبی ہوتے تھے لیکن امت محمدیہ میں 1435 سالوں میں بقول قادیانی آیا بھی تو صرف ایک اور وہ بھی ظلی اور غیر مستقل بغیر کتاب اور شریعت کے ۔
پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے مباحثہ راولپنڈی میں قادیانی جماعت نے تسلیم کیا کہ
" انبیا، کرام دو قسم کے ہوتے ہیں 1: تشریعی ، 2 : غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں نمبر 1: براہ راست نبوت پانے والے ، نمبر 2: نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت پانے والے ۔۔۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر صرف پہلے دو قسم کے نبی آتے تھے ۔
اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔
اس پر میں صرف مرزا صاحب کا ایک دو حوالہ ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔
"نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس وقت تائید دین عیسوی کے لئے نبی آتے تھے اور اب محدث آتے ہیں۔(روحانی خزائن جلد6 ص ،356،355)
"ہمارے سیّد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدّث رکھے گئے (روحانی خزائن جلد6 ص324)