• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آپ جن "عیسٰی" کے منتظر ہیں انہوں نے بھی تو نبی ہی ہونا ہے !! پھر ختمِ نبوت کا مطلب!!!

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
(دوسری بات یہ کہ آپ تو کہتے ہیں کہ وحی کا دروازہ قیامت تک بند ہے تو پھر آنے والے مسیح پر کیا وحٰ ہوگی بھلا؟ ):)
وحی الہام ;)
(اچھا اگر وہ ابھی تک نبی ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ گزشتہ یہ والی شریعت ابھی تک منسوخ نہیں ہوئی؟؟ جبکہ قرآ کی آمد کے ساتھ ہی گزشتہ شریعیتں منسوخ کر دی گئی تھیں ):)
اچھا تو کیا جس کی شریعت منسوخ ہو جائے اس کی نبوت بھی منسوخ ہو جاتی ہے ؟:p
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جناب آپ کو چیلنج ہے قرآن کریم سے لفظ "بعث" نکالیں جو کسی نبی کے متعلق استعمال ہوا ہو اور اِس دنیا کے متعلق ہو نہ کہ آخرت کے متعلق تو اس کے جو معنی لکھے ہیں قرآن میں جابجا وہی معنی یہاں کر دیں اب تو خوش ہیں ناں؟ یا قرآن کی بھی نہیں ماننا چاہتے آپ :)
مربی جی " یبعث " کا لفظ تو قران میں کوے کے لئے بھی آیا ہے تو کیا اپ کی منطق سے کوے کو بھی نبی بنا کر بیجھا جائے گا ؟؟ کیوں کا اپ ہی تو کہتے ہو کہ " یبعث " کا مطلب نبی بنا کر بیجھنا ہے :)
اور دوسری بات کہ کیا " یبعث " کا اردو ترجمہ " معبوث " کرنا ہوتا ہے ؟؟ اگر نہیں تو " یبعث " کا اردو ترجمہ بھی اب کر ہی دیں :)
شکریہ
مربی جی یہ اب اپنی بات سے بھاگیں نا پلیز :) اپ خود ہی تو کہتے ہو کہ " یبعث " کا مطلب ہے " نبی بنا کر بیجھنا " تو میں اپ کو صاف اور واضح الفاظ میں کہہ رہا ہوں کے یہ لفظ تو قران میں " کوے " کے لئے بھی آیا ہے تو وہاں کیوں نہیں یہ ترجمہ ؟؟؟ یا اپ اس بات کا اعتراف کر لو کہ " " یبعث " کا ہر جگہ ایک ہی ترجمہ نہیں ؟؟؟
اور دوسری بات کیا جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی کیا اس وقت وہ نبی نہیں تھے ؟؟
 

خلیل احمد

رکن ختم نبوت فورم
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر:

1۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔

2۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔

3۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔

4۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔

5۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔

6۔ پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔

7۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟

قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت 6) میں فرمایا ’’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبیین ہوا اور وہی خاتم النبیین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

8۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ترجمہ :۔ کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔

(تفسیر القرآن الحکیم جزء 5 صفحہ 247)

ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔

تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:

ترجمہ :۔ ’’ مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔

(تفسیر الدر المنثور جزء2 صفحہ 226)

دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت 19)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کُلُّ مُؤْمِن صِدِّیْقٌ وَ شَہِیْدٌ‘‘

(الدر المنثور الجزء 6 صفحہ 176)

کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔

9۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر:

1۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔

2۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔

3۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔

4۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔

5۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔

6۔ پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔

7۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟

قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت 6) میں فرمایا ’’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبیین ہوا اور وہی خاتم النبیین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

8۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ترجمہ :۔ کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔

(تفسیر القرآن الحکیم جزء 5 صفحہ 247)

ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔

تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:

ترجمہ :۔ ’’ مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔

(تفسیر الدر المنثور جزء2 صفحہ 226)

دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت 19)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کُلُّ مُؤْمِن صِدِّیْقٌ وَ شَہِیْدٌ‘‘

(الدر المنثور الجزء 6 صفحہ 176)

کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔

9۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔

محترم خلیل احمد صاحب جہاں تک میں جان سکا ہوں آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہیں
آپ کے پورے مضمون کا ایک ہی جواب ہے در حقیقت آپ خاتم النبیین ﷺ کا مفہوم درست نہیں سمجھ سکے ۔ خاتم النبیین ﷺ کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آ کر اس دروازہ کو بند کر دیا ہے جس دروازہ سے داخل ہو کر کوئی شخص نبی بنتا تھا اب کوئی بھی اس دروازے سے دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا رہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تو ان کو نبی مکرم ﷺ سے قبل نبوت عطا ہو چکی اور وہ اس دروازہ سے داخل ہو چکے ہیں اور نبوت کے دروازہ سے جب وہ داخل ہو چکے ہیں اور زندہ ہیں انتقال نہیں فرمائے اوپر سے دروازہ بھی بند ہے اب اس سے مرزا غلام قادیانی یا دیگر مدعیان نبوت داخل نہیں ہو سکتے اور قرب قیامت میں وہی زندہ عیسی ابن مریم علیہ السلام جن کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا تو اپنی سابقہ عطا کردہ نبوت کے ساتھ زمین پر نازل ہوں گے ،اور چالیس سال یا اس اس سے کچھ زیادہ عمر مبارک زمین پر گزاریں گے آخر میں طبعی موت سے انتقال فرمائیں گے ۔ اب کوئی بے وقوف ہی ہو گا کہ جو یہ کہے عیسی ابن مریم جب آئیں گے تو ان کو نبوت عطا ہو گی اور پھر خاتم النبیین کا مفہوم ختم ہو گیا ؟ حالانکہ اس بے وقوف کو خاتم النبیین کا مفہوم ہی سمجھ نہیں آیا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مبشر شاہ صاحب نے بہت ہی جامع جواب دیا ہے ۔ چند ایک میرے نکات بھی پیش خدمت ہیں ۔
آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔
آپ کا پہلا نکتہ ہی غلط ہے کہ حضرت عیسیؑ مسلمانوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے آئیں گے ۔
اور یہ لفظ مبعوث کا جو معنیٰ آپ لینا چاہ رہے ہیں یہاں وہ معنیٰ نہیں ہے " یبعث " کا مطلب صرف بھیجنا ہے اور مسلم کی حدیث میں یہ لفظ ہوا اور پرندوں کے لئے بھی آیا ہے ۔
نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔
یہ نبی اللہ ہو گا والی بات تو ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہاں حدیث میں نبی اللہ عیسیؑ یعنی اللہ کے نبی عیسیؑ ضرور ہے ۔ یا کسی عالم نے اگر کچھ لکھا ہے تو وہ بھی اللہ کے نبی حضرت عیسیّ ہی ہے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے حضرت عیسیؑ نے ہی آنا ہے کسی مثیل نے نہیں ۔
جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی
کوئی ایک بزرگ یا عالم اس بات کا قائل نہیں کہ اس امت میں کوئی امتی نبی بنایا جائے گا ۔
پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔
یہ تو آپ اپنے مرزا صاحب سے پوچھیں کہ انہوں بھی روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 431 پر خاتم النبیین کا یہی معنی کیا ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا ۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے یعنی سلسلہ انبیا، کو ختم کرنے والا ۔ کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی ۔

پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔
جناب پھر سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے بنی اسرائیل میں تو اللہ نے تین کتابیں نازل کیں ، صاحب شریعت نبی بھیجے اس کے علاوہ تمام نبی مستقل تھے تو امت محمدیہ کو صرف ایک کتاب اور ایک شریعت اور بقول قادیانی اگر نبوت ہے بھی تو وہ بھی صرف ظلی اور غیر مستقل ۔ بنی اسرائیل میں ایک وقت میں کئی نبی ہوتے تھے لیکن امت محمدیہ میں 1435 سالوں میں بقول قادیانی آیا بھی تو صرف ایک اور وہ بھی ظلی اور غیر مستقل بغیر کتاب اور شریعت کے ۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے مباحثہ راولپنڈی میں قادیانی جماعت نے تسلیم کیا کہ
" انبیا، کرام دو قسم کے ہوتے ہیں 1: تشریعی ، 2 : غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں نمبر 1: براہ راست نبوت پانے والے ، نمبر 2: نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت پانے والے ۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر صرف پہلے دو قسم کے نبی آتے تھے ۔
اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔

اس پر میں صرف مرزا صاحب کا ایک دو حوالہ ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔

"نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس وقت تائید دین عیسوی کے لئے نبی آتے تھے اور اب محدث آتے ہیں۔(روحانی خزائن جلد6 ص ،356،355)

"ہمارے سیّد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدّث رکھے گئے (روحانی خزائن جلد6 ص324)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بہت خوب جناب سلمان احمد بھائی۔ آپ کا
مبشر شاہ صاحب نے بہت ہی جامع جواب دیا ہے ۔ چند ایک میرے نکات بھی پیش خدمت ہیں ۔
آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔
آپ کا پہلا نکتہ ہی غلط ہے کہ حضرت عیسیؑ مسلمانوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے آئیں گے ۔
اور یہ لفظ مبعوث کا جو معنیٰ آپ لینا چاہ رہے ہیں یہاں وہ معنیٰ نہیں ہے " یبعث " کا مطلب صرف بھیجنا ہے اور مسلم کی حدیث میں یہ لفظ ہوا اور پرندوں کے لئے بھی آیا ہے ۔
نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔
یہ نبی اللہ ہو گا والی بات تو ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہاں حدیث میں نبی اللہ عیسیؑ یعنی اللہ کے نبی عیسیؑ ضرور ہے ۔ یا کسی عالم نے اگر کچھ لکھا ہے تو وہ بھی اللہ کے نبی حضرت عیسیّ ہی ہے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے حضرت عیسیؑ نے ہی آنا ہے کسی مثیل نے نہیں ۔
جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی
کوئی ایک بزرگ یا عالم اس بات کا قائل نہیں کہ اس امت میں کوئی امتی نبی بنایا جائے گا ۔
پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔
یہ تو آپ اپنے مرزا صاحب سے پوچھیں کہ انہوں بھی روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 431 پر خاتم النبیین کا یہی معنی کیا ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا ۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے یعنی سلسلہ انبیا، کو ختم کرنے والا ۔ کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی ۔

پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔
جناب پھر سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے بنی اسرائیل میں تو اللہ نے تین کتابیں نازل کیں ، صاحب شریعت نبی بھیجے اس کے علاوہ تمام نبی مستقل تھے تو امت محمدیہ کو صرف ایک کتاب اور ایک شریعت اور بقول قادیانی اگر نبوت ہے بھی تو وہ بھی صرف ظلی اور غیر مستقل ۔ بنی اسرائیل میں ایک وقت میں کئی نبی ہوتے تھے لیکن امت محمدیہ میں 1435 سالوں میں بقول قادیانی آیا بھی تو صرف ایک اور وہ بھی ظلی اور غیر مستقل بغیر کتاب اور شریعت کے ۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے مباحثہ راولپنڈی میں قادیانی جماعت نے تسلیم کیا کہ
" انبیا، کرام دو قسم کے ہوتے ہیں 1: تشریعی ، 2 : غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں نمبر 1: براہ راست نبوت پانے والے ، نمبر 2: نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت پانے والے ۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر صرف پہلے دو قسم کے نبی آتے تھے ۔
اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔

اس پر میں صرف مرزا صاحب کا ایک دو حوالہ ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔

"نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس وقت تائید دین عیسوی کے لئے نبی آتے تھے اور اب محدث آتے ہیں۔(روحانی خزائن جلد6 ص ،356،355)

"ہمارے سیّد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدّث رکھے گئے (روحانی خزائن جلد6 ص324)
لاجواب ہے جناب۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد قادیانی دجال تھا پڑھیں مرزا غلام احمد قادیانی کی زبانی

مرزا غلام احمد قادیانی دجال کے متعلق بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
دجال کے معنی بجر اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکا دینے والا اور گمراہ کرنے والا اور خدا کے کلام میں تحریف کرنے والا ہو اس کو دجال کہتے ہیں۔

(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 456)

اب ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی قرآن مجید میں کی جانے والی تحریف لکھتے ہیں:
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
عسى ربکم ان يرحم علیکم و ان عدتم عدنا و جعلنا جهنم للکفرين حصيرا

(روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 601)
قرآن مجید کی اصل آیت یہ ہے۔
عسى ربکم ان يرحمکم و ان عدتم عدنا و جعلنا جهنم للکفرين حصيرا

(سورۃ نبی اسرائیل، آیت نمبر: 8، پارہ نمبر 15)
ناظرین!
غور فرمائیں مرزا غلام احمد قادیانی نے اس آیت میں "یرحمکم" میں سے " کُم" کو کاٹ کر "یرحم" بنا دیا ہے اور اپنی طرف سے اس آیت میں یرحم لکھنے کے بعد ایک لفظ علیکم شامل کر دیا ہے۔

بعض قادیانی حضرات کہتے ہیں کہ انبیاء سے غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ جس جس نبی سے بھی خطاء ہوئی ہے اس نبی نے اس خطاء کی تلافی اپنی زندگی میں ہی کر لی تھی۔آپ جس مرضی نبی کی مثال لے لیں۔
جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی دعوی ہے کہ:
و إنّ اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین

(روحانی خزائن جلد ۸- نور الحق: صفحہ 272)
ترجمہ: وہ خدا مجھے ایک لمحے کیلئے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا۔

مرزا غلام احمد قادیانی دجال تھا.png
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
  1. جناب اگر بعث سے مراد آپ نے یہ لی ہے کہ ان کو نبوت ملے گی ۔ تو میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسی پوسٹ کو دیکھیں اور آخری لائن بھی پڑھ لیں جہاں پر یبعث اللہ یاجوج و ماجوج لکھا ہوا ہے پھر آپ اس کا کیا ترجمعہ کریں گے؟؟
  2. دوسری بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کے بقول اب وحی کا نہیں ہو گی ۔ جبکہ مرزا قادیانی کو مسیح مان کر اور اس پر وحی ہونے کا اقرار کر کے آپ خود ہی اپنے مرزا جی کو کافر قرار دے رہے ہیں۔
  3. تیسری بات یہ جو وحی والی آپ نے کی ہے اس میں وحی کیا ہو گی ؟؟ یہ بھی بتا دیں اور اس پر کیا مرزا قادیانی نے عمل کیا ہے؟؟؟ یہ بات بھی بتا دیجیئے ۔ شکریہ
00.gif
 

طاہر اسلام

رکن ختم نبوت فورم
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ احادیث کی رو سے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دنیا میں نزول فرمائیں گے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی وہی ہیں؛اس طرح تو کوئی بھی جو ملعون بننے کی جسارت کر سکے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ہی وہ مثیل مسیح ہوں؛آخر مرزا صاحب ہی کیوں کوئی دوسرا کوئی کیوں نہیں۔
اور اس سے بھی پہلے یہ مثیل کہاں سے آگیا جناب؟؟
میرے خیال میں اصل نکتہ یہ ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ نزول عیسیٰؑ کی روایات درست لیکن ان کی وفات ہو گئی اور اب مثیل مسیح آئے گا؛یہ ایک کہانی ہے جس سے نادان تو دھوکا کھا سکتے ہیں جس میں عقل و بصیرت کا ایک ذرہ بھی موجود ہے وہ اس فریب میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔
 
Top