ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیما(النسا، 158) یہ آیت مبارکہ حیات مسیح علیہ السلام پر دلیل صریح ہے ۔ اس میں اللہ پاک نے بالکل واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔
اس آیت میں دو چیزیں بہت اہم ہیں جن پر ہم راشنی ڈالیں گے ۔
1: لفظ "بل"
2: آسمان پر اٹھایا جانا
تو پہلے ہم لفظ بل پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
۔ بل ایک عربی لفظ ہے کتب نحو کے جاننے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔ مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
۔بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔ و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔ دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر
رفعہ اللہ الیہ
میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔
۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد
رفعہ اللہ الیہ
"ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
اب آتے ہیں اس طرف کے بل رفعہ اللہ الیہ میں آسمان کا ذکر کہاں ہے ؟
یاد رہے کہ اللہ کریم کے لئے فوق و علو ہے، انہیں معنوں میں کہا گیا ہے ،
امنتم من فی السما، ان یخسف بکم الارض (الملک 19)
کیا تم نڈر ہو گئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے اس سے کہ دھنسا دے تم کو زمین۔
ایسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے
قد نری تقلب وجھک فی السما،(البقرہ 144)
اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے خود رافعک الی کے معنی آسمان ہی کئے ہیں۔
" ہرایک مومن کی روح مرنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے تو اس سے صاف طورپر کُھل گیا کہ رافعک الیّ کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے تو اُن کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی گئی (خزائن جلد3 صفحہ 234)
"ا۔ کیونکہ شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہے۔ ایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقامِ انتہائے عرش ہے اور دوسری شیطان کی اور وہ بہت نیچی ہے اور اس کا انتہا زمین کا پاتال ہے۔ غرض یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکر خدا کی طرف جاتا ہے۔ اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت ارجعی الیٰ ربک اس کی شاہدہے" (خزائن جلد 17 صفحہ 108)
اب آتے ہیں ہم دوسرے چیلنج کی طرف کہ کوئی ایسی حدیث دکھا دو جس سے حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہو ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس چیلنج کا جواب دیں مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کا ایک اصول ملاحظہ فرما لیں ۔
مرزا صاحب روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 236 پر لکھتے ہیں
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اُترنا اُس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے۔
اب پیش خدمت ہیں احادیث مبارکہ جس میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذْ نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ فِیْکُمْ وَاِمَا مُکُمْ مِنْکُمْ۔ (اخرجہ البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶ ج۲)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا۔ اس وقت جب کہ تم میں عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہونگے اور تمہارا ایک امام بھی اس وقت موجود ہوگا۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْزِلُ اَخِیْ عَیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ عَلٰی جَبَلٍ اَفِیْقٍ اِمَامًا ھَادِیًا وَّحَکَمًا عَادِلاً۔ (کنز العمال ص۲۶۸، ج۷، طبع قدیم ومنتخب کنز العمال علی ہامش مسند احمد ص۵۶ ج۶) (کنز العمال جلد۷ ص۲۶۷ و منتخب کنز جلد ۶ص۶۵) نوٹ: اس حدیث سے مرزا صاحب نے بھی حمامۃ البشریٰ ص۸۷،۲۷ پر استدلال کیا ہے مگر لفظ سماء نہیں لکھا اور خیانت کی ہے اور نبی خائن نہیں ہوتا۔ (حمامۃ البشرٰی ص۸۷ و روحانی ص ۳۱۲، ج۷)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت یہ یہ باتیں ہونگی مسیح ابن مریم آسمان سے جبل افیق پر نازل ہوگا۔ مطلب ظاہر ہے کہ مسیح زندہ ہے۔ نوٹ: اس حدیث کی رُو سے وہ دوبارہ آنے کے وقت آسمان سے اتریں گے تو معلوم ہوا کہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ لیجئے اس پر مرزا صاحب کے دستخط بھی کروا دوں۔ آپ براہین میں فرماتے ہیں:
'' حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔'' (براھین احمدیہ ص۳۶۱، ج۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۱)
دیگر یہ مرزا صاحب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں
'' صحیح مسلم میں ہے کہ مسیح جب آسمان سے اُترے گا تو اس کا لباس زرد چادریں ہوں گی۔ (ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳)
اسی طرح رسالہ تشحیذ الاذہان میں مرزا صاحب کا قول ہے:
'' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہونگی۔ سو اس طرح مجھے دو بیماریاں ہیں۔'' (بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مؤرخہ ۷؍ جون ۱۹۰۶ء و تشحیذ الاذہان جلد ۱نمبر۲ بابت جون ۱۹۰۶و ملفوظات مرزا ص ۳۳، ج۵)
لیجئے جناب ہم نے تو آپ کے چینج کا جواب دے دیا اب آپ بھی ہمت فرمائیں اور ساحل کاہلوں بھائی کے چیلنج کا جواب دیں ۔
سلمان بھائی اس بھگوڑے قادیانی نے تو مجھے آپنے گروپ سے نکال دیا تھا ، اس وجہ سے کہ ان کے پاس میری باتوں کے جواب نہیں تھے اور پھر اس کے کچھ ساتھیوں نے لاجواب ہوکر مجھے گالیاں بھی دی تھیں ۔ اور اس کے سکین میرے پاس ابھی بھی پڑے ہیں ۔ باقی اس نے جو مطالبہ کیا ہے اس پر میں نے سورہ النساء کی آیت سے ایک دلیل دی تھی فیس بک پر اگر ہوسکے تو اس کو بیجھ دیں اور کہیں کے یہ لو کرو رد اس کا ۔
جواب: بل
بل ابطا لیہ نہیں ہے نحویوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں بل ابطالیہ نہیں آسکتاہاں حکایت عن الغیر کی صورت میں آسکتا ہے۔چنانچہ ابن مالک لکھتے ہیں’’
انھا لا تقع فی التنزیل الا علی ھذا الوجہ(ای لانتقال من فرض الی اخر)
قرآن مجیدمیں بل صرف ترقی کے لئے آتا ہے ۔ پھر لکھا ہے
قال السیوطی ان نقل غیر ذلک ایضا فھذہ االنقول متضافرۃ علی ماقال ابن مالک من عدم وقوع الاضراب الابطالی فی القرآن
۔یعنی کہ امام سیوطی نے بہت سی مثالیں نقل کر کے کہا کہ یہ تمام مثالیں ابن مالک کی تائید کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں بل ابطالیہ نہیں آ سکتا۔القصر المینی جلد1
بل ابطالیہ کیوں نہیں آسکتا اس کی وجہ بھی نحویوں نے بیان کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں’’
فی اضراب الابطال انہ الواقع بعد غلط او نسیان او تبدل رای والقرآن منزہ عن ذلک۔‘‘
یعنی بل ابطالیہ یا غلطی یا بھول یا تبدیلی رائے کی صورت میں آتا ہے اور قرآن مجید ان باتوں سے پاک ہے۔(ایضا)
’’’پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔‘‘‘
یہ بات بھی غلط ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ
(البقرة 155) اب یہاں ضمیریں ایک جیسی ہیں مگر موت کے بعد صرف روح آسمان پر جاتی ہے جسم نہیں ۔ پھر فرمایا ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس 22) پھر وہ اس کو وفات دیتا ہے پھر اس کو قبر میں ڈالتا ہے ۔ اب یہاں بھی ایک جیسی ضمیریں اکھٹی بیان کی گئی ہیں مگر قبر میں تو صرف جسم جاتا؟؟
لہذا یہ قاعدہ بھی غلط ہو گیا ۔۔
رفع کا مطلب آسمان کی طرف اٹھانا نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ
(الأَعراف 177) اب یہاں اگر یہ ترجمہ کیا جائے کہ رفع کا مطلب آسما ن کی طرف اٹھانا ہے تو دیکھ لیں کے کیا ترجمہ بن جائے گا۔نعوذ باللہ
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو پوری حدیث یوں ہے أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ يُونُسَ. وَإِنَّمَا أَرَادَ نُزُولَهُ مِنَ السَّمَاءِ بَعْدَ الرَّفْعِ إِلَيْهِ
اما م بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔ مگر بخاری میں یہ الفاظ یعنی ’من السماء‘ موجود نہیں۔پھر کتاب الاسماء و الصفات کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ1328 ھ میں شائع ہوا یعنی کے حضرت مرزاصاحب کی وفات کے بھی بعد اور حضور اپنی کتب میں کئی دفعہ یہ چیلنج دے چکے تھے کہ کسی صحیح حدیث سے آسمان کے الفاظ نکال کر دیکھاو تو مولوی حضرات نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس لفظ کا اضافہ کرد یا اس بات کی تائید درمنثور سے بھی ہوتی ہے کیونکہ درمنثور نے اسی حدیث کو امام بیہقی کی اس کتاب الاسماءو الصفات کے حوالہ سے نقل کیا ہے مگر انہوں نے بھی من السماء کا لفظ نہیں لکھا جس
سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہے اصل میں یہ الفاظ موجود نہ تھے۔
بل ابطا لیہ نہیں ہے نحویوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں بل ابطالیہ نہیں آسکتاہاں حکایت عن الغیر کی صورت میں آسکتا ہے۔چنانچہ ابن مالک لکھتے ہیں’’انھا لا تقع فی التنزیل الا علی ھذا الوجہ(ای لانتقال من فرض الی اخر)قرآن مجیدمیں بل صرف ترقی کے لئے آتا ہے ۔ پھر لکھا ہے قال السیوطی ان نقل غیر ذلک ایضا فھذہ االنقول متضافرۃ علی ماقال ابن مالک من عدم وقوع الاضراب الابطالی فی القرآن ۔یعنی کہ امام سیوطی نے بہت سی مثالیں نقل کر کے کہا کہ یہ تمام مثالیں ابن مالک کی تائید کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں بل ابطالیہ نہیں آ سکتا۔القصر المینی جلد1
بل ابطالیہ کیوں نہیں آسکتا اس کی وجہ بھی نحویوں نے بیان کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں’’فی اضراب الابطال انہ الواقع بعد غلط او نسیان او تبدل رای والقرآن منزہ عن ذلک۔‘‘یعنی بل ابطالیہ یا غلطی یا بھول یا تبدیلی رائے کی صورت میں آتا ہے اور قرآن مجید ان باتوں سے پاک ہے۔(ایضا)
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے جس احمدیہ پاکٹ بک سے مندرجہ بالا اقتباس نقل کیا ہے اسی پاکٹ بک میں یہ جملہ بھی موجود ہے جسے آپ نے پیش نہیں فرمایا
'' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔''
"بل ابطالیہ کے حوالے سے امام سیوطیؒ نے اپنی معروف تصنیف الاتقان میں بھی بحث کی ہے جو پیش خدمت ہے ۔ بل : حرف اضراب ہے ،مگر اس حالت میں جبکہ اس کے بعد کوئی جملہ آئے ۔ پھر کبھی اضراب سے یہ معنیٰ مراد ہوتے ہیں کہ اس کے ماقبل کا ابطال کیا جائےجس طرح قولہ تعالیٰ "
و قالوا اتخذ الرحمٰن ولدا سبحانہ بل عباد مکرومون
" یعنی بلکہ وہ لوگ بندے ہیں ۔ اور قولہ تعالیٰ "
ام یقولون بہٖ جنتہ بل جا،ھم باالحق
" میں ہے۔
اور گاہے اضراب کے معنیٰ ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف منتقل ہونے کے آتے ہیں جیسے
ولدینا کتاب ینطق باالحق و ھم لا یظلمون،بل قلوبھم فی غمرۃ من ھذا
کہ یہاں پر بل کا ماقبل اپنی حالت پر ہی قائم ہے اور اسی طرح قولہ تعالیٰ قد افلح من تذکی و ذکر اسم ربہ فصلی بل توثرون الحیواۃ الدنیا میں بھی ہے۔
اور ابن مالک نے اپنی کتاب کافیہ کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ بل کا لفظ قرآن میں صرف اسی وجہ پر آتا ہے اور کسی دوسری وجہ پر نہیں آتا ۔ اور ابن ھشام نے اس بارہ میں ابن مالک کو مبتلائے وہم بتایا ہے ۔
کتاب بسیط کے مولف نے اس بات کے کہنے میں ابن مالک پر بھی سبقت کی ہے پھر ابن حاجب بھی اسی کا ہم خیال ہو گیا چناچہ وہ اپنی کتاب مفصل کی شرح میں بل کی نسبت لکھتا ہے اگر جملہ ثانی اس قسم کا ہو جوکہ غلطی سے اثبات کے باب میں آتا ہو تو اس کے لئے اعراض کا ثابت کرنا اور جملہ اول کا بطلان کر دینا ۔اس طرح کا بل قرآن میں کہیں واقع نہیں آتا ۔ اور جبکہ بل کے بعد کوئی مفرد کلمہ آئے تواس حالت میں عطف کے واسطے ہو گا اور قرآن میں اس طرح بھی واقع نہیں ہوا ہے ۔"
لہذا یاد رہے کہ جس بل کی نفی کی گئی ہے وہ صرف اللہ کے اپنے قول کے حوالے سے ہے ورنہ کفار کے قول کی تردید کے لئے بل قرآن میں آ سکتا ہے جس کی مثالیں اوپر بیان کر دی گئی ہیں ۔
یہ بات بھی غلط ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ(البقرة 155)
اب یہاں ضمیریں ایک جیسی ہیں مگر موت کے بعد صرف روح آسمان پر جاتی ہے جسم نہیں ۔ پھر فرمایا
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس 22)
پھر وہ اس کو وفات دیتا ہے پھر اس کو قبر میں ڈالتا ہے ۔ اب یہاں بھی ایک جیسی ضمیریں اکھٹی بیان کی گئی ہیں مگر قبر میں تو صرف جسم جاتا؟؟
لہذا یہ قاعدہ بھی غلط ہو گیا ۔۔
محترم پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں روح یا جسم کے آسمان پر جانے کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں بل ابطالیہ استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ بل انتقالیہ استعمال ہوا ہے ۔ بل کی دو اقسام ہیں ۔۔1۔ ابطالیہ۔2۔انتقالیہ۔ ابطالیہ ۔پہلے موضوع کےحکم کو باطل کر کے دوسرے موضوع کی طرف اعراض(نکل جانے)کرنے کو بل ابطالیہ کہتے ہیں۔ انتقالیہ۔پہلے موضوع کے حکم کو باطل کیے بغیر دوسرے حکم کی طرف اعراض کرنا بل انتقالیہ کہلاتا ہے۔
دونوں قسموں کا قرآن میں استعمال موجود ہے بل عباد مکرمون(الانبیاء:26)
اس آیت میں
بل ابطالیہ
ہے۔ بل توثرون الحیوٰۃ الدنیا(االاعلی:13۔14)
اس آیت میں
بل انتقالیہ
ہے۔
اور رہی بات
ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ
کی تو جناب یہ آیت
بل رفعہ اللہ الیہ
کی نظیر ہر گز نہیں بن سکتی کیونکہ اماتہ کہنے کے بعد لامحالہ روح اور جسم میں انفصال ہو گیا تو اقبرہ کی ضمیر دونوں طرف راجع ہو ہی نہیں سکتی بلکہ ایک ہی طرف راجع ہو گی ۔
لیکن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ میں قتل کی نفی کے بعد رفع کا اثبات ہے یعنی صراحتاً جسم و روح کے انفصال کی نفی کی جارہی ہےاس لئے یہاں جسم و روح ہی مرجع قرار دیا جا سکتا ہے کسی ایک کو چھوڑنا اور دوسرے کو لینا درست نہیں ۔
رفع کا مطلب آسمان کی طرف اٹھانا نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الأَعراف 177)
اب یہاں اگر یہ ترجمہ کیا جائے کہ رفع کا مطلب آسما ن کی طرف اٹھانا ہے تو دیکھ لیں کے کیا ترجمہ بن جائے گا۔نعوذ باللہ
مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہرافعک الیّ
کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے تو اُن کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی گئی(خزائن جلد3 صفحہ 234) تو آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں رفع کا مطلب آسمان پر اٹھانا نہیں ہوتا ؟؟؟؟؟؟
اور آپ کی پیش کردہ آیت میں تو رفع درجات کا واضح قرینہ موجود ہے نہ کہ رفع الی السما، کا ۔ لَرَفَعْنَاهُ بِهَا
یعنی ہم اس کو ان(آیات) کے ساتھ بلندی عطا کرتے بھا سے مراد آیات ہیں ۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو پوری حدیث یوں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ يُونُسَ. وَإِنَّمَا أَرَادَ نُزُولَهُ مِنَ السَّمَاءِ بَعْدَ الرَّفْعِ إِلَيْهِ
اما م بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔ مگر بخاری میں یہ الفاظ یعنی ’من السماء‘ موجود نہیں۔پھر کتاب الاسماء و الصفات کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ1328 ھ میں شائع ہوا یعنی کے حضرت مرزاصاحب کی وفات کے بھی بعد اور حضور اپنی کتب میں کئی دفعہ یہ چیلنج دے چکے تھے کہ کسی صحیح حدیث سے آسمان کے الفاظ نکال کر دیکھاو تو مولوی حضرات نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس لفظ کا اضافہ کرد یا اس بات کی تائید درمنثور سے بھی ہوتی ہے کیونکہ درمنثور نے اسی حدیث کو امام بیہقی کی اس کتاب الاسماءو الصفات کے حوالہ سے نقل کیا ہے مگر انہوں نے بھی من السماء کا لفظ نہیں لکھا جس
سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہے اصل میں یہ الفاظ موجود نہ تھے۔
"پھر کتاب الاسماء و الصفات کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ1328 ھ میں شائع ہوا یعنی کے حضرت مرزاصاحب کی وفات کے بھی بعد اور حضور اپنی کتب میں کئی دفعہ یہ چیلنج دے چکے تھے کہ کسی صحیح حدیث سے آسمان کے الفاظ نکال کر دیکھاو تو مولوی حضرات نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس لفظ کا اضافہ کردیا "
جناب پاکٹ بک والے کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے اعتماد نہ کر لیا کریں ۔
رہی بات دوسرے اعتراض کی تو عرض ہے حدیث کی کتاب بیہقی مخرج نہیں ہے بلکہ مسند ہے یعنی ایسی کتاب نہیں ہے کہ دوسروں سے نقل کرکے ذخیرہ اکٹھا کرے جیسا کہ کنز العمال وغیرہ ہے بلکہ امام بیہقی اپنی سند سے راویوں کے ذریعہ روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری کا حوالہ صرف اس لحاظ سے دیا گیا ہے کہ بخاری میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ لفظ
مِنَ السَّمَآئِ
نہیں۔ مگر مراد نزول سے
مِنَ السَّمَآئِ
ہی ہے۔ چنانچہ امام بیہقی خود لکھتے ہیں:
'' اِنَّمَا اَرَادَ نَزُوْلَہٗ مِنَ السَّمَائِ بَعْدَ الرَّفْعِ۔'' (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۶ وکتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶، ج۲)
یعنی سوائے اس کے نہیں کہ اس کو روایت کرنے والے کا ارادہ نزول من السماء ہی ہے۔ کیونکہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔ پس معاملہ صاف ہے کہ بخاری میں من السماء نہ ہونا اس حدیث کے جو صحیح سے امام بیہقی نے روایت کی ہے خلاف نہیں۔ دیکھو مرزا صاحب نے بھی تو ازالہ اوہام ص۸۱، ۳۴ کی عبارت جو ہم حدیث نمبر۶ میں نقل کر آئے ہیں مسلم شریف کی طرف
من السماء
کا لفظ منسوب کیا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳؍)
حالانکہ مسلم میں نہیں ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جائے گا کہ امام مسلم کا ارادہ آسمان سے نزول کا ہی ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات متعددہ اور احادیث نبویہ سے ان کا رفع آسمانی عیاں ہے۔ فافہم اعتراض دوم: امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو امام بیہقی کی کتاب سے نقل کیا ہے مگر اس میں لفظ من السماء نہیں لکھا۔ پس معلوم ہوا کہ بیہقی میں موجود ہی نہیں یا امام بیہقی کی ذاتی تشریح ہے۔ (۱۷۶ احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۱) الجواب: یہ اعتراض احمقانہ ہے بھلے مانسو! جب کہ حدیث کی کتاب میں جو اصل ہے یہ لفظ موجود ہے اور تم اسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو اگر کسی ناقل نے غلطی سے اسے نقل نہ کیا ہو تو اس سے اصل کتاب کیسے مشکوک ہو جائے گی۔
دیکھئے تمہارے '' حضرت نبی اللہ'' مرزا صاحب نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی سو کے قریب آیات غلط الفاظ میں نقل کی ہیں۔ کہیں لفظ کم کردیا۔ کہیں زیادہ کیا۔ اس سے کوئی تمہارے جیسا احمق یہ نتیجہ نکال لے کہ قرآن مشکوک ہے صحیح آیات وہی ہیں جو مرزا صاحب نے لکھی ہے۔ تو وہ صحیح الدماغ انسان کہلانے کا حق دار ہے؟ بطور مثال ایک آیت درج کرتا ہوں۔ قرآن پاک کی آیت ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔() پ۱۴ النمل ۱۲۵) اس آیت کو مرزا جی نے نور الحق حصہ اول ص۴۶ تبلیغ رسالت جلد ۳ ص ۱۹۴، ۱۹۵ و جلد ۷ ص۳۹ کتاب فریاد دو البلاغ ص۸ و ص۱۰ و ص۱۷ و ص۲۳ پر بایں الفاظ نقل کیا ہے: جَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمُوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔ (نور الحق ص۴۶، ج۱ و روحانی ص ۶۳ج۸ و تبلیغ رسالت ۱۹۴، ج۳ و ص ۳۹، ج۷)
مرزائیو! اب خواہ تم اس منہ کالک کو کاتب کے سر ہی تھوپو۔ مگر آیت تو بہرحال غلط ہے۔ حالانکہ قرآن میں اس طرح نہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ کسی ناقل کی غلطی اصل کتاب پر کوئی اثر نہیں کرسکتی۔
محدثین کا طرزِ عمل:
جن لوگوں کو فن حدیث میں ادنیٰ ملکہ بھی ہے ان سے پوشیدہ نہیں کہ محدثین کی حالتیں اور غرضیں بیان حدیث کے وقت مختلف ہوتی ہیں۔ حالتوں کی بابت امام مسلم مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کَانَتْ لَھُمْ تَارَاتٌ یُرْسِلَوْنَ فِیْھَا الْحَدِیْثَ اِرْسَالاً وَّلَا یَذْکُرُوْنَ مَنْ سَمِعُوْہُ مِنْہُ وَتَارَاتٌ یُنْشِطُوْنَ فِیْھَا۔ (مقدمہ صحیح مسلم ص۲۳؍ ۱۸۰)
یعنی رواۃ حدیث کبھی حالت غیر نشاط میں ہوتے ہیں تو حدیث سے کچھ چھوڑ دیتے ہیں کبھی نشاط میں ہوتے ہیں تو سب کچھ بیان کردیتے ہیں۔ نیز فرماتے ہیں: مَذْھَبُھُمْ فِیْ قَبُوْلِ مَا یتَّفَرَّدُ بِہِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدِیْثِ اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ شَاَرَکَ الثِّقَاتَ مِنْ اَھْلِ الحِفْظِ فِیْ بَعْضِ مَا رَوَوْا وَاَمْعَنَ فِیْ ذَالِکَ عَلَی الْمَوَافِقَۃِ لَھُمْ فَاِذَا وُجِدَ کَذَالِکَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَالِکَ شَیْئًا لَیْسَ عِنْدَ اَصْحَابِہٖ قُبِلَتْ زِیَادَتُہٗ(ایضاً ص ۵ ؍ ۱۸۱ ایضاً ص۳) (ص۴) لِاَنَّ الْمَعْنَی الزَّائِدَ فِی الْحَدِیْثِ الْمُحْتَاجِ اِلَیْہِ یَقُوْمُ مَقَامَ حَدِیْثٍ تَامٍ۔(یضاً ص۳) یعنی کوئی محدث حدیث کے کسی لفظ (مثلاً من السماء) کے بیان کرنے میں منفرد ہے تو اس کی قبولیت کے بارے میں محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس محدث کی مشارکت ثقہ حافظین کی بعض روایت (متن) میں ثابت ہو اور وہ دیگر رواۃِ حدیث کی موافقت میں کوشش بھی کرتا ہو۔ پھر اگر اس کے بیان کردہ متن میں لفظ زیادہ مذکور ہو (جیسے بیہقی میں من السماء کی زیادتی) تو اس کی یہ زیادتی مقبول ہوگی اس لیے کہ حدیث میں کوئی زائد معنی جس کی ضرورت بھی ہے وہ پوری حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے۔
اس اصل کو یاد رکھو اور امثلہ ذیل ملاحظہ کرو: رَفْعُ نَظْرٍ اِلَی السَّمَآء فِی الصَّلٰوۃِ۔ (۱) صحیح بخاری میں حدیث ممانعت
رَفْعُ نَظْرٍ فِی السَّمَآئِ
کی مطلق ہے (صحیح بخاری ص۱۰۴ کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلوٰۃ)۔
صحیح مسلم میں ''عند الدعاء'' زیادہ ہے۔ (صحیح مسلم ص۲۸۱، ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب النھی عن رفع البصر الٰی السماء فی الصلوٰۃ) (مصری ص۱۷۱ جلد اول)
یعنی نماز میں دعا کرنے کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھاؤ۔
(۲) بخاری میں ہے
لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیِحْ الْمِسْکِ (صحیح بخاری ص۲۵۴، ج۱ کتاب الصوم باب فضل صوم)۔
صحیح مسلم میں یوم القیامہ زیادہ ہے۔ (صحیح مسلم ص۳۶۳ ج۱ کتاب الصوم)
یعنی روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے روز اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ ہوگی (شاید بقول مرزائی حضرت امام مسلم نے یا کسی کاتب نے یا ہندوستانی مولوی نے
عند الدعاء والیوم القیامۃ
بڑھایا ہوگا)۔
(۳) صحیح مسلم میں ہے
ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری (ایضاً ص۱۷۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیر الاحرام تحت صدرہ)۔
صحیح ابن خزیمہ میں
عَلِی صَدْرِہٖ
زیادہ ہے (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع الیمنٰی علی الشمال فی الصلوٰۃ قبل افتتاح القراۃ ،) نوٹ : اولاً مولانا معمار رحمہ اللہ کا کہنا کہ صحیح مسلم اور صحیح ابن خزیمہ کی سند کے راوی ایک ہی ہیں درست نہیں جبکہ دونوں کی اسناد اس طرح ہیں کہ
(۱) '' صحیح مسلم کی سند''
حدثنا زھیر بن حرب قال حدثنا عفان قال ناھمام قال نا محمد بن حجادۃ قال حدثنی عبدالجبار بن وائل عن علقمۃ بن وائل و مولی لھم انھما حدثاہ عن ابیہ وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہ ،صحیح مسلم ص۱۷۳، ج۱)
(۲) '' صحیح ابن خزیمہ کی سنداخبرنا ابو طاھرنا ابوبکر نا ابو موسٰی نا مؤمل نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہٖ عن وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہصحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳، ج۱''
دونوں اسناد کو مکرر دیکھ لیجیے۔ ان میں ہر ایک علیحدہ اور مستقل سند ہے، غالباً مولانا معمار مرحوم کو حافظ ابن حجر کی تالیف، بلوغ المرام، سے وہم ہوا ہے جبکہ معمار صاحب کی زندگی میں ابن خزیمہ ثانیاً ایک ہی سند میں الفاظ کے زیادت کی بہترین مثال
حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی
حسب ذیل ہے: قال صلی رسول اللّٰہ ﷺ ثم اقبل بوجھہ فقال اتقرؤن والامام یقرأ فسکتو فسألھم ثلٰثا فقالوا انا لنفعل قال فلا تفعلوا شرح معانی الاثار للطحاوی ص۱۵۰، ج۱
۔ جبکہ اسی سندسے مروی اسی حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ
ولیقرأ احدکم بفاتحۃ الکتاب فی نفسہٖ صحیح ابن حبان ص ۱۶۰ ج ۴ رقم الحدیث ۱۸۴۱ والسنن الکبرٰی للبیھقی ص۱۶۶ ج۲ وطبرانی اوسط بحوالہ مجمع الزوائد ص۱۱۳ ج ۲ وسنن دارقطنی ص ۳۴۰ ج۱
ظاہر ہے کہ طحاوی کی روایت کے جو الفاظ ہیں ان سے یہ فاتحہ خلف الامام کے ترک کی دلیل ہے مگر پوری روایت میں قراۃ فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر آج تک کسی اناڑی نے بھی یہ نہیں کہا کہ آخری الفاظ من گھڑت ہیں۔ ایک نکتہ:
سلف میں ایک بڑا فتنہ ''فرقہ جہمیہ'' کے نام سے اسی طرح سے پیدا ہوا جس طرح آج کل فتنہ مرزائیہ ہے۔ '' فرقہ جہمیہ'' اسماء وصفات باری میں طرح طرح کی تاویلیں بلکہ تحریفیں کرتا تھا۔ اس لیے علمائے اسلام نے عموماً اور محدثین کرام نے خصوصاً اس فرقہ کی تردید میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہمیہ کے عقاید باطلہ میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ
ان اللّٰہ لیس فی السماء(کتاب العلو ص۳۷۷ وبیھقی فی الاسماء والصفات ص۱۷۰ ج۲)۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب مذکور میں اس کی تردید میں کئی باب منعقد کئے ہیں اور اللّٰہ فی السماء کو بہت سی حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۲، ج۲ باب قول عزوجل، وھو القاھر فوق عبادہٖ وقولہ یخافون ربھم من فوفھم و یفعلون ما یومرون۔)میں باب
ئَ اَمِنْتُمْ من فِی السَّمَآئِ
کا منعقد فرماتے ہیں اور مختلف احادیث نبویہ سے مسئلہ مذکورہ ثابت کرتے ہیں اس کے (ص۱۶۶) میں باب
رَافِعُکَ اِلَیَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیِّبُ
کا لائے ہیں اور مختلف حدیثوں سے فرشتوں، کلموں اور عملوں کا آسمان پر خدا کی طرف جانا ثابت کرتے ہیں مثلاً
عروج الملئکۃ الی السماء
()۔ اسی باب میں پہلی حدیث حضرت عیسیٰ کی بابت بھی لائے ہیں
کیف انتم اذا انزل ابن مریم من السماء فیکم
() پس انصاف کرنا چاہیے کہ جب مصنف کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس باب میں خصوصیت سے الی السماء فی السماء من السماء، ثابت کیا جائے تو یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اصل بیہقی میں من السماء کا لفظ نہیں ہے حالانکہ امام موصوف اسی چیز کے ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
کیا یہ کفار کا قول ہے؟؟؟جس کی نفی کی گئی ہے؟؟حکایت عن الغیر اسی کو کہتے ہیں کہ کسی کی بات بیان کرنا۔بہرحال کیا یہ کفار کا قول ہے؟؟نہیں بلکہ خدا ان کے فعل کو بیان کر کے اس کی تردید کر رہا ہے۔بہرحال پھر بھی ۔۔۔جی جناب روح تو جاتی ہی آسمان کی طرف ہے مگر جسم نہیں جاتا اور پلیز یہ تصویر بلر کرکے لگا دی ہے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے اس کو واضح کروِ؟؟صاف تصویر لگاو تاکہ کوئی دیکھ بھی لے۔
امام موصوف نے لکھا کہ اس حدیث کو بخاری نے یحی ابن بکیر کی سند سے بیان کیا ہے اور ذرا غور سے اس سند کو بھی دیکھ لو وہی سند ہے جو بخاری کی ہے یہ دیکھو بخاری کی سند حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ، وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ»، تَابَعَهُ عُقَيْلٌ، وَالأَوْزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
دیکھو ابن بکیر سے آخر تک ایک ہی سند ہے مگر امام بخاری کو ان راویوں نے من السماء کا لفظ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔۔اور پھر سالوں بعد یہ لفظ ان احادیث میں وارد ہو گیا۔
کیا یہ کفار کا قول ہے؟؟؟جس کی نفی کی گئی ہے؟؟حکایت عن الغیر اسی کو کہتے ہیں کہ کسی کی بات بیان کرنا۔بہرحال کیا یہ کفار کا قول ہے؟؟نہیں بلکہ خدا ان کے فعل کو بیان کر کے اس کی تردید کر رہا ہے۔
محترم یہاں کفار کے قول کی ہی نفی کی گئی ہے اور کفار کے اس قول کو اللہ نے اس آیت کے شروع میں ہی بیان کر دیا تھا وقولھم انا قتلنا المسیح عیسی بن مریم۔۔۔۔۔۔
جی جناب روح تو جاتی ہی آسمان کی طرف ہے مگر جسم نہیں جاتا
جناب مرزا صاحب نے رافعک الی میں آسمان پر جانا تسلیم کیا ہے یعنی ہم میں اور مرزا صاحب میں جہت کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ مرفوع چیز میں اختلاف ہے ان کے نزدیک صرف روح جبکہ ہمارے نزدیک جسد و روح دونوں ۔ امید ہے یہ نکتہ سمجھ آ گیا ہو گا ۔
میں نے بالکل صحیح سکین لگایا ہے بلر کا مسئلہ آپ کی سکرین کا مسئلہ ہو گا میری سکرین پر سکین بالکل واضح ہے ۔
ویسے بتا دوں کہ میں نے امام بیہقی کی کتاب کے جس نسخے کا سکین لگایا ہے وہ 1313ھ میں شائع ہوا تھا ۔
دیکھو ابن بکیر سے آخر تک ایک ہی سند ہے مگر امام بخاری کو ان راویوں نے من السماء کا لفظ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔۔اور پھر سالوں بعد یہ لفظ ان احادیث میں وارد ہو گیا۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو پوری حدیث یوں ہے أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ يُونُسَ. وَإِنَّمَا أَرَادَ نُزُولَهُ مِنَ السَّمَاءِ بَعْدَ الرَّفْعِ إِلَيْهِ
اما م بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔ مگر بخاری میں یہ الفاظ یعنی ’من السماء‘ موجود نہیں۔پھر کتاب الاسماء و الصفات کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ1328 ھ میں شائع ہوا یعنی کے حضرت مرزاصاحب کی وفات کے بھی بعد اور حضور اپنی کتب میں کئی دفعہ یہ چیلنج دے چکے تھے کہ کسی صحیح حدیث سے آسمان کے الفاظ نکال کر دیکھاو تو مولوی حضرات نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس لفظ کا اضافہ کرد یا اس بات کی تائید درمنثور سے بھی ہوتی ہے کیونکہ درمنثور نے اسی حدیث کو امام بیہقی کی اس کتاب الاسماءو الصفات کے حوالہ سے نقل کیا ہے مگر انہوں نے بھی من السماء کا لفظ نہیں لکھا جس
سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بعد کا اضافہ ہے اصل میں یہ الفاظ موجود نہ تھے۔
ویسے کوئی مرزائی مربی " کتاب الاسماء و الصفات " کا کوئی پرانا نسخہ ہی پیش کر دے جس میں وہ الفاظ نہ ہوں ؟؟
مربی جی مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتاب " حقیقۃ الوحی " سنہ 1313 ہجری میں کے بعد لکھی جس میں اس نے یہ چیلنج دیا تھا کہ کسی " صحیح مرفوع متصل حدیث میں عیسیٰ علیہ اسلام کے آسمان سے نازل ہونے کا زکر نہیں " جبکہ امام بیہقی کی "کتاب الاسماء و الصفات " ہندوستان میں اس سے پہلے طبع ہوچکی تھی ( لیکن شاید مرزا کے خدا نے اسے بتانا مناسب نہ سمجھا ) اور مرزا غلام قادیانی چیلنج چکنا چوڑ ہوگیا ۔
جناب میں آپ الگ سے یہ سکین لگا دیں تاکہ واضح ہو جائے۔۔پھر میں آگے بات کرتا ہوں اور آپکی باقی باتوں کا جواب بھی دیتا ہوں۔۔مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی کے یہ کیا لکھا ہوا ہے۔بہرحال اپ یہ سکین دبارہ لگا دیں صرف کتاب کا ٹائیٹل صفحہ