ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 47 ("فلما توفیتنی" اور مرزا کا جھوٹ اسی کی کتاب سے عیاں)
۴۷… ’’
اذ قال اﷲ یا عیسیٰ أنت قلت للناس… الیٰ آخر
‘‘ اور ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھا۔ نہ زمانہ استقبال کا۔ نیز ص۳۰۴ پر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ سوال وجواب حضرت مسیح علیہ السلام سے عالم برزخ میں کیاگیا تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۲، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
ابوعبیدہ: اس میں دو جھوٹ ہیں۔ نمبر۴۷ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت یہ سوال وجواب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور خدائے تعالیٰ کے درمیان ہوچکے تھے۔ پھر خود ہی اس کا جھوٹ ہونا۔ (کشتی نوح ص۶۹) پر اس طرح تسلیم کیا ہے۔ ’’جو اقرار اس (عیسیٰ علیہ السلام) نے آیت ’’
فلما توفیتنی
‘‘ کی رو سے قیامت کے دن کرنا ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۹، خزائن ج۱۹ ص۷۶)
نیز اﷲتعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے یہ باتیں قیامت کے دن کریں گے۔ (ملخصاً براہین احمدیہ حصہ۵ ص۴۰، خزائن ۲۱ ص۵۱)
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 48 (ماضی کے پہلے اذ آ جانے سے معنی استقبال کے مراد ہوتے ہیں۔)
۴۸… قرآن میں بیسیوں جگہ ماضی کے پہلے اذ آ جانے سے معنی استقبال کے مراد ہوتے ہیں۔ خود مرزاقادیانی (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۶، خزائن ج۲۱ ص۱۵۹) پر لکھتے ہیں: ’’جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے۔‘‘ پھر یہ آیت بطور مثال پیش کی ہے۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 49، 50 ( وفات مسیحؑ ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف)
۴۹… تیسویں آیت یہ ہے: ’’
او ترقی فی السماء قل سبحان ربی ہل کنت الا بشرا رسولاً
‘‘ ترجمہ یعنی کفار کہتے ہیں تو (اے محمدﷺ) آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دار ابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھا دے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرتﷺ سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھا اور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۲۶، خزائن ج۳ ص۴۳۷،۴۳۸) ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے ایک تو خدا پر افتراء کیا ہے۔ ساری آیت نقل نہیں کی اور جتنی نقل کی ہے وہ بھی غلط۔ درمیان سے آیت کا ضروری حصہ ہضم ہی کر گئے ہیں۔ یہاں دھوکہ دینا مطلوب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے بعد دوسری آیت کی طرح حوالہ نہیں لکھا۔ حوالہ ہم سے سنئے۔ (سورہ اسرائیل:۹۳) جواب خط کشیدہ جملہ نہیں ملا تھا۔ بلکہ جواب یہ تھا کہ: ’’میں بشر ہوں۔ رسول ہوں۔ میں خود تمہارے لئے معجزہ تجویز نہیں کر سکتا۔‘‘ اور باقی کا ترجمہ تو بالکل تحریف مجسم ہے۔
۵۰… دوسرا جھوٹ اس میں یہ ہے۔ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ: ’’یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘ توریت سے حضرت ایلیا علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہے۔ انجیل اور قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ساری پڑھی لکھی دنیا کو معلوم ہے۔ معراج کی رات حضرت رسول اﷲﷺ کا رفع جسمانی قرآن اور حدیث سے ایسے طریقہ سے ثابت ہے کہ جس کا انکار ایک شریف آدمی سے ممکن نہیں۔ خود مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷) پر لکھتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کے رفع جسمانی کے بارہ میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے ساتھ شب معراج آسمانی کی طرف اٹھا لئے گئے تھے۔ تقریباً تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا۔‘‘ حضرت ایلیا کا رفع جسمی ملاحظہ ہو۔ (سلاطین۲، باب۲، آیت۱) اور مسیح کا رفع جسمی لوقا باب۲۴، آیت۵۰، اعمال باب۱۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 51 (اکثر احادیث صحیح ہونے کے باوجود مفید نہیں)
۵۱… ’’اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں۔
والظن لا یغنی من الحق شیئاً
‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵۴، خزائن ج۳ ص۴۵۳)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی کا صریح کذب وبہتان ہے۔ اگر حدیث کا یہی مرتبہ ہوتا تو اﷲتعالیٰ اپنے کلام پاک میں یوں نہ فرماتے۔
۱… ’’
اطیعوا اﷲ واطیعو الرسول
(نساء:۵۹)‘‘
۲… ’’
قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ
(آل عمران:۴۱)‘‘
۳… ’’
فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرج مما قضیت ویسلموا تسلیما
(نساء:۶۵)‘‘
’’
وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرہ من امرہم ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا
(الاحزاب:۳۶)‘‘
پہلی آیت میں اﷲتعالیٰ نے کلام اﷲ اور صحیح حدیث نبوی کی اطاعت کا ایک جیسا حکم دیا ہے۔ دوسری آیت میں رسول کریمﷺ کی حدیث کی اطاعت کو اپنا محبوب ننے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ تیسری آیت حدیث رسول اﷲﷺ کی اطاعت کو معیار ایمان قرار دیا ہے۔ چوتھی آیت میں اﷲ جس طرح کلام اﷲ کے مخالف اور منکر کو گمراہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح مخالف حدیث رسول کو بھی مردود ٹھہرا رہے ہیں۔ اس طرح کی آیات سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے۔ جس کا جی چاہے۔ مطالعہ کرے یا اگر مزید ایسی آیات کی ضرورت ہو تو مجھ سے حوالے طلب کر سکتا ہے۔
تصدیق از مرزاقادیانی
(شہادت القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۲۹۹) ’’ہمیں اپنے دین کی تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں۔ نماز، زکوٰۃ کے احکام کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں… اسلامی تاریخ کا مبداء اور منبع یہی احادیث ہیں۔ اگر احادیث کے بیان پر بھروسہ نہ کیا جائے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی یقینی طور پر نہیں ماننا چاہئے کہ درحقیقت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ آنحضرتﷺ کے اصحاب تھے۔‘‘
’’اگر یہ مسیح ہے کہ احادیث کچھ چیز نہیں تو پھر مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ آنحضرتﷺ کی پاک سوانح میں سے کچھ بھی بیان کر سکیں۔‘‘ ’’اگر احادیث کی نسبت ایسی ہی رائیں قبول کی جائیں تو سب سے پہلے نماز ہی ہاتھ سے جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے تو نماز پڑھنے کا نقشہ کھینچ کر نہیں دکھلایا۔ صرف یہ نمازیں احادیث کے بھروسہ پر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ (ملخص خزائن ج۶ ص۲۹۹تا۳۰۱)
اب فرمائیے حضرات نمبر۵۱ کس قدر زبردست جھوٹ ہے۔ جہاں حدیث صحیحہ کے حکم کو بھی حق کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 52 ،53 (قرآن مجید نے مسیحؑ کے نکلنے کی مدت 1400 برس بتائی ہے)
۵۲،۵۳… ’’قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی ۱۴۰۰برس تک مدت ٹھہرائی ہے۔ بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۵، خزائن ج۳ ص۴۶۴)
ابوعبیدہ: یہاں بھی مرزاقادیانی نے دو جھوٹ بلکہ زبردست افتراء کر کے اپنا الوسیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوّل… قرآن شریف پر افتراء: قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں ۱۴۰۰برس کے بعد مسیح کے نکلنے کی اطلاع ہو۔ یہ مرزاقادیانی کا دجل وفریب ہے۔ دوم… یہی دعویٰ بہت سے اولیاء اﷲ کی طرف بھی منسوب کیا ہے۔ اگر اس دعویٰ میں سچے ہوتو کم ازکم دوچار سو اولیاء اﷲکا نام تو لواور ان کی تحاریر پیش کرو۔ جنہوں نے ایسا لکھا ہے یا جن چند ہستیوں نے ایسا لکھا ہے۔ اگر آپ انہیں اولیاء اﷲ مانتے ہیں تو چلو ہمارے تمہارے اختلافات کا جو وہ فیصلہ کریں اس کو صحیح مان لو۔ اگر ذرا بھر بھی ایمانی جرأت ہو تو اعلان کردو۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 54 (مجھ سے پہلے مسیح موعود کا دعوی کسی نے نہیں کیا)
۵۴… ’’اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے۔ کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ اس مدت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸۳، خزائن ج۳ ص۴۶۹)
ابوعبیدہ: دروغ بے فروغ ہے۔ سنئے اور بالفاظ مرزا سنئے:
۱… ’’شیخ محمد طاہر صاحب مصنف مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افتراء کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۴۰، خزائن ج۲۲ ص۳۵۳)
۲… (لیکچر مرزا در لاہور) پر خود مرزاقادیانی نے ’’ایک مدعی مسیحیت کا ذکر کیا ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۴ء) میں لکھا ہے: ’’بہاء اﷲ نے ۱۲۶۹ھ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ۱۳۰۹ء تک زندہ رہا۔‘‘ پندرہ بیس اور کذابین نے بھی مختلف زمانوں میں دعویٰ مسیحیت کیا تھا۔ جن کا ذکر یہاں طوالت کا باعث ہے۔ پھر مرزاقادیانی کس دیدہ دلیری سے انکار بھی کرتے ہیں اور اقرار بھی۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 55 ، 56 ( دجال کا گدھا اور مرزا کا افتراء علی الرسول)
۵۵،۵۶… ’’احادیث صحیحہ کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ گدھا دجال کا اپنا ہی بنایا ہوا ہوگا۔ پھر اگر وہ ریل نہیں اور کیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸۵، خزائن ج۳ ص۴۷۰) ابوعبیدہ: یہاں بھی مرزاقادیانی کے دو جھوٹ موجود ہیں۔ ایک تو افتراء علی الرسول۔ کسی صحیح حدیث میں خردجال کا انسانی ساخت ہونا مذکور نہیں ہے۔ باقی اشارہ کے کیا کہنے ہیں۔ جو شخص دمشق سے مراد قادیان اور ابن مریم سے مراد ابن غلام مرتضیٰ لے سکتا ہے۔ اس کے آگے خردجال کا انسانی ساخت ہونا احادیث سے ثابت کرنا بالکل آسان بات ہے۔ (دوسرا) مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ انگریز پادری ہی صرف دجال ہیں۔
دروغگورا حافظہ نہ باشد!
اسی (ازالہ ص۲۹۴) ’’عیسائی پادریوں کا گروہ بلاشبہ دجال معہود ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲۲، خزائن ج۳ ص۴۸۸) پھر ریل کیا پادریوں کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ تو تمام دنیا جہاں کے ملکوں میں بنتی ہے۔ جاپان کے پاس بھی ہے جو بدھ مذہب ہے۔ روس کے پاس بھی ہے جو دھریہ ہے۔ ترکوں اور عربوں کے پاس بھی ہے جو مسلمان ہیں۔ کیا یہ سب دجال ہیں۔ جاپان، روس، ترکی اور یورپ کے تمام لوگ جو ریل گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ کیا یہ کلہم پادری ہیں۔ سبحان اﷲ! کیا کہنے ہیں قادیانی مسیح اور اس کے مریدین کے۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 57 (مسیحؑ کی اپنے حواریوں کو نصیحت اور مرزے کی چالاکی)
۵۷… (انجیل کی پیش گوئی) ’’بہتیرے میرے (حضرت مسیح علیہ السلام کے) نام پر آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں۔ پر سچا مسیح ان سب کے آخر میں آئے گا اور مسیح نے اپنے حواریوں کو نصیحت کی تھی کہ تم آخر کا منتظر رہنا۔ میرے آنے کا یعنی میرے نام پر جو آئے گا اس کا نشان یہ ہے کہ اس وقت سورج اور چاند تاریک ہو جائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸۴، خزائن ج۳ ص۴۶۹)
ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے انجیل پر صریح افتراء کیا ہے۔ انجیل میں صاف لکھا ہے کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام ہی دوبارہ آئیں گے اور جھوٹے مدعیان مسیحیت کی یہی نشانی ہوگی کہ وہ مسیح علیہ السلام کے نام پر آنے کا دعویٰ کریں گے۔ (متی باب۲۴، آیت۳،۴) اگر مرزے کذاب کی اتنی سی بات کو بھی صحیح بھی لیا جائے تو بھی مرزا سچا ثابت نہیں ہوتا ۔ مرزا مسیحیت کے دعوے میں آخری نہیں بلکہ موجودہ دور میں اسدالسلام شاہ، نسیم احمد طاہر آج اکیسویں صدی میں موجود ہیں جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 58، 59 (وہ چیزیں جن کی حقیقت آپﷺ کو نہیں معلوم ہوئی، مرزا کو پتا چل گئیں)
۵۸،۵۹… ’’اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرتﷺ پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کما ہی ظاہر فرمائی گئی ہو اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے۔ اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے جھوٹوں کا انبار لگادیا ہے۔
۱… رسول پاکﷺ کے قویٰ کو ایسا کمزور تصور کیا ہے کہ جو باتیں مرزاقادیانی نے سمجھ لیں۔ وہ رسول پاکﷺ نہیں سمجھ سکتے تھے۔
۲… ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ کسی نمونہ کے موجود نہ ہونے کے سبب نہ سمجھ سکے۔ کیوں مرزاقادیانی! اس وقت عیسائی پادری اور یہودی دجل وفریب کرنے والے موجود نہ تھے۔ جب موجود تھے تو آپ نے کس طرح کہہ دیا۔ ’’بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے۔‘‘
اور پھر مرزے نے تو (ازالہ اوہام ص۲۷۰، خزائن ج۳ ص۲۳۷) پر لکھا ہے کہ: ’’توریت میں پیش گوئی تھی کہ مسیح سے پہلے ایلیا آئے گا اور مراد اس سے حضرت یحییٰ علیہ السلام تھے۔‘‘
کیا یہ نمونہ رسول پاکﷺ کو معلوم نہ تھا۔ سخت افسوس ہے آپ کی اس مسیحانہ دیانت اور تقویٰ پر کہ خدا۔ اس کے رسولوں، اس کی کتابوں اور بزرگان دین پر افتراء کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجکتے۔ جھوٹ تو اس عبارت میں ۱۰ کے قریب تھے۔ مگر رعایت کر کے صرف دو پر ہی اکتفا کیا ہے۔ خود ہی جھوٹ نمبر۶۱ میں ان دونوں کی تردید کر رہے ہیں۔
کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 61 ( مسیحؑ کی دوبارہ آمد کے متعلق مرزا قادیانی کا آپ ﷺ پر بہتان)
۶۱… ’’قرآن اور حدیث غور کرنے سے یہ بخوبی ثابت ہوگیا ہے کہ ہمارے سید ومولیٰﷺ نے یہ تو یقینی اور قطعی طور پر سمجھ لیا تھا کہ وہ ابن مریم جو رسول اﷲﷺ نبی ناصری صاحب انجیل تھے۔ وہ ہرگز دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا۔ بلکہ اس کا کوئی سمی آئے گا جو بوجہ مماثلت روحانی اس کے نام کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے پائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام، ص۶۹۲، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
ابوعبیدہ: سفید جھوٹ! تمام قادیانی بمعہ اپنے نبی کے مل کر کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں دکھا سکتے۔ جس میں آپﷺ نے ایسا فرمایا ہو بلکہ رسول پاکﷺ کی بیسیوں حدیثیں صاف صاف اعلان کر رہی ہیں کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی تشریف لائیں گے۔