• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ترک مرزائیت

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اگر کوئی لاہوری جماعت کا مرزائی چھ ماہ کے اندر اس کتاب کا جواب لکھے گا تو بعد فیصلہ منصف اسے ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن مئی ۱۹۳۲ء میں اور دوسرا ایڈیشن نومبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ باوجود دوسال گزر جانے کے کسی لاہوری مرزائی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس کے جواب میں قلم اٹھا سکے۔ ہم آج کی تاریخ سے پھر اعلان کئے دیتے ہیں کہ اگر شرائط مندرجہ کے ماتحت مزید ایک سال کے عرصہ میں ہماری کتاب کا جواب لکھا گیا تو ہم انعام دینے کو تیار ہیں۔ لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ
۲۰؍اپریل ۱۹۳۴ء
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
ترک مرزائیت کے وجوہ لکھنے کا میرا ارادہ نہیں تھا۔ مگر میرے چند احباب نے مجبور کیا کہ میں مرزائیت کے متعلق اپنی معلومات معرض تحریر میں لاؤں تاکہ عامتہ المسلمین اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ میرے محترم چچا جان خان سلطان احمدخان رحمۃ اللہ علیہ نے جو تردید مرزائیت میں یدطولیٰ رکھتے تھے اس کتاب کے متعلق مفید مشورے اور حوالہ جات سے میری مدد کی۔

مرزا صاحب کے عقائد باطلہ​

اسلام اور مرزاقادیانی کے عقائد میں بعد المشرقین ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے معجون مرکب عقائد کی تائید کے لئے خواہشات نفسانی سے ایسے خلاف شریعت الہام گھڑ لئے تھے جنہیں اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ انہیں خلاف قرآن وحدیث الہامات کے صدقے میں محدثیت، مجددیت، مہدویت، مسیحیت، محمدیت، کرشنیت، جے سنگھیت، ظلیت، بروزیت، نبوت وغیرہ کے دعاوی کر بیٹھے۔ اس پر بھی بس نہ کی اور صبر نہ آیا تو غضب یہ ڈھادیا کہ خدا کا بیٹا بنے۔ مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ترقی کی تو خود خدا ہونے کا اعلان کر کے نئے زمین وآسمان پیدا کرنے کے بعد تخلیق بنی نوع انسان کا دعویٰ کردیا۔ آخری میدان یہ مارا کہ اپنے پیدا ہونے والے بیٹے کی مثال اﷲتعالیٰ سے دی اور لکھ دیا۔
فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاء کان اﷲ نزل من السماء (یعنی میرا پیدا ہونے والا بیٹا دلبند گرامی ارجمند ہوگا اور وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اترے گا)
(البشریٰ ج۲ ص۲۱،۱۲۴، ازالہ اوہام ص۱۵۵، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
مرزاقادیانی کے اسی قسم کے عقائد باطلہ تھے جن کی بناء پر علمائے اسلام نے مرزاقادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اس وقت ہم اپنی طرف سے ان اقوال پر زیادہ جرح اور تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ مرزاقادیانی کے دعاوی اور عقائد انہیں کے الفاظ میں ناظرین تک پہنچا دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی اپنی نسبت لکھتے ہیں:
۱… ’’میں محدث ہوں۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
۲… ان الفاظ میں مجددیت کا دعویٰ کیا ہے:
رسید مژدہ زغیب کہ من ہماں مرد
کہ او مجدد ایں دین و راہنما باشد
(ترجمہ) ’’مجھے غیب سے خوشخبری ملی کہ میں وہ مرد ہوں کہ اس دین کا مجدد اور راہنما ہوں۔‘‘ (درثمین فارسی ص۱۳۶، تریاق القلوب ص۴، خزائن ج۱۵ ص۱۳۲)
اپنی مہدویت کا اعلان کرتے ہیں۔
۳… ’’میں مہدی ہوں۔‘‘ (معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
آیت: ’ ’مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
۴… ’’اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیش گوئی مجرد احمد، جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے، بھیجا گیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
اگرچہ اس عبارت میں مرزاقادیانی نے لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ ان الفاظ کے لکھنے سے صرف یہ مقصد نظر آتا ہے کہ اگر ابتداء میں ہی صاف طور پر لکھ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد نہیں تو عامتہ المسلمین متنفر ہو جائیں گے۔ لیکن آیت کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی مندرجہ سورۂ صف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ تھی بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے تھی۔
تریاق القلوب میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۵…
منم مسیح زماں و منم کلیم خدا
منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد
(ترجمہ) ’’میں مسیح زمان ہوں۔ میں کلیم خدا یعنی موسیٰ ہوں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد مجتبیٰ ہوں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)
دوسری جگہ اس کی مزید تشریح کرتے ہیں:
۶… ’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاءo کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۲، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
اپنی اسی کتاب میں پھر لکھا ہے:
۷… ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ بن مریم ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت ’’جری اﷲ فی حلل الانبیاء‘‘ فرمایا۔ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جائے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴،۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
اپنی مجددیت اور مہدویت کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے یوں گویا ہوئے ہیں:
۸…
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص۱۳۳، درثمین ص۷۴)
ناظرین کرام! حوالہ جات بالا سے روزروشن کی طرح ظاہر ہوگیا ہے کہ مرزاقادیانی نے کس دیدہ دلیری سے تمام انبیاء علیہم السلام کے نام اپنی طرف منسوب کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ہر نبی کی شان مجھ میں پائی جاتی ہے۔ گویا تمام انبیاء کے مقابل پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ فرداً فرداً ہر نبی کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو جو کمال عطاء کئے گئے تھے، مجموعی طور پر وہ سارے کے سارے کمالات مجھ (مرزاقادیانی) کو دئیے گئے ہیں۔ مرزاقادیانی کھلے الفاظ میں اعلان کرتے ہیں:
۹…
آدمم نیز احمد مختار
در برم جامہ ہمہ ابرار
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرابتمام
(درثمین فارسی ص۱۷۱، نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
(ترجمہ) ’’میں آدم ہوں، نیز احمد مختار ہوں۔ میں تمام نیکوں کے لباس میں ہوں۔ خدا نے جو پیالے ہر نبی کو دئیے ہیں، ان تمام پیالوں کا مجموعہ مجھے دے دیا ہے۔‘‘
لاہوری احمدیو! خدا کے لئے انصاف سے جواب دو کہ کیا مرزاقادیانی کے ان اشعار کا یہ مفہوم نہیں کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے کمالات کا مجموعہ کہہ رہے ہیں؟ اور اپنے آپ کو کسی نبی سے درجہ میں کم نہیں سمجھتے۔ اسی ادّعا ناروا کو اس شعر میں دہرایا ہے۔
۱۰…
انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفان نہ کمترم زکسے
(درثمین فارسی ص۱۷۲، نزول المسیح ص۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۸)
(ترجمہ) ’’اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں۔ میں عرفان میں ان نبیوں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
حیرت ہے کہ مرزاقادیانی نے صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ میں نبوت کی ایسی معجون ہوں جو تمام نبیوں کے کمالات سے مرکب ہوں۔ بلکہ اس سے اوپر بھی ایک اور چھلانگ لگا کر دنیا کو اطلاع دی ہے کہ میں وہ تھیلا ہوں کہ جس میں تمام نبی بھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۱۱…
زندہ شد ہر نبی بامدنم
ہر رسولے نہاں بہ پیراہنم
(درثمین فارسی ص۱۷۳، نزول المسیح ص۱۰۰ ج۱۸ ص۴۷۸)
(ترجمہ) ’’میری آمد کی وجہ سے ہر نبی زندہ ہوگیا۔ ہر رسول میرے پیراہن میں چھپا ہوا ہے۔‘‘ ’’ معاذ اﷲ من ہذا الہفوات ‘‘ (اختر)
ایک جگہ اپنی بڑائی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
۱۲… ’’اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راست باز مقدس نبی گزر چکے ہیں ۔ ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں ۔ سو وہ میں ہوں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۰، خزائن ج۲۱ ص۱۱۷،۱۱۸)
لاہوری مرزائیو! جب مرزاقادیانی اپنے آپ کو تمام راست باز اور مقدس نبیوں کے کمالات کا مجموعہ یا عطر قراردے رہے ہیں تو بتاؤ کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر فضیلت کلی کا مدعی ہونے میں کون سی کسر باقی رہ گئی ہے؟ جواب دیتے وقت سوچ لینا کہ تمہارے سامنے کون ہے۔
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کر​
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۱۳…
روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار​
(درثمین اردو ص۸۴، براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۳، خزائن ج۲۱ ص۱۴۴)
معزز ناظرین ! اس شعر میں مرزاقادیانی کس بلند آہنگی سے اعلان کر رہے ہیں کہ تہذیب، شرافت، تمدن اور معاشرت انسانی کا جو باغ حضرت آدم علیہ السلام نے لگایا تھا۔ وہ اب تلک ادھورا اور نامکمل تھا۔ اب میرے آنے کی وجہ سے وہ انسانیت کا باغ پھولوں اور پھلوں سے بھر گیا ہے۔ یعنی میرے آنے سے دنیا کا کارخانہ مکمل ہوا ہے اور جب تک میں نہیں آیا تھا، دنیا نامکمل تھی۔ اگر میں پیدا نہ ہوتا تو یہ تمام جہان بھی عالم وجود میں نہ آتا۔ نہ چاند، سورج اور سیارے ہوتے، نہ زمین بنتی، نہ نسل انسانی کا نام ونشان ہوتا۔ نہ انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے، نہ قرآن مجید نازل ہوتا۔ غرضیکہ زمین وآسمان کا ہر ذرہ غلام احمد قادیانی کی وجہ سے ہی پیدا کیاگیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے:
۱۴… ’’ لولاک لما خلقت الا فلاک ‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۲، تذکرہ ص۶۱۲،طبع سوم، حقیقت الوحی ص۹۸، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲)
(ترجمہ)اے مرزا! ’’اگر تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔‘‘
دوسرا الہام ان الفاظ میں ہوتا ہے:
۱۵… ’’ کل لک ولامرک ‘‘ (الہام مندرجہ البشریٰ ج۲ ص۱۲۷، تذکرہ ص۷۰۶، ط۳)
(ترجمہ) ’’سب تیرے لئے اور تیرے حکم کے لئے ہے۔‘‘
مرزاقادیانی تحریر کرتے ہیں:
۱۶… ’’ فجعلنی اﷲ آدم اواعطانی کل ما اعطا لابی البشر وجعلنی بروز الخاتم النبیین وسید المرسلین ‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۶۷، خزائن ج۱۶ ص۲۵۴)
(ترجمہ) ’’خدا نے مجھ کو آدم بنایا اور مجھ کو وہ سب چیزیں بخشیں جو ابوالبشر آدم کو دی تھیں اور مجھ کو خاتم النّبیین اور سید المرسلین کا بروز بنایا۔‘‘
اسی کی مزید تشریح کرتے ہیں:
۱۷… ’’اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب آیت ’’ وآخرین منہم ‘‘ دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیرممکن تھا۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطاء کیا تاکہ یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا (یعنی مرزاقادیانی کا) ظہور بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۱، خزائن ج۱۷ ص۲۶۳)
اسی مفہوم کو دوسری جگہ دہرایا ہے:
۱۸… ’’ وانزل اﷲ علی فیض ہذا الرسول (محمد) فاتمہ واکملہ وجذب الی لطفہ وجودہ حتی صاروجودی وجودہفمن دخل فی جماعتی دخل فی صحابۃ سیدی خیر المرسلین وہذا ہو معنی وآخرین منہم ‘‘
(ترجمہ) ’’اور خدا نے مجھ (مرزاقادیانی) پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری (مرزاقادیانی) کی طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔ پس وہ جو میری جماعت (قادیانیت) میں داخل ہوا، درحقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ بھی داخل ہوا اور یہی معنی آخرین منہم کے بھی ہیں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹)
۱۹… مرزاقادیانی کو الہام ہوتا ہے: ’’محمد مفلح‘‘
اس کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ آج اﷲتعالیٰ نے میرا ایک اور نام رکھا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں۔ تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور یہ الہام ہوا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۹، تذکرہ ص۵۵۷، ط۳)
مندرجہ بالا حوالہ جات صاف بتا رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کا الہامی نام محمد مفلح ہے اور مرزاقادیانی ہمدردی خلائق، ہمت اور اخلاق حسنہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہیں اور مرزاقادیانی کا ظہور بعینہٖ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے اور جو شخص جماعت مرزائیہ میں داخل ہوا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں داخل ہوگیا۔
لاہوری احمدیو! تمہارا بھی ان باتوں پر ایمان ہے یا نہیں؟
مرزاقادیانی صاف فرماتے ہیں:
۲۰… ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکرq کے درجہ پر ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکرq کیا، وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے؟‘‘ (معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
مرزاقادیانی کو ایک شعر الہام ہوتا ہے:
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۲۱…
مقام او مبیں ازراہ تحقیر
بدو رانش رسولاں ناز کردند
(الہامی شعر مندرجہ البشریٰ ج۲ ص۱۰۹، تذکرہ ص۶۰۴، ط۳)
(ترجمہ) ’’اس کے یعنی مرزا کے مقام کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو۔ مرز اکے زمانے کے لئے رسول بھی فخر اور ناز کرتے تھے۔‘‘
مرزاقادیانی کے بیٹے اور قادیان کے موجودہ گدی نشیں مرزامحمود احمد کی پیدائش کے بعد اسی نوزائیدہ بچے کے متعلق مرزاقادیانی پر ایک الہام ان الفاظ میں برستا ہے:
۲۲…
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
(ترجمہ) ’’اے فخر رسل، تیرا قرب ہمیں معلوم ہوگیا ہے۔ تو دیر سے آیا ہے اور دور کے راستہ سے آیا ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۴۲، خزائن ج۱۵ ص۲۱۹)
لاہوری جماعت کے ممبرو! بہت ہی جلدی اور دو لفظہ جواب دو کہ مرزامحمود احمد موجودہ گدی نشین قادیان فخر رسل ہے یا نہیں؟ اور وہ کون کون سے نبی تھے جو مرزاقادیانی کے زمانہ پرناز کیا کرتے تھے؟ اور تمہارے ایمان کے مطابق مرزاقادیانی کس کس نبی سے افضل ہیں؟
مرزاقادیانی رقمطراز ہیں:
۲۳…
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے​
(دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
اسی کتاب میں لکھا ہے:
۲۴… ’’اے عیسائی مشنریو! اب ’’ ربنا المسیح ‘‘ مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۲)
ازالہ اوہام میں اپنے عقیدے کا اظہار اس شعر میں کرتے ہیں:
۲۵…
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تا بنہد پا بمبرم
(ترجمہ) ’’میں وہ ہوں کہ جو حسب بشارات آیا ہوں۔ عیسیٰ کہاں ہے کہ میرے منبر پر پاؤں رکھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
اپنے اسی اعتقاد کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
۲۶… ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا ہے جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲)
اسی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں:
۲۷… ’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام، جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان، جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں، وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲)
ایک جگہ یوں لکھا ہے:
۲۸… ’’مسیح محمدی، مسیح موسوی سے افضل ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۷)
اسی کتاب میں دوبارہ ارشاد ہوتا ہے:
۲۹… ’’مثیل موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم، ابن مریم سے بڑھ کر۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۳، خزائن ج۱۴ ص۱۱۹)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب غیظ وغضب کی حالت میں لکھتے ہیں:​

۳۰… ’’پھر جب کہ خدا نے اور اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۵، خزائن ج۲۲ ص۱۵۹)
مرزاقادیانی کے ان حوالہ جات سے صاف ثابت ہو رہا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل واعلیٰ قرار دے رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ: ’’میں پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہوں۔‘‘ اور یہ جزوی فضیلت نہیں بلکہ کلی فضیلت ہے اور غیر نبی کو نبی پر فضیلت کلی ہونہیں سکتی۔
لاہوری احمدیو! بے جا تاویلات کو چھوڑ کر ایمان سے بتانا تمہارا اس کے متعلق کیا جواب ہے؟ مرزاقادیانی تو صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کلی فضیلت کا اقرار کر رہے ہیں اور تمہیں ساتھ ہی یہ بھی نصیحت کر رہے ہیں کہ ؎
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر چھوڑ دو۔ لیکن تمہارے لئے مشکل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی کئی دفعہ آیا ہے۔ ایمان سے سچ سچ بتانا کہ تم نے اپنے حضرت مرزاصاحب کے اس ارشاد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے یا ان آیات کو پڑھا اور سنا نہیں کرتے جن میں ابن مریم علیہ السلام کا ذکر ہے؟ سوچ سمجھ کر جواب دینا۔ ہاں! لگے ہاتھ یہ بھی بتادینا کہ تمہارے مجدد اور گورو سے وہ کون کون سے ایسے نشانات ظاہر ہوئے تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ظاہر نہ ہوسکے؟ ذرا تفصیل سے بیان کرنا۔ لیکن کہیں اپنے کرشن جی مہاراج کی پیش گوئیاں پیش نہ کر دینا۔ کیونکہ مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے اپنی لاجواب کتاب ’’الہامات مرزا‘‘ میں مرزاقادیانی کی تمام متحدیانہ پیش گوئیوں کے ٹانکے کھول دئیے ہوئے ہیں۔
مرزاقادیانی فخریہ لکھتے ہیں:
۳۱… ’’اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین رضی اللہ عنہ تمہارا منجی ہے۔ کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر رہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
اپنی شان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
۳۲…
کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
(درثمین فارسی ص۱۷۱، نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
(ترجمہ) ’’میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے۔ سو(۱۰۰) حسین رضی اللہ عنہ ہر وقت میری جیب میں ہیں۔‘‘
اعجاز احمدی میں مرزاقادیانی رقمطراز ہیں:
۳۳…
شتان ما بینی و بین حسینکم
فانی اؤید کل ان وانصر
واما حسین فاذکروا دشت کربلا
الی ہذہ الایام تبکون فانظروا
(اعجاز احمدی ص۶۹، خزائن ج۱۹ ص۱۸۱)
(ترجمہ) ’’مجھ میں اور تمہارے حسین رضی اللہ عنہ میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ پس تم دشت کربلا کو یاد کرلو۔ اب تک تم روتے ہو، پس سوچ لو۔‘‘
۳۴…
انی قتیل الحب لکن حسینکم
قتیل العدی فالفرق اجلے واظہر
(ترجمہ) ’’میں محبت کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین رضی اللہ عنہ دشمنوں کو کشتہ ہے۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
ناظرین! مرزاقادیانی کی ان بے جا تعلّیوں کو دیکھئے کہ کن مکروہ الفاظ اور کس متکبرانہ لہجہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے افضلیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار، عظیم الشان قربانی اور شہادت عظمیٰ کی تعریف میں دنیا کی تمام غیرمسلم اقوام تک رطب اللسان ہیں۔ کربلا کے معرکہ حق وباطل میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جس عزم، جرأت، صبر، استقلال اور بہادری کا اعلیٰ ترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا، وہ آپ ہی اپنی نظیر ہے۔ اس عظیم الشان شہادت کے سامنے مرزاقادیانی کو پیش کرنا آفتاب کے سامنے چمگادڑ کو لانا ہے ؎
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
کہاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ایثار، صبر اور استقامت حق اور کہاں مرزا کی بزدلی کہ ایک معمولی مجسٹریٹ کی چشم نمائی پر فوراً لکھ دیا کہ میں کسی مخالف کے متعلق موت وعذاب وغیرہ کی انذاری پیش گوئی بغیر اس کی اجازت کے شائع نہ کروں گا۔ اتنا ڈرپوک اور بزدل ہونے کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ سو(۱۰۰) حسین رضی اللہ عنہ میری جیب میں ہیں۔ انتہائی کذب آفرینی نہیں تو اور کیا ہے؟
مرزائیو! تمہارے مرزاقادیانی نے جو کہا: ’’انی قتیل الحب‘‘ تم بتاؤ کہ مرزاقادیانی کس کی محبت کے کشتہ تھے؟ جواب دیتے وقت اتنا یاد رکھنا کہ کہیں محمدی بیگم کا نام نہ لے لینا۔
مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ ما انا الا کالقران وسیظہر علی یدے ما ظہر من الفرقان ‘‘ میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ کہ فرقان سے ظاہر ہوا۔ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۹، تذکرہ ص۶۷۴، طبع۳)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
۳۵…
آنچہ من بشنوم ز وحی خدا
بخدا پاک دانمش ز خطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں است ایمانم
آں یقین کہ بود عیسیٰ را
برکلامے کہ شد برا و القا
واں یقین کلیم بر تورات
واں یقین ہائے سید السادات
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(درثمین ص۱۷۲، نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷،۴۷۸)
(ترجمہ) ’’جو کچھ میں خدا کی وحی سے سنتا ہوں خدا کی قسم اسے خطا سے پاک سمجھتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ میری وحی قرآن کی طرح تمام غلطیوں سے مبرّٰا ہے۔ وہ یقین جو حضرت عیسیٰ کو اس کلام پر تھا، جو ان پر نازل ہوا، وہ یقین جو حضرت موسیٰ کو تورات پر تھا، وہ یقین جو سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پاک پر تھا، وہی یقین مجھے اپنی وحی پر ہے اور اس یقین میں، میں کسی نبی سے کم نہیں ہوں۔ جو جھوٹ کہتا ہے وہ لعین ہے۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اسی باطل عقیدے کا دوسری جگہ یوں مظاہرہ کرتے ہیں:
۳۶… ’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا، یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے، ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۵،۲۶، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
مرزاقادیانی کے مخلص چیلو! جب مرزاقادیانی قرآن ہی کی طرح ہیں تو تم کیوں قرآن مجید کے درس اور قرآن پاک کے اردو، انگریزی اور جرمنی ترجموں کی رٹ لگایا کرتے ہو۔ تم مرزاقادیانی کی اصل تعلیم کو بھول گئے ہو۔ جب مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن ہی کی طرح ہوں اور وہ اپنا فوٹو بھی کھنچوا کر تمہیں دے گئے ہیں۔ پس تمہیں جہاں قرآن حکیم یا کسی زبان میں اس کی تفسیر کی وضاحت محسوس ہو، فوراً مرزاقادیانی کا فوٹو وہاں بھیج دیا کرو۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۳۷… ’’ شخصے پائے من بوسید من گفتم کہ سنگ اسود منم ‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۴۸، تذکرہ ص۳۶، ط۳، اربعین نمبر۴ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
(ترجمہ) ’’ایک شخص نے میرے پاؤں کو بوسہ دیا تو میں نے کہا کہ سنگ اسود میں ہوں۔‘‘
ہاں صاحب! آپ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنگ اسود بننے سے مریدوں کے لئے راستہ کھل جائے گا اور وہ آؤ دیکھیں گے نہ تاؤ چٹاخ پٹاخ بوسے تولے لیا کریں گے۔
لاہوری مرزائیو! تمہارے ’’قادیانی دوست‘‘ تو اب بھی مرزاقادیانی کے مزار کی بوسہ بازی سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور تم زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہے ہو ؎
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہوں رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۳۸…
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے​
(درثمین اردو ص۵۰)
احمدیو! یہاں تو آپ کے حضرت نے کمال ہی کر دیا۔ یہی وہ مرزاقادیانی کا ایجاد کردہ علم کلام ہے جس پر ناز کیا کرتے ہو؟ ذرا کان کھول کر سنو۔ فرماتے ہیں کہ قادیانکی زمین قابل عزت ہے اور لوگوں کا زیادہ ہجوم ہونے کی وجہ سے ’’ارض حرم‘‘ بن گئی ہے۔ اب تو تمہیں حج کرنے کے لئے کعبۃاﷲ جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ قادیان کی زمین ’’ارض حرم‘‘ بن گئی ہے۔ مرزاقادیانی سنگ اسود ہیں۔ ’’ انا اعطیناک الکوثر ‘‘ مرزاقادیانی کا الہام پہلے سے موجود ہے۔ (البشریٰ ج۲ ص۱۰۹، تذکرہ ص۶۰۲، طبع۳)
قادیان کی گندی اور متعفن ڈھاب کو آب زمزم سمجھ لو۔ تمہارے ’’مسیح موعود‘‘ کے مزار کے قریب ہی خردجال کا طویلہ۱؎ موجود ہے۔ اس دجال کے گدھے کے ذریعے ہندوستان کے جس حصہ سے تم چاہو، بہت جلد قادیان پہنچ جایا کرو گے۔ ہاں! یہ ساتھ ہی یاد رکھنا کہ قادیان وہی جگہ ہے جس کے متعلق تمہارے مجدد، ظلی اور بروزی نبی کا الہام ہے: ’’اخرج منہ الیزیدیون‘‘ قادیان میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حاشیہ ص۷۲، البشریٰ ج۲ ص۱۹، خزائن ج۳ ص۳۸)
ہاں جناب! ہمیں اس سے کیا مطلب۔ قادیان ’’ارض حرم‘‘ ہو یا ’’یزیدیوں کے رہنے کی جگہ‘‘ تم جانو اور تمہارا کام۔ اگر تمہیں جرأت اور حوصلہ ہو تو ہمارے ایک سوال کا جواب ضرور دینا اور وہ یہ کہ تمہارے حضرت فرماگئے ہیں کہ لوگوں کا زیادہ ہجوم ہو جانے کی وجہ سے قادیان ارض حرم ہوگیا ہے۔ کیوں صاحب! اگر انسانوں کی دھماچوکڑی اور جمگھٹا ہو جانے سے ہی کوئی جگہ ’’ارض حرم‘‘ بن جاتی ہے تو تم نیویارک، لنڈن اور برلن کو کب کعبہ بناؤ گے؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزاقادیانی پر چند الہام اس الفاظ میں برستے ہیں:​

۳۹… ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین ‘‘
(انجام آتھم ص۷۸، خزائن ج۱۱ ص۷۸)
(ترجمہ) ’’(اے مرزا!) ہم نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہانوں کے لئے تجھے رحمت بنائیں۔‘‘
۴۰… ’’ داعی الی اﷲ ‘‘ اور ’’ سراج منیر ‘‘ یہ دو نام اور دو خطاب خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں دئیے گئے ہیں۔ پھر وہی دونوں خطاب الہام میں مجھے دئیے گئے ہیں۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۳۵۰،۳۵۱)
۴۱… ’’اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود (مرزاقادیانی) ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۷۶، خزائن ج۲۳ ص۸۵)
۴۲… ’’میں ہندوؤں کے لئے کرشن ہوں۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸)
۴۳… ’’ہے کرشن جی رودرگوپال۔‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۵۶، خزائن ج۲۰ ص۲۲۹، تذکرہ ص۳۸۰، ط۳)
۱؎ یعنی ریلوے اسٹیشن۔
۴۴… ’’برہمن اوتار (یعنی مرزا صاحب) سے مقابلہ اچھا نہیں۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۶، تذکرہ ص۶۲۰، ط۳)
۴۵… ’’آریوں کا بادشاہ۔‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۵۶، تذکرہ ص۳۸۱ ط۳، تتمہ حقیقت الوحی ص۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۲)
۴۶… ’’امین الملک جے سنگھ بہادر۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۸، تذکرہ ص۶۷۲، ط۳)
۴۷… ’’ ان قدمی علے منارۃ ختم علیہ کل رفعۃ ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰)
(ترجمہ) ’’میرا قدم ایک ایسے منارہ پر ہے جس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے۔‘‘
۴۸… ’’آسمان سے کئی تخت اترے مگر تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا۔‘‘
(البشریٰ ص۵۶، تذکرہ ص۳۳۹ ط۳، حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲)
۴۹… ’’ اتانی مالم یوت احد من العالمین ‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
(ترجمہ) ’’خدا نے مجھے وہ چیز دی جو جہان کے لوگوں میں سے کسی کو نہ دی۔‘‘
ناظرین! ان الہامات میں عجیب وغریب دعاوی اور نام مرزاقادیانی کی طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ فرد واحد اتنے ناموں اور متبائن عہدوں کا مصداق کس طرح ہوسکتا ہے۔ کیا کوئی مرزائی ہے جو اپنے گورو کی ان بھول بھلیوں کو حل کرے؟ مرزاقادیانی نے کئی جگہ لکھا ہے اور مرزائی بھی اب تک اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں کہ حدیث میں مسیح ناصری اور مسیح موعود کے دو علیحدہ علیحدہ حلئے موجود ہیں۔ اس لئے مسیح ناصری ان دو حلیوں کا مصداق نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ خود مرزاقادیانی کے ڈھانچے میں محمد، احمد، عیسیٰ، موسیٰ، ابراہیم، کرشن، برہمن، اوتار، جے سنگھ بہادر وغیرہ وغیرہ مختلف ہستیاں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں؟
مرزاقادیانی اپنا الہام بیان کرتے ہیں:
۵۰… ’’ یحمدک اﷲ من عرشہ یحمدک اﷲ ویمشی الیک ‘‘
(انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص۵۵)
(ترجمہ) ’’خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی نے یہ نہیں بتایا کہ خداتعالیٰ مرزاقادیانی کے پاس پہنچا بھی تھا یا نہیں۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے ان الفاظ سے مخاطب کیا ہے:
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۵۱… ’’ انت اسمی الاعلے ‘‘
(ترجمہ) ’’اے مرزا تو میرا سب سے بڑا نام ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۶۱، تذکرہ ص۳۹۲، ط۳)
واہ جی کرشن قادیانی یہاں تو غضب ہی کر دیا۔ یہ الہام شائع کرتے وقت اتنا نہ سوچا کہ عیسائی اور آریہ سماجی کیا کہیں گے کہ مرزاقادیانی کے جنم سے پہلے مسلمانوں کوخدا کا اعلیٰ نام تک معلوم نہ تھا اور قرآن وحدیث خداوند کریم کے اعلیٰ اور ذاتی نام سے بالکل خالی تھے۔ مرزاقادیانی کے اس نئے اور اچھوتے انکشاف سے پتہ چلا کہ خداوند کا بڑا نام غلام احمد ہے۔
مرزاقادیانی کا ایک الہام ہے:
۵۲… ’’ انت مدینہ العلم ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۶۱، تذکرہ ص۳۹۲، ط۳)
(ترجمہ) ’’(اے مرزا) تو علم کا شہر ہے۔‘‘
ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ انا مدینۃ العلم وعلی بابہا ‘‘ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مگر قادیانی کرشن کہتا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں۔
مرزائیو! سچ سچ کہنا تم حدیث کو سچا جانتے ہو یا اپنے کرشن کے الہام کو؟
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۵۳… ’’ انی ھمی۱؎ الرحمن ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۸۹، تذکرہ ص۵۰۰ ط۳)
(ترجمہ) ’’میں خدا کی باڑ ہوں۔‘‘
ناظرین! مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ میں خدا کی باڑ ہوں۔ زمیندار کھیت کے گرد جو باڑ لگایا کرتے ہیں۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ کھیت کی حفاظت کی جاوے۔ معلوم ہوتا ہے

۱؎ میں اس طرز انشاء کا ذمہ دار نہیں۔ (اختر)
کہ مرزاقادیانی کا الہام کنندہ اتنا کمزور ہے کہ اسے اپنی حفاظت کے لئے مرزاقادیانی سے حفاظت کرانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ یہ ملہم مرزاقادیانی کی طرح ڈرپوک اور کمزور دل ہوگا۔ ہمارا رحمن ورحیم خدا تو قادر مطلق ہے۔
مرزاقادیانی کا الہام ہے:
۵۴… ’’ انی مع الاسباب اتیک بغتۃ انی مع الرسول اجیب اخطی واصیب ‘‘ میں اسباب کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا۔ خطا کروں گا اور بھلائی کروں گا۔ (البشریٰ ج۲ ص۷۹)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
احمدی دوستو! تمہارے گورو کا الہام کنندہ کہہ رہا ہے کہ میں خطا کروں گا۔ کیا خدائے واحد وقدوس بھی خطا کیا کرتا ہے؟ اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی جو خطاؤں اور ’’اجتہادی غلطیوں کے جال میں‘‘ ساری عمر پھنسے رہے، یہ دراصل ان کا اپنا قصور نہیں بلکہ ان کے الہام کنندہ کا چلن ہی ایسا تھا کہ وہ خود بھی خطاونسیاں کے چکر سے باہر نہ تھا۔ اسی لئے مرزاقادیانی کو تمام عمر اس گورکھ دھندے میں پھانسے رکھا۔ سچ ہے ؎
ما مریداں رو بسوئے کعبہ چوں آریم چوں
رخ بسوئے خانہ خمار دارد پیر ما
مرزاقادیانی کو الہام ہوا ہے:
۵۵… ’’ اصلی واصوم اسہر وانام ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۷۹)
(ترجمہ) ’’میں نماز پڑھوں گا اور روزہ رکھوں گا۔ جاگتا ہوں اور سوتا ہوں۔‘‘
قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ کے متعلق ارشاد ہے: ’’ لاتاخذہ سنۃ ولا نوم ‘‘ نہ اﷲتعالیٰ پر اونگھ غالب آتی ہے اور نہ نیند۔ لیکن مرزاقادیانی کو الہام ہورہا ہے کہ: ’’میں جاگتا ہوں اور سوتا ہوں۔‘‘ اب یہ مرزائیوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ان دونوں میں سے کس نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ میرے پرانے دوستو!
من نہ گویم کہ ایں کن آں مکن
مصلحت بین و کار آساں کن
مرزاقادیانی اپنی مایہ ناز کتاب ’’حقیقت الوحی‘‘ میں لکھتے ہیں:
۵۶… ’’ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خداتعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیش گوئیاں لکھیں۔ جن کا یہ مطلب تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں۔ تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خداتعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور ﷲ تعالیٰ نے بغیر کسی تأمل کے سرخی کے قلم۱؎ سے اس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پر جھاڑ دیتے ہیں اور پھر دستخط کر دیئے اور میرے پر اس وقت نہایت رقت کا عالم تھا۔ اس خیال سے کہ کس قدر خداتعالیٰ کا میرے پر فضل اور کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا، بلاتؤقف اﷲتعالیٰ نے اس پر دستخط کر دئیے اور اسی وقت میری آنکھ کھل گئی اور اس وقت میاں عبداﷲ سنوری مسجد کے حجرے میں میرے پیر دبا رہا تھا کہ اس کے روبرو غیب سے سرخی کے قطرے میرے کرتے اور اس کی ٹوپی پر بھی گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سرخی کے قطرے گرنے اور قلم کے جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا۔ ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا۔ ایک غیرآدمی اس راز کو نہیں سمجھے گا اور شک کرے گا۔ کیونکہ اس کو صرف ایک خواب کا معاملہ محسوس ہوگا۔ مگر جس کو روحانی امور کا علم ہو۔ وہ اس میں شک نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے۔ غرض میں نے یہ سارا قصہ میاں عبداﷲ کو سنایا اور اس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبداﷲ، جو ایک رویت کا گواہ ہے۔ اس پر بہت اثر ہوا اور اس نے میرا کرتہ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیا۔ جو اب تک اس کے پاس موجود ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ ص۲۶۷)
مرزائیو! قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’لیس کمثلہ شیٔ‘‘ کہ اﷲتعالیٰ کی مانند کوئی چیز نہیں۔ خدائے واحد کی ذات تشبیہات سے منزہ ہے۔ لیکن تمہارے ’’حضرت مرزاصاحب‘‘ قرآن حکیم کے اس محکم اصول کے خلاف لکھ گئے ہیں کہ ’’ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خداوند تعالیٰ کی زیارت ہوئی‘‘ خوف خدا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تم ہی بتادو کہ بے مثل کا تمثل کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور غیرمحدود کا تمثل محدود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جواب دیتے وقت بے پرکی مت اڑانا۔ اگر ہمت ہے تو قرآن کریم کی کوئی آیت نقل کرنا جس سے ’’تمثیلی طور پر خداتعالیٰ کی زیارت‘‘ کا ثبوت مل سکے۔
مرزاقادیانی کے اسی کشف کے متعلق ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ اپنی پیش
گوئیوں کی تصدیق کے لئے جو کاغذات مرزاقادیانی نے خداتعالیٰ کے سامنے پیش کئے اور اﷲتعالیٰ نے سرخی کے قلم سے ان پر دستخط کر دئیے۔ جب سرخ رنگ مادی اور حقیقی تھا تو اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ کاغذات بھی مادی ہوں گے۔ پس مرزائی بتائیں کہ وہ کاغذ کہاں ہیں اور

۱؎ سلطان القلم کی اردو ملاحظہ ہو۔ مذکر کو مونث بنا دیا۔ کیوں نہ ہو مجدد جو ہوئے۔اﷲتعالیٰ نے کس زبان کے حروف میں دستخط کئے تھے؟ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دریافت کرنے کا حق ہے کہ پیش گوئیاں کس کس کے متعلق تھیں؟ اور باوجود اﷲتعالیٰ کی بارگاہ سے تصدیق ہو جانے کے، وہ پوری بھی ہوئیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ارادہ الٰہی سے قلم پر زیادہ رنگ آگیا تھا یا خدا کے ارادے کے بغیر ہی قلم نے زیادہ رنگ اٹھالیا؟
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۵۷… ’’میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی عدالت میں ہوں۔ میں منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے۔ اتنے میں جواب ملا: ’’ اصبر سنفرغ یا مرزا ‘‘ کہ اے مرزا! صبر کر، ہم عنقریب فارغ ہوتے ہیں۔ پھر میں ایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ میں کچہری میں گیا ہوں تو اﷲتعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور ایک طرف ایک سررشتہ دار ہے کہ ہاتھ میں ایک مسل لئے ہوئے پیش کر رہا ہے۔ حاکم نے مسل اٹھا کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے باریک نظر سے دیکھا کہ ایک کرسی اس کے ایک طرف خالی پڑی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے مجھے کہا کہ اس پر بیٹھو اور اس نے مسل ہاتھ میں لی ہوئی ہے۔ اتنے میں، میں بیدار ہوگیا۔‘‘ (البدر ج۲ نمبر۶، ۱۹۰۳ء مکاشفات ص۲۸،۲۹)
مرزاقادیانی کے اس خواب سے کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
(۱)اﷲتعالیٰ مجسم ہے جو میز کرسی لگائے کچہری کا کام کر رہا ہے۔
(۲)خداوند کریم کو معمولی مجسٹریٹوں کی طرح ایک منشی یا کلرک کی بھی ضرورت ہے۔
(۳)خدا لوگوں کے مقدمات کے جھمیلے میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اسے بصد مشکل کسی سے بات کرنے کی فرصت ملتی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۴)قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ سنفرغ لکم ایہ الثقلٰن ‘‘ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے دونوں گروہو، ہم تمہاری طرف جلد متوجہ ہوں گے۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہوریہ ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اور یہاں متوجہ ہونے سے مراد سزا دینے کے لئے متوجہ ہونا ہے اور معمولی معنے لے کر بھی مراد وہی ہوگی۔ یعنی سخت سزا دینا کیونکہ کسی چیز کے لئے فارغ ہونا اکثر تہدید کے موقع پر بولا جاتا ہے۔‘‘
پس ’’سنفرغ یا مرزا‘‘ سے ثابت ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی کو سخت ڈانٹ دی ہے کہ: ’’اے مرزا! ہم عنقریب تجھ کو سخت اور دردناک سزا دیں گے۔‘‘
لاہوری مرزائیو! خدا کے لئے جلدی بتانا کہ تمہارے کرشن جی مہاراج کو اسی دنیا میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے سخت سزا مل چکی ہے یا قیامت کے دن ملے گی؟
مرزاقادیانی کا الہام ہے:
۵۸… ’’ انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی ‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
(ترجمہ) ’’اے مرزا! تو میرے نزدیک بمنزلہ میری توحید وتفرید کے ہے۔‘‘
احمدی دوستو! جب خدائے واحد وقدوس بے مثل ہے تو اس کی توحید وتفرید بھی بے مثل ہوگی یا نہیں؟ اپنے گورو کو خداوند عالم کی توحید وتفرید کی مانند تسلیم کر لینے کے بعد بھی تم کہہ سکتے ہو کہ خداکی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں؟ تم غور نہیں کرتے کہ جب مرزاقادیانی آنجہانی خدا کی توحید وتفرید کی مانند ہوگئے تو پھر توحید کہاں رہی۔
مرزاقادیانی اپنے الہامات بیان کرتے ہیں:
’’ انت منی بمنزلۃ ولدی ‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
(ترجمہ) ’’اے مرزا تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
۵۹… ’’ انت منی بمنزلۃ اولادی ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۶۵)
(ترجمہ) ’’تو مجھ سے بمنزلہ میری اولاد کے ہے۔‘‘
’’مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طورہ پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۲۷، خزائن ج۳ ص۶۴)
مرزائیو! تمہارے حضرت نے تو کہا تھا کہ میں بالکل قرآن ہی کی طرح ہوں اور مجھ سے وہی ظاہر ہوگا جو قرآن سے ظاہر ہوا۔ لیکن یہاں تو اصول قرآنی کے صریحاً خلاف الہامات کے چھینٹے برس رہے ہیں۔ قرآن کریم نے نہایت ہی زبردست الفاظ میں تردید کی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ جیسا کہ فرمایا ہے: ’’ وقالوا اتخذ الرحمن ولدا لقد جئتم شیئا ادا تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ہدا ان دعوا للرحمن ولدا وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا (سورۃ مریم) ‘‘
(ترجمہ) ’’(مرزاقادیانی اور اس کے چیلے) کہتے ہیں کہ رحمن نے (مرزاقادیانی کو) بیٹا بنایا۔ (مرزائیو) یقینا تم ایک خطرناک بات کر گزرے۔ قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں کہ وہ (مرزائی) رحمن کے لئے بیٹے کا دعویٰ کرتے ہیں اور رحمن کو شایاں نہیں کہ وہ بیٹا بنائے۔‘‘
ان آیات میں کن زوردار اور ہیبت ناک الفاظ میں تردید کی گئی ہے کہ خدائے رحمن نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اﷲتعالیٰ کے شایان شان ہے کہ وہ بیٹا بنائے۔
مرزاقادیانی کے مریدو! جواب دو کہ اپنے گرو کے دونوں الہاموں میں سے کس کو سچا سمجھتے ہو اور کس کو غلط۔ اگر اس الہام کو صحیح مانتے ہو کہ میں بالکل قرآن ہی کی طرح ہوں اور مجھ سے وہی ظاہر ہوگا جو قرآن سے ظاہر ہوا تو دوسرے الہام کہ اے مرزا تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے، کے متعلق کیا کہو گے؟ قرآن پاک عقیدہ ابنیت کی بیخ کنی کر رہا ہے اور مرزاقادیانی کا الہام انہیں خدا کا بیٹا بنا رہا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزاقادیانی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سرک سری‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۹، تذکرہ ص۷۱۴، ط۳)
(ترجمہ) ’’اے مرزا تیرا بھید میرا بھید ہے۔‘‘
۶۰… ’’ظہورک ظہوری‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۲۶، تذکرہ ص۷۰۴، ط۳)
(ترجمہ) ’’اے مرزا تیرا ظہور میرا ظہور ہے۔‘‘
ان دونوں حوالہ جات سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ خدا نے مرزاقادیانی کو فرمایا کہ اے مرزا، میں اور تو دونوں ایک ہی ہیں۔ ہم میں کوئی فرق نہیں۔ عیسائیوں کے ہاں باپ بیٹا اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بنتا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے تیسرے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ ایک خدا تو عالم بالا میں ہے، دوسرا مرزاقادیانی کی شکل میں زمین پر نازل ہوا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کا الہام ہے۔ ’’خدا قادیاں میں نازل ہوگا۔‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۵۶، تذکرہ ص۴۳۷، ط۳)
لیکن پھر بھی دو خدا نہیں، ایک ہی خدا ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی کا ظہور خدا کا ظہور ہے۔ مرزاقادیانی کے اسی عقیدے کی مزید وضاحت اس عبارت سے ہورہی ہے۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۶۱… ’’ رایتنی فی المنام عین اللہ وتیقنت اننی ہو ولم یبق لی ارادۃ ولا خطرۃ… وبین ما انا فی ہذہ الھالۃ کنت اقول انا نرید نظاما جدید اسماء جدیدۃ وارضاً جدیدۃ فخلقت السموت والارض اولا بصورۃ اجمالیۃ لا تفریق فیہا ولا ترتیب ثم فرقتہا ورتبتہا… وکنت اجد نفسی علی خلقہا کالقادرین ثم خلقت السماء الدنیا وقلت انا زینا السماء الدنیا بمصابیح ثم قلت الان نخلق الانسان من سلالہ من طین… فخلقت آدم انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم وکنا کذالک الخالقین ‘‘
(ترجمہ) ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بعینہٖ اللہ ہوں۔ میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں اور نہ میرا ارادہ باقی رہا اور نہ خطرہ… اسی حال میں (جب کہ میں بعینہٖ خدا تھا) میں نے کہا کہ ہم ایک نیا نظام، نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ پس میں نے پہلے آسمان اور زمین اجمالی شکل میں بنائے۔ جن میں کوئی تفریق اور ترتیب نہ تھی۔ پھر میں نے ان میں جدائی کر دی اور ترتیب دی… اور میں اپنے آپ کو اس وقت ایسا پاتا تھا کہ میں ایسا کرنے پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا: ’’ انا زینا السماء الدنیا بمصابیح ‘‘ پھر میں نے کہا ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پس میں نے آدم کو بنایا اور ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا اور اس طرح سے میں خالق ہوگیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴،۵۶۵، خزائن ج۵ ص۵۶۴،۵۶۵)
احمدی دوستو! بتاؤ اور سچ بتاؤ کہ مرزاقادیانی نے خدا ہونے میں کون سی کسر باقی چھوڑی ہے؟ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ میں نے یقین کر لیا کہ میں بعینہٖ اللہ ہوں۔ فرعون نے بھی تو یہی کہا تھا کہ: ’’انا ربکم الاعلی‘‘ بتاؤ کہ مرزاقادیانی کے ان الفاظ اور فرعون کے مقولہ میں کیا فرق ہے؟
ناظرین! صرف یہی نہیں کہ مرزاقادیانی نے اتنا ہی کہا ہو کہ میں خدا ہوں اور میں نے زمین آسمان پیدا کئے بلکہ مرزاقادیانی اس سے بھی بڑھ کر فرماتے ہیں: ’’ واعطیت صفۃ الافناء والاحیاء ‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۵،۵۶)
(ترجمہ) ’’مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے۔‘‘
مرزاقادیانی اپنا الہام بیان کرتے ہیں: ’’ انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۴، تذکرہ ص۵۲۷، ط۳)
(ترجمہ)’’اے مرزا تحقیق تیرا ہی حکم ہے جب تو کسی شئے کا ارادہ کرے تو اس سے کہہ دیتا ہے۔ پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو ’’کن فیکون‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔ زندہ کرنے اور فنا کرنے کی بھی صفت مرزاقادیانی میں موجود ہے۔ مرزاقادیانی نے نئے آسمان اور زمین بھی بنائے۔ آدم کو بھی پیدا کیا۔ اب یہ احمدی دوست بتائیں کہ خدائی کا دعویٰ کرنے میں کون سی کسر باقی رہ گئی ہے؟
ناظرین کرام! میں نے نہایت اختصار کے ساتھ مرزاقادیانی کے خلاف اسلام عقائد اور دعاوی انہیں کے اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔ ان کے ان معجون مرکب اقوال والہامات کو دیکھ کر آپ متعجب نہ ہوں کہ مرزاقادیانی نے کس ستم ظریفی سے خلاف شریعت عقائد گھڑ لئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے مرزاقادیانی کو کھلی چھٹی دے دی تھی کہ اے مرزا ناجائز اور ممنوع افعال بھی تمہارے لئے حلال کر دئیے گئے ہیں۔ جو کچھ تمہارا دل چاہتا ہے، کر لو… جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے: ’’ اعملوا ما شئتم انی غفرت لکم ‘‘ (البدر ج۳ نمبر۱۶،۱۷ ص۸)
(ترجمہ) ’’اے مرزا! جو تو چاہے کر، ہم نے تجھے بخش دیا۔‘‘
پس جب خدا نے ہی مرزاقادیانی سے پابندی شریعت کی تمام قیود اٹھالیں تو اس حالت میں مرزاقادیانی جو کچھ بھی کر لیتے، ان کے لئے جائز تھا اور انہیں ضرورت نہ تھی کہ وہ اپنے عقائد اور اقوال کو قرآن کریم اور حدیث شریف کی کسوٹی پر پرکھنے کی تکلیف گوارہ کرتے۔ سچ ہے ؎
سیاں بہے کوتوال اب ڈر کاہے کا
احمدی دوستو! مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا خلاف قرآن وحدیث اقوال نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں ان عقائد باطلہ کو ترک کر کے اہل سنت والجماعت کی مستقیم شاہراہ پر گامزن ہو جاؤں۔
 
Top