محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
اگر کوئی لاہوری جماعت کا مرزائی چھ ماہ کے اندر اس کتاب کا جواب لکھے گا تو بعد فیصلہ منصف اسے ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن مئی ۱۹۳۲ء میں اور دوسرا ایڈیشن نومبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ باوجود دوسال گزر جانے کے کسی لاہوری مرزائی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس کے جواب میں قلم اٹھا سکے۔ ہم آج کی تاریخ سے پھر اعلان کئے دیتے ہیں کہ اگر شرائط مندرجہ کے ماتحت مزید ایک سال کے عرصہ میں ہماری کتاب کا جواب لکھا گیا تو ہم انعام دینے کو تیار ہیں۔ لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ
۲۰؍اپریل ۱۹۳۴ء
فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاء کان اﷲ نزل من السماء (یعنی میرا پیدا ہونے والا بیٹا دلبند گرامی ارجمند ہوگا اور وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اترے گا)
(البشریٰ ج۲ ص۲۱،۱۲۴، ازالہ اوہام ص۱۵۵، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
مرزاقادیانی کے اسی قسم کے عقائد باطلہ تھے جن کی بناء پر علمائے اسلام نے مرزاقادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اس وقت ہم اپنی طرف سے ان اقوال پر زیادہ جرح اور تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ مرزاقادیانی کے دعاوی اور عقائد انہیں کے الفاظ میں ناظرین تک پہنچا دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی اپنی نسبت لکھتے ہیں:
۱… ’’میں محدث ہوں۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
۲… ان الفاظ میں مجددیت کا دعویٰ کیا ہے:
اپنی مہدویت کا اعلان کرتے ہیں۔
۳… ’’میں مہدی ہوں۔‘‘ (معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
آیت: ’ ’مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
۴… ’’اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیش گوئی مجرد احمد، جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے، بھیجا گیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
اگرچہ اس عبارت میں مرزاقادیانی نے لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ ان الفاظ کے لکھنے سے صرف یہ مقصد نظر آتا ہے کہ اگر ابتداء میں ہی صاف طور پر لکھ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد نہیں تو عامتہ المسلمین متنفر ہو جائیں گے۔ لیکن آیت کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی مندرجہ سورۂ صف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ تھی بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے تھی۔
تریاق القلوب میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۵…
دوسری جگہ اس کی مزید تشریح کرتے ہیں:
۶… ’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاءo کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۲، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
اپنی اسی کتاب میں پھر لکھا ہے:
۷… ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ بن مریم ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت ’’جری اﷲ فی حلل الانبیاء‘‘ فرمایا۔ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جائے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴،۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
اپنی مجددیت اور مہدویت کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے یوں گویا ہوئے ہیں:
۸…
ناظرین کرام! حوالہ جات بالا سے روزروشن کی طرح ظاہر ہوگیا ہے کہ مرزاقادیانی نے کس دیدہ دلیری سے تمام انبیاء علیہم السلام کے نام اپنی طرف منسوب کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ہر نبی کی شان مجھ میں پائی جاتی ہے۔ گویا تمام انبیاء کے مقابل پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ فرداً فرداً ہر نبی کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو جو کمال عطاء کئے گئے تھے، مجموعی طور پر وہ سارے کے سارے کمالات مجھ (مرزاقادیانی) کو دئیے گئے ہیں۔ مرزاقادیانی کھلے الفاظ میں اعلان کرتے ہیں:
۹…
(ترجمہ) ’’میں آدم ہوں، نیز احمد مختار ہوں۔ میں تمام نیکوں کے لباس میں ہوں۔ خدا نے جو پیالے ہر نبی کو دئیے ہیں، ان تمام پیالوں کا مجموعہ مجھے دے دیا ہے۔‘‘
لاہوری احمدیو! خدا کے لئے انصاف سے جواب دو کہ کیا مرزاقادیانی کے ان اشعار کا یہ مفہوم نہیں کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے کمالات کا مجموعہ کہہ رہے ہیں؟ اور اپنے آپ کو کسی نبی سے درجہ میں کم نہیں سمجھتے۔ اسی ادّعا ناروا کو اس شعر میں دہرایا ہے۔
۱۰…
(ترجمہ) ’’اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں۔ میں عرفان میں ان نبیوں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
حیرت ہے کہ مرزاقادیانی نے صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ میں نبوت کی ایسی معجون ہوں جو تمام نبیوں کے کمالات سے مرکب ہوں۔ بلکہ اس سے اوپر بھی ایک اور چھلانگ لگا کر دنیا کو اطلاع دی ہے کہ میں وہ تھیلا ہوں کہ جس میں تمام نبی بھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۲۰؍اپریل ۱۹۳۴ء
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترک مرزائیت کے وجوہ لکھنے کا میرا ارادہ نہیں تھا۔ مگر میرے چند احباب نے مجبور کیا کہ میں مرزائیت کے متعلق اپنی معلومات معرض تحریر میں لاؤں تاکہ عامتہ المسلمین اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ میرے محترم چچا جان خان سلطان احمدخان رحمۃ اللہ علیہ نے جو تردید مرزائیت میں یدطولیٰ رکھتے تھے اس کتاب کے متعلق مفید مشورے اور حوالہ جات سے میری مدد کی۔مرزا صاحب کے عقائد باطلہ
اسلام اور مرزاقادیانی کے عقائد میں بعد المشرقین ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے معجون مرکب عقائد کی تائید کے لئے خواہشات نفسانی سے ایسے خلاف شریعت الہام گھڑ لئے تھے جنہیں اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ انہیں خلاف قرآن وحدیث الہامات کے صدقے میں محدثیت، مجددیت، مہدویت، مسیحیت، محمدیت، کرشنیت، جے سنگھیت، ظلیت، بروزیت، نبوت وغیرہ کے دعاوی کر بیٹھے۔ اس پر بھی بس نہ کی اور صبر نہ آیا تو غضب یہ ڈھادیا کہ خدا کا بیٹا بنے۔ مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ترقی کی تو خود خدا ہونے کا اعلان کر کے نئے زمین وآسمان پیدا کرنے کے بعد تخلیق بنی نوع انسان کا دعویٰ کردیا۔ آخری میدان یہ مارا کہ اپنے پیدا ہونے والے بیٹے کی مثال اﷲتعالیٰ سے دی اور لکھ دیا۔فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاء کان اﷲ نزل من السماء (یعنی میرا پیدا ہونے والا بیٹا دلبند گرامی ارجمند ہوگا اور وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اترے گا)
(البشریٰ ج۲ ص۲۱،۱۲۴، ازالہ اوہام ص۱۵۵، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
مرزاقادیانی کے اسی قسم کے عقائد باطلہ تھے جن کی بناء پر علمائے اسلام نے مرزاقادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اس وقت ہم اپنی طرف سے ان اقوال پر زیادہ جرح اور تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ مرزاقادیانی کے دعاوی اور عقائد انہیں کے الفاظ میں ناظرین تک پہنچا دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی اپنی نسبت لکھتے ہیں:
۱… ’’میں محدث ہوں۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
۲… ان الفاظ میں مجددیت کا دعویٰ کیا ہے:
رسید مژدہ زغیب کہ من ہماں مرد
کہ او مجدد ایں دین و راہنما باشد
(ترجمہ) ’’مجھے غیب سے خوشخبری ملی کہ میں وہ مرد ہوں کہ اس دین کا مجدد اور راہنما ہوں۔‘‘ (درثمین فارسی ص۱۳۶، تریاق القلوب ص۴، خزائن ج۱۵ ص۱۳۲)کہ او مجدد ایں دین و راہنما باشد
اپنی مہدویت کا اعلان کرتے ہیں۔
۳… ’’میں مہدی ہوں۔‘‘ (معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
آیت: ’ ’مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
۴… ’’اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیش گوئی مجرد احمد، جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے، بھیجا گیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
اگرچہ اس عبارت میں مرزاقادیانی نے لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں۔ یعنی جامع جلال وجمال ہیں۔ ان الفاظ کے لکھنے سے صرف یہ مقصد نظر آتا ہے کہ اگر ابتداء میں ہی صاف طور پر لکھ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد نہیں تو عامتہ المسلمین متنفر ہو جائیں گے۔ لیکن آیت کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی مندرجہ سورۂ صف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ تھی بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے تھی۔
تریاق القلوب میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۵…
منم مسیح زماں و منم کلیم خدا
منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد
(ترجمہ) ’’میں مسیح زمان ہوں۔ میں کلیم خدا یعنی موسیٰ ہوں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد مجتبیٰ ہوں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد
دوسری جگہ اس کی مزید تشریح کرتے ہیں:
۶… ’’خداتعالیٰ نے مجھے تمام انبیاءo کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۲، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
اپنی اسی کتاب میں پھر لکھا ہے:
۷… ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ بن مریم ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت ’’جری اﷲ فی حلل الانبیاء‘‘ فرمایا۔ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جائے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴،۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
اپنی مجددیت اور مہدویت کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے یوں گویا ہوئے ہیں:
۸…
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص۱۳۳، درثمین ص۷۴)نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
ناظرین کرام! حوالہ جات بالا سے روزروشن کی طرح ظاہر ہوگیا ہے کہ مرزاقادیانی نے کس دیدہ دلیری سے تمام انبیاء علیہم السلام کے نام اپنی طرف منسوب کئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ہر نبی کی شان مجھ میں پائی جاتی ہے۔ گویا تمام انبیاء کے مقابل پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ فرداً فرداً ہر نبی کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو جو کمال عطاء کئے گئے تھے، مجموعی طور پر وہ سارے کے سارے کمالات مجھ (مرزاقادیانی) کو دئیے گئے ہیں۔ مرزاقادیانی کھلے الفاظ میں اعلان کرتے ہیں:
۹…
آدمم نیز احمد مختار
در برم جامہ ہمہ ابرار
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرابتمام
(درثمین فارسی ص۱۷۱، نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)در برم جامہ ہمہ ابرار
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرابتمام
(ترجمہ) ’’میں آدم ہوں، نیز احمد مختار ہوں۔ میں تمام نیکوں کے لباس میں ہوں۔ خدا نے جو پیالے ہر نبی کو دئیے ہیں، ان تمام پیالوں کا مجموعہ مجھے دے دیا ہے۔‘‘
لاہوری احمدیو! خدا کے لئے انصاف سے جواب دو کہ کیا مرزاقادیانی کے ان اشعار کا یہ مفہوم نہیں کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے کمالات کا مجموعہ کہہ رہے ہیں؟ اور اپنے آپ کو کسی نبی سے درجہ میں کم نہیں سمجھتے۔ اسی ادّعا ناروا کو اس شعر میں دہرایا ہے۔
۱۰…
انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفان نہ کمترم زکسے
(درثمین فارسی ص۱۷۲، نزول المسیح ص۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۸)من بعرفان نہ کمترم زکسے
(ترجمہ) ’’اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں۔ میں عرفان میں ان نبیوں سے کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
حیرت ہے کہ مرزاقادیانی نے صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ میں نبوت کی ایسی معجون ہوں جو تمام نبیوں کے کمالات سے مرکب ہوں۔ بلکہ اس سے اوپر بھی ایک اور چھلانگ لگا کر دنیا کو اطلاع دی ہے کہ میں وہ تھیلا ہوں کہ جس میں تمام نبی بھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: