• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ترک مرزائیت

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت​

مرزاقادیانی کے مریدوں کے دو فریق ہیں۱؎۔ ایک کا مرکز لاہور ہے، دوسرے کا قادیان۔ قادیانی جماعت مرزاقادیانی کو نبی مانتی ہے۔ لیکن لاہوری جماعت مرزاقادیانی کی تعلیم کے خلاف انہیں نبی نہیں کہتی۔ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کی تحقیقات کرنے کے لئے مرزاقادیانی کی کتابوں کو نہایت غوروخوض سے مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرزاقادیانی، دعویٰ مسیحیت کے ابتدائی ایام میں اپنے آپ کو محدث کہتے تھے اور اپنی محدثیت کی تعریف ایسی کیا کرتے تھے، جس کا مفہوم نبوت ہوتا تھا۔ لیکن بعدہ، کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ مرزاقادیانی نے اپنی ابتدائی تحریروں میں یہاں تک لکھا ہے کہ: ’’میں سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں اور مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
لیکن اس کے بعد وہ زمانہ بھی آیا جب مرزاقادیانی نے صاف الفاظ میں اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ اس لئے لاہوری جماعت مرزاقادیانی کی ابتدائی تحریروں سے انکار نبوت کے جو حوالہ جات پیش کرتی ہے، وہ قابل قبول نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے خود فیصلہ کردیا ہے۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے، صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر، اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کہیں انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘
(مرزاقادیانی کا اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ص۲۱۰،۲۱۱)
۱؎ میرا فریق اروپی میں ہے جو مرزا کو تشریعی نبی مانتا ہے۔ اختر!
اس عبارت میں مرزاقادیانی نے تسلیم کر لیا ہے کہ ’’میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے اور آپ کے واسطے سے غیرتشریعی نبی بنا ہوں اور اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘ جہاں اس سے صاف ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی غیرتشریعی نبی ہونے کے مدعی تھے، ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوگیا کہ جس جس جگہ مرزاقادیانی نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے، وہاں انکار نبوت سے مرزاقادیانی کی یہ مراد تھی کہ میں شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں اور نہ مستقل طور پر نبی ہوں۔ اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ مرزاقادیانی نے مستقل نبی یا مستقل نبوت کی کیا تعریف کی ہے۔ مرزاقادیانی ارشاد فرماتے ہیں: ’’بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ۱؎ دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
مرزاقادیانی کی اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی دو قسم کے ہوتے ہیں۲؎۔ ایک وہ جو براہ راست نبی ہوتے ہیں، انہیں کسی نبی کی پیروی سے نبوت نہیں ملتی۔ وہ مستقل نبی کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو کسی دوسرے نبی کی اتباع اور پیروی سے نبی بنتے ہیں۔ انہیں امتی نبی کہا جاتا ہے اور میں دوسری قسم کا نبی ہوں۔ یعنی امتی نبی۔ دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے معنے ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا ہے، نہ براہ راست۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۹ حاشیہ، خزائن ج۲۰ ص۴۰۱)
ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرزاقادیانی مدعی نبوت تو ہیں، لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لائے اور نہ انہیں نبوت بلاواسطہ ملی ہے۔ بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور وساطت سے نبی بن گئے ہیں اور مرزاقادیانی کی اصطلاح میں یہی ظلی یا بروزی نبوت ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
۱؎ سلطان القلم کی فصیح وبلیغ اردو ملاحظہ ہو۔ (اختر)
۲؎ یہ لاہوری مرزائیوں کے مابل لکھا گیا ہے۔ ورنہ مرزاقادیانی کا اصل دعویٰ تشریعی نبوت کا تھا۔ تفصیل ہماری کتاب ’’خاتم النّبیین‘‘ میں دیکھئے۔ اختر!
’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں۔ پس منجملہ ان انعامات کے، وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں ہیں، جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے۔ لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے۔ جیسا کہ آیت: ’’ لا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول ‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت: ’’ انعمت علیہم ‘‘ گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے۔ اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لئے محض بروز اور ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
’’ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰)
مرزاقادیانی کے ان حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ امتی نبی ظلی یا بروزی نبی سے مرزاقادیانی کی یہ مراد تھی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے نبی بن جاتا۔ لاہوری جماعت کہا کرتی ہے کہ جس طرح ظل اصل نہیں ہوتا، اسی طرح ظلی نبی، نبی نہیں ہوتا۔ لیکن مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’سچے پیرو اس کے (قرآن مجید کے) ظلی طور پر الہام پاتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱ ص۹۶، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۳۸)
لاہوری احمدیو! سینے پر ہاتھ رکھ کر بتانا کہ اگر ظلی نبوت، نبوت نہیں تو ظلی الہام، الہام کس طرح ہوسکتا ہے؟ تمہارا عقیدہ خود ساختہ اور مرزاقادیانی کے خلاف ہے کہ ظلی نبوت، نبوت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ تمہاری جماعت کے امیر مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں: ’’پھر اس کو ظلی نبوت کہہ کر یہ بھی بتادیا کہ نبوت نہیں۔ کیونکہ ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے۔‘‘ (مسیح موعود اور ختم نبوت ص۲)
میرے پرانے دوستو! جب ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے تو تمہارے ’’حضرت مرزا صاحب‘‘ کہہ گئے ہیں کہ میں قرآن مجید کا سچا پیرو ہوں اور قرآن پاک کے سچے پیرو ظلی طور پر الہام پاتے ہیں۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم دنیا کے سامنے اعلان کر دو کہ مرزاقادیانی کے الہام کے ساتھ لفظ ظلی موجود ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی کا الہام، الہام نہیں۔ کیونکہ ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے۔ پس مرزاقادیانی کے الہامات اضغاث احلام میں سے ہیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے۔ لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس حوالہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کو پہلے نبیوں کی طرح براہ راست نبوت نہیں ملی بلکہ نبوت کا مقام مرزاقادیانی نے بواسطہ فیضان محمدی پایا ہے۔ ورنہ نبوت کے لحاظ سے کوئی فرق تسلیم نہیں کرتے۔ جیسا کہ لکھاہے: ’’منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں ہیں، جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
غرض اس تحریر سے مرزاقادیانی کی یہی مراد ہے کہ پہلے غیرتشریعی انبیاء علیہم السلام کی نبوت اور میری نبوت میں کوئی فرق نہیں۔ صرف طریق حصول نبوت میں فرق ہے۔ کیونکہ نبوت کے متعلق تو لکھتے ہیں کہ کثرت اطلاع برامور غیبیہ ہی کی وجہ سے پہلے لوگ نبی کہلائے۔
اب ہم مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے اثبات کے لئے چند حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۱… ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
(بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
۲… ’’میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۳ حاشیہ، خزائن ج۲۱ ص۶۸)
لاہوری جماعت کہا کرتی ہے کہ کہیں دکھادو کہ مرزاقادیانی نے کہا ہو کہ میرا دعویٰ ہے کہ میں رسول اور نبی ہوں۔ ان دونوں حوالہ جات میں، جو میں نے اوپر نقل کردئیے ہیں، مرزاقادیانی نے صراحت سے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
لاہوری مرزائیو! کیا اب بھی کہو گے کہ: ’’ہمارے حضرت مرزا صاحب‘‘ نے نبوت ورسالت کا دعویٰ نہیں کیا؟ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۳… ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیاگیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔ کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
لاہوری جماعت کے ممبرو! خدا کے واسطے مرزاقادیانی کی اس عبارت پر غور کرو اور بتاؤ کہ کیا یہ نبوت محض محدثیت اور مجددیت ہے؟ جس کا اس حوالہ میں بیان ہو رہا ہے؟ اب اس جگہ نبی کی بجائے لفظ محدث رکھ کر پڑھو۔ اگر عبارت درست ہو تو تم سچے ورنہ جھوٹے۔ اگر یہ محدثیت اور مجددیت ہی ہے تو پھر تیرہ سو سال میں ایک شخص کو ملنے کے کیا معنی؟ اور اس سے ایک شخص کے مخصوص ہونے کا کیا مطلب۔ کیونکہ محدث تو تیرہ سو سال میں سینکڑوں گزرے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مرزاقادیانی کثرت مکالمہ ومخاطبہ اور کثرت امور غیبیہ کو نبوت قرار دیتے تھے۔ جیسا کہ ذیل کے حوالہ جات سے ظاہر ہے۔
(الف)’’جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جاوے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں، وہ نبی کہلاتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
(ب)’’خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات ومخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۵، خزائن ج۲۳ ص۳۴۱)
(ج)’’جب کہ وہ مکالمہ ومخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔ جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔‘‘
(الوصیت ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۱۱)
(د)’’میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی، قطعی، بکثرت نازل ہو۔ جو غیب پر مشتمل ہو۔ اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ مگر بغیر شریعت کے۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۶، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
(ھ)’’ہم خدا کے ان کلمات کو، جو نبوت یعنی پیش گوئیوں پر مشتمل ہوں، نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیش گوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں… اس کا نام نبی رکھتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۱۸۰، خزائن ج۲۳ ص۱۸۹)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(و)’’اگر خداتعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
حوالہ جات بالا سے ثابت ہورہا ہے کہ مرزاقادیانی کثرت مکالمہ ومخاطبہ اور کثرت اطلاع برامور غیبیہ کو نبوت سمجھتے تھے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا تھا۔
’’یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
اس عبارت سے ثابت ہوا کہ تیرہ سو سال میں جتنا مکالمہ مخاطبہ مرزاقادیانی سے ہوا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا اور کثرت مکالمہ مخاطبہ نبوت ہوتی ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی نبی ہیں۔
لاہوری مرزائی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہر نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت اور کتاب لائے نیز دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ لیکن ان کا یہ کہہ دینا اپنے گورو کی تصریحات کے صریحاً خلاف ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
(الف)’’یہ تمام بدقسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبرپانے والا ہو اور شرف مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
(ب)’’بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی۔ بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانے میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں، پھر ان کوتوریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں۔‘‘ (شہادت القرآن ص۳۷، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
(ج)’’نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
یہ تینوں حوالہ جات پکار پکار کر اعلان کر رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ تھا کہ بغیر نئی کتاب وشریعت کے بھی نبی ہوسکتا ہے اور نبی ہونے کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۴… ’’اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰)
لاہوری احمدیو! ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں نہیں رہنا۔ آخر ایک دن خدائے واحد وقدوس کی بارگاہ معلی میں اپنے عقائد واعمال کا جوابدہ ہونا ہے۔ اسی خدائے قدوس کو، جو دلوں کے مخفی حالات سے واقف ہے، حاضر وناظر سمجھ کر سوچو اور غور کرو کہ کیا مرزاقادیانی اپنے آپ کو اولیائے امت کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ تو ڈنکے کی چوٹ پراعلان کر رہے ہیں کہ اس امت میں ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور میں امتی نبی ہوں۔ اگر تمہارے خیال کے مطابق امتی نبی، نبی نہیں ہوتا تو تمام اولیائے اللہ سے اس خصوصیت کے کیا معنی؟
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:
۵… ’’ہمارے نبی ہونے کے وہی نشانات ہیں جو تورات میں مذکور ہیں۔ میں کوئی نیا نبی نہیں ہوں۔ پہلے بھی کئی نبی گزرے ہیں۔ جنہیں تم لوگ سچے مانتے ہو۔‘‘
(بدر مورخہ ۹؍اپریل ۱۹۰۸ء، ملخص ملفوظات ج۱۰ ص۲۱۷)
۶… ’’ایسا رسول ہونے سے انکار کیاگیا ہے جو صاحب کتاب ہو۔ دیکھو جو امور سماوی ہوتے ہیں۔ ان کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں۔ صحابہ کرام کے طرز عمل پر نظر کرو۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھا، وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے۔ جبھی ’’ولا یخافون لومۃ لائم‘‘ کے مصداق ہوئے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ درصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خداتعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے، جو بلحاظ کمیت وکیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں بھی کثرت سے ہوں۔ اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ بس ہم نبی ہیں۔ ہاں! یہ نبوت تشریعی نہیں۔ جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے۔ ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ صرف خدا کی طرف سے پیش گوئیاں کرتے تھے۔ جن سے موسوی دین کی شوکت وصداقت کا اظہار ہو۔ پس وہ نبی کہلائے۔ یہی حال اس سلسلہ میں ہے۔ بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کون سا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے… ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے۔ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو جو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا۔ اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتاتو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھہرے۔ کس لئے اس کو دوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں… ہم پر کئی سالوں سے وحی نازل ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں۔ اسی لئے ہم نبی ہیں۔ امر حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہئے۔‘‘
(ڈائری مرزاقادیانی مندرجہ اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء ج۷ نمبر۹ ص۲، حقیقت النبوۃ ص۲۷۲)
۷… ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے، تو میں کیونکر انکار کر سکتاہوں۔ اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘
(مرزاقادیانی کا آخری مکتوب مندرجہ اخبار عام مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء، حقیقت النبوۃ ص۲۷۰،۲۷۱)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۸… ’’تب خدا آسمان سے اپنی قرنا میں آواز پھونک دے گا۔ یعنی مسیح موعود کے ذریعے سے جو اس کی قرنا ہے… اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے۔ کیونکہ خدا کے نبی اس کی صور ہوتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۷۶،۷۷، خزائن ج۲۳ ص۸۴،۸۵)
۹… ’’میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اللہ رکھا ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۴۸، خزائن ج۱۸ ص۴۲۷)
۱۰… ’’خداتعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
۱۱… ’’پس خداتعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا اور اس قوم کو ہزارہا اشتہاروں اور رسالوں سے دعوت کی گئی تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزا دی جاوے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۵۲، خزائن ج۲۲ ص۴۸۶)
۱۲… ’’تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ بہرحال جب تک طاعون دنیا میں رہے، گو ستر برس تک رہے۔ قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
۱۳… ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۱۴… ’’سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ وما کنّٰ معذبین حتی نبعث رسولا ‘‘ پھر یہ کیابات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہوگیا ہے۔ جس کی تم تکذیب کر رہے ہو۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۸،۹، خزائن ج۲۰ ص۴۰۰،۴۰۱)
۱۵… ’’ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیاگیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۲، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
۱۶… ’’ قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ‘‘ کہہ اے تمام لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں۔
(البشریٰ ج۲ ص۵۶، تذکرہ ص۳۵۲، ط۳)
۱۷… ’’ انک لمن المرسلین ‘‘ اے مرزا! تو بے شک رسولوں میں سے ہے۔
(الہام مندرجہ حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
۱۸… ’’ہمارا نبی اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہوسکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ امتی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۴، خزائن ج۲۱ ص۳۵۵)
’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
۱۹… ’’ واخرین منہم لما یلحقوا بہم ‘‘ یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیش گوئی ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۵۰۲)
۲۰… ’’جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اس کا انہیں حدیثوں میں یہ نشان دیاگیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور امتی بھی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۱)
لاہوری احمدیو! میں نے مرزاقادیانی کی کتابوں، اشتہاروں اور ڈائریوں سے چند حوالہ جات نقل کر دئیے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے دھڑلے سے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو نبی لکھا۔ اگر اس رسالہ کی طوالت مانع نہ ہوتی تو میں مرزاقادیانی کی کتابوں سے سینکڑوں حوالہ جات پیش کر سکتا تھا کہ جن میں مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے بطور نبی کے پیش کیا ہے۔ تم خوف خدا کرو۔ کب تک مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرو گے۔ اتنا تو سوچو کہ لوگ مرزاقادیانی کے یہ حوالہ جات پڑھ کر کیا نتیجہ نکالیں گے۔
دیکھو مرزاقادیانی نے یہاں تک فرمایا ہے:
۲۱… ’’خداتعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔ اس قدر نشان دکھائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ ص۳۳۲)
یہاں تو مرزاقادیانی نے فیصلہ کن بات لکھ دی کہ میرے نشانات معمولی نہیں ہیں۔ بلکہ اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر وہ نشان ہزار نبی پر بھی تقسیم کر دئیے جائیں تو ان کی بھی نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ لاہوری مرزائی جواب دیں کہ جب مرزاقادیانی کے نشانوں سے ہزار نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے تو مرزاقادیانی نبی کیوں نہ ہوئے؟
میرے پرانے دوستو! کیا تمہیں جرأت ہے کہ تم دنیا کے سامنے اعلان کر سکو کہ مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا؟ جواب دیتے وقت اتنا یاد رکھنا کہ ایک وہوقت بھی تھا جب تم نے اپنے اخبار ’’پیغام صلح‘‘ میں مندرجہ ذیل اعلان کئے تھے۔
اعلان اوّل: ’’ہم خدا کو شاہد کر کے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور اس زمانہ کی ہدایت کے لئے دنیا میں نازل ہوئے۔ آج ان کی متابعت میں ہی دنیا کی نجات ہے۔ ہم اس امر کا اظہار ہر میدان میں کرتے ہیں اور کسی کی خاطر ان عقائد کو بفضلہ تعالیٰ چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘
(اخبار پیغام صلح ج۱ نمبر۳۵، مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۱۳ء)
اعلان دوم: ’’معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو غلط فہمی میں ڈالا گیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وہادینا حضور حضرت مرزاغلام احمد صاحب مسیح موعود کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی، جن کا کسی نہ کسی صورت میں اخبار ’’پیغام صلح‘‘ سے تعلق ہے، خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔ جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے، اس سے کم وبیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں۔‘‘
(اخبار پیغام صلح ج۱ نمبر۴۲، مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ء)
ناظرین کرام! یہ وہ اعلان ہیں جو اخبار ’’پیغام صلح‘‘ سے تعلق رکھنے والوں نے اس وقت شائع کئے تھے۔ جب مولوی نورالدین کی زندگی میں ان لوگوں کے متعلق مشہور ہوا تھا کہ یہ لوگ مرزاقادیانی کی نبوت سے منکر ہوگئے ہیں۔ ان اعلانات میں لاہوری جماعت کے موجودہ ممبروں نے کس دھڑلے سے مرزاقادیانی کی نبوت کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ لیکن اب یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزاقادیانی کو کبھی نبی تسلیم نہیں کیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مولوی نورالدین کی زندگی تک لاہوری پارٹی کے تمام ممبر مرزاقادیانی کو نبی مانتے تھے۔ اگر ضرورت ہوئی تو ہم ان کے تمام بڑے بڑے ممبروں کی تحریریں شائع کر دیں گے۔ جن میں انہوں نے مرزاقادیانی کو نبی تسلیم کیا ہے۔ اس جگہ مولوی محمد علی امیرجماعت احمدیہ لاہور کی چند مصدقہ تحریریں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
الف… ’’آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جس شخص (مرزاقادیانی) کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے مامور ونبی کر کے بھیجا ہے۔ وہ بھی شہرت پسند نہیں۔‘‘ (ریویو اردو ج۵ نمبر۴ ص۱۳۲)
ب… ’’اس لئے یہی وہ آخری زمانہ ہے جس میں موعود نبی کا نزول مقدر تھا۔‘‘
(ریویو اردو ج۶ نمبر۳ ص۸۳)
ج… ’’آیت کریمہ میں جن لوگوں کے درمیان اس فارسی الاصل نبی کی بعثت لکھی ہے، انہیں آخرین کہاگیا ہے۔‘‘ (ریویو ج۶ نمبر۳ ص۹۶)
د… ’’پیش گوئی کے بیان میں اوپر یہ ذکر آچکا ہے کہ نبی آخر زمان کا ایک نام ’’رجل من ابناء فارس‘‘ بھی ہے۔‘‘ (ریویو ج۶ نمبر۳ ص۹۸)
ہ… ’’ایک شخص (مرزاقادیانی) جو اسلام کا حامی ہو کر مدعی رسالت ہو۔‘‘
(ریویو ج۵ نمبر۵ ص۱۶۶)
کس صراحت سے یہ عبارات پکار پکار کر اعلان کر رہی ہیں کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کی ایڈیٹری کے زمانہ میں مولوی محمد علی ایم۔اے موجودہ امیر جماعت مرزائیہ لاہور مرزاقادیانی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے مرزاقادیانی کی نبوت کے رنگ سے رنگے ہوئے مضامین کس قدر شدومد سے شائع کیا کرتے تھے۔ اب یہی مولوی محمد علی ہیں، جو نہایت ہی معصومانہ انداز میں فرمایا کرتے ہیں کہ ہم کبھی مرزاقادیانی کی نبوت پر ایمان نہیں لائے اور نہ ہی مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی حلفیہ شہادت دے رہے ہیں۔
’’اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
مرزاقادیانی اپنی نبوت کا ثبوت دینے کے لئے خداتعالیٰ کی قسم کھا رہے ہیں۔ لیکن لاہوری مرزائی ہیں کہ ایک طرف تو مرزاقادیانی کو مسیح موعود، محدث، مجدد،کرشن وغیرہ دعاوی میں سچا اور راست باز بھی مانتے ہیں اور دوسری طرف مرزاقادیانی کی قسم پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ اگر قسم پر اعتبار کرتے تو ان کی نبوت سے منکر کیوں ہوتے۔
میرے دوستو! یہ مت کہہ د۱؎ینا کہ: ’’مرزاقادیانی نے فرمایا ہے کہ میرا نام نبی رکھاگیا ہے اور کسی کا نام نبی رکھ دینے سے وہ نبی نہیں بن جاتا۔‘‘ یاد رکھو کہ اگر خدا کے نبی نام رکھ دینے سے نبی نہیں ہوجاتا تو مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’اسی خدا نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے۔‘‘ پس تمہاری تصریحات کے مطابق مرزاقادیانی کا نام مسیح موعود رکھ دینے سے مرزاقادیانی مسیح موعود بھی نہیں بن سکتے۔ تم بتاؤ کہ تم انہیں مسیح موعود کیوں مانتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے بڑے زور سے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ جیساکہ ان کی کتابوں اور ڈائریوں کے مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہورہا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کے لاہوری مرید ان کی نبوت کو نہیں مانتے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا کذاب ودجال ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الف… ’’ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی اللہ وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی ‘‘ (مسلم، ترمذی، دارمی، ابن ماجہ، ابوداؤد، مشکوٰۃ)

۱؎ لاہوری مرزائی یہی کہا کرتے ہیں۔ (اختر)
(ترجمہ) ’’میری امت میں تیس بڑے جھوٹے ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ باوجودیکہ میں خاتم النّبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
ب… ’’ لاتقوم الساعہ حتی یخرج ثلثون کذابا کلہم یزعم انہ نبی ‘‘
(ترجمہ) ’’فرمایا قیامت نہ ہوگی یہاں تک کہ تیس بڑے جھوٹے ظاہر نہ ہو لیں۔ ان میں سے ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا۔‘‘ (طبرانی)
د… ایک روایت میں: ’’ سیکون فی امتی کذابون دجالون ‘‘ {میری امت میں کذاب دجال ہوں گے۔ جو دعویٰ نبوت کریں گے۔}
’’ وانی خاتم النّبیین لا نبی بعدی ‘‘ {حالانکہ میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔}
ان احادیث میں دجال کذاب ہونے کی یہ علت ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ باوجود میری امت میں ہونے کے دعویٰ نبوت کریں گے اور کہیں گے کہ ہم امتی نبی ہیں۔ یعنی ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی۔ یاد رہے کہ مسیلمہ کذاب نے بھی امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ کیونکہ وہ بھی مرزاقادیانی کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا۔ یہاں تک کہ اس کی اذان میں ’’ اشہد ان محمدا رسول اللہ ‘‘ پکارا جاتا تھا اور وہ خود بھی بوقت اذان اس کی شہادت دیتا تھا۔
(تاریخ طبری ج۲ ص۲۴۴)
معزز ناظرین! جب میں نے ایک طرف ان احادیث کو دیکھا اور دوسری طرف مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کو تو میرے ضمیر نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں مرزائی مذہب کو ترک کر دوں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کا اپنے مخالفین پر جہنمی ہونے کا فتویٰ​

مرزاقادیانی کے ابتدائی دعویٰ سے لے کر ان کی وفات تک کی کل تحریروں کو جن لوگوں نے غور سے مطالعہ کیا ہے، ہماری طرح ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی ہوگی کہ ابتداء میں مرزاقادیانی اپنے منکرین اور مخالفین کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی نہ کہتے تھے۔ ان کی تحریرات سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے کہ ابتدائے دعویٰ میں انہوں نے تمام عالم اسلام کو کافر اور جہنمی کہنے میں مصلحت وقت نہیں سمجھی۔ اندازہ کر لیا ہوگا کہ اگر شروع میں اپنے تمام منکرین پر کافر اور جہنمی ہونے کا فتویٰ لگادیا تو ہمارے نزدیک کوئی پھٹکنے نہ پائے گا۔ دکانداری چلانے کے لئے ابتداء میں نرمی اور رواداری کا برتاؤ مناسب سمجھا۔ بعدہ، جوں جوں چیلے چانٹے گرد جمع ہوتے گئے، مرزاقادیانی کا پارہ حرارت بھی تیز ہوتا گیا۔ پہلے تمام دنیا کے مسلمانوں کو فاسق کا خطاب دیا اور اپنے انکار کرنے والوں کو رب العزت کی بارگاہ میں قابل مواخذہ ٹھہرایا۔ جب اس پر بھی دل کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا تو دنیا کے تمام مسلمانوں کو، جو ان کی نہ سلجھنے والی بھول بھلیوں، انٹ شنٹ الہامات، خلاف اسلام عقائد اور گمراہ کن دعاوی پر ایمان نہ لائیں، جہنمی قرار دے دیا۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے: ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘ (معیار الاخیار ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
دوسری جگہ لکھا ہے: ’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے اور جو کچھ کہتا ہے، اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۳، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
ان صاف اور صریح حوالوں کے نقل کر دینے کے بعد میں مزید تشریح اور حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ مرزاقادیانی کس ڈھٹائی اور غیظ وغضب سے بھرے ہوئے الفاظ میں تمام مسلمانان عالم کو، جو ان کی زٹ البحر، وحی اور الہامی پوتھیوں پر ایمان نہیں لاتے، جہنمی کہہ رہے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کے مریدوں کی لاہوری جماعت، جس کا میں آٹھ سال تک ممبر اور مبلغ رہا ہوں، نہایت ہی معصومانہ انداز میں اپنا یہ عقیدہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم ہر ایک کلمہ گو کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے گورو کی محولہ بالا تحریرات پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔
جماعت احمدیہ لاہور کے ممبرو! میں تمہیں نہایت ہی درد دل سے خدائے واحد وقدوس کے جلال اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عظمت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم اکیلے بیٹھ کر مرزاقادیانی کی محبت سے خالی الذہن ہوکر، خوف خدا کو مدنظر رکھتے ہوئے محولہ بالا حوالہ جات کو غور کی نظر سے دوبارہ اور سہ بارہ دیکھ لو، تو تم بھی اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ گے کہ ہمارا عقیدہ اپنے مجدد اور گورو کے بالکل الٹ اور خلاف ہے اور ہم پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ: ’’ من چہ می سرائم وتنبورہ من چہ می سراید۔ ‘‘
میرے پرانے دوستو! دو کشتیوں پر پاؤں رکھ کر تم ساحل مراد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ اگر صدق دل سے تم ہر ایک کلمہ گو کو مسلمان سمجھتے ہو تو ہماری طرح ببانگ دہل مرزاقادیانی سے بیزاری کا اعلان کر دو۔ کیونکہ وہ تمام جہان کے کلمہ گو مسلمانوں کو، جنہوں نے ان کی بیعت نہیں کی اور ان کے مخالف ہیں، جہنمی قرار دے رہے ہیں اور اگر تم مرزاقادیانی کے اس خطرناک عقیدہ سے بیزاری کا اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں تو اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ تم محض مسلمانوں سے چندہ وصول کرنے کی خاطر انہیں مسلمان کہتے ہو۔ ورنہ دل سے مرزاقادیانی کے عقیدہ پر تمہیں پختہ ایمان ہے۔
میں منتظر ہوں کہ احمدیہ بلڈنگس لاہور کی چاردیواری سے کیا جواب ملتا ہے؟

مرزا صاحب کی بیعت ہی مدار نجات ہے​

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ قرآن پاک، سنت نبوی اور حدیث شریف پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنا ہی نجات کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ اطیعوا اللہ والرسول لعلکم ترحمون ‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول برحق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ساڑھے تیرہ سو سال سے تمام مسلمان اللہ تعالیٰ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہی مدار نجات مانتے چلے آئے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی قرآن اور حدیث کے خلاف یوں رقمطراز ہیں: ’’اب دیکھو کہ خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں، دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے۔‘‘ (حاشیہ اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)

کہاں ہیں لاہوری جماعت کے علماء وممبر؟​

اپنی آنکھوں سے مرزاقادیانی کی محبت کی پٹی اتار کر اس عبارت کو پڑھیں اور للّٰہ غور کریں کہ کیا مرزاقادیانی نے اسلامی مسائل کی تجدید کی ہے یا سرے سے ہی انہوں نے اسلامی اصولوں کو بدل ڈالا ہے۔ مرزاقادیانی سے پیشتر ایک پکا کافر اور مشرک کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھ کر قرآن اور سنت نبوی پر عمل کر کے نجات کا مستحق ہو جاتا تھا۔ مگر اب کوئی لاکھ دفعہ بھی کلمہ شریعت پڑھے اور ساری عمر قرآن وسنت پر بھی عمل کرتا رہے لیکن مرزا قادیانی کی بیعت نہ کرے اور ان کی تعلیم پر عمل نہ کرے تو اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔ کیا مرزاقادیانی نے اسلامی اصولوں کو منسوخ کرنے میں کوئی کسر باقی چھوڑی ہے؟ پہلے تو نجات کے لئے قرآن وسنت کی پیروی کی ضرورت تھی لیکن اب مرزاقادیانی کی بیعت کرنے اور ان کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے بغیر کسی کی نجات ہوہی نہیں سکتی۔ یہ مرزاقادیانی کا ایک اٹل فیصلہ ہے۔ لاہوری جماعت مرزاقادیانی کے اس الہام کو تاویلات کے شکنجے میں جکڑ نہیں سکتی۔
مرزاقادیانی نے دوسری جگہ لکھا ہے: ’’ و اللہ انی غالب وسیظہر شوکتی وکل ہالک الا من قعد فی سفینتی ‘‘ بخدا میں غالب ہوں اور عنقریب میری شوکت ظاہر ہو جائے گی اور ہر ایک مرے گا مگر وہی بچے گا جو میری کشتی میں بیٹھ گیا۔
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۹، تذکرہ ص۷۱۳، ط۳)
اس جگہ بھی مرزاقادیانی نے صاف الفاظ میں پیش گوئی کی ہے کہ جو شخص میری کشتی میں نہیں بیٹھتا وہ ہلاک ہو جائے گا۔
ناظرین! مرزاقادیانی نے جو کشتی بنائی ہے، اس کا نام ’’کشتی نوح‘‘ رکھا ہے اور وہ کاغذ کی کشتی ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو شخص کاغذ کی کشتی میں بیٹھے گا، وہ مع اس کشتی کے غرق ہو جائے گا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیو! اگر ہمارے کہنے پر اعتبار نہ ہو تو آنے والے ساون بھادوں میں جب تمہاری جائے رہائش کے نزدیک ترین دریا میں طغیانی آئے تو مرزاقادیانی کی بنائی ہوئی کاغذ کی کشتی نوح کو دریا میں ڈال کر اس پر بیٹھ جاؤ اور پھر دیکھو کہ تمہارے مجدد مسیح موعود اور ظلی بروزی نبی کی پیش گوئی پوری ہوتی ہے یا ہمارا مشاہدہ درست ثابت ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی کو ٹیچی جی مہاراج کی وساطت سے ایک الہام ان الفاظ میں ہوتا ہے: ’’ قطع دابر القوم الذین لا یؤمنون ‘‘ اس قوم کی جڑ کاٹی گئی جو ایمان نہیں لاتے۔
(البشریٰ ج۲ ص۱۰۵)
یہ معاملہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ لاہوری اور قادیانی مرزائیوں کے مجدد اورنبی کو تو یہ الہام ہورہا ہے کہ جو قوم مجھ پر ایمان نہیں لاتی، اس قوم کی جڑ کاٹی گئی۔ یعنی وہ قوم نیست ونابود ہو جائے گی۔ مرزاقادیانی تو اپنے منکرین کو تباہ وبرباد کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے مرید ہیں کہ آئے دن اپنی تقریروں اور تحریروں میں عامتہ المسلمین کی بہتری اور ہمدردی کے راگ الاپتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گورو اور چیلوں کی اس متضاد روش سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ یا تو مرزاقادیانی کے قادیانی اور لاہوری مریدوں کو مرزاقادیانی کے الہامات پر یقین نہیں اور اگر الہامات پر یقین ہے تو محض زبان سے دکھاوے اور نمائش کے لئے مسلمانوں کی ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے تاکہ اس ہمدردی کی آڑ لے کر مسلمانوں کی جیبوں سے ان کی سنہری اور روپہلی اغراض پوری ہوسکیں اور مسلمانوں کے روپے سے ان کے خزانہ کی رونق بڑھتی رہے۔ اسی مضمون کو مرزاقادیانی نے دوسری جگہ واضح کیا ہے: ’’خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا، وہ کاٹا جائے گا۔ بادشاہ ہو یا غیربادشاہ۔‘‘
(اشتہار حسین کامی سفیر روم، مندرجہ البشریٰ ص۴۵، تذکرہ ص۳۰۲، طبع سوم)
اس عبارت میں بھی مرزاقادیانی نے کھلے الفاظ میں اشتہار دے دیا ہے کہ مسلمانوں میں سے جو میری بیعت نہ کرے گا، وہ کاٹا جائے گا۔ یعنی تباہ وبرباد اور نیست ونابود ہو جائے گا۔
لاہوری احمدیو! تم بلاخوف لومتہ لائم دو لفظہ جواب دو کہ تمہارا بھی اس پر ایمان ہے یا نہیں؟

مرزا صاحب کا اپنا منکرین پر فتویٰ کفر​

مرزاقادیانی کا عقیدہ، جس کی رو سے تمام اہل قبلہ، سوائے مرزائیوں کے کافر قرار دئیے گئے ہیں۔ ایک مشہور اور مسلّم امر ہے۔ تاہم بطور نمونہ چند حوالہ جات پیش کرتا ہوں۔ جن میں مرزاقادیانی آنجہانی نے اپنے منکرین کوکافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اوراس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اب میں ایک شخص کے کہنے سے جس کا دل ہزاروں تاریکیوں میں مبتلا ہے، خدا کے حکم کو چھوڑ دوں۔ اس سے سہل تر یہ بات ہے کہ ایسے شخص کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا جائے۔ اس لئے میں آج کی تاریخ سے آپ کو اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں۔ ہاں! اگر کسی وقت صریح الفاظ سے آپ اپنی توبہ شائع کریں اور اس خبیث عقیدہ سے باز آجائیں تو رحمت الٰہی کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ لوگ جو میری دعوت کے رد کرنے کے وقت قرآن شریف کی نصوص صریحہ کو چھوڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کے کھلے کھلے نشانوں سے منہ پھیرتے ہیں، ان کو راست باز رقرار دینا صرف اس شخص کا کام ہے۔ جس کا دل شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کا خط ڈاکٹر عبدالحکیم خان کے نام بحوالہ الذکر الحکیم نمبر۴ ص۲۳،۲۴)
مرزاقادیانی نے صاف اور غیرمبہم الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ دنیا کے وہ تمام مسلمان، جن کو میری دعوت پہنچ گئی ہے اور انہوں نے میری بیعت نہیں کی، وہ مسلمان نہیں ہیں اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے مواخذہ کرے گا کہ تم نے مرزاقادیانی کی مسیحیت اور نبوت کے سامنے اپنا سرکیوں نہیں جھکایا تھا؟ اپنے مریدوں کو عامتہ المسلمین سے متنفر کرنے کے لئے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جو مسلمان خدا کے کھلے کھلے نشانوں یعنی خود بدولت کے ’’معجزات‘‘ کا انکار کرتے ہیں ان کو راست باز قرار دینا صرف اس شخص کا کام ہے، جس کا دل شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہے۔
لاہوری احمدیو! دنیا کے ان چالیس کروڑ (اب ۲۰۱۷ء میں ایک ارب چالیس کروڑ) مسلمانوں میں سے، جو مرزاقادیانی کے معجزات اور نشانوں کو نہیں مانتے، تم کسی کو راست باز سمجھتے ہو؟ جواب دینے سے پہلے اپنے ظلی نبی کے فتوے کو دوبارہ پڑھ لینا۔
ایک شخص مرزاقادیانی سے سوال کرتا ہے: ’’حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے، جو آپ کی تکفیر کرکے کافر بن جائیں، صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا۔ لیکن عبدالحکیم خاں کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص، جس کو میری دعوت پہنچتی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے۔ یعنی پہلے آپ ’’تریاق القلوب‘‘ وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہوتا اور اب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷)
اس سوال کا جواب مرزاقادیانی نے ان الفاظ میں دیا ہے:
۲… ’’یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا، وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افتراء کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے: ’’ فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوکذب بایتہ ‘‘
یعنی بڑے کافر دو ہی ہیں۔ ایک خدا پر افتراء کرنے والا، دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا۔ پس جب کہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افتراء کیا ہے، اس صورت میں نہ میں صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلاشبہ وہ کفر اس پر پڑے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمایا ہے۔ علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیش گوئی موجود ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۶۳،۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷،۱۶۸)
حاشیہ پر لکھا ہے: ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا، وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے ذیل کے نتائج نکلتے ہیں۔
الف… مرزاقادیانی کو کافر کہنے والے اور ان کے دعاوی کو نہ ماننے والے ایک ہی قسم کے لوگ ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
ب… جو شخص مرزاقادیانی کے دعاوی کو نہیں مانتا، وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ ان کو مفتری قرار دیتا ہے۔
ج… جو شخص مرزاقادیانی کو نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔
د… جو شخص مرزاقادیانی کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔
میاں شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۳… ’’اور اگر میاں شمس الدین کہیں کہ پھر ان کے مناسب حال کون سی آیت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت مناسب حال ہے کہ: مادعاء الکافرین الافی ضلال ‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۲)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس عبارت میں مرزاقادیانی نے صریح الفاظ میں اپنے منکر مسلمانوں کو کافر کہا ہے۔ مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:
۴… ’’کفر دو قسم پر ہے۔ ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول مانتا ہے۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا مانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
اس عبارت کا مفہوم صاف ہے کہ مرزاقادیانی کے منکر اسی قسم کے کافر ہیں، جس قسم کے کافر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
لاہوری مرزائیو! یہ مت کہہ دینا کہ ’’یہاں حضرت مرزاصاحب نے اپنے مکذب کا ذکر کیا ہے۔‘‘ کیونکہ مرزاقادیانی پہلے لکھ چکے ہیں کہ: ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔‘‘ اور یہ بات ہے بھی صحیح کہ جو مرزاقادیانی کے دعویٰ مسیحیت وغیرہ کا منکر ہوگا اور اسی وجہ سے انکار کرے گا کہ وہ ان کو جھوٹا سمجھتا ہے۔ مرزاقادیانی پر الہام نازل ہوتا ہے:
۵… ’’ قالوا ان التفسیر لیس بشیٔ ‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۶۷)
(ترجمہ) ’’انہوں نے کہا کہ تفسیر (مراد تفسیر سورۂ فاتحہ مندرجہ اعجاز المسیح) کچھ چیز نہیں (تشریح) اس الہام میں خداتعالیٰ نے کفار مولویوں کا مقولہ بیان فرمایا ہے۔‘‘ مرزاقادیانی کے اس الہام سے معلوم ہوا کہ جن علماء نے کہہ دیا کہ مرزاقادیانی کی سورۂ فاتحہ کی تفسیر کچھ چیز نہیں، وہ کفار مولوی ہیں۔
مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:
۶… ’’اور خداتعالیٰ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں، اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا، اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزارہا نشان ایک جگہ جمع کر دئیے۔ لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے اور محض افتراء کے طور پر ناحق کے اعتراض پیش کر دیتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ ص۳۳۲)
کرشن قادیانی کے چیلو! سن لیا؟ تمہارے رودرگوپال کیا فرماتے ہیں؟ پہلے تو اپنے منکر مسلمانوں کو کافر کہنے پر ہی اکتفاء کیا تھا، لیکن اس عبارت میں فرمادیا کہ خدا نے مجھے ہزارہا نشان یا معجزات عطاء کئے ہیں اور جو لوگ ان معجزات کو نہیں مانتے وہ شیطان ہیں۔
ان حوالہ جات سے ظاہر ہوچکا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے منکر مسلمانوں کو کافر اور شیطان کہتے تھے۔ ’’لاہوری مرزائیوں کے خلیفہ اوّل‘‘ مولوی نورالدین فرماتے ہیں:
۷… اسم او اسم مبارک ابن مریم مے نہند
آں غلام احمد است و میرزائے قادیاں
گر کسے آرد شکے در شان او آں کافر است
جائے او باشد جہنم بے شک و ریب و گماں
(الحکم مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۸ء)
لاہوری مرزائیو! ۱۷؍اگست ۱۹۰۸ء کو جب یہ نظم اخبار ’’الحکم‘‘ میں شائع ہوئی تھی، اس وقت تم نے اس کے خلاف آواز کیوں نہ بلند کی؟ ہاں جناب کرتے بھی کس طرح، مولوی نورالدین کا آہنی پنجہ سر پر موجود تھا اور تم اس وقت خود بھی اسی عقیدے پر ایمان رکھتے تھے۔

مرزا صاحب کا مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ​

مرزاقادیانی آنجہانی اپنے نہ ماننے والے اور مخالف مسلمانوں کو کافر اور جہنمی سمجھتے تھے۔ اس لئے اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ وہ مسلمان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ بھی دے دیتے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ایسا ہی کیا۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
۱… ’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے۔ اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پس یاد رکھو جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے، تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ: ’’امامکم منکم‘‘ یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو، جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں، بہ کلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے، وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر یک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا فیصلہ مجھ سے چاہتا ہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا، اس میں تم نخوت اور خودپسندی اور خود اختیاری پاؤ گے۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں۔ کیونکہ وہ میری باتوں کو، جو مجھے خدا سے ملی ہیں، عزت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
الف… مرزاقادیانی کا جو مرید کسی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، وہ ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جو قطعی حرام ہے۔
ب… مرزائیوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ مسلمانوں سے قطعی طور سے الگ رہیں۔
ج… جو مرزائی ایسا نہیں کرتا، اس پر خدا کا الزام ہے اور اس کے عمل حبط ہوجائیں گے۔
د… جو شخص مرزاقادیانی کا دل سے معتقد ہے، وہ ان کے اس فیصلے اور دوسرے تمام فیصلوں کو مانتا ہے اور ہر تنازع میں مرزاقادیانی کو حکم ٹھہراتا ہے۔
ھ… جو شخص مرزاقادیانی کا مرید ہونے کے باوجود ان کے کسی فیصلہ کو نہیں مانتا، اس کی آسمان پر عزت نہیں۔
ایک دفعہ مرزاقادیانی نے اپنی مفتیانہ شان کا ان الفاظ میں مظاہرہ کیا تھا:
۲… ’’حج میں بھی آدمی یہ التزام کر سکتا ہے کہ اپنے جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ بعض آئمہ دین سالہاسال مکہ میں رہے۔ لیکن چونکہ وہاں کے لوگوں کی حالت تقویٰ سے گری ہوئی تھی۔ اس لئے کسی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارہ نہ کیا اور گھر میں پڑھتے رہے۔‘‘ (فقہ احمدیہ ص۳۰، فتاویٰ مسیح موعود ص۲۸)
مرزاقادیانی نے صرف اتنا ہی نہیں لکھا کہ میرے مریدوں پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھیں، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میرا جو مرید کسی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، کوئی مرزائی اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے، جیسا کہ ایک شخص کے سوال پر مرزاقادیانی نے جواب دیا۔
۳… ’’جو احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، جب تک توبہ نہ کرے، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔‘‘ (فقہ احمدیہ ص۳۰)
لاہوری احمدیو! مرزاقادیانی کے ان احکامات پر عمل کرنا تمہارے لئے فرض ہے یا نہیں؟ ’’اربعین‘‘ کی مندرجہ بالا عبارت پڑھ کر جواب دینا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کی پیش گوئیاں​

مرزاقادیانی کے دعاوی کو پرکھنے کے لئے کسی علمی بحث کی ضرورت نہیں۔ مرزاقادیانی نے اپنی صداقت جانچنے کے لئے علمی باریکیوں، منطقی الجھنوں، فلسفیانہ دلائل اور صرفی ونحوی نکات سے ہمیں بے نیاز کر دیا ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
الف… ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
ب… ’’سو پیش گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں، کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہو، بلکہ محض اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں۔ سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیش گوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۷۵،۳۷۶)
ج… ’’ ومن ایں (پیش گوئی) را برائے صدق خود یا کذب خود معیارمی گردانم۔ ‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
مرزاقادیانی کی ان تحریرات نے فیصلہ کر دیا کہ ان کی صداقت وبطالت کی شناخت کا سب سے بڑا معیار ان کی پیش گوئیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرزاقادیانی ہر تصنیف میں اپنے نشانات، کرامات اور معجزات کے بے سرے راگ ہمیشہ ہی الاپتے رہے اور یہاں تک لکھ دیا کہ میرے نشانات اور معجزات سے ہزار نبیوں کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر مرزاقادیانی کی تصنیفات ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پڑھ لی جائیں تو سوائے فٹ بال کی طرح گول مول اور انٹ شنٹ پیش گوئیوں کے اور کوئی نشان، کرامت یا معجزہ نظر نہیں آتا اور ان پیش گوئیوں کے الفاظ بھی موم کی ناک کی طرح ہیں۔ جدھر چاہو الٹ پھیر کر دو اور جب تک انہیں تاویلات کے شکنجہ میں نہ جکڑ دیا جائے، وہ کسی واقعہ پر چسپاں نہیں ہوسکتے۔ ہماری تحقیقات کا نتیجہ ہے کہ مرزاقادیانی کی کوئی متحدیانہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی۔ بلکہ جتنی تحدی سے کوئی پیش گوئی کی گئی، اتنی ہی صراحت سے وہ غلط نکلی۔ بالفرض اگر مرزاقادیانی کے بیان کردہ ہزاروں ’’الہامات‘‘ میں سے چند پیش گوئیاں اپنی تاویلات باطلہ کی رو سے لوگوں کی نظروں میں صحیح کر دکھائیں تو بھی وہ مرزاقادیانی کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے خود تحریر فرمایا ہے: ’’بعض فاسقوں اور غایت درجہ کے بدکاروں کو بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں اور بعض پرلے درجہ کے بدمعاش اور شریر آدمی اپنے ایسے مکاشفات بیان کیا کرتے ہیں کہ آخر وہ سچے نکلتے ہیں۔ بلکہ میں یہاں تک مانتا ہوں کہ تجربہ میں آچکا ہے کہ بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت، جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہے، جس کی تمام جوانی بدکاری میں ہی گزری ہے، کبھی سچی خواب دیکھ لیتی ہے اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت کبھی ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بہ سرو آشنا ببر کا مصداق ہوتی ہے۔ کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ سچی نکلتی ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۸۴، خزائن ج۳ ص۹۴،۹۵)
جب پرلے درجے کے بدمعاشوں، بدکاروں اور رنڈیوں تک کی چند پیش گوئیاں اور خواب سچے نکل آتے ہیں تو اگر بالفرض مرزاقادیانی کی ایک آدھ گول مول پیش گوئی سچی ثابت ہو جائے تو ان کے لئے باعث فخر نہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کو اپنی پیش گوئیوں کے سچا ہونے پر بڑا ناز ہے۔
مرزاقادیانی نے اپنی پیش گوئیوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں۱؎ تک لکھی ہے۔ ان سب کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مگر اس مختصر رسالہ میں زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں۔ اس لئے میں ناظرین کے سامنے چند معرکتہ الآراء اور متحدیانہ پیش گوئیاں پیش کرتا ہوں، جنہیں مرزاقادیانی نے بڑے طمطراق سے شائع کیا اور انہیں خاص طور پر اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا۔

پہلی پیش گوئی متعلقہ منکوحہ آسمانی​

 
آخری تدوین :

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
الف… مرزاقادیانی کی آسمانی منکوحہ (محمدی بیگم) مرزاقادیانی کی حقیقی چچازاد بہن کی دختر تھی۔
ب… مرزاقادیانی کے ماموں زاد بھائی کی لڑکی تھی۔
ج… مرزاقادیانی کی زوجہ اوّل کے چچازاد بھائی کی بیٹی تھی۔
د… مرزاقادیانی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی کی ماموں زاد بہن تھی۔
ان نسبی تعلقات سے پتہ چلتا ہے کہ محمدی بیگم مرزاقادیانی کے قریبی رشتہ میں سے تھی۔ پیغام نکاح کے وقت ان کی عمریں حسب ذیل تھیں۔ مرزاقادیانی خود تحریر فرماتے ہیں: ’’ ہذہ المخطوبۃ جاریۃ حدیثۃ السن عذرا وکنت حینئذ جاوزت الخمسین ‘‘ (ترجمہ) یہ لڑکی ابھی چھوکری ہے اور میری عمر اس وقت پچاس سال سے زیادہ ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۴، خزائن ج۵ ص۵۷۴)
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ (ص۵۶۹تا۵۷۴) کے مطالعہ سے مرزاقادیانی کے دل میں تحریک نکاح پیدا ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسمی احمد بیگ والد محمدی بیگم نے چاہا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کا بذریعہ ہبہ مالک بن جائے۔ جس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبر تھا۔ چونکہ اس اراضی کے ہبہ کرانے میں مرزاقادیانی کی رضامندی کی بھی ضرورت تھی۔ اس لئے

۱؎ میرے نشان تین لاکھ تک پہنچتے ہیں۔ (حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۷۰)
میرے تقریباً دس لاکھ نشان ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۶۱، خزائن ج۲۱ ص۷۲)
احمد بیگ کی بیوی نے مرزاقادیانی کے پاس جاکر کہا کہ آپ اس ہبہ پر رضامند ہو جائیں۔ مرزاقادیانی نے بات کو استخارہ کرنے کے بہانہ سے ٹال دیا۔ پھر خود احمد بیگ مرزاقادیانی کے پاس آیا اور اس نے نہایت عاجزی سے التجا کی۔ بقول مرزاقادیانی، وہ زارزار روتا تھا، کانپتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اس کا یہ غم اسے ہلاک کر دے گا۔ مرزاقادیانی نے اسے کہا کہ میں استخارہ کرنے کے بعد تمہاری مدد کروں گا۔ چنانچہ مرزاقادیانی استخارہ کرنے کے لئے اپنے حجرہ میں گئے تو مرزاقادیانی کو الہام ہوا:
۱… ’’ فاوحی اللہ الی ان اخطب صبیہ الکبیرۃ لنفسک وقل لہ لیصاہرک اولاثم لیقتبس من قبسک وقل انی امرت لا ھبک ما طلبت من الارض وارضا اخرے معہا واحسن الیک باحسانات اخرے علے ان تنکحنی احدی بناتک اللتی کبیرتہا وذلک بینی وبینک فان قبلت فستد جنی من المتقبلین وان لم تقبل فاعلم ان اللہ قد اخبرنی ان انکحہا رجلا آخر لا یبارک لہا ولا لک فان لم تزوجوا فیصب علیک مصائب واخر المصائب موتک فتموت بعد النکاح الی ثلث سنین بل موتک قریب ویرد علیک وانت من الغفلین وکذلک یموت بعلتہا الذی یصیر زوجہا الی حولین وستۃ اشہر قضاء من اللہ فاصنع ما انت صانعہ وانی لک من الناصحین فعبس وتولی وکان من المعرضین ‘‘
(ترجمہ) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی کہ اس شخص (احمد بیگ) کی بڑی لڑکی کے نکاح کے لئے درخواست کر اور اس سے کہہ دے کہ پہلے وہ تمہیں دامادی میں قبول کرے اور پھر تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے اور کہہ دے کہ مجھے اس زمین کے ہبہ کرنے کا حکم مل گیا ہے، جس کے تم خواہش مند ہو۔ بلکہ اس کے علاوہ اور زمین بھی دی جائے گی اور دیگر مزید احسانات تم پر کئے جائیں گے۔ بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے نکاح کردو۔ میرے اور تمہارے درمیان یہی عہد ہے۔ تم مان لو گے تو میں بھی تسلیم کر لوں گا۔ اگر تم قبول نہ کرو گے تو خبردار رہو، مجھے خدا نے یہ بتلادیا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا تو نہ اس لڑکی کے لئے یہ نکاح مبارک ہوگا اور نہ تمہارے لئے۔ اس صورت میں تم پر مصائب نازل ہوں گے جن کا نتیجہ تمہاری موت ہوگا۔ پس تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے۔ بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور ایسا اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ پس جو کرنا ہے کر لو۔ میں نے تم کو نصیحت کردی ہے۔ پس وہ تیوری چڑھا کر چلا گیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲،۵۷۳، خزائن ج۵ ص۵۷۲،۵۷۳)
اس کے چلے جانے کے بعد مرزاقادیانی نے بقول ان کے اسے ایک خط خدا کے حکم سے لکھا جس میں منت سماجت بھی کی گئی اور انواع واقسام کے لالچ بھی دئیے گئے۔ مگر مرزااحمد بیگ پر اس خط کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ اس نے اس خط کو عیسائی اخبار ’’نورافشاں‘‘ میں شائع کرادیا۔ اس پر ’’کرشن قادیانی‘‘ نے ایک اشتہار شائع کیا جس کے خاص خاص فقرات درج ذیل ہیں:
۲… ’’اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں کے نکاح کے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک ومروت تمام سے اسی شرط پر کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۸ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی۔ وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے باربار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خداتعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی۔ ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلاوے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارہ میں ہے: ’’ کذبوا بایتنا وکانوا بہا یستہزون فسیکفیکہم اللہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا ‘‘ (ترجمہ) ’’انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خداتعالیٰ ان سب کے
تدارک کے لئے، جو اس کام کو روک رہے ہیں، تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس کی لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی… یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں۔ لیکن آخرکار خداتعالیٰ کی مدد دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کھلنے سے چاروں طرف تعریف ہوگی۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء، مندرجہ مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۷تا۱۵۹)
اس اشتہار کا مضمون واضح اور صاف ہے۔ مزید تشریح یا حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں۔ مرزاقادیانی نے بغیر کسی شرط کے کھلے اور غیرمبہم الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح میرے سوا اور کسی سے کر دیا گیا تو احمد بیگ والد محمدی بیگم اور اس کا داماد دونوں تاریخ نکاح سے تین اور اڑھائی سال تک فوت ہو جائیں گے اور خداتعالیٰ ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد محمدی بیگم کو میرے نکاح میں لائے گا۔
اس کے بعد مرزاقادیانی نے اپنے اس آسمانی نکاح کے متعلق جو الہامات یا تحریریں شائع کیں، ان کے ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں:
۳… ’’عرصہ قریباً تین برس کا ہوا ہے کہ بعض تحریکات کی وجہ سے، جن کا مفصل ذکر اشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے، خداتعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا ہے کہ مرزااحمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن آخر کار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خداتعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھادے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ چنانچہ اس پیش گوئی کا مفصل بیان مع اس کی میعاد خاص اور اس کے اوقات مقرر شدہ کے اور مع اس کے ان تمام لوازم کے جنہوں نے انسان کی طاقت سے اس کو باہرکردیا ہے۔ اشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اور وہ اشتہار عام طبع ہوکر شائع ہوچکا ہے۔ جس کی نسبت آریوں کے بعض منصف مزاج لوگوں نے بھی شہادت دی کہ اگر یہ پیش گوئی پوری ہو جائے تو بلاشبہ یہ خداتعالیٰ کا فعل ہے اور یہ پیش گوئی ایک سخت مخالف قوم کے مقابل پر ہے۔ جنہوں نے گویا دشمنی اور عناد کی تلواریں کھینچی ہوئی ہیں اور ہر ایک کو، جو ان کے حال سے خبر ہوگی، وہ اس پیش گوئی کی عظمت خوب سمجھتا ہوگا۔ ہم نے اس پیش گوئی کو اس جگہ مفصل نہیں لکھا تا باربار کسی متعلق پیش گوئی کی دل شکنی نہ ہو۔ لیکن جو شخص اشتہار پڑھے گا۔ وہ گو کیسا ہی متعصب ہوگا، اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ مضمون اس پیش گوئی کا انسان کی قدرت سے بالاتر ہے اور اس بات کا جواب بھی کامل اور مسکت طور پر اسی اشتہار پر سے لے گا کہ خداوند تعالیٰ نے کیوں یہ پیش گوئی بیان فرمائی اور اس میں کیا مصالح ہیں اور کیوں اور کس دلیل سے یہ انسانی طاقتوں سے بلند تر ہے۔ اب اس جگہ مطلب یہ ہے کہ جب یہ پیش گوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ (جیسا کہ اب تک بھی جو ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ء ہے پوری نہیں ہوئی) تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا پیش گوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیش گوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا: ’’الحق من ربک فلا تکوننّ من الممترین‘‘ یعنی بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے، تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۶تا۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۵،۳۰۶)
 
Top