محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت
مرزاقادیانی کے مریدوں کے دو فریق ہیں۱؎۔ ایک کا مرکز لاہور ہے، دوسرے کا قادیان۔ قادیانی جماعت مرزاقادیانی کو نبی مانتی ہے۔ لیکن لاہوری جماعت مرزاقادیانی کی تعلیم کے خلاف انہیں نبی نہیں کہتی۔ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کی تحقیقات کرنے کے لئے مرزاقادیانی کی کتابوں کو نہایت غوروخوض سے مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرزاقادیانی، دعویٰ مسیحیت کے ابتدائی ایام میں اپنے آپ کو محدث کہتے تھے اور اپنی محدثیت کی تعریف ایسی کیا کرتے تھے، جس کا مفہوم نبوت ہوتا تھا۔ لیکن بعدہ، کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ مرزاقادیانی نے اپنی ابتدائی تحریروں میں یہاں تک لکھا ہے کہ: ’’میں سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں اور مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
لیکن اس کے بعد وہ زمانہ بھی آیا جب مرزاقادیانی نے صاف الفاظ میں اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ اس لئے لاہوری جماعت مرزاقادیانی کی ابتدائی تحریروں سے انکار نبوت کے جو حوالہ جات پیش کرتی ہے، وہ قابل قبول نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے خود فیصلہ کردیا ہے۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے، صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر، اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کہیں انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘
(مرزاقادیانی کا اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ص۲۱۰،۲۱۱)
۱؎ میرا فریق اروپی میں ہے جو مرزا کو تشریعی نبی مانتا ہے۔ اختر!
اس عبارت میں مرزاقادیانی نے تسلیم کر لیا ہے کہ ’’میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے اور آپ کے واسطے سے غیرتشریعی نبی بنا ہوں اور اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘ جہاں اس سے صاف ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی غیرتشریعی نبی ہونے کے مدعی تھے، ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوگیا کہ جس جس جگہ مرزاقادیانی نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے، وہاں انکار نبوت سے مرزاقادیانی کی یہ مراد تھی کہ میں شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں اور نہ مستقل طور پر نبی ہوں۔ اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ مرزاقادیانی نے مستقل نبی یا مستقل نبوت کی کیا تعریف کی ہے۔ مرزاقادیانی ارشاد فرماتے ہیں: ’’بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ۱؎ دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
مرزاقادیانی کی اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی دو قسم کے ہوتے ہیں۲؎۔ ایک وہ جو براہ راست نبی ہوتے ہیں، انہیں کسی نبی کی پیروی سے نبوت نہیں ملتی۔ وہ مستقل نبی کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو کسی دوسرے نبی کی اتباع اور پیروی سے نبی بنتے ہیں۔ انہیں امتی نبی کہا جاتا ہے اور میں دوسری قسم کا نبی ہوں۔ یعنی امتی نبی۔ دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے معنے ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا ہے، نہ براہ راست۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۹ حاشیہ، خزائن ج۲۰ ص۴۰۱)
ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرزاقادیانی مدعی نبوت تو ہیں، لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لائے اور نہ انہیں نبوت بلاواسطہ ملی ہے۔ بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور وساطت سے نبی بن گئے ہیں اور مرزاقادیانی کی اصطلاح میں یہی ظلی یا بروزی نبوت ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے:
۱؎ سلطان القلم کی فصیح وبلیغ اردو ملاحظہ ہو۔ (اختر)
۲؎ یہ لاہوری مرزائیوں کے مابل لکھا گیا ہے۔ ورنہ مرزاقادیانی کا اصل دعویٰ تشریعی نبوت کا تھا۔ تفصیل ہماری کتاب ’’خاتم النّبیین‘‘ میں دیکھئے۔ اختر!
’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں۔ پس منجملہ ان انعامات کے، وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں ہیں، جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے۔ لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے۔ جیسا کہ آیت: ’’ لا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول ‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت: ’’ انعمت علیہم ‘‘ گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے۔ اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لئے محض بروز اور ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
’’ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰)
مرزاقادیانی کے ان حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ امتی نبی ظلی یا بروزی نبی سے مرزاقادیانی کی یہ مراد تھی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے نبی بن جاتا۔ لاہوری جماعت کہا کرتی ہے کہ جس طرح ظل اصل نہیں ہوتا، اسی طرح ظلی نبی، نبی نہیں ہوتا۔ لیکن مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’سچے پیرو اس کے (قرآن مجید کے) ظلی طور پر الہام پاتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱ ص۹۶، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۳۸)
لاہوری احمدیو! سینے پر ہاتھ رکھ کر بتانا کہ اگر ظلی نبوت، نبوت نہیں تو ظلی الہام، الہام کس طرح ہوسکتا ہے؟ تمہارا عقیدہ خود ساختہ اور مرزاقادیانی کے خلاف ہے کہ ظلی نبوت، نبوت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ تمہاری جماعت کے امیر مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں: ’’پھر اس کو ظلی نبوت کہہ کر یہ بھی بتادیا کہ نبوت نہیں۔ کیونکہ ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے۔‘‘ (مسیح موعود اور ختم نبوت ص۲)
میرے پرانے دوستو! جب ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے تو تمہارے ’’حضرت مرزا صاحب‘‘ کہہ گئے ہیں کہ میں قرآن مجید کا سچا پیرو ہوں اور قرآن پاک کے سچے پیرو ظلی طور پر الہام پاتے ہیں۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم دنیا کے سامنے اعلان کر دو کہ مرزاقادیانی کے الہام کے ساتھ لفظ ظلی موجود ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی کا الہام، الہام نہیں۔ کیونکہ ظل کا لفظ ساتھ لگانے سے اصلیت کا انکار مقصود ہوتا ہے۔ پس مرزاقادیانی کے الہامات اضغاث احلام میں سے ہیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے۔ لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)