• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ترک مرزائیت

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۴… ’’اس عاجز نے ایک دینی خصومت پیش آجانے کی وجہ سے اپنے ایک قریبی مرزااحمد بیگ ولد گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم والہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔‘‘ (انتہی ملخصاً) (اشتہار مورخہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ء، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹)
۵… ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں۔ اوّل: نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔ دوم: نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم: پھر نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا۔ جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم: اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔ پنجم: اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم:پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچے ہوجانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص۳۲۵)
۶… ’’وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں:
(۱)کہ مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
(۲)اور پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے، اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
(۳)اور پھر یہ کہ مرزااحمد بیگ تاروز شادی دخترکلاں فوت نہ ہو۔
(۴)اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
(۵)اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
(۶)اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
۷… ’’میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے… نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(اشتہار انعامی چارہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۵،۱۱۶)
۸… ’’نفس پیش گوئی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم۱؎ ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے: ’’ لا تبدیل لکلمات اللہ ‘‘ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خداتعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ء، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
۹… ’’ دعوت ربی بالتضرع والابتہال ومددت الیہ ایدی السوال فالہمنی ربی وقال سااریہم اٰیۃ من انفسہم واخبرنی وقال اننی ساجعل بنتا من بناتہم اٰیۃ لہم فسماہا وقال انہا سیجعل ثیبۃ ویموت بعلہا وابوہا الی ثلث سنۃ من یوم النکاح ثم نردھا الیک بعد موتہما ولا یکون احدہما من العاصمین وقال انا رادوہا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید ‘‘ (کرامات الصادقین سرورق صفحہ اخیر، خزائن ج۷ ص۱۶۲)
(ترجمہ) ’’میں (مرزاقادیانی) نے بڑی عاجزی سے خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کیا کہ میں ان (تیرے خاندان کے) لوگوں کو ان میں سے ایک نشانی دکھاؤں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک لڑکی (محمدی بیگم) کا نام لے کر فرمایا کہ وہ بیوہ کی جائے گی اور اس کا خاوند اور باپ یوم نکاح سے تین سال تک فوت ہو جائیںگے۔ پھر ہم اس لڑکی کو تیری طرف لائیں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا اور فرمایا میں اسے تیری طرف واپس لاؤں گا۔ خدا کے کلام میں تبدیلی نہیں ہوسکتی اور تیرا خدا جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔‘‘
۱۰… ’’ کذبوا بایاتی وکانوا بہا یستہزون فسیکفیکہم اللہ ویردہا الیک امر من لدنا انا کنا فاعلین زوجناکہا الحق من ربک فلا تکوننّ من الممترین لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید انا رادوہا الیک ‘‘ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا۔ سو خدا ان کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا۔ یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں۔ بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا۔ تیرے رب کی طرف سے سچ
۱؎ مرزاقادیانی نے دوسری جگہ بھی تقدیر مبرم کے یہی معنی کئے ہیں کہ جو تبدیل نہ ہو سکے جیسا کہ فرماتے ہیں: ’’گویا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب یہ تقدیر مبرم ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۸۱)
ہے۔ پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو۔ خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے۔ تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ہم اس کو واپس لانے والے ہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۰،۶۱، خزائن ج۱۱ ص۶۰،۶۱)
۱۱… ’’ گفت کہ ایں مردم مکذب آیات من ہستتد وبدانہا استہزامی کنند پس من ایشانرا نشانے خواہم نمود وبرائے تو ایں ہمہ را کفایت خواہم شد وآں زن راکہ زن احمد بیگ رادختر است باز بسوئے تو واپس خواہم آورد یعنی چونکہ اواز قبیلہ بباعث نکاح اجنبی بیروں شدہ باز بتقریب نکاح تو بسوئے قبیلہ رو کردہ خواہد شد ودرکلمات خدا ووعدہ ہائے اوہیچ کس تبدیل نتواند کرد وخدائے تو ہرچہ خواہد آں امر بہرحالت شدنی است ممکن نیست کہ در معرض التوا بماند۔ پس خداتعالیٰ بلفظ فسیکفیکہم اللہ سوئے ایں امر اشارہ کرد کہ او دختر احمد بیگ رابعد میرانیدن مانعان بسوئے من واپس خواہد کرد۔ واصل مقصود میرانیدن بود وتو میدانی کہ ہلاک ایں امر میرانیدن است وبس۔ ‘‘ (انجام آتھم ص۲۱۶، خزائن ج۱۱ ص۲۱۶،۲۱۷)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(ترجمہ) ’’خدا نے فرمایا کہ یہ لوگ میری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ پس میں ان کو ایک نشان دوں گا اور تیرے لئے ان سب کو کافی ہوں گا اور اس عورت کو، جو احمد بیگ کی عورت کی بیٹی ہے، پھر تیری طرف واپس لاؤں گا۔ یعنی چونکہ وہ ایک اجنبی کے ساتھ نکاح ہو جانے کے سبب سے قبیلہ سے باہر نکل گئی ہے، پھر تیرے نکاح کے ذریعہ سے قبیلہ میں داخل کی جائے گی۔ خدا کی باتوں اور اس کے وعدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور تیرا خدا جو کچھ چاہتا ہے وہ کام ہر حالت میں ہو جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ معرض التوا میں رہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے لفظ فسیکفیکہم اللہ کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ احمد بیگ کی لڑکی کو روکنے والوں کو جان سے مار ڈالنے کے بعد میری طرف واپس لائے گا۔ دراصل مقصود جان سے مار ڈالنا تھا اور تو جانتا ہے کہ ہلاک اس امر کا جان سے مار ڈالنا ہے اور بس۔‘‘
۱۲… ’’براہین احمدیہ میں بھی اس وقت سے سترہ(۱۷) برس پہلے اس پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو اس وقت میرے پر کھولا گیا ہے اور وہ یہ الہام ہے جو براہین کے ص۴۹۶ میں مذکور ہے۔ ’’ یاآدم اسکن انت وزوجک الجنۃ ‘‘ اس جگہ تین بار زوج کا لفظ آیا اور تین نام اس عاجز کے رکھے گئے۔ پہلا نام آدم۔ یہ وہ ابتدائی نام ہے جب کہ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس عاجز کو روحانی وجود بخشا۔ اس وقت پہلی زوجہ کا ذکر فرمایا۔ پھر دوسری زوجہ کے وقت میں مریم نام رکھا کیونکہ اس وقت مبارک اولاد دی گئی۔ جس کو مسیح سے مشابہت ملی اور نیز اس وقت مریم کی طرح کئی ابتلاء پیش آئے۔ جیسا کہ مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت یہودیوں کی بدباطنیوں کا ابتلاء پیش آیا اور تیسری زوجہ جس کی انتظار۱؎ ہے، اس کے ساتھ احمد کا لفظ شامل کیاگیا اور یہ لفظ احمد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت۲؎ حمد اور تعریف ہوگی۔ یہ ایک چھپی ہوئی پیش گوئی ہے جس کا سر اس وقت خداتعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا۔ غرض یہ تین مرتبہ زوج کا لفظ تین مختلف نام کے ساتھ جو بیان کیاگیا ہے، وہ اسی پیش گوئی کی طرف اشارہ تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
۱۳… ’’اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ ’’ یتزوج ویولدلہ ‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان۳؎ ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے۔ گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیہ دل منکروں کو ان کے

۱؎ سچ ہے ؎
شب وعدہ کسی کی انتظاری کیا قیامت ہے
کھٹکتی خار بن کر ہے مہک پھولوں کے بستر کی
۲؎ اگر محمدی بیگم کا نکاح مرزاقادیانی سے ہو جاتا تو مرزاقادیانی کی حمد اور تعریف ہوتی۔ احمدی دوستو! نکاح نہ ہونے سے مرزاقادیانی کی رسوائی وذلت ہوئی یا نہیں؟ (اختر)
۳؎ مرزاقادیانی محمدی بیگم کے ساتھ نکاح ہوجانے کو اپنے مسیح موعود ہونے کا نشان قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ مرزاقادیانی کا یہ نکاح نہیں ہوا۔ اس لئے مرزاقادیانی بقول خود مسیح موعود نہ ہوئے۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‘‘
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۷)
۱۴… ’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیش گوئی ہے، وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور امر ہے۔ وہ مرزاامام الدین کی ہمشیرہ زادی ہے جو خط بنام مرزااحمد بیگ کلمہ فضل رحمانی میں ہے۔ وہ میرا ہے اور سچ ہے وہ عورت میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی۔ مگر ’’میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا۔‘‘ جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔ وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اسی عدالت میں جہاں ان باتوں پر جو میری طرف سے نہیں ہیں، بلکہ خدا کی طرف سے ہیں، ہنسی کی گئی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا اور سب کے ندامت سے سرنیچے ہوں گے۔ پیش گوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہی پیش گوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جائے گی۔ اس لڑکی کے باپ کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیش گوئی شرطی تھی اور شرط توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کی تھی۔ لڑکی کے باپ نے توبہ نہ کی۔ اس لئے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مرگیا اور پیش گوئی کی دوسری جز پوری ہوگئی۔ اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا اور خصوصاً شوہر پر پڑا جو پیش گوئی کا ایک جز تھا۔ انہوں۱؎ نے توبہ کی۔ چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے اس کو مہلت دی۔ عورت اب تک زندہ ہے۔ میرے نکاح میں وہ عورت ضرورت آئے گی۔ امید کیسی یقین کامل ہے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں ٹلتی ہیں، ہوکر رہیں گی۔‘‘ (اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء، مرزاقادیانی کا حلفیہ بیان عدالت ضلع گورداسپور میں کتاب منظور الٰہی ص۲۴۴،۲۴۵)
ناظرین! مندرجہ بالا حوالہ جات خود ہی اپنی تشریح کر رہے ہیں۔ کسی مزید وضاحت اور حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں۔ ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں مرزاقادیانی نے الہامی اعلان کر دیا تھا کہ محمدی بیگم کا باکرہ ہونے کی حالت میں میرے ساتھ نکاح ہوگا اور اگر اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دیا گیا تو اس کا خاوند روزنکاح سے اڑھائی سال تک فوت ہو جائے گا اور خداتعالیٰ ہر ایک مانع کو دور کرنے کے بعد اسے میرے نکاح میں لائے گا۔ ’’ازالہ اوہام‘‘، ’’اشتہار مئی ۱۸۹۱ء‘‘، ’’شہادت القرآن‘‘، ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘، ’’کرامات الصادقین‘‘ کے جو حوالہ جات میں نے نقل کئے ہیں، ان میں بھی یہی ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے کہ محمدی بیگم کا خاوند اڑھائی سال کے اندر فوت ہو جائے گا اور محمدی بیگم مرزاقادیانی کے نکاح میں آجائے گی۔ اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ مرزاسلطان محمد صاحب ساکن پٹی سے نکاح کب ہوا اور مرزاقادیانی کے الہامی قول کے مطابق اس کی زندگی کی آخری تاریخ کون سی تھی۔ اس کے لئے ہمیں بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں۔ مرزاقادیانی خود تحریر فرماتے ہیں: ’’۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو اس لڑکی (محمدی بیگم) کا دوسری جگہ نکاح ہوگیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۰، خزائن ج۵ ص۲۸۰)
نکاح کی تاریخ معلوم ہوگئی۔ اب وفات کے متعلق لکھتے ہیں: ’’پھر مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیش گوئی، جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے، جس کی میعاد آج کی تاریخ سے، جو ۲۱؍ستمبر ۱۸۹۳ء ہے، قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۵)
مرزاقادیانی کے ان دونوں بیانات سے صاف پتہ چل گیا کہ ۲۱؍اگست ۱۸۹۴ء مرزاسلطان محمد صاحب کی زندگی کا آخری دن تھا۔ مگر وہ آج ۲۱؍اپریل ۱۹۳۲ء تک بقیدحیات موجود۱؎ ہے۔ جب مرزاقادیانی کے بیان کردہ اڑھائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد مرزاسلطان محمد زندہ رہے اور ہر طرف سے مرزاقادیانی پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تو مرزاقادیانی نے اپنی ذلت ورسوائی پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک نیا ڈھکوسلہ لیا۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:
’’غرض احمد بیگ میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور اس کا فوت ہونا اس کے داماد اور تمام عزیزوں کے لئے سخت ہم وغم کا موجب ہوا۔ چنانچہ ان لوگوں کی طرف سے توبہ اور رجوع کے خط اور پیغام بھی آئے۔ جیسا کہ ہم نے اشتہار ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ء میں، جو غلطی سے ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء لکھا گیا ہے، مفصل ذکر کر دیا ہے۔ پس اس دوسرے حصہ یعنی احمد بیگ کے داماد کی وفات کے بارے میں سنت اللہ کے موافق تاخیر ڈال دی گئی۔‘‘
(اشتہار انعامی چارہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات حاشیہ ج۲ ص۹۴م۹۵)
اس عبارت اور اسی طرح کے دوسرے حوالوں میں مرزاقادیانی نے حق کو چھپانے اور اپنی رسوائی پر پردہ ڈالنے کی انتہائی کوشش کی اور غلط بیانی سے کام لیا۔ جیسا کہ لکھا ہے:
۱؎ بلکہ ۲۰؍اپریل ۱۹۳۴ء تک۔
’’رہا داماد اس کا (احمد بیگ) سو وہ اپنے رفیق اور خسر کی موت کے حادثہ سے اس قدر خوف سے بھرگیا تھا گویا کہ قبل از موت مرگیا۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۹ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹)
مرزاقادیانی نے سیاہ جھوٹ لکھا ہے کہ مرزاسلطان محمد ڈر گیا تھا۔ اگر مرزاقادیانی یا مرزائیوں میں ہمت ہوتی تو مرزاسلطان محمد کی کوئی تحریر پیش کرتے۔ ہم ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں کہ مرزاسلطان محمد نے مرزاقادیانی کی پیش گوئی سے ذرہ بھر خوف نہیں کیا۔ اتنی دلیری اور اولوالعزمی دکھائی کہ مرزاقادیانی کو بھی مجبور ہوکر لکھنا پڑا:
’’احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی۔ خط پر خط بھیجے گئے۔ ان سے کچھ نہ ڈرا۔ پیغام بھیج کر سمجھایا گیا، کسی نے اس طرف ذرا التفات نہ کی اور احمد بیگ سے ترک تعلق نہ چاہا۔ بلکہ وہ سب گستاخی اور استہزاء میں شریک ہوئے۔ سو یہی قصور تھا کہ پیش گوئی کو سن کر پھر ناتہ کرنے پر راضی ہوئے۔‘‘ (اشتہار انعامی چارہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات حاشیہ ج۲ ص۹۵)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزاقادیانی کی اس عبارت نے دو باتوں کا قطعی فیصلہ کر دیا۔ ایک یہ کہ مرزاسلطان محمد ہرگز نہیں ڈرا اور دوسرے یہ کہ مرزاسلطان محمد کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کو سن کر بھی محمدی بیگم کے ساتھ ناتہ کرنے پر راضی ہوگیا۔ پس مرزاسلطان محمد کی توبہ اور رجوع اسی صورت میں ہوسکتے تھے کہ وہ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کو پورا کرنے میں ان کا ممدومعاون ہو جاتا۔ لیکن بقول مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ وہ مرزاقادیانی کے سینہ پر مونگ دلتا رہا اور مرزاقادیانی کی پیش گوئی کی وجہ سے نہ ڈرا۔ نہ توبہ کی جیسا کہ اس نے خود لکھا ہے: ’’جناب مرزاغلام احمد قادیانی نے جو میری موت کی پیش گوئی فرمائی تھی، میں نے اس میں ان کی تصدیق کبھی نہیں کی۔ نہ میں اس پیش گوئی سے کبھی ڈرا۔ میں ہمیشہ سے اور اب بھی اپنے بزرگان اسلام کا پیرو رہا ہوں۔‘‘
(۳؍مارچ ۱۹۲۴ء دستخط مرزاسلطان محمد پٹی از اخبار اہل حدیث مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۲۴ء)
مرزاقادیانی کے بیان اور مرزاسلطان محمد کی اپنی تحریر سے ثابت ہوگیا کہ سلطان محمد ہرگز نہیں ڈرا اور نہ اس نے مرزاقادیانی کی تصدیق کی۔ ان حقائق کی موجودگی میں مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ سلطان محمد ڈر گیا، جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔
اب ہم مرزاقادیانی کی تحریرات پیش کرتے ہیں کہ اگر سلطان احمد ڈرتا بھی تو اس کو مفید نہ ہوتا۔ کیونکہ اس کی موت تقدیر مبرم تھی۔ مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:
الف… ’’میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمدبیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خداتعالیٰ ضرور اس کو بھی پورا پورا کر دے گا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۱)
ب… ’’ شاتان تذبحان وکل من علیہا فان ولا تہنوا ولا تحزنواالم تعلم ان اللہ علی کل شئی قدیر ‘‘ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ پہلی بکری سے مراد (مرزااحمد بیگ) ہوشیارپوری ہے اور دوسری بکری سے مراد اس کا داماد (سلطان محمد) ہے اور پھر فرمایا کہ تم ست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیونکہ ایسا ہی ظہور میں آئے گا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہرایک چیز پر قادر ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۶،۵۷، خزائن ج۱۱ ص۳۴۰،۳۴۱)
ج… ’’یاد رکھو کہ اس پیش گوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۱؎۔‘‘ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں، یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں، وہی رب ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کی سنتوں اور طریقوں کا تم میں علم نہیں رہا۔ اس لئے تمہیں یہ ابتلاء پیش آیا۔‘‘
(ضمیمہ انجا آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
د… ’’اس پیش گوئی کا دوسرا حصہ، جو اس کے داماد کی موت ہے، وہ الہامی شرط کی وجہ سے دوسرے وقت پر جاپڑا اور داماد اس کا الہامی شرط سے اس طرح متمتع ہوا جیسا کہ آتھم ہوا۔ کیونکہ احمد بیگ کی موت کے بعد اس کے وارثوں میں سخت مصیبت برپا ہوئی۔ سو ضرور تھا کہ وہ الہامی شرط سے فائدہ اٹھاتے اور اگر کوئی بھی شرط نہ ہوتی تاہم وعید سنت اللہ یہی تھی، جیسا کہ یونس کے دنوں میں ہوا۔ پس اس کا داماد تمام کنبہ کے خوف کی وجہ سے اور ان کے توبہ اور رجوع کے باعث سے اس وقت فوت نہ ہوا۔ مگر یاد رکھو کہ خدا کے فرمودہ میں تخلف نہیں اور انجام وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں، خدا کا وعدہ۲؎ ہرگز ٹل نہیں سکتا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۱۳، خزائن ج۱۱ ص۲۹۷)
۱؎ مرزائیو! جواب دو کہ دوسری جز کے پورا نہ ہونے سے مرزاقادیانی آنجہانی بقول خود کیا ہوئے؟
اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
۲؎ مرزاقادیانی نے ’’انجام آتھم‘‘ ص۶۱، ’’ضمیمہ‘‘ ص۵۴ میں بھی اسے وعدہ الٰہی قرار دیا ہے۔
ناظرین! عبارت بالا میں مرزاقادیانی نے کس بلند آہنگی اور شدومد سے مرزاسلطان محمد کی موت کا اعلان کیا۔ اس کی موت کو تقدیر مبرم اور اٹل قرار دیا اور اقرار کیا کہ اگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو میں جھوٹا اور ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ نتیجہ صاف ہے۔ مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو اگلے جہان کی طرف لڑھک گئے اور مرزاسلطان محمد اپریل ۱۹۳۲ء تک زندہ ہیں۔ (بلکہ اپریل۱۹۳۴ء تک)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ناظرین! مرزاقادیانی نے ۱۸۸۸ء میں بقول خود خداتعالیٰ سے خبرپاکر اور اس کی اجازت سے محمدی بیگم کے نکاح کا اشتہار دیا۔ اس کے بعد اس آسمانی نکاح کے متعلق بارش کی طرح مرزاقادیانی پر تابڑتوڑ الہامات برستے رہے۔ جن کا تھوڑا سا نمونہ ہم گزشتہ صفحات میں درج کر چکے ہیں۔ ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کے دل میں یقین کامل تھا کہ محمدی بیگم ان کے نکاح میں ضرور آئے گی۔ یہاں تک کہ جون ۱۹۰۵ء تک مرزاقادیانی اس نکاح سے مایوس نہ ہوئے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے فرمایا: ’’اور وعدہ یہ ہے کہ پھر وہ نکاح کے تعلق سے واپس آئے گی۔ سو ایسا ہی ہوگا۔‘‘
(اخبار الحکم مورخہ ۳۰؍جون ۱۹۰۵ء ص۲ کالم۲)
حوالہ جات سابقہ کے علاوہ ہم مرزاقادیانی کا ایک فیصلہ کن حوالہ نقل کرتے ہیں، جہاں مرزاقادیانی نے اس پیش گوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ باز شمار ایں گفتہ ام کہ ایں مقدمہ برہمیں قدر باتمام رسید ونتیجہ آخری ہماں است کہ بظہور آمد وحقیقت پیش گوئی برہماں ختم شد بلکہ اصل امر برحال خود قائم است وہیچکس باحیلہ خود اورا ردنتواند کرد وایں تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر مبرم۱؎ است وعنقریب وقت آں خواہد آمد پس قسم آں خدائے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رابرائے مامبعوث فرمود اورا بہترین مخلوقات گردایند کہ ایں حق است وعنقریب خواہی دید ومن این را برائے صدق خود یا کذب خود معیار میگردانم۔ ومن گفتم الاّٰبعد زانکہ از رب خود خبرد ادہ شدم ۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
۱؎ مبرم، ابرام سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: ’’نہ ٹلنے والا۔‘‘ حکم الٰہی مرزاقادیانی نے بھی اس کے یہی معنی کئے۔ (اختر)
(ترجمہ) ’’پھر میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ یہ جھگڑا یہیں ختم ہوگیا اور نتیجہ یہی تھا جو ظاہر ہوگیا اور پیش گوئی کی حقیقت اس پر ختم ہو گئی۔ بلکہ یہ امر اپنے حال پر قائم ہے اور کوئی شخص حیلہ کے ساتھ خود اس کو رد نہیں کر سکتا اور یہ تقدیر خدائے بزرگ کی جانب سے تقدیر مبرم ہے۔ عنقریب اس کا وقت آئے گا۔ پس اس خدا کی قسم جس نےحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے مبعوث فرمایا اور آپ کو تمام مخلوقات سے بہتر بنایا کہ یہ سچ ہے کہ تو عنقریب دیکھے گا اور میں اس کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور یہ میں نے اپنے رب سے خبرپاکر کہا۔‘‘
عبارت بالا میں مرزاقادیانی نے کس صراحت سے محمدی بیگم کے خاوند کے مرنے اور اس کے ساتھ اپنا نکاح ہونے کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور اس کی صداقت پر خدائے واحد وقدوس کی قسم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر یقین دلانے کی کوشش کی ہے اور اس کو اپنے صدق وکذب کا معیار بھی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے، اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی سے کہا ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان اتنا واضح اور مشرح ہے کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔
مرزائی دوستو! بتاؤ کہ مرزاقادیانی کی بیان کردہ تقدیر مبرم کے بخئے کیوں ادھڑ گئے؟ اور جو صدق وکذب کا معیار بحوالہ وحی الٰہی قرار دیاگیا تھا، اس کی رو سے مرزاقادیانی کاذب ثابت ہوئے یا نہیں؟ تعجیل کی ضرورت نہیں، سوچ سمجھ کر جواب دینا۔
سخت ناانصافی ہوگی اگر میں نکاح آسمانی کے متعلق مرزاقادیانی کی مستقل مزاجی کی تعریف نہ کروں۔ اللہ اللہ ۱۸۸۸ء سے لے کر ۱۹۰۷ء تک کا طویل عرصہ جس صبر، امید اور یقین کامل کے ساتھ گزارا، اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ خداپے درپے الہامات نازل کر رہا تھا کہ نکاح ہوگا اور ضرور ہوگا۔ خدا کا وعدہ سچا ہے، خدا کی باتیں ٹلا نہیں کرتیں۔ تیرا خدا تمام موانعات دور کرے گا۔ یعنی مرزاسلطان محمد ضرور مر جائے گا اور محمدی بیگم بیوہ ہوکر تیرے نکاح میں آئے گی۔ لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آخر ۱۹۰۷ء میں مرزاقادیانی اس نکاح سے کچھ مایوس سے ہوگئے۔ کیونکہ دن بدن ان کی جسمانی حالت انحطاط کی طرف جارہی تھی اورقوت باہ کا وہ نسخہ جو فرشتے نے انہیں بتایا تھا اور جس کے کھانے سے پچاس مردوں کی قوت ان میں پیدا ہوگئی تھی۱؎۔
غالباً اس کا اثر بھی زائل ہوچکا تھا۔ ادھر دیکھا کہ رقیب خوش نصیب کی زندگی ختم ہونے میں نہیں آتی۔
ان سب قرائن سے اندازہ کر کے یہ اعلان کر دیا: ’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا، خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ’’ یاایتہا المراۃ توبی توبی فان البلاء علے عقبک ‘‘ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲،۱۳۳، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
مرزاقادیانی نے اس دورنگی چال کے اختیار کرنے میں اس دل جلے عاشق کی اتباع کی ہے جس نے اپنے معشوق سے التجا کی تھی کہ ؎
مجھ کو محروم نہ کر وصل سے او شوخ مزاج
بات وہ کہہ کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں​
یہ عبارت بھی بآواز بلند اعلان کر رہی ہے کہ مرزاقادیانی محمدی بیگم کے نکاح سے کلیتہً مایوس نہیں ہوئے تھے۔ ایک طرف تو ظاہری قرائن کو دیکھتے ہوئے تمام امیدیں مبدل بہ یاس ہوچکی تھیں اور دوسری طرف دل کی تڑپ ڈھارس بندھائے جاتی تھی کہ شاید اگر عمر نے وفا کی تو گوہر مقصود ہاتھ لگ ہی جائے۔ اس لئے دو دلی میں یہ الفاظ لکھ دے کہ نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔
غرضیکہ مرزاقادیانی کو اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک محمدی بیگم کے نکاح کی جھلک نظر آتی رہی۔ کیا مرزاقادیانی کی یہ دیرینہ اور الہامی تمنا پوری ہوگئی؟ آہ! اس کا جواب بڑی حسرت اور افسوس سے نفی میں دیا جاتا ہے کہ تاحیات مرزاقادیانی کا نکاح نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کے دن اس نکاح اور بستر عیش۲؎ کی حسرت کو اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ اب ان کی قبر سے گویا یہ آواز آرہی ہے ؎
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی​
اب ہم مرزاقادیانی کا آخری فتویٰ ان کے مریدوں کو سناتے ہیں۔ جیسا کہانہوں نے تحریر فرمایا ہے:
’’سو چاہئے تھا کہ ہمارے نادان مخالف انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوہری ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی تو اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوجائیں گے۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں۱؎اور سوروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۲، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزائیو! سن لیا مرزاقادیانی نے کیا کہا ہے؟ فرماتے ہیں کہ اس پیش گوئی کے خاتمہ پر ان بے وقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہ رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سوروں کی طرح کر دیں گے۔ لیکن ایسا کن کے حق میں ہوگا؟ فیصلہ جن کے خلاف ہوگا۔ پھر کیا ہوا مجھ سے نہیں مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور سے سن لو۔ فرماتے ہیں: ’’یہ سچ ہے کہ مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ نکاح ہوگا اور یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہوا۔‘‘ (اخبار پیغام صلح لاہور، مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۲۱ء)
سچ ہے ؎
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا​
میرے پرانے دوستو! خداعالم الغیب کو حاظر وناظر سمجھتے ہوئے سچ سچ بتانا کہ مرزاقادیانی کا بیان کردہ فتویٰ خود ان۲؎ پر اور ساتھ ہی تم پر الٹ کر پڑا یا نہیں؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را
چنداں اماں نداد کہ شب را سحر کند​
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

دوسری پیش گوئی ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کے متعلق​

ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ بیس سال تک مرزاقادیانی کے ارادت مند مرید رہے۔ بعدہ مرزاقادیانی کی بطالت ان پر واضح ہوگئی تو انہوں نے مرزائیت سے توبہ کر کے مرزاقادیانی کی تردید میں چند رسالے لکھے۔ مرزاقادیانی بھی ان کے سخت خلاف ہوگئے۔ بالآخر دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف موت کی الہامی پیش گوئیاں شائع کیں۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی کے اشتہار کا اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں:

خدا سچے کا حامی ہو​

’’میاں عبدالحکیم خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے میری نسبت یہ پیش گوئی کی ہے… اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’مرزاقادیانی کے خلاف ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں: مرزامسرف کذاب اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔‘‘ اس کے مقابل پر وہ پیش گوئی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میاں عبدالحکیم خان صاحب اسسٹنٹ پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے۱؎ کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔‘‘
۱؎ ’’خداتعالیٰ کا یہ فقرہ کہ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خاں کے اس فقرہ کا رد ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ گویا میں کاذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر اور خداتعالیٰ اس کے رد میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ذلت کی موت اور ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر خارق نہ رہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹)

فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار​

تیرے آگے۱؎ ہے پر تونے وقت کو نہ پہنچانا، نہ دیکھا، نہ جانا۲؎ (رب۳؎ فرق بین صادق وکاذب انت تری کل مصلح وصادق) (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹،۵۶۰)
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے ایک اور الہام شائع کیا کہ جولائی
۱۹۰۷ء سے ۱۴ماہ تک مرزامرجائے گا۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے ایک اشتہار بعنوان تبصرہ ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء کو شائع کیا۔ اس کی پیشانی پر یہ عبارت درج کی: ’’ہماری جماعت کو لازم ہے کہ اس پیش گوئی کو خوب شائع کریں اور اپنی طرف سے چھاپ کر مشتہر کریں اور یادداشت کے لئے اشتہار کے طور پر اپنے گھر کی نظر گاہ میں چسپاں کریں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۵)
یہ اشتہار جو سراسر لاف وگزاف سے پر تھا، اس کو اپنے تمام اخباروں میں شائع کرایا۔ مختلف شہروں میں مرزائیوں نے علیحدہ چھپوا کر بھی بکثرت شائع کیا۔ اس کے چند فقرات حسب ذیل ہیں: ’’اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا… میں تیری عمر کو بڑھا دوں گا۔ یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیش گوئی کرتے ہیں، ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو میں بڑھا دوں گا۔ تاکہ معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے۔‘‘ یہ عظیم الشان پیش گوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اور میری عزت اور دشمن کی ذلت اور میرا اقبال اور دشمن کا ادبار بیان فرمایا ہے اور دشمن پر غضب اور عقوبت کا وعدہ کیاہے۔ مگر میری نسبت لکھا ہے کہ دنیا میں تیرا نام بلند کیا جائے گا اور نصرت اور فتح تیرے شامل حال ہوگی اور دشمن جو میری موت چاہتا ہے وہ خود میری آنکھوں کے روبرو۱؎ اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۱)
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب نے اپنا اور الہام شائع کیا کہ: ’’مرزا مورخہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک مر جائے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۱،۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷)
نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئیوں کے مطابق مرزاقادیانی نے ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو اگلے جہان کی طرف کوچ کر دیا اور ان کے الہام کنندہ کے سب وعدے فتح ونصرت کے غلط نکلے۔

۱؎ ’’اس فقرہ میں عبدالحکیم خاں مخاطب ہے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۶۰)
۲؎ ’’یعنی تونے یہ غور نہ کی کہ کیا اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں امت محمدیہ کے لئے کسی دجال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اور مجدد کی۔‘‘ (خزائن ج۳ ص۵۶۰)
۳؎ ’’یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا۔ تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے۔ اس فقرہ الہامیہ میں عبدالحکیم خاں کے اس قول کا رد ہے۔ جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھہراتا ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تو صادق نہیں ہے۔ میں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھاؤں گا۔ المشتہر مرزاغلام احمد مسیح موعود قادیانی، ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۶۰)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تیسری پیش گوئی مولانا ثناء اللہ کے متعلق​

مرزاقادیانی آنجہانی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار ان الفاظ میں شائع کیا:

مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ​

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ یستنبؤنک احق ہو قل ای وربی انہ الحق
بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الہدی مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب وتفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری وکذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کو پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ
۱؎ مرزائیو! اصحاب الفیل کی طرح کون نابود ہوا؟ (اختر)
سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہرایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی۱؎ ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی
میں ہی وارد نہ ہوئیں، تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشین گوئی نہیں۔ بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر وقدیر جو علیم وخبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے، اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے، تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں مجھے ہلاک۲؎ کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے، حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے۔ بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طورپر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین!
میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی۔ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں۔ جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت: ’’لا تقف ما لیس لک بہ علم‘‘ پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دوردور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بدآدمی ہے۔ سو ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے، جو تونے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے، اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر، اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین آمین! بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ (الراقم عبد اللہ الصمد مرزاغلام احمد مسیح موعود، عافا اللہ واید، مرقوم یکم ؍ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ، ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
اس اشتہار کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے یہ پیش گوئی بطریق دعا شائع کی بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس دعاکو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہے۔ مرزاقادیانی کے الفاظ ہیں: ’’دنیا کے عجائبات ہیں رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک ایک الہام ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔ کوئی ہفتہ عشرہ نشان سے خالی نہیں جاتا۔ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا: ’’اجیب دعوۃ الداع‘‘ صوفیاء کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہے، باقی سب اس کی شاخیں۔‘‘
(اخبار بدر مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء، ملفوظات ج۹ ص۲۶۸)
مرزاقادیانی نے اپنے اشتہار میں محض دعا کے ذریعہ سے فیصلہ چاہا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ ہیں: ’’محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘
اخیر اشتہار میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
پس مرزاقادیانی نے اپنی اس دعا اور پیش گوئی کے مطابق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کوبمرض ہیضہ ہلاک ہوکر حسب اقرار خود اپنا مفسد، کذاب اور مفتری ہونا دنیا پر ثابت کر دیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر
کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا​




۱؎ مرزائیو! ایمان سے بتانا مرزاقادیانی ابھی ہلاک ہوئے ہیں یا نہیں۔ (اختر)
۲؎ مرزاقادیانی کے مریدو! مرزاقادیانی کی یہ دعا منظور ہوئی یا نہیں؟ (اختر)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

چوتھی پیش گوئی عالم کباب کے متعلق​

مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے:
’’(۱)بشیرالدولہ۔ (۲)عالم کباب۔ (۳)شادی خاں۔ (۴)کلمتہ اللہ خاں۔
(نوٹ از مرزاقادیانی) بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے یہ نام ہوں گے۔ یہ نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۶)
نیز مرزاقادیان نے کہا کہ میاں منظور محمد صاحب کے اس بیٹے کا نام جو بطور نشان ہوگا، بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے۔ (۱)کلمتہ العزیز۔ (۲)کلمتہ اللہ خان۔ (۳)وارڈ۔ (۴)بشیرالدین۔ (۵)شادی خان۔ (۶)عالم کباب۔ (۷)ناصرالدین۔ (۸)فاتح الدین۔ (۹)ہذا یوم مبارک۔ (تذکرہ ص۶۲۶،۶۲۷، طبع سوم)
مرزاقادیانی کی اس پیش گوئی کے شائع ہو جانے کے بعد میاں منظور محمد کی بیوی محمدی بیگم فوت ہوگئی۔ حالانکہ مرزاقادیانی نے کہا تھا۔ ’’ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے، جب تک یہ پیش گوئی پوری ہو۔‘‘ (تذکرہ ص۶۲۲، طبع سوم)
عالم کباب صاحب دنیا میں تشریف فرما نہ ہوئے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کی یہ الہامی پیش گوئی سرے سے غلط اور جھوٹ ثابت ہوئی۔
مرزائیو! کہہ دو کہ محمدی بیگم کے ظلی، بروزی اور روحانی بیٹا پیدا ہوگیا تھا۔ اصلی بیٹا قیامت کے دن تشریف لائے گا۔ اس لئے ہمارے مجدد اور ظلی، بروزی نبی کی بیان کردہ پیش گوئی سچی نکلی۔

پانچویں پیش گوئی اپنے مقام موت کے متعلق​

مرزاقادیانی نے اپنا الہام شائع کیا تھا۔ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۰۵، تذکرہ ص۵۹۱، طبع سوم)
یہ الہام بھی سراسر غلط ثابت ہوا۔ مرزاقادیانی لاہور میں مرے اور مریدوں نے ان کی لاش کو دجال کے گدھے پر لاد کر قادیان پہنچا دیا۔
ناظرین! میں نے بطور نمونہ مشتے ازخروارے مرزاقادیانی کی پانچ پیش گوئیاں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں اور نتیجہ بھی آپ کے گوش گزار کردیا ہے۔ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں، ورنہ مرزاقادیانی کی ایک ایک پیش گوئی لے کر ان کے پڑخچے اڑادئیے جاتے۔مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں کی متحدیانہ عبارات جب مرزائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں، تو مرزائی ان کے جوابات سے تنگ آکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ پیش گوئیوں کی تفہیم میں مرزاقادیانی سے غلطی ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کا یہ کہنا محض دفع الوقتی اور مرزاقادیانی کی تصریحات کے خلاف ہے کیونکہ مرزاقادیانی نے اپنا الہام بیان کیا ہے۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
(ترجمہ) اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو، یہ خدا کی وحی ہے۔
مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر خداتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ ص۴۳۴)
’’ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتے تھے بلکہ وحی الٰہی سے بولتے تھے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتے تھے۔ بلکہ اندرونی تعلیم سے تحریر فرماتے تھے یا فرشتے کی لکھی ہوئی عبارات کو اپنی کتابوں میں نقل کر لیتے تھے۔ اسی کی مزید تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے۔ مرزاقادیانی کو الہام ہوا: ’’استقامت میں فرق آگیا۔‘‘
ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ معلوم تو ہے مگر جب تک خدا کا اذن نہ ہو میں بتلایا نہیں کرتا، میرا کام دعا کرنا ہے۔‘‘
(البدر ج۲ نمبر۱۰، ۱۹۰۳ء از مکاشفات ص۳۰، تذکرہ ص۴۶۶، طبع سوم)
اس واقعہ نے تصدیق کر دی کہ مرزاقادیانی بغیر وحی اور خداتعالیٰ کے اذن کے کچھ نہیں کہا کرتے تھے۔ اندریں حالات مرزاقادیانی کے کلام یا تحریر میں غلطی نہیں ہو سکتی۔
لاہوری مرزائیو! مرزاقادیانی کے متذکرہ بالا الہام اور تحریرات کو غور سے پڑھنے کے بعد بتاؤ کہ مرزاقادیانی اپنی تحریر یا تقریر میں ’’اجتہادی غلطیوں‘‘ کے قائل تھے یا نہیں؟ سوچ سمجھ کر جواب لکھنا۔
سنبھل کے قدم رکھنا دشت خار میں مجنوں
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے​
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کے انٹ شنٹ الہامات​

مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ میری وحی والہامات یقینی اور قرآن پاک کی طرح ہیں، لیکن جب ہم مرزاقادیانی کے الہامات کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں، تو ہمیں کثرت سے ایسے الہامات نظرآتے ہیں جنہیں خود مرزاقادیانی بھی نہ سمجھ سکے تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ یبین لہم ‘‘ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی تاکہ انہیں کھول کر بتادے۔ لیکن قرآن پاک کے اس صریح اصول کے خلاف مرزاقادیانی کو ان زبانوں میں بھی الہامات ہوئے جن کو وہ خود نہیں سمجھ سکے۔ دوسروں کو خاک سمجھانا تھا۔ ہم بطور نمونہ مرزاقادیانی کے چند الہام درج ذیل کرتے ہیں:
۱… ’’ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس‘‘ اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے ہیں۔ و اللہ اعلم بالصواب ! (البشریٰ ج۱ ص۳۶، تذکرہ ص۹۱ طبع سوم)
۲… ’’پھر بعد اس کے (خدا نے) فرمایا: ’’ہو شعنا نعسا‘‘ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۳… ’’پریشن، عمر براطوس، یا پلاطوس۔‘‘
(نوٹ) آخری لفظ ’’پڑطوس‘‘ ہے یا ’’پلاطوس‘‘ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور ’’عمر‘‘ عربی لفظ ہے اس جگہ ’’براطوس‘‘ اور ’’پریشن‘‘ کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔‘‘
(از مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۶۸، البشریٰ ج۱ ص۵۱، تذکرہ ص۱۱۵، طبع سوم)
احمدی دوستو! مرزاقادیانی کو جس زبان میں الہام ہوتا ہے مرزاقادیانی اس زبان کو نہیں جانتے۔ بتاؤ کہ مرزاقادیانی پر یہ مثال صادق آتی ہے یا نہیں؟
زبان شوخ من ترکی ومن ترکی نمیدانم
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا اور ہمچو قسم الہامات اس خداتعالیٰ طرف سے نہیں تھے۔ جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ ‘‘ کہ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی۔ لیکن مرزاقادیانی کو ان زبانوں میں ’’الہامات‘‘ ہوئے جو مرزاقادیانی کی قومی زبان نہیں تھی۔ خود مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ۱؎ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو، جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
یہاں تک ہی نہیں کہ مرزاقادیانی غیرزبانوں کے ’’الہامات‘‘ نہ سمجھ سکے ہوں۔ بلکہ بہت سے اردو اور عربی ’’الہامات‘‘ بھی مرزاقادیانی کی سمجھ سے بالاتر رہے اور ان کے متعلق انہیں معلوم نہ ہوا کہ وہ کس کے متعلق ہیں۔ مرزائی۲؎ دوستوں کی خاطر نمونہ درج کئے دیتا ہوں۔
۱… ’’پیٹ پھٹ گیا۔‘‘ دن کے وقت کا الہام ہے ۔معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۹، تذکرہ ص۶۷۲، طبع سوم)
۲… ’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا۔‘‘ نامعلوم کس کے حق میں یہ الہام
ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۹، تذکرہ ص۶۷۴، طبع سوم)
۳… ’’۲۴؍ستمبر ۱۹۰۶ء مطابق ۵؍شعبان ۱۳۲۴ھ بروز پیر… موت تیرہ ماہ حال کو۔‘‘ (نوٹ) قطعی طور پر معلوم نہیں کہ کس کے متعلق ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۹،۱۲۰، تذکرہ ص۶۷۵، طبع سوم)
۴… ’’بہتر ہوگا کہ اور شادی کر لیں۔‘‘ معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۴، تذکرہ ص۶۹۷، طبع سوم)
۵… ’’بعد، ۱۱، انشاء اللہ ‘‘ اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱ سے کیا مراد ہے۔ گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا یہی ہندسہ ۱۱ کا دکھایا گیا ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۶۵،۶۶، تذکرہ ص۴۰۱، طبع سوم)
۶… ’’غثم، غثم، غثم۱؎‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۵۰، تذکرہ ص۳۱۹، طبع سوم)
۷… ’’ایک دم میں دم رخصت ہوا۔‘‘
(نوٹ از حضرت مسیح موعود) فرمایا کہ آج رات مجھے ایک مندرجہ بالا الہام ہوا۔ اس کے پورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے مگر معلوم نہیں کہ کس کے حق میں ہے۔ لیکن خطرناک ہے، یہ الہام ایک موزوں عبارت میں ہے۔ مگر ایک لفظ درمیان میں سے بھول گیا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۷، تذکرہ ص۶۶۶، طبع سوم)
۸… ’’ایک عربی الہام تھا الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ ’’مکذبون‘‘ کو نشان دکھایا جائے گا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۴)
۹… ایک ’’دانہ کس کس نے کھانا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۰۷، تذکرہ ص۵۹۵، طبع سوم)
۱۰… ’’لاہور میں ایک بے شرم۲؎ ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۲۶، تذکرہ ص۷۰۴، طبع سوم)
۱۱… ’’ربنا عاج‘‘ ہمارا رب عاجی ہے، عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں۱؎ ہوئے۔
(البشریٰ ج۱ ص۴۳، تذکرہ ص۱۰۲، طبع سوم)
۱۲… ’’آسمان ایک مٹھی بھر رہ گیا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۳۹، تذکرہ ص۷۵۱، طبع سوم)


۱؎ احمدی دوستو! مرزاقادیانی کے یہ الہام غیر معقول اور بیہودہ ہیںیا نہیں؟ (اختر)
۲؎ لاہوری مرزائیو! ہم تمہارے ’’ظلی وبروزی نبی‘‘ کے الہامات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارا شکریہ ادا کرو۔ (اختر)
۱؎ مطلب ندارد۔
۲؎ لاہوری مرزائیو! یہ کون ہے؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کے اختلافات​

قرآن مجید کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ لوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا ‘‘ یعنی یہ کلام، اللہ کے سوا اور کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔ اس آیت کریمہ نے فیصلہ کر دیا کہ اگر کسی مدعی الہام کے اقوال میں اختلاف ہو تو وہ اپنے دعویٰ الہام میں سچا نہیں بلکہ جھوٹا ہے۔ مرزاقادیانی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں: ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳) پر بھی لکھا ہے کہ: ’’ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ مگر باوجود مرزاقادیانی کے ان زبردست اقراروں کے ہمیں ان کی تصنیفات میں کثرت سے اختلافات اور تناقض نظر آتے ہیں۔ ناظرین کے تفنن طبع کے لئے عدم گنجائش کی وجہ سے صرف پانچ ہی اختلاف درج ذیل ہیں۔

پہلا اختلاف​

’’یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہوگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۷۳، خزائن ج۳ ص۳۵۳)
’’بعد اس کے مسیح اس زمین سے پوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آگیا اور وہیں فوت ہوا۔‘‘ (کشتی نوح ص۵۳، خزائن ج۱۹ ص۵۷،۵۸)

دوسرا اختلاف​

’’اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا۔ کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں۔‘‘ (کلام مرزا از بدر مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۰۷ء)
’’ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے۔‘‘ (کلام مرزا از ڈائری ۱۹۰۱ء ص۴۶)

تیسرا اختلاف​

’’لوگوں نے جو اپنے نام حنفی، شافعی وغیرہ رکھے ہیں، یہ سب بدعت ہیں۔‘‘
(کلام مرزا از ڈائری ۱۹۰۱ء ص۴)
’’ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے ایک حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چاردیواری۔‘‘
(کلام مرزا از ڈائری ص۴۷)

چوتھا اختلاف​

’’حضرت مسیح کی چڑیاں باوجودیکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ مگر پھر بھی مٹی کی مٹی ہی تھی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۶۸، خزائن ج۵ ص۶۸)
’’اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۷، خزائن ج۳ ص۲۵۶،۲۵۷ حاشیہ)

پانچواں اختلاف​

’’آیت ’’ فلما توفیتنی ‘‘ سے پہلے یہ آیت ہے: ’’واذ قال اللہ یا عیسٰی أنت قلت للناس‘‘ اور ظاہر ہے کہ ’’قال‘‘ کا صیغہ ماضی کاہے اور اس کے اوّل ’’اذ‘‘ موجود ہے، جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھا۔ نہ زمانہ استقبال کا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۲، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
’’جس شخص نے ’’کافیہ‘‘ یا ’’ہدایت النحو‘‘ بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے۔ بلکہ ایسے مقامات ہیں۔ جب کہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقین الوقوع ہو۔ مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ ونفخ فی الصور فاذا ہم من الاحداث الی ربہم ینسلون‘‘ اور جیسا کہ فرمایا: ’’واذ قال اللہ یعیسٰی ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الہین من دون اللہ قال اللہ ہذا یوم ینفع الصدقین صدقہم ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۱۵۹)

۱؎ احمدی دوستو! تمہارے مجدد کو باوجود دعویٰ الہام کے عاج کے معنی معلوم نہ ہوئے۔ پرانے تعلقات کی وجہ سے ہمیں تمہاری خاطر منظور ہے۔ اس لئے ہم اس کے معنی بتادیتے ہیں۔ سنو! عاج کے معنی ہیں استخوان فیل (ہاتھی دانت، سرگین وگوبر) (فرہنگ آصفیہ ج۳ ص۲۵۶) عاجی، نادان، مورکھ۔ (فرہنگ عامرہ ص۳۲۲) منتخب اللغات۔ پس ربنا عاج کے معنی ہوئے ہمارا رب ہاتھی دانت یا گوبر ہے۔ بتاؤ اب تو سمجھ گئے۔ (اختر) bb
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزا صاحب کے جھوٹ​

جھوٹ بدترین برائیوں میں سے ہے۔ بلکہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ لعنۃ اللہ علی الکاذبین ‘‘ جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ جھوٹا انسان مقرب بارگاہ الٰہی کبھی نہیں ہوسکتا۔ مرزاقادیانی نے بھی جھوٹ کی مذمت کی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:
الف… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۵۶)
ب… ’’جھوٹ بولنے سے بدتردنیا میں کوئی کام نہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۷، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
ج… ’’تکلف سے جھوٹ بولنا گوہ کھانا ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۹، خزائن ج۱۱ ص۳۴۳)
د… ’’غلط بیانی اور بہتان طرازی راست بازوں کا کام نہیں بلکہ نہایت شریر اوربدذات آدمیوں کا کام ہے۔‘‘ (آریہ دھرم ص۱۱، خزائن ج۱۰ ص۱۳)
ان اقوال میں مرزاقادیانی نے جھوٹ کی بہت مذمت کی ہے۔ لیکن جب ہم ان کے عمل کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے اپنی تصنیفات میں نہایت ہی بے تکلفی سے جھوٹوں کے انبار لگادئیے ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز عنقریب ہم کذبات مرزا پر ایک رسالہ لکھیں گے اور اس میں مرزاقادیانی کے وہ تمام جھوٹ درج کر دیں گے جو ہماری نظر سے گزر چکے ہیں۔ بطور نمونہ مرزاقادیانی کے پانچ جھوٹ یہاں تحریر کر دیتے ہیں۔

پہلا جھوٹ! مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:​

’’بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے۔ لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیاجائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
مرزاقادیانی نے حضرت مجدد صاحب سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے حوالہ نقل کرتے ہوئے عمداً لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنی نبوت باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے صریح تحریف کی ہے۔ عبارت بالا میں مرزاقادیانی نے جس مکتوب کا حوالہ دیا ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’ واذ اکثر ہذا القسم من الکلام مع واحد منہم سمی محدثا ‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۲ ص۹۹)
یعنی جب اس قسم کا کلام ان میں سے ایک کے ساتھ کثرت سے ہو تو اس کا نام محدث رکھا جاتا ہے۔ اسی مکتوب کو مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۹۱۵، خزائن ج۳ ص۶۰۱) پر اور کتاب (تحفہ بغداد حاشیہ ص۲۰،۲۱، خزائن ج۷ ص۲۸) پر بھی نقل کیا ہے اور ان دونوں کتابوں میں لفظ محدث لکھا ہے۔ لیکن حقیقت الوحی کی محولہ بالا عبارت میں اپنا مطلب نکالنے کے لئے محدث کی جگہ نبی لکھ کر صریح خیانت کی اور جھوٹ بولا یہ کارستانی کرتے وقت مرزاقادیانی کو اپنا الہام شاید یاد نہ رہا ہوگا۔ جس کے الفاظ ہیں: ’’مت ایہا الخوان‘‘ مراے بڑے خیانت کرنے والے۔‘‘ (تذکرہ ص۷۱۳، طبع سوم)

دوسرا جھوٹ! مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:​

’’اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا ہے۔ جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۲)
مرزائی بتائیں کہ جن پیغمبروں نے مرزاقادیانی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ کون کون سے نبی تھے؟ انہوں نے مرزاقادیانی کے درشن کرنے کا اظہار کس کے سامنے کیا تھا؟ اور ان کے اس اشتیاق کا کس کتاب میں ذکر ہے؟ ہم علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ یہ مرزاقادیانی کی ’’الہامی گپ‘‘ اور صریح جھوٹ ہے۔

تیسرا جھوٹ! مرزاقادیانی لکھتے ہیں:​

’’اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توریت کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی۔‘‘
(کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص۵)
ہم بلاخوف تردید کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ’’الحمد‘‘ کے ’’الف‘‘ سے لے کر ’’والناس‘‘ کے ’’س‘‘ تک کوئی ایسی آیت نہیں جس کا ترجمہ ہوکہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی۔ یہ مرزاقادیانی کی غلط بیانی اور قرآن اقدس کے متعلق بہتان طرازی ہے۔
مرزائیو! اگر ہمت ہے تو قرآن مجید میں سے کوئی آیت ایسی بتاؤ جس کا یہ ترجمہ ہو کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی اور اگر نہ بتاسکو تو زبان سے اتنا ہی کہہ دینا کہ ’’لعنہ اللہ علی الکاذبین‘‘

چوتھا جھوٹ! مرزاقادیانی رقمطراز ہیں:​

’’اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (تحفۃ الندوہ ص۵، خزائن ج۱۹ ص۹۸)
ایہا الناظرین! کیا اب بھی آپ کو مرزاقادیانی کے کاذب ہونے میں شک ہے۔ اتنا بڑا جھوٹ، اتنی مکروہ کذب بیانی، پنجابی مدعی نبوت کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ ہم علی وجہ البصیرت ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں کہ کرشن قادیانی کا کوئی چیلہ قرآن مجید کی ایسی کوئی آیت ہمیں نہیں بتاسکتا جس میں ان کے کرشن رودرگوپال مرزاغلام احمد قادیانی کا نام ابن مریم رکھاگیا ہو۔ ’’ولو کان بعضم لبعض ظہیرا‘‘ مرزاقادیانی کے مخلص مریدو! اگر تم مرزاقادیانی کا نام قرآن کریم میں ابن مریم لکھا ہوا نہ بتاسکو اور یقینا نہ بتاسکو گے تو خوف خدا اور اپنے ضمیر کی آواز کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرزاقادیانی کو جھوٹا سمجھنے میں ہمارے ہم نوا ہو جاؤ۔ کیونکہ مرزاقادیانی خود لکھتے ہیں کہ: ’’اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ یاد رکھو کہ قرآن حکیم میں ایسی کوئی آیت نہیں جس کا کوئی ترجمہ یہ ہو کہ مرزاغلام احمد ابن مریم ہے۔

پانچواں جھوٹ! مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں:​

’’اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰، البشریٰ ج۱ ص۱۹، تذکرہ ص۷۶، طبع سوم)
احمدی دوستو! مرزاقادیانی کا یہ حوالہ اگر تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا کسی سے سنا ہے تو بتاؤ کہ تم نے قرآن مجید میں قادیان کا نام تلاش کیا؟ اگر تمہیں باوجود تلاش کرنے کے بھی قرآن مجید میں قادیان کا نام نہیں ملا اور یقینا کبھی نہیں مل سکتا، تو کیا اب بھی مرزاقادیانی کو راست گوہی سمجھتے ہو؟ اگر اتنی بڑی کذب پروری کرنے کے بعد کوئی شخص محدث، مجدد، مسیح موعود اور ظلی، بروزی نبی ہوسکتا ہے تو کیا کذابوں کے سر پر سینگ ہواکرتے ہیں؟
 
Top