محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
۴… ’’اس عاجز نے ایک دینی خصومت پیش آجانے کی وجہ سے اپنے ایک قریبی مرزااحمد بیگ ولد گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم والہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔‘‘ (انتہی ملخصاً) (اشتہار مورخہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ء، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹)
۵… ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں۔ اوّل: نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔ دوم: نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم: پھر نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا۔ جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم: اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔ پنجم: اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم:پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچے ہوجانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص۳۲۵)
۶… ’’وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں:
(۱)کہ مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
(۲)اور پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے، اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
(۳)اور پھر یہ کہ مرزااحمد بیگ تاروز شادی دخترکلاں فوت نہ ہو۔
(۴)اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
(۵)اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
(۶)اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
۷… ’’میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے… نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(اشتہار انعامی چارہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۵،۱۱۶)
۸… ’’نفس پیش گوئی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم۱؎ ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے: ’’ لا تبدیل لکلمات اللہ ‘‘ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خداتعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ء، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
۹… ’’ دعوت ربی بالتضرع والابتہال ومددت الیہ ایدی السوال فالہمنی ربی وقال سااریہم اٰیۃ من انفسہم واخبرنی وقال اننی ساجعل بنتا من بناتہم اٰیۃ لہم فسماہا وقال انہا سیجعل ثیبۃ ویموت بعلہا وابوہا الی ثلث سنۃ من یوم النکاح ثم نردھا الیک بعد موتہما ولا یکون احدہما من العاصمین وقال انا رادوہا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید ‘‘ (کرامات الصادقین سرورق صفحہ اخیر، خزائن ج۷ ص۱۶۲)
(ترجمہ) ’’میں (مرزاقادیانی) نے بڑی عاجزی سے خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کیا کہ میں ان (تیرے خاندان کے) لوگوں کو ان میں سے ایک نشانی دکھاؤں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک لڑکی (محمدی بیگم) کا نام لے کر فرمایا کہ وہ بیوہ کی جائے گی اور اس کا خاوند اور باپ یوم نکاح سے تین سال تک فوت ہو جائیںگے۔ پھر ہم اس لڑکی کو تیری طرف لائیں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا اور فرمایا میں اسے تیری طرف واپس لاؤں گا۔ خدا کے کلام میں تبدیلی نہیں ہوسکتی اور تیرا خدا جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔‘‘
۱۰… ’’ کذبوا بایاتی وکانوا بہا یستہزون فسیکفیکہم اللہ ویردہا الیک امر من لدنا انا کنا فاعلین زوجناکہا الحق من ربک فلا تکوننّ من الممترین لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید انا رادوہا الیک ‘‘ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا۔ سو خدا ان کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا۔ یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں۔ بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا۔ تیرے رب کی طرف سے سچ
۱؎ مرزاقادیانی نے دوسری جگہ بھی تقدیر مبرم کے یہی معنی کئے ہیں کہ جو تبدیل نہ ہو سکے جیسا کہ فرماتے ہیں: ’’گویا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب یہ تقدیر مبرم ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۸۱)
ہے۔ پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو۔ خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے۔ تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ہم اس کو واپس لانے والے ہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۰،۶۱، خزائن ج۱۱ ص۶۰،۶۱)
۱۱… ’’ گفت کہ ایں مردم مکذب آیات من ہستتد وبدانہا استہزامی کنند پس من ایشانرا نشانے خواہم نمود وبرائے تو ایں ہمہ را کفایت خواہم شد وآں زن راکہ زن احمد بیگ رادختر است باز بسوئے تو واپس خواہم آورد یعنی چونکہ اواز قبیلہ بباعث نکاح اجنبی بیروں شدہ باز بتقریب نکاح تو بسوئے قبیلہ رو کردہ خواہد شد ودرکلمات خدا ووعدہ ہائے اوہیچ کس تبدیل نتواند کرد وخدائے تو ہرچہ خواہد آں امر بہرحالت شدنی است ممکن نیست کہ در معرض التوا بماند۔ پس خداتعالیٰ بلفظ فسیکفیکہم اللہ سوئے ایں امر اشارہ کرد کہ او دختر احمد بیگ رابعد میرانیدن مانعان بسوئے من واپس خواہد کرد۔ واصل مقصود میرانیدن بود وتو میدانی کہ ہلاک ایں امر میرانیدن است وبس۔ ‘‘ (انجام آتھم ص۲۱۶، خزائن ج۱۱ ص۲۱۶،۲۱۷)
۵… ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں۔ اوّل: نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔ دوم: نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم: پھر نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا۔ جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم: اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔ پنجم: اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم:پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچے ہوجانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص۳۲۵)
۶… ’’وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں:
(۱)کہ مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔
(۲)اور پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے، اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔
(۳)اور پھر یہ کہ مرزااحمد بیگ تاروز شادی دخترکلاں فوت نہ ہو۔
(۴)اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔
(۵)اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔
(۶)اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۵، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
۷… ’’میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے… نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(اشتہار انعامی چارہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۵،۱۱۶)
۸… ’’نفس پیش گوئی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم۱؎ ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے: ’’ لا تبدیل لکلمات اللہ ‘‘ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خداتعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ء، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
۹… ’’ دعوت ربی بالتضرع والابتہال ومددت الیہ ایدی السوال فالہمنی ربی وقال سااریہم اٰیۃ من انفسہم واخبرنی وقال اننی ساجعل بنتا من بناتہم اٰیۃ لہم فسماہا وقال انہا سیجعل ثیبۃ ویموت بعلہا وابوہا الی ثلث سنۃ من یوم النکاح ثم نردھا الیک بعد موتہما ولا یکون احدہما من العاصمین وقال انا رادوہا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید ‘‘ (کرامات الصادقین سرورق صفحہ اخیر، خزائن ج۷ ص۱۶۲)
(ترجمہ) ’’میں (مرزاقادیانی) نے بڑی عاجزی سے خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کیا کہ میں ان (تیرے خاندان کے) لوگوں کو ان میں سے ایک نشانی دکھاؤں گا۔ خدا تعالیٰ نے ایک لڑکی (محمدی بیگم) کا نام لے کر فرمایا کہ وہ بیوہ کی جائے گی اور اس کا خاوند اور باپ یوم نکاح سے تین سال تک فوت ہو جائیںگے۔ پھر ہم اس لڑکی کو تیری طرف لائیں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا اور فرمایا میں اسے تیری طرف واپس لاؤں گا۔ خدا کے کلام میں تبدیلی نہیں ہوسکتی اور تیرا خدا جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔‘‘
۱۰… ’’ کذبوا بایاتی وکانوا بہا یستہزون فسیکفیکہم اللہ ویردہا الیک امر من لدنا انا کنا فاعلین زوجناکہا الحق من ربک فلا تکوننّ من الممترین لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید انا رادوہا الیک ‘‘ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا۔ سو خدا ان کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا۔ یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں۔ بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا۔ تیرے رب کی طرف سے سچ
۱؎ مرزاقادیانی نے دوسری جگہ بھی تقدیر مبرم کے یہی معنی کئے ہیں کہ جو تبدیل نہ ہو سکے جیسا کہ فرماتے ہیں: ’’گویا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب یہ تقدیر مبرم ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۸۱)
ہے۔ پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو۔ خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے۔ تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ہم اس کو واپس لانے والے ہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۰،۶۱، خزائن ج۱۱ ص۶۰،۶۱)
۱۱… ’’ گفت کہ ایں مردم مکذب آیات من ہستتد وبدانہا استہزامی کنند پس من ایشانرا نشانے خواہم نمود وبرائے تو ایں ہمہ را کفایت خواہم شد وآں زن راکہ زن احمد بیگ رادختر است باز بسوئے تو واپس خواہم آورد یعنی چونکہ اواز قبیلہ بباعث نکاح اجنبی بیروں شدہ باز بتقریب نکاح تو بسوئے قبیلہ رو کردہ خواہد شد ودرکلمات خدا ووعدہ ہائے اوہیچ کس تبدیل نتواند کرد وخدائے تو ہرچہ خواہد آں امر بہرحالت شدنی است ممکن نیست کہ در معرض التوا بماند۔ پس خداتعالیٰ بلفظ فسیکفیکہم اللہ سوئے ایں امر اشارہ کرد کہ او دختر احمد بیگ رابعد میرانیدن مانعان بسوئے من واپس خواہد کرد۔ واصل مقصود میرانیدن بود وتو میدانی کہ ہلاک ایں امر میرانیدن است وبس۔ ‘‘ (انجام آتھم ص۲۱۶، خزائن ج۱۱ ص۲۱۶،۲۱۷)