• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 84


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ﴿۸۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ اب ایک دوسرے عہد کا حوالہ دیا ہے۔
یعنی جب یہ اقرار تم نے کیا تو تمہارے بزرگوں کی پوری جماعت اس وقت سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ موجود تھی۔ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ یہی تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے ہمیشہ سب لوگوں کے سامنے آگاہ کرتے اور پھر پوری جماعت سے ان کی پابندی کا عہد لیتے تھے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 85


ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تُخۡرِجُوۡنَ فَرِیۡقًا مِّنۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِہِمۡ ۫ تَظٰہَرُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ؕ وَ اِنۡ یَّاۡتُوۡکُمۡ اُسٰرٰی تُفٰدُوۡہُمۡ وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیۡکُمۡ اِخۡرَاجُہُمۡ ؕ اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾

ترجمہ مکہ :

لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلاوطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا اس کا کچھ خیال نہ کیا، کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 86


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿٪۸۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دی۔ اس مفہوم کے لیے یہ تعبیر ہماری زبان میں بھی عام ہے


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 87


وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ ﴿۸۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل میں لفظ ’ اَلرُّسُل ‘ آیا ہے۔ یہ نبوت سے آگے ایک خاص منصب کے حاملین کے لیے بھی آتا ہے اور خدا کے فرستادوں کے لیے ایک عام لفظ کے طور پر بھی ۔ قرآن میں جبرائیل امین کو اسی دوسرے معنی میں’ رَسُوْلٌ کَرِیْم ‘ کہا گیا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ پہلے معنی میں رسول کی حیثیت بنی اسرائیل کے لیے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد صرف حضرت مسیح کو حاصل تھی۔ اس وجہ سے یہ بالکل قطعی ہے کہ یہاں یہ لفظ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد انبیاے بنی اسرائیل ہیں۔
یعنی اوپر جس عہد کا ذکر ہوا ہے ، اس کی یاددہانی کے لیے پھر ہم نے سلسلہ نبوت کو تمہارے اندر بغیر کسی انقطاع کے قائم رکھنے کا یہ اہتمام بھی کیا۔
پرانے صحیفوں میں ’ الروح القدس ‘ سے جبرائیل امین مراد لیے جاتے ہیں۔
سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے لیے روح القدس کی تائید کا یہ ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان سے جو کھلے کھلے معجزے صادر ہوئے ، یہود نے اپنی بدبختی کے باعث انھیں بدروحوں کے سردار بعلز بول کی تائید کا نتیجہ قرار دیا ۔ متی باب ١٢ میں ہے :
” اس وقت لوگ اس کے پاس ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بدروح تھی۔ اس نے اسے اچھا کردیا ۔ چنانچہ وہ گونگا بولنے اور دیکھنے لگا اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی کہ کیا یہ ابن داؤد ہے ؟ فریسیوں نے سن کر کہا : یہ بدروحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدروحوں کو نہیں نکالتا ۔ اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا : جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے ، وہ ویران ہوجاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی ، وہ قائم نہ رہے گا ۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہوگیا ۔ پھر اس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی اور اگر میں بعلز بول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں ؟ پس وہی تمہارے منصف ہوں گے۔ لیکن اگر میں خدا کے روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آپہنچی ۔ “ (٢٢۔ ٢٨)
اصل الفاظ ہیں: ’ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ‘۔ ان میں فعل اس مفہوم کے لحاظ سے آیا ہے جو اس سے پہلے کے افعال میں ’ کُلَّمَا ‘ کے لفظ سے پیدا ہوگیا ہے۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 88


وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۸۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ اس پیغمبر کی باتوں کے لیے ہمارے دل بند ہیں ، اس لیے کہ ان کی باتیں ہی ایسی ہیں جو کسی معقول آدمی کے دل میں نہیں اتر سکتیں ۔ اگر ان میں کچھ بھی معقولیت ہوتی تو سب سے بڑھ کر ہم انھیں قبول کرتے ۔یعنی پیغمبر جو باتیں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، وہ ہرگز ایسی نہیں ہیں۔ وہ تو نہایت معقول اور دل میں اترنے والی باتیں ہیں ، لیکن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث یہ ان کو سمجھنے اور ماننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی پاداش میں اللہ نے ان پر لعنت کردی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 89


وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی قرآن مجید۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کے بارے میں جو پیشین گوئیاں یہود کے ہاں موجود تھیں، ان کی بنا پر انھیں امید تھی کہ جب ان کا ظہور ہوگا تو ان کی بدبختی کے دن دور ہوجائیں گے اور ان کے دشمنوں پر انھیں فتح حاصل ہوگی ۔ چنانچہ اس حوالے سے وہ فتح کی دعائیں مانگتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 90


بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بَغۡیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۹۰﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

مطلب یہ ہے کہ اپنی ضد قائم رکھی اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو دوزخ کے حوالے کر رہے ہیں۔ گویا یہ ضد انھیں ایسی عزیز ہوگئی کہ اس سے انھوں نے اپنی جانوں کا مبادلہ کرلیا۔
اصل میں ’ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ اَنْ ‘ سے پہلے ’ علٰی ‘ ان میں عربی قاعدے کے مطابق حذف ہوگیا ہے، یعنی محض اس ضد کی بنا پر کہ یہ قرآن بنی اسماعیل پر کیوں اترا ہے ، خود ان کے اندر کے کسی پیغمبر پر کیوں نہیں اترا۔
غضب پر غضب کے معنی یہ ہیں کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی وساطت سے خدا کے ساتھ باندھا ہوا عہد توڑ دینے کے باعث مغضوب تو وہ پہلے ہی تھے ، لیکن قرآن کے ذریعے سے جب ایک مرتبہ پھر انھیں اس عہد میں داخل ہونے کا موقع ملا اور انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ایک کے بعد اب وہ دوسرے غضب کے بھی مستحق ہوگئے ہیں.
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 91


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ یَکۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَہٗ ٭ وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ ؕ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡۢبِیَآءَ اللّٰہِ مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی توراۃ کے بعد اب وہ کسی چیز پر ایمان لانے کے قائل نہیں ہیں۔یعنی توراۃ کی پیشین گوئیوں کے مطابق اب قرآن ہی صحیفہ حق ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 92


وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ مُّوۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۹۲﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ‘۔ قرآن کی رو سے سب سے بڑا ظلم چونکہ شرک ہے ، اس لیے ’ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ‘ یہاں ٹھیک ’ وانتم مشرکون ‘ کے مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ توراۃ پر اپنے ایمان کے دعوے میں اگر تم سچے ہو تو سیدنا موسیٰ کے دنیا میں ہوتے ہوئے بچھڑے کی پرستش کر کے پھر تم نے اس ظلم کا ارتکاب کیوں کیا ؟ پچھلے نبیوں نے بنی اسرائیل کی تاریخ کے اسی شرم ناک واقعے کی طرف تعریض کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اے اسرائیل ، تو تو وہ ہے کہ تو نے پہلی شب میں بےوفائی کی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 94


قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۹۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی آخرت کی نعمتوں کے حق دار اس دنیا میں اگر تنہا تمھی ہو۔قرآن نے یہ یہود کو شرم دلائی ہے کہ آخرت اگر تمہارے لیے خاص ہے تو اس کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ تم اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے موت کی آرزوئیں کرو، لیکن تمہیں معلوم ہے کہ تم جینے کے کیسے حریص ہو ۔ یہ حقیقت ، ظاہر ہے کہ یہود کے لیے بڑی تلخ اور انھیں اپنی نگاہوں میں بالکل رسوا کردینے والی تھی۔
 
Top