• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 3 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 275


اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۷۵﴾
اصل میں لفظ ’ رِبٰوا ‘ استعمال ہوا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے سود کا لفظ مستعمل ہے اور اس سے مرادوہ معین اضافہ ہے جو ایک قرض دینے والا مقروض سے اپنی اصل رقم پر محض اس لیے وصول کرتا ہے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو یہ رقم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ قرض کسی غریب اور نادار کو دیا گیا ہو یا کسی کاروباری اور رفاہی اسکیم کے لیے ، اس چیز کو ربا کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے۔ عربی زبان میں ربا کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطع نظر محض اس معین اضافے ہی پر ہوتا ہے جو کسی قرض کی رقم پر لیا جائے۔ چنانچہ یہ بات سورة روم (٣٠) کی آیت ٣٩ میں خود قرآن نے واضح کردی ہے کہ اس کے زمانہ نزول میں سودی قرض زیادہ تر کاروباری لوگوں کے مال میں جا کر بڑھنے کے لیے دیے جاتے تھے۔ اس کے لیے آیت میں ’ لِیَرْبُوَا فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ ‘ (اِس لیے کہ وہ دوسروں کے مال میں پروان چڑھے) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ تعبیر ، ظاہر ہے کہ غریبوں کو دیے جانے والے سودی قرضوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے ، بلکہ صاف بتاتی ہے کہ اس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد کے لیے دیا جاتا تھا اور اس طرح قرآن کی اس تعبیر کے مطابق گویا دوسروں کے مال میں پروان چڑھتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سود کا تعلق صرف انھی چیزوں سے ہے جن کا استعمال ان کی اپنی حیثیت میں انھیں فنا کردیتا اور اس طرح مقروض کو انھیں دوبارہ پیدا کر کے ان کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عقل و نقل ، دونوں کی رو سے ظلم ہے۔ لیکن اس کے برخلاف وہ چیزیں جن کے وجود کو قائم رکھ کر ان سے استفادہ کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں، اپنی اصل حیثیت ہی میں ان کے مالک کو لوٹا دی جاتی ہیں ، ان کے استعمال کا معاوضہ کرایہ ہے اور اس پر ، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کی چھوت بھی ان اسباب میں سے ہے جن سے آدمی بعض اوقات پاگل ہوجاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے : ”۔۔ نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ ان کو کوئی اذیت یا آزمائش پیش آجائے ، لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں ، جس طرح ان کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے ، اسی طرح کبھی کبھی ان کے عقل و دماغ ، سب پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے اور وہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے ، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال ، پراگندہ بال ، جدھر سینگ سمائے ، ادھر آوارہ گردی اور خاک بازی کرتے پھرتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٣١) یہ قرآن نے سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ بتائی ہے کہ وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے، دراں حالیکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے ؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھنا چاہیے۔ استاذ امام سود خواروں کے اس اظہار تعجب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :” اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے ، بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اس قیاس کو۔۔ لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہتاً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے۔ وہ محنت ، زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اور اگر حاصل کرسکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر ، جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کردیا ۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلے کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کرلے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا ، جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے ۔ بھلا بتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جاں باز ، غیور اور خدمت گزار سرمایے سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل ، بےغیرت اور دشمن انسانیت سرمایے کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ، لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ “ ( تدبر قرآن ١/ ٦٣٢) اصل میں ’ فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ’ مَوْعِظَۃٌ ‘ کے لیے فعل مذکر آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تانیث غیر حقیقی ہے اور غیر حقیقی تانیث کے لیے فعل بعض اوقات لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے آجاتے ہیں۔ یعنی دنیا میں کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا ، لیکن آخرت کے حوالے سے معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہے کہ آدمی نے سود لینا چھوڑ دیا ۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس موقع پر دل کی حالت کیا رہی اور پچھلے مظالم کی تلافی کے لیے کیا کچھ کیا گیا. اِس سزا کی وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صریح کفر ہے اور اس کی سزا وہی ہونی چاہیے جو کافروں کے لیے مقرر ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 276


یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۷۶﴾
یعنی سود خواروں کے لیے قیامت میں صرف حسرت و ندامت ہوگی ۔ وہ دیکھیں گے کہ دنیا میں ان کے لاکھوں وہاں ایک کوڑی بھی نہیں رہے ۔ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقے کو قبول کرتا اور اسے اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے۔ پھر وہ تمہارے لیے اس طرح اس کی پرورش کرتا ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے ، یہاں تک کہ تمہارا دیا ہوا ایک لقمہ اللہ کے ہاں احد پہاڑ بن جاتا ہےرقم ٦٦٢۔


 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 282


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪ وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ اَنۡ یَّکۡتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلۡیَکۡتُبۡ ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا اَوۡ لَا یَسۡتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلۡیُمۡلِلۡ وَلِیُّہٗ بِالۡعَدۡلِ ؕ وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰىہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ؕ وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اَقۡوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَرۡتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمۡ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَکۡتُبُوۡہَا ؕ وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ اِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۲۸۲﴾
اصل میں لفظ ’ فَلْیُمْلِلْ ‘ استعمال ہوا ہے ، اس کی ایک صورت ’ املاء ‘ بھی ہے۔ عربی زبان میں تضعیف کے دو حرفوں میں سے ایک کو ’ ی ‘ میں تبدیل کر کے لفظ کو ہلکا کرلینے کی یہ صورت عام ہے۔ قرآن مجید میں ’ یَتَسَنّٰی ‘ اور ’ یَتَصَدّٰی ‘ اسی کی مثالیں ہیں۔ اِس آیت میں گواہی کا جو ضابطہ بیان ہوا ہے ، اس کے بارے میں دو باتیں واضح رہنی چاہئیں : ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اس ضابطے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف دستاویزی شہادت سے متعلق ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کا موقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے۔ ہم اگر کوئی دستاویز لکھتے ہیں یا کسی معاملے میں کوئی اقرار کرتے ہیں تو ہمیں اختیار ہے کہ اس پر جسے چاہیں، گواہ بنائیں ۔ لیکن زنا، چوری ، قتل، ڈاکا اور اس طرح کے دوسرے جرائم میں جو شخص بھی موقع پر موجود ہوتا ہے ، وہی گواہ قرار پاتا ہے۔ چنانچہ شہادت کی ان دونوں صورتوں کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ان میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جاسکتا ۔دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے۔ اس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اس میں انھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اس کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے ان گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات و مشاغل کے لحاظ سے اس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کرسکتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں اصلاً مردوں ہی کو گواہ بنانے اور دو مردنہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ گھر میں رہنے والی یہ بی بی اگر عدالت کے ماحول میں کسی گھبراہٹ میں مبتلا ہو تو گواہی کو ابہام و اضطراب سے بچانے کے لیے ایک دوسری بی بی اس کے لیے سہارا بن جائے۔ اس کے یہ معنی ، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہوسکتے کہ عدالت میں مقدمہ اسی وقت ثابت ہوگا، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں ۔ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو ان کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اس کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی تمام ہدایات کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے ، اور اس سے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ ‘ ۔ ان میں ساتھ لگ جانے یا چپک جانے کا مفہوم عربیت کی رو سے متضمن ہے اور ’ فُسُوْقٌ ‘ کے بعد ’ ب ‘ اس پر دلالت کرتی ہے۔ اِس آیت کے احکام کا خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس طرح بیان فرمایا ہے : ” جب کوئی قرض لین دین ایک خاص مدت تک کے لیے ہو تو اس کی دستاویز لکھ لی جائے۔ یہ دستاویز دونوں پارٹیوں کی موجودگی میں کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ، اس میں کوئی دغل فشل نہ کرے اور جس کو لکھنے کا سلیقہ ہو ، اس کو چاہیے کہ وہ اس خدمت سے انکار نہ کرے۔ لکھنے کا سلیقہ اللہ کی ایک نعمت ہے ، اس نعمت کا شکریہ ہے کہ آدمی ضرورت پڑنے پر لوگوں کے کام آئے۔ اس نصیحت کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اس زمانے میں لکھے پڑھے لوگ کم تھے۔ دستاویزوں کی تحریر اور ان کی رجسٹری کا سرکاری اہتمام اس وقت تک نہ عمل میں آیا تھا اور نہ اس کا عمل میں آنا ایسا آسان تھا۔دستاویز کے لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ہوگی ۔ وہ دستاویز میں اعتراف کرے گا کہ میں فلاں بن فلاں کا اتنے کا قرض دار ہوں اور لکھنے والے کی طرح اس پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس اعتراف میں تقویٰ کو ملحوظ رکھے اور ہرگز صاحب حق کے حق میں کسی قسم کی کمی کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ اگر یہ شخص کم عقل ہو یا ضعیف ہو یا دستاویز وغیرہ لکھنے لکھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی یا وکیل ہو ، وہ اس کا قائم مقام ہو کر انصاف اور سچائی کے ساتھ دستاویز لکھوائے ۔ اِس پر دو مردوں کی گواہی ثبت ہوگی جن کے متعلق ایک ہدایت یہ ہے کہ وہ ’ مِنْ رِّجَالِکُمْ ‘ یعنی اپنے مردوں میں سے ہوں۔ جس سے بیک وقت دو باتیں نکلتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمان ہوں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنے میل جول اور تعلق کے لوگوں میں سے ہوں کہ فریقین ان کو جانتے پہچانتے ہوں ۔ دوسری (ہدایت) یہ کہ وہ ’ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ ‘ یعنی پسندیدہ اخلاق و عمل کے ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار ہوں ۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد میسر نہ آسکیں تو اس کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ دو عورتوں کی شرط اس لیے ہے کہ اگر ایک سے کسی لغزش کا صدور ہوگا تو دوسری کی تذکیر و تنبیہ سے اس کا سد باب ہو سکے گا۔ یہ فرق عورت کی تحقیر کے پہلو سے نہیں ہے ، بلکہ اس کی مزاجی خصوصیات اور اس کے حالات و مشاغل کے لحاظ سے یہ ذمہ داری اس کے لیے ایک بھاری ذمہ داری ہے ، اس وجہ سے شریعت نے اس کے اٹھانے میں اس کے لیے سہارے کا بھی انتظام فرما دیا ہے ۔ جو لوگ کسی دستاویز کے گواہوں میں شامل ہوچکے ہوں ، عند الطلب ان کو گواہی سے گریز کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کہ حق کی شہادت ایک عظیم معاشرتی خدمت بھی ہے اور شہداء اللہ ہونے کے پہلو سے اس امت کے فریضہ منصبی کا ایک جزو بھی۔ قرض لین دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اگر وہ کسی مدت کے لیے ہے ، دست گرداں نوعیت کا نہیں ہے تو اس کو قید تحریر میں لانے سے گرانی نہیں محسوس کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس کو زحمت سمجھ کر ٹال جاتے ہیں، وہ سہل انگاری کی وجہ سے بسا اوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن کے نتائج بڑے دوررس نکلتے ہیں۔ مذکورہ بالا ہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین ، گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں، اس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے ان کا اہتمام ضروری ہے ۔ دست گرداں لین دین کے لیے تحریر و کتابت کی پابندی نہیں ہے ۔ ہاں ، اگر کوئی اہمیت رکھنے والی خریدو فروخت ہوئی ہے تو اس پر گواہ بنا لینا چاہیے تاکہ کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کا تصفیہ ہو سکے۔ نزاع پیدا ہوجانے کی صورت میں کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کسی فریق کے لیے جائز نہیں ہے۔ کاتب اور گواہ ایک اہم اجتماعی و تمدنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو بلاوجہ نقصان پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ثقہ اور محتاط لوگ گواہی اور تحریر وغیرہ کی ذمہ داریوں سے گریز کرنے لگیں گے اور لوگوں کو پیشہ ور گواہوں کے سوا کوئی معقول گواہ ملنا مشکل ہوجائے گا۔ اس زمانے میں ثقہ اور سنجیدہ لوگ گواہی وغیرہ کی ذمہ داریوں سے جو بھاگتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی معاملہ نزاعی صورت اختیار کرلیتا ہے تو اس کے گواہوں کی شامت آجاتی ہے۔ یہ بےچارے ہتک ، اغوا، نقصان مال و جائداد ، بلکہ قتل تک کی تعدیوں کے نشانہ بن جاتے ہیں۔ قرآن نے اس قسم کی شرارتوں سے روکا کہ جو لوگ اس قسم کی حرکتیں کریں گے ، وہ یاد رکھیں کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی نافرمانی نہیں ہے جو آسانی سے معاف ہوجائے گی ، بلکہ یہ ایک ایسا فسق ہے جو ان کے ساتھ چمٹ کے رہ جائے گا اور اس کے برے نتائج سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٤٠)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 283


وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ ؕ فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ؕ وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿۲۸۳﴾٪
اصل میں ’ فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی خبر کو بھی محذوف قرار دیا جاسکتا ہے اور ان کو خبر مان کر ان کا مبتدا بھی محذوف قرار دے سکتے ہیں۔ ہم نے دوسری صورت کو ترجیح دی ہے اور ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے ۔اِس سے واضح ہے کہ رہن کی اجازت صرف اسی وقت تک ہے ، جب تک قرض دینے والے کے لیے اطمینان کی صورت پیدا نہیں ہوجاتی ۔ اللہ کا حکم ہے کہ یہ صورت پیدا ہوجائے تو رہن رکھی ہوئی چیز لازماً واپس کر دینی چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ ایک دوسرے پر اعتماد کے لیے جو باتیں مطلوب ہیں، وہ فراہم ہوجائیں ۔ مثلاً سفر ختم کر کے حضر میں آگئے ، دستاویز کی تحریر کے لیے کاتب اور گواہ مل گئے ، اپنوں کی موجودگی میں قرض معاملت کی تصدیق ہوگئی اور اس امر کے لیے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہ گئی کہ قرض دینے والا رہن کے بغیر اعتماد نہ کرسکے تو پھر اس کو چاہیے کہ وہ رہن کردہ چیز اس کو واپس کر دے اور اپنے اطمینان کے لیے چاہے تو وہ شکل اختیار کرے جس کی اوپر ہدایت کی گئی ہے۔ یہاں رہن کردہ مال کو امانت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرض دینے والے کے پاس رہن بطور امانت ہوتا ہے ، جس کی حفاظت ضروری اور جس سے کسی قسم کا انتفاع ناجائز ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٤٣) یعنی یہ ایسا گناہ نہیں ہے جس کا اثر انسان کے محض ظاہری وجود تک ہی رہے۔ یہ لازماً دل میں اترے گا اور اسے آلودہ گناہ کرے گا، اس لیے اس کو کوئی معمولی چیز سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 284


لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۸۴﴾
یہ اس عظیم سورة کا خاتمہ ہے جس میں بنی اسرائیل سے اظہار برأت کے بعد ایک بےمثل دعا اس نئی امت کی زبان پر جاری ہوگئی ہے جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لانے کے بعد بنی اسماعیل میں سے اٹھائی گئی ۔ سورة فاتحہ کی طرح خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا نزول اس بات کی بشارت ہے کہ یہ حرف بہ حرف قبول بھی ہوجائے گی ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس دعا کے بارے میں لکھتے ہیں :”۔۔ اس کے لفظ لفظ سے اس بھاری ذمہ داری کا احساس بھی ٹپک رہا ہے جو اس امت پر ڈالی گئی ہے ، وہ اعتراف بھی نمایاں ہو رہا ہے جو روح ایمان ہے ، ان باتوں سے بچائے جانے کی التجا بھی جھلک رہی ہے جو پچھلی امتوں کے لیے ٹھوکر کا باعث ہوئیں اور اداے فرض کی راہ میں جن مشکلات کے اندیشے ہیں ، ان میں استعانت اور جن لغزشوں کے خطرے ہیں ، ان سے درگذر کی درخواست بھی ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦٤٥)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 285


اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾
اس مضمون کے ساتھ ، اگر غور کیجیے تو یہود پر اتمام حجت اور ایک نئی امت کی تاسیس کے بعد بات وہیں پہنچ گئی ، جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اس کتاب سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں ۔ یہی اس سورة کا اصل پیغام ہے اور عود علی البدء کے اسلوب پر قرآن نے خاتمہ کلام میں ایک مرتبہ پھر اسے نہایت خوبی کے ساتھ نمایاں کردیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ پیغمبر جس چیز کو لے کر آتا ہے، ’ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ کہتے ہوئے سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر اسے مانتا بھی ہے۔ یہ تمام ایمانیات اس سے پہلے آیت ١٧٧ کے تحت زیر بحث آ چکے ہیں۔ یہاں ان کا ذکر جس بات کو واضح کرنے کے لیے ہوا ہے ، وہ آگے بیان ہوگئی ہے کہ یہ نئی امت خدا کی پوری ہدایت پر ایمان لائی ہے۔ یہود کی طرح اس کے ایک حصے کو مان کر دوسرے کا انکار نہیں کر رہی ہے۔ اِس جملے میں غائب کے صیغے سے یکایک متکلم کی طرف اسلوب کی جو تبدیلی ہوئی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ بات کو محض خبر کی جگہ سے اٹھا کر اس میں اعتراف و اقرار کا مضمون نمایاں کردیا جائے۔ اِس جملے میں ، اگر غور کیجیے تو یہود کے ’ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا ‘ پر ایک لطیف تعریض بھی ہے ۔ اصل میں لفظ ’ غُفْرَانَکَ ‘ آیا ہے۔ یہ فعل محذوف کا مفعول ہے۔ اس موقع پر حذف کا یہ اسلوب دعا کرنے والے کے اضطراب کو نمایاں کرتا ہے اور سمع وطاعت کے اقرار کے معاً بعد یہ دعا بتاتی ہے کہ خدا کی مغفرت کا سہارا نہ ہو تو بندہ اس دنیا میں اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی ذمہ داری بھی اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 286


لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾٪
آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔ جاوید احمد غامدی: دعا کے بیچ میں یہ جملہ معترضہ تسلی اور بشارت کے لیے ہے کہ جو ذمہ داری اس نئی امت پر ڈالی جا رہی ہے ، وہ اس کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں ہر شخص کی جزا و سزا اس کے اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے ہوگی ۔ نہ کسی کے اختیارو امکان سے باہر کی چیزوں پر اس کا مواخذہ کیا جائے گا اور نہ کسی کا ایمان و عمل دوسرے کے لیے نفع و ضررکا باعث بنے گا۔ ہر شخص جو بوئے گا، وہی کاٹے گا اور جو کرے گا ، وہی بھرے گا۔ اِس طرح کی بھول چوک اگرچہ معاف ہی ہونی چاہیے ، لیکن اس کے باوجود اس کے لیے معافی کی درخواست بندوں کی طرف سے غایت درجہ خشیت کو ظاہر کرتی ہے جس سے توقع ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید رحمت و عنایت کے مستحق ہوں گے ۔ یہ ان اصرو اغلال کی طرف اشارہ ہے جو یہود کی شریعت میں ان کی سرکشی کے باعث موجود تھے اور جب وہ ان کو نہیں اٹھاسکے تو بالآخر ان کے لیے خدا کا عذاب بن گئے ۔ یہ استطاعت سے باہر ان آزمائشوں سے محفوظ رہنے کی درخواست ہے جو بنی اسماعیل کو منصب شہادت کی ذمہ داری ادا کرنے کی راہ میں پیش آسکتی تھیں ۔ اِس سے مراد وہ منکرین یہود ہیں جو اتمام حجت کے باوجود اور نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو پوری طرح پہچان لینے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے ، بلکہ الٹا آپ کی دعوت کے دشمن بن کر مقابلے پر آگئے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 1


الٓمَّٓ ۙ﴿۱﴾
سورة بقرہ کی طرح اس سورة کا نام بھی الم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں سورتیں توام ہیں۔ اس نام کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے متعلق اپنا نقطہ نظر ہم نے سورة بقرہ کی آیت ١ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 2


اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ الۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ؕ﴿۲﴾
اصل میں لفظ ’ الْقَیُّوْم ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں : وہ ہستی جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہو ۔ اس سے اور اس سے پہلے ’ حَیّ ‘ کی صفت سے قرآن نے ان تمام معبودوں کی نفی کردی ہے جو نہ زندہ ہیں ، نہ دوسروں کو زندگی دے سکتے ہیں، اور نہ اپنے بل پر قائم ہیں ، نہ دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں ، بلکہ خود اپنی زندگی اور بقا کے لیے ایک حی وقیوم کے محتاج ہیں۔

 
Top