• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 4 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 197


مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۟ ثُمَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ ﴿۱۹۷﴾
اصل میں ’ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا یہاں اس لیے حذف کردیا گیا کہ ساری توجہ اسی خبر پر مرکوز رہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 198


لٰکِنِ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّلۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۸﴾
اصل میں لفظ ’ نُزُلًا ‘ آیا ہے۔ اس کا نصب حال کے لیے ہے اور یہ اس ضیافت کے لیے آتا ہے جو کسی مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اسے پیش کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے پہلی پیش کش ہی جنت ہوگی۔ اس کے بعد انھیں مزید کیا ملنے والا ہے، اس کا اندازہ اس پیش کش سے کیا جاسکتا ہے۔

لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت199-200
تفسیر موجود نہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 0


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
النساء — المائدہ
٤— ٥
یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ پہلی سورة میں جس امت کے لیے صالح معاشرت کی اساسات واضح کی گئی ہیں، دوسری سورة میں اسی پر اتمام نعمت اور اس کے ساتھ اللہ کے آخری عہد و پیمان کا بیان ہے۔ ان میں خطاب اگرچہ اہل کتاب سے بھی ہوا ہے اور نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے بھی، لیکن دونوں سورتوں کے مخاطب اصلاً مسلمان ہی ہیں۔ ان کے مضمون سے واضح ہے کہ بقرہ و آل عمران کی طرح یہ بھی ہجرت کے بعد مدینہ میں اس وقت نازل ہوئی ہیں، جب مسلمانوں کی ایک باقاعدہ ریاست وہاں قائم ہوچکی تھی اور نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اہل کتاب پر اتمام حجت اور مسلمانوں کا تزکیہ وتطہیر کر رہے تھے۔پہلی سورة —- النساء —- کا موضوع امت مسلمہ کے لیے صالح معاشرت کی اساسات اور اس کا تزکیہ و تطہیر ہے۔ دوسری سورة —- المائدۃ —- کا موضوع اس امت پر اتمام نعمت اور اس کے ساتھ اللہ، پروردگار عالم کے آخری عہد و پیمان کا بیان ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 1


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾
اس مفہوم کے لیے اصل میں ’ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِنھیں سورة نحل (١٦) کی آیت ٧٢ ’ وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا ‘ کی روشنی میں دیکھیے تو ان کا ترجمہ یہی ہوسکتا ہے۔ اسے ’ اس میں سے ‘ یا ’ اس کے اندر سے ‘ کے معنی میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں لفظ ’ تَسَآءَ لُوْنَ ‘ آیا ہے۔ اس کے معنی جس طرح ایک دوسرے سے پوچھنے اور سوال کرنے کے ہیں، اسی طرح ایک دوسرے سے مدد چاہنے کے بھی ہیں۔ یہاں یہ اسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اِس سورة میں جو ہدایات آگے دی گئی ہیں، یہ آیت ان کے لیے ایک جامع تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے حقائق اپنی تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ” پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں جس تقویٰ کی ہدایت کی گئی ہے، اس کا ایک خاص موقع و محل ہے۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آگئی ہے، بلکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے جو سب کا خالق بھی ہے اور سب کا رب بھی۔ اس وجہ سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو ایک بےمالک اور بےراعی کا ایک آوارہ گلہ سمجھ کر اس میں دھاندلی مچائے اوراس کو اپنے ظلم وتعدی کا نشانہ بنائے، بلکہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس کے معاملات میں انصاف اور رحم کی روش اختیار کرے ، ورنہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زورآور اور بڑا منتقم وقہار ہے۔ جو اس کی مخلوق کے معاملات میں دھاندلی مچائیں گے، وہ اس کے قہروغضب سے نہ بچ سکیں گے۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ دوسری یہ کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم وحوا کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ نسل آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اس پہلو سے عربی و عجمی، احمر و اسود اور افریقی وایشیائی میں کوئی فرق نہیں، سب خدا کی مخلوق اور سب آدم کی اولاد ہیں۔ خدا اور رحم کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ سب ایک ہی خدا کی بندگی کرنے والے اور ایک ہی مشترک گھرانے کے افراد کی طرح آپس میں حق و انصاف اور مہرومحبت کے تعلقات رکھنے والے بن کر زندگی بسر کریں۔تیسری یہ کہ جس طرح آدم تمام نسل انسانی کے باپ ہیں، اسی طرح حوا تمام نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم ہی کی جنس سے بنایا ہے، اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر، فروتر اور فطری گناہ گار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔ اس کو حقیروذلیل مخلوق سمجھ کر نہ اس کو حقوق سے محروم کیا جاسکتا نہ کمزور خیال کرکے اس کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ چوتھی یہ کہ خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون و ہمدردی کا محرک رہا ہے۔ جس کو بھی کسی مشکل یا خطرے سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ اس میں دوسروں سے خدا اور رحم کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہے اور یہ اپیل چونکہ فطرت پر مبنی ہے، اس وجہ سے اکثر حالات میں یہ موثر بھی ہوتی ہے۔ لیکن خدا اور رحم کے نام پر حق مانگنے والے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ان واسطوں پر حق مانگنا حق ہے، اسی طرح ان کا حق ادا کرنا بھی فرض ہے۔ جو شخص خدا اور رحم کے نام پر لینے کے لیے تو چوکس ہے، لیکن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے، وہ خدا سے دھوکا بازی اور رحم سے بےوفائی کا مجرم ہے اور اس جرم کا ارتکاب وہی کرسکتا ہے جس کا دل تقویٰ کی روح سے خالی ہو۔ خدا اور رحم کے حقوق پہچاننے والے جس طرح ان ناموں سے فائدے اٹھاتے ہیں، اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں اور درحقیقت حق طلبی وحق شناسی کا یہی توازن ہے جو صحیح اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔ اسی حقیقت کی طرف ’ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ‘ کا ٹکڑا اشارہ کر رہا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٤٦۔ ٢٤٧)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 2


وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا ﴿۲﴾
اصل میں ’ خَبِیْث ‘ اور ’ طَیِّب ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جس طرح اخلاقی لحاظ سے خبیث و طیب چیزوں کے لیے آتے ہیں، اس طرح مادی لحاظ سے عمدہ اور ناقص چیزوں کے لیے بھی آتے ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلآی اَمْوَالِکُمْ ‘۔ ان میں ’ اِلٰی ‘ کا صلہ ’ ضَمًّا ‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ سے متعلق ہے جو عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگیا ہے۔ اِس پوری آیت کا مدعا یہ ہے کہ یتیموں کے سرپرست ان کے مال ان کے حوالے کریں، اسے خود ہضم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ظلم و ناانصافی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا گویا اپنے پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص نہ اپنا برا مال ان کے اچھے مال سے بدلنے کی کوشش کرے اور نہ انتظامی سہولت کی نمایش کرکے اس کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھانے کے مواقع پیدا کرے۔ اس طرح کا اختلاط اگر کسی وقت کیا جائے تو یہ خردبرد کے لیے نہیں، بلکہ ان کی بہبود اور ان کے معاملات کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 3


وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ﴿۳﴾
اصل میں ’ مَا طَابَ لَکُمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کے معنی ’ جو پسند آئیں ‘اور ’ جو راضی ہوں ‘ کے بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس معنی کو ہم نے ترجیح دی ہے، وہ موقع ومحل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ یہ آیت اصلاً تعدد ازواج سے متعلق کوئی حکم بیان کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی، بلکہ یتیموں کی مصلحت کے پیش نظر تعدد ازواج کے اس رواج سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے لیے نازل ہوئی ہے جو عرب میں پہلے سے عام تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر صاف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے، اس کی رو سے خاندان کا ادارہ اپنی اصلی خوبیوں کے ساتھ ایک ہی مردو عورت میں رشتہ نکاح سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسانیت کی ابتدا سیدنا آدم سے ہوئی ہے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بیوی پیدا کی تھی۔ یہ تمدن کی ضروریات اور انسان کے نفسی، سیاسی اور سماجی مصالح ہیں جن کی بنا پر تعدد ازواج کا رواج کم یا زیادہ، ہر معاشرے میں رہا ہے اور انھی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کسی شریعت میں اسے ممنوع قرار نہیں دیا۔ یہاں بھی اسی نوعیت کی ایک مصلحت میں اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کی نگہداشت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے لیے تنہا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یتیم کی ماں یا اس کی بہن کو اس میں شامل کر کے وہ اپنے لیے سہولت پیدا کرسکتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان عورتوں میں سے جو ان کے لیے موزوں ہوں، ان کے ساتھ نکاح کرلیں۔ تاہم دوشرطیں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کردی ہیں :ایک یہ کہ یتیموں کے حقوق جیسی مصلحت کے لیے بھی عورتوں کی تعداد کسی شخص کے نکاح میں چار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری یہ کہ بیویوں کے درمیان انصاف کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ آدمی اگر اسے پورا نہ کرسکتا ہو تو اس طرح کی کسی اہم دینی مصلحت کے پیش نظر بھی ایک سے زیادہ نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ غلامی کا ادارہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سورة محمد میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی ممانعت کے باوجود جو غلام پہلے سے معاشرے میں موجود تھے، ان کے لیے یہ استثنا باقی رکھنا ضروری تھا۔ بعد میں قرآن نے ان کے ساتھ لوگوں کو مکاتبت کا حکم دے دیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ لوح تقدیر اب غلاموں کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی آزادی کی تحریر اس پر، جب چاہیں، رقم کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کے زمانہ نزول میں غلامی کو معیشت اور معاشرت کے لیے اسی طرح ناگزیر سمجھا جاتا تھا، جس طرح اب سود کو سمجھا جاتا ہے۔ نخاسوں پر ہر جگہ غلاموں اور لونڈیوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی اور کھاتے پیتے گھروں میں ہر سن وسال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔ اس طرح کے حالات میں اگر یہ حکم دیا جاتا کہ تمام غلام اور لونڈیاں آزاد ہیں تو ان کی ایک بڑی تعداد کے لیے جینے کی کوئی صورت اس کے سوا باقی نہ رہتی کہ مرد بھیک مانگیں اور عورتیں جسم فروشی کے ذریعے سے اپنے پیٹ کا ایندھن فراہم کریں۔ یہ مصلحت تھی جس کی وجہ سے قرآن نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا اور اس سلسلہ کے کئی اقدامات کے بعد بالآخر سورة نور (٢٤) کی آیت ٣٣ میں مکاتبت کا وہ قانون نازل فرمایا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اس کے بعد نیکی اور خیر کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھنے والے کسی شخص کو بھی غلام بنائے رکھنے کی گنجایش باقی نہیں رہی۔ اس قانون کی وضاحت اگر اللہ نے چاہا تو ہم نور کی اسی آیت کے تحت کریں گے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 4


وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا ﴿۴﴾
اصل میں ’ نِحْلَۃً ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا نصب ہمارے نزدیک مصدر کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان عورتوں کا مہر اسی طریقے سے دیا جائے، جس طرح عام عورتوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ عذر نہیں پیدا کرنا چاہیے کہ نکاح چونکہ انھی کی اولاد کی مصلحت سے کیا گیا ہے، اس لیے اب کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی۔ اصل الفاظ ہیں : ’ فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ ‘۔ ان میں حرف ’ عَنْ ‘ دست برداری کے مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی اپنی خوشی سے اگر وہ مہر کے کسی حصے سے دست بردار ہوجائیں یا کوئی اور رعایت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔ لوگ اگر چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 5


وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۵﴾
اس سے واضح ہے کہ حقوق ملکیت کے ساتھ خاندانی اور اجتماعی بہبود کا پہلو بھی لازماً ملحوظ رہنا چاہیے، اس لیے کہ کسی شخص کے مال کی بربادی پورے خاندان، بلکہ بعض اوقات پورے معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہوجاتی ہے۔ یتیم کے مال کو اسی بنا پر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کا مال قرار دیا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ یتیم اگر ابھی نادان اور بےس مجھ ہے تو اس کے سر پرستوں کا فرض ہے کہ اس کا مال اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھیں، اسے ہرگز اس کے حوالے نہ کریں، ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنا یہ مال جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے قیام وبقا کا ذریعہ بنایا ہے، ضائع کر بیٹھے گا۔ اصل میں ’ وَارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ فِیْھَا ‘ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ یتیموں کے مال سے ان کی ضروریات فراخ دلی کے ساتھ پوری کی جائیں۔ عربی زبان میں ’ اُرْزُقُوْھُمْ فِیْھَا ‘ کہا جائے تو اس کا مفہوم یہی ہوگا۔ ’ فِیْھَا ‘ کے بجائے اس جملے میں ’ منھا ‘ ہوتا تو اس کے معنی، البتہ یہ ہوتے کہ ان کو اس میں سے کچھ دے دلا دیا جائے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 6


وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾
یعنی کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری ان کے سپرد کر کے دیکھتے رہو کہ معاملات کی سوجھ بوجھ اور اپنی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا ہورہی ہے یا نہیں، اس لیے کہ جنسی بلوغ ہر حال میں عقلی بلوغ کو مستلزم نہیں ہے۔ اس طرح کے تمام معاملات میں یہ چیز لازماً پیش نظر رہنی چاہیے۔ یہ سرپرستوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اپنی کسی خدمت کے عوض کچھ لینا اگرچہ ممنوع نہیں ہے، تاہم وہ اگر مستغنی ہوں تو بہتر یہی ہے کہ اس سے پرہیز کریں، لیکن غریب ہوں تو یتیم کے مال سے اپنا حق خدمت دستور کے مطابق لے سکتے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے : ”۔۔ دستور کے مطابق سے مراد یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی نوعیت، جائداد کی حیثیت، مقامی حالات اور سرپرست کے معیار زندگی کے اعتبار سے وہ فائدہ اٹھانا جو معقولیت کے حدود کے اندر ہو، یہ نوعیت نہ ہو کہ ہر معقول آدمی پر یہ اثر پڑے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے کے اندیشے سے اسراف اور جلد بازی کر کے یتیم کی جائداد ہضم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٥٥) یعنی اس بات کو یاد رکھو کہ ایک دن یہی حساب اللہ تعالیٰ کو بھی دینا ہے اور وہ سمیع وعلیم ہے، اس سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 7


لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۷﴾
یہ میراث کے ان حصوں کی طرف اشارہ ہے جو آگے کی آیات میں متعین کردیے گئے ہیں تاکہ انسان جس چیز کا فیصلہ خود کرلینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کے بارے میں اسے رہنمائی حاصل ہوجائے اور زور آور وارثوں کے لیے مرنے والے کی تمام املاک اور جائداد سمیٹ کر قبضہ کرلینے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں، بلکہ ساری دنیا میں یہ حال رہا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا کیا ذکر، تمام کمزور ورثہ زور آور وارثوں کے رحم و کرم پر تھے۔ قرآن نے اس صورت حال کی طرف دوسرے مقام ’ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس صورت حال کو ختم کردینے کے لیے قرآن نے تمام وارثوں کے حقوق معین کردیے۔ مردوں کے بھی، عورتوں کے بھی۔ اوپر کی آیات کی تلاوت کرتا ہوا آدمی جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ گویا یتیموں کی برکت سے دوسروں کے حقوق معین کرنے کی بھی راہ کھل گئی۔ یعنی جو خود حقوق سے محروم تھے، انھوں نے نہ صرف یہ کہ حقوق حاصل کیے، بلکہ ان کی بدولت دوسروں کو بھی حقوق حاصل ہوئے۔ خاص طور پر عورتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے گویا پہلی بار ان کو بھی مردوں کے پہلو بہ پہلو حق داروں کی صف میں جگہ ملی اور اپنے والدین واقربا کے ترکے میں سے، خواہ کم ہو یا زیادہ، ان کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معین حصہ فرض کردیا گیا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٥٦)
 
Top