• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 4 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 8


وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۸﴾
یعنی اس میں شبہ نہیں کہ ہر ایک کا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ، انھیں کچھ دے دلا کر اور ان سے بھلائی کی بات کر کے رخصت کرنا چاہیے اور اس طرح کے موقعوں پر چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ جس طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں، اس طرح کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء :
آیت 9-10 تفسیر موجود نہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 11


یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۱﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ‘۔ ان سے واضح ہے کہ آگے جو حصے بیان ہوئے ہیں، انھیں اللہ نے اپنی وصیت قرار دیا ہے۔ اس کے بعد، ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان اس کے مقابلے میں اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ یہ حکم اگر اسی جملے پر ختم ہوجاتا تو اس کے معنی یہ تھے کہ مرنے والے کی اولاد میں اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہی ہو تو لڑکے کو لڑکی سے دونا ملے گا؛ لڑکے اور لڑکیاں اس سے زیادہ ہوں تو میت کا ترکہ اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رہے؛ اولاد میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہوں تو سارا ترکہ دونوں میں سے جو موجود ہوگا، اسے دیا جائے گا۔ لیکن حکم یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ اس سے متصل اگلے ہی جملے میں ایک استثنا کے ذریعے سے قرآن نے وضاحت کردی ہے کہ اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو سارا ترکہ ان میں تقسیم نہیں ہوگا۔ ایک ہی لڑکی ہو تو اسے ترکے کا نصف اور دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انھیں دوتہائی دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا قانون لوگوں کے جذبات پر نہیں، بےلاگ انصاف پر مبنی ہے۔ لڑکی کی منفعت والدین کے لیے لڑکے سے کم ہوتی ہے، اس لیے کہ شادی کے بعد اس کی منفعت بیش تر اس کے شوہر اور شوہر کے گھر والوں کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر لڑکے سے اس کا حصہ آدھا رکھا ہے اور اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو ان کا حصہ کم بھی کردیا ہے۔ اصل میں ’ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ‘ (دو سے زیادہ) کے الفاظ آئے ہیں، لیکن ان کا مفہوم ہم نے دو یا دو سے زیادہ بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ‘ سے پہلے ’ اثنتین ‘ کا لفظ عربیت کے قاعدے سے حذف ہوگیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اگر ہم ایک لڑکی اور دو یا دو سے زائد لڑکیوں کا حصہ ان کے حصوں میں فرق کی وجہ سے الگ الگ بیان کرنا چاہیں تو اس کے دو طریقے ہیں : ترتیب صعودی کے مطابق بیان کرنا پیش نظر ہو تو پہلے ایک لڑکی اور اس کے بعد دو لڑکیوں کا حصہ بیان کیا جائے گا۔ دو سے زائد کا حصہ اگر وہی ہے جو دو کا ہے تو اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک کے فوراً بعد جب دو کا حصہ اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ ایک کے حصے سے زیادہ ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دو سے زائد کا حکم بھی وہی ہے جو دو لڑکیوں کا ہے۔ اسی بات کو ہم ترتیب نزولی کے مطابق بیان کریں گے تو اس کے لیے ’ فوق اثنتین او اثنتین ‘ کے الفاظ چونکہ عربیت کی رو سے موزوں نہ ہوں گے، اس لیے دو سے زائد کا حصہ بیان کرنے کے بعد ایک کا حصہ بیان کردیا جائے گا۔ اس اسلوب میں ’ فوق اثنتین ‘ سے کلام کی ابتدا خود دلیل ہوگی کہ اس سے پہلے ’ اثنتین ‘ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا قرینہ بھی واضح ہے۔ اس ترتیب کا حسن مقتضی ہے کہ ’ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ‘ سے پہلے ’ اثنتین ‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور صحت زبان کا تقاضا ہے کہ ’ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ‘ سے بات شروع کی جائے تو بعد میں ’ اثنتین ‘ مذکور نہ ہو۔ قرآن مجید نے یہ حصے یہاں ترتیب نزولی کے مطابق بیان کیے ہیں، اس لیے حذف کا یہ اسلوب ملحوظ ہے۔ سورة نساء کی آخری آیت میں یہی حصے ترتیب صعودی کے مطابق بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہاں ’ اِثْنَتَیْنِ ‘ کے بعد ’ فوق اثنتین ‘ کا لفظ حذف کردیا ہے : ’ اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ، فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ ، وَہُوَ یَرِثُہَآ، اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْْنِ ، فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ‘۔ یہ جملہ پچھلے جملے سے استثنا ہے، اس لیے اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو پچھلے جملے کا ہے، یعنی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو انھیں ترکے کے اسی حصے کا دوتہائی یا نصف دیا جائے گا جو اگر تنہا لڑکے ہوتے تو ان میں تقسیم کیا جاتا۔ وہ پورے ترکے کے دوتہائی یا نصف کی حق دار نہ ہوں گی۔ ’ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً ‘ پر اصل میں جو حرف ’ ف ‘ اور ’ وَلِاَبَوَیْہِ ‘ سے پہلے حرف ’ و ‘ آیا ہے، وہ اسی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ جملہ اس سے متصل پہلے لڑکیوں کے حصوں پر نہیں، بلکہ اس پورے حکم پر عطف ہوا ہے جو اوپر اولاد کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ اس کا عطف اب استدراک کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ بات تو بیان ہوئی ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا، لیکن یہ کتنا ہوگا، اسے متعین نہیں کیا گیا۔ چنانچہ والدین اور زوجین کے جو حصے اس کے بعد آئے ہیں، وہ لازماً پہلے دیے جائیں گے اور اس کے بعد جو کچھ بچے گا، صرف وہی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ لڑکے اگر تنہا ہوں تو انھیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے لڑکیاں، دونوں ہوں تو ان کے لیے بھی یہی قاعدہ ہوگا۔ اسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہوں تو انھیں بھی اس بچے ہوئے ترکے ہی کا نصف یا دوتہائی دیا جائے گا۔ اس کے لیے ’ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، ان کے بارے میں ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ یہ ’ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ‘ سے استثنا اور اسی کے ایک پہلو کی وضاحت ہیں، ان کا حکم اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ اصل میں ’ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ وَلَدٌ ‘ کا لفظ ذکور و اناث، دونوں کے لیے ہے۔ یہاں اور اس کے بعد ازواج کے حصوں میں بھی ہر جگہ اس کا مفہوم یہی ہے۔ لڑکا لڑکی ایک ہوں یا دو ، اولاد میں صرف لڑکے ہوں یا صرف لڑکیاں ہوں، نفی و اثبات میں اس شرط کا اطلاق لازماً ہوگا۔ یہ الفاظ یہاں حذف ہیں۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ۔” اس رقم کے وارث زید اور علی ہی ہوں تو زید کا حصہ ایک تہائی ہوگا “۔۔ تو اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ۔۔ ” باقی دوتہائی علی کے لیے ہے۔ “اصل میں لفظ ’ اِخْوَۃٌ ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ جمع ہے، لیکن اس طرح کے اسلوب میں جمع بیان عدد کے لیے نہیں، محض بیان وجود کے لیے آتی ہے۔ اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ بھائی بہنوں کی موجودگی میں، عام اس سے کہ وہ ایک ہوں یا دو ، یا دو سے زیادہ ہوں، والدین کا حصہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے گا۔ اصل الفاظ ہیں : ’ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ، فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ ‘۔ ان کے بعد بھی ’ ولابیہ ‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔ اس میں جملوں کی تالیف اس طرح ہے : ” اولاد ہو تو ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ۔ اولاد نہ ہو اور والدین ہی وارث ہوں تو ماں کے لیے تہائی، لیکن اگر بھائی بہن ہوں تو ماں کے لیے وہی چھٹا حصہ۔ “ اس میں دیکھ لیجیے، کلام خود پکار رہا ہے کہ ۔” اور باپ کے لیے بھی وہی چھٹا حصہ۔ “ اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اولاد کی عدم موجودگی میں ان کا حصہ اب بھائی بہنوں کو ملنا چاہیے۔ یہ اشارہ واضح تھا، لیکن قرآن کے مخاطبین جب اس کو نہیں سمجھ سکے تو اس نے وضاحت فرما دی۔ یہ وضاحت اسی سورة کے آخر میں بطور ضمیمہ درج ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ وصیت کا حق باقی ہے، لیکن قرآن نے اس کے ساتھ آگے ’ غَیْرَ مُضَآرٍّ ‘ کی شرط لگا دی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وصیت اتنی ہونی چاہیے جس سے وارثوں کی حق تلفی نہ ہو۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اسی بنا پر نصیحت فرمائی ہے کہ یہ تہائی مال تک محدود رہے تو بہتر ہے۔ سلسلہ کلام کے بیچ میں یہ آیت جس مقصد کے لیے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں پر یہ بات واضح کردی جائے کہ جن رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ نے کسی میت کے وارث قرار دیا ہے، ان کے بارے میں مبنی بر انصاف قانون وہی ہے جو اس نے خود بیان فرما دیا ہے۔ چنانچہ اس کی طرف سے اس قانون کے نازل ہو جانے کے بعد اب کسی مرنے والے کو محض رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیرائے ہوئے ان وارثوں کے حق میں وصیت کا حق باقی نہیں رہا۔ ان کے لیے کوئی وصیت اب اگر وہ کرے گا تو صرف اس صورت میں کرے گا، جب ان میں سے کسی کی کوئی ضرورت یا اس کی کوئی خدمت یا اس طرح کی کوئی دوسری چیز اس کا تقاضا کرتی ہو۔ اس لیے کہ جس منفعت کے کم یا زیادہ ہونے کا علم اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دیا گیا ہے، وہ رشتہ داری کی منفعت ہے۔ اس کا ان ضرورتوں اور منفعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے لیے معلوم اور متعین ہوتی ہیں۔ آیت کا اصل مدعا یہی ہے، لیکن اگر غور کیجیے تو اس سے یہ بات بھی نہایت لطیف طریقے سے واضح ہوگئی ہے کہ وراثت کا حق جس بنیاد پر قائم ہوتا ہے، وہ قرابت نافعہ ہے اور حصوں میں فرق کی وجہ بھی ان کے پانے والوں کی طرف سے مرنے والے کے لیے ان کی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہی ہے۔ چنانچہ لڑکوں کا حصہ اسی بنا پر لڑکیوں سے اور شوہر کا بیوی سے دوگنا رکھا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ والدین، اولاد، بھائی بہن، میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیرائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجائے سراسر مضرت بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علت حکم کا یہ بیان تقاضا کرتا ہے کہ اسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔ اِسی طرح یہ رہنمائی بھی ضمناً اس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوا رہ جائے اور مرنے والے نے کسی کو اس کا وارث نہ بنایا ہو تو اسے بھی ’ اَقْرَبُ نَفْعًا ‘ ہی کو ملنا چاہیے۔ آیت کے آخر میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے :”۔۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم پیش وعقب، ہر چیز پر حاوی اور حاضر و غائب، سب پر محیط ہے۔ کسی کا علم بھی اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس کی ہر بات اور اس کے ہر کام میں نہایت گہری حکمت ہوتی ہے اور کسی کا بھی یہ مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی حکمت کی تمام باریکیوں کو سمجھ سکے۔ اس وجہ سے خدا کی اس تقسیم پر نہ تو اپنے علم و فلسفہ کے غرے میں کسی کو معترض ہونا چاہیے، نہ جذباتی جنبہ داری کے جوش میں کسی کو کوئی قدم اس کے خلاف اٹھانا چاہیے۔ بسا اوقات آدمی اپنے ذاتی میلان کی بنا پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے، لیکن یہ ترجیح دنیا اور آخرت، دونوں ہی اعتبارات سے غلط ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی کو اپنے ذاتی میلان کی بنا پر نظرانداز کرتا ہے، حالانکہ بعد کے حالات ثابت کرتے ہیں کہ دنیا اور عقبیٰ ، دونوں ہی اعتبار سے اس کا رویہ زیادہ صحیح رہا جس کو اس نے نظرانداز کیا۔ پس صحیح روش یہی ہے کہ آدمی جو قدم بھی اٹھائے، اپنے ذاتی میلانات کے بجائے شریعت کی ہدایت کے مطابق اٹھائے۔ اسی میں خیر و برکت ہے۔ جو لوگ شریعت کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں، وہ خدا کے علم و حکمت کی تحقیر کرتے ہیں جس کی سزا بالعموم انھیں دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں تو بہرحال ملنی ہی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٦١) ٤: ١٧٦۔ بخاری، رقم ٢٧٤٢۔ مسلم، رقم ١٦٢٨۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 12


وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّ لَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿ؕ۱۲﴾
یہ حصے ہر لحاظ سے واضح ہیں اور والدین کے حصوں کی طرح یہ بھی پورے ترکے میں سے دیے جائیں گے۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ‘ ۔ ان میں لفظ ’ کَلٰلَۃً ‘ والدین اور اولاد کے سوا باقی سب رشتہ داروں کے لیے آیا ہے۔ اس معنی کے لیے اس کا استعمال عربی زبان میں معروف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ اس شخص کے لیے بھی آتا ہے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو، لیکن آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں۔ ’ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ‘ سے جو سلسلہ بیان شروع ہوتا ہے، اس میں اولاد اور والدین کا حصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وصیت پر عمل درآمد کی تاکید ’ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ‘ کے الفاظ میں کی ہے۔ زوجین کے حصوں میں اسی مقصد کے لیے ’ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ‘ اور ’ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ان سب مقامات پر فعل مبنی للفاعل استعمال ہوا ہے اور ’ یُوْصِیْ ‘، ’ یُوْصِیْنَ ‘ اور ’ تُوْصُوْنَ ‘ میں ضمیر کا مرجع ہر جملے میں بالصراحت مذکور ہے، لیکن کلالہ کے احکام میں یہی لفظ مبنی للمفعول ہے۔ یہ تبدیلی صاف بتارہی ہے کہ ’ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ ‘ میں ’ یُوْصٰی ‘ کا فاعل، یعنی مورث مذکور نہیں ہے، اس وجہ سے اس آیت میں ’ کَلٰلَۃً ‘ کو کسی طرح مرنے والے کے لیے اسم صفت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تغیر حجت قطعی ہے کہ قرآن مجید نے یہ لفظ یہاں اس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو، استعمال نہیں کیا ہے۔ چنانچہ آیت کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ’ یُوْرَثُ ‘ باب افعال سے مبنی للمفعول ہے۔ ’ کَلٰلَۃً ‘ اس سے مفعول لہ ہے۔ ’ کَانَ ‘ ناقصہ ہے اور ’ یُوْرَثُ ‘ اس کی خبر واقع ہوا ہے۔ ’ رَجُلٌ اَوِ امْرَاَۃٌ‘ ’ کَانَ ‘ کے لیے اسم ہیں۔ وارث بنانے کا جو اختیار اس آیت میں دیا گیا ہے، وہ ظاہر ہے کہ مرنے والے ہی کو ہوگا اور اس کے معنی اس سیاق میں یہی ہوسکتے ہیں کہ ان وارثوں کی عدم موجودگی میں ترکے کا وارث بنادیا جاتا ہے جن کے حصے اوپر بیان ہوئے ہیں۔ یعنی ایک ہی رشتہ کے متعلقین میں سے اگر کسی ایک مرد یا عورت کو وارث بنایا جاتا ہے تو جس کو وارث بنایا جائے گا، اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو اس مال کا چھٹا حصہ جس کا اسے وارث بنایا گیا ہے، اس کے بھائی یا بہن کو دیا جائے گا اور اگر اس کے بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ باقی ٦/٥ یا دو تہائی اس مرد یا عورت کو دیا جائے گا جسے وارث بنایا گیا ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا ہے۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ” زید نے اس رقم کا وارث اپنے بیٹے کو بنایا ہے، لیکن اس کا کوئی بھائی ہو تو ایک تہائی کا حق دار وہ ہوگا “ تو اس جملے کا مطلب ہر شخص یہی سمجھے گا کہ بھائی کا حصہ دینے کے بعد باقی روپیہ اس بیٹے کو دیا جائے گا جسے رقم کا وارث بنایا گیا ہے۔ قرآن مجید کی یہ ہدایت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ مرنے والا کلالہ رشتہ داروں میں سے اپنے کسی بھائی، بہن ، ماموں ، پھوپھی یا چچا وغیرہ کو وارث بنا سکتا ہے۔ لیکن، ظاہر ہے کہ جس بھائی یا ماموں کو وارث بنایا جائے گا، مرنے والے کے بھائی اور ماموں اس کے علاوہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہی معاملہ چچا، پھوپھی اور خالہ وغیرہ کا ہے۔ کوئی شخص اپنے ذاتی رجحان کی بنا پر کسی ایک ماموں یا پھوپھی کو ترجیح دے سکتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ ایک ہی رشتے کے دوسرے متعلقین بالکل محروم کردیے جائیں۔ چنانچہ اس کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص اگر ، مثال کے طور پر اپنے چچا زید کو ترکے کا وارث بنا دیتا ہے اور اس کے چچا عثمان اور احمد بھی ہیں تو ترکے کے جس حصے کا وارث زید کو بنایا گیا ہے، اس کا ایک تہائی عثمان اور احمد میں تقسیم کرنے کے بعد باقی ترکہ زید کو دیا جائے گا۔ آیت کے آخر میں یہ الفاظ اس تنبیہ کے لیے آئے ہیں کہ یہ پروردگار عالم کی وصیت ہے۔ اس کا بندہ جانتے بوجھتے کسی حق دار کو محروم کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اس کے ہر عمل سے با خبر ہے اور اگر بےجانے بوجھے اس سے کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس کا خالق بردبار ہے، اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ وہ نرم خو ہے، بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کی ہدایات میں ان کے لیے سہولت ہے، تنگی اور مشقت نہیں ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء :
آیت 13-14 تفسیر موجود نہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 15


وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ﴿۱۵﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ ‘۔ ان میں ’ الْفَاحِشَۃَ ‘ سے مراد زنا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس معنی کے لیے معروف ہے۔ اس کے ساتھ جو فعل اس جملے میں آیا ہے، وہ بیان مداومت کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ قحبہ عورتوں کا ذکر ہے۔ اس صورت میں اصل مسئلہ چونکہ عورت ہی کا ہوتا ہے، اس لیے مرد زیربحث نہیں آئے۔ یعنی اس بات کے گواہ کہ یہ فی الواقع زنا کی عادی قحبہ عورتیں ہیں۔ سورة نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اسی طرح برقرار رکھی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا۔ چنانچہ اس میں جس راہ نکالنے کا ذکر ہے، وہ بعد میں اس طرح نکلی کہ قحبہ ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا اور ان جرائم کی جو سزائیں سورة نور (٢٤) کی آیت ٢ اور سورة مائدہ (٥) کی آیت ٣٣ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق ان پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 16


وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۶﴾
یہ زنا کے عام مجرموں کا ذکر ہے جو بالعموم یاری آشنائی کے نتیجے میں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس میں زانی اور زانیہ، دونوں چونکہ متعین ہوتے ہیں، اس لیے دونوں کا ذکر ہوا ہے اور مذکر کے صیغے زبان کے عام قاعدے کے مطابق شریک غالب کے لحاظ سے آئے ہیں۔ یہی ایذا ہے جو بعد میں سو کوڑوں کی صورت میں متعین کردی گئی ۔ یہ اس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف انھی مجرموں کو دی جاتی ہے جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہوجائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رویے کی اصلاح توبہ کے لازمی شرائط میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص برائی سے باز نہیں آتا تو زبان سے توبہ توبہ کا ورد کرلینے سے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی، بلکہ الٹا خدا کی ناراضی کا باعث بن سکتی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 17


اِنَّمَا التَّوۡبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِیۡبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۷﴾
اصل میں لفظ ’ جَھَالَۃ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی اگرچہ نہ جاننے کے بھی آتے ہیں، لیکن اس کا غالب استعمال جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی شرارت یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں یہ لفظ عام طور پر علم کے بجائے حلم کے ضد کے طور پر آتا ہے۔ یہاں بھی قرینہ دلیل ہے کہ یہ اسی معنی میں آیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 18


وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿۱۸﴾
توبہ کی قبولیت اور عدم قبولیت کی یہ دو صورتیں قرآن نے بالکل متعین کردی ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی شخص گناہ کے بعد جلد ہی توبہ کرلینے کی سعادت تو حاصل نہیں کرسکا، لیکن اس نے اتنی دیر بھی نہیں کی کہ موت کا وقت آپہنچا ہو۔ اس صورت کے بارے میں قرآن خاموش ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں، یہ خاموشی جس طرح امید پیدا کرتی ہے، اسی طرح خوف بھی پیدا کرتی ہے اور قرآن حکیم کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ خوف ورجا کے درمیان ہی رہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود ذہن کبھی کبھی اس طرف جاتا ہے کہ اس امت کے اس طرح کے لوگ، امید ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی شفاعت سے نجات پاجائیں گے، اس لیے کہ ان کے بارے میں شفاعت کے ممنوع ہونے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 19


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ﴿۱۹﴾
اصل میں ’ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْھًا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ کَرْھًا ‘ ’ و ہن کارھات اومکرھات ‘ کے مفہوم میں ہے۔ یہ مفہوم، اگر غور کیجیے تو اس سے مانع ہے کہ وارث بننے کو اس جملے میں ان کے مال کا وارث بننے کے معنی میں لیا جائے۔ اس لیے کہ آدمی کسی کے مال کا وارث اس کے مرنے کے بعد ہی بنتا ہے اور زبردستی کی جس حالت کا یہاں ذکر ہے، وہ اس کے وارثوں پر تو ہوسکتی ہے، اس کے مرجانے کے بعد خود اس پر نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ وارث بننے سے مراد یہاں عورتوں کو میراث سمجھ کر ان کا مالک بن جانا ہی ہے۔ اس مفہوم کی تائید ان روایتوں سے بھی ہوتی ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ عرب جاہلیت کے بعض طبقوں میں یہ رواج تھا کہ مرنے والے کی جائداد اور اس کے مال مواشی کی طرح اس کی بیویاں بھی وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتی تھیں۔ قرآن نے اس آیت میں واضح کردیا ہے کہ عورتیں جانور نہیں ہیں کہ جس کو میراث میں ملیں، وہ ان کو لے جا کر اپنے باڑے میں باندھ لے۔ ان کی حیثیت ایک آزاد ہستی کی ہے۔ وہ اپنی مرضی کی مالک ہیں اور حدود الٰہی کے اندر اپنے فیصلے کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی چیز ان پر مسلط نہیں کی جاسکتی۔ یعنی جس طرح زبردستی کسی عورت کا مالک بن بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ بیوی اگر ناپسند ہے تو اس سے اپنا دیا دلایا واپس لینے کے لیے اس کو ضیق میں ڈالنے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح کا رویہ صرف اس صورت میں گوارا کیا جاسکتا ہے، جب وہ کھلی ہوئی بدکاری کرنے لگے۔ اس قسم کی کوئی چیز اگر اس سے صادر نہیں ہوئی ہے، وہ اپنی وفاداری پر قائم ہے اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے تو محض اس بنیاد پر کہ بیوی پسند نہیں ہے، اس کو تنگ کرنا عدل و انصاف اور فتوت و شرافت کے بالکل منافی ہے۔ اخلاقی فساد، بیشک قابل نفرت چیز ہے، لیکن محض صورت کے ناپسند ہونے یا کسی ذوقی عدم مناسبت کی بنا پر اسے شریفانہ معاشرت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی نا پسندیدگی کے باوجود ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرو جو شریفوں کے شایان شان ہو، عقل و فطرت کے مطابق ہو، رحم و مروت پر مبنی ہو، اس میں عدل و انصاف کے تقاضے ملحوظ رہے ہوں۔ اس کے لیے آیت میں ’ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ مَعْرُوْف ‘ کا لفظ قرآن مجید میں خیر و صلاح کے رویوں اور شرفا کی روایات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ اسی مفہوم میں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ بیوی پسند ہو یا ناپسند، بندہ مومن سے اس کے پروردگار کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہر حال میں نیکی اور خیر کا رویہ اختیار کرے اور فتوت و شرافت کی جو روایت انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے قائم رہی ہے، اس سے سر مو انحراف نہ کرے۔ یہ ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود اچھا برتاؤ کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی برکتوں کے بہت سے دروازے اسی کے ذریعے سے تم پر کھول دیے جائیں۔ اس مفہوم کے لیے جو الفاظ آیت میں آئے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت میں لکھا ہے : ” یہاں لفظ اگرچہ ’ عسٰی ‘ استعمال ہوا ہے جو عربی میں صرف اظہار امید اور اظہار توقع کے لیے آتا ہے، لیکن عربیت کے اداشناس جانتے ہیں کہ اس طرح کے مواقع میں، جیسا کہ یہاں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا وعدہ مضمر ہوتا ہے۔ اس اشارے کے پیچھے جو حقیقت جھلک رہی ہے، وہ یہی ہے کہ جو لوگ ظاہری شکل و صورت کے مقابل میں اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کو اہمیت اور ان کی خاطر اپنے جذبات کی قربانی دیں گے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کثیر کا وعدہ ہے۔ جن لوگوں نے اس وعدے کے لیے بازیاں کھیلی ہیں، وہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ بات سو فی صدی حق ہے اور خدا کی بات سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٠)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 20


وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّکَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ اَتَاۡخُذُوۡنَہٗ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ﴿۲۰﴾
مطلب یہ ہے کہ اگر اس فیصلے پر پہنچ ہی گئے ہو کہ بیوی کو چھوڑ دینا ضروری ہے تو اس صورت میں بھی جو کچھ اسے دے چکے ہو، اس کا واپس لینا تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ یہی بات سورة بقرہ (٢) کی آیت ٢٢٩ میں بھی اسی تاکید کے ساتھ فرمائی ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ بیوی کو کوئی مال، جائداد، زیورات اور ملبوسات، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو قرآن کا حکم یہی ہے کہ اس سے علیحدگی کے وقت وہ ہرگز واپس نہ لیے جائیں۔ اِس سے پہلے آیت ١٩ میں چونکہ اجازت دی ہے کہ بیوی اگر بدکاری کی مرتکب ہو تو شوہر اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے سکتا ہے، اس لیے یہ آخر میں تنبیہ فرما دی ہے کہ کوئی شخص بیوی پر بہتان لگا کر اس کا جواز پیدا کرنے کی جسارت نہ کرے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ یہ مرد کی فتوت کے بالکل منافی ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے زندگی بھر کا پیمان وفا باندھا، جو ایک نہایت مضبوط میثاق کے تحت اس کے حبالہ عقد میں آئی، جس نے اپنا سب ظاہر و باطن اس کے لیے بےنقاب کردیا اور دونوں نے ایک مدت تک یکجان ودو قالب ہو کر زندگی گزاری، اس سے جب جدائی کی نوبت آئے تو اپنا کھلایا پہنایا اس سے اگلوانے کی کوشش کی جائے، یہاں تک کہ اس ذلیل غرض کے لیے اس کو بہتانوں اور تہمتوں کا ہدف بھی بنایا جائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧١)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 21


وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ﴿۲۱﴾
اصل میں ’ قَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت میں لکھا ہے :”۔۔ ’ افضٰی فلان الی فلان ‘ کے معنی ہیں ’ وصل الیہ ودخل فی حیزہ ‘۔ اسی طرح ’ افضٰی الی فلان بسرہ ‘ کے معنی ہیں :’ اس نے فلاں کے آگے اپنے سارے بھید بےنقاب کردیے۔ ‘ یہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی نہایت جامع اور نہایت شایستہ تعبیر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح بےنقاب ہوجاتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن اور احساسات و جذبات کا کوئی گوشہ اور کوئی پہلو ایک دوسرے سے مخفی نہیں رہ جاتا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٠) عقد نکاح کو اس آیت میں پختہ عہد یا قرآن کے الفاظ میں ’ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ عقد نکاح کی اصل عرفی اور شرعی حقیقت یہی ہے کہ وہ میاں اور بیوی کے درمیان حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک مضبوط معاہدہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دونوں زندگی بھر کے سنجوگ کے عزم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور دونوں یکساں طور پر حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اور یکساں طور پر ایک دوسرے کے لیے ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں۔ بظاہر تو اس میثاق کے الفاظ نہایت سادہ اور مختصر ہوتے ہیں، لیکن اس کے مضمرات و تضمنات بہت ہیں اور یہ مضمرات و تضمنات ہر مہذب سوسائٹی اور ہر شریعت میں معلوم و معروف ہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ میثاق بندھتا تو ہے میاں اور بیوی کے درمیان، لیکن اس میں گرہ خدا کے حکم سے لگتی ہے اور جس طرح خلق اس کی گواہ ہوتی ہے، اسی طرح خالق بھی اس کا گواہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے ” میثاق غلیظ “ ہونے میں کیا شبہ رہا ؟ یہاں اس رشتے کو اس لفظ سے تعبیر فرما کر قرآن نے اس کی اصلی عظمت واضح فرمائی ہے کہ مرد کو کسی حال میں بھی یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اس کا تعلق کچے دھاگے سے نہیں بندھا ہے، بلکہ یہ رشتہ نہایت محکم رشتہ ہے اور اس کے تحت جس طرح مرد کے حقوق ہیں، اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں جن سے مرد کے لیے فرار کی گنجایش نہیں ہے۔ اگر وہ ان سے بھاگنے کی کوشش کرے گا تو اپنی فتوت کو بھی رسوا کرے گا اور اپنے خدا کو بھی ناراض کرے گا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧١)
 
Top