ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾ نیکی کی حقیقت ایفاے عہد اور اداے حقوق و فرائض ہے۔ چنانچہ اصل میں لفظ ’
الْبِرّ
‘ استعمال ہوا ہے جس کی روح یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی کی حقیقت پانا چاہتے ہو تو ان چیزوں کا اہتمام کرو۔ یہ محض دین داری کی چند رسمیں پوری کردینے اور چند ظواہر کو اختیار کر لینے سے نہیں ملتی۔ اِس سے مقصود اس کا لازم ہے۔ یعنی جب اللہ جانتا ہے تو مطمئن رہو کہ اس کا اجر بھی وہ دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک دے گا۔ تمہارے انفاق کا ایک حبہ بھی اس کے حضور میں ضائع نہ ہوگا۔
کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِیۡلُ عَلٰی نَفۡسِہٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰىۃُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰىۃِ فَاتۡلُوۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۹۳﴾ اشارہ ہے ان چیزوں کی طرف جو سیدنا یعقوب (علیہ السلام) محض طبعی اور ذوقی عدم مناسبت یا کسی احتیاط کے باعث نہیں کھاتے تھے اور یہود نے انھیں اللہ کی حرام کردہ چیزیں قرار دے کر توراۃ کی محرمات کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔یعنی توراۃ میں دیکھ لو، تم اس کا مطالعہ تدبر کے ساتھ کرو گے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی کہ تم جن چیزوں کو حرام سمجھتے ہو، وہ توراۃ کے نازل ہونے سے پہلے ہرگز حرام نہیں تھیں۔ یہ سب اس کے نزول کے بعد حرام ٹھیرائی گئی ہیں اور خورونوش کی حرمتیں ایسی چیز نہیں ہیں کہ وہ آج حلال ہوں اور کل حرام کردی جائیں، الاّ یہ کہ کسی قوم کو اس کی سرکشی کی سزا دینا مقصود ہو۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 94-95
تفسیر موجود نہیں۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۹۶﴾ اس کے لیے اصل میں لفظ ’
بَکَّۃ
‘ آیا ہے۔ اس کے لغوی معنی شہر کے ہیں جیسا کہ لفظ ’
بعلبک
‘ سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ یہاں یہ لفظ جس وجہ سے آیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے :”۔۔ یہود نے آخری بعثت کے نشانات گم کرنے کے لیے قراءت کے توڑ مروڑ یا بالفاظ قرآن ’
لَیِّ لِسَان
‘ کے ذریعے سے جو تحریفیں کی ہیں، ان کی ایک مثال یہ لفظ بھی ہے۔ اس کو یہود نے بگاڑ کر ’ بکہ ‘ کے بجائے بکاء بنایا اور اس کو مصدر قرار دے کر ترجمہ اس کا رونا کردیا اور اس طرح ’ وادی بکہ ‘ کو رونے کی وادی میں تبدیل کر کے اس سب سے بڑے نشان کو گم کردیا ، جس سے خلق کو آخری نبی کے بارے میں رہنمائی مل سکتی تھی۔ اس آیت میں قرآن نے مکہ کو بکہ کے نام سے ذکر کر کے مکہ کے اس قدیم نام کی یاد دہانی کی ہے جو توراۃ کے صحیفوں میں تھا، بلکہ بعض صحیفوں میں اب بھی ہے، مثلاً زبور میں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٤٥)
فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾ یعنی اس بات کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا گھر یہی ہے، اس لیے قبلہ بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ان نشانیوں میں سے تین چیزوں کی طرف خاص اشارہ فرمایا ہے : ایک یہ کہ یہ مقام ابراہیم ہے، دوسری یہ کہ جو اس حرم میں داخل ہوجائے، مامون ہوجاتا ہے، تیسری یہ کہ اس کا حج ہمیشہ سے ایک دینی فریضہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ تینوں چیزیں عرب میں سیدنا ابراہیم کی قائم کردہ روایت کی حیثیت سے لوگوں کے اجماع اور تواتر سے ثابت تھیں اور کوئی صاحب انصاف ان کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ توراۃ میں بھی ان کے لیے ناقابل تردید شواہد موجود تھے اور اس کے پڑھنے والے اس حقیقت کی تردید نہیں کرسکتے تھے کہ سیدنا ابراہیم کے ہاتھوں جس بیت ایل کی تعمیر کا ذکر اس میں ہوا ہے، اس کا مصداق اگر کوئی ہوسکتا ہے تو بیت المقدس نہیں، بلکہ یہی مکہ کا بیت الحرام ہوسکتا ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 98-99
تفسیر موجود نہیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوۡا فَرِیۡقًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ یَرُدُّوۡکُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾ سورة کی پہلی فصل آیت ٩٩ پر ختم ہوئی۔ یہاں سے دوسری فصل شروع ہو رہی ہے۔ پہلی فصل میں خطاب اہل کتاب سے تھا۔ ان پر اتمام حجت کے بعد اس آیت سے خطاب کا رخ مسلمانوں کی طرف ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس دوسری فصل میں اب پہلے مسلمانوں کو اہل کتاب کی ان گمراہ کن چالوں سے خبردار کیا گیا ہے جو وہ حق کے راستے سے ان کو ہٹانے کے لیے اختیار کر رہے تھے۔ اس کے بعد تزکیہ وتطہیر کا مضمون شروع ہوتا ہے جس میں ان کو امتحان کے اس مرحلے میں کامیابی کے لیے ضروری ہدایات دی گئی ہیں اور یہ حقیقت ان پر واضح کی گئی ہے کہ اسلام کی پیروی کا صحیح حق وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اور آزمائش کے موقعوں پر اللہ و رسول کی اطاعت پر پوری طرح قائم رہ کر ہی ادا کرسکتے ہیں۔ اِس سے اہل کتاب کا وہی گروہ مراد ہے جس کی مخالفتوں اور وسوسہ اندازیوں کا ذکر اوپر تفصیل سے ہوا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ اہل انصاف کا بھی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ہر جگہ ملحوظ رکھی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بےانصافی نہ ہونے پائے۔ یعنی تم سمجھتے ہو کہ یہ دین کے ماننے والے ہیں، اس لیے کسی کو گمراہ کرنے کی بات کس طرح سوچ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام دین داری رسمی ہے۔ یہ اصل دین کے ایسے پکے دشمن ہیں کہ خود بھی منکر ہیں اور ان کی باتوں میں آؤ گے تو تمہیں بھی اس کا منکر بنا کر چھوڑیں گے۔
وَ کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾٪ مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود حق کو چھوڑتے ہو تو یہ تمہاری انتہائی محرومی اور بدبختی ہوگی۔ اللہ کے حضور میں پیش کرنے کے لیے اس کے بعد کوئی عذر تمہارے لیے باقی نہ رہے گا۔ اس کے معنی تو پھر یہی ہوں گے کہ تم نے پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی ہے۔ اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ نرم و گرم ، ہر طرح کے حالات میں آدمی جادہ حق پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات اور اس کی کتاب سے کسی حال میں روگردانی نہ کرے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ یہ اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سے اس طرح ڈرتے رہو، جس طرح اس سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ یہ تقویٰ اگرچہ مطلوب تو اسی حد تک ہے جس حد تک بندے کی استطاعت میں ہے، اس کی وضاحت خود قرآن ہی نے فرما دی ہے کہ ’
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
‘۔* لیکن خدا سے ڈرنے اور دوسروں سے ڈرنے میں بڑا فرق ہے، اس وجہ سے ارشاد ہوا کہ خدا سے ڈرتے رہو، جس طرح خدا سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ اول تو بندے پر خدا کے جو حقوق ہیں، وہ کسی اور کے نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا نے جو حدود وقیود قائم کیے ہیں اور ان کے توڑنے کی جو سزا مقرر کی ہے، وہ تمام تر بندوں کی دنیوی و اخروی بہبود کے لیے کی ہے، ان کی پابندی سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے۔ تیسری یہ کہ خدا کی آنکھیں ہر جگہ نگراں ہیں، یہاں تک کہ وہ دلوں کے وسوسوں سے بھی با خبر ہے۔ چوتھی یہ کہ خدا کی پکڑ سے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا اور وہ دنیا اور آخرت ، دونوں میں سزا دے سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے دے سکتا ہے۔ خدا سے ڈرنے میں جب تک بندہ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر نہ رکھے وہ خدا سے ڈرنے کا صحیح مفہوم سمجھ بھی نہیں سکتا ، چہ جائیکہ وہ اس کا صحیح حق ادا کر پائے۔ بہت سے لوگ جو انسانوں سے ڈر کر خدا اور اس کی شریعت کو چھوڑ بیٹھتے ہیں، ان کی بنیادی گمراہی یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی مخالفت اور خدا کے غضب میں فرق نہیں کر پاتے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٥٢) یعنی خدا سے یہ ڈرنا اور اس کی اطاعت پر قائم رہنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی انقطاع کی گنجایش نہیں ہے۔ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ جدوجہد شروع ہوگی اور زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گی۔ لہٰذا خبردار رہو، اتمام سے ذرا پہلے بھی اگر اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا تو ساری محنت برباد ہوجائے گی۔ استاذ امام نے اس کا ایک اور پہلو بھی واضح فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ آیت کے اسلوب میں یہ بات بھی مخفی ہے کہ یہ راہ بہت ہموار نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سے نشیب و فراز اور ہر قدم پر اتار چڑھاؤ ہیں۔ اس میں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہوگا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی، کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنے اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان، جان آفرین کے سپرد کی، درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا، جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٥٢) التغابن ٦٤: ١٦۔
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ اس سے مراد یہاں قرآن ہے، اس لیے کہ یہی وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک خدا اور اس کے بندوں کے درمیان تنی ہوئی ہے۔ ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان یہی واسطہ اور یہی عہد و میثاق ہے۔ چنانچہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور کسی حال میں اس سے الگ نہ ہوں۔ پھر اس کے ساتھ ’
جَمِیْعًا
‘ کی قید اور
’ لاَ تَفَرَّقُوْا
‘ کی نہی بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ ان کی اجتماعی حیثیت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ سب مل کر اس رسی کو مضبوطی سے تھا میں اور اس کو چھوڑ کر اپنے شیرازے کو پراگندہ نہ کریں، بلکہ ایک جمعیت بن کر قرآن سے وابستہ ہوں، اسے پڑھیں، اس کی آیتوں پر تدبر کریں، اس سے نصیحت حاصل کریں، خدا کی اتاری ہوئی ایک میزان عدل کی حیثیت سے اپنے تمام معاملات میں اسی کو مرجع بنائیں اور اس کے کسی حکم یا فیصلے کے سامنے کسی دوسری چیز کو ہرگز کوئی وقعت نہ دیں۔ یہ اس عظیم احسان کی یاددہانی ہے جو قرآن کے ذریعے سے عربوں پر ہوا۔ اس کتاب کے نازل ہونے سے پہلے ان کا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کا دشمن تھا اور یہ باہم جنگ وجدال برپا کیے رہتے تھے۔ مذہبی حیثیت سے بھی ان کے مابین وحدت کا کوئی رشتہ باقی نہ رہا تھا۔ ہر قبیلے نے اپنے دیوتا الگ کرلیے تھے اور سیاست و معیشت میں بھی ان کے مفادات باہم متصادم تھے۔ لیکن قرآن کی صورت میں یہ رسی اُ ن کے ہاتھوں میں پکڑا دی گئی تو استاذ امام کے الفاظ میں اس نے ان کو ایک رشتے میں پرو کر موتیوں کی لڑی بنادیا اور وہ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، ایک دوسرے کے جگری دوست اور غم خوار بھائی بن گئے۔ مطلب یہ ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ یہ یاددہانی اس لیے کی گئی ہے کہ اس معاملے میں معمولی غلطی بھی بڑے غیر معمولی فتنوں کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا متنبہ رہو کہ اگر وحدت و محبت کی اس حالت کو باقی رکھنا چاہتے ہو تو اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ضروری ہے، ورنہ جاہلیت کی اسی حالت کو لوٹ جاؤ گے جس میں تم اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ تم آگ کے ایک گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ تمہارے پروردگار نے تمہارا ہاتھ تھام کر تم کو اس سے بچا لیا۔ اب اس کتاب کو چھوڑو گے تو اندیشہ ہے کہ اسی گڑھے میں گرو گے اور اس کی آگ سے کسی طرح بچ نہ سکو گے۔
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ یہ مسلمانوں کو ان کی اجتماعی حیثیت میں حکم دیا ہے کہ اس ہدایت پر قائم رہنے کے لیے اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو مقرر کریں جو انھیں بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے رہیں۔ پھر اسی حیثیت سے فلاح کی بشارت بھی دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں جمعہ کا منبر اور پولیس کا محکمہ یہی خدمت انجام دیتے ہیں۔ خطبہ جمعہ کے ذریعے سے مسلمانوں کے ارباب حل و عقد انھیں بھلائی کی دعوت دیتے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور پولیس ایسے منکرات کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ کرتی ہے جنھیں قانون کی رو سے جرم قرار دیا جاتا ہے۔
وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۰۵﴾ۙ یعنی محض سرکشی کے باعث انھیں ماننے سے انکار کردیا۔ آگے اسی کو ایمان کے بعد پھر کافر ہوجانے سے تعبیر کیا ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 106-107-108
تفسیر موجود نہیں۔