• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ31​
کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے۔سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے۔ مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے۔ کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گنہگار ہونے پر مجبور ہیں۔ تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے۔ کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان دح بندیوں کے نیچے رہے گی جو ساقبہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم ک زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے۔ اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ انسان اپنے افعال کو با ارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں۔ اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں۔ وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَاِنہِ اَوْیُنَصِّرانِہِ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے او ربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی پیدائش پرع اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کو غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جزآء سزاء ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔ گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان برے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیئے تھا۔ کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی۔ لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں۔ جو انسان کے خیالات کی رو کو اس سمت سے بدل دیں۔ جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں۔ مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقعہ نہیں یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا۔ اسے بیان کر دیا گیا ہے۔
جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔ اسلام اس خیال کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ32​
تم ان اثرات کو جو گردو پیش سے انسان پر پڑ رہے ہیں بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پس ضروری ہے کہ ایک بالا ہستی جو تمام اثرات سے بلا ہے انسان کی نگران رہے اور ایسے بداثرات جب خطرناک صورت اختیار کر جائیں۔ تو انسان کی مدد کر کے ان سے اسے بچائے۔ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سکھا کر اس طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تمہارا خدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہاری مجبوریوں کو دیکھ رہا ہے۔ پس تم اس کے مانگو تو وہ تم کو دے گا۔ کھٹکھٹائو تو وہ تمہارے لئے کھولے گا۔
۷؎ حل لغات
اِھْدِنَا ھدی سے ہے کہتے ہیں ھَداہ اِلَی الطریق بَیَّنَہ لَہٗ اسے رستہ بتایا۔ ھَدَی العُرُوسَ اِلیٰ بَعْلَہِا زَنَّھا اِلَیْہِ دُلہن کو اس کے خاوند تک لے گیا۔ ھَدیٰ فُلاَنًا تَقَدَّمَدٗ اس کے آگے آگے چلا کہتے ہیں۔
جَائَ تِ الخَیْلُ یَھْدِیْہَا فَرَسٌ اَشْقَرُ اَیْ یَتَقَدَّ مُہَا۔ گھوڑے آئے جبکہ ان کے آگے آگے ایک سرخ رنگ کا گھوڑا دوڑتا چلا آ رہا تھا (اقرب) پس ھدیٰ کے تین معنی ہیں راستہ دکھانا۔ راستہ تک پہنچانا اور آگے آگے چل کر منزل مقصود تک لئے جانا۔
قرآن کریم میں بھی ھدایۃ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک معنی اس کے کام کی طاقتیں پیدا کر کے کام پر لگا دینے کے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے اَعْطیٰ کُلَّ شَیًُ خَلْقَہ ثُمّ ھَدَٰی (طہ ۱ ع ۲) یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب حال کچھ طاقتیں پیدا کیں پھر اسے اس کے مفوضہ کام پر لگا دیا۔ دوسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے ہدایت کی طرف بلانے کے معلوم ہوتیہیں۔ مثلاً فرمایا وَجَعَلنَا مِنْھَمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِناَ (سجدہ ع ۳) اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کو تورات کی طرف بلاتے تھے۔ تیسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے چلاتے لئے آنے کے ہیں جیسے کہ جنتیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ کہیں گے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَ نٰا لِھٰذَا (اعراف ع ۵) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ہمیں جنت کی طرف چلاتا لایا اور جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہدایت کے معنی سیدھے راستہ کے ساتھ موانست پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ (تغابن ع ۲) جو اللہ پر کامل ایمان لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ہدایت سے موانست پیدا کر دیتا ہے اور اچھی باتوں سے اسے رغبت ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں راہ دکھانے کے معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ایمان لاتا ہے اسے راہ تو پہلے ہی مل چکا۔ ہدایت کے معنی کامیابی کے بھی قرآن کریم میں آتے ہیں سورۂ نور میں منافقوں کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ کہتے تو یہ ہی کہ انہیں جنگ کا حکم دیا جائے تو وہ ضرور اس کے لئے نکل کھڑے ہونگے لیکن عمل ان کا کمزور ہے فرماتا ہے قسمیں نہ کھائو عملاً اطاعت کرو۔ کیونکہ اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے اے رسول ان کے کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اھاعت کرو۔ پھر اگر اس حکم کے باوجود تم پھر گئے تو رسول پر اس کی ذمہ داری ہے۔ تم پر تمہاری۔ اور یاد رکھو کہ اِنْ تُطِیْعُوْۃَ تھْتَدُوْا (نور ع ۷) اگر تم رسول کی بات اس بارہ میں مان لوگے تو نقصان نہ ہو گا بلکہ تم کا میاب ہو جائوگے اور فتح پائو گے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوُا زَادَ ھُمْ ھُدًی (سورہ محمد ع ۲) جو لوگ اس ہداتی کو جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اپنے نفس میں جذب کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ہدایت کرتا ہے قرآن کریم
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 33​
سے یہ بھی معلوم ہوات ہے کہ ہدایت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اس کے بے انتہا مدارج ہیں۔ ہدایت کے ایک درجہ سے اوپر دوسرا درجہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب ہو جاتے ہیں انہیں ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
صراط۔ راستہ یہ لفظ ص سے بھی لکھا جاتا ہے اور س سے بھی صراط یا سراط ایسے راستہ کو کہتے ہیں جو صاف ہو۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے سَرَطْتُ الطعَامَ میں نے بسہولت نگل لیا۔ اور اچھے اور ہموار راستہ کو سراط یا صراط اس لئے کہتے ہیں کہ گویا اس پر چلنے والا اسے کھاتا جاتا ہے۔ (مفردات)
مستقیم۔ استقامۃ سے ہے۔ مفردات میں ہے۔ اَلْاِسْتَقَامَۃُ یُقَالُ فی الطویقِ الذی یکونُ علی خطٍّ مُسْتَوٍربہِ شُبِّہَ طریقُ المحقِّ نحو اِھْدِنَا الصّراط المستقیم یعنی استقامۃ اس راستہ کے لیے بولا جاتا ہے جو سیدھا ہو اور اس وجہ سے جو شخص راستی پر ہو۔ اس کے طریق کو بھی مستقیم کہتے ہیں۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی آیت میں یہی معنی ہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمل دُعا سکھائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دعا کسی خاص امر کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دعا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہر کام خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے پورا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہو گی۔ پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے بعض ناجائز ہوتے ہیں اور بعص جائز۔ جو جائز راستے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیںاور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں کیسی سادہ اور کیسی مکمل یہ دعا ہے او رپھر کیسی وسیع ہے زندگی کا وہ کونسا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دعاکو استعمال نہیں کر سکتے اور جو شخص یہ دعا مانگنے ا عادی ہو وہ کس کس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں او ربرے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق کے تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے پھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طرق کو اختیار کرنا چاہیے جو سب سے قریب ہو اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کریگا ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائْ اس کا دماغ خود بھی اس خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدنظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں (۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جائوں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے (۳) اور میرے وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پورا کر لوں اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہو گا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ34​
بعض معترض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہنے کا حکم دیا گیاتھا اور ان کے رسول بھی یہ دُعا روزانہ مانگتے تھے پھر کیا انہیں صراط مستقیم مل نہ تھی کہ بار بار یہ دعا مانگتے تھے ۔ کس قدر مضحکہ خیز یہ اعتراض ہے او رکس قدر تعجب ہے کہ پڑھے لکھے مسیحی اور ہندو بے تکلفی سے یہ اعتراض بیان کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان اب اس کا کیا جواب دیں گے۔ اوّل تو جیسا کہ اوپر ہدایت کے معنے بیان ہو چکے ہیں ہدایت کے معنے صرف کسی بات کے بتائے کے نہیں ہوتے بلکہ بتانے۔ اس تک لے جانے اور آگے ہو کر لئے چلے جانے کے ہوتے ہیں پس مختلف قسم کے دُعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہونگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبر کامل دور ہے اور اس تک پہنچنا مشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبت صالح میسر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو میں ہدایت کو سمجھ گیا ہو مگر عملی طو رپر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دور کر دے۔ لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی ہدایت میسر آ گئی ہے او رعملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت میسر آ گئی ہے اور عملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستے پر قدم زن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ اے خدا تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفان کی راہیں غیر محدود ہیں مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھاتا لئے چل میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھیرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جائوں اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے۔ ان تینوں معنوں کو مدنظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اس دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کّی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کرتا رہے۔
دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کرتا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دُعا بجائے محل اعتراض ہونے کے علم کے بارہ میں اسلام کا ایسا وسیع نظریہ پیش کرتی ہے جو قرآن کریم کی برتری کی ایک زبردست دلیل ہے قرآن پہلے مذاہب کی موجودگی میں آیا اور انہیں منسوخ کر کے اس نے ایک نئے اور مکمل دین کے قیام کا دعویٰ کیا مگر باوجود اس کے اس نے دوسرے ادیان کی طرح یہ نہیں کہا کہ اس کے زمانہ میں علم ختم ہو گیا بلکہ یہ کہا کہ اس کے ذریعہ سے علم کی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہے گی اور اس کے لئے مسلمانوں کو دُعا سکھائی اور ان پر واجب کیا کہ وہ اسے ہر روز تیس پنتیس دفعہ پڑھا کریں اس طرح اس نے علم کی ترقی کے لئے انسانی نظریہ کو کس قدر وسیع کر دیا ہے۔
بعض لوگ اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم آخری ہدایت نامہ نہیں کیونکہ اگر علم کی زیادتی ہوتی رہتی ہے تو کیوں تسلیم نہ کیا جائے کہ کسی وقت قرآن کریم بھی منسوخ ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اس سے بہتر کتاب لے لیگی اس کا جواب یہ ہے کہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ35​
اول تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ قرآن کریم سے بہتر کتاب کوئی لے آئے اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیدے لیکن تیرہ سو سال میں تو ایسی کتاب کوئی آئی نہیں فلسفیوں اور غلط مذاہب کے دلدادوں نے بہت زور لگایا لیکن اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک مقابل پر پیش نہیں کی جاتی تو ہم اس پر غور ہی کیوں کریں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ قرآن روحانی عالم ہے جو جسمانی عالم کا حال ہے وہی اس کا ہے دنیوی امور میں بھی انسانی علم ہر روز ترقی کرتا ہے مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر روز نئی دنیا بنتی ہے بلکہ اسی پرانی دنیا کے اسرار اور غوامض لوگوں پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد جو روحانی عالم ہے کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں رہی مگر علم کی ترقی میں اس نے روک نہیں پیدا کی۔ جس طرح مادی قانون کے مطالعہ سے دنیوی علم میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح قآن کریم اپنے اندر وسیع اور انسانی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر محدود علم رکھتا ہے جو لوگ اس پر غور کرتے ہیں جس قدر اخلاص ان کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا میں ہوتا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم کے اسرار ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پس باوجود قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے علم کی ترقی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی اس ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے قرآن کریم کے صریح ارشاد سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ فرماتا ہے اَلَّذِِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ پھر او رہدایت دیتا ہے پس ہدایت کسی ایک شے کا نام نہیں بلکہ صداقتوں کی ایک وسیع زنجیر کا نام ہے جس کی ایک کڑی ختم ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں شانی علم قرآن کریم میں نہیں اس حقیقت کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کا پیغام سننا ایسا ہی ہے جیسے چشمہ پر بیٹھا ہوا انسان پانی کی تلاش کے لئے نکل کھڑا ہو۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لگوں پر جو ہر روز اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا مانگتے ہیں او رپھر خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ پہلے مفسر لکھ گئے اس سے بڑھ کر کچھ لکھنا ناجائز ہے ان کے بیان کردہ علوم کے باہر کوئی علم قرآن کریم میں نہیں ہے اگر یہ بات سچ ہے تو وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کیوں مانگتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کے دینے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں انہیں پرانی تفسریں خرید کر یا دوسروں سے مانگ کر پڑھ لینی چاہئیں اور اس دُعا میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ دُعا ایسی جامع ہے کہ دین اور دُنیا کے ہر معاملہ میں اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے او رہدایت کا طالب خواہ کسی مذہب کا ہو اس سے فائدہ اُٗٹھانے میںکوئی عذر پیش نہیں کر سکتا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں صرف سیدھے اور بے نقص راستہ دکھانے کی التجاء ہے کسی مذہب کا نام نہیں کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں۔ کسی معین اصل کی طرف اشارہ نہیں صرف اور صرف صداقت اور غیر مخلوط اور خالص صداقت کی درخواست ہے جسے ہر شخص اپنے عقیدہ اور خیال کو نقصان پہنچائے بغیر دہرا سکتا ہے۔ ایک مسیحی ایک یہودی ایک ہندو ایک زردشتی ایک بدھ ایک ہدریہ بھی ان الفاظ پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ دہریہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا لیکن وہ یُوں کہہ سکتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو میں اس سے کہتا ہو ںکہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ پس یہ دُعا جامع بے ضرر اور عام ہے ہر شخص ہر حالت میں اس کا محتاج ہے اور اس کے مانگنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ میرا تجربہ ہے کہ جن غیر مذاہب کے لوگوں نے میرے کہے پر یہ دُعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام کی سچائی کھول دی ہے اور میں تجربہ کی بناء پر یقین رکھتا ہوں کہ جو کوئی بھی سچے دل سے یہ دُعا مانگے گا اس کی ہدایت کے لئے ضرور کوئی سامان حدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جائے گا کہ یہ ممکن نہیں کہ اس
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ36​
دنیا کا پیدا کرنے والا موجود ہو اور ہدایت کے لئے چلانے والا اس کے دروازہ سے مایوس آئی
۸؎ حل لغات
اَنٔعَمْتَ۔ انعام سے ہے انعام کے معنی فضل کرنے اور زیادہ کے ہیں (اقرب) یہ لفظ ہمیشہ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ منعم علیہ یعنی جس پر احسان ہوا ہو عقل والی ہستی ہو (مفردات) غیر ذوی العقول کی نسبت مثلاً گھوڑے بیل کی نسبت کبھی نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص نے اس گھوڑے یا بیل پر انعام کیا ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں انسان پر انعام کیا۔
اَنْغَضَبُ۔ ثَورَانُ دَمِ القلَبِ اِرَادَۃ الْانْتِقَامِ غضب جرم کی سزا دینے کے ارادہ پر دل میں خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں قَالَ علیہ السّلام اتقُوا لغضبَ فاِنَّہٗ جَمْرۃٌ تُو قَدُ فی قَلبِ ابنِ آدمَ الَمْ تَرَ والی انتفاخِ اَوْدَاجِہِ و حُمْرَۃِ عَیْفَیْہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غضب سے بچو کیونکہ وہ ایک چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگائی جاتی ہے پھر فرمایا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی کو غضب آتا ہے تو اس کی رگیں پھول جاتی ہیں اور اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں وَاِذَا وُصِفَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِہٖ فَالْمرَادُاَلاِ نتقامُ دُوْنَ غَیْرِہِ اورجب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو تو اس کے معنی صرف جُرم کی سزا دینے کے ہوتے ہیں دوسری باتیں اس وقت مدنظر نہیں ہوتیں (مفردات) پر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے یہ معنی ہوئے کہ جن کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے برا قرار دیکر ان کے لئے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وَلَا الضّالّین۔ ضَلَّ کے معنے سیدھے راستہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ لفظ ہدایت کے مقابل پر ہے اور ضلال کا لفظ راستی سے خلاف ہر فعل پر بولا جاتا ہے خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ معمولی فعل ہو یا کوئی بڑا جرم ہو (مفردات) ضَلَ کے معنے کسی کام میں منہمک ہو جانے کے بھی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) ان کی تمام کوششیں دنیا کی زندگی میں ہی لگی ہوئی ہیں اور وہ بالکل دنیا کے کاموں میں ہی منہمک ہیں۔ یہ معنے وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی (الضحیٰ) کی آیت میں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جب ہم نے تجھے اپنی محبت میں منہمک دیکھا اور اپنے عشق میں کھویا ہوا پایا تو اس کے نتیجہ میں ہم نے اپنی ذات تک تیری راہنمائی فرمائی اردومیں بھی کھویا ہوا کھویا رہنا انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آج کل کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے یعنی کسی خاص خیال میں محو رہتا ہے انگریزی میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے۔ میں صرف ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی محاورہ ہے اور فطرت انسانی سے ایک نہایت قریب مناسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بہت سی زبانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔
وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی کے معنی بالکل اسی محاورہ کے مطابق ہیں یعنی محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشق الٰہی میں محو ہو گئے تھے اور ہر وقت کھوئے کھوئے رہنے لگ گئے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اداد پسند آئی اور یہ عشق اس کے عشق کو جذب کرنے کا موجب ہو گیا۔ پس جو عاشق اس کے عشق میں کھویا گیا تھا وہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 37​
وہ اسے خود جا کر اپنے دروازہ تک لے آیا۔ مگر یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَلَّ کا لفظ عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے پس جب اچھے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہو گی جیسے اوپر کی آیت میں فھدٰی کا قرینہ ہے۔
تفسیر۔ جب سیدھے راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی تو اس میں اس امر کو بھی شامل کیا کہ وہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تُو نے انعام کیا ہے یعنی معمولی راستہ نہ ہو بلکہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ ارواج کا راستہ ہو۔
یہ کیسا شاندار مقصد ہے جوہر مسلمان کے سامنے اسلام نے پہلی ہی سورۃ میں رکھا ہے اسے نیکیوں میں اور اچھی چیزوں میں صرف نیکی کی خواہش نہیں رکھنی چاہیئے بلکہ انعام جیتنے اولوں کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش رکھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا چھوٹے درجہ پر صبر نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ معمولی ترقی پر خوش نہیں ہوتا۔ وہ حوش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی جستجو کے بعد کونسی چیز ہے جو اسے خوش کر سکے گی جو خدا تعالیٰ کا طالب ہوا وہ ساری ترقیات کا طالب ہوا۔ اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھا وہ کسی ترقی کو بھی آخری ترقی نہیں سمجھ سکتا۔ مگر مومن کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ خواہش صرف اس کے دل سے پیدا نہیں ہوتی اس کا رب بھی اسے یہی تعلیم دیتا ہے کہ دیکھنا چھوٹے درجہ پر راضی نہ ہو جانا مجھ سے نیکی مانگو مگر معمولی نیکی نہیں بلکہ وہ نیکی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جنہوں نے نیکیوں کی دور میں انعام حاصل کئے تھے اور کسی ایک دور کے انعام حاصل کرنے والوں کا انعام نہیں بلکہ سب انعام پانے والوں کے انعام مجھ سے طلب کرو۔
لغت کے متعلق تو میں اوپر بتا آیا ہو ںکہ انعام کے کوئی خاص معنے نہیں بلکہ ہر اچھی چیز کو جو خوشنودی کے اظہار کے لئے کسی کو دی جائے وہ انعام ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی وسیع معنوں میں آیا ہے سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعُرَضَ وَنَأَ بِجَا نِبِہٖ (بنی اسرائیل ۹) یعنی جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھر لیتا ہے او رایک طرف ہو جاتا ہے یعنی بجائے انعام پر شکر گزار ہونے کے ہماری طرف سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انعام کے معنے دنیا کے سامان علم۔ ہنر دنیاوی عزتیں وغیرہ بھی ہیں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ایک احسان کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور بہت سے لوگ ان احسانات کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں۔
مصائب اور مشکلات سے بچا لینے کا نام بھی قرآن کریم میں نعمت آیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذُ کُرَوَ انِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَبْسٔطَؤٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھْمُ فَکَفَّ اَیْرِیَھٔمْ عَنْکُمً وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمْؤْمِنُوْنَ (المائدہ: ع ۲) اے مومنو اللہ تاعلیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم (بُری نیّت سے) تمہاری طرف ہاتھ بڑہانے کا قصد کر رہی تھی تو ہم نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے) سے روکے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ احتیار کرو اور مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ پر ہی توکل کیا کریں۔ اس آیت میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا نام نعمت رکھا گیا ہے۔
مگر جہاں ہر احسان نعمت ہے وہاں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاس کتا کہ بعض احسان خاص طور پر نعمت کہلانے کے مستحق ہیں۔ کیونکہ وہ مختلف قسم کے احسانوں میں سے چوٹی کے احسان ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذَکُرٔوْ انِعْمَہٌ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکٗمْ مَّلُوْکَّا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 38
وَّاتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (مائدہ ع ۴) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم اللہ نے جو تم پر نعمت کی ہے اسے ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھو اور وہ نعمت یہ ہے کہے اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نسل انسانی کی مختلف اقوام میں سے اور کسی قوم کو نہ دیا تھا۔ اس آیت میں ان اشیاء کو جو انسان کے لئے نعمت قرار پا سکتی ہیں گنا گیا ہے اور یہود کو بتایا ہے کہ ان سب اقسام میں سے انہیں کثیر حصہ دیا گیا ہے۔
انسانی کمالات تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) دنیوی ذاتی (۲) دینی ذاتی (۳) اور دینی دنیوی نسبتی یعنی علاوہ دنیوی اور دینی کمالات کی قسموں کے ایک کمال کی قسم یہ بھی ہے کہ کسی فرد یا قوم کو اپنے رقیبو ںپر کیا فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کی اس قسم کی طرف انسان فطرتاً بہت راغب ہوتا ہے یعنی وہ صرف کمال کا طالب نہیں ہوتا بلکہ ایسے کمال کا طالب ہوتا ہے جو اسے اپنے ہمعصروں اور قیبوں پر فضیلت بخشے۔ مذکور بالا آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی طرف تینوں قسم کے کمالات منسوب فرمائے ہیں (۱) ان پر دنیوی انعامات ہوئے یہاں تک کہ وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کی وارث کی گئی۔
تمام دنیوی کمالات اپنے نشوو پانے کے لئے بادشاہت چاہتے ہیں اور جس قوم میں بادشاہت آ جائے اسے دنیوی ترقی کے سب اسباب میسر آ جاتے ہیں خواہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اُٹھائے اس لئے کسی قوم میں ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کا وجود قائم کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ دنیوی ترقیات کے سب رستے اس کے لئے کھول دیئے گئے (۲) جس طرح بادشاہت دنیوی کامیابیوں کا ذریعہ ہے اس کی آخری منتہاء ہے اسّی طرح دینی کامیابیوں کا ذریعہ اور دینی ترقی کی منتہاء نبوت ہے اس بارہ میں حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ وہ ذریعہ اور وہ انتہائی انعام بھی تم کو دیا گیا ہے۔ اور ایک دو نبی نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا تم کو عطا ہوا ہے۔
(۳) تیسرا انعام نسبتی ترقی ہے یعنی دنیوی یا دینی انعامات نہ ملیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں بھی زیادہ ملیں۔ جس سے ہمعصروں پر عزت اور فوقیت حاصل ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام وَاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْن فرما کر اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ دوسری اقوام پر برتری کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے تم کو بادشاہت ہی نہیں دی بلکہ شہنشاہیت بھی دی ہے اور نبوت ہی نہیں دی بلکہ ایسے انبیاء عطا کئے جو دوسرے نبیوں کے لئے مشعل ہدایت کا کام دینے والے ہیں اور جن کے ماتحت اور انبیاء ہیں پس تینوں قسم کے انعام تم کو حاصل ہیں دنیوی بھی اور دینی بھی اور دوسری قوموں پر دنیوی اور دینی برتری بھی۔
یہ قول تو موسیٰ علیہ السلام کا ہے لین عبارت قرآن کریم کی ہے ایک مبصر اس کے الفاظ کے اختصار او راس کے معانی کی وسعت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صَراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے الفاظ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے مل کر معنوں میں بہت وسعت پیدا کر دی ہے ان الفاظ نے ایک مسلمان کا مقصود صرف یہ نہیں قرار دیا کہ وہ اپنے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے سیدھا راستہ مانگے بلکہ یہ اصل قرار دیا ہے کہ وہ مقاصد عالیہ کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کرے اور درخواست کرے کہ ہدایت کے راستے ہی مجھے نہ دکھا اور صرف منعم علیہ گروہ میں مجھے شامل نہ کر بلکہ ہدایت کے وہ طریقے اور تعلیم میں اور عرفان کی راہیں بھی مجھے سکھا جو منعم علیہ گروہ پر اس سے پہلے ظاہر کئے جا چکے ہیں یہ اعلیٰ امیدیں پیدا کر کے قرآن کریم نے امتِ محمد یہ پر ایک بہت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ39
احسان فرمایا ہے۔
گو اس واضح تعلیم کی موجودگی میں اس امر کے ثبوت کے لئے کہ مسلمانوں کے ہر قسم کی ذاتی ترقیات کے راستے کھلے ہیں کسی مزید ثبوت کی ضرورت تو نہ تھی مگر چونکہ مسلمانوں میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی ہے ہم قرآن کریم سے دیکھتے کہ اس ہدایت طلبی کے معنے قرآن کریم نے کیا لئے ہیں اور کیا اس دُعا کی قبولیت کا بھی کوئی وعدہ کیا ہے یا نہیں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ اَفَّھُمْ فَعَلُوْا مَایُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَتُبِیْتًاo وَّاذً الَّاٰ تَیْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرً ا عَظِیْمًا وَّ لَھَدَ یْنٰہُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًاo وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُ ولٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی اگر کمزور مسلمان بجائے نافرمانیوں کے حقیقی اطاعت کا نمونہ دکھائیںاور) جو ان سے کہا جاتا ہے اس پر عمل کریں ت واس کا نتیجہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا نکلے۔اور اس سے ان کے ایمان مضبوط ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے انہیںبہت بڑا اجر ملے اور اللہ تعالیٰ انہیں صراط مستقیم دکھائے اور انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو اللہ اور اس کے اس رسول یعنی محمدؐ رسلو اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منعم علیہ لوگوں میں شامل کرات ہے یعنی نبیوں میں صدیقوں میں شہیدوں میں اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور وہی سورۃ فاتحہ والے الفاظ ہیں یعنی صراط مستقیم دکھانا اور صراط مستقیم بھی ان کا جو منعم علیہ گروہ تھا۔ وہ منعم علیہ گروہ کی تشریح فرمائی ہے نبی صدیق شہید اور صالح جس سے معلوم ہُوا کہ امت محمدؐ یہ کو سورہ فاتحہ میں جن اعلیٰ انعامات کے طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے دینی لحاظ سے اس کے مراد اعلیٰ روحانی مقامات ہیں او راللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سب کے سب مسلمانو ںکو ملیں گے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورۃ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ہے یعنی وہ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہونگے نہ کہ ان میں سے۔ اس اعتراض کی کمزوری خود ہی ظاہر ہے اگر مَعَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ امت محمدؐ یہ میں نبی نہ ہونگے مگر ایسے لوگ ہونگے جو نبیوںکے ساتھ رہیں گے لیکن قرآن کریم نے مَعَ کا لفظ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے ساتھ لگایا ہے پس اگر مَعَ کے معنے یہ کئے جائیں کہ جس لفظ پر مع آیا ہے وہ درجہ مسلمانوں کو نہ ملے گا بلکہ اس درجہ کی معیت ملے گی تو پھر اس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی منعم علیہ یعنی انعام پانے والا نہیں ہو گا بلکہ صرف یہ ہو گا کہ ان کے کچھ افراد انعام پانے والوں کے ساتھ رہیں گے اور ان معنوں کو قرآن۔ حدیث اور عقل سلیم رد کرتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ مَعَ کا لفظ در حقیقت اس تشریح کے ساتھ لگتا ہے جو اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی اس آیت میں کی گئی ہے تو بھی یہ اعتراض بالبدامت غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ تشریح میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبیوں شدیقوں شہیدوں اور صالحوں کا۔ اب اگر مَعَ کے معنے صرف معیت کے ہیں نہ کہ گروہ میں شمولیت کے تو پھر اس تشریح کے مطابق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مسلمان نبی نہ ہونگے بلکہ نبیوں کے ساتھ رہیں گے۔ صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ رہیں گے۔ اسی طرح شہیدوں اور صالح نہ ہونگے بلکہ شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ رہیں گے اس سے زیادہ غلط معنے اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اُمت محمدؐیہ کی ہتک کیا ہو سکتی ہے کہ اس امت میں نبی تو الگ رہے صدیق اور شہید اور صالح بھی نہ ہونگے ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 40
بعض لوگوں نے اس جگہ پر اعتراض کیا ہے کہ نبوت تو موہبت ہے اس کے لئے دُعا کے کیا معنی اس کا جواب یہ ہے کہ دُعا اس امر کے لئے کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام عطا فرمائے۔ یہی اس آیت کا مفہوم ہے آگے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جس پر جو چاہے انعام کرے اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) نبوت بیشک موہبت ہے مگر یہ موہبت ابوجہل پر کیو ںنہ ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیو ںہوئی۔ موہبت کو جذب کرنے کے لئے بھی تو ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے یہ کون کہتا ہے کہ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ دُعا کرے کہ یا اللہ مجھے نبوت عطا کر۔ ایسی دعائیں روحانی امور تو الگ رہے دنیوی امور کے لئے بھی بعض دفعہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہونگی۔ کوئی بڑھتی یہ دعا شروع کر دے کہ یا اللہ مجھے کالج کا پرنسپل بنا دے۔ یا کوئی لولا لنگڑا یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے … کا سپہ سالار بنا دے تو یہ دعائیں لغو اور فضول ہونگی۔ دُعائوں کی قبولیت حالات اور مصالح آسمانی کے ماتحت ہوتی ہیں۔ پس مومن کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ روحانی مقامات کے لئے نام لے لے کر دعا کرے۔ نبوت تو الگ رہی اگر کوئی یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے صدیق بنا دے۔ مجھے قطب بنا دے۔ مجھے شہید بنا دے۔ تو یہ دعا بھی ناپسندیدہ ہو گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا کہہ کر دعا سکھائی ہے اِھْدِنِیْ کے الفاظ نہیں رکھے کیونکہ جمع کے الفاظ میں قومی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم میں سے جسے جس قرب کے مقام کے لئے چنا جا سکتا ہے اس کے لئے اسے چن لیتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعا حصول انعام کے لئے ہے پس جب نبوت بھی موہبت یعنی انعام ہے تو اگر اس دعا کو قبول کے لئے حصول نبوت کی دعا قرار دیا جائْ ت واس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس دعا میں ہر قسم کے انعامات کے طلب کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور تمام کاموں میں صحیح راہ نمائی کی دعا سکھائی گئی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب انعامات مسلمانوں کو ملیں گے او ران میں وہ خود نبوت کو شامل فرماتا ہے پس اس انعام کو الگ رکھنے کا حق کس کو حاصل نہیں۔
اس جگہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں تو آپؐ کے بعد نبی کس طرح آ سکتا ہے سو اس اعتراض کا جواب بھی سورٔ نساو کی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس آیت میں وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْل کے الفاظ ہیں یعنی اللہ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے کو یہ انعام ملیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو مطیع ہو گا اس کا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام سے الگ نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ کوئی شریعت لا سکتا ہے پس جو نبی محمد رسول اللہ کے تابع ہو گا وہ خاتم النبین کے خلاف نہیں بلکہ اس کے معنوں کو مکمل کرنے والا ہو گا۔
ایک صاحب جو اس زمانہ کے مفسر ہیں۔ اور اپنے ترجمہ قرآن کریم کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دُعا نبوت کے حصول کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام نبوت سے کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت کے ملنے کے بعد سکھائی گئی پس نبوت عطا فرمانے کے بعد اس دُعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں۔ یہ اعتراض انتہاء درجہ کا بودا اور مصنف کے قلت تدبیر پر دلالت کرتا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ تو ایک طبعی دعا ہے ان الفاظ میں دعا کرنا صرف اس لئے
 
Top