• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 41
بابرکت ہے کہ قرآنی الفاظ مبارک ہیں اور غلطی سے پاک ورنہ تمام حق کے متلاشی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں جب ان کے دل میں صداقت کے پانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ انہی کے ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اور اپنے پیاروں کا راستہ رکھا۔ کیا کوئی معقول انسان بھی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نبوت سے پہلے یہ خواہش پیدا نہ ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور اپنے پیاروں کی راہ پر چلائے۔ اس قسم کا تو خیال بھی انسان کو کافر بنا دیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تڑپ ہی تو تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف جذب کیا اس تڑپ کو ہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنی الفاظ نے صرف یہ فرق پیدا کیا ہے کہ اول الفاظ ایسے چنے ہیں جو کامل ہیں۔ اور ہر نقص سے پاک ہیں۔ دوسرے ان کے ذریعہ سے ان کے دل میں بھی تڑپ نہ ہوتی۔ تیسرے امید پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسی دعا کرو گے تو قبول ہو گی۔ بلکہ حکم دیا ہے کہ یہ دعا کرو۔ ورنہ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کا مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو سیدھا راستہ پانے کی کوئی تڑپ نہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو نبی بنا دیا (نعوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلکَ الخرافات)
پھر اگر یہ اعتراض معقول ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے نزول سے پہلے نیک تھے یا نہیں خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ کا قرب انہیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے حاصل تھا یا نیں۔ اگر ان باتوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پھر ہمیں اس نماز کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے روزہ کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ یا اور دوسرے شرعی احکام کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اور محبت الٰہی بغیر ان احکام پر عمل کرنے کے حاصل ہو گیا تھا تو ہمیں بھی ان کے بغیر حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ دین کے معاملات ک وجانے دو۔ دنیوی چیزوں میں ہی اگر کوئی کہے کہ پہلی مرغی یا پہلا انڈا کیونکر بنا تھا۔ پہلا دانہ اور پہلا درخت کیونکر بنا تھا۔ اب بھی اسی طرح بن جائیگا ہمیں ان کے پیدا کرنے کے لئے قانون قدرت کے مطابق کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اس شخص کو ہر کوئی نادان کہے گا خدا تعالیٰ کا قانون اس وقت کے لئے جب بیج مٹ جاتا ہے اور ہے اور جب بیج پیدا کر دیا جاتا ہے اور ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا سے پاکیزہ تعلیم مٹ چکی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرت میں جذبات محبت پیدا ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ وہ خاص الافظ یا خاص انداز میں بیان کئے جاتے ان کو قبول کیا اور نوازا۔ لیکن جب قرآن کریم نازل ہو گیا۔ ہر اک امر کے لئے خاص قواعد بن گئے تو اب ان کے بغیر وہ نعمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں جو اس سے پہلے حاصل ہو سکتی تھیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور شریعت کی بنیاد رکھ دی اور اب اس قانون اور شریعت سے باہر رہنے والا ہر گزکامیاب نہیں ہو سکتا۔
اس سوال پر ایک او رپہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ کیا بہی صرف ایک عہدہ کا نام ہے یا نبی کے لئے تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ کّی بھی شرط ہے اگر ان باتوں کا پایا جانا نبی کے لئے شرط ہے ت وپھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ غیر نبی نبی سے تقویٰ اور طہارت اور قرب الی اللہ میں زیادہ ہو۔ اگر تو اس کا جواب یہ مفسر
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ42
اور ان کے ہمنوا یہ دیں کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک غیر نبی تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ میں نبی سے بڑھ کر ہو توپھر نزاع لفظی رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو کہ غیر نبی نبی سے ان باتوں میں افضل نہیں ہو سکتا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ظلی بروزی اور نبوت محمدؐیہ کی تابع نبوت بھی نہیں ہو سکتی وہ یہ کہتا ہے کہ اس امت میں کوئی شحص قرب الی اللہ کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جو مقام پر پہلے لوگ پہنچے تھے اور ایسا دعویٰ کرنے والا شخص یقینا امتِ محمدؐیہ کو انعام سے محروم قرار دیتا ہے۔
ایک اعتراض انہی مفسر صاحب نے یہ کیا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں ایک مسلمان کی بھی دعا اس بارہ میں قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی مقدار اور نوعیت پر منحصر ہے یہ معترض صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقت کا مقام اس امت میں مل سکتا ہے پس یہی سوال ان کے مسلمات کے متعلق بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس امت میں کتنے لوگوں کو صدیقیت کا مقام ملا ہے اگر گزشتہ تیرہ سو سال میں صرف ابوبکرؐ کو ملا ہے تو یہی اعتراض پھر بھی پڑے گا کہ کیا تیرہ سو سال میں یہ دعا او رکسی کے حق میں قبول ہی نہ ہوئی اور اگر اوروں کو بھی ملا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اشخاص عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ سے بڑھ کر تھے یا کم۔ اگر کم تھے تو پھر یہ کیونکر ہوا کہ کم درجہ کے لوگ صدیق بن گئے اور بڑے درجہ کے لوگ شہید تک ترقی پا سکے صدیق نہ کہلا سکے۔
غرض جو اعتراض نبوت کے اجراء پر ہوتا ہے وہی اعتراض صدیقیت کا دروازہ کھلا تسلیم کر کے اس پر ہوتا ہے پس یہ اعتراض محض قلت تدبر کی وجہ سے ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک اور نکتہ بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے جو نام بتائے ہیں ان میں سے دو نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ) میرے نزدیک یہ نام قرآن کریم ہی سے مستنبط ہیں اور ان کا ماخذ یہی آیت ہے۔ اس آیت اور پہلی آیت میں بتایا ہے کہ عباد ت الٰہی کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے منعم علیہ گروہ والا صراط مستقیم طلب کرے۔ اب اگر یہ دعا قبول ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ جب انسانی دل سے یہ حیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف پکا۔ بلند ہو گی کہے ہم تبہ ہو رہے ہیں ہمارے لئے ہدایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کے ساتھ اس زمانہ کے اس مکمل اور پاکیزہ دل کی التجا اور تڑپ بھی شامل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس زڑانہ کا مرد میدان بنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش مارے گا اور فضل الٰہی اور ہدایت کی صورت میں نازل ہو گا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائیگا۔
نوحؒ کے وقت کے مظلوموں کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام کے مطہر قلب کی گریہ و زاری سے مل کر اس کلام کو لائی تھیں جو نوع علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت کی ارواح کی پکار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب صافی کی تڑپ کے ساتھ مل کر صحفِ ابراہیم کے نزول کا موجب ہوئی تھی۔ یہی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ گزرا اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نزول قرآن کریم سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے الگ ہو کر غارِ حرا میں جا کر دعائیں اور عبادت کیا کرتے تھے یہ تو قلب اطہر کی حالت تھی جو اپنے خیالات کو پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے علاوہ دنیا کی مخفی آہیں بھی آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھیں ان سب نے مل کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور قرآن کریم نازل ہوا۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ در حقیقت اسی حالت کا نقشہ ہے جو
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ43
نزول کلام سے پہلے دُنیا کی ہوتی ہے خصوصاً اس زمانہ کی پاکیزہ ارواح کی جن کے دل سے صرف آہ ہی نہیں اٹھتی بلکہ ان کے دماغ میں بھی ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس زمانہ کا کلام نازل ہوتا ہے پس چونکہ یہ دُعا سورۂ فاتحہ میں نازل ہوئی ہے او ریہی دُعا ہے جو کلام الٰہی کے نزول کا موجب ہوئی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب رکھا۔ یعنی سورۂ فاتحہ میں وہ مضمون بیان ہوا ہے جو نزول قرآن کا موجب وا اور چونکہ کسی امر کے وجود کا موجب بمنزلہ ماں کے ہوتا ہے اس لئے سورۃ فاتحہ ام القرآن کہلائی۔
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم قرار دیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ سورۂ فاتحہ قرآن عظیم ہے اور باقی قرآن چھوٹا ہے کیونکہ یہ امر بالبداہت غلط ہے پس اس کی وجہ اور ہے اور میرے نزدیک وہ وجہ ام القرآن اور ام الکتاب والے نام ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا تو آپؐ نے خیال فرمایا کہ اس سے الگ ہے اس لئے آپؐ نے اس کا نام قرآن عظیم بھی رکھا تاکہ مسلمانوں پر یہ واضح رہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے کسی چیز کا حصہ بھی چونکہ پوری چیز کے نام میں شریک ہوتا ہے اس لئے آپؐ نے سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم فرمایا۔ ہم ہمیشہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ سننا چاہیں تو کہتے ہیں کہ حافظ صاحب قرآن کریم پڑھ رہا ہے یا ایک آیت میں جو مضمون ہوتا ہے اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ قرآن یُوں کہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک صرف وہ سورۃ آیا آیت قرآن ہے باقی قرآن نہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سورۃ یا وہ آیت جسے ہم پڑھتے ہیں یا جس کا حوالہ دیتے ہیں قرآن کا حصہ ہے۔
اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب بھی فرمایا ہے اور قرآن عظیم بھی فرمایا ہے گویا ایک طرف اسے ذریعہ پیدائش قرار دیا دوسری طرف اسے وہ چیز بھی قرار دیا جو اس سے پیدا ہوئی ہے اس میں ایک زبردست روحانی نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روحانی دنیا میں پہلی حالت دوسری حالت کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے اس لئے پہلی حالت ایک جہت سے ماں کہلاتی ہے اور بعدکی حالت اولاد کہلاتی ہے اسی نسبت سے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن بھی کہا گیا اور بوجہ اس کے کہ وہ خود قرآن بھی ہے اسے قرآن بھی کہا گیا۔ انسانوں کے متعلق بھی ایسے ہی تغیرات کے مواقع پر اس قسم کے تشبیہی الفاظ استعمال کر لئے جاتے ہیں چنانچہ سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال اِمْرَأَۃ فِرْعَوْن اور مَرْیَم بنت عِمْرَان سے دی جا سکتی ہے اور جن مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے ان کے متعلق آخر میں فرمایا ہے فَنَفَغْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدّقَتْ بکَاِمَاتِ رَبِّہاَ وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ (سورہ تحریم ع ۲) ہم نے اس کے ادنر اپنا کلام پھونکا اور وہ اپنے رب کے کلام پر او راس کی کتابوں پر ایمان لائی اور آخر وہ ایک فرمانبردار مرد کی طرح ہو گئی یعنی جو لوگ مریمی صفت ہوتے ہیں جب ترقی کرتے کلام الٰہی کے مورد ہو جاتے ہیں تو مسیحی نفس بن جاتے ہیں۔
غرض سورہ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی رکھنا اور اسے قرآن عظیم بھی کہنا اسلامی اصطلاحات پر ایک لطیف روشنی ڈالتا ہے او ران لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ امت محمدیہ کے ایک شخص کا نام کس طرح مریم بھی رکھا گیا اور عیسیٰ بھی۔ اگر سورہ فاتحہ کو
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ44
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ام بھر فرماتے ہیں اور قرآن بھی۔ توایک سچے مسلمان کے لئے اس امر کا سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مریم بھی فرماتا ہے اور عیسیٰ بھی۔ اس کی وہ حالت جب وہ حدا کے سامنے اس زمانہ میں ایک مسیح کے ظہور کے لیے چلا رہی تھی مریمی حالت تھی اور اس کی وجہ سے وہ مریم کہلایا جس طرح سورۃ فاتحہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کی وجہ سے جو ایک ہدایت نامہ کے لئے پکار رہی تھی ام القرآن اور ام الکتاب کہلائی۔ لیکن جب اس فرد کامل کی دعا سنی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسی کو دنیا کے لئے مسیحی نفس عطا کر کے مبعوث فرما دیا تو وہ عیسیٰ کہلایا۔ جس طرح اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی پکار نے بلند ہو کر جب قرآن کریم کو دنیا کی طرف کھینچا اور یہ دُعا خود اس کا حصہ بن گئی تو ام القرآن اور ام الکتاب کہلانے کے بعد وہ قرآن عظیم کہلانے لگی۔
اس دعا کے باہر میں ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جسے صحابہ نے مدنظر رکھا اور ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی اور اگر بعد کے مسلمان بھی اسے یاد رکھتے تو یقینا وہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس زرین ہدایت کو جو اس آیت میں بیان کی گئی تھی۔ بھلا دیا اور اس معیار سے گر گئے جس پر کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ اگر آج بھی مسلمان اس ہدایت کو اپنا ملمح نظر بنا لیں تو سب تکلیفیں ان کی فوراً دُور ہو سکتی ہیں اور پھر وہ بے مثال عزت اور رفعت حاصل کر سکتے ہیں۔
وہ سبق جو اس آیت میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اسی طرح دُنیا کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے جو قوم اس مقصد کو پورا کر دے دُنیا کی پیدائش کا اصل مقصود کہلانے کی وہی قوم مستحق ہو گی آدم علیہ السلام دُنیا میں آئے اور کچھ نیکیاں انہوں نے دُنیا کو بتائیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ نہایت اعلیٰ تعلیم پر مشتمل تھیں۔ ان نیکیوں پر عمل کر کے اس زمانہ کے لوگوں نے بہت بڑی روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کی اور ان کی ذہنی قومیں پہلے لوگوں سے بہت آگے نکل گئیں مگر ابھی انسان اس کمال کو نہ پہنچا تھا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا پس اس کی ترقی کے لئے جستجو جاری رہی یہاں تک کہ نوع علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ انسان کو ترقی کی بلندی پر ایک منزل اور اونچا لے گئے مگر انسان نے گو نوح علیہ السلام کے ذریعہ سے روحانی اور اخلاقی اور ذہنی طو رپر ترقی کی مگر ابھی وہ مقصد حاصل نہ ہوا تھا جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا چنانچہ آپؐ کے بعد اور نبی آیا اور اس کے بعد اور۔ اور اس کے بعد اور۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ظاہر ہوئی اور آپؐ نے تمام راز ہائے سربستہ جو انسان پر اب تک پوشیدہ تھے ظاہر کر دیئے اور دینی اور ذہنی اور اخلاقی ترقی کے لئے جس قدر ضروری امور تھے وہ سب کے سب بیان کر دیئے اور گویا علمی طور پر مذہب کو کمال تک پہنچا دیا۔ اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کا اعلان کر دیا مگر جب تک اس اعلیٰ تعلیم کو جامہ عمل نہ پہنایا جاتا اس کے نزول کی غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری طرح کامیاب نہیں کہلا سکتی تھی پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں مسلمان کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھائی اور کہا کہ ہمیشہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ جس مقامِ محمود کو سامنے رکھ کر اس دُنیا نے شروع سے رُوحانی سفر احتیار کیا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ45
اور جس کی مختلف منزلوں تک مختلف انبیاء انسانوں کو پہنچاتے چلے آئے ہیںاور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا ہے اس تک تم پہنچ جائو۔
پس سارے کے سارے منعم علیہ گروہ کی نعمتو ں سے ہمیں حصہ دے کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم کو آدم کی امت کی نیکیاں دے او رپھر ہماری ذہنی ترقی نوح کی امت کی طرح کر پھر ابراہیم کی امت کے مقام پر پہنچا اور پھر موسیٰ کی امت کے کمالات ہمیں دے اور پھر مسیح کی روحانیت کے اثر سے ہمیں حصہ دے اور اس طرح منزل بہ منزل روحانی بلندیوں پر چڑھاتے ہوئے بالآخر مقام محمدؐ پر ہم کو قائم کر دے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو اور وہ مقام محمود پر ـفائز ہو جائیں غرض صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مُراد انسانی کمال کی وہ آخری منزل ہے جس کی طرف شروع سے انسانی قافلہ بڑھتا آ رہا ہے اور جس کی مختلف منزلوں کی راہنمائی مختلف زمانہ کے انبیاء کے سپرد تھی اور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا تھا اور اس دعا کے ذریعہ اس امت محمدؐیہ کے افراد درخواست کرتے ہیں کہ الٰہی دین کی تکمیل تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تو نے کر ہی دی ہے اب یہ امر باقی ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال بھی اس دین کے مطابق ہو جائیں اور ہم ان تمام مخفی اور اعلی قوتوں کا اظہار کریں جن کی مختلف انبیاء کے ذریعے سے نشوونما کی جا چکی ہے اور جن کا پیدا کرنا انسانی پیدائش کا آخری اور اور اعلیٰ مقصد ہے سو اس کام کے لئے ہم کھڑے ہو گئے ہیں اب تو ہماری مدد کر اور ان سب منازل عرفان کو یکجائی طو رپر طے کرا دے جنہیں فرداً مختلف انبیاء کے ذریعہ سے مختلف اقوام طے کر چکی ہیں تاکہ انسانی پیدائش کا مقصد امتِ محمدؐیہ کے ذریعہ سے پورا ہو جائے۔
صحابہؓ نے اس مقصد کو سامنے رکھا اور زمانہ سابق کی سب اقوام کے اخلاق کو یکجائی طور پر اپنے وجود میں پیدا کر کے ایک بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا آج اگر ہماری جماعت اس مقصد کو پھر اپنے سامنے رکھ لے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود پر مبعوث ہونے کا وقت او ربھی قریب ہو جائے گا اور دنیا اپنی پریشان گن بے تابیوں سے محفوظ ہو جائے گی۔
ہر شخص یا قوم جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کو بھڑکا چکی ہو مَعْضُوْب عَلَیْھِمْ میں شامل ہے اسی طرح ہر قوم جو غیر اللہ کی محبت میں کھوئی گئی ہو اور اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہو وہ ضال ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لفظوں کے خاص معنے بھی کئے ہیں امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں عدمی بن حاتم سے ایک لمبی روایت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے۔ قال (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) انَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْھِم ایہودُ وانَّ الضّالَینَ النصَاریٰ۔ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اسی طرح ترمذی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے بارہ میں کہا ہے کہ حسن غریب ابن مردویہ نے ابو ذر غفاریؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسألتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ وسلَّم عن الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمُ قَالَ ایہود و قلتُ الضّالّین قَالَ النصَاریٰ (بحوالہ فتح البیان جلد اول) یعنی حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا مغضوب علیھم کون ہیں آپؐ نے فرمایا۔ یہود پھر میں نے کہا کہ ضالین کون ہیں تو آپؐ نے فرمایا۔ نصاریٰ۔
بہت سے صحابہؓ سے بھی یہ معنے ثابت ہیں مثلاً ابن عباس اور عبداللہ بن مسعود ابن ابی حاتم تو یہاں تک کہتے ہیں وَلَا اَعْلَمُ بَیْنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِی ھٰذَا اِخْتِلَافاً۔ یعنی تمام مفسرین ان معنوں پر متفق ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ46
اور اس بارہ میں میں نے ان میں کوئی اخلاف نہیں دیکھا (ابن کثیر)
قرآنی آیات سے بھی ان معنوں پر استدلال ہو سکتا ہے کیونکہ یہود کی نسبت قرآن کریم میں بار بار غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں ہی فرماتا ہے۔ فَبَآئَ وَ بِغَضَبٍ عَلی غَضَب (ع ۱۱) یہود خدا کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن گئے کہ گویا خدا تعالیٰ کا غضب انہی کے لئے ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ کے لئے ضَلَّ کا لفظ آیا ہے جیسے فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیٔہُمْ فِی الَّحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسیحیوں کا ذکر کر کے اور مسیح اور ان کی والدہ کو خدائی کا رتبہ دینے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَعْلُوا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْ اکَثِیْرًا وَّضَلُّوْ اعَنْ سَوَآئِ السَّجِیْل (مائدہ ع ۱۰) اے اہل کتاب (یعنی نصارے کیونکہ اس جگہ انہی کا ذکر ہے) اپنے مذہبی خیالات میں غلو سے کام نہ لو اور ایسے لوگوں کے خیالات او رانکی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے سے گمراہ چلے آ رہے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک چکے ہیں یعنی عام نصاریٰ کو بتایا ہے کہ سب نصارے شرک کے عقیدہ کے قائَنہ تھے ان میں سے موجد بھی تھے او رمشرک بھی۔ مشرک گروہ جو سیح کو خدا قرار دیتا تھا وہ خود بھی گمراہ تھا اور اس نے باقی مسیحیوں میں بھی اپنا عقیدہ پھیلانا شروع کیا اور اکثر حصہ کو اس گمراہی کے عقیدہ پر لے آیا۔ اور جو سیدھا راستہ توحید کا تھا اُسے چھوڑ دیا۔
غرض قرآن کریم سے بھی اور اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مفضوب علیہم میں خاص طو رپر یہود مراد ہیں اور ضالین سے خاص طور پر نصاریٰ مراد ہیں۔
یہ آیت اَلَّذِیْنَ کا یا اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جو ھم کی ضمیر ہے اس کا بدل ہے او راس کامفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں منعم علیہ گروہ کے راستہ پر چلا اور منعم علیہ سے ہماری مراد ایسے منعم عیہ ہیں جو بعد میں تیرے غضب کے مورد نہ ہو گئے ہوں یا جو کسی اور کی محبت میں تجھے چھوڑ نہ بیٹھے ہوں۔ اس مضمون میں مومن کے لئے خشیت کا بہت بڑا سامان مہیا ہے اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہ پہنچ جائے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اسے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے اور جدوجہد میں لگا رہنا چاہئے کہ اس کا قدم زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کی راہو ںپر پڑتا رہے تا ایسا نہ ہو کہ تھوڑی سی غفلت سے وہ اپنے مقام سے گر کرتبہ اور برباد ہو جائے۔
اس آیت میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جو ہر سوچنے والے کے لئے ترقی ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت یہود اور نصاریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھے بلکہ کفار مکہ آپؐ کے مقابلہ پر تھے۔ یہود اور نصاریٰ کی تعداد مکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی او رنہ ان کا حکومت میں کوئی دخل تھا پھر کیا وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مشرک ہونے سے بچائے بلکہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کے طریق پر چلنے سے بچائے مشرکین کا ذکر چھوڑ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لیے تبہ ہو جائے گا اس لئے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں کہ خدا مسلمانوں کو مشرکین مکہ سا ہونے سے بچائے لیکن یہود اور نصاریٰ کا مذہب قائم رہے گا اس لئے اس بارہ میں دعا کرنے کی ضرورت رہے گی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ میں شامل ہونے سے بچائے۔
اس آیت میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسیحی تو اپنے مذہب میں مسلمانو ںکو شامل کرتے ہیں اس لئے اس دُعا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ47
کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصارے کے فتنہ سے بچائے۔ لیکن یہود تو بالعموم غیر مذاہب کے افرا دکو اپنے اندر شامل نہیں کرتے پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں یہود ہونے سے بچائے خدا تاعلیٰ کا کلام ایک بے معنی اور بے ضرورت دعا کے کرانے کا مجرم نہیں ہو سکتا نہ یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسی غیر ضروری دعا دن میں تیس چالیس بار پڑھنے کا حکم دیں گے۔ پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہیئے کہ یہودی فتنہ کسی اور رنگ میں تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ممکن نہیں کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت یہود کے مشابہ ہو جائے گی۔ اوریہ حالت اس وقت ہو گی جبکہ مسیحی فتنہ بھی بڑے زور سے اسلام پر حملہ کر رہا ہو گا۔ پس ایک طرف توایک مثیل مسیح کا انکار کر کے انہیں یہود سے مشابہت ہو جائیگی اور وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائینگے دوسری طرف مسیحیت ان پر حملے کر کے ان کے ہزاروں جگر کے ٹکڑے ان سے چھین کر لے جائے گی۔ کی یہ آیت ایک زبردست پیشگوئی نہیں ہے۔ کیا اس سے فائدہ اٹھا کر وہ ان دو آگوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
اس سورۃ پر نظر غائر ڈالنے سے ایک اور لطیف خوبی کاپتہ چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کّی آیات میں رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اور دُعائوں کا بیان بالکل ایک دوسرے کے مقابل میں ہوا چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ (یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے) کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) ہے جس سے بتایا ہے کہ جونہی انسان معلوم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب خوبیو ںکا جامع ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں پھر رَبّ الْعٰلَمِیْنَ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کو رکھا ہے کیونکہ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہر ایک ذرہ ذرہ ہو خالق اور محسن ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کے مقابلہ میں جس کے معنے بغیر محنت اور مبادلہ کے دینے والا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کو رکھا ہے۔ کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے کسی عمل کے بغیر اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ میری سب سے بڑی ضرورت تو حضور تک پہنچنا ہے اس کے پورا کرنے کے سامان بھی پیداکیجئے۔ پھر الرَّحِیْم (یعنی محنت کا عمدہ بدلہ دینے والا) کے مقابلہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا یعنی ایسے لوگوں کا رستہ دکھایئے جن پر آپ نے انعام کئے ہیںسیدھے راستہ پر چلاتے چلاتے مجھے ان انعامات کا وارث کر دیجئے جو پہلے لوگوں کو ملے ہیں۔کیونکہ رحمیت چاہتی ہے کہ کسی کام کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے مقابلہ میں غَیْرِ الْمَغْضُبْوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کو رکھا کیونکہ جب انسان کو یقین ہو کہ میرے اعمالا کا حساب لیا جائے گا۔ تو فوراً اس کے دل میں ناکامی کا خو ف بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پس بندہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی دُعا کرتا ہے۔
اس سورۂ شریفہ کی آیات پر اگر نظر غور ڈالی جائے اور ان کی ترتیب کو چشم تعمق سے ملاخطہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے تبدریج روحانی منازل طے کرنے اور منزل بہ منزل چل کر آخر قر الٰہی کا شرف حاصل کرنے کی ہدایت مندرج ہیں کسی ذات کی فرمانبرداری یا عبادت دو ہی وجہ سے ہوتی ہے یا محبت سے یا خوف سے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دونوں قسم کی صفات کی طرف متوجہ کیا ہے بعض لوگ جن کی طبیعت میں احسان کی قدر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرتے ہیں اور بعض لوگ احسانوں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ48
کی پرواہ بھی نہیں کرتے مگر خوف ان کو فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن دانا انسان کا یہ کام ہے کہ پہلے محبت سے کام لے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر خوف دلائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سورۃ میں پہلے اپنی ان صفات کا بیان کیا ہے جن پر غور کرنے سے انسان کا دل محبت الٰہی سے پر ہو جاتا ہے اس کا نام اللہ ہے یعنی سب خوبیوں کا جامع اور سب نقائص سے منزہ ہے۔ سب اشیاء کا خالق او ران کا رازق ہے۔ مومن و کافر سب کی ربوبیت کرتا ہے۔ اس نے ہماری زیست کے وہ سامان جن سے ہم واقف بھی نہیں ہمارے لئے پیدا کئے ہیں۔ اور ہم جو نیک عمل کریں ان کا بہتر سے بہتر انعام دیتا ہے جو لوگ کسی چیز کی خوبصورتی یا اس کے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرنے کے عادی ہیں وہ ان صفات کو دیکھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ کر اُس کے آگے جھک جاتے ہیں لیکن جو لوگ محبت کے اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں اور سخت لوگ کے عادی ہوتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت پر جب غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے دن کا مالک ہے اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہو کر اس کے سب انعامات کا حساب دینا ہو گا وہ خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اس کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ہو خواہ محبت سے متاثر ہونے والا خواہ خوف سے ماننے والا سورۃ فاتحہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ ایک طرف تو اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے اور دوسری طر فاس شبہ خوباں کے حسن و احسان یا اس کی عظمت و جبروت کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو بے اختیار ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے ساتھ وَاِیَّاَک نَسْتَعِیْن بھی کہہ اُٹھتا ہے۔ یعنی میں تو حضور کا فرمانبردار ہوں۔ اور آپ ہی کی عبادت کرتا ہوں لیکن جو حق عبادت ہے۔ وہ مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا اس لئے میں آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ اس کام میں میری مدد فرمائیں اور حق عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جب محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے اور عظمت الٰہی اس حد تک بندہ کو متاثر کر دیتی ہے تو پھر جیسا کہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے وہ بے اختیار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہہ اٹھتا ہے یعنی مجھے سیدھا راستہ دکھایئے اور سیدھا راستہ ہمیشہ باقی راستوں سے اقرب ہی ہوتا ہے پس یہ کلام محبت کے کمال کو ظاہر کرتا ہے کہے اے اللہ اب میں آپ دُور نہیں رہ سکتا۔ آپ مجھے وہ سب سے نزدیک افراط و تفریط سے پاک راستہ دکھائیں جس پر چل کر میں جلد سے جلد آپ تک پہنچ جائوں لیکن چونکہ دربار شاہی میں باریاب ہونے والے لوگ مختلف مدارج کے ہوتے ہیں بعض عام درباری اور بعض خاص الخاص لوگ اس لئے عین فطرت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھلائی۔ یعنی اے مولیٰ آپ مجھے سیدھا راستہ بھی دکھائیں اور مجھ پر یہ فضل بھی کریں کہ منعم علیہ لوگوں کا راستہ دکھائیں یعنی حصور کے دربار میں میرا داخلہ عام لوگوں میں ہو کر نہ ہو۔ بلکہ آپ کے خاص پیاروں میں میں شامل ہو جائوں اور عاشق ہوتے ہوئے معشوق بھی بن جائوں اور جس طرح میں آپ سے محبت کرتا ہوں جناب بھی مجھ سے محبت کرنے لگ جائیں (کیونکہ منعم علیہ گروہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا محبوب گروہ ہے اور جو جماعت انعام ہی انعام کی مستحق ہوتی ہے وہی پیاری جماعت ہوتی ہے) اس طرح بندہ اس مقام محبت کو چاہتا ہے جس میں کوئی پردۂ مغائرت نہ رہے اب گویا انسان کمال کو پہنچ جاتا ہے اور عاشق و معشوق ایک ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَائِ ہے اس لئے جب انسان اس رُوحانی لذّت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ49
رُوحانی لذّت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ مقام اس کو ہمیشہ حاصل رہے اور اس پر اس کو ثبات نصیب ہو اس لئے مولیٰ کریم نے انسان کو اپنے حضور یہ عرض کرنا سکھلایا کہ آپ یہ فضل بھیکریں کہ اس ملاقات کے بعد میں آپ سے کسی طرح بھی جدا نہ ہوں اور چونکہ جدائی کے دو طریق ہوتے ہیں یا تو یہ کہ معشوق ناراض ہو کر نکال دے اور یا یہ کہ عاشق ہی عشق ترک کر کے علیحدہ ہو جائے اس لئے دونوں صورتوں کو بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ غَیُرِ الْمَغْضُوُبِ عَلَیْہِمْ یعنی نہ تو ایسا ہو کہ آپ میری کسی غلطی کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو جائیں وَلَا الضَّالِّیْن اور نہ ایسا ہو کہ منزل مقصود کو پہنچ کر میرے ہی دل میں آپ کے سوا کسی اور شے کا عشق پیدا ہو جائے اور میں آپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا جائوں۔
یہ ایک ایسی کامل اور جامع دُعا ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے انسان کو اپنے حضور عرض کرنے کے لئے تعلیم کی ہے کہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور مذاہب اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا۔ غور کرو کس طرح انسانی فطرت کا اول سے آخر تک نقشہ کھینچ دیا ہے اور کس طرح تمام قسم کے متفرق خیالات کے لوگوں کا علاج اس چھوٹی سی سورۃ میں بتا دیا ہے پس جو سمجھنے والے ہیں سمجھیں اور جو سوچنے والے ہیں سوچیں کہ دُنیا کا نجات دہندہ مذہب سوائے اسلام کے اور روحانی بیماریوں کا علاج سوائے قرآن کے کوئی نہیں۔
آمین۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب سورۃ فاتحہ کو غَیْرِ الْمَغُضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن پر ختم کرتے تو آمین کہتے ہیں جس کے معنے اللّٰھُمَّ اسُتَجِبْ لَنَا کے ہیں۔ یعنی اے اللہ ہماری یہ عرض قبول فرما۔ اور باتباع ارشاد نبویؐ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل ثابت ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ50
سورۃالبقرہ
اس سورۃ کا نام سورۃ البقرہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے ثابت ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے گو احادیث سے یہ امر ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے خود ہی یہ نام رکھا یا اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق رکھا۔ مگر میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔ اس سورۃ کے نام کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔
ترمذی میں ہے عن ابی ھریرۃَ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ لکلّ شیًٔ سَنامٌ وانَّ سنامَ القراٰنِ سورۃُ البقرۃ وفیہا اٰیہٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ اٰیِ القراٰنِ ھی آیۃ الکرْسی (ترمذی جلد دوم ابواب فضال القرآن) یعنی ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیت کی سردار ہے اور وہ آیۃ الکرسی ہے۔
یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مختلف وقتوں میں نازل ہوتی رہی ہیں اور بعض کے نزدیک اس کی ایک آیت آخری ایام حجتہ الوداع کے موقع پر قربانی کے دن نازل ہوئی تھی اور وہ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ (بقرہ ع ۳۸) کی آیت ہے اس سورۃ کی رباء کی آیات (یعنی سود کے احکام پر مشتمل آیات) قرآن کریم کی آخری زمانہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں۔
ترمذی نے ابوہریرۃ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھجوائی جو آدمی اس کے لئے چنے گئے۔ آپؐ نے اُن سے قرآن کریم سنا۔ آخر آپؐ ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو ان سب سے چھوٹی عمر کا تھا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کتنا حصہ قرآن کریم کا یاد ہے اس نے کہاں فلاں فلاں سورۃ کے علاوہ سورۃ بقرہ بھی یاد ہے آپؐ نے فرمایا کہ کیا سورۃ البقرہ کو یاد ہے؟ اس نے کہا ںہاں یا رسول اللہ آپؐ نے فرمایا۔ بس تو تم اس لشکر کے سردار مقرر کئے جاتے ہو۔ اس پر اس قوم کے سرداروں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں سورۃ بقرہ کے یاد کرنے سے صرف اس لئے رکا رہا ہوں کہ کہیں مجھے بعد میں بھول نہ جائے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اسے پڑھتے رہا کرو کیونکہ جو شخص قرآن سیکھتا ہے او رپھر اسے پڑھتا رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو نکل نکل کر سارے مکان میں پھیل رہی ہو۔ اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو جائے اس حالت میں کہ قرآن اس کے اند رہو اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بند پڑا ہو (ترمذی جلد دوم ابواب فضائل القرآن۔ ابن ماجہ نے بھی اس روایت کو جزواً روایت کیا ہے)
ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر)
اسی طرح دارمی نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت درج کی ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی دس آیتیں رات کے وقت پڑھے صبح تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔ یعنی سورۃ بقرہ کے ابتداء کی چار آیتیں آیتہ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ سے آخر کی تین آیتیں جو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں (یہ آخری رکوع ہے جس میں صرف 1
 
Top