ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
^ محمد، ابن سعد (830-840 BCE). طبقات الکبریٰ. pp. باب 3 صفحہ 281.
^ أحمد، نذير، الإسلام في التاريخ العالمي: منذ وفاة النبي محمد صلی اللہ علیہ وسلم وحتى نشوب الحرب العالمية الأولى، المعهد الأمريكي للثقافة والتاريخ الإسلامي، 2001، ص. 34. ISBN 0-7388-5963-X.
^ الدولة العربية الإسلامية الأولى (1-41 هـ / 623-661 م). الطبعة الثالثة 1995 م. دكتور عصام شبارو. دار النهضة العربية، بيروت - لبنان. صفحة: 279
^ Hourani, p. 23.
^ المكتبة اليهودية الرقمية: الخلافة الإسلامية الراشدة
قرآن اور شان وفضائلِ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے تو مشرکین نے کہا، آج ہماری طاقت آدھی ہو گئی۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیرمظہری ، در منشور) یِا اَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ O
(الانفال :٦٤)
''اے غیب کی خبریں بتانے والے ! اﷲ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے''۔ (کنزالایمان)
آپ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے ، قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا۔
حضرت علی شیرِ خدا کرم اﷲوجہہ کا ارشاد ہے کہ قرآن کریم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آراء موجود ہیں جن کی وحی الہٰی نے تائید فرمائی ہے۔
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر بعض امور میں لوگوں کے رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کچھ اور، تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٧)
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا،''میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی۔ مقامِ ابراہیم پر نماز کے متعلق، پردے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے معاملے میں''۔ (بخاری، مسلم)
محدثین فرماتے ہیں کہ ان تین امور میں حصر کی وجہ انکی شہرت ہے ورنہ موافقت کی تعداد اس سے زائد ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے رب نے مجھ سے اکیس (٢١) باتوں میں موافقت فرمائی ہے ۔ جن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں کیا ہے۔ ان امورکی تفصیل حسب ذیل ہے:ـ-
1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی۔
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ۔
''اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو ''۔ (الاحزاب:٥٣، کنزالایمان)
2۔ ایک بار آپ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی،
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی ۔
''اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ''۔(البقرۃ:١٢٥، کنزالایمان)
3۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
لَوْلاَ کِتَاب'' مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب'' عَظِیْم
''۔ '' اگر اللہ ایک بات پہلے لکھ نہ چکا ہوتاتو اے مسلمانو! تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا،اس میںتم پر بڑا عذاب آتا ''۔(الانفال:٦٨،کنزالایمان)
4۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے فرمایا،
عَسٰی رَبُّہ، اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہ، اَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ۔
'' اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ اُن کا رب اُنہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے''۔ (التحریم:٣) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔
5۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم'' کَبِیْر
''۔''تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ''۔ (البقرۃ:٢١٩،کنزالایمان)
6۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی
۔(النسائ:٤٣)
''اے ایمان والو! نشہ کی حالت میںنماز کے پاس نہ جاؤ ''۔(کنزالایمان)
7۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہانتک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس'' مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ
۔ ''بیشک شراب اور جؤا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیںشیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ''۔ (المائدۃ:٩٠)
8۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت
لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ
(بیشک ہم نے آدمی کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا) نازل ہوئی۔ (المؤمنون:١٢) تو اِسے سن کرحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بے ساختہ کہا،
فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ
۔ '' تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا''۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)
9۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسو ل ُاللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی،یا رسول اللہ ! عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالم انے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ،
وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔
''اور جب ان(منافقوں) میںسے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے''۔
یہ خیال رہے کہ حضور اکرم کا یہ فعل صحیح اور کئی حکمتوں پر مبنی تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی وجہ سے اس منافق کی قوم کے ایک ہزار افراد اسلام لے آئے۔اگر آپ کا یہ فعل مبارک رب تعالٰیٰ کو پسند نہ ہوتا تو وہ وحی کے ذریعے آپ کو اسکی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتا۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کا صحیح ہونا عام منافقوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ہے۔
10۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی،
سَوَائ'' عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ۔
''ان منافقوں کے لیے استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے''۔اس پر سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (طبرانی )
11۔ جس وقت رسول اکرم نے جنگ بدر کے سلسلہ میں صحابہ کرام سے باہر نکل کر لڑنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نکلنے ہی کا مشورہ دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
کَمَا اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ الخ۔
''جس طرح اے محبوب! تمہیںتمہارے رب نے (لڑنے کے لئے)تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا''۔(الانفال:٥، کنزالایمان)
12۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرجب منافقوں نے بہتان لگایا تو ر سول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی ، میرے آقا! آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیاتھا؟حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے ! اس پر آپ نے عرض کی ، کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔
سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان'' عَظِیْم
'' ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)
13۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیااور آیت نازل ہوئی۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ
۔''روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہوا''۔ (البقرۃ:١٨٧، کنزالایمان)
14۔ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیںوہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا،
مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔
''جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا ،تو اللہ دشمن ہے کافروں کا''۔(البقرۃ:٩٨) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
15۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ
۔ ترجمہ:تواے محبوب ! تمہارے رب کی قسم! وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیںپھر جو کچھ تم حکم فرما دو،اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں''۔ (النساء ٦٥، کنزالایمان)
16۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ آپ کا ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی ، الٰہی! بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔
'' اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو ''۔(النور:٢٧، کنزالایمان)
17۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ فرمانا کہ یہود ایک حیران و سرگرداں قوم ہے۔ آپ کے اس قول کے مطابق آیت نازل ہوئی۔
18۔
ثُلَّۃ'' مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃ'' مِنَ الْاٰخِرِیْنَ
بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تائید میں نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء)
خلیفۃُ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ پر ایک نظر
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات سے کون ناواقف ہے آپ نے اپنی حکومت میں بے شمار کارنامے انجام دے کر تاریخ میں ایک باب رَقم کیا آج کل کے دور میں جس طرح امریکہ نام نہاد سُپر پاور ہے اس دور میں قیصرو قصری سُپرپاور ہوا کرتی تھی قیصرو قصریٰ بھی آپ کے نام سے کانپتے تھے جِدھر آپ کی نگاہِ مبارک اُٹھ جائے وہ ملک فتح و نُصرت پاتا تھا۔ ہر طرف آپ کی عظمت کا جھنڈا لہرا رہا تھا ہر وہ طاقت جو اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف اُٹھتی آپ نے اُسے نیست و نابود کردیا۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک وفد بیت المقدّس بھیجا وہ وَفد کوئی عام آدمیوں کا نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا وَفد تھا یہ وَفد بیت المقدّس پہنچا یہ اُس دور کی بات ہے جب بیت المقدّس پر پادریوں کا قبضہ تھا حضرت عمر بیت المقدّس کو پادریوں کے چُنگل سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پادریوں سے کہا کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی جانب سے یہ پیغام لائے ہیں کہ تم لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ یہ سُن کر پادریوں نے کہا ہم لوگ صرف تمہارے امیر المومنین کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں ہم نے فاتح بیت المقدّس کی اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں وہ نشانیاں ہم تمہارے امیر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ نشانیاں تمہارے امیر میں موجود ہوئیں تو ہم بغیر جنگ و جدل کے بیت المقدّس تمہارے حوالے کردیں گے یہ سُن کر مسلمانوں کا یہ وَفد حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوااور سارا ماجرا آپ کو سُنایا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اپنا ستر پیوند سے لبریز جُبّہَ پہنا، عمامہ شریف پہنا اور جانے کے لئے تیار ہوگئے سارے صحابہ کرام علیہم الرضوان ، حضرت عمر سے عرض کرنے لگے حضور! وہاں بڑے بڑے لوگ ہوں گے، بڑے بڑے پادری ہوں گے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اچھا اور نیا لباس پہن لیں۔ ہمارے بیت المال میں کوئی کمی نہیں۔
انسانی فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جب بندہ کوئی بڑی جگہ جاتا ہے تو وہ اچھا لباس پہنتا ہے تاکہ اُس کا وقار بلند ہو۔ مگر اﷲ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہ بات سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جلال آگیا اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ یہ سمجھے کہ عمر کو عزت حکومت کی وجہ سے ملی ہے یا اچھے لباس کی وجہ سے ملی ہے؟ نہیں عمر کو عزت حضور کی غلامی کی وجہ سے ملی ہے آپ فوراً سواری تیار کر کے روانہ ہوگئے جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدّس پہنچے تو حضرت عمر فارقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا حُلیہ مبارک دیکھ کر ، سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو دیکھ کر پادریوں کی چیخیں نکل گئیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں گِر پڑے اور ساری بیت المقدّس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی کیونکہ ہم نے جو حُلیہ فاتح بیت المقدس کا کتاب میں پڑھا ہے یہ وہی حُلیہ ہے اس طرح بغیر جنگ کے بیت المقدّس آزاد ہوگیا۔
اُن کے جو غلام ہوگئے
وقت کے امام ہوگئے
نام لیوا اُن کے جو ہوئے
اُن کے اُونچے نام ہوگئے
دریائے مصر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اشاروں پر
درِ مصطفی کے غلام امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری رعایا مصر کے گورنر صحابی رسول حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اے امیر! ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا میں زندہ درگور کرکے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا اب ہم کیا کریں؟
گورنر نے فرمایا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اسکے رحمت والے رسول کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگز ایسے ظالمانہ اور جاہلانہ فعل کی اجازت نہیں دیتا تم لوگ انتظار کرو میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھتا ہوں وہاں سے جو حکم ملے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔
چنانچہ گورنر کاقاصد مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا اور دریائے نیل خشک ہونے کا حال سُنایا۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ خبر سُن کر نہ گھبرائے نہ پریشان ہوئے۔ حضرت عمر قاصد کو یہ کہہ کر بھی روانہ کرسکتے تھے کہ تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو، نوافل پڑھو اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ دریائے نیل کو دوبارہ جاری فرمادے میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میرے پاس کیوں آئے ہو بس دُعا کرو عبادت کرو اﷲ تعالیٰ تمہارے حال پر رحم فرما کر دریائے نیل دوبارہ جاری فرمادیگا۔ حضرت عمر نے قاصد سے یہ نہ کہا بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھا جیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو خط لکھ کر اُس سے مُخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے ۔ الیٰ نیل مصر من عبداﷲ عمر بن الخطاب: ام بعد فان کنت تجری بنفسک فلا حاجۃ لنا الیک وان کنت تجری باﷲ فانجر علی اسم اﷲ۔
اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا (تو میں امیرالمومنین ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں) کہ تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نام پر جاری ہوجا۔ (بحوالہ ، کتاب: ازالۃ الخفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 166)
امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اس خط کو لفا فے میں بند کرکے قاصد کو دیا اور فرمایااس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہوگیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔
چاہیں تو اشاروں سے اپنی کا یا ہی پلٹ دیں دنیا کی
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سردار کا عالم کیا ہوگا
اﷲ اکبر! یہ دریا کب سے خط پڑھنا سیکھ گیا جو حضرت عمر کے خط کو پاتے ہی آپ کے حکم کو پاتے ہی جاری ہوگیا میر ی سمجھ میں بات یہی آتی ہے کہ حضرت عمر اپنے آقا کے ایسے سچّے غلام تھے کہ آپ کا حکم دریاؤں پر بھی چلتا تھا۔
حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں مدینے شریف میں ایک شدید زلزلہ آیا اور زمین ہلنے لگی۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کچھ دیر خدا تعالیٰ جل جلا لہ' کی حمد و ثناء کرتے رہے مگر زلزلہ ختم نہ ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے مدینے والو! آیتِ کریمہ پڑھو ، سورہ یٰس پڑھو ، توبہ و استغفار کرو کیونکہ زلزلہ گناہوں کی وجہ سے آتا ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا عذاب ہے آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ نہ کہا۔
اﷲ اکبر! غلامِ مصطفی ہو تو ایسا ہو زمین پر حکمرانی ہو تو ایسی ہو آپ رضی اللہ تعالی عنہ جلال میں آگئے اور آپ نے اپنا دُرّہ زمین پر مار کر فرمایا اقدّی الم اعدل علیک قلتقرت من وقتھا
اے زمین ساکن ہو جا کیا میں نے تیرے اُوپرانصاف نہیں کیا ہے؟
یہ فرماتے ہی فوراً زلزلہ ختم ہوگیا اور زمین ٹھہر گئی۔ (بحوالہ کتاب:ازالۃ الخلفاء ، صفحہ نمبر ١٧٢ ، جلد دوئم)
علماء فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے پھر کبھی مدینے شریف کی زمین پر زلزلہ نہیں آیا۔
سورج پر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا حکم
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کپڑا سی رہے تھے سورج نے گرمی دکھائی تو حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سورج کو فرمایا
محمد کے غلاموں سے تیزی؟
تو سورج نے گرمی سمیٹ لی۔ (بحوالہ کتاب:بحر العلوم شرح مثنوی ١٢)
یہ زمین اور سورج کو کس نے بتادیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب کے غلام ہیں یہ تمہیں اشارہ کریں تو رُک جانا ۔ وجہ یہی ہے کہ جب بندہ محبوبِ کبریا کا سچّا غلام بن جائے تو اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کو اس کا فرمانبردار بنا دیتا ہے۔