• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حديث لا نبي بعدى اور مرزائي فراڈ

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوستو ، اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع ، متصل اور صحیح احادیث مختلف کتب احادیث میں ماجود ہیں جنکے اندر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لانبی بعدی " میرے بعد کوئی نبی نہیں ، ( یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی ) جب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اپ کے بعد کوئی کہے کہ " لانبی بعدی " نہ کہو ؟ اور کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد کسی صحابی کی طرف منسوب علم اصول احادیث کی رو قابل قبول رہ جاتی ہے ؟؟ جس میں کسی صحابی کا اپنا قول فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکراتا ہو ؟؟ ہرگز نہیں ، بلکہ اصول حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع متصل صحیح حدیث کے مقابلے میں اگر کسی صحابی کا اپنا قول چاہے بظاہر متصل اور صحیح سند کے ساتھہ بھی ملے تو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اسے قبول نہیں کیا جائے گا . چہ جائیکہ وہ قول غیر مستند ہو ،
مرزائی دھوکے باز اور شعبدہ باز ہمیشہ دجل وفریب دیتے رہتے ہیں ، انہیں وہ احادیث نبویہ نظر نہیں آتی یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے جنکے اندر خود خاتم الانبیاء نے فرمایا " لانبی بعدی " انہیں اگر کسی کتاب سے غیر مستند بات نظر آجائے جو کسی صحابی کی طرف منسوب ہو تو وہ اس کو اچھال اچھال کر دھوکے دیں گے ،
ایسا ہی ایک دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ " امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر درمنشور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ اپ نے فرمایا صرف یہ کہا کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور یہ مت کہا کرو کے " لانبی بعدی " یعنی اپ کے بعد کوئی نبی نہیں "
اگرچہ امام سیوطی نے اسی جگہ اس سے پہلے متعدد مستند اور صحیح روایات لکھی ہیں جو مرزائی عقیدہ کا پاش پاش کرتی ہیں ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب اس قول کے بعد وہیں امام سیوطی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا قول بھی ذکر کیا ہے جسکے اندر اس بات کی وضاحت ہے کہ لانبی بعدی کیوں نہ کہا کرو وہ اس وجہ سے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے دوبارہ نہیں آنا ، لیکن مرزائی اس روایت کا ذکر نہیں کریں گے ،
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ قول سند اور علم اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے ؟
تفسیر درمنشور میں امام سیوطی نے خود تو اس روایت کی کوئی سند نہیں بیان کی ، وہاں مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیا ہے ، جب ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا تو وہاں اس کتاب کے مختلف نسخوں اور اڈیشنوں میں اس روایت کی سند مختلیف ہے ، پرانے زمانے کے نسخوں میں اس روایت کی سند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی کا نام " جریر بن حازم " ہے یعنی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کوئی اور راوی نہیں ہے ،
بعد میں کچھ نسخوں میں اس روایت کی سند میں" جریر بن حازم" اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان مزید راوی " محمد " کا اضافہ ہے ( جس سے مراد مشہور تابعی محمد بن سرین رحمتہ اللہ علیہ ہے )
مصنف ابن ابی شیبہ کے جن ایڈیشنوں میں راوی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور راوی نہیں ہے وہاں یہ روایت منقطع ٹھہرتی ہے .کیونکہ" یہ جریر بن حازم تقریباً 90 ہجری میں پیدا ہوۓ" ( بحوالہ تہذیب التہذیب جلد 1 ص 295 ) اور "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تقریباً 58 ہجری میں ہو چکی تھی "، اس طرح جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تقریباً 30 سال بعد ہوۓ ، لہذا ایسا ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہو . اسی وجہ سے یہ روایت نہ قابل اعتبار ہے .
a09ef5.jpg

مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسرے نسخوں میں جن میں جریر بن حازم کے بعد ایک راوی " محمد " کا ذکر ہے اس سے مراد تابعی محمد بن سرین رحمتہ اللہ علیہ ہیں ، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن سرین کی بھی ملاقات بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے ، مشہور امام جرح وتعدیل ابن ابی حاتم لکھتے ہیں " ابن سرین لم یسمع من عائشة شیئاََ " ابن سرین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ نہیں سنا ( کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ 188 )

2w7o4yw.jpg


یہی بات حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی نقل کی ہے ( تہذیب التہذیب جلد 3 ص 587 ) اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ روایت منقطع یا مرسل ہے اور اصول احادیث کی رو سے قابل اعتبار نہیں ، بلکہ مرفوع اور متصل احادیث کے ہوتے ہوۓ مردود اور ناقابل اعتماد ہے .
پھر مزے کی بات ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ اپ نے فرمایا :
" لایبقی بعدی من النبوة الا المبشرات ، قالو یا رسول اللہ وما المبشرات ؟ قال : الرؤیا الصالحة یراھا الرجل أو تری له "
میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا ہیں ؟ تو اپ نے فرمایا : نیک آدمی جو خواب دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے
( مسند احمد جلد 6 ص 129 )
xggs5k.png

یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی ، اور اس میں صاف طور پر بیان فرما دیا گیا کہ نبوت کے اجزاء میں سے صرف ایک جز نیک اور سچے خواب ہی باقی ہیں اور کچھ نہیں ،
"یاد رہے نبوت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک نبوت کے تمام اجزاء جمع نہ ہو ، صرف سچے اور نیک خواب کو کوئی بھی احمق نبوت نہیں کہتا جیسا کہ ایک ٹائر کو کوئی احمق گاڑی نہیں کہتا بلکہ گاڑی کا ایک جز کہا جاتا ہے "
ایک طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ، دوسری طرف انکی طرف منسوب ایک غیر مستند قول جسکی سند کو کوئی دنیا کا مرزائی مربی متصل ثابت نہیں کر سکتا .


نیز عائشہ صدیقہ ہی آنحضرت ﷺسے مرفوعاً روایت فرماتی ہیں:
''میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد خاتم مساجد الانبیاء ہے۔''
(کنز العمال بحوالہ دیلمی ، ابن نجارا وربزار)
اس کے علاوہ قادیانی اسی حدیث کے حوالے سے ان بزرگوں کے اقوال بھی پیش کرتے ہیں کہ
عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان ’لانبی بعدی‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو ۔
(تاویل مختلف الاحادیث صفحہ 236)
محدث امت امام محمد طاہر گجراتی
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا یہ قول ’لانبی بعدی‘ کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے ۔
(تکملہ مجمع البحار صفحہ85)
یہاں بھی قادیانی ڈنڈی مارتے ہیں اور ان بزرگوں کی پوری بات درج نہیں کرتے ۔ دونوں بزرگوں کی مکمل عبارتیں درج ذیل ہیں ۔

کتاب تأويل مختلف الحديث میں ابن قتيبة نے امّ المومنین رضی اللہ عنہا کے اس قول کی توجیح مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے۔ پوری عبارت ملاحظہ ہو۔
وأما قول عائشة رضي الله عنها: "قولوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاتم الأنبياء، ولا تقولوا لا نبي بعده"، فإنها تذهب إلى نزول عيسى عليه السلام، وليس هذا من قولها، ناقضا لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "لا نبي بعدي" لأنه أراد: لا نبي بعدي، ينسخ ما جئت به، كما كانت الأنبياء صلى الله عليهم وسلم تبعث بالنسخ، وأرادت هي: "لا تقولوا إن المسيح لا ينزل بعده"
ترجمہ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یوں نہ کہو کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ہے اور یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کردے جیسا کہ انبیاء علیہ السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے، جب کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم یہ نہ کہو حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی بعد میں نہ آئیں گے۔
34hv3vd.jpg

جیسا کہ مکمل عبارت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا لا نبي بعدہ کہنے سے منع فرمانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے یقیناَ ہوگا اور "حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں" کے الفاظ کے عموم کے اعتبار سے عوام کو شبہ اور وہم کو دور کرنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعض اوقات ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
تکملہ مجمع البحار کی پوری عبارت ملاحظہ ہو۔
في حدیث عيسى أنه يقتل الخنزير ويكثر الصليب و يزيد في الحلال، أي يزيد في حلال نفسه بأن يتزوج ويولد له، كان لم يتزوج قبل رفعه إلى السماء فزاد بعد الهبوط في الحلال فحينئذ يؤمن كل أحد من أهل الكتاب لليقين بأنه بشر، وعن عائشة: قولوا: إنه خاتم الأنبياء، ولا تقولوا: لا نبي بعده، وهذا ناظر إلى نزول عيسى، وهذا أيضًا لا ينافي حدیث: لا نبي بعدي، لأنه أراد لا نبي ينسخ شرعه۔
ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی، آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے انہوں نے شادی نہیں کی تھی، ان کے آسمان سے اترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا، یقیناَ یہ بشر ہیں (یعنی خدا نہیں ہیں جب کہ عیسائیوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے)۔ اور صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والے نہیں، یہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان اس بات کے مدنظر مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ نزولِ عیسی علیہ السلام حدیث شریف "لا نبی بعدی" کے مخالف نہیں ہے اس لیے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کا ناسخ ہو۔
vmsw8n.jpg

اس طرح مرزائی مربیوں کا دجل وفریب کھل کر سامنے آگیا
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مجمع بحار الأنوار کی نئی کتاب کے سکین پیج
في ح عيسى أنه يقتل الخنزير ويكثر الصليب و"يزيد" في الحلال، أي يزيد في حلال نفسه بأن يتزوج ويولد له، كان لم يتزوج قبل رفعه إلى السماء فزاد بعد الهبوط في الحلال فحينئذ يؤمن كل أحد من أهل الكتاب لليقين بأنه بشر، وعن عائشة: قولوا: إنه خاتم الأنبياء، ولا تقولوا: لا نبي بعده، وهذا ناظر إلى نزول عيسى، وهذا أيضًا لا ينافي ح: لا نبي بعدي، لأنه أراد لا نبي ينسخ شرعه. “(مجمع بحار الأنوار جلد 5 صفحہ 463۔ آن لائن لنک)

so1u9l.jpg

10d6psj.jpg
 
Top