• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع و نزول اور قادیانیت

ناصرنعمان

رکن ختم نبوت فورم

اس آیت کریمہ(النساء 157)میں ترتیب کلام یوں رکھی گئی ہے کہ اول اسم ظاہر ”انا قتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم الخ“ ذکر فرمایا ۔۔۔پھر اس کے بعد اسم ظاہر کے لئے کئی ضمیریں پے درپے ذکر فرمائیں ،جیسے ”وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا“۔۔۔۔”بل رفع اللہ“ ۔۔۔۔یہ کل چار ضمیریں ہیں ۔۔۔۔جن کا مصداق وہی ابتدا میں ذکر کردہ اسم ظاہر ”عیسیٰ بن مریم “ ہے ۔۔۔ جس کا مصداق جسم مع روح دونوں کا مجموعہ ہے ۔۔۔تو جس چیز کو یہود قتل و صلب سے دوچار کرنا چاہتے تھے وہی زندہ ذات مسیح جسم بمع روح ہی ان چاروں ضمیروں کا مصداق ہے ۔۔۔۔گویا معنی یہ ہوا کہ یہود جس زندہ ذات مسیح کو (جسم مع روح کے)قتل کرنا چاہتے تھے اسی کو وہ نہ قتل کرسکے اور نہ ہی مصلوب کرسکے اور یقینا وہ ایسا ہرگز نہ کرسکے ۔۔۔۔تو پھر کیا ہوا ؟۔۔۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسی زندہ مسیح کو جو کہ مرکب جسم بمع روح تھا ۔۔جس کو یہود کچھ بھی نہ کرسکے اسی بجسدہ العنصری خالق کائنات نے آسمان پر اٹھا لیا ۔

اب واضح ہے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مسیح سے مراد تو واقعی جسم بمع روح ہو مگر ان ضمیروں کا مصداق صرف مسیح کی روح ہو ۔۔۔اسی صورت میں انتشار ضمائر لازم آئے گا جو کہ اہل علم کے ہاں محال ہے ۔

۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین :

ناصرنعمان

رکن ختم نبوت فورم
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر ایک مختصر علمی تحقیق

میرے مسلمان بھائیو بہنوں اور دوستو!
حیات و نزول مسیح علیہ السلام پر بہت دلائل دئیے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن گھوم پھر کر وہی بات آجاتی ہے کہ ماننے والے کے لئے چند دلائل ہی کافی ہوتے ہیں لیکن جس نے نہ ماننے کا تہیہ کیا ہوا ہو اس کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہیں۔۔۔۔ بے شک ہدایت اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔آمین
اب آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پرامام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمتہ اللہ علیہ کی آیت مبارکہ ’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا الخ النساء 158 کے حوالے سے ایک مختصر تحقیق پیش خدمت ہے:

کتب تفاسیر میں ”ِإِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِه“کی دو تفسیریں نقل کی گئیں ہیں ۔۔۔ایک یہ کہ ”بِهِ“کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے ۔۔۔اور ” قَبْلَ مَوْتِه“میں ضمیر یہود اور نصاری کے ہر ہر فرد کی طرف راجع ہے ۔۔۔یعنی کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا ۔۔۔۔وہ اس طرح کہ نزع اور جان کنی کے وقت انہیں اپنے باطل عقیدہ پر بخوبی اطلاع ہوجائے گی اور وہ مجبور ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے ۔۔۔اگر چہ کتب تفسیر میں یہ تفسیر بھی موجود و مذکورہے مگر دلائل اور سیاق و سباق سے اس کی تائید نہیں ہوتی ۔
(اول)اس لئے کہ نزع کے حالت کا ایمان ،ایمان نہیں اور نہ ہی عند اللہ تعالیٰ اس کی قبولیت ہے ۔۔۔حالاں کہ آیت کریمہ میں ”لام“ تاکید اول اور ”نون “تاکید ثقیلہ آخر میں ہے۔۔۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرور بضرور ایمان لائیں گے ۔۔۔اور اس ایمان سے مراد ایسا ایمان ہے جو عند اللہ ایمان ہو اور مقبول بھی ہو اورمرتے وقت یہودی اور نصرانی کا ایمان لانا ایمان ہی نہیں ۔۔۔تو وہ اس ”لَيُؤْمِنَنَّ “ کا مصداق کیسے ہوسکتا ہے ؟
(ثانیا)اس لئے کہ اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”فمن شاءفلیومن“یعنی ہر مکلف سے وہ ایمان مطلوب ہے جو اس کی مرضی اور مشیت سے ہو ۔۔۔اور نزع کے وقت جب فرشتے سامنے ہوں تو اس وقت کا ایمان لانا مجبوری میں ایمان لانا ہوگا جس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ۔
(ثالثاً) اس لئے کہ قرآن کریم سے زیادہ فصاحت اور بلاغت والی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے ۔۔۔اگر ” مَوْتِهِ“کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہو تو آگے ” وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا “میں ”يَكُونُُ“میں ھو ضمیر یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے توانتشار ضمائر لازم آئے گا کہ ایک تو ضمیر کتابی کی طرف راجع ہے اور دوسری حضرت عیسیٰ علیہ السلام طرف۔۔۔۔۔۔۔جو فصاحت اور بلاغت کے خلاف ہے ۔۔۔اس لئے یہی بات راجع اور متعین ہے کہ ” قَبْلَ مَوْتِهِ“حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور یہود اور نصاریٰ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا تو اپنے نزع سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے ۔اور وہ ایمان عند اللہ تعالیٰ اور مقبول ہوگا۔
اور علامہ اندلسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
اور ظاہر یہی ہے کہ ”بِہ“اور ” مَوْتِهِ“میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں ۔۔۔اور سیاق کلام بھی اسی کو چاہتا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ہوں گے ان میں سے کوئی ایک ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے “(البحر المحیط ج 3 ص 392)

اور قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ(عبد اللہ بن عمر بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ المتوفی 648 ھ) نے بھی یہی تفسیر نقل کی ہے ۔(تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)
۔۔۔۔وضاحتیں ابھی جاری ہیں ۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اگلے مرحلے میں قادیانیوں کے چند اور اشکالات کی وضاحتیں پیش کرنا چاہیں گے ۔۔۔
تمام مسلمانوں سے دعاؤں کی درخواست ہے۔جزاک اللہ
خاکپائے مجاہدین ختم نبوت

ناصر نعمان
 

ناصرنعمان

رکن ختم نبوت فورم
۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

بالفر ض دونوں باتیں (یعنی قد خلت کا معنی موت اور الرسل کو استغراق) تسلیم کرلیں جائیں تو بھی اس عموم سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوسکے گی ۔۔کیوں کہ ”مامن عام الا وخص منہ البعض “قاعدہ مسلمہ ہے
مثلا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ الخ الحجرات 13

ترجمہ :اے لوگوں بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ہے
تو کیا تمام انسانوں کو بمع آدم و حوا کو بھی جوڑے سے پیدا فرمایا ؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے
اور کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مرد و عورت سے پیدا فرمایا ؟؟
یقینا نہیں
تو ثابت ہوا کہ یہ عمومی پیدائش کا تذکرہ ہے ایک ایک فرد کا یہ حکم نہیں ۔۔کم از کم یہ تین افراد(آدم ،حوا اور مسیح)اس عموم سے مستثنی ہیں ۔
ایسے ہی مذکورہ آیت(اٰل عمران 144) میں حضرت مسیح علیہ السلام عموم سے مستثنی ہوں گے ۔

مزید ملاحظہ فرمائیں :

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ الخ البلد 8،9
(ترجمہ :کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں ۔اور زبان اور ہونٹ (نہیں بنائے)
فرمائیے کیا ہر ایک فرد انسان کی دونوں آنکھیں صحیح سالم ہوتیں ہیں ؟؟؟
سب کے ہونٹ و زبان صحیح ہوتی ہے ؟؟

ہرگز نہیں
بلکہ بے شمار انسان آنکھوں سے محروم بھی ہوتے ہیں ۔۔۔گونگے بھی ہوتے ہیں ۔
لہذا اس آیت سے استثنا ثابت ہوا۔
وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ الخ اٰل عمران 112

(ترجمہ :اورناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں)
دیکھئے یہاں انبیاءپر الف لام بھی ہے مگر کیا تمام انبیاءمقتول ہوئے ؟؟؟
ہرگز نہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ الخ الحج 5

(ترجمہ :لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا)
فرمائیے کیاتمام انسان منکرین بعث ہیں ؟؟؟
ہرگز نہیں
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ الخ البقرة 6

(ترجمہ :کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے)
فرمائیے کہ کیا تمام کفار کی یہی پوزیشن ہے کہ وہ "لایومنون" تھے ؟؟؟ہرگز نہیں۔۔۔لھم منھم المومنون الخ اٰل عمران 110 یعنی ان میں ایمان والے بھی ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس آیت سے استدلال محض دجل و فریب ہے کیوں کہ اول تو اس آیت میں وفات مسیح علیہ السلام کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ اشارہ تک نہیں ۔۔۔۔اور عموم سے استدلال جائز نہیں ۔۔۔خصوصا جب کہ اس جزئی کو ثبوت دیگر نصوص قطیعہ یقینیہ سے درجہ قطعیت تک پہنچا ہوا ہو ۔۔۔۔نیز عنہ امتہ حد تواتر تک پہنچا ہوا ہو ۔

نیز جن الفاظ سے قادیانی استدلال کرتے ہیں ان الفاظ کا وہ مفہوم ہی لغت میں نہیں ثابت ہوتا جیسے لفظ ”خلت“ اور” الرسل “ کے لام کو استغراق تسلیم کرنا۔۔۔ جسے خود مرزا بھی تسلیم کرتا ہے(جیسا کہ اوپر بیان ہو گزرا ہے)
مزید یہ کہ "الرسل" کی دوسری قرآت بغیر لام کے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے (دیکھئے تفسیر قرطبی ص 222 ج 5 )وغیرہ تو جب ان کے ممدوح (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ) سے یہ لفظ بغیر الف لام کے بھی منقول ہے تو استغراق یا عدم استغراق کا معاملہ ہی ختم ہوگیا ۔
اور پھر لفظ” رسول“ لغت میں بمعنی قاصد استعمال ہوا ہے مثلاً فرشتوں کو بھی "رسول" کہا گیا ہے۔
جیسے ارشاد ہے :الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ الخ سورہ فاطر 1
اورجگہ ارشاد ہے: أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ الخ الشوری ٰ 51
اب "رسول" کے وسیع استعمال کے بنا پر "الرسل" میں لام استغراق مراد لینا ناممکن ہے ورنہ ”من قبلہ الرسل “ کے تحت تمام فرشتوں کو بھی فوت شدہ تسلیم کرنا پڑے گا ۔۔۔اور یہ بات قادیانی بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔
تو پھر یہی بات ثابت ہوگئی کہ یہاں استغراق ملحوظ رکھنا محض جہالت اور حماقت ہے جو کہ قادیانیوں کا ہی مقدر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔آمین
دعاؤں کا طلبگار
خاکپائے مجاہدین ختم نبوت
ناصر نعمان
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لفظ "استغراق"عربی زبان سے اسم مشتق ہے
استغراق کے لغوی معنی کسی فکر خیال یا کام میں غرق ہو کر سب کچھ بھول جانے کی کیفیت، گہری دلچسپی، محویت کے ہیں
جبکہ علمی اصطلاح میں "استغراق" کسی جنس یا نوع کے تمام افراد کا احاطہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
جس کو استغراق حقیقی بھی کہا جاتا ہے
جیسے مذکورہ بحث میں "رسل" پر الف لام ہے یعنی "الرسل" تو مرزا کا استدلال یہاں "استغراق حقیقی" سے ہے یعنی "رسل" پر الف لام ہونے کی وجہ سے مذکورہ آیت (اٰل عمران 144) میں تمام رسول کا احاطہ مراد ہوگا باالفاظ دیگر تمام رسول وفات پاگئے
جبکہ اوپر بحث میں خود مرزا کے حوالاجات اور دیگر مثالوں سے واضح کیا گیا ہے کہ الف لام صرف "استغراق حقیقی" کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض اور اکثر اور کبھی کبھی فرد واحد کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے جس کو استغراق عرفی کہتے ہیں
(یہ تحریر بھی برادر ناصر نعمان صاحب ہی کی ہے )
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
السلام علیکم!
اگر قرآن مجید کو حاکم کتاب تسلیم کر کے عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔اگر ہم قرآن مجید پر دوسری کتابوں کو حاکم بنادیں جس کتاب کی کوئی بھی گواہی نہیں دیتا کہ فلاں کتاب بھی قرآن کی طرح لاریب ہے یا کسی ایک حدیث کی کوئی گواہی نہیں دے سکتا کہ وہ لاریب ہے اگر اس کتابوں کو حاکم تسلیم کر کے قرآن مجید کے ترجمے اور مفہوم نکالے جائیں تو عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور واپس آئیں گے۔۔۔کیا یہ انصاف ہے؟

قرآن مجید ایک لاریب کتاب اس جیسی کوئی کتاب نہ آسکتی نہ آئے گی۔اس کی شان یہ ہے کہ تمام آیات لاریب ہیں ۔ لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور دوسری کتابوں کو سامنے رکھ کر اس کے ترجمے اور مفہوم نکالے اپنی اپنی مرضی کے ۔ ۔ ۔ کیا تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو جان نہیں دینی۔

عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ۔ تمام روایات جھوٹی ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہیں ۔۔یہ تہمت لگائی گئی نبی کریم ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی گئی۔
شکریہ
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں اور وہ کیسی نشانی ہے قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے ۔

سورة بنی اسرائیل 17آیت نمبر 98۔
یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کے کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہو جائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھ کھڑے کئے جائیں گے؟۔


اسی مٹی سے تم دوبارہ زندہ کئے جائو گے قیامت کے دن اور تم کہتے ہو ایسا ممکن نہیں جب ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے یہ کیسے ممکن ہے تو دیکھو اس عیسیٰ ؑ(سورة آلِ عمران3آیت نمبر 49) کو یہ انہیں مٹی کے زروں کو اکٹھا کرتا ہے اور میرے حکم سے تمہارے سامنے سچ مچ کا پرندہ بنا دیتا ہے تم بھی اسی طرح قیامت کے دن اس مٹی سے پیدا کئے جائو گے یہ نشانی ہے قیامت کے دن کی غور وفکر کرو۔

سورة آلِ عمران3آیت نمبر 49۔
”اور وہ بنی اسرائیل کی طرف سے رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر لیتا اور مردے کو جگا دیتا ہوں۔اور جو کچھ تم کھاﺅ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں،اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان لانے والے ہو۔

سورة المومنون 23آیت نمبر50۔
ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی۔

٭اب اس آیت میں ابن مریم اور مریم علیہ السلام دونوں کو ایک نشانی بنایا گیا کیا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بھی زندہ ہیں اور کیا انہوں نے بھی قیامت کے قریب نازل ہونا ہے؟

سورة المائدہ 5آیت نمبر 110۔
”جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر ددیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے، پھران میں جو کافر تھے انہوں نے کہا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔

یہ ہے نشانی کا مفہوم۔۔۔کہ اسی مٹی کے زروں سے تم قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جائو گے تم قیامت میں شک نہ کرو اور دیکھوں اس عیسیٰ کو جس کومیں نے قیامت کی نشانی بنا دیا وہ اسی مٹی کے زروں سے سچ مچ کا زندہ پرندہ میرے حکم سے بنا رہا ہے اور جو مر جاتا ہے اسے بھی میرے حکم سے زندہ کر دیتا ہے۔
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
اہل کتاب سب عیسیٰ ؑ پر ایمان لائیں گے اپنی موت سے پہلے جتنے بھی یہودی ہیں قیامت تک جو بھی مرے گا وہ عیسیٰ علیہ السلام پر لازم ایمان لائے گا کہ وہ اللہ کا نیک پیغمبر اور صرف بندہ بشر تھا۔

سورة النساء4آیت نمبر159۔

(تفسیر ترجمان القرآن جلد اول صفہ نمبر 442 )(امام الہند مولانا ابوالکلام احمد آزاد صاحب)

"اہل کتاب میں سے(یعنی یہودیوں میں سے جنہوں نے مسیح سے انکار کیا)کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے (حقیقت حال پر مطلع نہ ہو جائے اور)اس پر (یعنی مسیح کی صداقت پر) یقین نہ لے آئے ۔ ایسا ہونا ضروری ہے(کیونکہ مرنے کے وقت غفلت و شرارت کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں، اور حقیقت نمودار ہوتی ہے) اور قیامت کے دن وہ (اللہ کے حضور یعنی عیسیٰ ؑ) ان پر شہادت دینے والا ہوگا۔"

تفسیر درمنثور جلد دوم صفحہ نمبر 658،657

نوٹ۔امام طیالسی،سعید بن منصور، ابن جریر اور ابن منزر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ابی کی قرات میں قَبل موتہ کی جگہ قبل موتھم کے الفاظ ہیں، فرمایا کوئی یہودی نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کی گئی اگر وہ مکان سے گرے تو پھر آپ کی کہتے ہیں؟ فرمایا وہ ہوا ہی میں اس بارے میں زبان سے اظہار کرے گا(1)۔ پوچھا گیا اگر ان میں سے کسی کی گردن اڑائی جائے تو انہوں نے فرمایا وہ اپنی زبان سے جلدی جلدی اسے ادا کرئے گا۔امام ابن جریری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اگر کسی یہودی کی گردن اڑائی جائے تو اس کی روح اس وقت تک نہیں نکلتی جب تک وہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے(2)۔امام عبدبن حمید اور ابن جریر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ کوئی یہودی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہونے پر ایمان نہ لائے اگرچہ اسلحہ کے ذریعے اسے قتل کیا جائے(3)۔امام ابن جریری اور ابن منذر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر ایک یہودی کو محل کی چھت سے نیچے پھینکا جائے تو وہ زمین تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول مان لیتا ہے۔(4)

امام عبدبن حمید اور ابن جریر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کی تفسیر میں یہ قول نقل کیا ہے کوئی یہودی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ عیسیٰ علیہ اسلام پر ایمان لائے، عرض کی گئی اگر چہ اسے تلوار کے ساتھ قتل کیا جائے؟ تو فرمایا اس کی گواہی وہ زبان سے دے گا۔ عرض کی گئی اگرچہ وہ بلند جگہ سے گرا ہو؟فرمایا وہ اس کی گواہی دے گا اگر چہ وہ بلند سے پستی کی طرف گر رہا ہو۔(5)

امام ابن منذر نے ابو ہاشم اور عروہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے دونوں نے کہا مصحف ابی بن کعب میں ہے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے۔
 

ٍٰفیضان اکبر

رکن ختم نبوت فورم
سورة الاعراف 7آیت نمبر 37۔

”سو اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وہ ان کو مل جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے“۔

سورة النحل 16آیت نمبر 28۔وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔

نوٹ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مختار ہے،امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کوئی یہودی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئے۔(جامع البیان جز 6ص27،مطبوعہ دارالفکربیروت)
 
Top