۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
بالفر ض دونوں باتیں (یعنی قد خلت کا معنی موت اور الرسل کو استغراق) تسلیم کرلیں جائیں تو بھی اس عموم سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوسکے گی ۔۔کیوں کہ ”مامن عام الا وخص منہ البعض “قاعدہ مسلمہ ہے
مثلا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ الخ الحجرات 13
ترجمہ :اے لوگوں بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ہے
تو کیا تمام انسانوں کو بمع آدم و حوا کو بھی جوڑے سے پیدا فرمایا ؟؟
یقینا ایسا نہیں ہے
اور کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مرد و عورت سے پیدا فرمایا ؟؟
یقینا نہیں
تو ثابت ہوا کہ یہ عمومی پیدائش کا تذکرہ ہے ایک ایک فرد کا یہ حکم نہیں ۔۔کم از کم یہ تین افراد(آدم ،حوا اور مسیح)اس عموم سے مستثنی ہیں ۔
ایسے ہی مذکورہ آیت(اٰل عمران 144) میں حضرت مسیح علیہ السلام عموم سے مستثنی ہوں گے ۔
مزید ملاحظہ فرمائیں :
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ الخ البلد 8،9
(ترجمہ :کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں ۔اور زبان اور ہونٹ (نہیں بنائے)
فرمائیے کیا ہر ایک فرد انسان کی دونوں آنکھیں صحیح سالم ہوتیں ہیں ؟؟؟
سب کے ہونٹ و زبان صحیح ہوتی ہے ؟؟
ہرگز نہیں
بلکہ بے شمار انسان آنکھوں سے محروم بھی ہوتے ہیں ۔۔۔گونگے بھی ہوتے ہیں ۔
لہذا اس آیت سے استثنا ثابت ہوا۔
وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ الخ اٰل عمران 112
(ترجمہ :اورناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں)
دیکھئے یہاں انبیاءپر الف لام بھی ہے مگر کیا تمام انبیاءمقتول ہوئے ؟؟؟
ہرگز نہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ الخ الحج 5
(ترجمہ :لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا)
فرمائیے کیاتمام انسان منکرین بعث ہیں ؟؟؟
ہرگز نہیں
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ الخ البقرة 6
(ترجمہ :کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے)
فرمائیے کہ کیا تمام کفار کی یہی پوزیشن ہے کہ وہ "لایومنون" تھے ؟؟؟ہرگز نہیں۔۔۔لھم منھم المومنون الخ اٰل عمران 110 یعنی ان میں ایمان والے بھی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس آیت سے استدلال محض دجل و فریب ہے کیوں کہ اول تو اس آیت میں وفات مسیح علیہ السلام کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ اشارہ تک نہیں ۔۔۔۔اور عموم سے استدلال جائز نہیں ۔۔۔خصوصا جب کہ اس جزئی کو ثبوت دیگر نصوص قطیعہ یقینیہ سے درجہ قطعیت تک پہنچا ہوا ہو ۔۔۔۔نیز عنہ امتہ حد تواتر تک پہنچا ہوا ہو ۔
نیز جن الفاظ سے قادیانی استدلال کرتے ہیں ان الفاظ کا وہ مفہوم ہی لغت میں نہیں ثابت ہوتا جیسے لفظ ”خلت“ اور” الرسل “ کے لام کو استغراق تسلیم کرنا۔۔۔ جسے خود مرزا بھی تسلیم کرتا ہے(جیسا کہ اوپر بیان ہو گزرا ہے)
مزید یہ کہ "الرسل" کی دوسری قرآت بغیر لام کے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے (دیکھئے تفسیر قرطبی ص 222 ج 5 )وغیرہ تو جب ان کے ممدوح (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ) سے یہ لفظ بغیر الف لام کے بھی منقول ہے تو استغراق یا عدم استغراق کا معاملہ ہی ختم ہوگیا ۔
اور پھر لفظ” رسول“ لغت میں بمعنی قاصد استعمال ہوا ہے مثلاً فرشتوں کو بھی "رسول" کہا گیا ہے۔
جیسے ارشاد ہے :الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ الخ سورہ فاطر 1
اورجگہ ارشاد ہے: أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ الخ الشوری ٰ 51
اب "رسول" کے وسیع استعمال کے بنا پر "الرسل" میں لام استغراق مراد لینا ناممکن ہے ورنہ ”من قبلہ الرسل “ کے تحت تمام فرشتوں کو بھی فوت شدہ تسلیم کرنا پڑے گا ۔۔۔اور یہ بات قادیانی بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔
تو پھر یہی بات ثابت ہوگئی کہ یہاں استغراق ملحوظ رکھنا محض جہالت اور حماقت ہے جو کہ قادیانیوں کا ہی مقدر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔آمین
دعاؤں کا طلبگار
خاکپائے مجاہدین ختم نبوت
ناصر نعمان