احادیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ
اب آئیے مرزا غلام قادیانی کے مشہور زمانہ چیلنج کا جائزہ لیتے ہیں جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ :۔
" ولن تجد لفظ السماء فی ملفوظات خیر الانبیاء ولا فی کلم الاُولین "
اور تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں آسمان کا لفظ ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے لفظ :ناقل ) ہرگز نہیں پاؤ گے اور نہ ہی یہ لفظ پہلے لوگوں ( یعنی مرزا سے پہلے گزرے اکابرین امت ۔ ناقل ) کی باتوں میں ملے گا " ( خزائن جلد 11 صفحہ 148 )
" کسی حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگا " ( خزائن جلد 22 صفحہ 47 حاشیہ )
جہاں تک مرزا کے اس جھوٹ کا تعلق ہے کہ آسمان سے نازل ہونے کا ذکر پہلے لوگوں کے کلام میں نہیں ملتا ، تو اس کا جواب تو خود مرزا نے ہی ایک اور جگہ دے دیا ہے اور اپنا جھوٹا ہونا خود ثابت کردیا ہے ، لکھتا ہے :۔
" مگر مجھ سے پہلے جو علماء اپنی اجتہادی غلطی سے ایسا خیال کرتے رہے کہ ابن مریم آسمان سے آئے گا وہ خدا کے نزدیک معذور ہیں ان کو برا نہیں کہنا چاہیئے ان کی نیتوں میں فساد نہیں تھا بوجہ بشریت بھول گئے کیونکہ ان کو علم نہیں دیا گیا تھا " ( خزائن جلد 18 صفحہ 236 )
ہم یہاں اس پر بحث نہیں کریں گے کہ غلطی کس نے کی ، پوری امت مسلمہ نے یا تیرہ سو سال بعد پیدا ہونے والے مرزا قادیانی نے ؟ یہ حوالہ پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مرزا قادیانی بقلم خود تسلیم کرتا ہے کہ اس سے پہلے علماء کا یہ خیال تھا کہ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ، تو پھر اس نے یہ جھوٹ نہ جانے کیوں لکھا کہ پہلے لوگوں کے کلام میں آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں پاؤ گے ۔
اب آئیے مرزا کے دوسرے جھوٹ کی طرف کہ کسی مرفوع متصل صحیح حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں احادیث ملاخط فرمائیں۔
حدیث نمبر 1
امام حافظ ابوبکر احمد بن عمروالبزار رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 292ھ ) نے اپنی مسن
د " البحر الذخار "
جو کہ
" مسند البزار "
کے نام سے معروف ہے اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔
" حَدَّثَنا علي بن المنذر , حَدَّثَنا مُحَمَّد بن فضيل , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قال: سمعت من أبي القاسم الصادق المصدوق يقول يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق في زمن اختلاف من الناس وفرقة فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض في أربعين يوما الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون شدة شديدة، ثم ينزل عيسى بن مريم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ من السماء۔۔ الخ "
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کانا دجال یعنی گمراہ مسیح مشرق کی طرف سے نکلے گا اس وقت لوگوں میں افتراق و اختلاف ہوگا تو وہ چالیس دونوں میں جہاں اللہ چاہے گا پہنچے گا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں پہنچے گا ، اس وقت مؤمن سخت حالات کا سامنا کریں گے ، پھر مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔ ( مسند البزار ، جلد 17 صفحہ 96 ، حدیث نمبر 9642 )
یہ روایت صحیح مرفوع متصل ہے اور اس میں صاف طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ۔
اس روایت کے روایوں میں پہلے روای
" علي بن المنذر "
کے علاوہ باقی تمام روای بخاری و مسلم کے روای ہیں ۔ اور علی بن المنذر سے بھی ترمذی ، نسائی ، اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور کسی سے ان پر کسی قسم کی جرح مذکور نہیں ۔
مُحَمَّد بن فضيل سے امام بخاری نے 16 کے قریب روایات لی ہیں بلکہ اپنی صحیح کا اختتام جس روایت پر کیا ہے جس میں
" سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ عظیم "
کی فضیلت کا بیان ہے وہ بھی انہی محمد بن فضیل کے واسطے سے ہے نیز محمد بن فضیل سے امام مسلم نے 28 کے قریب روایات لی ہیں ۔
عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ سے امام مسلم نے 6 کے قریب روایات لی ہیں ، امام ترمذی و حاکم نے بھی ان سے روایات لی ہیں اور ان روایات کو صحیح کہا ہے ، امام بخاری نے عاصم بن کلیب سے روایت تو ذکر نہیں کی لیکن
" باب لبس القسی "
میں ان سے استشہاد کیا ہے ، نیز تقریباََ تامام ائمہ جرح و تعدیل نے ان دونوں محمد بن فضیل اور عاصم بن کلیب کی توثیق کی ہے ( ابن جوزی وغیرہ نے عاصم بن کلیب کے بارے میں ابن المدینی کا ایک قول بغیر سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ عاصم بن کلیب جب منفرد ہوں تو وہ قابل احتجاج نہیں ، بعض نے اس مٰن یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اب المدینی نے یہ بات العلل الکبیر میں کہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن الجوزی کو سہو ہوا ہے مصادر قدیمہ میں کہیں بھی ابن المدینی کی کوئی ایسی بات مذکور نہیں اور نہ ہی علل ابن المدینی میں ایسی کوئی بات ہمیں ملی ، جبکہ دوسری طرف یحییٰ بن معین ، نسائی ، ابوحاتم ، ابوزرعہ ، ابن حبان ، ابن سعد ، عجلی ، مزی ، ابوداود ، ابن شاہین ، ابن حجر جیسے ائمہ رحمتہ اللہ علیھم نے انہیں ثقہ کہا ہے ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے کہ ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ( بحوالہ تہذیب التہذیب ۔ الحرج والتعدیل وٖغیرہ ) ۔ یہ وضاحت میں نے اس لئے پیش کی کہ مرزائی مربی اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ابن المدینی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف غلط طور پر منسوب یہ قول پیش کرتے ہیں ، اس روایت کے اگلے روای عاصم بن کلیب کے والد
" کلیب بن شھاب "
ہیں ، یہ بھی ثقہ ہیں کسی نے ان پر جرح نہیں کی بلکہ امام ابن مندہ رحمتہ اللہ علیہ ، ابو نعیم رحمتہ اللہ علیہ اور ابن عبدالبر رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے ۔ اور اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں اس طرح مسند البزار کی یہ روایت صرف صحیح نہیں بلکہ صحیح ترین اور مرفوع متصل ہے اور مرزا قادیانی کے کذاب ہونے پر ایسی مہر ہے جسے دنیا کا کوئی مرزائی نہیں توڑ سکتا ۔
حدیث نمبر 2
امام حافظ ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 458ھ ) نے اپنی کتاب
" الاسماء و الصفات "
میں اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے :۔
" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» "
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اس وقت ( خوشی کے مارے : ناقل ) کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے آسمان سے تمہارے اندر اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تمہی میں سے ہوگا ۔ ( الأسماء والصفات للبيهقي ، جلد 2 صفحہ 331 ، حدیث 895 )
ایک مرزائی دھوکہ اور اس کا پوسٹ مارٹم
اس روایت کی سند کے اعتبار سے کوئی قادیانی اعتراض نہیں کرسکتے تو اسے غلط ثابت کرنے کے لئے کچھ اس طرح دجل فریب دیتے ہیں کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے "
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ يُونُسَ.
یہ روایت امام بخاری نے اپنی صحیح میں یحییٰ بن بکیر کے واسطے سے اور امام مسلم نے ایک اور طریق سے یونس سے نقل کی ہے ، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ روایت امام بخاری و مسلم سے نقل کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں
" من السماء "
یعنی آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ نہیں لہذا معلوم ہوا کہ آسمان کے الفاظ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کا وہم ہے یا کسی نے بعد میں کتاب " الأسماء والصفات " میں یہ الفاظ ڈال دیئے ہیں ، بلکہ مرزائی پاکٹ بک والے نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ :۔
بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ 1328 ھجری میں چھپا ہے یعنی حضرت مسیح موعود ( نقلی اور جعلی : ناقل ) کے دعوی بلکہ وفات کے بعد اس لئے مولویوں نے اس میں " من السماء " کا لفظ اپنے پاس سے از راہ تحریف اور الحاق زائد کردیا ہے ، چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام سیوطی نے بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس میں من السماء کا لفظ نہیں ، چنانچہ وہ اپنی تفسیر درمنثور میں اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں
" واخرج احمد و البخاری و المسلم والبیھقی فی الاسماء والصفات قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم و امامکم منکم "
امام مذکور کا باوجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے من السماء چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ حدیث کا حصہ نہیں " ( پاکٹ بک صفحہ 228،229 )
دوستو ! امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب
" الأسماء والصفات "
اور کہیں طبع ہوئی کہ نہیں لیکن ہندوستان کے شہر الہ آباد کے مطبع انواراحمدی سے مرزا کی موت سے تقریباََ 13 سال پہلے سنہ 1313 ھجری میں طبع ہوچکی تھی اور اس کے صفحہ 301 پر یہ روایت موجود ہے اور اس میں
" من السماء "
کے الفاظ بھی ہیں ، اس لئے پاکٹ بک والے کا یہ لکھنا کہ یہ کتاب پہلی بار 1326 ھجری میں طبع ہوئی صریح جھوٹ ہے ، یاد رہے کہ مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی سنہ 1313ھجری کے بعد لکھی جس میں اس نے یہ چیلنج دیا تھا کہ کسی مرفوع متصل حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر نہیں جبکہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب
" الاسماء والصفات "
ہندوستان میں اس سے پہلے طبع ہوچکی تھی ( لیکن شاید مرزا کے خدا نے اسے بتانا مناسب نہ سمجھا ) ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ روایت امام بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں من السماء کے لفظ نہیں یا امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ ( جو امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کے تقریباَ چار سو سال بعد پیدا ہوئے ) یہ روایت اپنی تفسیر میں بحوالہ مسند احمد وبخاری و مسلم اور امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات کے حوالے سے ذکر کی ہے اور اس میں بھی من السماء کے لفظ نہیں لہذا یہ دلیل ہے کہ بیہقی کی کتاب میں یہ لفظ بعد میں ڈال دیا گیا ۔ یہ مرزائی مربی کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ کتب حدیث اور دوسری کتابوں میں بے شمار مقامات پر مصنفین کوئی روایت ذکر کرتے ہیں اور حوالہ بہت سی کتابوں کا دیتے ہیں جبکہ ان کتابوں میں اس روایت کے الفاظ میں قدرے اختلاف ہوتا ہے کئی بار مصنف کو کسی ایک محدث کے ساتھ
" واللفظ لہ "
بھی لکھنا پڑتا ہے تاکہ پتہ چل جائے کہ میں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں بعینہ یہی الفاظ فلاں کتاب کے ہیں باقی کتابوں میں الفاظ قدرے مختلف ہیں ( ہاں روایت کا مفہوم ایک ہی ہوتا ہے ) ، خود امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الاسماء والصفات میں کئی دوسری روایات ایسی موجود ہیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ
" رواہ البخاری و مسلم "
لیکن بخاری میں اس روایت کے الفاظ قدرے مختلف ہوتے ہیں اور مسلم میں اس سے بھی مختلف ، اسی طرح امام سیوطی نے جب یہ روایت بیان کی اور چار کتابوں کا حوالہ دیا تو انہوں نے صرف انہی الفاظ کے بیان کرنے پر اکتفا کیا جو چاروں کتابوں میں ایک جیسے ہیں ، اس سے یہ ثابت کرنا کہ امام بیہقی نے یہ الفاظ روایت نہیں کیے احمقانہ بات ہے اور نہ ہی امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ امام بیہقی کے شاگرد یا اہم عصر ہیں کہ ان کی بات سے یہ مطلب لیا جائے ، ایسے تو مرزا غلام قادیانی نے صحیح بخاری کے حوالے سے ایسے الفاظ نقل کیے ہیں جو آج تک صحیح بخاری سے مرزا قادیانی کا کوئی پیروکار نہیں دکھا سکا تو کیا صرف مرزا کے کہنے پر یہ دعویٰ کرنا عقل مندی ہوگی کہ صحیح بخاری میں امام مہدی کے بارے میں یہ الفاظ
" ھذا خلیفۃ اللہ المھدی "
موجود تھے بعد میں مولویوں نے نکال دیے ؟ ( دیکھیں خزائن جلد 6 صفحہ 337 ) ۔
علم اصول حدیث کے مشہور امام ابن الصلاح رحمتہ اللہ علیہ ( وفات 643ھ ) نے یہ بات وضاحت کے ساتھ امام بیہقی کا نام لیکر لکھی ہے ، ملاخط فرمائیں :۔
" وَهَكَذَا مَا أَخْرَجَهُ الْمُؤَلِّفُونَ فِي تَصَانِيفِهِمُ الْمُسْتَقِلَّةِ كَالسُّنَنِ الْكَبِيرِ لِلْبَيْهَقِيِّ، وَشَرْحِ السُّنَّةِ لِأَبِي مُحَمَّدٍ الْبَغَوِيِّ، وَغَيْرِهِمَا مِمَّا قَالُوا فِيهِ: " أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ أَوْ مُسْلِمٌ "، فَلَا يُسْتَفَادُ بِذَلِكَ أَكْثَرُ مِنْ أَنَّ الْبُخَارِيَّ أَوْ مُسْلِمًا أَخْرَجَ أَصْلَ ذَلِكَ الْحَدِيثِ مَعَ احْتِمَالِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا تَفَاوُتٌ فِي اللَّفْظِ، وَرُبَّمَا كَانَ تَفَاوُتًا فِي بَعْضِ الْمَعْنَى، فَقَدْ وَجَدْتُ فِي ذَلِكَ مَا فِيهِ بَعْضُ التَّفَاوُتِ مِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى. "
اسی طرح مؤلفین اپنی مستقل تصانیف میں مثال کے طور پر امام بیہقی سنن کبیر میں اور امام ابو محمد بغوی شرح السنہ میں یا ان کے علاوہ دوسرے حضرات جب یہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری یا مسلم نے بھی روایت کی ہے تو اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اصل روایت بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے جبکہ بخاری و مسلم اور اس مصنف کے الفاظ میں بھی تفاوت اور اختلاف ہوسکتا ے اور کبھی معنی میں بھی ( یعنی ضروری نہیں کہ بخاری مسلم کو حوالہ دینے والے مصںف کی روایت کے الفاظ بھی ہو بہو بخاری و مسلم والے ہوں ) ۔ ( علوم الحدیث ، المعروف بمقدمہ ابن الصلاح صفحہ 23 )
آپ نے دیکھا کہ امام ابن الصلاح نے یہ بات بیان کی ہے جب امام بیہقی اپنی مستقل کتاب میں اپنی سند کے ساتھ کوئی روایت بیان کریں اور پھر یہ کہیں کہ یہ روایت بخاری و مسلم نے بھی روایت کی ہے تو ان کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس سے ملتی جلتی روایت انہوں نے بھی روایت کی ہے یہ ضروری نہین کہ امام بیہقی اور بخاری و مسلم کے الفاظ ہو بہو ایک ہی ہوں ، لہذا امام بیقہی نے جو
" من السماء "
کے اضافے کے ساتھ روایت کی ہے وہ مستقل روایت ہے وہ انہوں نے بخاری و مسلم سے نقل نہیں کی اور اصول حدیث کا یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی روایت میں ثقہ روای کی طرف کسی لفظ کی زیادتی قابل قبول ہوتی ہے ۔
الغرض ! امام سیوطی ہوں یا امام بخاری یا امام مسلم رحمتہ اللہ علیھم ان میں سے کسی کے زہن میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وہ مفہوم نہ تھا جو مرزا قادیانی نے ایجاد کیا ۔ ان سب کے نزدیک اس لفظ کا مفہوم آسمان سے نازل ہونا ہی تھا اور نہ مرزا سے پہلے امت اسلامیہ کے کسی مفسر ، محدث ، یا مجدد نے یہ احمقانہ بات لکھی ہے کہ اس حدیث میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ایک مثیل مسیح پیدا ہوگا ۔
مرزا قادیانی کا حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کے ذکر کا اقرار
یہ بات خود مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے چنانچہ وہ خود ایک جگہ لکھتا ہے :۔
" مثلاََ صحیح مسلم کی حدیث مین جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا ۔ اس لفظ کو ظاہر لباس پر حمل کرنا کیسا لغو خیال ہے " ( خزائن جلد 3 صفحہ 142 )
آپ پوری صحیح مسلم پڑھ لیں آپ کو کہیں بھی آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ نہیں ملیں گے وہاں صرف
" نزول "
کے الفاظ ہیں ، لیکن مرزا قادیانی کی تحریر آپ کے سامنے ، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مرزا بھی مانتا تھا کہ احادیث میں جہاں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے نزول کا زکر ہے اس سے مراد آسمان سے نازل ہونا ہی ہے ، اور کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مولویوں نے صحیح مسلم سے " آسمان سے نازل " ہونے کے الفاظ نکال دیئے ؟ اب مرزا کی یہ تحریر پڑھیں :۔
" اسی وجہ سے اس کے حق میں نبی معصوم کی پیشگوئی میں یہ الفاظ آئے کہ وہ آسمان سے اترے گا " ( خزائن جلد 5 صفحہ 268 )
" آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہونگی تو اسی طرح مجھے دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کی دھڑ کی " ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 33 )
مرزا قادیانی انہی احادیث کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کے اندر حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کی خبر دی گئی ہے اور صاف لکھ رہا ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ آسمان سے اترے گا ( یہ الگ بات ہے کہ آگے مرزا نے آسمان سے اترنے کی یہ تاویل کی ہے کہ علم آسمان سے حاصل کرے گا زمین سے کچھ حاصل نہیں کرےگا اور زرد چادروں سے مراد اپنی بیماریاں لے رہا ہے ) لیکن بہرحال آسمان سے اترنے کو وہ تسلیم کر رہا ہے ، پھر نہ جانے وہ بعد میں یہ کیوں چیلنج دیتا رہا کہ کسی حدیث میں آسمان سے نازل ہونے کے لفظ نہیں ؟ شاید اسی موقع کے لئے کسی نے کہا ہے کہ :۔
دروغ گورا حافظہ نہ باشد ( جھوٹے کی یاداشت نہیں ہوتی )
حدیث نمبر 3
یہ حدیث وہ ہے جو مرزا قادیانی نے خود اپنی ایک کتاب میں نقل کی لیکن جان بوجھ کر اس میں سے
" من السماء "
کے الفاظ حذف کر دیے ، مرزا قادیانی نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دجال کو کسی ظاہری ہتھیار سے قتل نہیں کریں گے بلکہ وہ روحانی ہتھیار ہوگا ایک حدیث اپنی دلیل میں پیش کی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ نے
" تاریخ مدنیہ دمشق "
المعروف بہ تاریخ ابن عساکر ( جلد 47 صفحہ 504 ) میں نقل کی ہے اور امام علی المتقی رحمتہ اللہ علیہ نے
" کنزالعمال "
میں ابن عساکر کے حوالے سے بیان کی ہے ( حدیث نمبر 39726 ) لیکن مرزا قادیانی نے اس حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے :۔
" کما یدل علیہ حدیث روی عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ينزل أخي عيسى بن مريم على جبل أفيق أماما هاديا وحكما عادلا بيده حربة يقتل بہ الدجال "
جیسا کہ اس بات پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بھائی مریم کے بیٹے عیسیٰ جبل آفیق پر نازل ہوں گے اور ان کے ہاتھ میں ایک حربہ ( ہتھیار ) ہوگا جس سے وہ دجال کو قتل کریں گے ۔ ( خزائن جلد 6 صفحہ 314 )
دوستو ! اس روایت کے اصل الفاظ کچھ یوں ہیں
" ينزل أخي عيسى بن مريم من السماء "
میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ، لیکن مرزا نے جب یہ حدیث پیش کی تو تحریف کرتے ہوئے اس میں سے
" من السماء "
کے لفظ اڑا دیے ۔
تاریخ ابن عساکر کی اس روایت کے بارے میں قادیانی مربی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں ( جبکہ تاریخ ابن عساکر میں اس کی پوری سند مذکور ہے ) کبھی کہا جاتا ہے یہ روایت ضعیف ہے لیکن ہمارا جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا اس روایت کو اپنے حق میں بطور دلیل پیش کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے ہاں یہ روایت سو فیصد صحیح تھی کیونکہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ :۔
" خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کر کے بیجھا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے " ( خزائن جلد 17 صفحہ 454 )
اب ظاہر ہے کہ مرزا نے جان بوجھ کر ایک ضعیف حدیث تو اپنی دلیک میں پیش نہ کی ہوگی ؟ اسے اس کے خدا نے ضرور بتایا ہوگا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے ۔
مرزا قادیانی کا حق قبول کرنے کا وعدہ جو وفا نہ ہوا
ہم نے صحیح مرفوع متصل احادیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ دکھا کر مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت کردیا کہ کسی حدیث میں آسمان کا لفظ نہیں ، یاد رہے مرزا قادیانی نے ایک اقرار بھی کیا تھا :۔
" وانما نحن مناظرون فی امر نزول المسیح من السماء ، ولا نسلم اُنہ ثابت من الکتاب والسنۃ ، وان کان ثابتاََ فلا ینبغی لنا ولا لاُحد اُن یاُبی ویمتعض من قبولہ ، فانہ لایفر من قبول الحق الا ظالم معتد لا یحب الصداقۃ ، اوضال جاھل لایعرف قدرھا "
بے شک ہم حضرت مسیح کے آسمان سے نازل ہونے کے معاملے میں مناظرہ کرتے ہیں اور ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ کتاب وسنت سے ثابت ہے ، اور اگر ثابت ہوجائے تو پھر نہ ہمارے لئے اور نہ کسی کے لئے اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ وہ حق قبول کرنت سے فرار اختیار کرے ، کیونکہ قبولِ حق سے فرار یا زیادتی کرنے والا ظالم اختیار کرتا ہے جو سچ کو پسند نہیں کرتا ایسا گمرہ جاہل فرار اختیار کرتا ہے جو حق کی قدر نہیں جانتا ۔ ( خزائن جلد 6 صفحہ 206 )
نوٹ : مرزا نے اپنی اس تحریر میں ایک لفظ لکھا ہے
" لا یحب الصداقۃ "
س کا ترجمہ عبارت کا سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ بنتا ہے کہ جو صدق اور سچائی کو پسند نہیں کرتا ۔ یعنی لفظ
" صداقۃ "
مرزا نے اپنی طرف سے سچائی کے معنی میں استعمال کیا ہے ، اگر ایسا ہی ہے تو یہ مرزا کی بہت بڑی غلطی ہے ، عربی زبان میں سچ یا سچائی کے لئے لفظ
" صدق "
آتا ہے اور
" صداقۃ "
کا معنی ہوتا ہے دوستی ، مرزا کی عادت تھی کے وہ پنجابی اور اردو کے الفاظ کی عربی بناتے ہوئے ایسی غلطیاں کیا کرتا تھا ، جونکہ اردو میں صداقت کا لفظ سچائی کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے مرزا نے یہی لفظ عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال کیا ۔
بہرحال اوپر پیش کی گئی تحریر میں مرزا قادیانی نے اقرار کیا ہے کہ اگر کتاب و سنت سے حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان سے نزول ثابت ہوجائے تو وہ حق قبول کرے گا کیونکہ حق قبول کرنے سے پہلو تہی کرنے والا ظالم گمراہ اور جاہل ہوتا ہے ، ہم نے صحیح مرفوع متصل احادیث شریفہ سے آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ ثابت کیے ، اور جیسا کہ گذرا کہ امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات تو مرزا کی موت سے 13 سال پہلے ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی جس میں صحیھ سند کے ساتھ وہ حدیث موجود ہے جس میں آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ موجود ہین آج تک اس حدیث شریف کے بارے میں کوئی ثابت نہیں کرسکا کہ یہ صحیح نہیں یا مرفوع نہیں یا متصل نہیں ، مرزا قادیانی تو اس دنیا سے چلا گیا ، اس کے پیروکاروں کو اپنے پیشوا کی حق کو قبول کرنے کی نصیحت پر عمل کرنا چاہئے اور آپنے آپ کو ظالم گمراہ اور جاہل ہونے سے بچانا چاہئے ۔
اب جس کے جی میں آئے پائے وہ روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا
وما علینا الا البلاغ المبین