• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات عیسیّ کا ثبوت مجددین،مفسرین امت جن کو قادیانی حضرات بھی صحیح مانتے ہیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیّ کا ثبوت مجددین،مفسرین امت جن کو قادیانی حضرات بھی صحیح مانتے ہیں

قارئین کرام! ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مجددین امت محمدیہ اور مفسرین اسلام کی اہمیت وعظمت مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں پیش کر کے ان بزرگان دین کے ا قوال کا حجت ہونا الزامی طور پر ثابت کر دوں۔
۱… تیرہ صد سال کے مجددین امت کی مکمل فہرست تو (عسل مصفی ج۱ ص۱۶۳،۱۶۵) پر درج ہے۔ یہ کتاب قادیانی جماعت کی مایہ ناز کتاب ہے۔ مرزاقادیانی، مرزامحمود احمد قادیانی اور مولوی محمد علی قادیانی لاہوری اور دیگر اکابر مرزائی اصحاب کی مصدقہ ہے۔ مختصر سی فہرست مجددین ہم نے کتاب ہذا کے ابتدائی صفحات پر درج کر دی ہے۔
۲… ان مجددین امت محمدیہ کی عظمت اور علومرتبت کا حال مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں کتاب ہذا کے ابتداء میں ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
۳… ’’خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اس کی کمزوریوں کو دور کر کے پھر اپنی اصلی طاقت پر اسے لے آئے گا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴۰، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۴… ’’ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہ خدا اصلاح کے لئے کھڑا ہوا۔ جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ ص۱، خزائن ج۲۰ ص۲۰۳)
۵… ’’بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے۔ سو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے بے شک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں۔ اگر مخالفت پر ہی مریں۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۳، خزائن ج۶ ص۳۳۹)
۶… ’’ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں۔ یا زیادہ کرتے ہیں۔ بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے۔ تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں۔ مجدد لوگ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں۔ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے۔ جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۴، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
۷… ’’امام الزمان بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم وحقائق ومعارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہوسکتے… خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال وجواب کا ایک سلسلہ منعقد ہوکر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے… امام الزمان غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کر لیتا ہے۔ یہ قوت وانکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تاکہ دوسروں پر حجت ہوسکیں۔‘‘
(ضرورت الامام ص۱۲،۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳)
۸… ’’امام الزمان حامی اسلام کہلاتا ہے اور اس باغ کا خداتعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اوراس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کرائے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کرے۔ ایسے شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خداتعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے۔ کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے۔ ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتا ہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفر کش ہوتے ہیں۔ وہ بطور کل کے اور باقی سب اس کے جزو ہوتے ہیں۔‘‘

اور چوکل و تو چو جزئی نے کلی
تو ہلاک استی اگر ازوے بگسلی
(ضرورت الامام ص۱۰، خزائن ج۱۳ ص۴۸۱)
نوٹ: مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، مجدد، محدث، سب داخل ہیں۔‘‘
(ضرورت الامام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵)
۹… ’’جو بزرگ خداتعالیٰ سے الہام پاتے ہیں۔ وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کر سکتے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
۱۰… ’’ہمارے نبیﷺ نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے اور صاف فرمادیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘ تلک عشرۃ کاملۃ!
(ضرورت الامام ص۴، خزائن ج۱۳ ص۴۷۴)
قارئین عظام! آپ امام الزمان یعنی مجدد وقت کی عظمت واہمیت مرزاقادیانی کے اپنے اقوال سے ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اب ہم آپ کی خدمت میں ہر صدی کے آئمہ (اماموں) کے اقوال درج کرتے ہیں تاکہ قادیانی کے دعویٰ کی حقیقت الم نشرح ہو جائے۔
نوٹ: میں صرف انہیں امامان زمان کے اقوال درج کروں گا۔ جن کو قادیانی سچے امام تسلیم کر چکے ہیں۔ ثبوت ساتھ ساتھ ملاحظہ کرتے جائیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام احمد بن حنبلؒ مجدد وامام الزمان صدی دوم کا عقیدہ)

۱… ہم نے امام احمدؒ کی روایت سے ایک حدیث بیان کی ہے۔ جس میں انبیاء علیہم السلام کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر معراج کی رات صاف صاف اعلان کیا کہ وہ قرب قیامت میں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔
۲… ہم امام احمد بن حنبل کی روایت سے ایک مرفوع حدیث نقل کر آئے ہیں۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی کیفیت مفصل درج ہے۔
۳… امام احمد مجدد صدی دوم کی روایت سے حضرت عائشہؓ صدیقہ کی مرفوع حدیث بیان کر آئے ہیں۔ جس میں حضرت عائشہؓ صدیقہ رسول کریمﷺ کے پہلو میں دفن کئے جانے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حجرہ مبارک میں صرف حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے لئے ہی جگہ ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم زندہ نہیں تو قبر کے لئے جگہ رکھنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟
۴… ایک حدیث کو امام موصوف نے روایت کیا ہے۔ جس میں حضرت عمرؓ نے ابن صیاد کو دجال معہود سمجھ کر آنحضرتﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی۔ مگر آپؐ نے اجازت نہیں دی اور عدم اجازت کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ دجال معہود کا قاتل حضرت عیسیٰ ابن مریم ہے۔ تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر تم ابن صیاد کو قتل کردو تو وہ دجال معہود نہیں ہوگا۔
۵… امام احمدؒ کی ایک روایت کردہ حدیث درج ہے جو انہوں نے اپنی مسند میں کئی بار درج کی ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول جسمانی صاف صاف مذکور ہے۔
۶… امام ممدوح نے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کا اقرار خود حضرت رسول کریمﷺ کی زبانی مذکور ہے۔
۷… اسی طرح اس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی جسمانی زندگی کا اقرار موجود ہے۔
۸… ان کی روایت سے ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی مروی ہے۔
۹… امام احمدؒ اپنی مسند میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت فرماتے ہیں۔ ’’ قال ابن عباسؓ لقد علمت آیۃ من القرآن… وانہ لعلم للساعۃ قال ہو خروج عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ ‘‘

(مسند احمد ج۱ ص۳۱۸)
’’یعنی فرمایا حضرت ابن عباسؓ نے ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ کے معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کے قرب کا نشان ہوگا۔‘‘
۱۰… امام احمدؒ نے اور بھی بیسیوں حدیثوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کی ہے۔ جسے دیکھنا ہو۔ مسند احمد اٹھا کر ملاحظہ کر لیں۔ ’’تلک عشرۃ کاملۃ‘‘
ناظرین! قادیانی کی بیان کردہ عظمت واہمیت مجدد زمان کو سامنے رکھ کر دوسری صدی کے مجدد اعظم کا فیصلہ کس قدر اہم ہے؟ ظاہر ہے کہ جج کی عظمت شان کے ساتھ اس کے فیصلہ کی عظمت شان بڑھ جاتی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… مسلمانان عالم حضرت امام کے مرتبہ کے قائل ہیں۔ کیوں نہ ہوں جب کہ آپ کے شاگردوں کے شاگرد یعنی امام محمد ادریس الشافیؓ اور آپ کے مقلدین میں سے بیسیوں حضرات مجدد اور امام الزمان کے درجہ پر پہنچ گئے تو ان کے امام اور استاد کا درجہ کس قدر بلند ہوگا۔
۲… لیجئے! ہم مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں حضرت امام الائمہؓ کی عظمت شان کا پتہ دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی کہتا ہے۔
’’اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم وفراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت وعدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف سمجھنے میں ایک خاص دست گاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الٰہی سے ایک نسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد اور استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا۔ جس تک پہنچنے سے سب لوگ قاصر تھے۔ امام موصوف بہت زیرک اور ربانی امام تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۵۳۰،۵۳۱، خزائن ج۳ ص۳۸۵)
دیکھا حضرات! مرزاقادیانی ہمارے دعویٰ کی تصدیق کن پر زور الفاظ میں کر رہے ہیں۔ صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ امام موصوف ربانی امام تھے اور باقی سب آئمہ سے افضل تھے۔ باقی آئمہ میں سے امام شافعی اور امام احمد رحمہما اﷲ کو تو قادیانیوں نے امام الزمان اور مجدد تسلیم کر لیا ہے۔
امام اعظمؓ کی عظمت شان کو دل میں جگہ دے کر اب ان کا فیصلہ بھی سنئے۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف فقہ اکبر میں فرماتے ہیں۔
’’ خروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیامۃ علی ماوردت بہ الاخبار الصحیحۃ حق کائن ‘‘

(الفقہ الاکبر ص۸،۹)
’’دجال اور یاجوج ماجوج کا نکلنا، سورج کا اپنے مغرب سے نکلنا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور دیگر علامات قیامت جیسا کہ احادیث صحیحہ وآثار صحابہ میں آچکی ہیں۔ وہ سب کی سب حق ہیں اور واقع ہونے والی ہیں۔‘‘
خیال کیجئے کن الفاظ میں حضرت امام الائمہؒ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام مالکؒ کا عقیدہ )

۱… ’’ وفی العتبیۃ قال مالک بینما الناس قیام یستصفون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشاہم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل ‘‘

(مکمل اکمال الاکمال شرح مسلم ج۱ ص۴۴۶، باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام)
’’امام مالکؓ فرماتے ہیں کہ لوگ نماز کی اقامت کو سن رہے ہوں گے۔ بس ان پر ایک بادل سایہ کر لے گا اور اچانک عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں گے۔‘‘
اس عبارت میں کس صفائی کے ساتھ حضرت امام مالکؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی ثابت کر رہے ہیں۔ اگر مراد اس نزول سے بروزی نزول لی جائے تو معنی اس کے یہ ہوں گے کہ کوئی شخص مثیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا (موافق دعویٰ قادیانی) ماں کے پیٹ سے اس وقت نازل ہوں گے جب کہ لوگ نماز کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے اور بادل نے سایہ کیا ہوگا۔ حضرات کیا مضحکہ خیز تاویل ہے۔ ایسی واہیات تاویلات سے خدا کی پناہ۔
۲… مشہور ہے کہ: ’’ الولد سرلابیہ ‘‘ یعنی اولاد باپ کے لئے بھید ہوتا ہے۔ نیز یہ ایک مسلم اصول ہے۔ ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘
امام مالکؓ کا عقیدہ یقینا وہی ہوگا جو علماء مالکیہ رحمہمااﷲ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مرزابشیرالدین محمود اپنے باپ کا قائم مقام ہے۔ اسی طرح شاگرد اپنے استاد ہی سے نقل کرتا ہے۔ ہم یہاں علماء مالکیہ کے اقوال نقل کر کے امام مالکؓ کے عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
قول علامہ زرقانی مالکیؒ
شرح مواہب قسطلانی میں بڑی بسط سے لکھتے ہیں:
’’ فاذا نزل عیسیٰ علیہ السلام فانہ یحکم بشریعۃ نبیناﷺ بالہام اواطلاع علی الروح المحمدی اوبمشاء اﷲ من استنباط لہ من الکتاب والسنۃ… فہو علیہ السلام وان کان خلیفۃ فی الامۃ المحمدیۃ فہو رسول ونبی کریم علی حالہ لا کما یظن بعض الناس انہ یأتی واحد من ہذہ الامۃ بدون نبوۃ ورسالۃ انہما لا یزولان بالموت کما تقدم فکیف بمن ھو حی نعم ہو واحد من ہذہ الامۃ مع بقائہ علیٰ نبوۃ ورسالۃ ‘‘

(شرح مواہب اللدنیہ ج۵ ص۳۴۷)
’’جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ رسول کریمﷺ کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ الہام کی مدد سے یا روح محمدی کی وساطت سے یا اور جس طرح اﷲ چاہے گا مثلاً کتاب اور سنت سے اجتہاد کر کے… پس اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت محمدی کے خلیفہ ہوں گے۔ مگر وہ اپنی نبوت ورسالت پر بھی قائم رہیں گے اور اس طرح نہیں ہوگا۔ جیسا کہ بعضے کہتے ہیں کہ وہ نبوت اور رسالت سے الگ ہوکر محض ایک امتی کی حیثیت سے ہوں گے۔ کیونکہ نبوت ورسالت تو موت کے بعد نبی ورسول سے الگ نہیں ہوتیں۔ پس اس شخص (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) سے کیسے الگ ہوسکتی ہیں۔ جو ابھی تک زندہ ہے۔ ہاں وہ امتی ہوگا۔ مگر اس کی نبوت ورسالت بھی اس کے ساتھ ہی رہے گی۔‘‘
یہ عبارت امام مالک کے مذہب کو کس بلند اور صریح آواز سے بیان کر رہی ہے۔ بروز وروز کے پرخچے اڑا رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے حیی کا لفظ استعمال کر کے قادیانیوں کی زبان بندی کا اعلان کر رہی ہے۔ مزید حاشیہ کی ضرورت نہیں ہے اور عاقل کے لئے تو اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ یہاں تو صریح اعلان ہے۔ حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام کا۔
قادیانی دھوکہ اور اس کا علاج
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’امام مالکؓ نے کھلے کھلے طور پر بیان کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔‘‘

(ایام الصلح ص۱۳۶،۱۳۷، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)
۲… ’’امام ابن حزم اور امام مالکؓ بھی موت عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور ان کا قائل ہونا گویا امت کے تمام اکابر کا قائل ہونا ہے۔ کیونکہ اس زمانہ کے اکابر علماء سے مخالفت منقول نہیں اور اگر مخالفت کرتے تو البتہ کسی کتاب میں اس کا ذکر ہوتا۔‘‘
(ایام الصلح ص۳۹، خزائن ج۱۴ ص۲۶۹)
۳… یہی مضمون مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (عربی مکتوب ص۱۳۲، کتاب البریہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱) میں لکھتا ہے۔
اس کا جواب اور اس دھوکہ دہی کا تجزیہ درج ذیل ہے۔
۱… امام مالکؓ کا عقیدہ اوپر مذکور ہوا اور باقاعدہ ان کے مذہب کی کتابوں کے حوالوں سے ہوا۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان بغیر حوالہ کے کس طرح منظور کر لیا جائے۔
۲… ہم مرزاقادیانی کی خاطر خود وہ حوالہ نقل کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے حوالہ یقینا اس واسطے نقل نہیں کیا کہ شاید کوئی خدا کا بندہ کتاب کو حوالہ کے مطابق کھول کر پڑھے تو راز طشت ازبام ہوکر الٹا ذلت کا باعث نہ بنے۔ مگر ہم تو اسی راز کے طشت ازبام کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ یہ حوالہ مرزاقادیانی نے مجمع البحار سے نقل کیا ہے۔ وہاں امام محمد طاہر مجدد صدی دہم نے یہ قول نقل کیا ہے۔مگر مرزاقادیانی نے اپنی خود غرضی اور دجل وفریب سے اگلی عبارت نقل نہیں کی۔ امام موصوف فرماتے ہیں۔
’’قالت مالک مات لعلہ اراد رفعہ علی السماء… ویجییٔ آخر الزمان لتواتر خبر النزول‘‘

(مجمع البحار ج۱ ص۵۳۴، بلفظ حکم مصنفہ امام محمدطاہر گجراتی مجدد صدی دہم)
’’یعنی مالکؓ کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سو گئے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پراٹھانے کا ارادہ کر لیا۔ (جاگتے ہوئے اوپر کی طرف پرواز کرنا اور کروڑہا میل کا پرواز کرنا طبعاً وحشت کا باعث ہوتا ہے)… اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ کیونکہ ان کے نزول کی خبر احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔‘‘
نوٹ: ’’ مات ‘‘ کے معنی ’’مرگئے‘‘ کرنا اور انہی معنوں میں حصر کرنا قادیانی کی کمال چالاکی ہے۔ اس کے معنی ’’نام‘‘ یعنی سوگیا بھی ہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
۱… ’’ مات ‘‘ کے معنی لغت میں نام کے بھی ہیں۔ دیکھو قاموس۔

(ازالہ اوہام ص۶۴۰، خزائن ج۳ ص۴۴۵)
۲… ’’ہواء ہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۴۰، خزائن ج۳ ص۴۴۵)
۳… ’’اماتت کے حقیقی معنی صرف مارنا اور موت دینا نہیں بلکہ سلانا اور بیہوش کرنا بھی اس میں داخل ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۹۴۳، خزائن ج۳ ص۶۲۱)
۴… ’’لغت کی رو سے موت کے معنی نیند اور ہر قسم کی بے ہوشی بھی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۹۴۲، خزائن ج۳ ص۶۲۰)
۵… ’’لغت میں موت بمعنی نوم اور غشی بھی آتا ہے۔ دیکھو قاموس‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۶۵، خزائن ج۳ ص۴۵۹)
اندریں صورت مرزاقادیانی کا کیا حق ہے کہ جہاں کہیں موت یا مات یا امات کا لفظ آجائے تو اس کے معنوں کو صرف مارنا یا مرنا ہی میں حصر کر دے۔ پھر ممکن ہے کہ بعض نے اس نیند ہی کو موت کی حالت سمجھ کر عارضی موت کا اقرار کر لیا ہو۔ ہماری بحث تو صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسدہ النعصری آسمان پر موجود ہیں اور وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے نزول فرما کر امت محمدی میں رسول کریمﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام محمد بن ادریس شافعیؒ)

۱… امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام محمدؒ کے شاگرد تھے اور امام محمد، امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ اگر امام شافعی کو حیات مسیح علیہ السلام میں آئمہ ثلاثہ سے اختلاف ہوتا تو ضرور اس کا اظہار کرتے۔ پس انہوں نے اس بارہ میں اپنی خموشی سے۔ ’’سکوتی اجماع‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
نوٹ: ’’سکوتی اجماع‘‘ کی حقیقت بیان ہوچکی۔ دیکھئے!
۲… نیز امام شافعی کے مذہب کے تمام مجددین مثل امام جلال الدین سیوطیؒ وغیرہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی تصریح کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام حسن بصری رئیس المجددین وسرتاج الاولیاءؓ)

امام حسن بصریؒ کا رتبہ:
۱… دنیائے اسلام میں صوفیائے کرام کے سلسلہ کے سرتاج مسلم ہیں۔
۲… بیسیوں مجددین امت کو ان کی غلامی کا فخر حاصل ہے۔
۳… امام موصوف ابن عباسؓ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔
(عسل مصفی ج۱ ص۹۱،۹۲)
اب امام موصوف کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے۔
۱… ’’ قال ابن جریر… عن الحسن وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موت عیسیٰ واﷲ انہ لحی الان عند اﷲ ولکن اذا نزل اٰمنوا بہ اجمعون ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۶)
’’امام ابن جریر (قادیانیوں کے مسلم امام ومحدث ومفسر فرماتے ہیں کہ) امام حسن بصری نے فرمایا کہ سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ایمان لے آئیں گے۔ خدا کی قسم وہ آسمان پر اب تک زندہ موجود ہیں اور جب وہ نازل ہوں گے تو سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
غور کیجئے! چھٹی صدی کے مجدد وامام مسلمہ قادیانی قادیانیوں کے مسلمہ مفسر وامام کی روایت سے امام المکاشفین کا قول قسمیہ پیش کرتے ہیں۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا صاف صاف اعلان ہے۔ قسمیہ اعلان میں تاویل جائز نہیں۔
لطف پر لطف یہ کہ امام موصوف کی اس قسمیہ تصریح کو حافظ ابن حجر عسقلانیؒ امام ومجدد صدی ہشتم مسلمہ قادیانی نے بھی فتح الباری میں بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے۔
۲… امام موصوف نے ایک صحیح حدیث رسول پاکﷺ کی روایت کی ہے۔ جس میں رسول پاکﷺ کا ارشاد ہے۔
’’ ان عیسیٰ لم یمت ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔ ’’ وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶)
اور وہی تمہاری طرف دوبارہ واپس آئیں گے قیامت سے پہلے۔ مفصل بحث اس حدیث کی پہلے مذکور ہے۔ وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔
۳… ’’ اخرج ابن جریر عن الحسنؓ وانہ لعلم للساعۃ قال نزول عیسیٰ ‘‘
امام ابن جریر نے امام حسن بصری سے روایت کی ہے کہ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا ہے۔
(درمنثور ج۶ ص۲۰)
ناظرین! یہاں بھی خیال فرمائیے۔ امام جلال الدین سیوطیؒ جیسے مجدد مسلم قادیانی انہیں کے مسلم محدث ومفسر کی روایت سے امام حسن بصری کا عقیدہ نزول عیسیٰ ابن مریم بیان فرمارہے ہیں۔ اگر اب بھی قادیانی اپنی ضد پر ڈٹے رہیں تو سوائے ’’اناﷲ‘‘ کے اور کیا کہا جائے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کا عقیدہ)

امام بخاریؒ کی عظمت شان از اقوال مرزا:
۱… ’’امام بخاری کی کتاب ’’بخاری شریف‘‘ اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ ہے۔ یعنی قرآن شریف کے بعد اس کا درجہ ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۷۶۲، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
۲… ’’اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کا قائل نہ ہوتا تو میں کیوں باربار ان کو اپنی تائید میں پیش کرتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲)
۳… ’’صحیحین (بخاری اور مسلم) کو تمام کتب پر مقدم رکھا جائے اور بخاری اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ ہے۔ لہٰذا اس کو مسلم پر مقدم رکھاجائے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵)
۴… ’’امام بخاری حدیث کے فن میں ایک ناقد بصیر ہے… بخاری امام فن نے اس حدیث کو نہیں لیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۴، خزائن ج۳ ص۱۷۳)
مرزاقادیانی کے ان اقوال سے قارئین پر واضح ہوگیا ہے کہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کا مرتبہ کس قدر بلند ہے۔

اب ہم امام بخاریؒ کی تصریحات دربارہ حیات عیسیٰ پیش کرتے ہیں۔

۱… ’’ عن عبداﷲ بن سلام قال یدفن عیسیٰ بن مریم مع رسول اﷲﷺ وصاحبیہ فیکون قبرہ رابعاً ‘‘

(اخرجہ البخاری فی تاریخہ درمنثور ج۲ ص۲۴۵ الاشاعۃ لاشراط الساعۃ البر زنجی ص۳۰۵)
’’امام بخاریؒ نے اپنی کتاب تاریخ میں حضرت عبداﷲ بن سلام صحابی سے ایک روایت درج کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیٹے مریم کے رسول کریمﷺ اور آپﷺ کے دونوں صحابی (حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ) کے ہمراہ دفن کئے جائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر (حجرہ مبارکہ میں) چوتھی قبر ہوگی۔‘‘
کس قدر صاف فیصلہ ہے۔ اگر امام بخاری حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل نہ ہوتے تو وہ نعوذ باﷲ ایسی ’’مشرکانہ‘‘ روایت کو اپنی تاریخ میں درج کر سکتے تھے؟ مفصل بحث اس روایت کی آئندہ ملاحظہ کریں۔
۲… امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے۔
’’ قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم ‘‘

(الحدیث بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
مفصل بحث حدیث نمبر:۱ پر بیان ہوچکی۔ اس حدیث میں صاف صاف الفاظ میں حضرت ابن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کا اعلان ہے۔
۳… امام بخاریؒ نے ایک مرفوع حدیث روایت کی ہے جو یہ ہے۔
’’ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘
اس میں حضرت مسیح ابن مریم کے نازل ہونے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ یہ دونوں حدیثیں امام بخاریؒ نے اس طریقہ سے ذکر کی ہیں کہ قادیانی جیسے محرفین کا ناطقہ بندکرنے میں کمال کر دیا ہے۔ امام موصوف نے بخاری شریف میں کتاب الانبیاء کی ذیل میں بہت سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیا ہے۔ اسی ذیل میں انہوں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کے حالات بھی لکھے ہیں۔ انہیں کے حالات لکھتے لکھتے امام بخاریؒ نے یہ دونوں مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں۔ جن میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کے نازل ہونے کا ذکر ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام بخاری کے نزدیک فوت شدہ ہوتے تو وہ ان کے نزول کی حدیثوں کو کس طرح اپنی صحیح میں درج کرتے اور پھر لطف یہ کہ تمام حالات اسی ابن مریم کے لکھے ہیں۔ جو قرآن کریم میں مذکور ہے۔ پھر کس طرح ان دونوں حدیثوں میں بیان کردہ ابن مریم سے مراد غلام احمد ابن چراغ بی بی قادیانی لیا جاسکتا ہے؟
چیلنج

مرزاقادیانی نے امام بخاری پر کئی جگہ افتراء اور اتہامات لگائے ہیں کہ وہ بھی وفات مسیح کے قائل ہیں۔ ہم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ یہ محض دجل وفریب اور افتراء ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی صداقت نہیں ہے۔ اگر قادیانیوں کو اس کے خلاف شرح صدر حاصل ہوتو کسی غیر جانب دار جج کے سامنے اپنے دعویٰ کو ثابت کر کے انعام حاصل کریں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام مسلمؒ کا عقیدہ)

مرزاغلام احمد قادیانی، قرآن کریم اور بخاری شریف کے بعد مسلم شریف کو تیسرے درجے پر تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
۱… ’’بحث میں صحیحین (بخاری ومسلم) کو تمام کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر۔ کیونکہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘

(تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵)
۲… ’’میرے پر یہ بہتان ہے کہ گویا میں صحیحین کا منکر ہوں… اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کا قائل نہ ہوتا تو میں اپنے تائید دعویٰ میں کیوں باربار ان کو پیش کرتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱ ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲)
امام مسلم اس مرتبے کا امام ہے کہ ان کی کتاب صحیح مسلم کو مرزاقادیانی اپنے ہی تسلیم کردہ مجددین امت کی کتابوں مثلاً مسند احمد، سنن بیہقی، سنن نسائی، مستدرک حاکم، طبقات ابن سعد اور مسند شافعی پر فضیلت اور ترجیح دے رہے ہیں۔ اب ہم امام مسلم جیسی بزرگ ہستی سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
چار روایات صحیح مسلم سے حیات ونزول مسیح کی پہلے درج ہوچکی ہیں۔
پہلی روایت
دوسری روایت
تیسری روایت
چوتھی روایت

نوٹ: ہم امام مسلم کی پیش کردہ احادیث کا مطلب خود مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کا فخر حاصل کرتے ہیں۔
۱… ’’صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زردرنگ کا ہوگا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲)
۲… ’’آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو زرد چادریں اس نے پہنی ہوں گی۔‘‘
(قادیانی رسالہ تشحیذ الاذہان ج۱۹۰۶ء ص۵، قادیانی اخبار بدر قادیان مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء ص۵)
قارئین! لطف پر لطف یہ ہے کہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے مسلم شریف کی عظمت کا گیت بھی گائے جاتے ہیں اور ان کی پیش کردہ احادیث کو ضعیف اور مشرکانہ بھی بتلائے جاتے ہیں۔ ’’ فاعتبروا یا ولی الابصار ‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (حافظ ابونعیمؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
حافظ ابو نعیم صاحبؒ چوتھی صدی کے مجدد وامام الزمان تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۳)
مجدد وامام الزمان کی شان آپ قادیانی کے الفاظ میں پڑھ چکے ہیں۔
اب ہم حافظ ابونعیمؒ کی تحریر سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’ قال رسول اﷲﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم المہدی تعال صلی بنا فیقول الاوان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ لہذہ الامۃ ‘‘
(ابونعیم الحاوی للفتاویٰ ج۲ ص۶۴، الفتاوی الحادیثیہ ص۳۲، باب فی ظہور المہدی)
’’فرمایا رسول اﷲﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم اتریں گے۔ پس مسلمانوں کے امیر یعنی امام مہدی کہیں گے آئیے نماز پڑھائیے پس حضرت عیسیٰ کہیں گے نہ۔ تحقیق تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اور یہ اس امت کی بزرگی ہے۔‘‘
۲… ’’ قال رسول اﷲﷺ ولن تہلک امۃ انافی اولہا وعیسیٰ فی آخرہا والمہدی فی اوسطہا ‘‘

(کنزالعمال ج۱۴ ص۴۶۶، حدیث نمبر۳۸۶۷۱، رواہ ابونعیم فی اخبار المہدی ، بحوالہ عسل مصفی ج۲ ص۹۴)
’’اور فرمایا رسول اﷲﷺ نے وہ امت ہرگز ہلاکت نہیں ہوگی۔ جس کے شروع میں میں ہوں اور اس کے آخر میں عیسیٰ ابن مریم ہے اور ہم دونوں کے درمیان امام مہدی ہے۔‘‘
۳… حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر شادی کریں گے اور صاحب اولاد ہوں گے۔ آپ کی شادی قوم شعیب میں ہوگی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سسرال ہیں۔ ان کو بنی جزام کہتے ہیں۔‘‘

(رواہ ابونعیم فی کتاب الفتن)
ناظرین غور کیجئے! کہ چوتھی صدی کے مجدد وامام کیسے صاف صاف الفاظ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت دے رہے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top