محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
جواب نمبر 3
اس آیت کی تفسیر جو مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کے پہلے حضرات نے لکھی ہے وہ پیش خدمت ہے
(1)مرزا غلام احمد قادیانیاس آیت سے بنص صریح ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح شامل ہیں مامور تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاویں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے۔(عصمت الانبیاء : روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 675)
(2)حکیم نور الدین بھیروی اس آیت میں سب انبیاء سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر دینے اور ان کے ظہور کی پیشگوئی کرنے کا عہد لیا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کے اپنی نبوت کا اندازہ کریں۔ (حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 391)
مرزا قادیانی اور حکیم نور دین کی کی ہوئی اس تفسیر سے معلوم یہ ہوا کہ تمام انبیاء سے حضور علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں عہد لیا گیا نہ کہ ہر نبی سے اس کے بعد آنے والی نبی کی نبوت کا عہد۔
جواب نمبر 4
آیت میں ثُمَّ جَآءَکُمۡ کے الفاظ قابل غور ہیں ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ تشریف لانے کو لفظ ثُمَّ کے ساتھ ادا کیا گیا ہے جو لغت عربی میں تراخی یعنی مہلت کے لیے آتا ہے یعنی جب کہا جاتا ہے "جاءني القوم ثم عمر" تو لغت عرب میں اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ مہلت کے بعد سب سے آخر میں عمر آیا لہذا ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ کے یہ معنی ہونگے کہ تمام انبیاء کے آنے کے سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
لو قادیانیوں یہ تو ہماری دلیل نکلی۔ یہ آیت تو ختم نبوت کی دلیل ہے۔
جواب نمبر 5
قادیانیوں کی پیش کردہ دوسری آیت الاحزاب آیت نمبر 7 میں جس عہد کا ذکر ہے وہ یہ والا عہد( آل عمران آیت 81 ) نہیں ہے۔اس آیت میں عہد کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء علیہم السلام سے اس بات کا عہد لیا کہ دین کی تبلیغ اچھی طرح کرنا اور کسی قسم کی تفرقہ اندازی نہ کرنا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد میں آنے والے نبی کی تصدیق کریں گے۔جیسے الشوریٰ آیت نمبر 13 میں ہے
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جو ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو ، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ ( پھر بھی ) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گذرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الاحزاب کی آیت نمبر 81 میں صرف اس بات پر عہد لیا گیا کہ اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ
اس آیت کی تفسیر جو مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کے پہلے حضرات نے لکھی ہے وہ پیش خدمت ہے
(1)مرزا غلام احمد قادیانیاس آیت سے بنص صریح ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح شامل ہیں مامور تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاویں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے۔(عصمت الانبیاء : روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 675)
(2)حکیم نور الدین بھیروی اس آیت میں سب انبیاء سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر دینے اور ان کے ظہور کی پیشگوئی کرنے کا عہد لیا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کے اپنی نبوت کا اندازہ کریں۔ (حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 391)
مرزا قادیانی اور حکیم نور دین کی کی ہوئی اس تفسیر سے معلوم یہ ہوا کہ تمام انبیاء سے حضور علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں عہد لیا گیا نہ کہ ہر نبی سے اس کے بعد آنے والی نبی کی نبوت کا عہد۔
جواب نمبر 4
آیت میں ثُمَّ جَآءَکُمۡ کے الفاظ قابل غور ہیں ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ تشریف لانے کو لفظ ثُمَّ کے ساتھ ادا کیا گیا ہے جو لغت عربی میں تراخی یعنی مہلت کے لیے آتا ہے یعنی جب کہا جاتا ہے "جاءني القوم ثم عمر" تو لغت عرب میں اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ مہلت کے بعد سب سے آخر میں عمر آیا لہذا ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ کے یہ معنی ہونگے کہ تمام انبیاء کے آنے کے سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
لو قادیانیوں یہ تو ہماری دلیل نکلی۔ یہ آیت تو ختم نبوت کی دلیل ہے۔
جواب نمبر 5
قادیانیوں کی پیش کردہ دوسری آیت الاحزاب آیت نمبر 7 میں جس عہد کا ذکر ہے وہ یہ والا عہد( آل عمران آیت 81 ) نہیں ہے۔اس آیت میں عہد کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء علیہم السلام سے اس بات کا عہد لیا کہ دین کی تبلیغ اچھی طرح کرنا اور کسی قسم کی تفرقہ اندازی نہ کرنا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد میں آنے والے نبی کی تصدیق کریں گے۔جیسے الشوریٰ آیت نمبر 13 میں ہے
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جو ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو ، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ ( پھر بھی ) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گذرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو ۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الاحزاب کی آیت نمبر 81 میں صرف اس بات پر عہد لیا گیا کہ اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ