محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
پہلی روایت میں قادیانی تحریف کا جواب
روایت
فقال له النبيُّ (ص) : اطْمَئِنَّ يَا عَمُّ! فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ
قادیانی استدلال
قادیانی روایت پیش کر کے کہتے ہیں دیکھو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد بھی ہجرت ہوتی رہے گی۔
اور اس روایت میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں خاتم المہاجرین کہا گیا ہے مطلب یہ کہ خاتم المہاجرین کا مطلب آخری مہاجر نہیں ہے۔ اسے طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں خاتم النبیین کہا مطلب خاتم النبیین کا مطلب بھی آخری نبی نہیں ہے (معاذاللہ)
جواب نمبر 1
قادیانی یہ روایت پیش کرتے ہیں کنزالعمال سے اور کنزالعمال میں اس روایت کی سند موجود نہیں ہے۔
اس روایت کی سند ابن ابی حاتم (المتوفیٰ 327 ھ) کی کتاب (العلل لابن ابی حاتم) میں ہے۔ وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ إبراهيم بن حمزة ، عن إِسْمَاعِيلَ بْنِ قَيْس، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْل بْنِ سَعْدٍ؛
امام ابن ابی حاتم اس روایت کو لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ موضوعٌ، وإسماعيلُ مُنكَرُ الْحَدِيثِ
﴿العلل لابن ابی حاتم رقم الحدیث 2619 جلد 6 صفحہ 404﴾
میرے والد نے کہا یہ موضوع روایت ہے اور اسماعیل منکر الحدیث ہے ۔
شیخ البانی صاحب نے بھی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
(سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ رقم الحدیث 7030 جلد 14 صفحہ 1131)
اور اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے اسماعیل بن قیس الانصاری (1)امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے(التاریخ الکبیر للبخاری رقم 1173 جلد 1 صفحہ 370، الضعفاء الصغیر للبخاری رقم 19 جلد 1 صفحہ 25)
(2)امام مسلم کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے(الکنی و الاسماء رقم 3206 جلد 2 صفحہ 788)
(3)امام نسائی کہتے ہیں یہ ضعیف ہے(الضعفاء والمتروکون للنسائی رقم 41 جلد 1 صفحہ 17)
(4) امام رازی کہتے ہیں یہ مجہول ہے(الضعفاء والمتروکون لابن الجوزی رقم 403 جلد 1 صفحہ 118)
تو اس طرح کی روایت پر عقیدہ بنانا کہاں تک درست ہوگا یہ قادیانی بتائیں۔
جواب نمبر 2
اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی یہ ہمارے عقیدہ کے خلاف نہیں ہے۔بات کچھ اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کا لشکر لے کر تشریف لےجا رہے تھے تو راستے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت کر کے مکہ شریف سے مدینہ تشریف جا رہے تھے۔راستے میں جب انہوں نے صحابہ کرام ( رضوان اللہ علیہم اجمعین )کو دیکھا تو افسوس کیا کہ مجھے ہجرت کرنے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ علیہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ
اطْمَئِنَّ يَا عَمُّ! فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ
اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں جس طرح میں انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں۔
اور اس روایت کو اگر صحیح مانا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ مکہ شریف سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔کیونکہ ہجرت دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہوتی ہے۔اور مکہ فتح ہونے کے بعد دارالاسلام ہے اور قیامت تک دارالاسلام ہی رہے گا۔
اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہو گئی جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ل اَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ
(صحیح بخاری رقم الحدیث 2783،2825،3899،4311 ، صحیح مسلم رقم الحدیث 1864 ،سنن ترمذی رقم الحدیث 1590،صحیح ابن حبان رقم الحدیث 4592، 4867)
اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو یہ تو ختم نبوت کی دلیل ہے نہ کہ قادیانی عقیدہ کی۔