• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1371} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی صاحب نے سوال کیا کہ حضور ؑ نماز تو پڑھی جاتی ہے لیکن کچھ لذت نہیں آتی اور نہ خوشی سے نماز کو دل چاہتا ہے ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ ۔تم دیکھتے نہیں کہ بیمار کا دل غذ ا کو نہیں چاہتا لیکن اس کو اگل نگل کر کے کھلاتے ہیں اسی طرح نماز کو دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ۔‘‘
ایسا ہی حضورؑ کے سامنے سوال ہوا کہ نماز میں حضور قلب پید انہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’ جب اذان ہو مسجد میں جاؤ یہی حضورِ قلب ہے ۔بندہ کاکام ہے کہ کوشش کرے۔ آگے خدا کاکام ہے ۔‘‘
{1372} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا ۔ حضورؑ نے کہلا بھیجا ’’ ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو۔‘‘ مگر کسی نے نہ سنا۔پھر حضورؑ خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں ۔پھر آپ نے فرمایا ۔’’اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کروگی ‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ پیٹو سکھنیو۔‘‘
{1373} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی خادمہ ۔فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی تابی میری خالہ کا ایک ہی بیٹا تھا جو فوت ہو گیا ۔وہ غم سے پاگل ہو گئی اور سارا دن بیٹے کی قبر پر پڑی رہتی تھی۔ لوگوںنے کہا کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دو۔ لوگ اس کو یہاں لے آئے ۔وہ نیچے رہا کرتی تھی ۔نیچے دالان میں گھڑے پڑے رہتے تھے وہ ان میں اپنا کرتہ ڈبو دیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ گھڑے اس کے واسطے ہی رہنے دو اور گھر کی ضرورت کے واسطے اور رکھ لو۔ ‘‘ جب وہ رونا شروع کرتی تو حضور ؑ خود اس سے پوچھتے کہ ’’ کیوں روتی ہے ؟‘‘ وہ کہتی کہ مجھے میر ا بیٹا یاد آتا ہے ۔تو حضور فرماتے کہ ’’ میں بھی تیرا بیٹا ہوں ‘‘ آخر وہ اچھی ہوگئی تو اس نے حضورؑ سے کہا ۔میں اپنی روٹی آپ پکایا کروں گی ۔ جو عورتیں روٹی پکاتی ہیں ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ۔ اس پر حضور ؑ نے اس کوآٹے کے پیسے الگ دے دئیے ۔ وہ اپنی روٹی خود پکایا کرتی تھی‘‘ ۔
{1374} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ جب صلاح الدین کوئی تین مہینے کا تھا۔ میں حضرت اقدس ؑ کی خدمت عالی میں سلام اور دعا کے واسطے روزانہ جاتی تھی۔ ایک دن جب میں آنے لگی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ ’’ٹھہر جاؤ آج ہم نے مِسّی روٹی پکوائی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی حضورؑ میرا بچہ ابھی چھوٹا ہے ۔میں سخت غذا سے بہت ڈرتی ہوں ۔میری والدہ سخت پر ہیز کراتی ہیں ۔اگر ذرا سی بھی ثقیل غذا کھائی جائے تو بچہ کو فوراً تکلیف ہوتی ہے ۔ مِسّی روٹی مَیں نہیں کھا سکتی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کھا لو کچھ تکلیف نہ ہوگی ۔‘‘ آپؑ اس وقت دیہات سے آئی ہوئی عورتوں کو کھانا کھلوا رہے تھے۔جب روٹیاں پک کر آئیں تو آپ نے گھی منگوا کر ان کو لگوایا اور مجھے مِسّی روٹی اور لسّی دی ۔میں نے بخوشی کھالی ۔ کوئی تکلیف اس سے مجھ کو یا بچہ کو نہیں ہوئی ۔
{1375} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک چھدوایا تو حضورؑ کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی ‘‘۔
جب نور جان اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پربڑا فضل ہو ا ہے ۔آبادی ہوگئی ہے ۔ہم امیر بن گئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ’’ اب امیر ہو کر ان پر آوازیں کستے ہو‘‘ ۔
{1376} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک بار نواں پنڈ کی دو عورتیں آئیں جن کے پاس کچھ گیہوں تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ ’حضور! اب کے فصل بہت کم ہوئی ہے ۔‘ میں پندرہ یا سولہ سیر لائی ہوں ۔ فرمایا ’’ لے جاؤ‘‘ کہا حضور! اب کے ٹڈی(ملخ) پڑگئی ہے ۔فصل نہیں ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’لے جاؤ ہم کو معلوم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا حضور! اب ہم لے آئی ہیں آپ لے لیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ نہیں لے جاؤ‘‘ دوسری عورت سے فرمایا کہ ’’ تم بھی نہ لانا۔‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سب کو منع کر دو کوئی حق فصلانہ نہ لاوے‘‘ ۔
{1377} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ’’ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں ۔کوئی شادی تھی۔ ان عورتوں نے ماتھا ٹیکا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کو سجدہ کرنا منع ہے۔‘‘ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ’’ ان کو سمجھا دواور خوب ذہن نشین کرادو کہ سجدہ صرف خد اکے لئے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہئے ‘‘ ۔
{1378} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ خان بہادرغلام محمد صاحب گلگتی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں پہلے پہل گلگت سے اپنے خاوند کے ہمراہ بیعت کے واسطے آئی ہوں ۔میرے خاوند نے مجھے حضور کے مکان کے اندر بھیج دیا۔ کوئیں کے پاس حضرت اماں جان پیڑھی پر بیٹھے ہوئی کچھ دھو رہی تھیں ۔انہوں نے میرے آنے کی اطلاع حضورؑ کو بھیج دی ۔اس وقت حضورؑ اوپر کی منزل پر تھے ۔مجھے بلا بھیجا ۔میں ایک عورت کے ساتھ اوپر گئی۔تو حضورؑ نے ایک موٹا سا کپڑا میری طرف پھینکا کہ’’ اس کو پکڑ لو ۔اور جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتی جاؤ۔‘‘پھر حضور ؑ جو کچھ بیعت لینے کے وقت فرمایا کرتے تھے فرماتے گئے ۔میں بھی کہتی گئی۔ بیعت کے بعد دعا فرمائی ۔
{1379} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیر کوآئے تو کچھ عورتیں بھی ساتھ تھیں۔واپسی پر سستانے کے لئے ہماری کچی مسجد میں بیٹھ گئے اور عورتیں بھی بیٹھ گئیں ۔ہماری عورتیں بھی وہاں چلی گئیں ۔سلام علیکم کہا اور پوچھا کہ حضورؑ کے واسطے کچھ پانی وغیرہ لائیں ؟ آپ نے فرمایا۔’’بیٹھ جائو‘‘ بتاؤ،تمہارے آدمی نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اگر نہیں پڑھتے تو ان کے نام لکھواؤ‘‘ ۔
{1380} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں اکثر یہاں رہاکرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے ۔ وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضورؑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضورؑ مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں ۔میں وہاں پرہی بیٹھی تھی ۔ حضورؑ نے فرمایا ۔’’ فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ حضورؑ وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے ۔ حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا ۔کہ’’ ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں‘‘ ۔
{1381} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خان صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے ۔سر شتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ’ جب دوسری دفعہ میں قادیان میں آئی تو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی مرحومہ کرسی پربیٹھی تھیں ۔میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام مجھے کچھ علم نہیں ہے میں سیدھی سادی ہوں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ خدا تعالیٰ سیدھے سادوں کو قبول کر لیتا ہے ‘‘ ۔
{1382} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے پہلے پہل فونو گراف منگوایا تو ان دنوں بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا جاتا اور سنا جاتا تھا ۔ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لالہ شرمپت وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی سنواؤ تو ہم نے اس میں تبلیغی فائدہ کو مدنظر رکھ کر ایک نظم بھروا دی ہے ۔ (وہ نظم مذکور حسب ذیل ہے )
آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے
کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے
باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے
حاصل ہی کیا ہے جنگ وجدال و خلاف سے
وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو
تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو
مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں
جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں
دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے
جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے
دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما
کس کام کا وہ دیں جو نہ ہو وے گرہ کُشا
جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم
دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم
وہ لوگ جوکہ معرفتِ حق میں خام ہیں
بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں

یہ نظم لالہ شرمپت وغیرہ کی موجودگی میں سنائی گئی پھر اُسی وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے سورۃ مریم کے ایک یا دو رکوع فونو گراف کے سامنے پڑھے ۔وہ بھی فونو گراف میں بھرے گئے ۔حضور علیہ السلام نے بھی یوں فونو گراف سنا‘‘۔
{1383} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ محترمہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب آپؑ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آکر آپ کوگالیاں دیا کرتا تھا۔ حضورؑ نے حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ ’’ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو ۔اس کا گلا گالیاں دیتے سوکھ گیا ہوگا۔‘‘ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’ میں بھیج تو دو ں مگر وہ کہے گا کہ مجھے زہر ملا کردیا ہے ‘‘۔واپسی پر آپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آکر گالیاں دیں ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے انہیں روکا۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب !مت روکو۔ ان کو دل خوش کرلینے دو‘‘ ۔
{1384} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں چارپائی پر لیٹا ہو ا تھا میں نے دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فرشتہ ہے اور میرے پاؤں کی طرف ایک فرشتہ ہے وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ایک نے دوسرے کو میاں شریف احمد(صاحب) کی نسبت کہا کہ وہ بادشاہ ہے۔ دوسرے نے کہا نہیں پہلے توا س نے قاضی بننا ہے ‘‘ ۔ ۱؎
{1385} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو۔ مُلانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کوڈالتے ہیں کتے اور کوّے کھاتے ہیںاور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں ۔‘‘
{1386} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ ایک بار حضورؑ کے ساتھ مولوی شیر علی صاحب کے گھر کے قریب آئے۔ ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے ۔فرمایا ۔’’ یہ سب ہمارے ہی بازار ہیں ۔ سب احمد ی ہو جاویں گے ۔سب بازار ہمارا ہی ہے ۔‘‘ پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی ۔فرمایا ۔’’ پانی لاؤ اس کوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم سب نے پیا۔ فرمایا ’’ اس کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اس کا بھی ٹھنڈا ہے جو درزی خانہ کے پاس ہے ۔آپ نے فرمایا ’’ نہیں یہ بہت ٹھنڈا ہے اور لذیذہے اور بہت بہتر ہے ۔‘‘
{1387} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے حضرت اماں جان لاہور تشریف لے گئیں توہم نے

۱؎ بدر جلد ۶ نمبر ۱۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۔ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱ ۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ پراس رؤیا کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ’’ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’ وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ ‘‘
بازار سے تربوز منگوائے ۔ان کو کاٹ کراور مصری ڈال کر رکھ چھوڑا۔ میں ،سرور سلطان صاحبہ،زینب استانی صاحبہ اُم ناصر احمد صاحب فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سب مل کر کھانے لگیں ۔ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی۔ہم نے ایک ٹکڑا اس کو بھی کھانے کو دیا ۔ اس نے کھا کر درمیان میں جو برتن تھا اس میں چھلکا پھینک دیا۔تربوز کے پانی کی چھینٹیں اڑ کر ہم سب پر پڑیں ۔ہم کو بھی شرارت سوجھی۔ ہم نے اپنے اپنے چھلکے مائی تابی کو مارے۔وہ بیچاری غصہ ہوگئی اور حضرت صاحبؑ سے جاکر شکایت کی ۔حضورؑ نے گواہیاں لیں تو معلوم ہو اکہ پہل مائی نے کی تھی۔ پھر سب کو باری باری بلا کر پوچھا۔آپؑ ہنس پڑے اور فرمایا ۔’’ مائی پہل تم نے کی تھی‘‘ ۔
{1388} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ دن بھر یا تو عبادت کرتے رہتے تھے یالکھتے رہتے تھے اور جب بہت تھک جاتے تھے تو رات کے وقت حافظ معین الدین صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ’’کچھ سناؤ تاکہ مجھے نیند آجائے۔‘‘ حافظ صاحب آپ کو دبایا بھی کرتے تھے ۔ایک دن حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’حافظ صاحب کچھ سنائیے۔‘‘ حافظ صاحب سنانے لگے ۔سناتے سناتے حافظ صاحب نے سمجھا کہ حضورؑ سو گئے ہیں ۔وہ چپ ہو گئے حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’سنائیے میں سویا نہیں ۔میرے سر میں درد ہے ۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب نے صبح تک تین چار دفعہ کہا۔ صبح کے وقت آپؑ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب آتے تو حضرت ام المومنین کو جو بات وہاں ہوتی سنا دیا کرتے ۔آپؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے ۔
{1389} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ جب میں پہلی بار آئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھرجانا منع کیا ہوا تھا۔میں بھی ڈر کے مارے نہیں جایا کرتی تھی۔آپ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’فضل سے کہوکہ تم کو منع نہیں کیا ۔تم جایا کرو تمہاری رشتہ داری ہے ۔‘‘
{1390} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضورؑ باہر سیر کو تشریف لے گئے تو مستورات بھی ساتھ تھیں۔ آپؑ آدھے راستہ سے ہی واپس آگئے ۔راستہ میں تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے نام منی آرڈر آیا ہے ۔تو مسیح موعود علیہ السلام ڈاک خانہ سے پچاس روپے وصول کرتے ہوئے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1391} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ضلع گورداسپور کی عورتیں آئیں ۔ حضرت اماں جان کچھ گھبرا گئیں ۔ گاؤں کی عورتیں جن کے سر میں گھی لگاہوتا ہے ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’ گھبرانے کی بات نہیں ۔مجھے تو حکم ہے کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ یَأْتونَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق ( یہ الہام ہیں ) آپ کو معلوم نہیں یہ میرے مہمان ہیں ۔‘‘
{ 1392} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اما ء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو ان میں سے بیوہ ،جوان اور مال دار تھیں ۔ مَیںان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہئے ‘‘ ۔ میں نے کہا جن کا دل نہ چاہئے وہ کیا کریں ؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کاکون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ’’اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گذار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کر لے ۔‘‘
{1393} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سات دسمبر اٹھارہ سو ننانوے کا واقعہ ہے ۔فرمایا کہ ’’ ہم نے گھر میں کہا ہو اہے کہ جب کوئی بھاجی کے طور پر کوئی چیز بھیجے تو نہ لیا کرو۔‘‘ پھرفرمایا کہ ’’ایک روز ایک عورت سکھ مذہب کی ہمارے گھر میں بعض چیزیں لے کر آئی ۔حسب دستور ہمارے گھر سے واپس کر دی گئیں ۔اس عورت نے کہا کہ واپس نہ کرو ۔ مجھے کوئی غرض نہیں ہے ۔مجھ پر آپ نے بڑا احسان کیا ہے ۔فرمایا کہ ہم نے اس عورت کو شناخت کیا۔اصل بات یہ تھی کہ اس عورت کے لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری تھی اور لڑکا قریب المرگ تھا وہ ہمارے پاس لڑکے کولے آئی اس کا علاج کیا گیا ،لڑکا اچھا ہوگیا۔ اس کے شکرانہ میں وہ کچھ چیزیں لائی تھی پھر ہم نے گھر میں کہا کہ لے لو یہ شکرگزاری کے طور پر ہے ‘‘۔( بھاجی وہ ہے جو بدلہ کے طور پر دی جائے ) ۔
{1394} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں نے درخواست کی کہ حضرت ! مرد آپ کی تقرریں سنتے رہتے ہیں۔ ہم میں بھی کوئی وعظ ونصیحت کریں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ اچھا ہم تقریر کریں گے ۔‘‘ پھر رات کو سب مستورات کو حضورؑ نے بلا بھیجا ۔کئی بہنوں کواس وقت بچے پیدا ہوئے ہوئے تھے اور چلوں میں تھیں۔ جب ان کو معلوم ہو اتو وہ ڈولیوں میں بیٹھ کر آگئیں ۔ساری تقریر تو مجھے یاد نہیں رہی یہ یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ عورتوں میں یہ مرض حد سے بڑھا ہو اہے کہ شرک کرتی ہیں اور پیردستگیرؒ کی منتیں مانتی ہیں اور ایک دوسری کی شکایت کرنا ان کا رات دن کاکام ہے ۔ اور عورتیں یہ دیکھنے آتی ہیں کہ یہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ روزے رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ان کو یہ چاہئے کہ یہ خیال کر کے آئیں کہ ہم مسلمان بننے آئے ہیں ۔اور نماز کے متعلق یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ عورتوں پر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کہ ان میں وہ نماز اور روزے نہیں اداکر سکتیں ‘‘۔
{1395} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرز امحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میری لڑکی صادقہ پید اہوئی جو اب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیوی ہے تو میںمیاں احمد نور کے مکان میں تھی۔ حضورؑ مولوی عبد الکریم صاحب کی بیوی کو روز بھیج دیتے کہ ’’جاکر کھانا وغیرہ پکا کردو‘‘ جب ذرا دیر ہو جاتی تو آپؑ فوراً بلا کر بھیج دیتے اور کہتے ’’مولویانی ! تم گئی کیوںنہیں ؟ جلدی جاؤ‘‘ ۔
{1396} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دونوں وقت دال پک کر آئی ۔حضورؑ کو علم ہو اتو آپ نے فرمایا ۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے مہمانوں کودونو ں وقت دال دی جائے ۔میں تو بدل بدل کر کھانا کھلاؤں گا ۔یہ میرے مہمان ہیں ‘‘ ۔
{1397} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کے ساتھ مقدمات چل رہے تھے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کئی کئی روز تک گورداسپور میں رہا کرتے تھے ۔ کچھ مدت اندرون شہر مولوی علی محمد صاحب جو محکمہ نہر میں ایک معزز عہدہ دار تھے ان کے مکان میں رہائش کا موقعہ ملا اور ان کے بھائی نبی بخش صاحب جو ان دنوں غالباً پنشنر تھے ان کے ہاں لڑکی تھی۔مولوی محمدعلی صاحب (حال امیر پیغام بلڈنگ لاہور) کے لئے اس کے رشتہ کی تحریک ہوئی جس کو حضور علیہ السلام نے منظور فرمالیا اور اس لڑکی کے والد صاحب نے بھی منظور کر لیا لیکن نکاح کرنے میں وہ غالباً ایک سال کی التوا چاہتے تھے۔ اس طرف مولوی محمدعلی صاحب کے لئے اور رشتہ بھی تیار تھا لیکن حضور علیہ السلام اس رشتہ کی منظوری دے چکے تھے اس لئے کسی کو یہ طاقت نہ تھی کہ کسی اور رشتہ کے لئے منظوری دے سکے ۔اس لئے ایک روز مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے مسجد مبارک میں بڑے زورکے ساتھ تجویز کی کہ آج ظہر کے وقت حضرت صاحبؑ کے سامنے زور سے عرض کی جائے کہ اور کئی رشتے آرہے ہیں اور کہ گورداسپور والا رشتہ ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ لڑکی والے ایک سال تک التوا چاہتے ہیں ۔اس لئے حضورؑ ایک دفعہ ان سے دریافت کر لیں اگر وہ نکاح کر دیں تو بہترورنہ کسی دوسری جگہ نکاح ہوجائے ۔جب حضور علیہ السلام نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو سوال کر دیا گیا اور زور دار الفاظ میں سوال کیا گیا ۔حضور علیہ السلام نے بھی درخواست منظور فرما کر خط بنام منشی نبی بخش صاحب تحریر فرما کر منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی(پٹواری سیکھواں ) کے حوالہ میری معیّت میں کردیا اور فرمایا کہ ’’ جس وقت گورداسپور پہنچو فوراً ان کے مکان پر جا کر ان سے دو حرفی جواب لو کہ یا وہ نکاح کردیں یا جواب دیں تاہم کوئی اور انتظام کر لیں ۔ ان دنوں رات کے ایک دو بجے کے قریب ریل گاڑی گورداسپور پہنچا کرتی تھی ہم نے گاڑی سے اترتے ہی اس کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور سوتے سے جگایا ۔ خط اس کو دے دیا اورزبانی بھی حقیقت سنا دی اور جواب د وحرفی کا مطالبہ کیا اس نے نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ جواب دیا کہ حضرت صاحب ؑ بادشاہ ہیں وہ مولوی صاحب کا کسی دوسری جگہ بھی نکاح کردیں۔ میں ایک سال تک ضرور نکاح کردوں گا۔ ہم نے کئی بار مطالبہ کیا کہ آپؑ یا نکاح کردیں یا انکار کردیں ۔منشی صاحب نے ہر بار نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ یہی جواب دیا جو اوپر لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر میں نکاح کر بھی دوں تو رخصتانہ ایک سال کو ہی ہوگا۔ آخر ہم اسی وقت اُس سے واپس ہوئے اور جواب آکر سنا دیا گیا۔حضورؑ خاموش رہے اور مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بھی منہ تکتے رہ گئے ۔حضور علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ’’ لڑکی والوں میں ایک حد تک استغناء ہوتا ہے اس کا قدر کرنا چاہئے ۔‘‘ آخر وہ نکاح ہوا اور وہ دلہن ہاںمبارک دلہن قادیان میں آباد ہوئی ۔کچھ مدت کے بعد بیمار ہو کر قادیان میں فوت ہوئی اور مقبرہ بہشتی میں مدفون ہوئی ۔ اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَھَا وَارْحَمْھَا وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن -
نوٹ: اس سے حضورؑ کی صداقت اور مقبرہ بہشتی کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نیک فطرتوں کو روکیں توڑ کر یہاں لاتا ہے جن کی فطرت نیک ہے آئیں گے وہ انجام کار
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب لاہور چلے گئے۔ اب تو مقبرہ بہشتی کو کانی آنکھ دیکھتے ہیں ۔یہ زمین کسی کو بہشتی نہیں بناتی بلکہ جو بہشتی ہوتا ہے وہ یہاں مدفون ہوتا ہے۔
{1398} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے ۔میری بڑ ی لڑکی چار سال کی تھی اوراس کو کالی کھانسی تھی ۔وہ کہتی تھی کہ اگرحضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تومجھے آرام ہوجائے گا ۔حضور کچھ لکھ رہے تھے۔ حضورؑ نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کے منقہ دیا اور ایک سفید رومال میںباندھ دیا اور فرمایا کہ سارا نہ کھا جائے ۔ تھوڑا تھوڑا کھائے گرم ہوتا ہے ۔وہ کھانے لگی اس کے کھاتے ہی اس کوکھانسی سے آرام ہوگیا۔ ورنہ ہم تو بہت علاج کر چکے تھے ۔حضور علیہ السلام کے ہاتھ کی برکت تھی۔
{1399} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بندوبست ۹۱؍۱۸۹۰ء کے وقت قادیا ن میں ایک افسر بندوبست مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میںرہتے تھے اور وہ حضورؑ کو بھی ملا کرتے تھے ۔نمازی تھے اور ان کا نام مولوی غلام علی صاحب تھا آخر میں وہ احمدی ہو گئے تھے ۔ان کو شکار کھیلنے کا شوق تھا ۔ ایک روز ان کو معلوم ہوا کہ ہندو محلہ میں کسی مکان میں بِلّا چھپا ہو اہے ۔مولوی صاحب موصوف معہ شکاری کتوں کے ہندو محلہ کی طرف چل پڑے ۔اس وقت میں اور میر ے بڑے بھائی صاحب میاں جمال الدین صاحب مرحوم موجو دتھے۔ ہم بھی ساتھ چل پڑے۔وہاں چل کر ایک بند مکان میں شکاری کتے گھس گئے اور بِلّا مکان سے نکلا۔کتوںنے اس کا تعاقب کر کے پکڑ لیا اور بہت شور پڑا۔ جبکہ بلّے کو کتے اِدھر اُدھر گھسیٹنے لگ پڑے ۔حضور علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ نہ سکے اور فوراً وہاں سے چپکے سے واپس ہوئے اور حضورؑ کی خاموش واپسی کو دیکھ کر ہم بھی واپس آگئے ( کسی کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے )۔
{1400} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری لڑکی آمنہ جب حضرت صاحب ؑ کے پاس آتی تو حضورؑ مٹھائی دیتے ۔جب نماز کا وقت ہوتا تو آمنہ کہتی کہ حضرت صاحب نماز اندر ہی پڑھیں ۔اماں جان فرماتیں کہ اس کی مرضی ہے کہ اندر نماز پڑھی جائے اور مجھ کو مٹھائی جلدی ملے تو حضورؑ مٹھائی دے کر جاتے ۔
{1401} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضورؑ کے بڑے باغ میں علاوہ درخت ہائے آم کے کچھ درختان بیدانہ بھی تھے لیکن ثمر بیدانہ مارچ اپریل میں تیار ہوجاتا ہے اور آم کا ثمر جولائی اگست میں تیا ر ہوتا ہے لیکن تاجر لوگ مارچ اپریل میں ہی سارے باغ کا سودا کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ تجویز ہوئی کہ جو ثمر پختہ ہو وہی بیع ہوناچاہئے اس لئے سردست بیدانہ بیع ہونا چاہئے اور تاجر بھی موجود تھے۔مگر حضورؑ نے ہمیں ترجیح دی اور ہمارے چودہ روپے نقد وصول کر لئے اور فرمایا کہ ’’ ان سے ہمیں کمی وبیشی قیمت کا سوال نہیں ۔‘‘
{1402} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے ۔حضور ؑ نے اونچا دالان رہنے کو دیا۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضورؑ کی خدمت میں سلام کو جاتی ۔حضرت اقدس ؑ و اُمّ المومنین صاحبہ ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے ۔میں سلام کر کے ایک چھوٹی چار پائی پر جوسامنے پڑی تھی بیٹھ گئی ۔میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھے ۔حضورؑ نے حضرت اُمّ المومنین سے دریافت کیا کہ ’’ کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے ہی پہنتی ہیں ؟‘‘ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ کیا تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’ حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں ۔‘‘ حضورؑ نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں ؟‘‘ میں نے عرض کی کہ نہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا ’’کیوں‘‘ ؟ میں نے پھر کہا کہ حضورؑ ! ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں ۔فرمایا کہ ’’ مہندی لگانا سنت ہے ۔ عورتوں کوہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں ۔‘‘ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جو لاہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پُڑا مہندی کابھی تھا۔آپؑ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ ’’گھر میں مہندی ہے ؟‘‘ انہوںنے بتایا کہ ’’مہندی گھر میں ہے ‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مراد خاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگایا کرے۔‘‘ وہ کپڑا ریشمی موتیا رنگ کا تھا۔اس دن سے میں عموماً مہندی لگاتی ہوںاور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں ۔
{1403} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میری شادی ہونے کے بعد جو رُڑ کی میں ہوئی تھی جب میں پہلی بار قادیان میں آئی تھی میری عمر۱۱سال کی تھی ۔ جب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور لایا گیا تو حضورؑ نے کمال شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک سرخ رومال میں بندھے ہوئے کچھ پونڈ دئے تھے ۔یہ یاد نہیں کہ کتنے تھے؟ میرے ساتھ میری چھوٹی والدہ اورایک ملازمہ بھی تھی ۔چندیوم کے بعد میرے والد رضی اللہ عنہ آکر مجھے لے گئے ۔پھر جب ماہ اکتوبر۱۹۰۳ء میں ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی آگرہ ہوگئی تھی ۔حضورؑ نے حضرت نانا جان اور نانی اماں کو اور میر اسحق صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ساتھ مجھے لینے کے واسطے بھیجا تھا۔
{1404} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہلیہ حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو فرمایا تھا کہ یہ نظم
’’ عجب نوریست درجانِ محمد عجب لعلیست درکانِ محمد ‘‘
والی پڑھ کر سناؤ ۔جب اس نے خوش الحانی سے سنائی تواس وقت حضورؑ گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے سنتے رہے۔
{1405} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ ؑ کا صاحبزادہ ،مبارک احمد تین سال کاتھا جب عصر کے وقت حضورؑ کو گھبراہٹ ہوتی تو پوچھتے کہ مبارک احمد کہاں ہے؟ اسے اندر لے آؤ ،دادی مرحومہ مغفور ہ ان کو اندر لے آیا کرتی تھیں ۔
{1406} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’آپ ؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے تو آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے تھے ۔‘‘
{1407} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’لوگ ماسٹر صاحب کو طنزاً کہا کرتے تھے کہ آپ کے مسیح کو تب جانیں گے جب آپ کے والد صاحب گالیاں دینے سے ہٹ جائیں گے ۔ماسٹر صاحب نے حضرت صاحب کو خط لکھا اور دعا کی درخواست کی۔ حضور کا جواب آیا کہ ہم نے دعا کی ہے اب گالیاں نہ دیں گے۔ اس پر ماسٹر صاحب نے ان لوگوں سے کہا کہ حضرت صاحب کا خط آگیا ہے۔ اب والد صاحب گالیاں نہیں نکالیں گے۔ اور وہ خط بھی ان کو دکھا یا۔ اس کے بعد پھر حضرت صاحب کی دعا سے انہوں نے کبھی گالیاں نہیں دیں۔
نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم
دستخط مریم ۔ دستخط نور احمد سنوری۔۴۵۔۱۔۲۶
دستخط سارہ ۔ ۴۵۔۱۔۲۶

{1408} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم ومغفور نے تحریراً بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب لدھیانہ تشریف رکھتے تھے تو ماسٹر صاحب نے گھر میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری سے کہا کہ وہ حضرت صاحب سے درخواست کریں کہ حضور ہمارے گھر تشریف لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حضور تشریف لے آئے تو آپ مجھے کیا دیں گے۔ ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ مٹھائی کھلائوں گا۔ اس پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے کہا کہ وہ مٹھائی بھی آپ حضور کی خدمتِ اقدس میں ہی پیش کر دیں۔ چنانچہ وہ گئے اور حضرت صاحب سے عرض کی۔ جس پر حضور ہمارے گھر تشریف لے آئے ماسٹر صاحب کے والد چونکہ احمدی نہ تھے اور کسی زمانہ میں شدید مخالفت بھی کرتے رہے تھے۔ اس ڈر سے گھر میں ان کو کسی نے اطلاع نہ دی کہ حضور تشریف لائے ہیں۔ جس وقت حضور واپس جا رہے تھے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیچھے سے دیکھ لیا۔ مگر جب بعد میں ان کو پتہ چلاتو انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔ اور فرمایا مجھے کیوں نہ اطلاع دی، میں نے تو حضور کو پیچھے سے ہی دیکھا ہے ۔ وہ تو واقعی شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میری بچی صغریٰ گود میں پیش کی گئی۔ جو اس زمانہ میں حضور کی دعا سے پیدا ہوئی تھی۔ حضور نے اس کے لئے دعا فرمائی اور اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا۔ تین بچے پیدا ہونے کے بعد میں بیمار ہو گئی تھی۔ جس سے بہت سے بچے ضائع ہو گئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے آتشک ہو گئی ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی اور حضور اقدس نے دعا فرمائی چنانچہ حضور کی دعا سے میری وہ بیماری دور ہو گئی اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے چار بچے دئیے۔ صغریٰ ۔ برکت اللہ ۔ مصلح الدین اور کلثوم اور وہ چاروں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں اور خود بھی بچوں والے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عِلٰی ذٰلک
نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم
دستخط نوراحمد سنوری ۴۵-۱-۲۵

{1409} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں آگرہ سے آئی تھی۔ میرے ساتھ ایک ملازمہ تھی ۔ میری لڑکی عزیزہ رضیہ بیگم جو کہ ابھی چار سال کی تھی وہ اس کی کھلاوی تھی۔ کچھ باتیں مزاح کی بھی اس کو سکھایا کرتی تھی ۔ ایک دن حضور علیہ السلام آنگن میں ٹہل رہے تھے ۔عزیزہ سلمہا نے چھوٹا سے برقعہ پہنا ہوا تھا ۔وہ حضورؑ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ حضورؑ ٹھہر گئے ۔عزیزہ نے رونی صورت بنا کر کہا ۔اُوں اُوں مجھے جلدی بلا لینا۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’تم کہاں چلی ہو؟‘‘ وہ نوکر کی سکھائی ہوئی کہنے لگی کہ میں سسرال چلی ہوں ۔اس پر حضور خوب ہنسے ۔فرمایا ’’سسرال جاکر کیا کروگی؟‘‘ کہنے لگی۔’’ حلوہ پوری کھاؤں گی ۔‘‘ پھر آنگن میں ایک چکر لگایا پھر آکر حضورؑ کے قدموں سے چمٹ گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’سسرال سے آگئی ہو؟‘‘ تمہاری ساس کیا کرتی تھیں ؟‘‘ عزیز ہ سلمہا نے کہا کہ روٹی پکاتی تھی۔تمہارے میاں کیا کرتے تھے ؟ کہا کہ روٹی کھاتے تھے۔ پھر پوچھا ’’ تم کیا کھاکر آئی ہو؟‘‘ کہنے لگی حلوہ پوری ۔حضورؑ نے فرمایا ’’اس کی ساس اچھی ہے ۔بیٹے کو تو روٹی دیتی ہے مگر بہو کو حلوہ پوری‘‘ ۔
{1410} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’جب حضرت خلیفہ ثانی میاں محمود کی شادی ہوئی ۔تو تائی صاحبہ یعنی حضرت اقدس ؑ کی بھاوجہ صاحبہنے مرا ثن کوکہا کہ ’’دہلی والی یعنی حضرت اُمّ المومنین اپنے بیٹے کا بیاہ کرنے لگی ہے ۔مریدوں کی بیٹیاں لے لے کر۔ اپنے خاندان کی لڑکیاں تو وہ لیں گے نہیں ۔تو پرانی خاندانی حقدار مرا ثنہے تو بھی ڈھولکی لے کر جا‘‘۔جب وہ آئی اور ڈھول بجانا شروع کیا تو حضورؑ اندر کمرے میں تھے ۔ ڈھول کی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا ’’ اس کو کہدو کہ یہ نہ بجائے ۔‘‘ اس طرح چند مرتبہ کہا تھا کہ’’ اس کو کہدو یہ نہ بجائے اور اس کو کچھ دے دو۔‘‘ چنانچہ اس کو پانچ روپے دئے تھے ۔مگر اس نے کہا کہ حضورؑ میں یہ نہیں لیتی ۔مجھے سردی لگتی ہے حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا اس کو ایک لحاف بھی دے دو۔وہ اس وقت پانچ روپے اور لحاف لے گئی تھی‘‘۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1411} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قبل از دعویٰ کا واقعہ ہے کہ حضورؑ مسجد مبارک کے شاہ نشین پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی قریب ہی بیٹھا ہوا تھا کہ نماز شام کے بعد میر عباس علی لدھیانوی آگئے ۔حضرت صاحب اٹھ کر ان کو ملے۔ وہ بھی شاہ نشین پر بیٹھ گئے اور بہت خوش خوش باتیں ہوتی رہیں اور وہاں ہی کھانا آگیا جو روٹی اور سبزی کریلے تھے جو گھی میں ہار بنا کر تلے ہوئے تھے۔ میں نے بھی کھائے اس وقت حضرت صاحب ؑ ،میں اور میر عباس علی ہی تھے۔ میرعباس علی بڑا ہی مؤدب تھا۔ افسوس! کہ بعد میں حالت بدل گئی۔
{1412} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا تھا اسی دن صلاح الدین کو سردی لگ جانے سے سخت بخار اور نمونیا ہوگیا تھا۔ڈاکٹر صاحب فرخ آباد ملازمت پر تھے ۔حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح اول ؓ کو علاج کے واسطے مقرر کردیا تھا۔ مولوی صاحبؓ دونوں وقت تشریف لا کر مریض کو دیکھتے اور علاج تجویز فرماتے تھے ۔جب آتے تھے تو باہر سے گول کمرہ کے دروازہ کا جو مسجد کے زینہ میں تھا کنڈا کھٹکھٹاتے ۔میں کہتی ’’ کون ہیں ‘‘ تو فرماتے کہ ’’نورالدین‘‘ حضرت اقدسؑ خود بھی آتے جاتے کمال مہربانی اور شفقت سے بیمار بچہ کا حال پوچھتے تھے اوراس کو پیار کرتے تھے‘‘۔
{1413} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ان دنوں میں جب کہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے واسطے کچھ کپڑے سیے جاتے تھے تو میں بھی روزانہ سینے کو چلی آتی تھی۔ اس وقت سعیدہ رشیدہ بیگم مرحومہ میری چھوٹی لڑکی کوئی سال سوا سال کی تھی اور اس کی کھلادی اس کو اٹھائے ہوئے میرے ساتھ ہوتی تھی۔ حضرت اقدسؑ اس کو روز بلایا کرتے تھے اور پیارسے لکڑی کے ساتھ چھیڑا بھی کرتے تھے ۔چونکہ موسم تبدیل ہو گیا تھا ۔ایک دن میں نے اس کو سفید کپڑے پہنا دئے ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ ’’ اس کا زیور کیوں اتار دیا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ زیور اس کو کبھی نہیں پہنایا گیا۔اصل بات یہ تھی کہ پہلے اس لڑکی کے عموماً ریشمی رنگین اور گوٹے والے کپڑے ہوتے تھے ۔حضور علیہ السلام ان کو زیور خیال فرماتے رہے ۔ اس لئے آج سادہ لباس میں دیکھ کر تعجب فرمایا تھا۔
{1414} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتدائے دعویٰ میں مولوی محمد حسین نے مخالفت دعویٰ کے متعلق کوئی مضمون شائع کیا اور وہ شائع شدہ مضمون حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا وہ بلا جلد ہی تھا اور حضور علیہ السلام کھڑے تھے اور ہم سہ برادران (خاکسار راقم ،میاں جمال الدین ؓ صاحب ومیاں اما م الدین صاحب) بھی کھڑے تھے ۔ہم سب کو فرمایا کہ ’’بٹالہ جاکر مولوی محمد حسین صاحب سے مل کر باتیں سنو۔‘‘ چنانچہ ہم بٹالہ چلے گئے اور وہ جمعہ کادن تھا ۔خلیفیانوالی مسجد میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے ۔نما زجمعہ کے بعد ایک چوبی منبر پر بیٹھ کرتقریرشروع کردی اور ازالہ اوہام ہاتھ میں تھا۔ ہماری طرف سے جواب شروع ہو گیا۔ لوگ سنتے رہے۔ اس وقت تک غیر احمدی کے پیچھے ترک نماز کا حکم نہ ہوا تھا ۔ اس کے بعد کبھی جمعہ اس کے پیچھے نہیں پڑھا۔

{1415} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں قادیان میں آئی ہوئی تھی اور میرا بچہ عبد القدیر جس کی عمر آٹھ سال کی تھی میرے ساتھ تھا اور اس چھت کے نیچے ہم رہے جس کے اوپر حضرت صاحب رہا کرتے تھے۔ایک دن عبد القدیر بہت رویا۔ وہ ضد کر رہا تھا کہ میں نے حضرت صاحب ابھی دیکھنے ہیں۔حضرت صاحب نے آواز سن کر صفیہ کی اماں کو بھیجا کہ ’’دیکھو کس کا بچہ روتا ہے ؟‘‘ مگر صفیہ کی اماں نے رونے کی آواز ہی نہ سنی کیونکہ مولوی صاحب عبد القدیر کو چپ کراچکے تھے۔
رات بھر عبد القدیر کو بخاررہا۔ہمیں ڈر تھا کہ اسے طاعون نہ ہوجائے کیونکہ قادیان میں طاعون کی وبا ہورہی تھی۔ خیر ہم نے رقعہ لکھ کر حضرت صاحب کو دیا ۔آپ نے مولوی صاحب کو اندر بلایا اور فرمایا کہ ’’کیا آپ کو ڈر ہے کہ طاعون ہوجائے گی ۔آپ خیال نہ کریں ۔عبد القدیر کو قبض کا بخار ہے ۔‘‘ پھر حضورؑ نے تین پڑیاں دیں اور کہا ’’جاؤ ایک پڑیا پانی سے کھلا دیں‘‘ ۔جب ایک پڑیا کھلائی تو وہ قے ہو کر نکل گئی ۔ حضور علیہ السلام کو بتایا تو فرمایا کہ’’ اور دے دو۔‘‘ دوسری اور تیسری بھی الٹی ہو کر نکل گئی ۔پھر حضورؑ نے دادی یعنی والدہ حضرت شادی خان صاحب جو صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کو رکھا کرتی تھیں کو بھیج کر مجھ کو بلایا اور پوچھا کہ ’’ عبد القدیر کی عمر کتنی ہے ؟‘‘ میں نے بتلایا کہ آٹھ سال ۔فرمانے لگے ۔’’مبارک احمد کی عمر ہے ۔‘‘ اس کے بعد کسٹر آئیل دیا جس سے آٹھ گھنٹہ بعد ایک قے آئی ،دست آیا اور بخار ہلکا ہو گیا ۔ پھر چار بجے عبد القدیر نے کہا کہ میں نے حضرت صاحب دیکھنے ہیں ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ بغیر اجازت نہیں لے جانا۔اجازت لے لیں پھر دیکھ لینا ۔ میں نے جاکر اصغری کی ماں سے کہا کہ حضرت صاحب سے کہو عبد القدیر روتا ہے۔ اگر حضورؑ اجازت دیں تو میں لے آؤں ۔ آپ نے فرمایا۔’’جلدی لے آؤ‘‘ حضور علیہ السلام پگڑی سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور مجھے فرمانے لگے ’’یہیں ٹھہر جاؤ‘‘ پھر حضورؑ نے عبد القدیر کی نبض دیکھی۔ اور منہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی کہ ’’صحت ہو اور عمردراز ہو۔‘‘ بس اسی وقت بخار کافور ہوگیا۔
{1416} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے پاس میری بھابی اور بھتیجا درد صاحب رہتے تھے ان کو طاعون کی وجہ سے مولوی صاحب ان کے والد صاحب کے پاس چھوڑآئے تھے ۔میں پریشان تھی ،میری پریشانی کا ذکر اصغری کی اماں نے جاکر حضور علیہ السلام سے کیا۔ حضور علیہ السلام نے مجھ کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ ’’تم پریشان ہو۔اچھا ہوا کہ مولوی صاحب چھوڑنے چلے گئے کیونکہ بچے اپنے باپ کے پاس اچھے ہوتے ہیں۔ یہاں بیماری ہے اس لئے اچھا ہوا ۔
{1417} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ احمد نور کی بیوی کو غشی آگئی ۔حضور علیہ السلام نے خود آکر دیکھا۔ دوائی دی ۔فرمایا۔ ’’ایک وقت گوشت اور چاول بھی دئے جائیں ۔ٹھنڈے ملک کے ہیں مرچ نہیں کھاسکتے ۔‘‘
{1418} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب لیکھرام آریہ حسب پیشگوئی سیدنا مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوا تو وہ دن عید الفطر کے بعد کادن تھا ۔اس سے قریباً چار پانچ روز قبل۲۶اور۲۷رمضان کی درمیانی رات جو ستائیسویں ماہ رمضان کی عموماً مسلمانوں میں مشہور رات ہے ۔ہم سب بھائی اور منشی عبد العزیزصاحب پٹواری اس رات مسجد مبارک میں ہی سوئے تھے ۔صبح کی نماز کے وقت حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج رات گھر میں دردزہ کی وجہ سے تکلیف تھی اور میں دعا کر رہا تھاکہ یکایک دعا کرتے کرتے لیکھرام کی شکل سامنے آگئی ۔ اس کے متعلق بھی دعا کر دی گئی اور فرمایا کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو دعا کرتے کرتے وہ معاملہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ایسا ہی آج ہو اہے کہ لیکھرام سامنے آگیا۔ پس چار پانچ روز بعد لیکھرام کی ہلاکت کی خبر آگئی اور اسی ستائیسویں رات میں لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ’’مبارکہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ وہی بابرکت ومبارک دختر ہے جن کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ سے ہوا ۔حضور علیہ السلام کو مدت پہلے الہام میں خبر دی گئی تھی کہ ’’نواب مبارکہ بیگم‘‘ ۔
{1419} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرورسلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب واہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور اہلیہ پیر منظور محمد صاحب ،حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول ؓ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُمّ وسیم سلمھا اللہ رہتی ہیں ۔پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ اور اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت اماں جان نے دریافت کیا کہ ’’اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں ۔ان سے کہدو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں ۔‘‘
{1420} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اصغری کی والدہ کھانا پکایا کرتی تھی۔ ایک دن کریلے گوشت کا سالن پکایا ۔حضور کو یہ سالن پھیکا معلوم ہوا تو کھانا لانے والی خادمہ کو فرمایا کہ اصغری کی اماں سے پوچھو کہ ’’کیانمک ڈالنا بھول گئی ہو؟‘‘ اس نے جا کر پوچھا تو اس کو اصغری کی اماں نے کہا کہ میں نے تو کئی مرتبہ نمک ڈالا تھا مگر میں نے خیال کیا کہ شاید میرے منہ کا مزہ اس وقت درست نہیں ہے اس لئے میں نے اور ڈالنا بند کر دیا تھا۔ پھر حضورؑ نے اس کو خود طلب کر کے پوچھا تو اس نے یہی کہا کہ میں نے تو نمک کئی بار ڈالا ہے ۔میں چکھتی رہی ہوں مگر سالن پھیکا ہی معلوم ہوتا رہا۔ حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ اصغری کی اماں ! باورچی خانہ کے طاق میں جو پھٹکری پڑی تھی کہیں وہی تو نہیں ڈال دی؟ مگر ا س نے انکار کیا بعدہٗ جب ایک عورت کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کہ طاق میں پھٹکری ہے یا نہیں ؟ اور اس نے جاکر دیکھا تو معلوم ہو اکہ پھٹکری وہاں نہیں ہے اس طرح یقین ہوگیا کہ سالن میں غلطی سے نمک کی بجائے پھٹکری پڑ گئی ہے ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’نماز کا وقت ہوچلا ہے کوئی اور چیز روٹی کے ساتھ کھانے کو منگا لو‘‘۔ اس وقت اور کچھ انتظام جلدی سے کر لیا گیا تھا۔
دوسرے دن جب کھانا آیا تو میں بھی وہاں موجود تھی ۔حضورؑ نے اصغری کی اماں سے دریافت کیا کہ ’’سچ سچ بتاؤ کہ سالن میں کل نمک ڈالا تھا یا پھٹکری ؟ تو اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ حضور غلطی سے پھٹکری پڑ گئی تھی۔ حضورؑ نے ہنس کر فرمایا کہ ’’کل تم نے کیوں نہیں مانا تھا کہ پھٹکری ڈالی ہے ۔‘‘ اس نے کہا کہ حضورؑ میں ڈرتی تھی کہ شاید حضور خفا ہوں گے ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کیاآج ہم خفا نہیں ہوسکتے ہمیں تو کل ہی پتہ لگ گیا تھا۔‘‘
{1421} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ علیہ السلام کی طبیعت میں کسی قدر مذاق بھی تھا۔ ایک دفعہ آپؑ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لئے دئیے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں لیں گے۔ ایک عورت نے کہا کہ حضورؑ اخروٹوں میں سے گریاں بہت نکلتی ہیں تو حضورؑ مسکرائے ۔
{1422} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب طاعون پڑی تھی۔ لوگوں کو حکم تھا کہ ’’باہر چلے جاؤ‘‘ ۔ میرے خسر صاحب قاضی ضیاء الدین صاحب کو حکم ہو اتھا کہ تم اسکول چلے جاؤ۔ ایک کمرے میں ہم اور ایک میں مولوی شیر علی صاحب ٹھہرے تھے۔ قاضی صاحب بیمار تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ حضور علیہ السلام کی زیارت کریں ۔کہتے تھے کہ جب حضورؑ اس طرف سے گزریں گے تو مجھے بتانا ،میں زیارت کروں گا۔
انہیں ایام میں جب حضرت صاحبؑ گورداسپور تشریف لے گئے تھے وہ فوت ہوگئے ۔جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہو اکہ قاضی ضیاء الدین صاحب کی یہ خواہش تھی کہ مجھے دیکھیں تو افسوس کیا کہ ’’اگر خبر ہوتی تو مَیں خود جا کر ان کو مل آتا۔‘‘
{1423} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب مرحوم ومغفور (حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگرہ سے آئی ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد نکاح ہوا۔مَیں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھا کر حضورؑ کے پاس لائی ۔ حضور علیہ السلام اس وقت ام ناصر احمد صاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرماتھے ۔حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرائے ۔
{1424} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم دربان زوجہ مددخان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرا نکاح کردیا تھا ایک مرتبہ جب میں واپس آئی تو اس وقت میرے دو بہت صغر سن بچے تھے ۔ ایک لڑکی۔ ایک لڑکا۔ حضور کی کمال مہربانی میرے حال پر تھی ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اصغری کمزور معلوم ہو تی ہے اسکے بچے چھوٹے ہیں ۔اسے ان کو سنبھالنا مشکل ہے اِسے بچوں کی خدمت کے واسطے ملازمہ رکھ دو۔‘‘ چنانچہ پہلے ایک عورت مائی کرموں رنگریزنی رکھی گئی ۔چند یوم کے بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’چھوٹے بچے کے واسطے بھی ملازمہ کھلانے کے واسطے رکھ دو۔‘‘ چنانچہ پہلی خادمہ کرموں کی نواسی بھی مقرر کی گئی۔ ان کو ایک روپیہ مہینہ اور کھانا دیا جاتا تھا۔
{1425} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میاں فضل الٰہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک کی ہمشیرہ قابل شادی تھی۔ حضرت خلیفہ اول ؓ کے لئے حضور علیہ السلام نے تحریک فرمائی ۔یہ عاجز اور بڑا بھائی میاں جمال الدین صاحب ؓ یہ تحریک لے کر فیض اللہ چک گئے اور تحریک سنا دی گئی ۔میاں فضل الٰہی مرحوم نے تو تسلیم کیا لیکن لڑکی کی والدہ نے انکار کیا ۔بعدش اس کی شادی ایک معمر عمر حیات نامی فیض اللہ چک کے ساتھ کی گئی ۔سنا گیا کہ اس لڑکی کی زندگی ہی برباد ہوگئی۔
{1426} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ بھابی ز ینب صاحبہ اہلیہ پیر مظہر قیوم صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۷ء میں بیعت کی تھی۔ ایک دن میں حضورؑ کی خدمت میں بیعت کرنے کو آئی ۔ رحیم بی بی نائن نے جا کر عرض کی ایک نابینا لڑکی بیعت کرنے کو آئی ہے ۔ حضور اندر سے تشریف لائے اور فرمایا کہ نماز ظہر کے بعد بیعت لیں گے ۔میں گھر چلی گئی جب ظہر کے بعد آئی تو حضورؑ نے فرمایا کہ عصر کے بعد۔میں وہیں بیٹھی رہی ۔عصر کے بعد جب میں نے عرض کی تو حضورؑ نے فرمایا کہ شام کو۔شام کو حضور ؑ نے ام ناصر احمد سلمھا اللہ کے مکان کے آنگن میں نماز مغرب وعشاء جمع کراکر پڑھائیں ۔حضور ؑ اور حضرت اماں جان نے پلنگ پر بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم سب عورتوں نے پیچھے شاہ نشین پر۔ مائی سلطانوں نے کہا کہ حضورؑ وہ لڑکی بیعت کرنے کو کھڑی ہے۔حضورؑ نے فرمایا کہ صبح کو۔صبح جب آئی تو حضورؑ سیر کو تشریف لے گئے تھے ۔حضورؑ واپس آئے تو پھر منشیانی نے کہا کہ حضورؑ وہ لڑکی پھر بیعت کرنے آئی ہوئی ہے ۔آپ نے فرمایا کہ ’’اس کو کھانا کھلا دیا ہے یا نہیں ؟‘‘ آپ نے سلطانوں کو بلا کر فرمایا کہ ’’ اس کوکھانا کھلادو۔‘‘ اس نے مجھے کھانا کھلادیا ۔کھانے کے بعد جب پوچھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ظہر کے بعد ،ظہر کے بعد فرمایا کہ ’’عصر کے بعد‘‘عصر کے بعد پوچھا تو فرمایا کہ صبح کو ۔میں گھر چلی گئی ۔
صبح دس بجے جب آئی تو حضورؑ دروازے میں کھڑے حافظ احمد اللہ صاحب کی لڑکی کلثوم کو بلا رہے تھے ’’کلثوم! کلثوم!!‘‘ جب وہ آئی تو اس کو انگور دئے پھر اس کو کہا کہ ’’ز ینب (یعنی اس کی بڑی بہن) کہاں ہے ؟‘‘ اس کو بلا کر بھی انگور دئے پھر مجھے بھی انگور دئے ۔کلثوم نے کہا کہ یہ بیعت کرنے کوآئی ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ظہر کے بعد ۔‘‘ میں وہیں بیٹھی رہی ۔ظہر کے بعد فرمایا کہ ’’لڑکی تیری بیعت ہوچکی ‘‘ اس طرح تیسرے دن میری بیعت قبول ہوئی تھی۔
{1427} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کشمیر سے بہت سے سیب آئے ۔حضورؑ نے فرمایا کہ سب گھروں میں تقسیم کردو۔ آٹھ آٹھ نو نو سیب گھروںمیں بانٹے گئے تھے۔ سیب بڑے بڑے اور بہت اچھے تھے۔ گھر میں سیبوں کا مربہ تھا وہ کچھ خراب ہو گیا تھا۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اس کو پھینک دو‘‘ بعض عورتوں نے عرض کی کہ یہ مربہ ان کو دے دیا جائے مگر آپ نے فرمایا کہ ’’ نہیں لوگ کھا کر بیمار ہوجائیں گے ۔‘‘ عورتوں نے کہا کہ اوپر سے پھینک دیتے ہیں ۔ نیچے والا اچھا ہوگا اس کو پھر پکا لیں گے ۔چنانچہ نیچے والا جو اچھا نکلا تھا اس کو پکا کر کچھ رکھ لیا تھا کچھ بانٹ دیاتھا۔‘‘
{1428} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں قادیان میں تھی اور حضرت ڈاکٹر صاحب لاہور گئے ہوئے تھے۔ ان دنوں میرے بھائی مظہر علی صاحب طالب جو ایسٹ افریقہ میں پوسٹ ماسٹر تھے انہوںنے واپس آنے کے واسطے رخصت لی تھی ۔ہم ان کے انتظار میں رہا کرتے تھے ان کی ڈاک بھی آنے لگ گئی تھی۔ابھی ہمیں معلوم نہ تھا کہ ان کا ارادہ وطن آنے کا سردست ملتوی ہو گیا ہے اب وہ اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظہر صاحب کے ساتھ ہی کچھ عرصہ تک آئیں گے کہ اچانک اطلاع ملی کہ وہ وہیں فوت ہوگئے ہیں اس پر ہمیں بہت صدمہ ہوا اور خصوصاً میری والدہ مکرمہ بوبوجی نے بہت غم کیا ۔ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ ’’جو اولاد پہلے فوت ہوجاتی ہے اپنے والدین کی بخشش کا موجب ہوتی ہے ۔اللہ کریم اس کی محبت بھری سفارش کو جو والدین کے لئے ہوتی ہے قبول فرما کر ان کو بھی بخش دیتا ہے ۔‘‘
{1429} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی صاحبہ ککے زئی فیض اللہ چک خادمہ والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی راجی جو لاہی جو پہلے زمانہ میں روٹیاں پکایا کرتی تھی ۔ اس نے ہم کو سنایا تھا کہ اکثر جب میں روٹیاں پکایا کرتی(تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی چھوٹے ہی تھے) آپؑ کھدر کے دوپٹہ میں روٹیاں رکھ کر گٹھڑی کندھے پر اٹھا کر باہر بھاگ جاتے جب میںمنع کرتی اور پوچھتی کہ ’’میاں ! کیا کررہے ہو؟‘‘توفرماتے کہ’’میں کوئی برا کام کررہاہوں؟ ‘‘ جب میں آپؑ کی والدہ کو پکارتی کہ دیکھو آپ کا بیٹا کیا کررہاہے ؟ اور وہ آکر پوچھیں تو کہتے کہ ’’باہر میرے ہم جولی ہیں ان کو روٹیاں نہ کھلاؤں ؟‘‘
{1430} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم آٹھ عورتیں بیعت کرنے کو آئیں ۔میری ممانیاں اور میری بھاوجیں۔ باہر سے ایک لڑکا آیا کہ ایک آدمی کا کھانا دے دو ۔حضور علیہ السلام واماں جان سامنے بیٹھے تھے وہ لڑکاکھڑا رہ کر چلا گیا ۔کھانا پکانے والی نے کچھ پرواہ نہ کی ۔ حضرت اماں جان نے کھانا پکانے والی کو کہا ’’تم نے کیوں اس کوکھانا نہیںدیا؟‘‘ اور کہا کہ ’’ جب کوئی سفید کپڑے والا آتا ہے تو تم اس کوکھانا کھلاتی ہو مگر میلے کپڑے والے کی پرواہ نہیں کرتی ۔‘‘ اماں جان نے اس کو نکال دیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1431} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں قادیان میں آئی تھی میرا بیٹا خواجہ علی اس وقت چھ یا سات سال کا تھا ۔اس کا باپ جو غیر احمدی تھا اس نے اور شادی کر لی تھی ۔جب میں حضرت صاحب کے گھر جاتی تو اُمّ المومنین فرماتیں کہ ’’یہ لڑکا باپ کے جیتے ہی یتیم ہے اس کو کچھ دو۔‘‘ اُمّ المومنین اس کو عموماً مٹھائی وغیرہ دیا کرتی تھیں۔
{1432} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ میں بھی معہ اس بچہ (یعنی خوا جہ علی صاحب) کے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور ان کے اہل وعیال کے ساتھ ہم رکاب تھی۔حضور علیہ السلام کی گاڑی پر لوگوں نے اینٹیں پھینکی تھیں ۔میرا خاوند پنواٹا میں ملازم تھا۔حضورؑ نے مجھے میرے خاوند کے پاس بھیج دیا ،فرمایا کہ’’ تم لڑکا لے کر اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ۔ ہم ابھی سیالکوٹ میں بیس دن ٹھہر یں گے ۔‘‘ فرمایا تھا کہ اگر تمہارا خاوند تم کو دِق کرے تو چلی آنا۔ ایک عورت جو کشمیری تھی میرے ساتھ بھیجی تھی۔ شام کو جب میں گھر پہنچی تو میرے خاوند نے کہا کہ مرزا کی بیعت چھوڑدے اور بدکلامی بھی کی ۔ میں نے کہا کہ ’’مجھے جوکچھ کہنا ہے بیشک کہو مگر ہمارے حضرت ؑ کو گالیاں نہ دو۔میں نہیں سن سکتی ۔اس پر اس نے مجھے مارا اور کہا کہ ’’مرزے کے اوپر کیوں چڑتی ہے۔ اگر بیعت نہیں چھوڑے گی تو میرے گھر سے نکل جا۔ میں نے کہا ’’بیعت نہیں چھوڑوں گی ۔‘‘ رات بھر لڑتے ہوئے گزری ۔ صبح کوبھوکی پیاسی لڑکے اور اس عورت کو ساتھ لے کر واپس سیالکوٹ آگئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ایسا ظالم ہے اس کو بچے پر بھی ترس نہ آیا ۔اچھااس نے اپنے بچہ کو دھکے دئے ہیں۔ اب وہ کسی اور بچے کا منہ نہیں دیکھے گا۔‘‘انجام اس کا یہ ہوا کہ جو عورت اُس نے کی ہوئی تھی اس کی اولاد پچھلے خاوند سے ایک لڑکا ۲۵سال کااور ایک لڑکی تھی ۔لڑکے کا بیٹا بھی ایک تھا جو کہ پندرہ یوم کے اندر ہی سب مر گئے اور وہ خود بھی لاولد ہی مر گیاہے۔ میرا بیٹا خوا جہ علی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہربانی تھی بفضل خدا صاحب اولاد ہے ۔
{1433} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے اپنے خاوند رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر حضورؑکی خدمت میں ان کی شکایات کیں اور کہا کہ میں اب گھر میں نہیں جاؤں گی۔ وہ ایک دن شاید نہیں گئی تھی۔حضورؑ نے حافظ صاحب کو جو حضورؑ کے قدیمی خادم تھے طلب فرما کر سمجھایا تھا کہ ’’عورتیں کمزور ہوتی ہیں ۔مردوں کو چاہئے کہ نرمی اختیار کریں ۔میں ایسی سختی پسند نہیںکرتا۔‘‘ ان کو سمجھا کر ان کی بیوی کو گھر بھیج دیا تھا ۔ حافظ صاحب نے معافی بھی مانگی تھی۔
{1434} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام جہلم کے مقدمہ سے واپس آئے تو چارپائی پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کپڑے سے صاف کئے ۔فرمایا ’’تم کو معلوم ہے سلطان احمدڈپٹی ہوگیا ہے ہم کو خط لکھا تھا دعا کرو۔ ہم نے دعاکی وہ ڈپٹی ہوگیا ہے ‘‘
{1435} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی (یعنی خاکسار وبرادران میاں جمال الدین مرحوم و میاںامام الدین صاحب ) مسائل فقہی کی بنا پر گاہے بگاہے بدیں طریق تجارت کرتے تھے کہ غَلّہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کو کسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے۔جب حضورعلیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہوگیا تواس وقت بھی ایک دفعہ غَلّہ خرید کیاگیا کہ غرباء کو دستورِ سابق دیا جائے ۔جب میں قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرلوں ۔چنانچہ حضور ؑ کی خدمت میں سوال مفصل طور پر پیش کردیا۔ حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ ’’ تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ جس لہجہ سے حضورؑ نے جواب دیا وہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جس سے ثابت ہو ا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت ناپسند ہیں ۔ پس واپس آکر ہم نے ارادہ ترک کردیااور بعد ازاں پھر کبھی یہ کام نہ کیا۔
{1436} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار صاحبزادہ مبارک احمد کچھ بیمار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مکڑی کا گھر ہوناچاہئے ۔‘‘ میں نے کہا حضورؑ! میں لاتی ہوں۔میں اپنے گھر سے چار پانچ مکڑی کے گھرصاف کر کے لائی ۔حضورؑ نے لے کر دوائی بنائی ۔‘‘
{1437} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہمارے گاؤں سیکھواں سے کچھ عورتیںآئیں جن میںمنشی عبد العزیز پٹواری کی بیوی بھی تھی جو ایک ٹوکری میں تازہ جلیبیاں لائی ۔حضور علیہ السلام پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔ایک خادمہ پاؤں دبارہی تھی۔ جلیبیوں کا رنگ بہت خوش نما تھا ۔ٹوکری لا کر اس نے حضورؑ کے سرہانے کی طرف پلنگ پر رکھ دی ۔حضورؑ نے ایک جلیبی اٹھا کر کھائی ۔ پیر دبانے والی خادمہ نے کہا کہ حضورؑ یہ جلیبیاں ہندوؤں کے ہاتھ کی بنی ہوتی ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ترکاریاں جو ہم روز کھاتے ہیں یہ گوبر کی کھاد کی بنی ہوئی ہیں ۔ دھودھا کر ہمارے آگے رکھ دیتے ہیں ہم کھالیتے ہیں‘‘ ۔
{1438} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مسماۃ غفور بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ہمشیرہ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میںقادیا ن میں اپنے بھائی کے ہاں آئی ہوئی تھی۔ ہم سب رات کو حضرت اماں جان کے پاس آئیں ۔ایک بڑے دالان میںہم سب بیٹھی ہوئی تھیں ،اماں جان بھی تھیں۔ حضورؑ کا چھوٹابچہ( مجھے یاد نہیں کہ کون سا صاحبزادہ تھا؟) رونے لگا ۔حضور علیہ السلام جو اُم ناصرکے آنگن میں دروازہ تھا اس میں سے باہرتشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورؑ نے کھڑکی میں سر اندر کر کے دریافت کیا کہ ’’ کیا بچہ چپ ہو گیا ہے ؟‘‘ تومعلوم ہوا کہ چپ کر گیا ہے توحضور علیہ السلام اندر تشریف لائے۔
{1439} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے زمانہ میں جو بھی کوئی عورت آتی حضورؑ کو سلام کرتی ۔حضور علیہ السلام وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کے بعد فرماتے کیا خد اکو جانتی ہو؟ رسول کو جانتی ہو؟ نماز پڑھتی ہو؟قرآن پڑھتی ہو؟ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھا کرو تاکہ تم کو سمجھ آجائے اس میں کیا حکم ہے؟
{1440} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ کو سردی بہت لگا کرتی تھی۔ آپؑ اپنی پگڑی کوکمر سے باندھ لیا کرتے تھے۔ جب آپؑ اندر نہ بیٹھ سکتے تھے تو حضرت اُمّ المومنین کو فرماتے کہ’’ میں اندرنہیں بیٹھ سکتا باہر چلو۔‘‘ آپؑ اُمّ المومنین سے الگ نہیں بیٹھا کرتے تھے۔اکثر ایسا ہوتا کہ آپؑ کو الہام ہورہاہوتا اور حضرت بیوی صاحبہ آپ کے پاس ہوتیں۔ آپ کو ان سے بہت انس ومحبت تھی۔ایک دن حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ ’’دنیا میں رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر میاں بیوی کا رشتہ سب سے بڑا ہے ۔ میرادل چاہتا ہے ۔ میں آپ کے ساتھ مروں۔
{1441} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی۔ایک مکان تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے ۔اس کے جنوب میں کرایہ پر لیا گیا تھا۔ ایک روز حضورؑ مکان کے اوپر کے حصہ میں تھے۔ نیچے والے حصہ میں ایک شخص قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا، سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے ۔‘‘ گویا تکلف سے قرآن کریم پڑھنے کو ناپسندفرمایا۔
{1442} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس سال عید قربان پر عربی زبان میں خطبہ مسجد اقصیٰ میں پڑھا ۔حضورؑ نے قبل از قرا ء ت خطبہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ ( خلیفہ اوّل) اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ کو تاکیداً فرمایا۔ ’’خطبہ کو ساتھ ساتھ لکھتے جانا کیونکہ جو کچھ اس وقت میں کہوں گا اس کے لکھنے میں غلطی رہ گئی تو بعدمیں مَیں بتا نہ سکوں گا۔چنانچہ جس وقت حضورؑ نے خطبہ شروع کیا تو ہر دو مولوی صاحبان لکھتے جاتے تھے پہلے حضورؑ نے کچھ حصہ خطبہ کا کھڑے کھڑے پڑھا اور بعد میں کرسی لائی گئی جس پر بیٹھ کر خطبہ کو ختم کیا۔دوران خطبہ میں الفاظ کی روانی کا یہ حال تھا کہ ہردومولوی صاحبان موصوف باوجود تحریری وعلمی قابلیت کے پیچھے رہے جاتے تھے حتیّٰ کہ بعض دفعہ فرمایا کہ’’جلدی کرو۔جلدی کرو‘‘ اور اس وقت حضور علیہ السلام پر ایک عجیب محویت کا عالم تھا کہ آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور چہرہ مبارک پُرنُور برستا ہوا معلوم ہوتا تھا اور بلا کسی قسم کی روک ٹوک کے عربی عبارت مسلسل اورمقفّیٰ پڑھتے جارہے تھے گویایوں معلوم ہوتا تھا کہ آگے کتاب رکھی ہوئی ہے یاجیسے کوئی حافظ قرآن پڑھتا جارہاہے۔ غالباً دو تین گھنٹہ تک مضمون خطبہ جاری رہا ہوگا۔ بعد میں مَیں نے سنا تھا کہ کسی صاحب کے سوال پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میری آنکھوں کے سامنے سلسلہ وار مضمون لکھا ہوا گزرتا جاتاتھا اور میں پڑھتا جاتا تھا۔‘‘
{1443} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بی بی زینب نے عرض کی کہ میرے ماموں فوت ہوگئے ہیں اور وہ احمدی نہ تھے ۔ان کا ایک لڑکا ہے دعا کریں کہ احمدی ہوجائے ۔ آپ نے پوچھا کہ ’’اس کا نام کیا ہے ؟‘‘میںنے بتایا کہ ’’اس کا نام غلام محمد ہے۔‘‘ حضورؑ نے لکھ لیا۔ آپ نے دعا فرمائی اور وہ احمدی ہوگیا ۔ الحمد للّٰہ علی ذالک ـ
{1444} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب بڑی سخت طاعون پڑی تھی تو حضورؑ نے حکم دیا تھا کہ لوگ صدقہ کریں ۔ چنانچہ لوگوں نے صدقے کئے اور حضورعلیہ السلام نے بھی کئی جانور صدقہ کئے تھے۔ گوشت اس قدر ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے والا نہیں ملتا تھا۔
انہی دنوں میں ماسٹر محمد دین صاحب جو آج کل ہیڈ ماسٹر ہیں ان کو طاعون ہو گئی تھی۔ ان کے واسطے حضور علیہ السلام نے کیمپ لگوادیا تھا۔ تیمارداری کے واسطے ڈاکٹر گوہر دین صاحب کو مقرر فرمایا تھا اور گھر میں ہم سب کو حکم دیا تھا کہ’’دعا کرو،خدا ان کو صحت دیوے۔ چنانچہ ان کو صحت ہوگئی تھی۔‘‘
{1445} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم دربان زوجہ مدد خان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دن میں اکیلی بیٹھی تھی۔ بادل گھرا ہو اتھا اور ترشح ہورہاتھا۔حضورؑ نے پوچھا کہ ’’تمہارا بچہ کہاں ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور خادمہ اپنے گھر لے گئی ہے ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اور تونے اس کو گھر لے جانے کی اجازت کیوں دی ؟ یہ لوگ گھر جا کر خود اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور بچوں کو زمین پر چھوڑ دیتے ہیں وہ بارش میں بھیگ رہاہوگا۔‘‘ حضور علیہ السلام نے ایک اور خادمہ سے فرمایا کہ ’’ جلدی جاکر اس کے بچہ کو لے آ۔‘‘ چنانچہ جب وہ عورت گئی تو دیکھا کہ وہ خود چکی پیس رہی تھی اور بچہ کو باہر زمین پر بارش میں بٹھایا ہوا تھا۔وہ خادمہ بھیگتے ہوئے بچہ کو اٹھا لائی تو ہم لوگ حیران ہوئے کہ جس طرح حضورؑ نے فرمایا تھا کہ بچہ بارش میں بھیگ رہاہوگا۔ ویسا ہی ظہور میں آیا۔
{1446} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اُم ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضورؑ اس کو مہیا کردیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔
میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضورؑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضورؑ بھوک لگی ہے ۔حضورؑ کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے ۔مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے ،ہم کھانے والی دونوں ہوتیں تھیں مگر ہم تین یاچار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی۔
{1447} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو الہام ہے کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ اس کی ایک قرأت یہ بھی ہے کہ ’’دنیا میں ایک نبی آیا‘‘ (یعنی بجائے ’’نذیر ‘‘ نبی کا لفظ الہام میں ہے )۔
{1448} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص نے سوال کیا کہ جبکہ اعمال محدود ہیں تو نجات ابدی کیونکر ہے؟ فرمایا کہ موت بندہ کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہے اگر وہ ہمیشہ زندہ رہتا تو اعمال کرتا رہتا لیکن خدا نے اس کو موت دے دی ۔ یہ اختیار سے باہر ہے لہذا نجات ابدی ہے ۔‘‘
{1449} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’نبی جب مجلس میں بیٹھتا ہے توگویا دکانِ عَطاّری کھولتا ہے ہر ایک کو (یعنی روحانی مریضوں کو) مناسب حال نسخہ جات بتاتا ہے۔‘‘
{1450} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ ’’طاعون کم سردی میں شروع ہوتی ہے اور جب طاعون کے آثار دیکھنا تو باہر چلی جانا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام میرے پاس باہر رہنے کاسامان نہیں ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’موٹے موٹے گدیلے بنا کر چلی جانا ۔‘‘ جب طاعون شروع ہوگئی تو میں ڈرتی تھی کہ حضورؑ نے فرمایا تھا کہ ’’باہر چلے جائیں ‘‘ لیکن میرے خاوند نے کہا کہ چونکہ ہمارے باہر جانے سے مسجد ویران ہو جائے گی اس لئے ہم نہیںجاتے ۔ تو خداتعالیٰ نے حضرت صاحب کی معرفت میرے خاوند کو کچھ بتلادیا اس لئے ہم باہر نہ گئے ۔
{1451} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت نانی جان صاحبہؓ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اور حضرت ناناجان صاحبؓ کے لئے حضور علیہ السلام سے دعا کرایا کرتی تھیں نیز مولوی محمد علی صاحب جواَب پیغامی ہیں ان کی بیوی جن کا نام ’’فاطمہ‘‘ تھا اپنے اور اپنی بیٹی رقیہ کے لئے دعا کرایا کرتی تھی۔ مولوی فضل الدین صاحب بھی دعا کرایا کرتے تھے جو میرے شوہر ہیں ۔ جب وہ حضرت صاحب سے خاص محبت میں رخصت مانگا کرتے تھے تو حضورؑ اجازت نہ دیا کرتے تھے ایک بار جس دن ہم نے جانا تھا تو حضور علیہ السلام کو ایک الہام ہوا کہ جو کہ خطرناک تھا۔ حضورؑ نے مجھے رقعہ لکھ کر دیا کہ مولوی صاحب کو دے آؤ۔ میں نے رقعہ پہنچا دیا اور مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ایک رقعہ لکھ دو میںنے حضورؑ کو دعا کے لئے دینا ہے ۔ انہوں نے لکھ دیا۔میں لے کر چلی گئی اور پوچھا۔حضور اس رقعہ کو الماری میں لگا دوں ؟ حضورؑ نے فرمایا ۔ ’’ہاں ! وہاں پر میرا بہت کام رہتا ہے ۔‘‘ اور میں حکم کی تعمیل کر کے چلی گئی۔
{1452} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے جب پہلا بچہ نصیر احمد پیدا ہونے والا تھا میری طبیعت خراب تھی۔ مجھے دورہ ہوگیا ۔ میں اس وقت بیت الدعا میں تھی۔خادمہ مجھے دبا رہی تھی ۔حضور علیہ السلام بار بار دریافت فرماتے تھے کہ ’’ کیا حال ہے ؟‘‘ حضورؑ نے مجھے دوا بھی بھیجی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانی اس وقت گھر میں نہیں تھے ۔جب آئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ محمود تم کو معلوم نہیںکہ محمودہ بیمار ہے؟ جاؤ دیکھو اور مولوی صاحب ( حکیم الامت ) کو بلا کر علاج کراؤ‘‘ حضرت میاں صاحب پہلے میرے پاس آئے ،حال پوچھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا کر علاج کرایا۔‘‘
{1453} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اُم ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ جب بڑا زلزلہ آیا صبح کا وقت تھا ۔یکایک شور وغل کی آوازیں آئیں اور جھٹکے شروع ہوگئے ۔ہم اس وقت گھر میں وہ کمرہ جو کوئیںکے اوپر تھا اور اب گرا دیا گیا ہو اہے ،اس میں تھے ۔نو کریں باہر سے دروازہ کھٹکھٹا تیں کہ دروازہ کھول کر باہر نکلو۔ حضرت خلیفہ الثانی رضی اللہ تعالیٰ چارپائی پر چڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش فرماتے مگر جھٹکوں کے باعث کھول نہیں سکتے تھے ۔کنڈی کُنڈے سے کچھ ہی پیچھے ہٹاتے تھے کہ زلزلہ کے جھٹکے سے ہاتھ چھوٹ جاتا اور حلقہ پیچھے ہٹ جاتا ۔کئی بار ایسا ہوا ۔بمشکل کنڈی کھولی ۔ سردی بھی لگ رہی تھی۔ میںنے پردہ کے واسطے چادر اٹھانی چاہی مگر میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے جلدی سے باہر کھینچ لیا ۔وہاں آنگن کی کنڈی بند تھی اسے بمشکل کھولا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سب خدا کے حضور سجدہ میں گرے پڑے تھے ۔میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھنی تھی میں کھڑی رہی ۔ حضرت میاں صاحب نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سجدہ میں گرادیا۔
{1454} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال لاہور میںہو اہے توڈاکٹر صاحب خلیفہ رشید الدین صاحب ایک سال کی رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے۔ آپ نے بہت خواہش کی کہ حضورؑ ان کو بھی اپنے ہمرکاب لاہور جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جاوے۔ مگر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’تم یہاں گھر کی حفاظت کرو۔بابو شاہ دین صاحب بیمار تھے ان کاعلاج معالجہ بھی کرتے رہو۔اور کہ اپنے آدمی کا پیچھے گھر میں ہونا ضروری ہے ۔ روزانہ خبر بھیجتے رہا کرو۔‘‘ اور اپنے حجرہ میں ڈاکٹر صاحب کو اور مجھے رہنے کا حکم فرمایا ۔ میری والدہ اور بھاوجہ اس جگہ تھے جہاں اب ام ناصر احمد سلمہ ہیں ۔جب حضورؑ کو لاہور میں تکلیف تھی اور جب تک حضورؑ کے وصال کی خبر وصال کے دن عصر کے وقت تک نہ آئی تھی۔ مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو ایسی پریشانی تھی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ دل بیٹھا جاتا تھااور دماغ چکر اتا تھا۔کسی پہلو قرار نہ تھا ۔جب خبر پہنچی تو حالت دگرگوں ہو گئی اور معلوم ہو اکہ پہلا قلق اس ناشدنی خبر کا پیش خیمہ تھا۔
{1455} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں سورۃ الحمد شریف کے مضامین کے متعلق ذکر فرما رہے تھے اسی ضمن میں فرمایا کہ ’’ایمان بین الخوف والرجا ہے اور سورۃ الحمد شریف میں الرَّحْمٰان اور الرَّحِیْم فرما کر ساتھ ہی مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن فرمایا۔ اس سے ثابت ہے کہ اگر ایک طرف رَحْمٰن ورَحِیْم ہے تو دوسری طرف مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی ہے ۔ کیسا دونو ں فقروں میں خوف ورجا کو نبھایا ہے ۔‘‘
{1456} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے کنجری کے مال کے متعلق فرمایا کہ’’دینی جہاد میں خرچ کر لیا جائے۔ کیونکہ جب دشمن اسلام پر حملے کررہاہواور اہل اسلام کے پاس گولہ بارود (کے لئے)کنجری کے مال کے سوا نہ ہو ۔ تو کیا دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ کنجری کا مال ہے، ہم استعمال نہیں کرتے۔ ہر چیز خد ا کی مملوک ہے ،خد امالک ہے ۔اس کی طرف جا کر پاک ہوجاتی ہے ۔‘‘
{1457} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںخیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سُندر سنگھ صاحب ساکن دھر مکوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا ۔ ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی ۔سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے ۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ،اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے ،اسلام میں جائز ہے ۔‘‘ کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی۔ آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولاد ہوئی۔
{1458} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ٹوپی سلمہ ستارہ کی بڑی خوبصورت بنی ہوئی تھی۔ میاں شریف احمد صاحب اس وقت چھوٹے بچہ تھے وہ اس ٹوپی کو ٹھوکریں مارتے اور پاؤں میں دباکر دوسرے ہاتھ سے کھینچتے تھے ۔ہم عورتوںنے منع کیا مگر نہ مانے ۔حضرت اماں جان کے منع کرنے پر بھی نہ رُکے ۔حضرت اماں جان نے حضورؑ سے عرض کی کہ ’’شریف ٹوپی خراب کررہاہے ۔‘‘ حضور ؑنے باہر آکر دیکھا اور فرمایا کہ ’’ کیا ہو ا بچہ تو ہے میں نے بھی جب میں چھوٹا تھا ایک خوبصورت کرتہ جو نینوں کا تھا پھاڑ دیاتھا ۔‘‘ ’’ بچہ جو ہوا‘‘ چند مرتبہ فرمایا تھا ۔اس پر میاں شریف احمد صاحب ٹوپی چھوڑ کر چلے گئے ۔
{1459} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ کسی نے تین ترکی ٹوپیاں بھیجیں ۔حضور علیہ السلام نے تینوں بچوں کو بلوا کر تینوں ٹوپیاں حضرت میاں محمود احمدصاحب ،میاں بشیر احمد صاحب ومیاں شریف احمد صاحب سلّمھم کے سروں پر رکھ دیں اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے ۔آپؑ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ آیا ٹوپیاں ٹھیک ہیں یا کیسی ہیں ؟
{1460} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے قبول ہونے والی دعا کے متعلق فرمایا کہ دعا کیا ہے کہ جیسے مرگی کی حالت یکایک وارد ہوتی ہے اسی طرح دعا کی حالت انسان پر وارد ہوتی ہے‘‘ ۔
{1461} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے رو زمسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہو ئے بار ہا دیکھا ہے ۔ عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے ۔
{1462} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی مجلس میں ’’ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ‘‘ پر ذکر ہوا ۔فرمایا کہ ’’حضور قلب یہی ہے کہ جب اذان ہو مسجد میں چلا جاوے ۔آگے نمازمیں توجہ قائم ہو یا نہ ہو ۔یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار کی بات ہے ۔بندہ کا کام ہے کہ وقت پر حاضر ہو جائے ۔‘‘
{1463} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بڑے زلزلہ کے بعد جب میں آگرہ سے آئی تھی تو خادمہ اصغری کی والدہ اور دوسری عورتوں نے مجھے بتایا تھا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام میاں محمود یعنی خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعریف فرماتے تھے کہ ’’اس نے ایسے گھبراہٹ اور خطرناک وقت پر جوزلزلہ کے خوف سے پیدا ہو گیا تھا اپنی بیوی کو سنبھالے رکھا اور اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔ایسے نازک وقت پر عورتیں بسا اوقات اپنے بچوں کو بھی بھول جاتی ہیں ۔‘‘
{1464} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب قادیا ن میں پہلی مرتبہ اینٹوں کا بھٹہ جاری ہوا تھا تو حضرت اقدس اُمّ المومنین اور دوسری بعض عورتوں کو اپنے ہمراہ سیر پر لے گئے تھے اور بھٹہ جس میں اینٹیں پک رہی تھیں دکھایا تھا۔ حضور ؑ نے بتایا اور سمجھایا تھاکہ کس طرح اس میں کہاں اینٹیں رکھی جاتی ہیں ۔ کیونکر آگ دی جاتی ہے ؟ اور کس طرح پختہ کر کے پکائی جاتی ہیں ؟ تمام باتیں بتائیں اور سمجھائی تھیں ۔
{1465} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اخبار میں یہ چھپا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشف میں دیکھا کہ فرشتے کالے کالے درخت لگا رہے ہیں تو حضورؑ نے اس سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت لگا رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں ۔طاعون بہت پڑے گی ۔قادیان کو اور شہروں کی نسبت محفوظ رکھا جاوے گا۔ میرے والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ کو کہا کہ تم قادیان چلی جاؤ ۔میرا بھائی قادیان میں پڑھتا تھا اور رشتہ دار بھی قادیان میں تھے۔ ہم قادیان چلے آئے ۔ جب میری ماں اور دوسری بہنیں بھی آنے لگیں تو میں بھی تیار ہوئی مگر میری بڑی بہن نے کہا کہ یہ کنواری لڑکی ہے یہ نہ جاوے کیونکہ ہمارے ہاں دستور تھا کہ کنواری لڑکی باہر نہیں بھیجتے تھے ۔میں بہت روئی اور ضد کی آخر وہ راضی ہو گئے اور ہم سب روانہ ہو پڑے۔ میری ماں گھوڑی پر سوار تھی اور ہم پیدل تھے۔ میرے پاؤں سوج گئے ۔ جب ہم سرکاری سکول کے پاس ریتی چھلہ پہنچے تو سانس لینے کے واسطے تھک کر بیٹھ گئے ۔حضور اس وقت سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ وہاں سے گزرے ۔جب ہم حضورؑ کے دَرِ دَولت پر پہنچے تو اماں جان نے فرمایا کہ حضورؑ سیر کو تشریف لے گئے ہیں ۔مجھے حضورؑ کی زیارت کا سخت اشتیاق تھا۔ حضور علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ چہرہ مبارک بہت نورانی تھا ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ’’ تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا کہ حضور ! مکیریاں سے آئے ہیں ۔سبحان پور تیرا ضلع کانگڑہ کے وزیر الدین ہیڈ ماسٹر صاحب کی ہم بیٹیاں ہیں اور یہ ہماری والدہ صاحبہ ہیں ۔ حضور ؑ نے دریافت فرمایا کہ ’’کھانا کھا لیا ہے ؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ حضورکھا لیا ہے ۔‘‘ آپؑ اندر تشریف لے گئے ۔ ہم نے ڈاکٹرنی صاحبہ سے پوچھا کہ بیعت کیسے لیتے ہیں ؟ ڈاکٹرنی صاحبہ نے کہا کہ جس طرح حضورؑ فرماتے جاویں گے تم بھی کہتی جانا کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی ۔ اماں جان نے حضورؑ کو کہا کہ ’’ یہ بیعت کرنے آئی ہیں ۔‘‘ حضورعلیہ السلام دالان میں کرسی پر بیٹھ گئے ۔حضورؑ نے ہم سے بیعت لینی شروع کی ۔ہم شرم کے مارے آواز نہیں نکال سکتی تھیں ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اتنی آواز نکالو کہ میں سن سکوں۔‘‘ پھر ہم نے کچھ اونچی آواز کی۔جب ہم واپس جانے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ تمہارے پیر سوجے ہوئے ہیں تم آج نہ جاؤ،آرام ہو گا تو چلی جانا ۔‘‘
{1466} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب رخصت لے کر آئے تھے تو حضورؑ نے فرمایا تھا کہ ’’ اور زلزلہ آئے گا۔‘‘ یعنی ایک بڑ ازلزلہ جو کہ آچکا تھا اس کے بعد اور آنے والا ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ حضور فرماویں تو رخصت لے کر یا ملازمت چھوڑ کر چلا آؤں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ لگا ہوا روزگار نہیں چھوڑنا چاہئے ۔دعا کے واسطے بار بار یاد دلایا کرو ‘‘ آخر دسمبر تک میں ایک دفعہ حضورؑ کے دَرِ دَولت پر گئی تو اماں جان نے اصغری کی اماں سے چاول پکوائے ۔چاول خراب ہوگئے ۔ حضرت اماں جان اس پر خفا ہوئیں ۔ حضور علیہ السلام آواز سن کر باہر آگئے اور فرمایا کہ ’’ اس کو کچھ نہ کہو۔‘‘ اماں جان نے فرمایا کہ ’’ اس نے چاول خراب کر دئے ہیں ۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ چاول ہی خراب ہوں گے۔‘‘
{1467} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ حضور علیہ السلام کو زلزلہ ضلع کانگڑہ وغیرہ( جو۱۹۰۴ء میں غالباً آیا) کے متعلق جب یہ الہام ہوا کہ نَھْدِمُ مَایَعْمَرُوْنَ۔‘‘ اس پر حضور علیہ السلام نے ایک دن فرمایا کہ ’’ دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر زلزلہ آئے گا اور جو عمارات بنا رہے ہیں گرادی جائیں گی ( رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا)
{1468} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے ۔ ورانڈہ میں ہم نے دیوار کر لی تھی۔ میرے لڑکا پید اہو ا۔ حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’ عبد السلام ‘‘ رکھا تھا۔ میری نند امۃ الرحمن صاحبہ نے حضور اقدسؑ سے کہا کہ ’’ ہم اور مفتی صاحب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بچے کا نام بھی’’ عبد السلام ‘‘ ہے اور ہمارے کا نام بھی ’’عبد السلام ‘‘ ہے۔ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ پھر کیا ہوا وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے یہ اپنے باپ کا ہے۔‘‘
{1469} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ماہواری تکلیف سے ہوا کرتی تھی۔ میں نے اس کا ذکر اپنی اماں سے نہ کیا بلکہ حضور علیہ السلام سے عرض کردیا کہ مجھ کو یہ تکلیف ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ ایسی باتیں اپنی والدہ سے کہو۔ مردوں سے نہ بیان کیا کرو۔‘‘ اس پر مجھے بعد میں شرمساری ہوئی ۔
{1470} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین اور سب نے مل کر آم کھائے صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں ۔اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی۔ کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدس نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1471} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ (حضرت مسیح موعود ؑ نے۔ ناقل)ایک دفعہ فرمایا کہ ’’ دعا نماز میں کرنی چاہئے رکوع میں ،سجدہ میں ، بعد تسبیحات مسنونہ اپنی زبان میں دعا مانگے۔ بعض لوگ نماز تو جلد ی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور بعد نماز ہاتھ اٹھا کر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جب سامنے کھڑا ہو اس وقت مانگتا نہیں ۔جب باہر آجائے تو پھر دروازہ جا کھڑکانے لگے۔ نمازی نماز کے وقت خد اتعالیٰ کے حضور سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت تو جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا ہے اور کوئی حاجت یا ضرورت خد اتعالیٰ کے حضور پیش نہیں کرتا لیکن جب نماز سے فارغ ہو کر حضوری سے باہر آجاتا ہے پھر مانگنا شروع کرے( یہ ایک قسم کی سوء ادبی ہوگی) اس کے یہ معنے نہیں کہ بغیر نماز دعا جائز نہیں صرف یہ مطلب ہے کہ نماز کے وقت خاص حضوری ہوتی ہے اس وقت ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ بہتر ہے کہ نماز کے اندر دعا کرے وہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے ۔
{1472} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ میں نے حضرت اماں جان صاحبہ سے سنا کہ ایک دفعہ شام کے وقت حضرت اُمّ المومنین صاحبہ اور مولویانی نے صلاح کی کہ حسن بی بی اہلیہ ملک غلام حسین صاحب کو ڈرائیں ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت اُمّ المومنین نے حسن بی بی سے کہا کہ پانی پلاؤ جب وہ پانی لینے گئی تو مولویانی صاحبہ چارپائی کے نیچے چھپ گئی۔ وہ پانی لے کر آئی اور چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر پانی دینے لگی تو مولویانی صاحبہ نے نیچے سے اس کے پاؤں کی زور سے چٹکی لی ۔اس نے دو تین چیخیں ماریں اور زمین پر گر پڑی ۔ حضور علیہ السلام مسجد سے گھبرائے ہو ئے تشریف لائے اور استفسار فرمایا تو حضرت اماں جان اور سب چپ ہوگئیں ۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ میں نے کئی بار کہاہے کہ نماز کے وقت ایسی باتیں نہ کیا کرو۔‘‘ آپ علیہ السلام ہنستے بھی جاتے کیونکہ حضورؑ کو معلوم ہو گیا تھا کہ مذاق کیا گیا ہے ۔
{1473} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ اللہ دتہ و علی محمد چھینبے وغیرہ سکنائے سوہل تحصیل وضلع گورداسپور ابتدائے دعویٰ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت اکثر معترض رہتے تھے اور ہر حرکت وسکون پر اعتراض کرتے رہتے تھے ۔ مینار( جو نزول گاہ مسیح موعودؑ ہے) پر بھی معترض تھے کہ’’ مینارکہاں ہے؟‘‘ جس پر حضرت مسیح کا نزول احادیث میں آیا ہے ایک روز حضرت صاحب ؑ کے حضور عرض کیا گیا کہ مولوی اللہ دتہ وغیرہ سوہلوی (چھینبے )مینار کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جس وقت مینار بنے گا اس وقت یہ چھینبے کہاں ہوں گے ؟ ( یعنی ہلاک ہو چکے ہوں گے) چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک طاعون سے ہلاک ہوا اور دوسرا علی محمد زندہ درگور کی حالت میں ہے ،کبھی کلام کرتا نہیں سنا گیا ۔
{1474} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ جب حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائی فوت ہوئی تھیں تو حضورؑ نے افسوس کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’ آج ہماری دائی صاحبہ فوت ہوگئی ہیں ۔‘‘
{1475} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورؑ نے ایک بزرگ کا ذکر کیا کہ وہ دعا کرتے اور جواب جناب الٰہی سے آتا کہ تمہاری دعا مردود ہے ،قابل قبول نہیں ۔ اتفاق سے ان کا ایک مرید ملنے کے لئے آگیا۔ جب حسب دستور انہوںنے دعا شروع کی تو جناب الٰہی سے وہی جواب ملا جو روز ملا کرتا تھا۔ آخر مرید نے بھی وہ جواب سن لیا تو اس نے اپنے پیر کی خدمت میں عرض کی کہ جبکہ یہی جواب آتا ہے کہ تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں تو آپ دعا ترک کیوں نہیں کر دیتے؟ تو پیر نے جواباً فرمایا کہ تم دو تین رات میں ہی سن کر گھبرا گئے ۔میں تو قریباً۳۰سال سے یہی جواب سن رہا ہوں کہ’’ تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ وہ بے نیاز ہے جوچاہے کرے اور میں بندہ ہوں ،اس کے سوا میرے لئے کوئی پناہ نہیں ہے۔ وہ اپنی بے نیازی کی وجہ سے میری دعا کو رد کرتا جائے ۔میں اپنی بندگی اور عبودیت کو اس کے حضور پیش کر کے مانگتا جاؤں گا جب تک کہ دم میں دم ہے ۔جب اس کا استقلال اس حد تک پہنچ گیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ ’’تمہاری سب دعائیں مقبول ہیں ۔‘‘
{1476} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت (قوم خانہ بدوش) آلے بھولے یعنی مٹی کے کھلونے بیچنے والی آئی اس نے آواز دی ۔’’ لَو نی آلے بھولے۔‘‘ گرمی کا موسم تھا ۔حضور علیہ السلام اور اماں جان ان دنوں دن کو مکان کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے ۔حضور ؑ کھانا کھا کر ٹہل رہے تھے کہ اس عورت نے آواز دی ۔ ’’لونی آلے بھولے۔‘‘ ابھی میں نے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ پھر بولی کہ میں سخت بھوکی ہوں مجھے روٹی دو۔ صفیہ کی اماں جو حضور کی خادمہ تھی اس وقت کھانا کھلایا کرتی تھی۔ انہوں نے دو روٹیاں سلطانو کو دیں کہ ان پر دال ڈال کر اس کو دے دو۔ سلطانی مغلانی بھی حضور علیہ السلام کے گھر میں آنکھوں سے معذور اور غریب ہونے کی وجہ سے رہتی تھی ۔اس نے جب دال ڈال کر اس سائلہ کو دی تو اس عورت نے جلدی سے ٹوکرا زمین پر رکھ کر روٹی ہاتھ میں لی اور جلدی سے ہی ایک بڑا سا لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالنے کے لئے منہ اوپر کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اونچا کیا۔مکان کی پکی عمارت اس کو نظر آئی تو لقمہ اس کے ہاتھ میں تھا اور سخت بھوکی منہ اوپر کو کئے ہوئے اس نے پوچھا کہ ’’یہ کس کا گھر ہے کہیں عیسائیوں کا تو نہیں ۔‘‘ سلطانو نے کہا کہ ’’ تو کون ہے ؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ میں مسلمان امت رسول دی ۔‘‘ حضورؑ ٹہلتے ہوئے یہ بات سن کر کھڑے ہوگئے فرمایا’’ اس کو کہہ دو ۔یہی مسلمانوں کا گھر ہے۔‘ ‘ پھر تین بار فرمایا کہ ’’ اس کو کہدو کہ یہ خاص مسلمانوں کا گھر ہے ۔‘‘ پھر ایک روپیہ اپنی جیب سے نکال کر اس کو دیا اور اس کے اس فعل سے کہ باوجود سخت بھوک ہونے کے اس نے جب تک تحقیق نہیں کر لی کہ یہ خیرات مسلمانوں کی ہے اس کو نہیں کھایا ۔ آپ بہت خوش ہوئے ۔
{1477} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جلسہ (دھرم) مہوتسو لاہور کے موقعہ پر جب حضور علیہ السلام کا مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ نے بمقام لاہور پڑھ کر سنایا تھا جس کی نسبت خد اتعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ ’’ مضمون بالا رہا‘‘ اس وقت محویت سامعین کا یہ حال تھا کہ کوئی اگر کھانستا بھی تو سامعین گوارا نہ کرتے تھے ۔مضمون کیا تھا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک چمکتا ہو انشان تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مکذب کا مضمون اس مضمون سے ایک روز پہلے ہوچکا تھا جو اس نے خود پڑھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ لوگ ہم سے نشان مانگتے ہیں ہم کہاں سے نشان دکھلائیں ؟ ہم میں کوئی اب نشان دکھلانے والا نہیں ہے ۔ اس کے بعد دوسرے دن حضور علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں بڑے زور سے کہا گیا کہ ’’ اندھا ہے وہ جو کہتا ہے کہ کہاں سے نشان لائیں ؟ آؤ میں نشان دکھلاتا ہوں اور میں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لئے آیا ہوں ( یہ فقرات بذات خود نشان تھے کیونکہ مولوی محمد حسین کا مضمون پہلے پڑھا گیا تھا اور حضور علیہ السلام کا بعد میں پڑھا گیا اور اگر حضور علیہ السلام کا مضمون پہلے پڑھا جاتا اور مولوی محمد حسین کا بعد میں پڑھا جاتا تو بے مزگی پیدا ہو جاتی لیکن قدرت کا منشا تھا کہ اسلام کی عظمت ظاہر ہو اس لئے مولوی محمد حسین نے جو کمزوری(اسلام کی طرف) اپنے مضمون میں دکھلائی تھی خدا کے مامورومرسل نے اس کو ردّ کر کے اسلامی شوکت کو بلند کر دیا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک
{1478} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم پر بہت قرضہ ہوگیا تھا ۔میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ لکڑی کا کاروبار کرو۔‘‘ چنانچہ لکڑی کے کاروبار سے ہم کو بہت فائدہ ہوا۔
{1479} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور میری بہن مکیریاں سے آئے ۔ طاعون کے دن تھے ۔ حضور علیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم کو کسی نے نہیں روکا؟‘‘ عرض کیا کہ نہیں ۔ حضورؑ ہم کو کسی نے نہیں روکا۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’ جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا؟ہم نے کہا کہ نہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کوئی جگہ خالی نہیں رہے گی سب جگہ طاعون پڑ جائے گی ‘‘ ۔
{1480} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیا اور اسی دن (ہم)قادیان قریباً ظہر کے وقت پہنچے اور یہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہو اہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے ۔ اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غور ہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہو اتھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہو اکہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیر احمدیوں نے دیکھا تھا ‘‘۔ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ’’ چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا ‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھاتھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔ اس کے بعد دیر تک ہنستے رہے۔‘‘
{1481} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے والد ماسٹر ظہیر الدین صاحب بیمار ہو گئے تو میرے خاوند ان کو قادیان میں لے آئے ۔ حضور علیہ السلام ان دنوں دہلی تشریف لے گئے ہوئے تھے ۔جب میرے والد صاحب کی بیماری زیادہ بڑھ گئی تو ان کے رشتہ دار ان کو لے گئے ۔کہتے تھے کہ کہیں اپنی لڑکی کے گھر میں ہی فوت نہ ہوجائیں۔ وہ اسی بیماری سے فوت ہوگئے تھے ۔جب حضور علیہ السلام دہلی سے واپس آئے تو میں سلام کے واسطے گئی ۔حضورؑ میری آواز سن کر کمرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ’’ برکت! تیرے والد کے فوت ہونے کا افسو س ہے ۔‘‘ میں روپڑی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ رو نہیں ۔ہر ایک نے فوت ہو نا ہے ۔ تسلی رکھنی چاہئے۔‘‘ جب سے حضور علیہ السلام نے ایسا فرمایا تھا میرا رونا اور غم کرنا بند ہو گیا تھا۔
{1482} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں مقدمات شروع ہو ئے تھے اور عیسائی کلارک والے مقدمہ کا فیصلہ ہو اتھا اور پیلا طوس بہادر صاحب ڈپٹی کمشنر ڈگلس گورداسپور نے فیصلہ کرتے وقت حضور علیہ السلام کو مبارک باد کہہ کر بری کیا تھا اور یہ بھی دریافت کیا تھا کہ ’’ کیا آپؑ کلارک وغیرہ پر ازالہ حیثیت کا استغاثہ کریں گے ؟ ‘‘حضورؑ نے کہا تھا کہ ’’ میں دنیاوی حکومتوں کے آگے استغاثہ کرنا نہیں چاہتا ۔میری فریاد اپنے اللہ تعالیٰ کے آگے ہے ۔‘‘ اس فقرہ کا اس پر اچھا تاثر ہو اتھا۔ احمدیوں کو ا س مقدمہ میں عزت کے ساتھ بریت کی بڑی خوشی تھی ۔ مولوی محمدحسین بٹالوی نے (بطالوی) عیسائیوں کی تائید میں شہادت دی تھی۔ بریت پر اس کو بھاری ذلت پہنچ چکی تھی۔ عبد اللہ آتھم عیسائی بھی میعاد پیشگوئی میں مرعوب ہو کر بڑبڑاتا رہا تھا کہ’’ مجھ پر سانپ چھوڑے گئے ہیں اور تلواروں والے حملہ آور ہو ئے وغیرہ ۔ مولوی محمد حسین نے بھی آٹھ کروڑ مسلمانان ہندوستان کا باوجود نمائندہ ہونے کے ایک چھری خرید لی جس کو جیب میں رکھتا تھا۔
ایک روز شیخ محمد بخش سب انسپکٹر تھانہ بٹالہ کے پاس یہ ذکر کردیا اور ان کو چھری دکھلائی۔ سب انسپکٹر نے نقضِ امن کی رپورٹ کر دی اور ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے فریقین کو طلب کر لیا۔ ادھر سب انسپکٹر نے جوشِ سب انسپکٹری میں کہدیا کہ ’’ آگے ہی مرزا کلارک والے مقدمہ سے بچ گیا تھا۔ اب بچا تو جانیں گے ۔‘‘ اس طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود ؑ کو بریت کی خبر دے دی کہ’’ یَعُضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثِقُ ‘‘ کہ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور روکا جائے گا۔ غرض اس مقدمہ میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دورہ پر تھے ، بمقام کارخانہ دھاریوال پیشی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا۔ تاریخ سے پہلے خیال تھا کہ کارخانہ دھاریوال کے قریب کسی جگہ ڈیرہ لگایا جائے تاکہ پیشی کے وقت تکلیف نہ ہو۔(قادیان سے آٹھ میل سفر تھا) پہلے موضع لیل میں کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ مسلمانانِ لیل نے انکار کردیا۔ بعدش موضع کھونڈا تجویز ہو گئی اور رانی ایشر کور صاحبہ جوموضع کھونڈا کی رئیسہ تھی اس نے حضرت اقدس کی تشریف آوری پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے مصاحبوں کو حضور علیہ السلام کے استقبال کے لئے آگے بھیجا اور اپنا عالی شان مکان صاف کرا کر رہائش کے لئے دے دیا اور اپنے مصاحبوں کے ذریعہ نذرانہ پیش کیا اور کہلا بھیجا کہ مجھے حضور کی آنے کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سردار جیمل سنگھ صاحب سرگباش آگئے ہیں (سردار جیمل سنگھ صاحب رانی موصوفہ کے خسر تھے) اس رات کو رانی صاحبہ موصوفہ نے حضور علیہ السلام کو مع خدام پُر تکلف دعوت دی حضور علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔
اس سفر میں سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی بھی ساتھ تھے۔ حضورؑ پالکی میں تھے۔(پالکی قدیم پنجاب کی سواری تھی قریباً چار آدمی اٹھاتے تھے) اور سیٹھ صاحب یکّہ پر تھے ۔ ہم سب بھائی پالکی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور ہم نے روزے رکھے ہوئے تھے ۔جب روزے کا ذکر ہوا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ سفر میں روزہ نہیں ہے ۔‘‘ ہم نے اسی وقت افطار کر دئے ۔
دوسرے روز بمقام کارخانہ دھاریوال میں پیش ہوئے (کھونڈا سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا) آئندہ تاریخ گورداسپور کی ہوگئی۔ زائرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ آخر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی گئی کہ زائرین مضطرب زیارت ہیں لیکن کثرت کی وجہ سے اطمینان سے زیارت نہیں کر سکتے ۔ حضور علیہ السلام درخواست کو منظور فرما کر نہر کے پل پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو زیارت کا موقع دیا گیا۔
نوٹ: مولوی محمد حسین اس نظارہ کودیکھتا تھا لیکن حسرت کی نگاہ سے ( افسوس) آخر مجسٹریٹ ضلع نے مولوی محمدحسین سے لکھوا لیا کہ ’’ میں آئندہ مرزا صاحب کو کا فر نہیں کہوں گا۔‘‘ اور سب انسپکٹر کے ہاتھوں پر مہری(چندرا ) کے زخم ہو گئے جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔
صدق اللّٰہ تعالٰی ۔ ’’ یَعُضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثِق‘‘۔حضور علیہ السلام سے اسی مجسٹریٹ ضلع نے پوچھا کہ آپ اس کو کافر کہتے ہیں ۔حضور ؑ نے جواب دیا کہ ’’ میں نے اس کو نہیں کہا بلکہ اس نے مجھ پر کفر کا فتوی لگایا اس لئے وہ خود کافر ہوا۔‘‘ اور اس پر آپ نے دستخط کر دئے ۔‘‘
{1483} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر اپنی بہن کے لڑکے کو جو چھ یا آٹھ سال کا تھا حضرت اقدس ؑ کے گھر میں لے جاتی تھی۔ ایک دن اس کو جبکہ نماز پڑھ رہی تھی کھانسی ہوئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اس بچہ کو کالی کھانسی ہے جب تک آرام نہ ہو یہاں ساتھ نہ لایا کرو۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور دعا فرماویں کہ آرام ہو جائے ۔ چنانچہ بچہ کو جلد آرام ہو گیا تھا۔
{1484} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے دعویٰ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت مولوی اللہ دتہ ،محمد علی وغیرہ سوہلوی کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں (اٹھوال میں اب بفضل خدا کافی جماعت قائم ہے ) مقابلہ ہو ا۔چونکہ اس سے پہلے کئی مقابلے ہو چکے تھے اس لئے اس روز مباہلہ پر زور دیا گیا کہ مباہلہ کیا جاوے تافیصلہ ہو جاوے ۔ صدہا آدمی موجود تھے۔ قریباً کئی گھنٹہ تک بالمقابل مباہلہ پر گفتگو ہوتی رہی ۔ احمدیت کی طرف سے خاکسار بولتا تھا اور مخالفین کی طرف سے مولوی اللہ دتہ تھا۔ وہ تمسخر واستہزاء میں وقت ضائع کر رہا تھا۔ ہر چند امن کے ساتھ تصفیہ کی طرف متوجہ کیا گیا لیکن وہ تمسخر واستہزاء سے باز نہ آیا۔ آخر مجلس بلا تصفیہ برخواست ہو گئی ۔
مجھے یاد ہے کہ شیخ غلام مرتضیٰ صاحب والد شیخ یوسف علی صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) وہاں مع دیگران موجو دتھے۔احمدیوں کے کلام اور رویہ سے نہایت متاثر تھے۔خیر مباہلہ تو نہ ہوا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت نے اسی سال کے اندر ہی مولوی اللہ دتہ کو طاعون میں گرفتار کر کے ہلاک کر دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک ـ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
{1485} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں سوال کیا کہ شادیوں کے موقعہ پر اکثر لوگ باجا، آتش بازی وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اس کے متعلق شرعی فیصلہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ ’’ آتش بازی تو جائز نہیں ۔ یہ ایک نقصان رساں فعل ہے اور باجا کا بغرض تشہیر نکاح جواز ہے‘‘ ۔
{1486} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ عید کا دن تھا اور اسی عید گاہ میں عید پڑھی گئی تھی جس کا آج کل غیر احمدی تنازعہ کرتے ہیں کہ احمدی جبراً قبضہ کر رہے ہیں ۔حضور علیہ السلام بھی عید گاہ میں پہنچ گئے تھے اور ٹہل رہے تھے کہ پہلے مجھے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی نے کہا کہ سب مسلمان یہاں آگئے ہیں تم شہر چلے جاؤ تا مستورات کی حفاظت ہو جائے ۔ابھی میں تأمل میں تھا کہ حضور علیہ السلام ٹہلتے ہوئے اسی موقعہ پر آگئے ۔یہاں حکیم صاحب سے باتیں ہورہی تھیں ۔ حکیم صاحب نے حضورؑ کے پیش کر دیا کہ میاں خیر الدین کو کہا ہے کہ شہر میں جا کر حفاظت مستورات کرے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کسی اور کو حفاظت کے لئے بھیج دو‘‘ حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام پیش کردیا ۔حضورؑ نے انکار کیا ۔حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام ہی پیش کردیا تو حضور علیہ السلام نے کسی قدر جھڑکی کے ساتھ روک دیاتوحکیم صاحب خامو ش ہو گئے۔
{1487} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے مباحثات ومناظرات کو حکماً بند کردیا ۔ انہیں ایام میں مولوی اللہ دتہ ، علی محمد سوہلوی ومولوی عبد السبحان ساکن مسانیاں وغیرہ یکایک موضع ہرسیاں میں آگئے ۔ اس وقت بھائی فضل محمد صاحب (والد مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ) ومنشی نور محمد صاحب وغیرہ تھے ۔ ہر سیاں والے احمدی برادران نے مولوی فتح الدین صاحب کو دھر مکوٹ بگہ سے بلا لیا اور سیکھواں میں ہماری طرف بھی بلانے کے لئے آدمی آگیا ۔چونکہ حضور علیہ السلام کا حکم نسبت بند کرنے مباحثات ومناظرات کے ہم کو علم تھا۔ اس لئے میں اور میرے بڑے بھائی میاں امام الدین صاحب ( والد مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ) روانہ ہر سیاں ہو گئے اور ہمارے سب سے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم برائے حصول اجازت قادیان روانہ ہوگئے اور وہاں فیصلہ یہ ہو اکہ تاوقتیکہ قادیان سے اجازت نہ آوے مباحثہ نہیں ہوگا۔ ہم نے ہر سیاں جا کر یہ خبر سنا دی اور مباحثہ رو ک دیا گیا ۔ اب مخالفین کی طرف سے پیغام پر پیغام آتے ہیں کہ میدان میں نکلو اور ہم خاموش تھے لیکن زبانی طور پر ان کو جواب دیا گیا کہ ہم ایک امر کے منتظر ہیں جب حکم پہنچے گا تب مناظرہ کریں گے ورنہ نہیں۔ اس پر مخالفین نے خوشی کے ترانے گانے شروع کر دئے ۔ وہاں کا نمبردار چوہدری فتح سنگھ صاحب ان کی طرف سے آیا اور مجھے الگ کر کے کہا کہ اگر آپ میں طاقت مباحثہ نہیں ہے تو آپ مجھے کہہ دیں تو میں ان کو کسی وجہ سے یہاں سے روانہ کر دیتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ ہم میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مباحثہ کرنے کی طاقت ہے اور فریق مخالف ہماری طاقت کو جانتا ہے لیکن ہم اپنے پیشوا کے تابع ہیں ۔ قادیان ہمارا آدمی برائے حصول اجازت گیا ہو اہے اس کے آنے کے ہم منتظر ہیں۔ اگر قادیان سے اجازت حاصل ہو گئی تو ہم مباحثہ کریں گے اور ہماری طاقت کا علم آپ کو ہو جائے گا ۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہم مباحثہ نہیں کریں گے پھر جو دل چاہے قیاس کر لینا ۔ تھوڑی دیر کے بعد بھائی صاحب مرحوم ہر سیاں پہنچ گئے اور کہا کہ حضور علیہ السلام نے اجازت نہیں دی۔ جب مخالفین کو علم ہو گیا کہ مباحثہ احمدیوںکی طرف سے نہیں ہوگاتب ان میں طوفان بدتمیزی بلند ہوا اور جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا بکواس کیا ۔ تمسخر واستہزاء کی کوئی حد نہ رہی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوشی سے شادیانے گاتے تھے اور ہم خاموش تھے ۔ فریق مخالف بظاہر فتح وکامیابی کی حالت میں اور ہم ناکامی اور شکست کی حالت میں موضع ہرسیاں سے نکلے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھا کہ جمعہ کے روز ہرسیاں مذکور تحصیل بٹالہ سے ایک جماعت قادیان پہنچ گئی کہ ہم بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں ۔ ہم حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو بظاہر ہماری شکست میں کون سی دلیل مل گئی؟ تو انہوں نے جوابًا کہا کہ آپ لوگوں کے چہروں سے ہمیں صداقت نظر آئی اور ان کے چہروں سے کذب اور بیہودہ پن کے نشان نظر آئے یہی بات ہم کو قادیان کھینچ لائی ۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔
{1488} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں حضور علیہ السلام نے رسالہ آریہ دھرم ( جس میں آریوں کے مسئلہ نیوگ کا ذکر ہے) لکھنے کا ارادہ فرمایا تو اس سے پہلے ایک روز فرمایا کہ ’’ آریہ ہمارے ہمسائے ہیں ۔اگر ہم جیسا کہ دیا نند نے نیوگ کی تشریح ستیارتھ پرکاش میں لکھی ہے نقل کردیں تو شاید آریہ کہیں کہ ہم تو مانتے ہی نہیں ،خواہ مخواہ ہماری دل آزاری کی گئی ہے ۔بہتر ہے کہ آریان قادیان سے دریافت کر لیا جائے چنانچہ منتخب آریہ ملاوا مل اور شرمپت ۔ سومراج کشن سنگھ کیسونوالہ آریہ وغیرہ کو مسجد مبارک میں بلایا گیا اور ان سے دریافت کیا گیا کہ’’ کیا جس طرح پنڈت دیا نند نے نیوگ کا مسئلہ بیان کیا ہے درست ہے‘‘ ؟ انہوں نے کہا کہ نیوگ کا مسئلہ ایسا ہی ہے جیسا کہ طلاق اور نکاح ثانی جب ان کو سمجھایا گیا کہ طلاق کے بعد عورت کے ساتھ مرد کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اس لئے اس کو حق ہوتا ہے کہ نکاح ثانی کر لے وے مگر نیوگ میں تو عورت اپنے خاوند کے گھر رہتی ہوئی اس کی کہلاتی ہوئی دوسرے کے ساتھ ہم بستر ہوتی ہے اور اولاد حاصل کر کے خاوند کو دیتی ہے ۔ نیزنیوگ بحالت نہ اولاد ہونے کے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اولاد تو ہوتی ہے مگر لڑکیاں ہوتی ہیں لڑکا نہیں ہو تا اس لئے نیوگ کی اجازت ہے تاکہ لڑکا پیدا ہو جائے اس صورت میں طلاق اور نیوگ میں کیا نسبت ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب صرف لڑکیاں ہوتی ہوں ،جیسا کہ دیا نند نے لکھا ہے ،لڑکا نہ ہو نیوگ چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہاں جو کچھ دیا نند نے لکھا ہے اس کو ہم مانتے ہیں ۔تو اس وقت میں مولوی عبد الکریم صاحبؓ کے پاس کھڑا تھا۔ مجھے مولوی صاحبؓ نے کہا کہ کہہ دو کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے ۔ چنانچہ میں نے بآواز بلند کہہ دیا کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے ۔ تو حضور علیہ السلام نے سنتے ہی فرمایا کہ ’’ چپ‘‘ یعنی خاموش ۔ ’’یہ نہیں کہنا چاہئے۔‘‘ اس کے بعد آریہ چلے گئے تو آریہ دھرم رسالہ شائع ہوا ۔اللّٰھم صلّ علٰی محمّدٍ وآل محمدٍونائب محمّدٍ وبارک وسلم انّک حمید مجید۔‘‘
{1489} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھے یاد ہے کہ ماہ رمضان مبارک تھا اور گرمی کا موسم تھا ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سردخانہ میں تھے جو قدیمی مکان کے شرقی دروازہ سے ڈیوڑھی کو عبور کرتے ہوئے بجانب شمال تھا۔ آپ صائم تھے اور میںنے روزہ نہیں رکھا تھا کیونکہ میری عمر ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچی تھی۔ اور ایک اور شخص جمال نامی جو میاں جان محمد صاحب مرحوم کا بھائی تھا وہاں تھا۔ ہم دونوں حضر ت اقدس علیہ السلام کودبا رہے تھے ۔ جب سورج مغرب کی طرف مائل ہو گیا ہو ا تھا اس وقت چنے سفید رنگ کے جو سرد خانہ کے ایک کونے میں ایک گھڑے میں تھے نکلوائے اور بھنوا کر حضر ت اقدسؑ نے اپنے دست مبارک سے ہم دونوں کو تقسیم کر دئیے ۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک نظم جو مولوی غلام رسول صاحب مرحوم قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ کی بعض فقہی کتابوں مثلاً پکی روٹی وغیرہ کے آخر میں درج ہوتی تھی جس کے شعروں کی تعداد بارہ تھی وہ حضرت اقدس ؑ کے فرمانے پر سنائی تھی۔ اس وقت وہ بارہ شعر تو مجھے یاد نہیں ۔صرف چار یاد ہیں :
دلا غافل نہ ہو اک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
نہ بیلی ہو گا نہ بھائی نہ بیٹا باپ اور مائی
تو کیا پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے
تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر
ہووے گا ایک دن مردار یہ کِرموں نے کھانا ہے
غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غرہ
خدا کی یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے
{1490} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم سب باغ میں گئے ۔ یہ خادمہ بھی ہر وقت ابوہریرہؓ کی طرح حضورعلیہ السلام کے اردگرد پروانہ کی طرح تھی۔کئی عورتیں ساتھ تھیں ۔اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ اور حضرت مبارک احمد تینوں جارہے تھے ۔صاحبزادہ مبارک احمد نے بے قراری سے کہا ۔ ابا! سنگترہ لینا ۔ سنگترہ لینا۔ اور خادمہ ان کے پیچھے پیچھے تھی۔حضور علیہ السلام ایک درخت کے پاس گئے اور ہاتھ اوپر کیااور ایک سنگترہ مبارک احمد کے ہاتھ میں دے دیا۔ بیوی صاحبہ ہنستی ہوئیں آگے چلی گئیں ۔ میرے ساتھ ایک لڑکی جو بابا حسن محمد کی رشتہ دار تھی اور اس کا نام جیون تھا درخت پر چڑھ گئی ۔ اس نے خیال کیا کہ شاید اوپر سنگترے ہیں ۔ ہم سب نے اس کا پتا پتا دیکھا لیکن کوئی سنگترہ نہ ملا ۔ وہ سنگترے کا درخت بہشتی مقبرہ کی طرف تھا۔ جب یہ عاجز باغ میں جایا کرتی تو وہ بات یاد آجاتی تھی ۔ایک دفعہ دیکھا کہ وہاں وہ درخت نہ تھا مجھ کو بڑا افسوس ہوا اور رونا بھی آیا۔ دل میں کہا ہائے! اگر میں پاس ہوتی تو جن لوگوں نے وہ درخت کاٹا ہے ہر گز کاٹنے نہ دیتی۔ یہ نشان میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1491} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ مخلصین میں سے تھے۔ جس زمانہ میں براہین احمدیہ جلد دوئم نور احمد پریس امرتسر میں زیر طباعت تھی۔ شیخ صاحب موصوف مطبع مذکور میں کاپی نویسی کرتے تھے اور اچھے خوش قلم کاتبوں میں سے تھے ۔ چنانچہ براہین احمدیہ جلد دوئم تما م وکمال ان کی کتابت کردہ ہے ۔ بعد ازاں شیخ صاحب بوجہ انحطاط قویٰ کاپی نویسی کی مشقت سے سبکدوش ہو کر یہاں پٹیالہ میں آکر اپنی خوشخطی کی وجہ سے فارن آفس ریاست پٹیالہ میں مراسلہ نگاری کی پوسٹ پر بمشاہرہ ۳۰روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے ۔اور دس بارہ برس ملازمت میں رہ کر جماعت احمدیہ پٹیالہ میں باقاعدہ چندہ وغیرہ دیتے رہے اور اسی جگہ ایک رات نماز پڑھ کر مسجد سے گھر کو جاتے ہوئے سانپ کاٹنے سے ان کا انتقال ہوا ۔
{1492} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ یہاں کے قیام کے دنوں میں حضرت صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے ایک واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا جو درج ذیل ہے ۔
شیخ صاحب نے فرمایا کہ جن دنوں میں مطبع مذکور میں براہین احمدیہ جلد دوئم کی کتابت کرتا تھا۔ ایک درویش نما مسن شخص جو ہندوستان کی طرف کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا کسی کی وساطت سے مطبع کے احاطہ میں آکر بطور ایک مسافر کے مقیم ہوا۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ پہلی دفعہ ا س کو دیکھنے سے مجھ کو یہ خیال ہوا کہ یہ کوئی مسجد یا یتیم خانہ وغیرہ کے نام سے چندہ کرنے والا ہو گالیکن چند روز اس کے قیام کرنے سے روزانہ اس کا یہ وطیرہ دیکھا کہ صبح کو اٹھ کر کہیں باہر چلا جاتااور شام کو آکر بلا کسی سے بات چیت کرنے کے اپنی مقررہ جگہ پر آکر پڑ جاتا۔ مجھے خیال ہو اکہ اگر یہ شخص چندہ وغیرہ کا خواہاں ہوتا تو مطبع میں بھی اس کا کچھ تذکرہ کرتا یا امداد کا خواہاں ہوتا۔ اتفاقاً ایک دن وہ صحن احاطہ میں کھڑے ہوئے مجھ کو مل گیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں آپ سے دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ یہاں کیسے آئے ہوئے ہیں ؟اس درویش نے جواب دیا کہ میں ویسے ہی بطور سیاحت پھرتا رہتاہوں ۔ پھرتا پھراتا اس طرف بھی آنکلا۔ منشی صاحب نے کہا کہ آپ کی غرض سیاحت کیا ہے ؟ اس پر اس شخص نے کہا کہ اس غرض کے معلوم کرنے سے آپ کو کچھ فائدہ نہ ہوگا بلکہ آپ مجھ کو ایک خبطی یا سودائی خیال کریں گے ۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اس جواب پر مجھ کو زیادہ خیال ہوا اور ان سے بااصرار کہا کہ اگر آپ کا حرج نہ ہو تو بیان کر دیجئے اس پر اس درویش نے اپنا قصہ یوں سنایا کہ میر ا جس خاندان سے تعلق تھا وہ ایسے لوگ تھے کہ جن کے ہاں بچپن سے ہی نماز روزہ کی تلقین اور دین سے رغبت پیدا کر دی جاتی ہے۔ مجھ کو سن شعور سے ہی خدا سے ملنے کی آرزو اور اس رسم کے طور پر عبادات بجا لانے کے علاوہ اطمینان قلب حاصل ہونے کی تمنا تھی۔ میں اپنے اس شوق میں ہر عالم اور بزرگ سے جس سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے یالوگوں کی زبانی تعریف سن کر پتہ لگتا۔ میں اس سے ملتا اور اپنی آرزو کا اس سے اظہار کر کے بمنت راہ نمائی کی خواہش کرتا اور جو درویش یا بزرگ کوئی وظیفہ یا چلہ مجھے بتاتا ۔ میں اس کے موافق عمل کرتا لیکن میرا مطلب حل نہ ہوتا تو پھر تلاش میں لگ جاتا ،اس سلسلہ میں تلاش میں ایک درویش نے مجھ کو ایک مقام پر ایک خانقاہ کا پتہ بتا کر کہا کہ ایسے مطالب اس بزرگ کی خانقاہ پر چلہ کرنے سے اکثر لوگوں کو حاصل ہو ئے ہیں ۔ درویش صاحب نے کہا کہ میں تو اپنی دھن کا پکا تھا ہی اس سے اچھی طرح پتا پختہ طور پر لے کر سامان سفر کر اس خانقاہ پر جا پہنچا اور حسب ہدایت اس درویش کے وہاں چلہ شروع کردیا ابھی اس چلہ کو نصف تک نہیں کیا تھا کہ ایک رات رویاء میں ایک بزرگ نظر آئے ایک صاحب اور ان کے برابر کھڑے ہوئے تھے اور وہ اول الذکر بزرگ اس وقت میرے خیال میں وہ صاحب خانقاہ بزرگ تھے جس پر میں چلہ میں مصروف تھا ۔بزرگ موصوف نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’یہاں ناحق اپنا وقت ضائع نہ کرو‘‘ اور اپنے برابر کھڑے دوسرے صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت اگر تمہاری مرا دپوری ہوسکتی ہے تو ان سے فیض حاصل کرو۔‘‘ میں نے ان دوسرے صاحب کی طرف بغور دیکھا اور ہنوز یہ دریافت کرنے نہ پایا تھا کہ یہ کو ن بزرگ ہیں ؟ کیا نام ہے ؟ اور کہاں رہتے ہیں ؟ کہ کسی نے مجھ کو جگا دیا یا خود آنکھ کھل گئی۔
{1493} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیان کیا کہ درویش مذکور نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کے بعد میں ایام چلہ پورا کرنے تک وہاں ٹھہرا اور چلہ پورا ہو نے پر بھی جب کوئی انکشاف مزید نہ ہوا تو واپس ہو کر اس روز سے اپنا یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ گھر بار سے قطع تعلق کر کے ہر قصبہ وشہر ودیار میں پڑ اپھرتا ہوں اور جس جگہ کسی بزرگ کا پتہ لگتا ہے اس کو جا کر دیکھ لیتا ہوں اور جب وہ میرے مطلوبہ حلیہ سے مطابقت نہیں رکھتا تو واپس ہو کر کسی اور طرف کو چلا جاتا ہوں ۔ دس بارہ برس سے نہ مجھ کو گھر والوں کی خبر ہے نہ ان کو میری۔ سارا ہندوستان چھان کر اب پنجاب میں آیا ہوں ۔یہاں امرتسر میں پانچ سات اشخاص کا لوگوں نے مجھ کو پتہ دیا لیکن اس حلیہ سے جس کا نقشہ فوٹو کی طرح میرے دل پر ہے کسی کو مطابق نہیں پایا ۔ اب مین ایک آدھ روز میں یہاں سے کسی اور طرف کو چلا جاؤں گا۔ یہی میری سیاحی کا مدعا اور غرض ہے ۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کی سرگذشت سن کر مجھ کو حیرت بھی ہوئی اور اس کے حال پر رحم بھی آیا ۔ حیرت تو اس لئے کہ کس عزم واستقلال کا یہ شخص ہے کہ ایک امید موہوم کے پیچھے اور محض ایک خواب کی بات پر اپنا گھر بار اور سب کچھ حتی کہ اپنی زندگی بھی اسی بازی پر لگائے پھر رہا ہے اور رحم اس لئے کہ اگر ایسا شخص اس کو نہ ملا تو بیچارہ کی ساری زندگی کس مصیبت میں گزر ے گی؟اور اس نے ایسی منزل اختیار کی ہے جس کاانجام لاپتہ ہے۔ اگر وہ شخص آپ کو نہ ملا تو پھر آپ کیا کریں گے ۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اپنے اخیر دم تک اسطرح مصروف رہوں گا اور جہاں موت آجاوے مر رہوں گا۔ تامجھے بارگاہ ایزدی میں یہ کہنے کا حق ہو کہ میری طاقت اور بساط میں جو تھا اس میں میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اب اگر میری قسمت میں نہ تھا تو میرے اختیار کی بات نہ تھی۔ شیخ صاحب نے اس پر کہا کہ ایک بزرگ کا پتہ میں بھی آپ کو بتا دوں؟ اس نے کہا کہ مجھے اور کیا چاہئے ؟شیخ صاحب نے حضرت صاحب کا پتہ ان کو بتایا کہ یہاں سے چار پانچ اسٹیشن ایک مقام بٹالہ شہر ہے۔اس سے دس گیار ہ میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا قصبہ قادیان نامی ہے وہاں ایک بزرگ مرزا غلام احمد نام ہیں ۔ صاحب الہام ہونے کا ان کا دعویٰ ہے۔ اسلام اور قرآن مجید کی حمایت میں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو اسی مطبع میں چھپ رہی ہے اگر آپ چاہیں تو اس کی کاپیاں میں آپ کو دکھا سکتا ہوں ۔اس میں انہوں نے اپنے الہام اور پیشگوئیاں بھی درج کی ہیں اور عیسائیوں ،آریوں اور برہموسماجیوں کے اعتراضات کے جو انہوںنے اسلام اور قرآن مجید کے متعلق کئے بڑے پر زور جواب دئے ہیں اور لوگوں کو مقابلہ کے لئے بلایا ہے اور ان کی مسلمہ کتب پر ایسے اعتراضات کئے ہیں کہ تمام ملک میں اس کا چرچا ہے اور ہندوستان وپنجاب کے بڑے بڑے علماء اور اخبارات نے اس کی بڑی تعریف کی ہے کہ ایسی کتاب آج تک اسلام کی تائید میں نہیں لکھی گئی۔ آپ نے جہاں اور بزرگوں کو دیکھا ہے یہاں سے کچھ دور نہیں ہے ان کو بھی دیکھ لو اس پر وہ درویش صاحب بولے کہ نہیں منشی صاحب ایسے اصحاب جو بحث ومباحثہ اور جھگڑے کرنے والے ہوں۔ میری گوں کے نہیں ہیں۔ میرا کام تو اگر خدا کو منظور ہے تو کسی تارک الدنیا بزرگ سے بنے تو بنے۔ نہیں تو جو خد اکی مرضی۔ شیخ صاحب یہ سن کر خاموش ہو کر اپنے کام میںمصروف ہو گئے ۔شیخ صاحب فرماتے تھے کہ ان ایام میں میرا معمول تھا کہ ہفتہ بھر جس قدر براہین احمدیہ کی کاپی کرتا ہفتہ کے روز خود قادیان لے جا کر اس کے پروف حضرت صاحب کے پیش کرتا بعد ملاحظہ اتوار کو پروف لے کر بغرض طباعت امرتسر واپس آجاتا۔
{1494} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی فرماتے ہیں کہ درویش سے اس گفتگو کے بعد چونکہ ان کی بات کا میرے دل پر ایک اثر تھا، جس ہفتہ کے دن میں نے قادیان کو پروف لے کر جانا تھا میں درویش مذکور کوپھر ملا اور اس سے کہا کہ میں بھی پروف لے کر جانے والا ہو ں اگر آپ چلے چلیں تو کیا حرج ہے ؟ سیر ہی ہو جائے گی ۔ میرے ساتھ ہونے کے سبب آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی ۔میرے ساتھ واپس آکر پھر جدھر آپ کا جی چاہئے روانہ ہو جانا۔ اگر آپ کو کرایہ کا خیال ہے تو امرتسر سے واپسی تک کا کرایہ میں دینے کو بخوشی آمادہ ہوں ۔اس پر اس درویش نے کہا کہ نہیں کرایہ وغیرہ کا کچھ خیال نہیں۔ میں پہلے بھی پھرتا ہی رہتا ہوں۔ آپ کہتے ہیں تو میں چلا چلوں گا۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ کچھ بادل ناخواستہ سا میرے کہنے پر وہ چلنے کو تیار ہو گیا اور دونوں امرتسر سے بسواری ریل روانہ ہوئے اور بارہ بجے دن کے گاڑی اسٹیشن بٹالہ پر پہنچی وہاں سے بسواری یکّہ قادیان کو چل پڑے ۔جب نہر کا پل عبور کر کے اس مقام پر پہنچے جہاں سے قادیان کی عمارات نظر آنے لگتی ہیں ۔تو شیخ صاحب نے ان عمارات کی طرف اشارہ کر کے درویش صاحب سے کہا کہ ’’ یہ عمارات اسی قصبہ کی ہیں جہاں ہم نے جانا ہے ۔ اس پر اس درویش نے ایک آہ سی کھینچ کر کہا کہ منشی صاحب ! خد اکی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ بزرگ یہی ہوں جن کے پاس آپ مجھے لے جارہے ہیں جن کا حلیہ میرے دل کی لوح پر نقش ہے ۔ اس پر شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس روز تو آپ نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگوں سے میری مراد پوری ہونے کی امید نہیں پڑتی۔ پھر کس بات نے آپ کی رائے میں تبدیلی پید اکر دی ؟ اس کے جواب میں درویش مذکور نے کہا کہ اس کی کوئی مدلل وجہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر ایک کیفیت ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ جنگل میں کوئی پیاسا پانی کی تلاش میں سرگردان ہو اس کو پانی تو ابھی نہ ملے لیکن دریا پر سے گزر کر آنے والی ٹھنڈی ہو اکے جھونکے پانی کے قریب ہونے کا یقین دلا کر اس کے قلب کی تسکین کا موجب اور پانی تک پہنچنے کی امید دلائیں۔ ایسا ہی جوں جوں یہ مقام نزدیک آرہاہے میری روح پر ایک پرسرور کیفیت طاری معلوم ہو تی ہے جواس سے قبل کسی اور جگہ نہیں دیکھی گئی۔ شیخ صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ جو کچھ بھی خدا کو منظور ہے ہوگا اب تو صرف آدھ گھنٹہ کاو قفہ ہے آپ چل کر دیکھ لیں گے ۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ دو بجے کے بعد ہم دونوں قادیان پہنچ گئے ۔مہمان خانہ میں سامان سفر رکھ کر وضو کیا جب باہر نکلے تو مسجد مبارک کی جانب سے آنے والے ایک شخص کی زبانی دریافت پر معلوم ہو اکہ نماز ظہر ہوچکی ہے مگر حضرت صاحب ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ ہم دونوں ذرا قدم اٹھا کر اوپر گئے ۔ حضرت صاحب دروازہ کی طرف رخ کئے ہوئے سامنے تشریف فرما تھے۔ چند خدام کا حلقہ تھا۔دروازہ مسجد میں جاکر جب ہم دونوں کھڑے ہو ئے تو اس درویش نے شیخ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دعائیں دیتے ہوئے کہا ۔ خداآپ کا بھلا کرے آپ نے تو میری کٹھن منزل کا خاتمہ کردیا ۔میں نے انہی صاحب کو جو سامنے تشریف فرما ہیں۔ رویاء میں دیکھا تھا اور میں ہر گز اس شناخت میں غلطی نہیں کرتا۔ شیخ صاحب نے اس کو مبارکباد کہا اور مسجد میں داخل ہو کرحضرت صاحب سے مصافحہ کیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب براستہ دریچہ اندرون تشریف لے گئے اور ہم نے نماز ظہر ادا کی ۔
{1495} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے مجھ سے بیان کیا کہ نماز ظہر کے بعد میں نے پروف پیش کرنے کی اطلاع کرائی ۔ حضرت نے متصلہ کمرہ میں تشریف فرما ہو کر مجھے اندر بلالیا ۔میں نے اول پروف پیش کئے اور پروف کے متعلق ضروری بات چیت کے بعد اس درویش کا قصہ مفصل عرض کیا اور کہا کہ میں امرتسر سے اس کو آج اپنے ہمراہ لایا ہوں اور کہ اس نے حضورؑ کو دروازہ سے دیکھتے ہی شناخت کر کے بتایا ہے کہ میں نے آپ کو ہی رویاء میں دیکھا تھا۔ پھر حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندربلا لیا ۔ اس کے بیٹھتے ہی پہلا سوال اس سے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ آپ کو اپنی شناخت میں تو شک وشبہ نہیں ہے؟اس نے جواب دیاحضور! ہر گز نہیں۔ میں نے اسی شکل وشباہت اور ٹھیک اسی لباس میں جوا س وقت حضور نے پہنا ہوا ہے حضور کو دیکھا ہے ۔یہی لنگی اسی بندش کے ساتھ زیب سر تھی۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے شیخ صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر خدا سے ملنے کی کسی دل میں طلب صادق ہو تو کچھ مدت بطور ابتلا اور آزمائش اس کو تعویق میں رکھ کر اس کو عزم اور استقلال کی منازل سے گذار کر آخر خود اس کی ہدایت کا سامان مہیا کر دیتا ہے اس کے بعد ہم باہر آگئے ۔
{1496} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیا ن کیا کہ اگلے روز جب میں چلنے لگا تو درویش صاحب سے ان کا ارادہ پوچھا ۔اس نے کہا کہ بس میں اب کہا ں جاؤں گا ؟ آپ جائیں ۔میں تو،حضرت صاحب جو حکم دیں گے اس کے موافق کار بند رہوں گا۔ شیخ صاحب اس کو وہیں مہمانخانہ میں چھوڑ کر تنہا امرتسر واپس آگئے ۔ اگلے ہفتہ پھر گئے ۔ درویش صاحب سے دریافت پر اس نے یہ کہا کہ نمازیں مسجد میں جا کر پڑھ لیتا ہوں اور جس وقت تک حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں حاضر رہتا ہوں اس کے بعد مہمانخانہ آکر پڑ رھتا ہوں اور اللہ اللہ کئے جاتا ہوں ۔ حضرت صاحب نے کچھ خاص طور پر فرمایا نہیں اور مجھ کو کچھ کہنے کی یادریافت کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ اسی طرح جب حسب معمول تین چار دفعہ ہر ہفتہ پروف لے کر قادیان جاتا اور آتا رہا۔ اس شخص نے ہر دفعہ وہی جواب دیا جو اول دفعہ دیا تھا۔ آخر ایک دفعہ جو میں گیا تو اس نے حضرت صاحب کے بارہ میں تو وہی کیفیت ظاہر کی لیکن مجھ سے خواہش کی کہ چونکہ اب مجھے اپنی تلاش میں تو خد اتعالیٰ نے کامیابی عطا فرما دی ہے، دو تین دن سے مجھے خیال آرہاہے کہ اگر حضرت صاحب اجازت فرماویں تو میں اپنے متعلقین کی وطن جا کر خبر لے آؤں ۔ کیونکہ مجھے ان کے مرنے جینے کا اور ان کو میرا اس لمبے عرصہ تک کچھ پتہ نہیں ملا اور چونکہ میں خود حضرت صاحب سے دریافت کرنے کی جرأت نہیں رکھتا آپ اگر حضرت صاحب سے اس بارہ میں تذکرہ فرمادیں تو جیسا پھر حضرت صاحب کی طرف سے اشارہ ہوگا۔ میں اسی کے موافق عمل کروں گا ۔ منشی صاحب نے فرمایا کہ جب میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے درویش صاحب کی اس خواہش کا ذکر کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں! وہ بڑی خوشی سے جا سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ ضرور جا کر اپنے بال بچہ کی خبر گیری کرنی چاہئے ۔جب اس کا جی چاہے وہ پھر آسکتا ہے ۔ میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندر بلا لیا تاکہ وہ حضرت صاحب کا ارشاد خود حضور کی زبان سے سن لے ۔اس کی حاضری پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ جاسکتے ہیں اور پھرجب چاہے آسکتے ہیں ۔ اسپر اس نے بطور وِرد و وظائف کچھ پڑھنے کے لئے دریافت کیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اتباع سنت اور نمازیں سنوار کر پڑھنا سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے اس کے علاوہ چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار اور جس قدر وقت فراغت میسر ہو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا کافی ہے ۔ہمارے ہاں الٹے لٹک کر یا سردی میں پانی میں کھڑے ہو کر چلہ کرنے کا خلاف سنت کوئی طریق نہیں ہے۔‘‘ اس پر اس درویش نے باصرار کہا کہ میں چونکہ سن شعور سے ہی مجاہدات کا عادی ہوں ۔اس لئے بطریق مجاہدہ اگر کچھ فرما دیا جاوے تو میں اب اس کے موافق کا ر بند رہوں گا۔ اس کی یہ بات سن کر حضرت صاحب اٹھے اور اندر جا کر ایک پلندہ براہین احمدیہ کے اس حصہ کا جو اس وقت تک شائع ہو ا تھا اٹھا لائے اور اس کو دے کر فرمایا کہ ’’ لو جہاں جاؤ اس کو خود بھی پڑھو اور دوسرے لوگوں کو بھی سناؤ۔خدا نے اس وقت کا یہی مجاہدہ قرار دیا ہے۔‘‘ منشی صاحب نے فرمایا کہ اس کے بعد ہم باہر آگئے۔ اگلے روز وہ شخص میری معیت میں امرتسر آگیا ۔ وہاں سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گیا پھر اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی۔
{1497} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کتب فقہ پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
{1498} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تو بخشنے کے لئے بہانے لبھدا ہے ‘‘ (یعنی تلاش کرتا ہے )۔
{1499} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں شیخ صاحب بھائی عبد الرحیم صاحب (سابق نام جگت سنگھ) نے اسلام قبول کیا ۔ چند روز بعد موضع سرسنگھ جہبال سے جو شیخ صاحب موصوف کا اصلی گاؤں ضلع امرتسر یا ضلع لاہور میں ہے ان کے رشتہ دار جوخوب قدآور اور جوان تھے پانچ چھ کس قادیان میں شیخ صاحب کو واپس لے جانے کی نیت سے آئے ۔ میں اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے مطب میں بیٹھا ہو ا تھا اور شیخ عبد الرحیم صاحب بھی وہاں ہی بیٹھے ہو ئے تھے ۔حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ’’ اس کو اپنے گاؤں سیکھواں میں ہمراہ خود لے جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے فوراً تعمیل کی اور ہم دونوں سیکھواں پہنچ گئے چونکہ سیکھواں میں کثرت سکھ قوم کی تھی انہوںنے سکھ برادری سے میل جو ل کیا۔ بعدمیں ہمارے مکان پر پہنچ گئے اور شیخ صاحب سے بخوشی مل ملا کر آخر مطالبہ کیا کہ ’’ ہم گاؤں سے باہر لے جا کر کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ اگر چہ شیخ صاحب اور ہم ان کے اس مطالبہ کو پسند نہ کرتے تھے ۔ لیکن ان کے جذبہ مطالبہ کو بوجہ رشتہ داری نظر انداز کرنا مناسب نہ خیال کر کے رضا مندی دے دی گئی جب گھر سے باہر نکلے تو تھوڑے فاصلہ پر جا کر ایک میدان ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اور سکھ وغیرہ جمع تھے یہی گفتگو چھڑ گئی ۔شیخ صاحب نے رشتہ داران خود کو کہا کہ’’ اگر تم زبردستی مجھ کو ساتھ لے جاؤ گے تو میں پھر آجاؤں گا اور مسلمان ہوجاؤں گا۔‘‘ اس پر ایک سکھ جو سیکھواں کا باشندہ اور روڑ سنگھ نام تھا، بڑے جو ش سے بولا کہ ’’ خواہ مخواہ نرم نرم باتیں کرتے ہو۔ ڈانگ پکڑ کر آگے لگاؤ۔‘‘ہم بھی وہاں کھڑے تھے۔ اس سکھ کے جواب میں ہماری طرف سے ہمارے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم نے کہا کہ ’’ دیکھو! اگر شیخ صاحب عبد الرحیم جو ہمارا بھائی ہے اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ چلا جاوے تو ہم روک نہیں سکتے اور اگر زبردستی لے جانا چاہو تو پہلے ہم کو مار لو گے تو اس کو لے جاؤ گے ورنہ ہر گز نہیں لے جاسکتے ۔‘‘ پس اس پر سلسلہ گفتگو ختم ہوا۔ آخر انہوں نے التجا کی کہ ہم اس کو الگ لے جا کر ایک بات کرنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر چھپڑ(جوہڑ) تھا وہاں چلے گئے اور ہم بھی اپنے پہرے پر کھڑے رہے کہ آخر شیخ صاحب نے ان کی کوئی نہ مانی ۔ وہ وہاں سے ہی واپس چلے گئے اور شیخ صاحب ہماری طرف آگئے۔‘‘اس وقت ہم مع شیخ صاحب قادیان پہنچ گئے ۔شام کی نماز کے بعد حضرت اقدس کے حضور تمام حالات بیان کئے گئے ۔حضور علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ’’ مولوی صاحب نے بہت غلطی کی کہ قادیان سے باہر ان کو بھیج دیا۔قادیان سے زیادہ امن کی جگہ کون سی ہے؟‘‘
{1500} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پشاوری وزوجہ چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جب بڑا زلزلہ آیا تو ہم سب حضور علیہ السلا م کے ساتھ باغ میں چلے گئے تھے۔ میں قریباًآٹھ سال کی تھی۔ حضرت اماں جان نے باغ میں جھولا ڈالا ہو اتھا۔ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر محمد اسحق صاحب بنت پیر منظور محمد صاحب ،میری بہن فاطمہ بیگم وفہمیدہ وسعیدہ بنت پیر افتخار احمد صاحب ہم سب جھولا جھول رہی تھیں ۔جب میری باری آئی تو حضورؑ وہاں سے گزرے ۔ حضور علیہ السلام ہمیں دیکھ کر ہنسے ۔
{1501} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل نے بواسطہ محترمہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میںاور رسول بی بی صاحبہ اہلیہ خورد بابو شاہ دین ہم دونوں رات کو حضور علیہ السلام کے پیر دبایا کرتے تھے ۔ایک دن حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ جب مجھے الہام ہونے لگے تو مجھے جگا دیا کرو۔‘‘ حضورؑ کوالہام ہو نا شروع ہوا تو وہ کہتی تھی کہ تو جگا اور میں کہتی تھی تم جگاؤآخر میں نے کہا کہ حضور ؑکا حکم ہے اگر نہ جگایاتو گناہ ہوگا۔ہم نے جگا دیا ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ تم نے کچھ سنا ہے یا تم کو کچھ معلوم ہوا ہے؟ میں نے کہا ’’ نہیں ‘‘ قلم دوات حضورؑ کے سرہانے تھی حضورؑ نے لکھ لیا۔ فرمایا کہ ’’ اب میں پہلے وقت تم کو ہی پہرہ پر رکھا کروں گا۔ بارہ ایک بجے الہام ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ہمیں معلوم تھا کہ جب حضور ؑ کو الہام ہونے لگتا تھا تو حضورؑ کو عموماً سردی محسوس ہوتی تھی جس سے کچھ کپکپی ہو جاتی تھی اور حضورؑ کچھ گنگنایا بھی کرتے تھے ۔
{1502} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم اپنے وطن سے آئے تھے تو میری آنکھیں بہت درد کرتی تھیں اور ہر موسم میں آجاتی تھیں۔ وطن میں بھی علاج کیا ۔ قادیان میں بھی بہت علاج کیا۔ کوئی آرام نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنی والدہ مرحومہ سے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں حضرت اقدس کی خدمت میں جاؤں اور آنکھوں کو دم کراؤں ۔ شاید میں اچھی ہوجاؤں؟‘‘ والدہ صاحبہ مرحومہ نے کہا کہ ہاں فوراً جاؤ۔ کوئی پیالی بھی دی تھی کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھوک بھی لے آنا۔ میں جب گئی تو حضرت چارپائی پر بیٹھے تھے۔ رخ مغرب کی طرف تھا۔حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔’’ کیوں لال پری ! کس طرح آئی ہے ۔‘‘ میں نے ہاتھ آنکھوں پر رکھا ہوا تھا ۔میں نے کہا کہ حضورآنکھیں دکھتی ہیں ،بہت علاج کیا اچھی نہیں ہوتیں ۔آپ نے اپنی انگلی پر تھوک لگا کر میری آنکھوںکے ارد گرد لگا دیا ۔ فرمایا ’’ بس! پھر کبھی ایسی درد نہ کریں گی اور ہنس کر کہا ۔’’اچھی ہو گئی؟‘‘ گھر آئی! میںنے آنکھیں کھول لیں ۔ پھر مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔
{1503} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مائی امیری نائین والدہ عبدالرحیم صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام بہت نیک تھے اور بہت عبادت گذار تھے۔ اِدھر اُدھر گلیوں میں کبھی نہیں پھرتے تھے۔ عموماً گھر پر ہی رہتے تھے یا مسجد میں جاتے تھے۔ جانو کشمیری عموماً خدمت میں ہوتا تھا۔ حافظ مانا بسا اوقات رات دیر تک پیر دبایا کرتا تھا۔ حضور علیہ السلام کا لباس سادہ ہوتا تھا۔ جب دہلی اپنے نکاح کے لئے گئے تھے۔ تو یونہی سادگی سے چلے گئے تھے ۔
{1504} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سعیدہ بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب مرحوم بدوملہوی مہاجر واہلیہ وزیر محمد صاحب مرحوم پنشنر مہاجر نے بواسطہ مکرم محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میری والدہ مرحومہ نے ،جب حضور علیہ السلام صحن ہی میں پلنگ پر تشریف فرما تھے، آپ کی خدمت میں کہا کہ میری یہ لڑکی درثمین میں سے یہ شعر پڑھا کرتی ہے اس پر سراج منیر سے حضرت اقدس نے خاکسارہ کو فرمایا کہ ’’ پڑھو ، سناؤ‘‘ خاکسارہ نے فداہ نفسی وہ تمام شعر سنادئیے جن کا پہلا شعر یہ ہے ۔
زندگی بخش جام احمد ؐ ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمدؐ ہے ۔
حضورؑ نے سر پر پیار کیا اور دونوں دست مبارک سے باداموں کی مٹھی بھر کر خاکسارہ کی جھولی میں ڈال دی۔
{1505} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب وبنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بارش سخت ہورہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے۔ انہوںنے کھانا حضورؑ اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں ،باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے ۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’ شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں ؟‘‘ جواب ملا کہ نہیں ۔ ان دنوں دادی مرحومہ ؓ وہاں رہا کرتی تھیں۔ حضورؑ نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ ’’ پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھالیں گے ۔‘‘
{1506} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔استانی رحمت النساء بیگم صاحبہ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی محمد یوسف صاحب سعدی نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ۔آپ۳۱۳میں سے تھے اور سنور کے رہنے والے تھے۔ میں۱۹۰۷ء میں حضور ؑ کے قدموں میں آئی۔ میں اور میرا خاوند ہم دونوںموسمی تعطیلات میں قادیان آئے اور میں حضورؑ کے گھر کے نچلے حصہ میں ٹھہری ۔ سخت گرمی تھی اور میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جو نیچے کھیلتے رہتے تھے۔ آپ کی دو نوکرانیاں تھیں جو بچوں سے اُکتا کر ان کو اور مجھ کو برا بھلا کہتی تھیں ۔ ایک عرصہ تک میں ان کی باتوں کو سنتی رہی ۔آخر ایک دن میرا خاوند آیا تو میں نے اس سے شکایت کی ۔میرے خاوند نے ایک رقعہ لکھ کر مجھ کو دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو دے دینا ۔ جب میں وہ رقعہ لے کر اوپر گئی تو آپ اور اماں جان چوبارہ پر ٹہل رہے تھے ۔ جب میں نے سلام کہا تو آپ ٹھہر گئے اور رقعہ لے لیا۔ میں نیچے اتر آئی۔ ابھی نیچے اتری ہی تھی کہ آپ نے ایک عورت کو جس کا نام فجو تھا مجھے بلانے کے واسطے بھیجا ۔جب میں حضور میں پہنچی تو آپ نے محبت آمیز لہجہ میںجو باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ محبت کے ساتھ فرمایا ’’ تم ان کی باتوں سے غم نہ کرو۔ انہوںنے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے ۔‘‘ پھر آپ نے ان عورتوں کو خوب ڈانٹا اور ان میں سے ایک کو تو فوراً نکل جانے کا حکم دیا اور دوسری کو خوب ڈانٹا اور فرمایا ’’ کیا میرے مہمان جو اتنی گرمی میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ،اپنے آراموں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں تم ان کو برا بھلا کہتی ہو۔ کیا وہ صرف لنگر کی روٹیاں کھانے آتے ہیں ؟ اور میرے متعلق کہا کہ اس لڑکی کو آئندہ کچھ تکلیف نہ ہو۔‘‘
تھوڑے عرصہ بعد میاں مبارک احمد صاحب بیمار ہو گئے تو ہم اکثر اوپر رہتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر کسی قسم کے غم کے آثار نہیں تھے ۔ جب میاں مبارک احمد صاحب نے وفات پائی تو آپ دیکھ کر اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر چوبارہ پر تشریف لے گئے اور اس وقت تک نہ اترے جب تک جنازہ تیار نہ ہوا۔آپ کو فطرتی غم تھا اور ایک طرف خوشی بھی تھی۔ کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی ۔ آپ فرماتے تھے کہ ’’ اللہ کی امانت تھی جو کہ خدا کے پاس چلی گئی۔‘‘ لیکن جب بھی میں آپ کو دیکھتی آپ کو خوش ہی دیکھتی۔
آپ اپنے مہمانوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے۔ جب ہماری چھٹیاں ختم ہونے کو آئیں تو میں نے حضور علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت مانگی جو کہ حضور علیہ السلام نے بخوشی منظور کر لی۔
{1507} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح کے وقت آفتاب نکلنے کے بعد بسراواں کی طرف سیر کرنے کے واسطے تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ حضرت اُم المومنین کے علاوہ چند اور عورتیں بھی تھیں ۔ جن میں سے میرے علاوہ مرزا خدا بخش صاحب جھنگ والے کی بیوی ام حبیبہ ،محمد افضل صاحب کی بیوی سردار ، حافظ احمد اللہ صاحب کی بیوی اور اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ وغیرہ بھی تھیں۔ ان دنوں حضور علیہ السلام کے ہمراہ صبح کو پانچ چھ عورتیں اور حضرت اُم المومنین سیر کو جایا کرتی تھیں اور عصر کے بعد مرد جایا کرتے تھے ۔بعض اوقات صبح کو بجائے عورتوں کے مرد ہی صبح کو جایا کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام اکثر محلہ دارالانوار کی طرف والے رستہ پر سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ حضورؑ جب سیر کے واسطے نکلتے تو سکھ لوگ بے ادبی کے کلمات زبان سے نکالتے جو حضور ؑ اور حضور کے ہمراہ عورتوں کو سنائی دیتے تھے مثلاً’’ مرزا بھیڑ بکریاں لے کر باہر نکلتا ہے ۔‘‘ جب سکھ لوگ اس طرح کے فقرے لگاتے تو بعض اوقات مرزا خدا بخش اور محمد افضل صاحب کی بیوی حضورؑ کو توجہ دلاتیں تو حضورؑ فرماتے ۔’’ ان کو بولنے دو ۔ تم خاموش رہو اور ادھر توجہ ہی نہ کرو۔‘‘
{1508} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عصمت بیگم صاحبہ عرف زمانی اہلیہ حکیم محمد زمان صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سوئے ہوئے تھے اور میں پیر کی طرف فرش پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ پیر دبا رہی تھی ۔حضورؑ کے پیر مبارک کا انگوٹھا ہل رہا تھا۔ اتنے میں اماں جان آئیں اور حضور کو آواز دی کہ سنتے ہو ،سنتے ہو۔حضورؑ کی آنکھ کھل گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم نے مجھ کو جگا دیا الہام ہو رہا تھا۔ کیا پتہ کہ زمانی کے لئے ہورہا تھا اس کا بھلا ہو جاتا۔‘‘
مَیں روز حضورؑ کے پاس دعا کے لئے جاتی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا سے اب میری چار لڑکیاں اور ایک لڑکا سلامت ہیں ۔‘‘
{1509} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پشاوری زوجہ چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء میں جب میری والدہ مرحومہ فوت ہوگئی تھیں تو مجھے اماں جی اہلیہ خلیفہ اولؓ اپنے گھر لے گئیں ۔ناشتہ وغیرہ کرایا۔ پھر چار پانچ یوم کے بعد حضرت اُم المومنین مجھے اپنے گھر لے آئیں ۔ جہاں اب اماں جان کا باورچی خانہ ہے وہاں میرا سر دھلو ا رہی تھیں ۔ ایک عورت میرے سر میں پانی ڈالتی جاتی تھی۔ حضرت اُم المومنین میرے سر کو صابن ملتیں اوردھوتی تھیں۔ وہ عورت پانی زیادہ ڈال دیتی تھی۔ حضورعلیہ السلام وہاں ٹہل رہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے لوٹا اس کے ہاتھ سے لے کر میرے سر پر پانی ڈالا۔ پھر حضور علیہ السلام آہستہ آہستہ پانی ڈالتے جاتے تھے اور اُم المومنین کنگھی کرتی جاتی تھیں ۔ حضور ؑ فرماتے کہ ’’اس طرح جوئیں نکل جائیں گی ۔‘‘
{1510} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحومؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب(جٹ) فاضل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب ؓبذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضورؑ کو گڑ کے میٹھے چاول بہت پسند تھے ۔حضورؑ مسجد میں کھانا کھا رہے تھے کہ میں نے میٹھے چاول بھیج دئے ۔حضورؑ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب ؓ کو پوچھا کہ ’’یہ چاول کس نے پکائے ہیں ؟‘‘ انہوںنے عرض کی کہ حضورؑ! مجھے معلوم نہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے پکا کر بھیجے ہیں ۔ بہت اچھے پکائے ہیں ان کے واسطے دعا کرو۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1511} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دبا رہی تھیں ۔آپ کے پا س کوئی جامن لایا۔ آپ نے جامن کھا کر گٹھلی پھینک دی میں نے والدہ سے کہا کہ اس کو میں اپنے منہ میں ڈال لوں۔ اس پر تھوک لگا ہے۔ جب میں نے منہ میں ڈالی تو آپؑ نے میری طرف نظر کر کے جامن دئے ۔میری والدہ نے عرض کیا کہ نہیں حضورؑ! وہ تبرک چاہتی تھی۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آپ کی بات سمجھ گیا ہوں یہ بھی تبرک ہے۔‘‘ حالانکہ میں نے پشتو زبان بولی تھی۔
{1512} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن فجر کے وقت حضور علیہ السلام شہ نشین پر ٹہل رہے تھے ۔میں اور ہمشیرہ زینب اور والدہ صاحبہ نما زپڑھنے کے لئے گئیں تو آپ نے فرمایا ۔’’آؤ تمہیں ایک چیز دکھائیں ۔یہ دیکھو یہ دمدار تارا ہماری صداقت کا نشان ہے ۔ اس کے بعد بہت سی بیماریاں آئیں گی ۔‘‘ چنانچہ طاعون اس قدر پھیلاکہ کوئی حد نہیں رہی ۔
{1513} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ صبح کے وقت حضورؑ بسراواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے ۔جس وقت چھوٹی بھینی جو بڑی بھینی کے مشرق کی طرف ہے کے پاس سے گزر کر ذرا آگے بڑھے تو ام حبیبہ زوجہ مرزا خد ابخش صاحب نے کہا کہ حضور! اب آگے نہ بڑھیں میں تھک گئی ہوں ۔اب واپس چلیں ۔ تو حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ تم ابھی تھک گئی ہو یہ بھینی تو قادیان کے اندر آجائے گی۔اس وقت تم کو یہاں کسی کے گھر آنا پڑا تو اس وقت کیا کروگی؟‘‘
{1514} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ مکرمہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ ایک دفعہ ننگل کی طرف سیر کو تشریف لائے ۔ میں نے جو آتے دیکھا تو ایک کٹورے میں گرم دودھ اور ایک گڑ کی روڑی لے کر آئی۔ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’ اس لڑ کی نے بڑی مشقت کی ہے کہ ایک ہاتھ میں گرم دودھ اور دوسرے میں گڑ لائی ہے ۔‘‘ حضورؑ میرے گھر کے دروازے پر جو لبِ سڑک ہے، کھڑے ہو گئے اور جو اصحاب ساتھ تھے وہ بھی ٹھہر گئے ۔ پھر اس دودھ میں سے خود بھی ایک دو گھونٹ نوش فرمائے اور باقی تمام ہمراہیوں نے تھوڑا تھوڑا پیا۔ حکیم مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے اسے کہا ’’گڑ کی ڈھیلی توڑو ‘‘ تو وہ توڑ نہ سکے ۔ تو حضورؑ نے خود ہتھیلیوں سے دبا کر توڑی اور ا ن کو کہا ’’ سب کو تھوڑا تھوڑا گڑ بانٹ دو ۔‘‘ خود بھی چکھا تھا۔
{1515} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبد اللہ صاحب ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں تیرہ یا چودہ سال کی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں آیا کرتی تھی۔ ایک بار میں اور میرا باپ گنے کا رس لے کر آئے تھے۔ میرا باپ ڈیوڑھی میں اس کا گھڑا لے کر کھڑا رہا اور میں اپنا رس کا برتن لے کر اندر گئی۔ اماں جان بیٹھی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے تھے ۔حضرت اماں جان نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ رس پیئں گے ؟ دودھ ملا کردیں ؟ حضورؑ نے فرمایا کہ ہاں ۔حضرت اماں جان نے رس چھان کر اس میں دودھ ملایا ۔پھر حضرت مسیح موعودؑ نے گلاس لے کر پیا۔ میں کھڑی رہی کہ میں آپ کو دیکھوں ۔ حضورؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ آج صبح سے رس پینے کو دل چاہتا تھا۔‘‘ دوسرا برتن رس کا بھی میں اپنے باپ سے لے آئی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لائے تو میرا باپ پیچھے مڑنے لگا تو گر گیا اور چوٹ آئی ۔ حضرت نے دیکھا اور فرمایا کہ ’’ بچ گیا ۔‘‘ میرے باپ نے بتایاکہ جیسے ہی حضرت نے فرمایا کہ ’’ بچ گیا‘‘ تو مجھے ایسا معلوم ہو اکہ چوٹ ہی نہیں لگی۔
{1516} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ والدہ صاحبہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام نے وضو کرنے کے بعد مجھے فرمایا کہ ’’ جاؤ اندر سے میری ٹوپی لے آؤ۔‘‘ جب میں گئی تو دیکھتی کیا ہوں کہ ایک معمولی سی ٹوپی پڑی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر میں واپس آگئی اور عرض کی کہ حضور! وہاں نہیں ہے ۔ اس طرح تین مرتبہ اندر جا کر آتی رہی مگر مجھے گمان نہ ہوا کہ یہ پرانی ٹوپی حضورؑ کی ہوگی۔ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب جو وہاں تھے انہوںنے فرمایا کہ ’’میں لاتا ہوں ۔‘‘ جب وہ وہی ٹوپی اٹھا کر لائے جو میںنے دیکھی تھی تو میں حیران رہ گئی کہ اللہ اللہ کیسی سادگی ہے‘‘
{1517} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحومؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارا تمام خرچ روٹی کپڑے کا حضورؑ ہی دیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضورؑ نے ایک کپڑے کی واسکٹ اپنے اور ایک حافظ حامدعلی صاحب ؓ کے واسطے بنوائی تھی۔ سرد ی کاموسم تھا ۔میں نے حافظ صاحب کو کہا کہ میں صبح جب نماز تہجد کے لئے اٹھتی ہوں اور سحری پکاتی ہوں تو مجھے سردی لگتی ہے ۔ حافظ صاحب نے گرم صدری جو حضورؑ نے ان کو بنا دی تھی مجھے دے دی۔ جب میں اس کو پہن کر گئی اور انگیٹھی میں آگ جلا رہی تھی تو حضورؑ نے پوچھا کہ ’’رسول بی بی ! کیا یہ میری واسکٹ چرا لی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضور سب کچھ آپ کا ہی ہے۔آپ کا ہی کھاتے ہیں ،آپ کا ہی پہنتے ہیں ۔ حضورؑ اس پر خوب ہنسے اور فرمایا کہ ’’ خوب کھاؤپیو۔‘‘
{1518} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضورؑ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر دروازہ میں کھڑے تھے ۔ اوپر سے ایک اینٹ گری۔ میں نے حضورؑ سے کہا کہ حضور! باہر آجائیں ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ سب لڑکیاں کھڑی ہیں کسی کو یہ خیال نہیں آیا ۔یہ بہت ہشیار ہے ۔‘‘ اماں جان نے زینب سے جو اب مصری کی بیوی ہے کہا کہ ’’ مبارکہ بیگم اندر سوئی ہوئی ہیں ان کو اٹھا لاؤ۔‘‘ زینب نے کہا کہ کہیں میرے اوپر چھت نہ گر جائے ۔ لیکن میں جلدی سے اندر گئی اور بی بی کو اٹھا لائی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ لڑکی بڑی ہشیار ہے ۔ یہ جو بھاری کام کیا کرے گی اس میں برکت ہوگی اور اس کو تھکن نہیں ہوگی۔‘‘ حضور علیہ السلام کی برکت سے میں بھاری بھاری کام کرتی ہوں مگر تھکتی نہیں ۔
{1519} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ لال پری صاحبہ پٹھانی بنت احمد نورصاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (حضور) ایک دن سیر کو گئے جو تیوں پر بہت گردا گرا۔ میری والدہ مرحومہ اپنے دوپٹہ سے پوچھنے لگی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’نعمت! چھوڑد وکیا کرنا ہے ؟ آخرت کا گردا اس سے زیادہ ہے۔‘‘
{1520} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ صاحبہ نماز فجر باجماعت پڑھنے کے لئے گئیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ آج رات کو کوئی خاص چیز دیکھی ہے؟‘‘ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ’’ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے دن چڑھ رہاہے ،روشنی تیز ہورہی ہے۔ تو میں جلدی سے اٹھی اور نفل پڑھنے شروع کر دئے۔ معلوم تو ہوتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے لیکن میں کافی دیر تک نفل پڑھتی رہی اور اس کے بڑی دیر بعد صبح ہوئی۔ ‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ میں نے یہی پوچھنا تھا۔‘‘
{1521} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب میں شروع شروع قادیان میں آئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ اب نواب صاحب کا شہر والا مکان ہے وہاں لنگر ہوا کرتا تھا اور روٹی یہاں تیار ہوتی تھی مگر سالن اندر عورتیں پکایا کرتی تھیں ۔جب کھانا تیار ہوجاتا تو مسجد مبارک کے قدیم حصہ کی بالائی چھت پر لے جایا جاتا اور حضور علیہ السلام مہمانوں کے ساتھ اکثر وہیں کھاناکھاتے تھے۔ یہ مغرب کے بعد ہوتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ کس طرح اور کہاں کھایا جاتا تھا۔
{1522} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں نے بیعت کی تھی اس وقت بٹالہ والے منشی عبد العزیز صاحب قادیان آئے ہوئے تھے۔ ہم چار پانچ عورتیں ،میری ساس ، راجن اور میری نندتھیں ۔جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضورؑ نے دریافت کیا کہ ’’ تم کیوں آئی ہو؟‘‘ میری ساس راجن نے کہا کہ ہم منشی صاحب کو جو میرا بھتیجا ہے ملنے آئی ہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ نہیں جس بات کے واسطے تم آئی ہو وہ کیوں نہیں بتاتیں ؟‘‘ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم ہوگیا تھا کہ ہم بیعت کرنے آئی ہیں ۔پس ہم سب نے بیعت کرلی۔ بیعت لینے سے پہلے فرمایا تھاکہ’’مائی راجن! یہ کام بہت مشکل ہے تم سوچ لو ۔ کہیں گھبرا نہ جاؤ۔‘‘ چونکہ ابھی ہمارے مردوں نے بیعت نہیں کی تھی ا سلئے حضورؑ نے فرمایاتھا کہ ’’ ایسا نہ ہو کہ تم مستقل مزاج نہ رہ سکواور بیعت سے پھر جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا کہ حضور! خواہ کچھ ہو ہم نہیں گھبرائیں گی اور بیعت پر قائم رہیں گی۔ تو حضورعلیہ السلام نے دعا فرمائی۔
{1523} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ منشی عبد العزیز صاحب بٹالہ والے جن کی بیوی کا نام برکت ہے، جو اب شاید پھر گئے ہیں ۔اس زمانہ میں قادیان گول کمرہ میں ہوتے تھے۔ وہ میری ساس راجن کے بھتیجے تھے۔ منشی صاحب کی پھوپھی جس کا نام’’نانکی ‘‘ تھا وہ ہمارے ننگل میں رہتی تھی جو کہ احمدیت کی سخت مخالف تھی۔ کہتی تھی کہ ’’ مرز اصاحب کی بیعت کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ اور مردوں میں بھی مخالفت عام تھی اس لئے ہم نے بیعت تو کر لی تھی مگر ہم کسی سے اس کا ذکر ڈر کی وجہ سے نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ ’’نانکی‘‘ اگر بیعت کر لے تواچھا ہو گا۔ ہم نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ ’’ تو پہلے کہا کرتی تھی کہ جب مہدی آوے گا تو میں اس کو مان لوں گی مگر تم نہیں مانوگی ۔ اب یہ جو مہدی آگیا ہے تو اس کو کیوں نہیں مانتی؟‘‘ مگر وہ مخالفت کرتی رہتی اور کہتی تھی کہ ’’یہ مہدی نہیں ہے ۔‘‘ ایک دن وہ قادیان میں منشی صاحب کے پاس آئی تو اس کو سمجھایا کہ ’’ اس طرح نکاح نہیں ٹوٹتے تو آہستہ آہستہ اس کو سمجھ آگئی اور اس نے بیعت کر لی ۔ ہمارے گھر میں خدا کے فضل سے مخالفت کا جوش کم ہوگیا اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم نے عرصہ کی بیعت کی ہوئی ہے ۔ جب مخالفت کا جوش کچھ کم ہوا تھا تو میرے خسر مسمی’’کوڈا‘‘ نے کہا تھا کہ ’’ نکاح تو نہیں ٹوٹتے مگر مجھے تو یہ فکر ہے کہ ہم میں سے جو بیعت کرے گا وہ اس طرح الگ ہو جائے گا کہ برادری میں اپنی لڑکیاں نہیں دے گا۔‘‘
جب ہمارے مرد بھی چند ایک احمدی ہو گئے تھے تو ہم نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ’’ حضور ؑہم گھبرائے تو نہیں تھے مگر یہ قصور ہم سے ضرور ہوا ہے کہ ہم نے ایک عرصہ تک یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہم نے حضور کی بیعت کر لی ہے۔‘‘ حضورؑ نے ہمیں تسلی دی اور فرمایا کہ ’’ یہ قصور نہیں ہے یہ مصلحتاً ایسا کیا گیا ہے جس کا نتیجہ بہت اچھا ہوا ہے ۔‘‘
{1524} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت سونے کا زیور پہن کر آئی تو جس پلنگ پر حضرت اُم المومنین اور حضورؑ بیٹھے تھے آکر بیٹھ گئی۔ ہم لڑکیاں دیکھ کر ہنسنے لگیں ۔ہم نے کہا کہ اگر ہمیں بھی سونے کی بالیاں اور کڑے وغیرہ ملتے تو ہم بھی حضورؑ کے پلنگ پر بیٹھتیں۔ حضرت اُم المومنین نے حضور کو بتا دیا کہ یہ لڑکیاں ایسا کہہ رہی ہیں۔ حضورؑ ہنس پڑے اور فرمایا کہ ’’ آجاؤ لڑکیو! تم بھی بیٹھ جاؤ‘‘ ۔
{1525} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ مجھے نیند بہت آیا کرتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے صفیہ بنت قدرت اللہ خان صاحب ؓ سے فرمایا تھا کہ حسّو کو صبح جگا دیا کرو۔ایک دن زینب مجھے جگا رہی تھی اور حضورؑ دیکھتے تھے۔اس نے پہلے میرا لحاف اتارا پھر میرے منہ پر تھپڑ مارا ۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ ایسے نہیں جگاتے۔ بچے کو تکلیف ہوتی ہے ۔تم اسے نہ جگایا کرو میں خود جگادیا کروں گا۔‘‘ اس دن سے جب حضورؑ صبح اٹھ کر رفع حاجت کو جاتے تو پانی کا ذرا سا چھینٹا میرے منہ پر مار دیتے۔ میں فوراً اُٹھ کھڑی ہوتی۔ حضور علیہ السلام مجھے نماز کے واسطے اٹھایا کرتے تھے۔‘‘
{1526} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نماز پڑھانے کے واسطے تشریف لے جارہے تھے تو خاکسارہ سے فرمایا کہ میری ٹوپی اندر سے لے آؤ۔ میں دو دفعہ گئی لیکن پھر واپس آگئی۔ تیسری دفعہ گئی تو میاں شریف احمد صاحب نے کہا کہ ’’ تمہیں ٹوپی نہیں ملتی آؤ۔ میں تمہیں بتا دوں۔‘‘ یہ کہہ کر میاں صاحب نے ’’ تاکی‘‘ میں سے ٹوپی اٹھا لی۔ میں نے کہا ’’ یہ تو میں نے دیکھ کر رکھ چھوڑی تھی۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ آپ سمجھتی ہوں گی کہ کوئی بڑی اعلیٰ ٹوپی ہوگی ۔ہم ایسی ہی ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں ۔‘‘
{1527} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتا سی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میرا چوتھا لڑکا کوئی چار پانچ سال کا تھا کہ اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ اس نے سانپ کو دیکھا نہ تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس کو کانٹا لگا ہے۔ میں نے بھی سوئی سے جگہ پھول کر دیکھی۔ کچھ معلوم نہ ہوا لیکن جب بچہ کو چھالا ہو گیا اور سوج پڑ گئی تو معلوم ہو اکہ وہ کانٹا نہیں تھا بلکہ سانپ نے کاٹا تھا جس کا زہر چڑھ گیا ہے ۔بچہ چھٹے دن فوت ہوگیا تھا ۔جب حضور علیہ السلام کو علم ہوا تو حضور نے افسوس کیا اور فرمایا کہ ’’ مجھے کیوں پہلے نہیں بتایا ؟ میرے پاس تو سانپ کے کاٹے کا علاج تھا۔‘‘ مجھے بچے کے فوت ہونے کا بہت غم ہو اتھا اور میں نے رو رو کر اور پیٹ پیٹ کر اپنا بُرا حال کر لیا تھا۔ جب حضورؑ کو حضرت ام المومنین نے یہ بات بتائی تو حضورؑ نے مجھے طلب فرماکر نصیحت کی اور بڑی شفقت سے فرمایا کہ’’ دیکھو حسن بی بی! یہ تو خد اکی امانت تھی اللہ تعالیٰ نے لے لی ۔ تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ ایک بڑی نیک عورت تھی اس کا خاوند باہر گیا ہو اتھا جس دن اس نے واپس آنا تھا۔اتفاقاً اس دن اس کا جوان بچہ جو ایک ہی تھا فوت ہوگیا تھا ۔اس عورت نے اپنے لڑکے کو غسل اور کفن دے کر ایک کمرے میں رکھ دیا اور خود خاوند کے آنے کی تیاری کی۔کھانے پکائے، کپڑے بدلے، زیور پہنا اور جب خاوند آیا تو اس کی خاطر داری میں مشغول ہو گئی۔ جب وہ کھانا کھا چکا تو اس نے کہا کہ ’’میں آپ سے ایک بات دریافت کرتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی امانت کسی کے پاس ہو اور وہ اس کو واپس مانگے تو کیا کرنا چاہئے ؟ اس نے کہا کہ فوراً امانت کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دینا چاہئے ۔‘‘ توا س نیک بی بی نے کہا کہ اس امانت میں آپ کا بھی حصہ ہے پس وہ اپنے خاوند کو اس کمرے میں لے گئی جہاں بچہ کی نعش پڑی تھی اور کہا کہ ’’ اب اس کو آپ بھی خد اکے سپرد کر دیں یہ اس کی امانت تھی جو اس کو دے دی گئی ہے؟‘‘ یہ سن کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے اُسی وقت جزع فزع چھوڑ دی اور مجھے اطمینان کلی حاصل ہو گیا ۔ اسکے بعد میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ ’’ مجھے اپنے وطن جہلم لے چلو۔‘‘ اس نے حضورؑ سے اجازت طلب کی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تمہاری بیوی کو نیا نیا صدمہ پہنچا ہے۔ یہ وہاں جا کر پھر غم کرے گی اس لئے میں ابھی اجازت نہیں دیتا۔ پھر عرصہ تین سال کے بعد جب اجازت ملی تو میں اپنے وطن گئی۔‘‘
{1528} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ بابو محمد ایوب صاحب بدو ملہوی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ۱۹۰۸ء میں جبکہ حضور علیہ السلام لاہور اپنے وصال کے دنوں میں تشریف فرما تھے۔ عاجزہ نے حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ غالباً ۱۲یا۱۳مئی ۱۹۰۸ء کو بیعت کی ۔خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں میرے خاوند بابو محمد ایوب صاحب نے پہنچایا اور تھوڑا سا پھل عاجزہ کو ایک رومال میں ساتھ دیا۔خواجہ صاحب موصوف کی اہلیہ کو عاجزہ نے کہا کہ ’’ میں نے حضرت صاحب کی بیعت کرنی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’ ابھی عورتیں بیعت کر کے اتری ہیں اگر آپ ذرا پہلے آجا تیں تو ساتھ ہی چلی جاتیں ۔اب دریافت کر لیتی ہوں بیٹھ جائیں ۔‘‘ تھوڑی دیر بعد مجھے ایک لڑکی لے گئی۔ آپ اوپر بالا خانہ میں ایک کمرے میں تشریف فرما تھے۔ایک طرف حضرت ام المؤمنین ایک پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں ’’السلام علیکم ‘‘ عرض کر کے حضرت اماں جان کے پلنگ کے پاس بیٹھ گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ یہ کون لڑکی ہے؟ ‘‘ اماں جان نے جواباً فرمایا کہ ’’ پچھلے سال حسن بی بی بدوملہوی بہو بیاہ کر لائی تھی یہ وہی لڑکی ہے ۔وہ پھل والا رومال میں نے حضرت اماں جان کے پلنگ پر رکھ دیا تھا پھر میں نے عرض کی کہ ’’ میں نے بیعت کرنی ہے ۔‘‘ اماں جان نے حضرت صاحب سے فرمایا کہ ’’ یہ بیعت کرنا چاہتی ہے ۔‘‘ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہاں آجائے۔‘‘ وہ رومال جو میں نے حضرت اماں جان کے پاس رکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب جاتے ہوئے اپنی کم عمری کی وجہ سے ساتھ ہی لے گئی اور حضورؑ کے پاس رکھ دیا۔ بیعت کے بعد حضورؑ نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ایک سیب کاٹا اور ایک قاش مجھے عطا فرمائی اور ایک حضورعلیہ السلام نے خود رکھ لی اور باقی رومال حضورؑ نے اٹھایا اور فرمایا کہ ’’ بیوی جی کے پاس لے جاؤ‘‘ اگر چہ آج بھی اس بات کو یاد کر کے اپنی حرکت پرہنسی آتی ہے کہ پہلے پھل حضرت اماں جان کے پاس رکھا اور پھر اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لے گئی۔ مگر اس بات کو یاد کر کے شکریہ سے دل بھر جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے دست مبارک سے ایک قاش لینی نصیب ہوئی ۔فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک
{1529} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مرزا ارشد بیگ کی والدہ الفت بیگم کے متعلق الہام ہوا کہ وہ فوت ہو جائے گی۔ جو وقت فوت ہونے کا بتایا تھا اس دن کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی ہے۔ اور ڈھول بجا کر بھی شور مچایا مگر جب اذان شروع ہوئی تو ساتھ ہی گھر میں سے چیخوں کی آواز آنے لگ گئی ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ الفت بیگم ہی فوت ہوئی ہیں اس پر مخالفین بہت نادم ہوئے ۔‘‘
{1530} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سلطان بی بی صاحبہ اہلیہ مستری خیر دین صاحب قادر آباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دن حضور سیر کو تشریف لے جارہے تھے ۔میری ساس ساتھ چلی گئی پھر واپس گھر تک چھوڑنے گئی وہ ہمیشہ ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔
ایک دن ہم بیعت کرنے کے لئے گئے۔ ہم تین عورتیں تھیں ۔ہماری ساس ہم کو ساتھ لے کر گئی۔ میری ساس کچھ بتاشے لے کر گئی تھی۔ حضورؑ پوچھنے لگے کہ ’’ تمہاری بہو کون سی ہے ؟ اور کس کی بیٹی ہے ؟ میری ساس نے بتایا کہ میری بہو یہ ہے اور یہ میری بہن کی بیٹی ہے ۔اس کے بعد بیعت ہوئی اور دعا کی گئی۔ وہ بتاشے جو ہم لے گئے تھے (ان میں سے حضور ؑ نے)کچھ رکھ لئے اور کچھ مجھے دیئے۔
{1531} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ حضور علیہ السلام جب کام کرتے کرتے تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہل ٹہل کر کام کیا کرتے تھے اور جب ٹہلتے ہوئے بھی تھک جاتے تو پھر لیٹ جاتے تھے اور حافظ حامد علی صاحب کو بلا کر اپنے جسم مبارک کودبواتے تھے اور بعض دفعہ حافظ معین الدین صاحب کو بلواتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب نے نظمیں خود بنائی ہوئی تھیں حضورؑ ان کو فرماتے کہ’’ اپنی نظمیں سناؤ‘‘ حافظ صاحب دباتے ہوئے نظمیں بھی سنایا کرتے تھے۔جب حافظ صاحب اس خیال سے کہ حضورؑ سوگئے ہوں گے خاموش ہو جاتے تو حضورؑ فرماتے کہ ’’ حافظ صاحب آپ خاموش کیوں ہو گئے ؟آپ شعر سناویں ۔‘‘ تو حافظ صاحب پھر سنانے لگ جاتے تھے‘‘ ۔
{1532} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میرے والد اکثر نئی لکڑی( عصا) بنا کر حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور حضورؑ کی مستعملہ لکڑی اس سے تبرکاً بدلوا لیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نئی لکڑی دے کر مجھے بدلوانے کے واسطے بھیجا۔ حضورؑ اس وقت اُمّ ناصر کے آنگن میں ٹہل رہے تھے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اندر سے میراسوٹا اٹھالا۔‘‘ میں اندر گئی اور ایک سوٹا اٹھا لائی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ تو حافظ مانا کا ہے ۔‘‘ تب میں پھر جا کر دورسرا اٹھا لائی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ ہمارا ہے اسے لے جاؤ اور اپنے ابّا سے کہہ دینا کہ جس گھر میں یہ ہو گا اس گھر میں سانپ کبھی نہیں آویگا۔ چنانچہ وہ سوٹا اب تک موجود ہے اور سانپ گھر میں کبھی نہیں دیکھا گیا ۔‘‘
{1533} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ از لنگر وال نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ’’ ایک بار میں نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ تسبیح پر وظیفہ پڑھتے ہیں ۔مجھے بھی کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ میں بھی تسبیح پر پڑھا کروں ۔ آپؑ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ ’’ آپ کو اگر تسبیح کا شوق ہے تو یہ وظیفہ پڑھا کرو۔‘‘
’’ یَا حَفِیْظُ ،یَا عَزِیْزُ ،یَا رَفِیْقُ ،یَا وَلِیُّ اشْفِنِیْ ‘‘
{1534} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحبؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ میرے خاوند کے چچا کا نکاح ہونے والا تھا حضور نے بھی برات کے ساتھ جانا تھا۔ میرے خاوند حافظ حامد علی صاحبؓ کو حضور ؑ نے پہلے بھیج دیا تھا کہ وہ حضورؑ کا کھانا تیار کر کے لائیں ۔ میری ساس سے چالیس پچاس پراٹھے اور دس باری سادہ روٹیاں ۔آم کا اچار اور بارہ سیر شکر لے کر حافظ صاحب کتھو ننگل پہنچ گئے وہاں حضورؑ نے کھانا کھایا۔ پھر حضور ؑ نے حافظ صاحب کو گھر بھیجا کہ ’’ جا کر صلح کراؤ ہم آکر نکاح کردیں گے۔‘‘ شام کو حضورؑ پہنچ گئے اور نکاح کرادیا۔ دولہا کو کہا کہ’’ اپنے گھر جاؤ‘‘ اور حافظ صاحب کو کہا ’’ اپنے گھر جاؤ‘‘ آپ حضور علیہ السلام وہیں دالان میںسو گئے ۔۔۔۔۔
صبح اٹھ کر حضورؑ پیشاب کرنے گئے تو مٹی کا ڈھیلا (وٹوانی کے لئے)مانگا۔ ایک شخص نے جس کا نام مہر دین تھا ایک دیوارسے مٹی اکھیڑ کر دے دی۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ’’ مٹی کہاں سے لائے ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ ارائیں کی دیوار سے لایاہوں ۔‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ کیا اس کو پوچھ لیا تھا؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ وہ تو ہمارا موروث ہے۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ وہیں رکھ دو ۔میں نہیں لیتا۔‘‘
{1535} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ بنت پیر افتخار احمد صاحب زوجہ میر احمد صاحب قریشی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ قضائے حاجت کو جاتے تو میں عموماً لوٹے میں گرم پانی وضو کے واسطے باہر رکھ آتی۔ ایک دن غلطی سے زیادہ گرم پانی رکھا گیا تو حضورؑ وہ لوٹا اٹھا لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کراس پر گرم پانی ڈال دیا۔ میں ایسی شرمندہ ہو ئی کہ کئی دن حضورؑ کے سامنے نہ ہو سکی ۔
حضور ان دنوں نما زمغرب وعشاء جمع کرایا کرتے تھے ۔ایک دن میں نے کہا کہ حضورؑ ساریاں کے واسطے (یعنی سب کے لئے) دعا کریں ۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کیا کہا؟ صالحہ کے واسطے( جو حضرت میر محمد اسحق صاحب کی بیوی ہیں )دعا کروں ؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’ حضورؑ! ساریاں کے واسطے۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1536} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ مستری چراغ دین صاحب قادر آباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میں اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ درس سننے گئی۔ میں اپنے چھوٹے بھائی کو جہاں جو تیاں تھیں کھلانے لگی جب حضور درس ختم کر کے اٹھے تو مجھے فرمانے لگے کہ’’ بچہ کو اٹھا لو ۔بچے کا جوتیوں سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔‘‘
{1537} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ دو عورتیں حضور ؑکو دبا رہی تھیں ،خاکسارہ دبانے کے لئے گئی تو وہ کہنے لگیں کہ ’’ اب حضورؑ کی طبیعت خراب ہے ۔بس دو ہی آدمی دبائیں گے زیادہ نہیں دبا سکتے ۔‘‘ میں واپس چلی گئی ۔آپ آنکھیں بند کر کے لیٹے ہوئے تھے ۔یوں معلوم ہوتے تھے جیسے سوئے ہوئے ہیں ۔خاکسارہ چلی گئی تو آپؑ نے دریافت فرمایا ’’ کون آیا تھا؟‘‘ ایک عورت نے کہا کہ خیر النساء آئی تھی چلی گئی(میں اس وقت ان عورتوں کا نام نہیں لینا چاہتی) آپ نے فرمایا کہ ’’ جاؤ ان کو بلا کے لاؤ۔‘‘ وہی عورت جس نے مجھے کہا تھا، مجھے بلانے کے لئے گئی۔ جب میں حاضر ہوئی تو فرمایا ’’آپ چلی کیوں گئی تھیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’ انہوں نے دبانے نہیں دیا تھا اس لئے چلی گئی تھی ‘‘۔ تو فرمایا کہ ’’ آپ کو ثواب ہو گیا ہے ،آپ بیٹھ جائیں ‘‘ اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ ’’ ان کے لئے چائے لاؤ‘‘ غرضیکہ حضور علیہ السلام اس قدر شفقت اور محبت سے پیش آیا کرتے تھے کہ میری ناچیز زبان بیان کرنے سے قاصر ہے ۔
آپ ہمیشہ مہمانوں کے لئے بادام روغن نکلو ا کر رکھا کرتے تھے ۔ میری آپا زینب زیادہ آپ کی خدمت مبارک میں رہا کرتی تھیں۔‘‘
{1538} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ والدہ عبد الحق صاحب واہلیہ شیخ عطامحمدصاحب پٹواری حال وارد قادیان نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’اب میری عمر۷۰سال کی ہوگی۔ میری شادی پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔بارہ سال تک میرے گھر کوئی بچہ پیدا نہ ہوا۔جس پر میرے خاوند صاحب نے دواور بیویاں اولاد نرینہ کی غرض سے کیں مگر اولاد ان کے ہاں بھی کوئی نہ ہوئی۔ اس اثناء میں حضرت مرزا جی نے دعویٰ مہدویت کا کیا جس کا شور ملک میں پیدا ہو گیا ۔اس زمانہ میں میرے خاوند نے حضرت مرزا صاحب سے عرض کی کہ ’’ ولی کی دعا ہمیشہ خدا کی جناب میں منظور ہو تی ہے۔ اگر آپ مہدی اور ولی ہو تو خدا کی بارگاہ میں دعا مانگو کہ میری ہر سہ بیویوں سے جس سے میں چاہوں اس کے گھر فرزند ارجمند، نیک بخت ،مومن صاحب اقبال پید اہو۔ چنانچہ میرے خاوند کو حضور علیہ السلام نے جو اب دیا اور کارڈ تحریر کیا کہ ’’ مولیٰ کے حضور دعا کی گئی ۔ تمہارے گھر میں فرزند ارجمند ،مومن صاحب اقبال اس بیوی کو ہو گا جس کو تم چاہتے ہوبشرطیکہ تم زکریا علیہ السلام کی طرح توبہ کرو۔ چنانچہ میرے خاوند نے پوری پوری توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے فرزند ارجمند ۱۹۰۰ء میں عطا فرمایا ۔ اُس وقت میرا خاوند موضع ونجواں تحصیل بٹالہ کا پٹواری مال تھا۔ چنانچہ اِس وقت لخت جگر عہدہ اوورسیٔر پر ملازم ہے ۔ تب سے ہمارا سب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پکا ایمان رکھتا ہے ۔ اس کے بعد میرے خاوند شیخ عطا محمد صاحب کو خواب آیا کہ ’’ میں ایک میٹھا خربوزہ کھا رہاہوں۔ جب میں نے اس کی ایک قاش اپنے لڑکے عبد الحق کو دی تو خشک ہوگئی ہے۔‘‘ تعبیر خواب پر حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ’’ تمہارے گھر میں اسی بیوی کو ایک اور لڑکا ہو گا مگر وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ چنانچہ حسب فرمودہ حضرت صاحب لڑکا پیدا ہوا اور گیارہ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا اس کے بعد میرے ہاں کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘
{1539} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتاسی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضورؑ کچھ لکھ رہے تھے ۔ میں کھانا لے کر گئی اور حضور ؑ کے پاس رکھ کرلوٹ آئی۔کافی دیر کے بعد جب حضور کی نظر کہیں برتنوں پر پڑی اور ان کو خالی پایا تو مجھے آواز دی کہ ’’ آکر برتن لے جاؤ‘‘ اور پوچھا کہ ’’ کیا میں نے کھانا کھا لیا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو کھانا چھوڑگئی تھی مجھے معلوم نہیں کہ حضور نے کھایا ہے یا نہیں ؟‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ شاید کھا لیا ہوگا؟‘‘ لیکن معلوم یہ ہوتا تھا کہ حضور علیہ السلام لکھنے میں ایسی محویّت کے عالم میں رہے کہ حضورؑ کو یہ بھی معلوم نہ ہو ا کہ میں کھانا رکھ گئی ہوں اور نہ ہی بھوک محسوس ہوئی کہ اگر نہ کھایا ہوتا تو فرماتے کہ ’’ نہیں کھایا ۔‘‘
{1540} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدا لستار شاہ صاحب مرحومؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہہ دیا کہ ’’ان میں سے پسینہ کی بو آتی ہے ۔چونکہ گرمی کا موسم تھا۔ جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ تواس عورت پر ناراض ہوئے کہ ’’ تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی ؟‘‘ ان کو شربت وغیرہ پلایا اور ان کی بڑی دل جوئی کی۔حضورؑ مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے۔
{1541} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحومؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ پہلی دفعہ جب ہم قادیان آئے ہیں تو عزیز م ولی اللہ شاہ صاحب کی ٹانگ میں گھوڑے پر سے گر جانے کی وجہ سے سخت تکلیف تھی اور ٹانگ سیدھی نہیں ہوتی تھی۔ سول سرجن نے کہدیا تھا کہ ٹانگ ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ والدہ صاحبہ قادیان آنے لگیں تو انہوں نے دعا کے لئے رقعہ لکھ دیا ۔آپؑ نے دریافت فرمایا کہ ’’ولی اللہ شاہ کون ہے؟‘‘ والدہ صاحبہ نے بتایا کہ ’’میرا لڑکا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ۔’’دعا کریں گے ،انشاء اللہ صحت ہوجائے گی۔‘‘ چنانچہ آپ نے دعا فرمائی اور اسی سول سرجن نے جس نے کہا تھا کہ’’ اب آرام نہیں آسکتا۔‘‘ علاج کیا ۔خد اتعالیٰ کے فضل سے ٹانگ بالکل ٹھیک ہوگئی۔ یہ بھی آپ ؑ کا معجزہ ہے۔‘‘
{1542} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جس مکان میں اب ام طاہر صاحبہ رہتی ہیں یہ مکان بن رہا تھا ۔ میرے ابا برآمدہ کو روغن کر رہے تھے ۔ جب شام کو گھر گئے تو چونکہ وہ اپنا قرآن مجید بھول گئے تھے مجھے کہا کہ ’’ جا کر میرا قرآ ن مجید لے آ۔‘‘ جب میں گئی تو اس وقت بڑی سخت آندھی آگئی۔ اس آندھی میں ایک لفافہ اڑ کر آیا اور جہاں حضور علیہ السلام بیٹھے تھے وہاںآکر گرا۔ جب آندھی ذرا تھمی تو حضورؑ نے لالٹین منگوائی اور وہ لفافہ کھول کر پڑھا اس میں جو لکھا تھا حضور علیہ السلام نے سنایا کہ ’’ چند مہمان آرہے ہیں ان کے واسطے علیحدہ مکان رکھا جاوے اور ان کے کھانے کا انتظام بھی الگ ہی کیا جاوے ۔ چنانچہ جب وہ مہمان آئے تو ان کو اس گھر میں جہاں اب میاں بشیر احمدؐ صاحب رہتے ہیں ٹھہرایا گیا تھا ۔وہ مہمان پٹھانوں کی طرح کے معلوم ہوتے تھے ۔ چند دن رہے اور بیعت کر کے چلے گئے ۔بعض کہتے تھے کہ یہ جن ہیں ۔
{1543} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبد اللہ صاحب ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ جب میں جوان ہوئی تو ہمارے گاؤں میں کھجلی کی بیماری پھیل گئی تو مجھے بھی کھجلی پڑگئی۔ میںنومہینے بیمار رہی ،میرے والد صاحب نے کہا کہ ’’ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس علاج کے واسطے لے جاؤ۔‘‘ میری والدہ مجھے لے کر آئی۔ اس وقت نیچے کے دالان میں حضورؑ ٹہل رہے تھے۔ ہم کھرلی کے پاس بیٹھ گئے ۔ میری ماں نے عرض کی کہ ’’ میں اپنی لڑکی کو علاج کے واسطے لائی ہوں ۔حضور دیکھ لیں ۔‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ا س وقت فرصت نہیں ہے ۔‘‘ میں ا س کُھرلی میں لیٹ گئی اور میں نے کہا کہ ’’میر ا علاج کریں نہیں تو میں یہیں مر جاؤں گی (حضرت ام المؤمنین اب تک میرا کُھرلی میں لیٹنا یا دکرتی ہیں ) تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اچھا لڑکی کو لے آؤ۔‘‘ آپ نے میری حالت دیکھ کر دوا لکھی۔
آنولے ،بہٹیرے ،مہندی اور نیم یہ دوا لکھی ۔میری ماںنے کہا کہ ’’ یہ لڑکی بڑی لاڈلی ہے اس نے کڑوی دوا نہیں پینی۔‘‘ حضور علیہ السلام نے دروازہ میں کھڑے ہو کر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ ’’بی بی تو دوا پی لے گی تو اچھی ہوجاوے گی۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ فرمایا تھا اور فرمایا کہ علی نائی کی دوکان سے یہ دوائیں لا کر مجھے دکھاؤ۔‘‘ میری ماں دوا لائی تو حضور نے دیکھی اور فرمایا کہ’’ اس کا عرق نکال کے اسے پلاؤ۔‘‘ میری والدہ نے تین بوتلیں عرق کی بنائیں ۔میں پیتی رہی اور بالکل اچھی ہو گئی۔‘‘
{1544} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ارجمند خان صاحب بنت حکیم محمد زمان صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت ام المؤمنین صاحبہ سے سنا ہے کہ جبکہ ابھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ چھوٹے بچے تھے تو باہر سے کسی سے یہ گالی سن آئے تھے کہ ’’ سؤر کا بچہ گو کھانا ۔‘‘ جب آپ نے گھر میں اس کو ایک دو مرتبہ بولا تو حضور مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ ’’محمود ! محمود !ادھر آؤ۔میں تمہیں بتاؤں ۔ اس طرح کہا کرو کہ ’’ باپ کا بچہ گڑ کھانا۔‘‘ پھر میاں صاحب اسی طرح کہتے تھے ۔
{1545} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ جب میرا بڑا لڑکا عبد الرحمن دو ماہ کا تھا ۔میں اس کو اٹھا کر حضور ؑ کے پاس لے گئی۔ آپ اس وقت اس صحن میں جو اب اُم طاہر صاحبہ کا ہے ،ٹہل رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور لڑکے کے واسطے دعا کے لئے عرض کیا اور بتایا کہ’’ یہ جو دودھ پیتا ہے اس کو پھر منہ سے باہر نکال دیتا ہے۔‘‘ حضورؑ نے بچہ کے منہ پر اور جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرااور فرمایا کہ ’’ اس کو ریوند خطائی، بڑی ہرڑ اور سہاگہ تینوں کو لے لو ۔سہاگہ کو پھُل کرواور جس وقت بچہ کو دودھ پلاؤ تو پھُل کیا ہوا سہاگہ تھوڑا سا منہ میں ڈال دیا کرو اور ریوند خطائی وہرڑ کو خالص شہد میں ملا کر کھلایا کرو۔‘‘
{1546} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا صاحب معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ جب گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا تو حضور علیہ السلام کو وہاں تقریباً سات ماہ رہنا پڑ اتھا ۔بہت سے لوگ جماعت کے ساتھ ہوتے تھے ۔ وہاں گائے کا گوشت دیگوں میں پکا کرتا تھا۔ میں یہ گوشت نہیں کھایا کرتی تھی بلکہ روکھی روٹی کھا لیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ روکھی روٹی کھانے سے کہیں بیمار نہ ہوجائے ۔ صفیہ کی اماں سے کہدوکہ ایک چھوٹی پتیلی میں چند بوٹیاں اچھی طرح سے پکا کر اس کو کھلایا کر و تاکہ اس کو گائے کا گوشت کھانے کی عادت ہو جائے ۔‘‘ چنانچہ ایک دن حضرت ام المومنینصاحبہ بڑا عمدہ بھنا ہو اگوشت اور دو روٹیاں لے کر آئیں اور ایک روٹی اور کچھ سالن اس میں سے آپ نے کھایا اور دوسری روٹی اور چند بوٹیاں مجھے دے کے کہا کہ ’’ کھاؤ‘‘ میں نے کھانا شروع کیا تو کھاتی گئی ،مزیدار تھا ۔ اس دن سے مجھے گائے کے گوشت سے جو نفرت تھی وہ جاتی رہی۔ اب کھاتی رہتی ہوں ۔‘‘
{1547} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحبؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میرا خاوند میرے ساتھ سختی سے پیش آتا اور خرچ دینے میں تنگی کرتا۔ ا س پر میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں ان کی شکایت کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ جو عورت اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہے وہ سیدھی جنت میں جائے گی اور جو خاوند کی سختیوں کو صبر سے برداشت کرتی ہے وہ ایک ہزار سال پہلے جنت میں جائے گی۔‘‘
{1548} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق گھر سے سیر کے واسطے باہر تشریف لائے اور اس روز باغ کی طرف تشریف لے گئے جب باغ میں پہنچے تو وہاں شہتوت کے درختوں کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے ۔تب اس وقت مالی باغبان نے ایک بہت بڑا کپڑا زمین پر بچھا دیااور حضور بھی بمعہ خدام سب اس کپڑے پر بیٹھ گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد مالی تین چار ٹوکریوں میں شہتوت بیدانہ ڈال کر لایا۔ ان میں سے ایک حضور کے آگے رکھ دی اور دوسرے دوستوں کے آگے تین ٹوکریاں رکھ دیں ۔ چنانچہ وہ شہتوت بیدانہ سب دوست کھانے لگ گئے ۔جو ٹوکری حضور کے آگے رکھی تھی اس پر میں اور ایک دو دوست اور بھی تھے میں بالکل حضور کے قریب دائیں جانب بیٹھا تھا ۔ اور کچھ حجاب کے باعث خاموش بیٹھا رہا اور اس میں سے نہ کھاتا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھا کہ کھاتا نہیں تو حضور مجھے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ میاں فضل محمد تم کھاتے کیوں نہیں ۔تو اس وقت مجھے اور کوئی بات نہ سوجھی جلدی سے منہ سے نکل گیا کہ حضور یہ گرم ہیں ۔ میرے موافق نہیں ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں میاں یہ گرم نہیں ہیں ۔یہ تو قبض کشا ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ حضور میرے ساتھ بات چیت کرنے میں مشغول ہیں تو میں نے موقعہ دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے کھبے پٹ پر یعنی ران پر بہت مدت سے ایک گلٹی ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی وقت کچھ تکلیف نہ دے۔ اس وقت حضور کی زبان مبارک سے نکلا کہ ’’تکلیف نہیں دیتی آرام ہو جاوے گا‘‘ اور اس وقت ایک دوائی کانام بھی لیا جو مجھے بھول گئی ہے۔ فرمایا لگا دیویں آرام ہوجاوے گا اس کے بعد کچھ دنوں کے بعد اس گلٹی پر درد شروع ہو گئی ۔مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام نے جودوائی فرمائی تھی وہ تو مجھے بھول گئی اور میں حیران تھا کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں دو تین روز کے بعد وہ گلٹی پھٹ گئی اور وہ اندر سے باہر جا پڑی اور دو تین روز تک وہ زخم بالکل صاف ہوگیا‘‘۔
{ 1549} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں۔ تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیسے پودے ہیں ؟تو انہوںنے جواب دیا یہ طاعون کے پودے ہیں ۔ تو پھر میں نے پوچھا کہ کب ؟تو انہوںنے بتایاکہ جاڑے کے موسم میں ۔تب حضور نے تمام جماعت کو بلا کر ایک بڑھ کے نیچے جس جگہ قادیان کی مشرق کی جانب اب نئی آبادی ہوئی ہے جو بڑھ اب تک کھڑا ہے جمع کیا اور فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے۔ اب دنیا میں طاعون کا عذاب آنے والا ہے۔ بہت بہت تو بہ کرو ، صدقہ کرو اور اپنی اصلاح کرو ہر طرح نصیحت فرمائی اور بہت ڈرایا اوربہت دیر تک نصیحت فرماتے رہے ۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ کے بعد طاعون شروع ہوئی۔
{1550} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھار یوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا ۔بہت دوست ارد گرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہورسرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی ۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں ۔چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑ دئے اور جب حضور دھاریوال کے پل پر تشریف لے گئے تو بہت لوگوں نے جو حضور کی زیارت کے لئے اردگرد سے آئے ہوئے تھے زیارت کی درخواست کی اس وقت حضور ایک پُلی پر کھڑے ہوگئے اور سب لوگوں نے حضور کی زیارت کی‘‘۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1551} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بھائی خیر الدین موضع سیکھواں نے اور میں نے مل کر ارادہ کیا کہ قادیان شریف میں دکان کھولیں۔ چنانچہ اس کے متعلق یہ صلاح ہوئی کہ پہلے حضور سے صلاح لے لی جاوے۔ چنانچہ جب حضور علیہ السلام نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے چلے تو ہم نے عرض کی کہ حضور ہم نے ایک عرض کرنی ہے اور وہ عرض یہ ہے کہ ہم دونوں نے ارادہ کیا ہے کہ قادیان میں دونوں مل کر دکان کھولیں۔ حضور علیہ السلام وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ پہلے استخارہ کرو۔ تو میں نے عرض کی کہ حضور استخارہ تو ایک ہفتہ تک کرنا پڑے گا۔
تب حضور نے فرمایا کہ استخارہ دعا ہی ہوتی ہے ۔ہر نماز میں دعا کرو ایک دن میں بھی استخارہ ہوسکتا ہے ۔اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی گھر تشریف لے جارہے تھے ۔حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھی بلا لیا ۔اور فرمایا کہ مولوی صاحب یہ دونوں مل کر قادیان میں دکان کرنا چاہتے ہیں ۔ بھائی خیر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ حضور نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ ا گردکان میں گھاٹاپڑے تو چھوڑ دیں ۔ اس کے بعد ہمارا خیال دکان کرنے کا بالکل نہ رہا۔ اور اپنے اپنے گاؤں کو چلے گئے ۔
{1552} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے حضور اپنی عادت کے طور پر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے۔ بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے ۔اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے ۔ جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل برلب راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھاحضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے ۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضو کرنے سے روکا تھا۔اور وہ دوست مجھے مخول کرتے تھے۔ اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوں نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کرنا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا ۔
{1553} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے ایک رجسٹر بنایا ور اپنی جماعت کو حکم دیا کہ اپنی اولاد یعنی بچو ں، بچیوں کے نام مجھے لکھا دو تاکہ ہم اپنے طور پر جہاں چاہیں گے رشتہ کریں گے چنانچہ میں نے اپنے تین بچوں کے نام حضور اقدس کی خدمت میں لکھ کر پیش کئے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر اسماعیل صاحب کی اہلیہ صاحبہ فوت ہوگئیں ۔حضور نے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے والد سے کہا کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ ڈاکٹر اسماعیل صاحب کو دے دو اس نے صاف انکار کردیا کہ حضور یہ بڑی عمر کے ہیں اور صاحب اولاد ہیں اس واسطے میں یہ رشتہ کرنا منظور نہیں کرتا۔
چنانچہ اس کے بعد میں نے سنا کہ حضور نے اس رجسٹر کو پھاڑ دیا اور اس خیال کو چھوڑدیا میں نے سنا کہ اس لڑکی کارشتہ کسی اور جگہ اس کے والد نے کردیا اور اس لڑکی زندگی بڑی دکھی رہی اور دکھ میں مبتلا رہی۔
{1554} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کہ پہلی ہی دفعہ ہمارے گاؤں میں طاعون پڑی تو ہمارے گاؤں میں سے بھی چوہے مرنے شروع ہو گئے ۔میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جمعہ کو قادیان میں ہی جمعہ پڑھا کرتا تھا اور اکثر حضور سے مل کر واپس گھر کو جاتا تھا۔ اس روز میں نے حضور سے ملنے کے وقت عرض کی ۔حضور !ہمارے گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ جھٹ باہر کھلی ہوا میں چلے جاؤ ایسے خطرہ کے وقت جگہ کو چھوڑ دینا ہی سنت ہے ۔ضرور گھر چھوڑ کر باہر چلے جاؤ ۔چنانچہ میں حضور کے حکم کے ماتحت گھر چھوڑ کر باہر چلا گیا ۔ اور بہت سے لوگ گاؤں کے گھر چھوڑ کر میرے ساتھ باہر چلے گئے۔ میرا ایک چچا زاد بھائی نہ گیا ۔ چند دن کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
{1555} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ شیخ حامد علی صاحب جو ابتدا ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی خدمت اقدس میں رہے تھے میری ان سے بڑی محبت تھی ،بعض بعض وقت وہ میرے پاس حضور کی ابتدائی باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ حضور نے ایک ضروری کام کے لئے مجھے افریقہ یا امریکہ٭ ان دونوں میں سے شیخ صاحب نے کسی کانام لیا جو مجھے اس وقت یا دنہیں ہے بھیجا۔ جب میں

٭ حضرت حافظ حامد علی صاحب ؓ اپنے بھائی کے ساتھ مشرقی افریقہ گئے تھے۔
جہاز میں سوا ر ہوا تو وہ جہاز آگے چل کرخطرہ میں ہوگیا۔ یہاں تک کے لوگ چیخ وپکار کرنے لگ گئے ۔حتی کہ میرا دل بھی فکر مند ہوگیا۔ تب فوراً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کا بھیجا ہوں اور اس کے کام کے واسطے جارہاہوں ۔پس یہ جہاز کس طرح ڈوب سکتا ہے ۔چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا۔ کہ اے لوگو! گھبراؤ مت۔ یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا کیونکہ میں ایک نبی کا فرستادہ ہوں اور میں اس جہاز میں سوار ہوں اس واسطے یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا ۔چنانچہ میں نے اُن کو بہت تسلی دی اور یہ آگے چلے گئے چنانچہ جہاز اس جگہ پہنچ گیا ۔جس جگہ مَیںنے اترنا تھا۔ اس پر میں اس جگہ اتر گیا اور جس طرف جانا تھا چلا گیا اور وہ جہاز اس جگہ سے آگے نکل گیا اور آگے جا کر غرق ہوگیا۔ جب اس جہاز کے ڈوبنے کی خبر آئی تو میرے گھر والوں نے بھی سنا کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو غرق ہوگیا تو میرے گھر کے لوگ روتے پیٹتے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے اور رو رو کر کہنے لگے کہ فلاں جہاز جس پر حافظ حامد علی صاحب سوار تھے ڈوب گیا ہے۔ حضرت صاحب نے اس کے حال پکار کو سن کر فرمایا ۔ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو ڈوب گیا ہے اور اس میں حافظ صاحب بھی تھے۔ اور پھر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا ۔چند منٹ کے بعد بلند آواز سے فرمایا ’’صبر کرو حافظ حامد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں جس کام کے واسطے بھیجے گئے تھے کر رہے ہیں‘‘۔ اور سب کو تسلی دی اور گھر کو روانہ کر دیا ۔
{1556} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے قادیان شریف آیا۔ جب نماز ادا کر چکے تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ،اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو حضو ر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور ! جناب نے فرمایا تھا کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کوئی اپنا نشان دکھاوے گا ۔ اور آج عید کادن ہے ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ اور قلم دوات وکاغذ اپنے پاس لے لو ۔یہ حکم سن کر سب دوست بیٹھ گئے اور حضور نے کرسی پر تشریف رکھ کر عربی زبان میں خطبہ شروع کردیا جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا۔ کچھ دوستوں نے وہ خطبہ لکھنا شروع کردیا اور جو کچھ حضور فرماتے ،لکھنے والے لکھتے جاتے۔جب کوئی لفظ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تو حضور پوچھنے والوں کو بمعہ جوڑ وغیرہ بتلا دیتے۔اس وقت حضور کے مبارک منہ سے اس طرح الفاظ جاری تھے ۔ کہ گویا کتاب آگے رکھی ہوئی ہے جس پر سے دیکھ کر پڑھ رہے ہیں۔ کتاب پر سے پڑھنے والے بھی کبھی رک ہی جاتے ہیں مگر حضور بالکل نہیں رکتے تھے۔ حضور کے پاس مَیں بیٹھا ہوا تھا اور حضور کی طرف میری آنکھیں لگی ہوئی تھیں۔ حضور کا رنگ اس وقت سرسوں کے پھول کی مانند تھا۔ آنکھیں بند رکھتے تھے اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیا کرتے تھے۔
{1557} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ رشوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رشوت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کا حق غصب کرنے کے لئے کسی کوکچھ دے۔ لیکن اگر کسی بدنیت افسر کو اپنے حقوق محفوظ کرانے کے لئے کچھ دے دے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کتے کو جو کاٹتا ہو۔کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا جائے۔
{1558} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ محمد احمد صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین سکنہ بِھیں والے کے مقدمہ کی پیروی کے لئے حضرت صاحب گورداسپور یکّوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور میں حضور کے ساتھ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب ہم گورداسپور سے روانہ ہونے لگے تو قریباً گیارہ بجے دن کے تھے ۔ اور سخت گرمیوں کا مہینہ تھا۔ میں حضور کے ساتھ یکے کے اندر بیٹھا ۔میں پہلے اس بات کا خیال کر لیا کرتا تھا کہ جس وقت ہم روانہ ہوں گے دھوپ کا رخ کسی طرف ہوگا اور یکہ میں سایہ کس طرف۔ پھر سائے میں حضور کو بٹھاتا ۔میں ثواب کی خاطر ایسا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ حضور کو اس بات کا علم نہیں کہ میں عمداً ایسا کرتا ہوں ۔ جب ہم روانہ ہوئے تو سخت گرمی اور دھوپ تھی اور یکّہ سیدھا گورداسپور سے قادیان آتا تھا۔ بٹالہ کے راستہ سے نہیں آتا تھا۔ جونہی ہم روانہ ہوئے تو بادل کا ایک ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور قادیان تک ہم پر سایہ کیا اور ٹھنڈ بھی ہوگئی ۔ہم یکّے پر سے قادیان آ کر اترے۔ تو حضور نے فرمایا ۔مفتی صاحب ! اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا جو بادل کا سایہ ہم پر کردیا اور بدلی ساتھ ساتھ قادیان تک ہی آگئی ۔پھر حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب! اسی قسم کاایک واقعہ پہلے بھی ہمارے ساتھ پیش آچکا ہے جب میں والد صاحب کے ساتھ زمین کے بارہ میں مقدمہ کی پیروی کے لئے امرتسر جایا کرتا تھا۔ جب ہم( بٹالہ یا امرتسر خاکسار کوبھول گیا ہے ،محمد احمد) سے روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ ایک ہندو بھی یکہ پر سوار ہونے والا تھا۔ تو جس طرح مفتی صاحب آپ تاڑ کر مجھے سایہ کی طرف بٹھاتے ہیں وہ بھی اسی طرح تاڑ کر جلدی سے اچھل کر خود سایے کی طرف بیٹھ گیا ۔ہم دھوپ میں ہی بیٹھ گئے اور اسے کچھ نہ کہا۔پھر جونہی ہم روانہ ہوئے تو اسی طرح بدلی کا ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور سارے راستے میں ہم پر سایہ کیا پھر جب اترنے لگے تو ہندو نے اپنے فعل پر شرمندہ ہو کر کہا ۔ آپ دھوپ میں بیٹھے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ پر سایہ کردیا ۔آپ کے طفیل ہم بھی آرام سے پہنچ گئے ۔ خاکسار محمد احمد عرض کرتا ہے کہ جب پہلے مفتی صاحب سے یہ روایت سنی تھی اس وقت مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس ہندو کے منہ سے بے اختیار رام رام کے الفاظ نکل پڑے تھے۔
{1559} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ غالباً جناب والد صاحب مرحوم ۱۸۹۸ء میں یہاں قادیان شریف بالکل ہی آگئے تھے ۔ ان کی موجودگی میں ہی جناب میاں مبارک احمد صاحب مرحوم تولد ہوئے تھے ۔ان کی پیدائش کا سن ہی ہماری بیعت کا سن تھا۔ والد صاحب کی بیعت تو بہت پہلے کی ہوگی ۔ہمیں پتہ نہیں ۔ ہم سب حضرت اقدس کے اسی مکان میں اترے کچھ عرصہ یہاں ہی ٹھہرے ۔جناب حضرت مسیح موعود نہایت سادہ پوشاک رکھتے تھے ۔ بعض دفعہ تو ازار بند کے ساتھ چابیوں کا گچھا بھی لٹکتا ہوتا تھا ۔ہمیشہ نیم وا آنکھیں رکھتے تھے ۔ کبھی سر مبارک پررومی ٹوپی ہوتی تھی اور بعض دفعہ لکھنے میں بہت مصروفیت ہوتی تھی ۔ننگے سر بھی ہوتے تھے ۔ہرو قت اوپر ، جہاں آج کل حضرت ام المومنین مدظلھا تشریف رکھتی ہیں ، رہتے تھے ۔ اور اکثر وقت لکھتے ہی رہتے تھے ۔بہت دفعہ دیکھا ہے کہ کمرے کے اندر ٹہلتے ٹہلتے بھی لکھتے رہتے تھے۔ تخت پر لکھے ہو ئے اور سفید کاغذ رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ میں حیرانی سے بڑی دیر کھڑی دیکھتی رہی بوجہ مصروفیت آپ کو کچھ خبر نہ تھی۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب مرحوم کا کچھ پیغام لے کر آئی تھی اس لئے میں نے حضرت جی کہہ کر آواز دی ۔جو عرض کرنا تھا کیا۔ نہایت نرمی سے حضور اقدس نے فرمایا کہ ’’حرج ہوتا ہے ‘‘اس لئے میں جلدی چلی گئی اور اکثر شام کو حضرت صاحب صحن میں بالا خانے پر چارپائی پر بیٹھے ہوتے تھے۔ مولوی محمد احسن صاحب مرحوم ان کے پاؤں دبایا کرتے تھے۔
{1560} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والدصاحب نے مجھے بھیجا کہ جا کر حضرت صاحب سے عرض کرو کہ اب میں کیا کروں۔ میں گئی ۔حضور اقدس صحن میں کھٹولی پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے ۔مولوی محمد احسن صاحب مرحوم پاؤں دبا رہے تھے ۔میں نے جا کر والد صاحب کی طرف سے کہا ۔آپ نے فرمایا ’’حضرت مولوی صاحب سے کہو کہ باہر جاویں تبلیغ کے لئے ‘‘۔میں نے آکر والد صاحب کو کہہ دیا ۔والد صاحب ہنسے اور بہت خوش ہوئے ۔فرماتے تھے۔ اللہ اللہ حضرت صاحب کو تبلیغ سب کاموں سے پیاری ہے اور میرے دل میں بھی تبلیغ کا بہت شوق ہے ۔یہ اس لئے کہا کہ والدہ صاحبہ چاہتی تھیں کہ احمدیہ سکول میں منطق عربی پڑھانے پر ملازم ہوجاویں شاید سکول میں عرضی بھی دی ہوئی تھی۔
{1561} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان صاحبہ بھی اوپر بالا خانہ میں بیٹھی تھیں ۔میں بھی گئی بیٹھ گئی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب پٹیالے سے رسد کے کتنے روپے لائے ہیں؟ میںنے کہا کہ میری بہن کی شادی پر والدہ صاحبہ نے قرض لے کر خرچ کیا تھا۔ کچھ تو وہ ادا کردیا باقی ہمارے سب کے کپڑے بنا دئے ۔فرمانے لگے ۔کیا خرچ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ کپڑے زیور برتن وغیرہ جو کچھ کیا تھا بتادیا ۔ فرمانے لگے کہ ’’ قرض لے کر خرچ کرنا گناہ ہے ‘‘ ۔اماں جان نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے کیوں بی بی فاطمہ ؓ کو چکی دی تھی؟ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔وہ قرض لے کر نہیں دی بلکہ گھر میں موجود تھی۔
{1562} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے ہم پیر سراج الحق( لمبے پیر) کے ساتھ چوبارے میں رہتے تھے ۔ اور ہمارے ساتھ محمد اسماعیل یا کچھ اور نام تھا ،ان کی بیوی رہتی تھی ۔ایک دوماہ کے بعد پھر حضرت صاحب کے قریب ایک کچا مکان خالی تھا وہ آپ نے ہمیں کرائے پر لے دیا۔ وہاں مغلانیاں آپ کی غیر احمدی رشتہ دار آتیں ۔ہمیں خفا ہوتیں سخت سست کہتیں۔ ایک دن میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ اس مکان کا ہم نے مقدمہ کیا ہو اہے ۔ دعا کرو کہ ہمیں مل جاوے کیونکہ یہ ہمارا ہی حق ہے۔ پھر تمہیں بھی اس میں سے مکان بنادیں گے ۔میں بہت دن دعا کرتی رہی پھر جب کپور تھلہ میں جناب والد صاحب مرحوم محمد خاں صاحب افسر بگھی خانہ کو پڑھانے کے لئے گئے ہوئے تھے معہ ہم سب۔ وہاں جا کر معلوم ہو اکہ حضرت صاحب کو وہ مکان مل گیا تھا۔
{1563} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جناب والد صاحب کہیں باہر دورہ تبلیغ کے لئے گئے ہو ئے تھے ۔ پیچھے سے مصلحت کی وجہ سے منتظموں نے لنگر خانہ کا یہ انتظام کیا کہ جو مہمان آویں صرف ان کو تین دن تک کا کھانا ملا کرے ۔ باقی گھروں کا بند کردیا۔ ہمیں بھی لنگر خانہ سے دونوں وقت روٹی آتی تھی ۔جب بند ہو گئی تو نہ آئی۔ ہم سب بہن بھائی ایک دن رات بھوکے رہے کسی کو نہ بتایا ۔ دوسرے دن سب کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی کہ مائی تابی ایک مجمع اٹھائے ہوئے آئی۔ والدہ صاحبہ نے کہا ۔کہاں سے لائی ہے؟ کس نے بھیجا ہے ؟حضرت جی نے دو رکابیاں کھیر کی اور دو پیالے گوشت عمدہ پکا ہوا بھجوایا۔والدہ صاحبہ کہتی ہیں مرغ کا گوشت تھا۔ اور روٹیاں توے کی پکی ہوئیں ہم سب حیران ہوئے کہ حضرت صاحب کو کس نے بتایا پھر میں شام کو برتن لے کر گئی ۔برتن نیچے رکھ کر اوپر گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ صفیہ کل کیوں نہیں آئی ۔میں نے کہا کل ہم کو لنگر سے کھانا نہیں آیا تھا۔ اس لئے ہم سب گھر ہی رہے ۔ آپ نے افسوس والی صورت سے فرمایا کہ کل تم سب بھوکے رہے ۔کیا تمہیں لنگرخانہ سے روٹی آتی تھی؟ بہت افسوس فرمایا اور کہا کہ آج جو مجھے کھانا آیا تھا میں نے تمہارے گھر بھیج دیا ۔مجھے یہ علم نہ تھا کہ تم کو کل سے کھانا نہیں ملا ۔پھر مجھے دس روپے دئے اور فرمایا کہ نیچے کوٹھی میں جتنے دانے گندم کے ہیں گھر لے جاؤ۔ اور خرچ کرو ۔جب تک حضرت مولوی صاحب نہیں آتے مجھے خرچ کے لئے بتایا کرو ۔پھر ایک ماہ میں کئی بار مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا خرچ ختم ہوگیا ۔میں کہدیتی نہیں ۔اسی ماہ کے اخیر میں ہی جناب والدصاحب مرحوم گھر آگئے ۔
{1564} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب جناب والد صاحب باہر جاتے تو حضرت صاحب ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ والد صاحب باہر گئے ہوئے تھے ۔وہ مکان (جو) مرزا امام الدین کے پاس پہلے تھااس میں ہم رہتے تھے ۔ بہت ردّی حالت اس کی تھی ۔ایک چھتڑا بالکل گرنے والا تھا ۔اس میں ہم دو بہنیں اور ایک بھائی بیٹھے تھے ۔تھوڑی تھوڑی بارش ہورہی تھی ۔حضور نے طاقی کھڑکائی اور اماں جان صاحبہ نے ناشپاتیاں دریچہ سے ہمارے صحن میں پھینکی شروع کیں ۔ہم بھاگ کر باہر آگئے ۔ناشپاتیاں چگنے لگ گئے اور پیچھے وہ چھتڑا دھڑام سے گر گیا۔و الدہ صاحبہ دریچہ کے قریب اونچی اونچی شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ آپ نے میرے بچوں کی جان بچائی ورنہ نیچے دب کر مر جاتے ۔ حضرت صاحب مجھے اب اسی طرح مسکراتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
{1565} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کرتا مانگتا تھا۔ حضرت صاحب نے اپنا کرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا ۔والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرما رہے ہیں۔
{1566} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ننگل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضرت اماں جان صاحبہ معہ سب بچوں کے اور عاجزہ بھی ساتھ ہی مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کو اٹھائے ہوئے اور بھی کئی عورتیں ہمراہ تھیں ،گئے ۔ زمینداروں کے ایک گھر گئے ۔ انہوںنے چار پائی بچھا دی اس پر حضرت صاحب بیٹھ گئے ۔اور دوسری چار پائی پر حضرت ام المؤمنین صاحبہ اور ہم سب ادھر ادھر، گھر والی ایک چنگیر میں تازہ گڑ لائی۔ وہ اماں جان صاحبہ کے پاس رکھ دیا اور چھنے میں رس یا رَوْہ ہم سب کو آپ نے دیا اور گڑ بھی بانٹ دیا۔ یاد نہیں کہ آپ نے کھایا یانہ کچھ دیر کے بعد واپس آئے ۔ حضور عصا لے کرآگے آگے اور ہم سب پیچھے آپ بہت آگے رہتے تھے ۔گھر والی اور گاؤں کی عورتیں بھی آگئی تھیں ۔معلوم نہیں،یا د نہیں انہوںنے کیا باتیں کی تھیں مگر بڑے اخلاص سے باتیں کرتی تھیں ۔
{1567} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بڑی بہن حلیمہ بی بی اپنے سسرال سے بیمار آئی۔ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ میری بہن کو تپ دق ہوگئی ہے ۔آپ نے فرمایا کل صبح قارورہ لے آنا میں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ چھنے میں پیشاب ڈال کر ضرور لانا۔ علاج کریں گے۔ گھر جا کر میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا۔ انہوںنے مجھے قا رورہ دے کر بھیجا۔ جب میں نے چھنا لا کر برانڈے میں رکھا ۔ آپ نے فرمایا ڈھکنا اتار ،ڈھکنا اتارا تو حضرت صاحب پچھلے پاؤں جلد ی پیچھے ہٹ گئے اور فرمایادھیلے کا شاہترا لے کر مٹی کے برتن میں رات کو بھگو دو،صبح پُن کر مصری ڈال کر پلا دو پھر والدہ پلاتی رہیں ۔ اسی سے اللہ پاک نے آرام دے دیا ایک ہفتہ میں بالکل اچھی ہوگئی۔
{1568} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ حضور اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نیچے برانڈے کے اندرجہاں ایک کمرے میں آج کل باورچی کھانا پکاتا ہے پلنگ پر لیٹے ہو ئے تھے۔ مجھے فرمایا سر دبائو۔ آپ دبواتے نہیں تھے بلکہ ایک طرف انگوٹھے دوسری طرف انگلیوں سے ستواتے تھے۔ میں بہت دیر تک اسی طرح سردباتی رہی ۔مجھے سردباتی کوفرمانے لگے ’’کسی دن تم کو بہت فخر ہوگا کہ میں نے مسیح موعود کا سر دبایا تھا‘‘ یہ کلمے حضرت علیہ السلام کے مجھے ایسے یاد ہیں جیسے اب فرماتے ہیں ۔افسوس اس وقت کچھ قدر نہ کی ۔اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا ہے۔
{1569} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے ساتھ حضرت اماں جان صاحبہ بھی علی الصبح سیر کو جایا کرتی تھیں ۔ ایک دوعورتیں لڑکیاں بھی اماں جان کے ہمراہ ہوتی تھیں ۔ میں اماں جان صاحبہ سے کہتی کہ مجھے بھی بلا لینا ۔ جب میں آتی تو وہ واپس آ رہے ہوتے مجھے دیکھ کر اماں جان فرماتیں ۔اچھا کل بلاؤں گی ۔پھر بھول جاتیں مجھے دیکھ کر کہتیں ہائے مجھے یاد نہیں رہا ۔میں نے کہاآپ روز بھول جاتی ہیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل میں بلاؤں گا۔ دوسرے دن جانے سے پہلے ہی آپ نے دریچہ کھول کر مجھے آواز دی جب میں سامنے آئی تو فرمایا ’’آؤ بیوی صاحبہ سیر کو جارہی ہیں‘‘۔
{1570} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ۱۹۰۵ء ماہ اکتوبر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ مع حضرت اماں جان صاحبہ اور سب بچوں کے تشریف لے گئے ۔چھاؤنی میں فرید کے مکان میں اترے۔ والد صاحب لدھیانہ کے ارد گرد کے گاؤں سے لوگوں کو ،عورتوں کو پہلے ہی خبر کر آئے تھے کہ فلاں دن امام مہدی تشریف لائیں گے ۔ لدھیانہ آکر زیارت کرنا۔ رمضان شریف کامہینہ تھا۔والدہ صاحبہ اور میں بھی حضور کی زیارت کو پہنچیں ۔گاؤں کی عورتیں کھدر کے گھگرے اور سب کپڑے کھدر کے پہنے ہوئے ۔روزے سے آآکر مجھے کہتیں ۔بی بی امام مہدی کی زیارت کرا ۔میں اندر لے لے جاتی تھی ۔وہ سب جا کر ایک ایک روپیہ دیتیں اور بڑے اخلاص سے دیکھتیں ۔حضور نے اماں جان صاحبہ کی طرف رخ کر کے اسی طرف ام ناصر اور میں بیٹھی تھیں۔ فرمایا کہ ایسی عورتیں ہی بہشت میں جاویں گی اور ان عورتوں کو بھی کچھ نصیحتیں کیں کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1571} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آخر۱۸۹۹ء یا شاید۱۹۰۰ء ہوگا کہ میرے والد صاحب مرحوم کے چچا زاد بھائی بابومحمد اسماعیل ہیڈ کلرک دفتر رولی برادرس امرتسر سے آئے اور کہنے لگے کہ میرے پر فلاں صاحب نے مقدمہ کیا ہو اہے ۔ جس کی وجہ سے میں سخت حیران ہوں ۔اس جینے سے موت بہتر سمجھتا ہوں۔ قریباً دو سال مقدمے کو ہو چلے ہیں۔ اب کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی ۔وکیلوں نے کہہ دیا ہے کہ قید اور جرمانہ ضرور ہوگا ۔رات میرے دل میں خیال آیا کہ بھائی صاحب سے جا کر کہوں یعنی والد صاحب سے کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے میرے مقدمے کے لئے دعا کرائیں شاید اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی برکت سے مجھے رہائی بخشے وہ روتے تھے والد صاحب نے فرمایا ۔بیلیا !اگر ہمارے حضرت صاحب نے تیرے لئے ہاتھ اٹھا دئیے تو واقعی تو ہر طرح کی سزا سے بچ جائے گا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ دعا کراؤ ۔والد صاحب نے کہا کہ کھانا کھا لو۔ ظہر کی نماز کے وقت مسجد چلیں گے پھر دعا کے لئے عرض کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ میں روٹی نہیں کھاتا مجھے روٹی اچھی نہیں لگتی پہلے دعا کراؤ۔ اور جب سے مقدمہ ہوا ہے میں نے کبھی بھی خوشی سے روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی ۔ ہر وقت متفکر ،جان سے بیزار روتا رہتا ہوں ۔بہت گھبراتے تھے ۔آخر والد صاحب مجھے ہمراہ لے کر حضرت صاحب کے مکان پر آئے ۔مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستے میں اوپر حضور والا کے پاس پہنچی۔ میرے والد صاحب مسجد میں ٹھہرے اور بابو صاحب سیڑھیوں میں بیٹھ گئے میں نے جا کر کہا کہ میرے والد صاحب اور چچا زاد بھائی بابو محمد اسماعیل آئے ہوئے ہیں ۔ ان پر کوئی بڑاسخت مقدمہ ہے آپ کو دعا کے کئے عرض کرتے ہیں ۔ آپ اس وقت چھوٹے تخت پوش پر بیٹھے لکھ رہے تھے ۔پاس لکھے ہوئے کاغذ پڑے تھے۔ فرمایا کہ ان سے پوچھ آئوکہ کچھ تمہاراجرم بھی ہے؟ ۔ میں نے اسی طرح جا کر کہا۔ انہوںنے کہا کہ ہاں میں بڑا مجرم ہوں ۔میں نے خیانت کی پرائیویٹ دکان سرکاری ملازم ہو کر کھولی وغیرہ وغیرہ ۔خود زبانی عرض کروں گا۔ حضور اقدس نے فرمایا کہ دعا کریں گے ۔میںنے جا کر کہہ دیا کہ وعدہ کیا ہے دعا فرماویں گے۔لیکن ان کو تسلی ہی نہ ہووے ۔ بہتیرا والد صاحب نے سمجھایا ۔تسلی دی وہ بار بار یہی کہیں کہ تم حضرت صاحب کے دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا آؤمیری منتیں کریں میں پھر حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ حضرت جی وہ سیڑھیوں میں بیٹھے ہیں جاتے نہیں مجھے کہتے ہیں کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا کرآ ۔حضور اقدس نے سنتے ہی دعا کے لئے دست مبارک اٹھائے اور میں بھاگی سیڑھیوں کی طرف گئی۔ کہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے ہیں ۔دعا ہورہی ہے ۔پھر والد صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم گھر کو جاؤ ۔میں گھر چلی گئی ۔بعد میں پتہ نہیں نماز کے وقت حضرت سے ملے یا نہ ملے۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد شاید ماہ ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی وہ اپنی خوشی سے تحفے تحائف لے کر آئے اور میرے لئے بھی کپڑے ،چاننی ،جوتی ، پھل وغیرہ لائے ۔ اور حضرت اُم المومنین کے لئے بھی چوڑیاں، خوبصورت کنگھیاں بہت سے فروٹ میرے ہاتھ بھیجے اور حضور اقدس کو ملے۔ بہت شکریہ کرتے تھے ۔ نقدی بھی دی ۔ پتہ نہیں ا س مقدمے میں دو اور بھی گرفتار تھے۔ ایک کا نام بابو عبد العزیز اور دوسرے کانام بابو علی بخش تھا۔ ان کا خفیف سا جرم تھا ۔ تاہم ان دونوں کو سزا قید ہوئی۔ جس وقت ان دونوں کے ہتھکڑیاں پڑیں ۔پیچھے ان کے بیوی بچے روتے جاتے تھے۔ بہت رحم آتا تھا ۔بابو محمد اسماعیل صاحب کہتے تھے کہ اصل مجرم تو میں تھا۔ حضرت صاحب کی دعا سے خدا نے مجھے بچایا۔ ورنہ میری رہائی کی کوئی صورت نہ تھی۔ اب کی چھٹیوں پر مجھے چچامحمد اسماعیل صاحب لاہور ملے تھے۔ میں نے وہ مقدمہ والا حال یاددلایا اور کہا کہ آپ نے وہ زمانہ دیکھاتھا۔ جب یکے پر قادیان دعا کے لئے گئے تھے۔ اب یہاں آ کر ترقی کا زمانہ دیکھو اور آپ کوو الد صاحب نے نعمت اللہ ولی کے شعر سنائے تھے۔ آپ نے لکھ لئے تھے۔ اب ذرا ’’ پسرش یادگار‘‘ کی زیارت خود کیجئے ۔ کہنے لگے جلسے پر ضرور آؤں گا۔ حضرت محمودا حمد صاحب کی زیارت کروں گا۔ انہوںنے دو دفعہ حج کیا تھا بہت بوڑھے ہو گئے تھے اِسی ماہ اکتوبر میں فوت ہوگئے ۔ ان کے بیٹے مقدمے وغیرہ کے گواہ ہیں اور میری والدہ صاحبہ بھی گواہ ہیں ۔ بلکہ ان کا اور میرا مضمون واحد ہے ۔
{1572} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کے چوٹ لگی جس سے خون نکلتا تھا۔ اور حضرت فرما رہے تھے کہ خدا کی بات کبھی نہیں ٹلتی اور خوشی کا اظہار فرما رہے تھے ۔ گھر گئی تو والد صاحب نے بتایا کہ آپ کو الہام ہوا تھا کہ ’’میاں مبارک احمد صاحب کو چوٹ لگے گی‘‘۔
{1573} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میری عمر۱۳برس کی تھی۔ جب میری شادی احمد حسین مرحوم سے ہوئی تو میری عمر گیارہ یا بارہ برس کی تھی۔ نادانی کی عمر تھی۔ ماسٹر صاحب مجھے بہت سمجھایا کرتے ، مگرمیری سمجھ میں کچھ نہ آتا جب وہ مجھے بیعت کو کہتے تو میں انکار کر دیتی ۔ کہ میں کیوں غیر مردوں کی بیعت کروں ۔ ماسٹر صاحب بہت سمجھاتے مگر کچھ سمجھ میں ہی نہ آتی کیونکہ ہندوستان سے گئی تھی جہاں پر جہالت ہی جہالت تھی ۔ اور ان دنوں ماسٹر صاحب اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔حضرت مسیح موعود نے دہلی سے بلوایا تھا۔ وہاں پر وہ حسن نظامی کے پاس ملازم تھے ۔وہاں پرسے آکر وہ اخبار کی ایڈیٹری پر ملازم ہوئے تھے۔ وہ بہت پرانے احمدی تھے ۔وہ دو دفعہ مجھے قادیان لائے بیعت کے لئے مگر میں نے نہیں کی ۔ آہستہ آہستہ مجھے جب سمجھ آگئی تو پھر ماسٹر صاحب مجھے بیعت کے لئے لائے اور میں نے بیعت کی۔ میرے ہمراہ شیخ یعقوب علی صاحب کی اہلیہ تھیں ۔ انہوںنے میری بیعت کروائی تھی۔ ان دنوں حضرت صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی) میاں بشیر احمد صاحب ،مبارکہ بیگم صاحبہ یہ سب چھوٹے بچے تھے ۔اور یہ کھیلتے کھیلتے کمرے میں داخل ہو گئے ۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ دروازہ ایسا بند ہوا کہ کھلے نہ اور بچے اندر روئیں ۔ ان کے رونے سے حضرت اماں جان بے ہوش ہو گئیں ۔ہم سب نے ہر چند دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر نہ کھلے پھر کسی نوکر نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی تو حضرت علیہ السلام نے بڑھئی کو بلا کر دروزہ کھلوایا تو پھر بچے اندر سے نکلے ۔اُسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر کی تھی۔ یہ امرتسر کا ذکر ہے کہ جب شام ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہوئی ۔ تو دشمنوں نے پتھر برسانے شروع کر دئے۔ شیشے دروازوں کے توڑ دئے ۔ اور اماں جان دوبارہ بے ہوش ہو گئیں ۔ہم سب عورتیں چھپ گئیں ۔ کوئی پاخانے میں کوئی چار پائی کے نیچے ،کوئی کہیں ،کوئی کہیں ۔پھر خدا جانے کسی طرح پتھر برسنے بند ہو گئے۔ حضرت علیہ السلام سے بیعت کرنے والے آپ کے چاروں طرف بیٹھ جاتے اور حضرت ان سے بیعت لیتے۔ یہ حضرت صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سے ہے کہ آپ عورتوں کو کبھی بھی کھلی لمبی آنکھوں سے نہ دیکھتے تھے ۔ جب کمرے سے باہر نکلتے تو کوٹ ،واسکٹ صافہ ہمیشہ پہن کر نکلتے ۔میں نے کئی بار آپ کو صحن میں ٹہلتے ٹہلتے لکھتے دیکھا۔ دو دواتیں ہوتی تھیں ۔اِدھر گئے تو اِدھر سے دوات سے قلم بھر لیتے تھے اور لکھتے ،اُدھر گئے تو اُدھر سے قلم بھر لیتے اور لکھتے اور اگر کسی نے مسجد سے آواز دینی تو آپ تشریف لے جاتے ۔ اور لوگوں نے دوڑ کر آگے پہنچے ہونا۔ گرد سخت اڑتی تھی۔ اور حضرت صاحب صافہ کا پلّو منہ اور ناک کے آگے لے لیتے اور ہر ایک کے ساتھ محبت اور اخلاص کے ساتھ پیش آتے۔ ان دنوں راستے بہت خراب تھے ۔جنگل ہی جنگل تھا ۔ گنتی کے آٹھ دس مکان تھے جب ہم نے امرتسر سے قادیان ٹانگا پرآنا تو کتنی کتنی اونچی جگہ ٹانگے نے چڑھ جانا اور پھر نیچے اترنا۔ ہچکولے بہت لگتے تھے مگر ہمارے دلوں میں تڑپ تھی۔ اس لئے ہمیں پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی محسوس ہوتی تھی۔
{1574} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے عورتوں میںچندے کی تحریک کی ،سب عورتیں چندہ دینے لگ گئیں ۔جن کے پاس پیسے نہ تھے وہ زیور دیتی تھیں ۔تو مجھے اس بات کاعلم نہ تھا کہ یا تو زیور عورتیں دیتی ہیں یا پیسے ، پہلے میں سوچتی کہ سارا زیور دے دو ں۔پھر سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی تو سب پہنیںگے تو میرے پاس نہیں ہوگا یہ سوچ کراٹھی اور ناک سے نتھ اتاری اور میرے پاس سات روپے تین پیسے تھے وہ بھی رکھ لئے۔ اور جا کر حضرت صاحب کے ہاتھ میں دے دئے تو حضور نے میری طرف دیکھااور پھر مولوی محمددین کو کچھ کہا۔ جو مجھے یاد نہیں انہوں نے روپے بھی لئے اور نتھ بھی اور ماسٹر صاحب کے پاس لے گئے ماسٹر صاحب نے نتھ تو لے لی اور روپے رہنے دئیے مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ جب سمجھ دار ہوئی تو پھر ماسٹر صاحب نے بتایا تھا۔ جس وقت حضرت مولوی صاحب واپس آگئے ۔ماسٹر صاحب کے پاس سے تو پھر مجھے بلایا ۔ماسٹر صاحب نے اور پوچھا کہ تم نے چندہ دیا تو میںنے کہا کہ ہاں ۔ پوچھا ، کیا میں نے کہا جو جیب میں روپے تھے۔ اور ناک کی نتھ۔ پہلے میں سارا زیور دینے لگی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی توسب پہنیں گے تو میرے پاس نہیں ہوں گے ۔ ماسٹر صاحب نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ دیکھو کہ تم نے چندے میں نتھ دی تھی۔ اور ہم تمہیں دیتے ہیں ۔میں بہت خوش ہوئی اور کہا کہ اب کے میں ساراہی دے دوں گی۔ مجھے اللہ میاں اور دے دے گا ۔یہ کہہ کر بھاگی ہوئی اندر گئی اور پھر نتھ پہن لی تو میری ناک میں نتھ دیکھ کر مولوی محمد دین کی بیوی نے اور حضرت صاحب کی بڑی بیوی یعنی اُم ناصراحمد صاحب کہنے لگیں ۔ابھی تو تم نے چندے میں دی تھی۔ اور اب تمہاری ناک میں ہے۔ تو میں نے خوش ہو کر کہا کہ اللہ میاں نے اور دے دی ہے۔اور جب بھی ہم قادیان آتے تو حضرت صاحب کے گھر میں اترتے اور حضور بڑی محبت سے پیش آتے۔ اگر کھانے کے وقت نظر پڑ جاتی تو پھر پوچھتے ۔ ’’نتھ والی ، کھانا کھا لیا‘‘۔تو میں کہتی ،جی۔
{1575} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اماں جان کو ساتھ لے کر حضور سیر کو جاتے تو ہم عورتیں بھی ساتھ ہولیتیں ،تو حضور راستے میں اماں جان سے باتیں کرتے ۔مگر اتنی عقل نہیں تھی کہ سنتی حضرت صاحب کیا باتیں کرتے ہیں ۔ سارے راستے میں میں شرارتیں کرتی جاتی مگر حضور نے کبھی منع نہ کرنا ۔کئی بار ساتھ سیر کو میں گئی۔ اور جب حضور اپنے سسرال میں جاتے یعنی دہلی تو وہاں بھی کئی بار میں نے ان کو دیکھا کیونکہ وہاں پر میرے میکے تھے۔ اور مرزا محمد شفیع کے گھر بہت آناجانا تھا۔تو حضور بھی وہاں تشریف فرما ہوتے۔ غرض میں جہاں بھی حضور کو دیکھتی وہیں کھڑی ہو جاتی اور بڑے غور سے آپ کو دیکھتی اور اپنے دل میں خوش ہوتی۔ اور اگر باہر سے آتے ہوئے دیکھنا آپ کو ،تو ادھر انہوںنے اندر قدم رکھا اور سب کوسلام کرنا جس کاانہوںنے جواب دینا پھر میں نے جلدی سے سلام کرنا جس کا انہوں نے جواب دینا۔
{1576} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ماسٹر صاحب بھی مجھے کبھی کبھی حضور کی باتیں سناتے ۔ایک واقعہ سنایا کہ چٹھی رساں آیا اور خط لایا۔ تو حضور کے پاس چائے رکھی تھی اور کسی آدمی نے مانگی ۔حضور نے اس کو آنجلا ٭بھر کے دی تو ڈاکیے نے کہا کہ حضور چائے کی تو مجھے بھی عادت ہے۔ حضور نے اس کو بھی دی پھر لے کر کہنے لگا۔ حضور دودھ اور میٹھا کہاں سے لوں گا تو آپ نے اس کو ایک روپیہ بھی دیا‘‘۔
{1577} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر ماسٹر صاحب سے مجھ سے بیان کیا کہ ’’حضرت صاحب مردوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ کہ مرد اپنی بیویوں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کریں ثواب کا کام ہے۔ رسول کریم ﷺ بھی گھر کے کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ لفظ کہتے ،ہمیں تو لکھنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔
{1578} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فریدآبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے ماسٹر صاحب نے سنایا کہ سردی کا موسم تھا ڈاکیہ خط لایا اور کہنے لگا حضور مجھے سردی لگتی ہے آپ مجھے اپنا کوٹ دیں تو حضور اسی وقت اندر گئے اور دو گرم کوٹ

٭ چُلّو (ہندی لفظ ہے)
لے آئے اور کہنے لگے جو پسند ہو لے لو۔ اس نے کہا مجھے دونوں پسند ہیں تو حضور نے دونوں دے دئے۔
{1579} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں ۔ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہئے اور مردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہئے اور میںجب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المومنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے ۔محمود کی والدہ یا کبھی محمود کی اماں !یہ بات اس طرح سے ہے اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے ،ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
{1580} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ عورتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ذرا سی بات میں گالیاں اور کوسنوں پر اتر آتی ہیں بجائے اس کے اگر وہ اپنے بچوں کو نرمی سے پیش آئیں اور بجائے گالی کے ’’نیک ہو ‘‘ کہہ دیا کریں تو کیا حر ج ہے۔ عورتیں ہی اپنے بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بُرے اخلاق پیدا کرتی ہیں ۔اگر یہ چُھٹے تو بچوں کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے ۔اگر میاں بیوی میں ناراضگی ہو جاوے تو چاہئے کہ دونوں میں سے ایک خاموش ہو جائے تو لڑائی نہ بڑھے اور نہ بچے ماں باپ کو تُو تُو مَیں مَیں کرتے سنیں بچہ تو وہی کا م کرے گا جو اس کے ماں باپ کرتے ہیں اور پھر یہ عادت اس کی چھوٹے گی نہیں۔ بڑا ہوگا ماں باپ کے آگے جواب دے گا پھر رفتہ رفتہ باہر بھی اسی طرح کرے گا اس لئے عورتو ں کو اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہئے۔ آپ بیعت کرنے والوں کو ضرور کچھ روز اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔
 
Top