محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{1371} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی صاحب نے سوال کیا کہ حضور ؑ نماز تو پڑھی جاتی ہے لیکن کچھ لذت نہیں آتی اور نہ خوشی سے نماز کو دل چاہتا ہے ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ ۔تم دیکھتے نہیں کہ بیمار کا دل غذ ا کو نہیں چاہتا لیکن اس کو اگل نگل کر کے کھلاتے ہیں اسی طرح نماز کو دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ۔‘‘
ایسا ہی حضورؑ کے سامنے سوال ہوا کہ نماز میں حضور قلب پید انہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’ جب اذان ہو مسجد میں جاؤ یہی حضورِ قلب ہے ۔بندہ کاکام ہے کہ کوشش کرے۔ آگے خدا کاکام ہے ۔‘‘
{1372} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا ۔ حضورؑ نے کہلا بھیجا ’’ ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو۔‘‘ مگر کسی نے نہ سنا۔پھر حضورؑ خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں ۔پھر آپ نے فرمایا ۔’’اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کروگی ‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ پیٹو سکھنیو۔‘‘
{1373} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی خادمہ ۔فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی تابی میری خالہ کا ایک ہی بیٹا تھا جو فوت ہو گیا ۔وہ غم سے پاگل ہو گئی اور سارا دن بیٹے کی قبر پر پڑی رہتی تھی۔ لوگوںنے کہا کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دو۔ لوگ اس کو یہاں لے آئے ۔وہ نیچے رہا کرتی تھی ۔نیچے دالان میں گھڑے پڑے رہتے تھے وہ ان میں اپنا کرتہ ڈبو دیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ گھڑے اس کے واسطے ہی رہنے دو اور گھر کی ضرورت کے واسطے اور رکھ لو۔ ‘‘ جب وہ رونا شروع کرتی تو حضور ؑ خود اس سے پوچھتے کہ ’’ کیوں روتی ہے ؟‘‘ وہ کہتی کہ مجھے میر ا بیٹا یاد آتا ہے ۔تو حضور فرماتے کہ ’’ میں بھی تیرا بیٹا ہوں ‘‘ آخر وہ اچھی ہوگئی تو اس نے حضورؑ سے کہا ۔میں اپنی روٹی آپ پکایا کروں گی ۔ جو عورتیں روٹی پکاتی ہیں ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ۔ اس پر حضور ؑ نے اس کوآٹے کے پیسے الگ دے دئیے ۔ وہ اپنی روٹی خود پکایا کرتی تھی‘‘ ۔
{1374} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ جب صلاح الدین کوئی تین مہینے کا تھا۔ میں حضرت اقدس ؑ کی خدمت عالی میں سلام اور دعا کے واسطے روزانہ جاتی تھی۔ ایک دن جب میں آنے لگی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ ’’ٹھہر جاؤ آج ہم نے مِسّی روٹی پکوائی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی حضورؑ میرا بچہ ابھی چھوٹا ہے ۔میں سخت غذا سے بہت ڈرتی ہوں ۔میری والدہ سخت پر ہیز کراتی ہیں ۔اگر ذرا سی بھی ثقیل غذا کھائی جائے تو بچہ کو فوراً تکلیف ہوتی ہے ۔ مِسّی روٹی مَیں نہیں کھا سکتی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کھا لو کچھ تکلیف نہ ہوگی ۔‘‘ آپؑ اس وقت دیہات سے آئی ہوئی عورتوں کو کھانا کھلوا رہے تھے۔جب روٹیاں پک کر آئیں تو آپ نے گھی منگوا کر ان کو لگوایا اور مجھے مِسّی روٹی اور لسّی دی ۔میں نے بخوشی کھالی ۔ کوئی تکلیف اس سے مجھ کو یا بچہ کو نہیں ہوئی ۔
{1375} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک چھدوایا تو حضورؑ کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی ‘‘۔
جب نور جان اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پربڑا فضل ہو ا ہے ۔آبادی ہوگئی ہے ۔ہم امیر بن گئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ’’ اب امیر ہو کر ان پر آوازیں کستے ہو‘‘ ۔
{1376} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک بار نواں پنڈ کی دو عورتیں آئیں جن کے پاس کچھ گیہوں تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ ’حضور! اب کے فصل بہت کم ہوئی ہے ۔‘ میں پندرہ یا سولہ سیر لائی ہوں ۔ فرمایا ’’ لے جاؤ‘‘ کہا حضور! اب کے ٹڈی(ملخ) پڑگئی ہے ۔فصل نہیں ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’لے جاؤ ہم کو معلوم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا حضور! اب ہم لے آئی ہیں آپ لے لیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ نہیں لے جاؤ‘‘ دوسری عورت سے فرمایا کہ ’’ تم بھی نہ لانا۔‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سب کو منع کر دو کوئی حق فصلانہ نہ لاوے‘‘ ۔
{1377} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ’’ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں ۔کوئی شادی تھی۔ ان عورتوں نے ماتھا ٹیکا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کو سجدہ کرنا منع ہے۔‘‘ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ’’ ان کو سمجھا دواور خوب ذہن نشین کرادو کہ سجدہ صرف خد اکے لئے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہئے ‘‘ ۔
{1378} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ خان بہادرغلام محمد صاحب گلگتی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں پہلے پہل گلگت سے اپنے خاوند کے ہمراہ بیعت کے واسطے آئی ہوں ۔میرے خاوند نے مجھے حضور کے مکان کے اندر بھیج دیا۔ کوئیں کے پاس حضرت اماں جان پیڑھی پر بیٹھے ہوئی کچھ دھو رہی تھیں ۔انہوں نے میرے آنے کی اطلاع حضورؑ کو بھیج دی ۔اس وقت حضورؑ اوپر کی منزل پر تھے ۔مجھے بلا بھیجا ۔میں ایک عورت کے ساتھ اوپر گئی۔تو حضورؑ نے ایک موٹا سا کپڑا میری طرف پھینکا کہ’’ اس کو پکڑ لو ۔اور جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتی جاؤ۔‘‘پھر حضور ؑ جو کچھ بیعت لینے کے وقت فرمایا کرتے تھے فرماتے گئے ۔میں بھی کہتی گئی۔ بیعت کے بعد دعا فرمائی ۔
{1379} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیر کوآئے تو کچھ عورتیں بھی ساتھ تھیں۔واپسی پر سستانے کے لئے ہماری کچی مسجد میں بیٹھ گئے اور عورتیں بھی بیٹھ گئیں ۔ہماری عورتیں بھی وہاں چلی گئیں ۔سلام علیکم کہا اور پوچھا کہ حضورؑ کے واسطے کچھ پانی وغیرہ لائیں ؟ آپ نے فرمایا۔’’بیٹھ جائو‘‘ بتاؤ،تمہارے آدمی نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اگر نہیں پڑھتے تو ان کے نام لکھواؤ‘‘ ۔
{1380} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں اکثر یہاں رہاکرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے ۔ وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضورؑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضورؑ مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں ۔میں وہاں پرہی بیٹھی تھی ۔ حضورؑ نے فرمایا ۔’’ فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ حضورؑ وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے ۔ حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا ۔کہ’’ ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں‘‘ ۔
{1381} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خان صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے ۔سر شتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ’ جب دوسری دفعہ میں قادیان میں آئی تو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی مرحومہ کرسی پربیٹھی تھیں ۔میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام مجھے کچھ علم نہیں ہے میں سیدھی سادی ہوں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ خدا تعالیٰ سیدھے سادوں کو قبول کر لیتا ہے ‘‘ ۔
{1382} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے پہلے پہل فونو گراف منگوایا تو ان دنوں بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا جاتا اور سنا جاتا تھا ۔ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لالہ شرمپت وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی سنواؤ تو ہم نے اس میں تبلیغی فائدہ کو مدنظر رکھ کر ایک نظم بھروا دی ہے ۔ (وہ نظم مذکور حسب ذیل ہے )
آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے
کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے
باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے
حاصل ہی کیا ہے جنگ وجدال و خلاف سے
وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو
تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو
مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں
جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں
دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے
جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے
دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما
کس کام کا وہ دیں جو نہ ہو وے گرہ کُشا
جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم
دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم
وہ لوگ جوکہ معرفتِ حق میں خام ہیں
بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں
یہ نظم لالہ شرمپت وغیرہ کی موجودگی میں سنائی گئی پھر اُسی وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے سورۃ مریم کے ایک یا دو رکوع فونو گراف کے سامنے پڑھے ۔وہ بھی فونو گراف میں بھرے گئے ۔حضور علیہ السلام نے بھی یوں فونو گراف سنا‘‘۔
{1383} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ محترمہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب آپؑ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آکر آپ کوگالیاں دیا کرتا تھا۔ حضورؑ نے حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ ’’ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو ۔اس کا گلا گالیاں دیتے سوکھ گیا ہوگا۔‘‘ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’ میں بھیج تو دو ں مگر وہ کہے گا کہ مجھے زہر ملا کردیا ہے ‘‘۔واپسی پر آپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آکر گالیاں دیں ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے انہیں روکا۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب !مت روکو۔ ان کو دل خوش کرلینے دو‘‘ ۔
{1384} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں چارپائی پر لیٹا ہو ا تھا میں نے دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فرشتہ ہے اور میرے پاؤں کی طرف ایک فرشتہ ہے وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ایک نے دوسرے کو میاں شریف احمد(صاحب) کی نسبت کہا کہ وہ بادشاہ ہے۔ دوسرے نے کہا نہیں پہلے توا س نے قاضی بننا ہے ‘‘ ۔ ۱؎
{1385} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو۔ مُلانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کوڈالتے ہیں کتے اور کوّے کھاتے ہیںاور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں ۔‘‘
{1386} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ ایک بار حضورؑ کے ساتھ مولوی شیر علی صاحب کے گھر کے قریب آئے۔ ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے ۔فرمایا ۔’’ یہ سب ہمارے ہی بازار ہیں ۔ سب احمد ی ہو جاویں گے ۔سب بازار ہمارا ہی ہے ۔‘‘ پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی ۔فرمایا ۔’’ پانی لاؤ اس کوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم سب نے پیا۔ فرمایا ’’ اس کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اس کا بھی ٹھنڈا ہے جو درزی خانہ کے پاس ہے ۔آپ نے فرمایا ’’ نہیں یہ بہت ٹھنڈا ہے اور لذیذہے اور بہت بہتر ہے ۔‘‘
{1387} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے حضرت اماں جان لاہور تشریف لے گئیں توہم نے
۱؎ بدر جلد ۶ نمبر ۱۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۔ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱ ۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ پراس رؤیا کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ’’ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’ وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ ‘‘
بازار سے تربوز منگوائے ۔ان کو کاٹ کراور مصری ڈال کر رکھ چھوڑا۔ میں ،سرور سلطان صاحبہ،زینب استانی صاحبہ اُم ناصر احمد صاحب فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سب مل کر کھانے لگیں ۔ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی۔ہم نے ایک ٹکڑا اس کو بھی کھانے کو دیا ۔ اس نے کھا کر درمیان میں جو برتن تھا اس میں چھلکا پھینک دیا۔تربوز کے پانی کی چھینٹیں اڑ کر ہم سب پر پڑیں ۔ہم کو بھی شرارت سوجھی۔ ہم نے اپنے اپنے چھلکے مائی تابی کو مارے۔وہ بیچاری غصہ ہوگئی اور حضرت صاحبؑ سے جاکر شکایت کی ۔حضورؑ نے گواہیاں لیں تو معلوم ہو اکہ پہل مائی نے کی تھی۔ پھر سب کو باری باری بلا کر پوچھا۔آپؑ ہنس پڑے اور فرمایا ۔’’ مائی پہل تم نے کی تھی‘‘ ۔
{1388} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ دن بھر یا تو عبادت کرتے رہتے تھے یالکھتے رہتے تھے اور جب بہت تھک جاتے تھے تو رات کے وقت حافظ معین الدین صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ’’کچھ سناؤ تاکہ مجھے نیند آجائے۔‘‘ حافظ صاحب آپ کو دبایا بھی کرتے تھے ۔ایک دن حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’حافظ صاحب کچھ سنائیے۔‘‘ حافظ صاحب سنانے لگے ۔سناتے سناتے حافظ صاحب نے سمجھا کہ حضورؑ سو گئے ہیں ۔وہ چپ ہو گئے حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’سنائیے میں سویا نہیں ۔میرے سر میں درد ہے ۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب نے صبح تک تین چار دفعہ کہا۔ صبح کے وقت آپؑ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب آتے تو حضرت ام المومنین کو جو بات وہاں ہوتی سنا دیا کرتے ۔آپؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے ۔
{1389} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ جب میں پہلی بار آئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھرجانا منع کیا ہوا تھا۔میں بھی ڈر کے مارے نہیں جایا کرتی تھی۔آپ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’فضل سے کہوکہ تم کو منع نہیں کیا ۔تم جایا کرو تمہاری رشتہ داری ہے ۔‘‘
{1390} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضورؑ باہر سیر کو تشریف لے گئے تو مستورات بھی ساتھ تھیں۔ آپؑ آدھے راستہ سے ہی واپس آگئے ۔راستہ میں تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے نام منی آرڈر آیا ہے ۔تو مسیح موعود علیہ السلام ڈاک خانہ سے پچاس روپے وصول کرتے ہوئے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے ۔
ایسا ہی حضورؑ کے سامنے سوال ہوا کہ نماز میں حضور قلب پید انہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’ جب اذان ہو مسجد میں جاؤ یہی حضورِ قلب ہے ۔بندہ کاکام ہے کہ کوشش کرے۔ آگے خدا کاکام ہے ۔‘‘
{1372} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا ۔ حضورؑ نے کہلا بھیجا ’’ ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو۔‘‘ مگر کسی نے نہ سنا۔پھر حضورؑ خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں ۔پھر آپ نے فرمایا ۔’’اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کروگی ‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ پیٹو سکھنیو۔‘‘
{1373} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی خادمہ ۔فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی تابی میری خالہ کا ایک ہی بیٹا تھا جو فوت ہو گیا ۔وہ غم سے پاگل ہو گئی اور سارا دن بیٹے کی قبر پر پڑی رہتی تھی۔ لوگوںنے کہا کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دو۔ لوگ اس کو یہاں لے آئے ۔وہ نیچے رہا کرتی تھی ۔نیچے دالان میں گھڑے پڑے رہتے تھے وہ ان میں اپنا کرتہ ڈبو دیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ گھڑے اس کے واسطے ہی رہنے دو اور گھر کی ضرورت کے واسطے اور رکھ لو۔ ‘‘ جب وہ رونا شروع کرتی تو حضور ؑ خود اس سے پوچھتے کہ ’’ کیوں روتی ہے ؟‘‘ وہ کہتی کہ مجھے میر ا بیٹا یاد آتا ہے ۔تو حضور فرماتے کہ ’’ میں بھی تیرا بیٹا ہوں ‘‘ آخر وہ اچھی ہوگئی تو اس نے حضورؑ سے کہا ۔میں اپنی روٹی آپ پکایا کروں گی ۔ جو عورتیں روٹی پکاتی ہیں ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ۔ اس پر حضور ؑ نے اس کوآٹے کے پیسے الگ دے دئیے ۔ وہ اپنی روٹی خود پکایا کرتی تھی‘‘ ۔
{1374} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ جب صلاح الدین کوئی تین مہینے کا تھا۔ میں حضرت اقدس ؑ کی خدمت عالی میں سلام اور دعا کے واسطے روزانہ جاتی تھی۔ ایک دن جب میں آنے لگی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ ’’ٹھہر جاؤ آج ہم نے مِسّی روٹی پکوائی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی حضورؑ میرا بچہ ابھی چھوٹا ہے ۔میں سخت غذا سے بہت ڈرتی ہوں ۔میری والدہ سخت پر ہیز کراتی ہیں ۔اگر ذرا سی بھی ثقیل غذا کھائی جائے تو بچہ کو فوراً تکلیف ہوتی ہے ۔ مِسّی روٹی مَیں نہیں کھا سکتی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کھا لو کچھ تکلیف نہ ہوگی ۔‘‘ آپؑ اس وقت دیہات سے آئی ہوئی عورتوں کو کھانا کھلوا رہے تھے۔جب روٹیاں پک کر آئیں تو آپ نے گھی منگوا کر ان کو لگوایا اور مجھے مِسّی روٹی اور لسّی دی ۔میں نے بخوشی کھالی ۔ کوئی تکلیف اس سے مجھ کو یا بچہ کو نہیں ہوئی ۔
{1375} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک چھدوایا تو حضورؑ کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی ‘‘۔
جب نور جان اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پربڑا فضل ہو ا ہے ۔آبادی ہوگئی ہے ۔ہم امیر بن گئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ’’ اب امیر ہو کر ان پر آوازیں کستے ہو‘‘ ۔
{1376} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک بار نواں پنڈ کی دو عورتیں آئیں جن کے پاس کچھ گیہوں تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ ’حضور! اب کے فصل بہت کم ہوئی ہے ۔‘ میں پندرہ یا سولہ سیر لائی ہوں ۔ فرمایا ’’ لے جاؤ‘‘ کہا حضور! اب کے ٹڈی(ملخ) پڑگئی ہے ۔فصل نہیں ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’لے جاؤ ہم کو معلوم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا حضور! اب ہم لے آئی ہیں آپ لے لیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ نہیں لے جاؤ‘‘ دوسری عورت سے فرمایا کہ ’’ تم بھی نہ لانا۔‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سب کو منع کر دو کوئی حق فصلانہ نہ لاوے‘‘ ۔
{1377} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ’’ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں ۔کوئی شادی تھی۔ ان عورتوں نے ماتھا ٹیکا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کو سجدہ کرنا منع ہے۔‘‘ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ’’ ان کو سمجھا دواور خوب ذہن نشین کرادو کہ سجدہ صرف خد اکے لئے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہئے ‘‘ ۔
{1378} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ خان بہادرغلام محمد صاحب گلگتی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں پہلے پہل گلگت سے اپنے خاوند کے ہمراہ بیعت کے واسطے آئی ہوں ۔میرے خاوند نے مجھے حضور کے مکان کے اندر بھیج دیا۔ کوئیں کے پاس حضرت اماں جان پیڑھی پر بیٹھے ہوئی کچھ دھو رہی تھیں ۔انہوں نے میرے آنے کی اطلاع حضورؑ کو بھیج دی ۔اس وقت حضورؑ اوپر کی منزل پر تھے ۔مجھے بلا بھیجا ۔میں ایک عورت کے ساتھ اوپر گئی۔تو حضورؑ نے ایک موٹا سا کپڑا میری طرف پھینکا کہ’’ اس کو پکڑ لو ۔اور جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتی جاؤ۔‘‘پھر حضور ؑ جو کچھ بیعت لینے کے وقت فرمایا کرتے تھے فرماتے گئے ۔میں بھی کہتی گئی۔ بیعت کے بعد دعا فرمائی ۔
{1379} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیر کوآئے تو کچھ عورتیں بھی ساتھ تھیں۔واپسی پر سستانے کے لئے ہماری کچی مسجد میں بیٹھ گئے اور عورتیں بھی بیٹھ گئیں ۔ہماری عورتیں بھی وہاں چلی گئیں ۔سلام علیکم کہا اور پوچھا کہ حضورؑ کے واسطے کچھ پانی وغیرہ لائیں ؟ آپ نے فرمایا۔’’بیٹھ جائو‘‘ بتاؤ،تمہارے آدمی نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اگر نہیں پڑھتے تو ان کے نام لکھواؤ‘‘ ۔
{1380} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں اکثر یہاں رہاکرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے ۔ وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضورؑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضورؑ مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں ۔میں وہاں پرہی بیٹھی تھی ۔ حضورؑ نے فرمایا ۔’’ فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ حضورؑ وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے ۔ حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا ۔کہ’’ ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں‘‘ ۔
{1381} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خان صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے ۔سر شتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ’ جب دوسری دفعہ میں قادیان میں آئی تو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی مرحومہ کرسی پربیٹھی تھیں ۔میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام مجھے کچھ علم نہیں ہے میں سیدھی سادی ہوں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ خدا تعالیٰ سیدھے سادوں کو قبول کر لیتا ہے ‘‘ ۔
{1382} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے پہلے پہل فونو گراف منگوایا تو ان دنوں بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا جاتا اور سنا جاتا تھا ۔ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لالہ شرمپت وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی سنواؤ تو ہم نے اس میں تبلیغی فائدہ کو مدنظر رکھ کر ایک نظم بھروا دی ہے ۔ (وہ نظم مذکور حسب ذیل ہے )
آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے
کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے
باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے
حاصل ہی کیا ہے جنگ وجدال و خلاف سے
وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو
تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو
مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں
جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں
دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے
جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے
دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما
کس کام کا وہ دیں جو نہ ہو وے گرہ کُشا
جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم
دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم
وہ لوگ جوکہ معرفتِ حق میں خام ہیں
بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں
یہ نظم لالہ شرمپت وغیرہ کی موجودگی میں سنائی گئی پھر اُسی وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے سورۃ مریم کے ایک یا دو رکوع فونو گراف کے سامنے پڑھے ۔وہ بھی فونو گراف میں بھرے گئے ۔حضور علیہ السلام نے بھی یوں فونو گراف سنا‘‘۔
{1383} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ محترمہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب آپؑ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آکر آپ کوگالیاں دیا کرتا تھا۔ حضورؑ نے حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ ’’ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو ۔اس کا گلا گالیاں دیتے سوکھ گیا ہوگا۔‘‘ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’ میں بھیج تو دو ں مگر وہ کہے گا کہ مجھے زہر ملا کردیا ہے ‘‘۔واپسی پر آپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آکر گالیاں دیں ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے انہیں روکا۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب !مت روکو۔ ان کو دل خوش کرلینے دو‘‘ ۔
{1384} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں چارپائی پر لیٹا ہو ا تھا میں نے دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فرشتہ ہے اور میرے پاؤں کی طرف ایک فرشتہ ہے وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ایک نے دوسرے کو میاں شریف احمد(صاحب) کی نسبت کہا کہ وہ بادشاہ ہے۔ دوسرے نے کہا نہیں پہلے توا س نے قاضی بننا ہے ‘‘ ۔ ۱؎
{1385} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو۔ مُلانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کوڈالتے ہیں کتے اور کوّے کھاتے ہیںاور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں ۔‘‘
{1386} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ ایک بار حضورؑ کے ساتھ مولوی شیر علی صاحب کے گھر کے قریب آئے۔ ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے ۔فرمایا ۔’’ یہ سب ہمارے ہی بازار ہیں ۔ سب احمد ی ہو جاویں گے ۔سب بازار ہمارا ہی ہے ۔‘‘ پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی ۔فرمایا ۔’’ پانی لاؤ اس کوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم سب نے پیا۔ فرمایا ’’ اس کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اس کا بھی ٹھنڈا ہے جو درزی خانہ کے پاس ہے ۔آپ نے فرمایا ’’ نہیں یہ بہت ٹھنڈا ہے اور لذیذہے اور بہت بہتر ہے ۔‘‘
{1387} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے حضرت اماں جان لاہور تشریف لے گئیں توہم نے
۱؎ بدر جلد ۶ نمبر ۱۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۔ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱ ۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ پراس رؤیا کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ’’ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’ وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ ‘‘
بازار سے تربوز منگوائے ۔ان کو کاٹ کراور مصری ڈال کر رکھ چھوڑا۔ میں ،سرور سلطان صاحبہ،زینب استانی صاحبہ اُم ناصر احمد صاحب فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سب مل کر کھانے لگیں ۔ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی۔ہم نے ایک ٹکڑا اس کو بھی کھانے کو دیا ۔ اس نے کھا کر درمیان میں جو برتن تھا اس میں چھلکا پھینک دیا۔تربوز کے پانی کی چھینٹیں اڑ کر ہم سب پر پڑیں ۔ہم کو بھی شرارت سوجھی۔ ہم نے اپنے اپنے چھلکے مائی تابی کو مارے۔وہ بیچاری غصہ ہوگئی اور حضرت صاحبؑ سے جاکر شکایت کی ۔حضورؑ نے گواہیاں لیں تو معلوم ہو اکہ پہل مائی نے کی تھی۔ پھر سب کو باری باری بلا کر پوچھا۔آپؑ ہنس پڑے اور فرمایا ۔’’ مائی پہل تم نے کی تھی‘‘ ۔
{1388} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ دن بھر یا تو عبادت کرتے رہتے تھے یالکھتے رہتے تھے اور جب بہت تھک جاتے تھے تو رات کے وقت حافظ معین الدین صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ’’کچھ سناؤ تاکہ مجھے نیند آجائے۔‘‘ حافظ صاحب آپ کو دبایا بھی کرتے تھے ۔ایک دن حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’حافظ صاحب کچھ سنائیے۔‘‘ حافظ صاحب سنانے لگے ۔سناتے سناتے حافظ صاحب نے سمجھا کہ حضورؑ سو گئے ہیں ۔وہ چپ ہو گئے حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’سنائیے میں سویا نہیں ۔میرے سر میں درد ہے ۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب نے صبح تک تین چار دفعہ کہا۔ صبح کے وقت آپؑ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب آتے تو حضرت ام المومنین کو جو بات وہاں ہوتی سنا دیا کرتے ۔آپؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے ۔
{1389} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ جب میں پہلی بار آئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھرجانا منع کیا ہوا تھا۔میں بھی ڈر کے مارے نہیں جایا کرتی تھی۔آپ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’فضل سے کہوکہ تم کو منع نہیں کیا ۔تم جایا کرو تمہاری رشتہ داری ہے ۔‘‘
{1390} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضورؑ باہر سیر کو تشریف لے گئے تو مستورات بھی ساتھ تھیں۔ آپؑ آدھے راستہ سے ہی واپس آگئے ۔راستہ میں تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے نام منی آرڈر آیا ہے ۔تو مسیح موعود علیہ السلام ڈاک خانہ سے پچاس روپے وصول کرتے ہوئے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے ۔