• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 681} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتداء میں مَیں نے حضرت صاحب سے بھی کچھ پڑھا ہے۔ ایک فارسی کی کتاب تھی۔ وہ پڑھی تھی۔ لالہ ملاوامل۔ شرم پت اور کشن سنگھ بھی پڑھتے تھے۔ ملاوامل وشرم پت حکمت پڑھتے تھے اور کشن سنگھ قانون کی کتاب پڑھتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ ملاوامل اور لالہ شرم پت کا ذکر حضرت صاحب کی اکثر کتابوں میں آچکا ہے اور کشن سنگھ قادیان کا ایک باشندہ تھا جو سکھ مذہب کو بدل کر آریہ ہو گیا تھا۔ مگر کیس رہنے دئیے تھے۔ اس لئے اُسے لوگ کیسوں والا آریہ کہتے تھے۔ اب ان تینوں میں سے صرف لالہ ملاوامل زندہ ہیں۔ محررہ ۳۸؍ ۱۰؍ ۱۰
{ 682} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہو گئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جا کر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
{ 683} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں۔ مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی و جہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس قسم کے واقعات دوسرے لوگوں سے بھی سُنے ہیں کہ دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اس طرح پیش آتے تھے جس طرح انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت ہے۔ مگر جب مخالفت ہوئی تو اُسے بھی انتہا تک پہنچا دیا۔
{ 684} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی۔ اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اُسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہا۔ کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامتِ منافق یا علامتِ یہود کونسا لفظ فرمایا۔ مگر آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ضرور نکلے تھے کہ منافق یا یہود۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اور اُسے ناپسند فرماتے تھے۔
{ 685} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت اقدس نے مینار کی بنیاد رکھوائی تو اس کے بعد کچھ عمارت بن کر کچھ عرصہ تک مینار بننا بند ہو گیا تھا۔ اس پر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ اگر سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دے دیویں تو دس ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا اور مینار تیار ہو جائے گا۔ اور ان دوستوں کے نام مینار پر درج کئے جائینگے ہم تینوں بھائیوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم مع والد یکصد روپیہ مل کر ادا کر سکتے ہیں۔ اگر حضور منظور فرمائیں۔ تو حضور نے بڑی خوشی سے منظور فرمایا۔ اور ہم نے سو روپیہ ادا کر دیا۔
{ 686} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مدّ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا۔ کہ دیہات کی ہرکس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے (کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) اسی طرح آپ کو شہتیر والا مکان ناپسند تھا اور فرماتے تھے کہ ایسی چھت خطرناک ہوتی ہے۔ خود اپنی رہائش کے دالان کی چھت جس میں چار شہتیر تھے بدلوا کر صرف کڑیوں والی چھت ڈالوائی تھی۔ اسی طرح آپ نے لدھیانہ سے دہلی جاتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں کرنال والی لائن سے سفر کیا۔ کیونکہ دوسری طرف سے راستہ میں دو دفعہ دریا کا پُل آتا تھا۔ اور ان دنوں میں کچھ حادثات بھی ریلوں کے زیادہ ہوئے تھے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بھتیجے نے جو ایک نشہ باز اور خطرناک آدمی تھا۔ حضور کو ایک خط تحریر کیا۔ اور اس میں قتل کی دھمکی دی۔ کچھ دن بعد وہ خود قادیان آ گیا۔ آپ نے جب سُنا تو حضرت خلیفہ اولؓ کو تاکیداً کہلا بھیجا کہ اسے فوراً رخصت کر دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اُس کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکڑی کے شہتیر ہوتے تھے۔ جن سے یہ خطرہ ہوتا تھا۔ کہ اگر شہتیر ٹوٹے تو ساری چھت گر جائے گی۔ مگر آجکل لوہے کے گاڈر نکل آئے ہیں۔ جو بہت محفوظ ہوتے ہیں۔
{ 687} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ نماز پر زور دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنوار کر پڑھنے سے یہ مراد ہے کہ دل لگا کر پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے۔ اور نماز میں خشوع خضوع پیدا کیا جائے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں ایسی کیفیت پیدا کرلے تو وہ گویا ایک مضبوط قلعہ میں آ جاتا ہے۔
{ 688} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی۔ اس بیچاری کو سل کی بیماری تھی۔ جب وہ فوت ہو گئی تو اس کا ایک دوپٹہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے یاد دہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آ ہنی سلاخ سے بندھوا دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ڈاکٹرنی مرحومہ بہت مخلصہ تھی اور اس کی و جہ سے ڈاکٹر صاحب کا اخلاص بھی ترقی کر گیا تھا۔
{ 689} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۹۳ء تک گول کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا۔ پھر اس میں پریس آ گیا۔ جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا۔ اور کاتب بھی اسی جگہ مسودات کی کاپیاں لکھا کرتا تھا اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا۔ ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے۔ ۹۵ء میں حضرت والد صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر قادیان آگئے اور چونکہ اس وقت پریس اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے۔ اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا صحن بھی بنا لیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ گول کمرہ اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک کے قریب احمدیہ چوک پر واقع ہے اس کے ماتھے کی دیوار گول ہے۔ ابتداء زمانہ خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی کئی سال تک اس میں اپنا دفتر رکھا تھا۔
{ 690} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب قادیان کی فصیل کی جگہ پر مکانات بنے تو سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو کوٹھڑیاں شمالی جانب تعمیر ہوئیں۔ وہ بڑا کمرہ جو اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا موٹر خانہ ہے۔ یہ ضیاء الاسلام پریس کے لئے بنا تھا اور اس کے ساتھ کا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا۔ جس میں حضرت خلیفہ اولؓ مدت العمر مطب کرتے رہے۔ اس کے ساتھ شمالی جانب دو کوٹھڑیاں بنیں۔ ایک شرقی جانب جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا کتب خانہ رہتا تھا اور دوسری غربی جانب جس میں خاص مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور دیگر معزز مہمان ان ایام میں اسی کوٹھڑی میں ٹھہرتے تھے۔
{ 691} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اپنے خاندانی حالات کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے۔ جن میں سے مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:۔
(۱) کتاب البریہ ص۱۳۴ تا ۱۶۸ حاشیہ۔
(۲) ازالہ اوہام ـ بار اوّل۔ ص ۱۱۹ تا ۱۳۳ حاشیہ۔
(۳) آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ ص ۴۹۸ و ص ۵۴۱۔
(۴) استفتاء عربی۔ ص ۷۷۔
(۵) لجۃ النور ــ۔ ص۶ تا ۱۱۔
(۶) تریاق القلوب بار اول۔ ص ۳۵ حاشیہ و ص ۶۴ و ضمیمہ نمبر ۳ منسلکہ کتاب مذکور۔
(۷) کشف الغطاء ـص ۲ تا ۷۔
(۸) شہادت القرآن بار دوم۔ ص ۸۴ تا ۸۸۔
(۹)تحفہ قیصریہ۔ ص ۴ و ص ۱۸، ۱۹۔
(۱۰) ستارہ قیصرہ ۔ص ۳۔
(۱۱) اشتہار ۱۰۔ دسمبر ۱۸۹۴ء و اشتہار ۲۴۔ فروری ۱۸۹۸ء وغیرہ
{ 692} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے۔ یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں۔ تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’ مع اہل بیت‘‘ کے الفاظ بھی زائد کئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۹۷، ۱۸۹۶ء میں تیار کی تھی۔ اور اسے ضمیمہ انجامِ آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا۔ کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳، اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے۔
(دیکھو ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۰ تا۴۵)
{ 693} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ طاعون دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گی کہ یا تو یہ گناہ کو کھا جائے گی اور یا آدمیوں کو کھا جائے گی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ معنوی رنگ میں طاعون کے اندر وہ دوسرے عذاب بھی شامل ہیں جو خدا کی طرف سے اپنے مسیح کی تائید کے لئے نازل ہوئے یا آئندہ ہوں گے۔
{ 694} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک د فعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ بسا اوقات اگر کوئی شخص اس گورنمنٹ کے آگے سچ بولے تو وہ پکڑا جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے سامنے سچ بولے تو چھوٹ جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی دنیوی اور آسمانی حکومتوں میں یہ ایک بڑا لطیف فرق ہے اور یہ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ دنیوی حکومتیں بسا اوقات جھوٹ کو ترقی دینے والی بن جاتی ہیں حالانکہ آسمانی حکومت جھوٹ کو مٹاتی ہے۔
{ 695} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی کرم دین جہلمی کے مقدمہ کے دَوران میں لالہ آتما رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں بعض سوالات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کرم دین نے اپنے اپنے عقائد بیان کئے تھے۔ اس بیان کی مصدّقہ نقل میرے پاس موجود ہے۔ جس میں ایک نقشہ کی صُورت میں جوابات درج ہیں۔ یہ جوابات جو بعض اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ بصورت ذیل ہیں:۔
عقائد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
مستغیث (یعنی مولوی کرم دین) کا جواب
۱۔حضرت عیسٰے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔
۱۔ عیسٰے علیہ السلام زندہ ہیں۔
۲۔ حضرت عیسٰے علیہ السَّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتار لئے گئے تھے۔
۲۔ نہیں
۳۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان پر مع جسمِ عنصری نہیں گئے۔
۳۔ گئے
۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان سے نہیں اُترینگے اور نہ کسی قوم سے وہ لڑائی کریں گے۔
۴۔ آسمان سے اُتریں گے۔ اگر لڑائی کی ضرورت ہو گی تو لڑائی کریں گے۔ اگر امن کا زمانہ ہو گا تو نہیں کریں گے۔
۵۔ ایسا مہدی کوئی نہیں ہو گا جو دُنیا میں آ کر عیسائیوں اور دُوسرے مذاہب والوں سے جنگ کرے گا۔ اور غیر اسلام اقوام کو قتل کرکے اسلام کو غلبہ دے گا۔
۵۔ مہد ی علیہ السلام آئیں گے اور ایسے زمانہ میں آئیں گے جب بدامنی اور فساد دُنیا میں پھیلا ہو گا۔ فسادیوں کو مٹا کر امن قائم کریں گے۔
۶۔ اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام پھیلانے کیلئے لڑائی کرنا بالکل حرام ہے۔
۶۔ اس زمانہ میں برٹش انڈیا میں جہاد کرنا حرام ہے۔
۷۔ یہ بالکل غلط ہے کہ مسیح موعود آ کر صلیبوں کو توڑتا اور سؤروں کو مارتا پھرے گا۔
۷۔ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔
۸۔ مَیں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود اور امام زمان اور مجدّد وقت اور ظلی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔
۸۔ میں نہیں مانتا۔
۹۔ مسیح موعود اس امت کے تمام گذشتہ اولیاء سے افضل ہے۔
۹۔ مسیح موعود مرزا صاحب نہیں اور نہ وہ کسی سے افضل ہیں۔
۱۰۔ مسیح موعودمیں خدا نے تمام انبیاء کے صفات اور فضائل جمع کر دئیے ہیں۔
۱۰۔ مرزا صاحب نہ مسیح موعود ہیں۔ اور نہ ان میں اوصافِ نبوّت میں سے کوئی ہیں۔
۱۱۔ کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔
۱۱۔ بحث طلب ہے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے نہیں ہونا چاہئے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے ہو گا۔
۱۳۔ ا متِ محمدیہ کا مسیح اور اسرائیلی مسیح دو الگ الگ شخص ہیں اور مسیح محمدیؐ اسرائیلی مسیح سے افضل ہے۔
۱۳۔ مسیح ایک ہی ہے اور وہ اسرائیلی ہے۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے کوئی حقیقی مُردہ زندہ نہیں کیا۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے مُردے زندہ کئے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺکا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ نہیں ہوا۔
۱۵۔ آنحضرت کا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ ہوا۔
۱۶۔ خدا کی وحی آنحضرت ﷺ کے ساتھ منقطع نہیں ہوئی۔
۱۶۔ منقطع نہیں ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ عدالت کے ان سوالوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے جو جوابات دئیے ہیں۔ وہ سب کے سب اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ اور آپ کے جوابات سے نبوّت اور افضلیت بر مسیحِ ناصری وغیرہ کے مسائل بھی خوب واضح ہو جاتے ہیں۔
{ 696} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المؤمنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے۔ کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو۔ تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ مَیں نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا۔ کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکّر آ جایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔
{ 697} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔
{ 698} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں۔ نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔ عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔ جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔ تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔ اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ بسا اوقت ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔
{ 699} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی زمانہ میں حافظ معین عرف مانا حضرت صاحب کے پاس اکثر آیا کرتا تھا۔ مَیں جب حضرت صاحب کا کھانا لاتا۔ تو آپ اُسے رکھ لیتے اور فرماتے کہ حافظ مانا کے لئے بھی کھانا لائو۔ مَیں اس کے لئے عام لنگری کھانا (یعنی زمیندارہ کھانا) لاتا۔ جب وہ آ جاتا۔ تو آپ حافظ مانے کو فرماتے کھانا کھائو اور خود بھی اپنا کھانا شروع کر دیتے۔ آپ بہت آہستہ آہستہ اور بہت تھوڑا کھاتے تھے۔ جب معین الدین اپنا کھانا ختم کر لیتا۔ تو آپ پوچھتے کہ اور لو گے؟ جس پر وُہ کہتا۔ کہ جی، ہے تو دیدیں۔جس پر آپ اپنا کھانا جو قریباً اسی طرح پڑا ہوتا تھا۔ اُسے دیدیتے تھے۔ آپ چوتھائی روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ اور سالن دال بہت کم لگاتے تھے مگر اکثر اوقات سالن دال ملا لیا کرتے تھے۔ اس طرح مانا سب کچھ کھا جاتا تھا۔ ان ایام میں بالعموم سہ پہر کے بعد آپ مجھے ایک پیسہ دیتے کہ اس کے چنے بھُنوا لائو۔ مَیں بھُنوا لاتا۔ پھر تھوڑے سے دانے کھا کر پانی پی لیتے۔ اور ایک پیسہ کے دانے کئی دن تک کام آتے رہتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ معین الدین جو اب کئی سال ہوئے فوت ہو چکا ہے ایک نابینا شخص تھا۔ مگر نہایت مخلص شخص تھا حضرت صاحب کے پائوں دبایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی حضرت صاحب کو پنجابی شعر بھی سُنایا کرتا تھا۔ اور گو غریب تھا مگر چندہ بہت باقاعدہ دیتا تھا۔
{ 700} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کے ایّام میں آخری مرحلہ پر خوا جہ کمال الدین صاحب نے گورداسپور سے ایک خط حضرت صاحب کے نام دیا اور زبانی بھی کہا کہ یہ عرض کر دینا کہ حکام کی نیّت بد ہے۔ حضور دعا فرمائیں۔ مَیں وہ خط لے کر قادیان آ گیا۔ وہ خط حضور نے پڑھ لیا۔ مَیں نے زبانی بھی عرض کیا مگر حضورنے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر عرض کی۔ پھر جواب نہ ملا۔ پھر تیسری دفعہ عرض کرنے پر مسکرا کر فرمایا۔ کہ مَیں ایسے کاموں کے لئے دعا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص حالت اور خاص مقامِ محبت کی بات ہے۔ ورنہ آپ سے بڑھ کر دُعا کس نے کرنی ہے۔ دراصل آپ کا منشاء یہ تھا کہ مَیں خدا کے دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔ اگر اس خدمت میں مجھ پر کوئی ذاتی تکلیف وارد ہوتی ہے تو مَیں اس کے لئے دُعا نہیں کرونگا کیونکہ خدا خود دیکھ رہا ہے۔ وہ میری حفاظت فرمائے گا اور اگر اس کے منشاء کے ماتحت مجھ پر کوئی تکلیف ہی آنی ہے تو بے شک آئے مَیں اس کے برداشت کرنے میں راحت پائوں گا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 701} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۱ء کا ذکر ہے۔ جبکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گورداسپور میں فوجداری دعویٰ کیا ہوا تھا اور حضور خانصاحب علی محمد صاحب پنشنر کے مکان متصل مسجد حجاماں میں مقیم تھے۔ خاکسار اور میاں جمال الدین اور امام الدین و خیر الدین صاحبان ساکنان سیکھواں حضور کے ساتھ تھے۔ باقی دوست دوسری جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن حضور کو پیچش کی شکایت ہو گئی۔ بار بار قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ حضور نے ہمیں سوئے رہنے کے لئے فرمایا جب حضور رفع حاجت کے لئے اُٹھتے تو خاکسار اسی وقت اُٹھ کر پانی کا لوٹا لے کر حضور کے ساتھ جاتا۔ تمام رات ایسا ہی ہوتا رہا۔ ہر بار حضور یہی فرماتے کہ تم سوئے رہو۔ صبح کے وقت حضور نے مجلس میں بیٹھ کر ذکر فرمایا کہ مسیح کے حواریوں اور ہمارے دوستوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ ایک موقعہ مسیح پر تکلیف کا آتا ہے تو وہ اپنے حواریوں کو جگاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں جاگتے رہو اور دعائیں مانگو مگر وہ سو جاتے ہیں ۔ اور بار بار جگاتے ہیں مگر وہ پھر سو جاتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے دوستوں کو بار بار تاکید کرتے ہیں کہ سو رہو۔ لیکن وہ پھر بھی جاگتے ہیں۔ چنانچہ خاکسار کا نام لے کر فرمایا۔ کہ مَیں نہیں جانتا کہ میاں عبدالعزیز تمام رات سوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ میرے اٹھنے پر فوراً ہوشیاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور باوجود میرے بار بار تاکید کرنے کے کہ سوئے رہو اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح ناصری کا یہ قول سچا ہے اور ضرور سچّا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو ہر غیر متعصب شخص کو ماننا پڑے گا۔ کہ جو شیریں پھل حضرت مسیح موعود کی صحبت نے پیدا کیا ہے وہ حضرت مسیح ناصری کی صحبت ہر گز پیدا نہیں کر سکی۔ حضرت مسیح موعود کے انفاسِ قدسیہ نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ایسی جماعت پیدا کردی جو آپ کے لئے اپنی جان قربان کر دینے کو سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتی تھی اور آپ کی ذرا سی تکلیف پر اپنا ہر آرام و راحت قربان کر دینے کو تیار تھی۔مگر حضرت مسیح ناصری بارہ آدمیوں کی قلیل جماعت کو بھی سنبھال نہ سکے۔ اور ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر آپ کو پکڑوا دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے حفظ امن کا مقدمہ غالباً ۱۸۹۹ء کو ہوا تھا۔ اس لئے سنہ کے متعلق میاں عبدالعزیز صاحب کو غالباً سہو ہوا ہے۔
{ 702} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ گورداسپور میں جناب چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر احمدی تھے۔ ایک دن دوپہر کے قریب وہ میرے پاس موضع اوجلہ میں جو کہ میرا اصل گائوں ہے تشریف لائے اور مجھ کو علیحدہ کر کے کہا۔ کہ ابھی ایک تار محکمانہ طور پر امرتسر سے آیا ہے کہ جو وارنٹ مرزا صاحب کی نسبت جاری کیا گیا ہے اس کو فی الحال منسُوخ سمجھا جائے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ وارنٹ تو ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔ لیکن ہمارے اس ضلع میں سوائے حضرت صاحب کے مرزا صاحب اور کون ہو سکتا ہے۔ اس لئے آپ فوراً قادیان جا کر اس بات کی اطلاع حضرت صاحب کو دے آئیں۔ چنانچہ مَیں اسی وقت قادیان کی طرف روانہ ہوا۔ قادیان اوجلہ سے کوئی ۱۷ میل کے فاصلہ پر ہے۔ مَیں سیکھواں سے ہوتا ہوا شام کو یا صبح کو قادیان پہنچا اور حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی۔ لیکن حضرت صاحب نے اس وقت کوئی توجہ نہ فرمائی۔ عصر کے بعد حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم امرتسر سے آئے اور انہوں نے بھی حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ کسی پادری نے حضور پر امرت سر میں دعویٰ دائر کیا ہے۔ جس کی خبر کسی طرح سے انہیں مل گئی ہے۔ اس بات کو سُن کر حضرت اقدس نے فوراً مجھے بلوایا اور فرمایا کہ آپ کی بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ فوراً گورداسپور جا کر چودھری رستم علی صاحب سے مفصل حالات دریافت کرکے لائو۔ میاں خیر الدین سیکھوانی بھی اس وقت قادیان میں تھے۔ مَیں نے ان کو ساتھ لیا۔ اور ہم دونوں اسی روز شام کو گورداسپور پہنچ گئے۔ چودھری رستم علی صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو اس وقت تک اس سے زیادہ علم نہیں ہو سکا۔ آپ فوراً امرت سر چلے جائیں اور وہاں کے کورٹ انسپکٹر سے جس کا نام پنڈت ہرچرنداس تھا۔ میرا نام لے کر معاملہ دریافت کریں۔ چودھری صاحب نے مجھے ریلوے پولیس کے ایک کنسٹیبل کے ہمراہ کر دیا۔ جو مجھے رات اپنے پاس رکھ کر اگلے دن صبح پنڈت صاحب کے مکان پر لے گیا۔ پنڈت صاحب نے مجھے کہا کہ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے مجھے بلوا کر یہ دریافت کیا تھا کہ اگر مستغیث امرت سر کا رہنے والا ہو اور ملزم ہوشیارپور کا تو کیا دعویٰ امرت سر میں کیا جا سکتا ہے۔ اور میں نے جواب دیا تھا۔ کہ اگروقوعہ بھی ہوشیار پور کا ہے تو دعویٰ بھی وہیں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہر دو صاحب میرے ساتھ اس امر میں بحث بھی کرتے رہے۔ پنڈت صاحب نے نائب کورٹ کو بھی بلا کر دریافت کیا لیکن اس نے بھی کوئی اطلاع نہ دی۔ مَیں اتنی خبر لے کر گورداسپور آیا اور چودھری رستم علی صاحب کو بتایا۔ انہوں نے کہا۔ کہ حضرت اقدس کی خدمت میں اسی طرح جا کر عرض کر دو۔ چنانچہ مَیں اور میاں خیر الدین صاحب اسی وقت قادیان آئے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا۔
جب ہم قادیان کے لئے چل پڑے۔ تو اسی روز امرت سر سے حکم آیا کہ مارٹن کلارک نے جو استغاثہ زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری امرت سر میں دائر کیا ہے اور جس کا وارنٹ پہلے بھیجا جا چکا ہے۔ جس وارنٹ کے روکنے کے لئے تار بھی دی گئی تھی۔ وہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ گورداسپور سے اسی روز حضرت صاحب کو نوٹس جاری کر دیا گیا کہ اگلے روز ڈپٹی کمشنر کا مقام بٹالہ میں ہو گا اور وہیں آپ پیش ہوں۔ چودھری رستم علی صاحب نے اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے موضع اوجلہ میں آ کر منشی عبدالغنی صاحب نقل نویس گورداسپور کو جو میرے چھوٹے بھائی ہیں اور اُس وقت سکول میں تعلیم پا رہے تھے۔ ایک خط اس مضمون کا لکھوا کر دیا۔ کہ کل بٹالہ میں حضور کی پیشی ہے۔ اس کا انتظام کر لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ مولوی رسول بخش کی طرح موقعہ دیا جائے۔ (ایک شخص مولوی رسول بخش پر ان دنوں میں ایک فوجداری مقدمہ بنایا گیا تھا۔ جس میں اُسے مہلت نہ دی گئی تھی اور فوراً زیر حراست لے لیا گیا تھا) یہ خط چودھری صاحب نے میرے بھائی سے لکھوا کر میرے ایک ملازم مسمی عظیم کے ہاتھ قادیان روانہ کر دیا۔ مَیں اس ملازم کو قادیان میں دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ وہ اتنی جلدی کیوں کر پہنچ گیا ہے۔ اس نے مجھے وہ خط دیا۔ مَیں نے اس کی اطلاع اندر حضور کو بھیجی۔ حضور اسی وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے اور مجھے خط پڑھ کر سُنانے کا حکم دیا۔ مَیں نے سُنایا۔ حضور نے فرمایا۔ اسی وقت تم گورداسپور چلے جائو اور چودھری صاحب سے مل کر شیخ علی احمد وکیل کو لے کر کل صبح بٹالہ پہنچ جائو۔ اسی وقت حضرت صاحب نے مرزا ایوب بیگ صاحب کو لاہور روانہ فرمایا کہ وہ وہاں سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک وکیل کو لے کر کل بٹالہ پہنچ جائیں۔ خاکسار مع میاں خیر الدین صاحب اور اپنے ملازم میاں عظیم کے اسٹیشن چھینا کی طرف گورداسپور والی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہوا ۔بارش کی و جہ سے کیچڑ زیادہ تھا اور ہمارے پائوں سخت پھسلتے تھے۔ بار بار گرتے اور پھر اُٹھکر چلتے۔ خشیت کا اس وقت یہ حال تھا۔ کہ زار زار رو رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے۔ سیکھواں راستہ میں آتا تھا۔ وہاں پہنچ کر میر سانون کو جس کا گھر راستہ پر ہے میاں امام الدین و جمال الدین کو السلام علیکم دینے کے لئے بھیج کر خود اسی طرح سے آگے چل پڑے۔ ایک میل کے فاصلہ پر میاں امام الدین و جمال الدین صاحب بھی ہمیں مل گئے۔ باہم مشورہ کرکے میاں امام الدین کو گھر کی حفاظت کے لئے واپس بھیج دیا اور میاں جمال الدین صاحب ہمارے ساتھ ہوئے۔ ہم چاروں بمشکل افتاں و خیزاں گاڑی کے وقت چھینا پہنچے۔ شام کو گورداسپور پہنچ کر چودھری صاحب کو ملے اور حضرت کا پیغام سُنایا۔ شیخ علی احمد صاحب اس روز اپنے گائوں دھرم کوٹ رندھاوا میں گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک شخص کو روانہ کیا گیا۔ کہ شیخ صاحب کو کل لے کر بٹالہ پہنچ جانا۔ خاکسار اور چودھری صاحب رانا جلال الدین صاحب انسپکٹر پولیس گورداسپور کے پاس مشورہ کے لئے گئے۔ انہوں نے ہمیں تسلّی دلائی کہ اتنی زبردستی نہیں ہو گی اور ہمیں ضرور موقعہ دیا جائے گا۔ بہر حال اگلے روز صبح میاں خیر الدین ،جمال الدین اور خاکسار بٹالہ پہنچ گئے۔ شیخ علی احمد صاحب بھی پہنچ گئے۔ سرکاری طور پر حضور کو بٹالہ تشریف لانے کا ڈپٹی کمشنر کا نوٹس پہنچ گیا۔ لاہور سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیل آ گئے۔ اور دوسرے دوست بھی پہنچ گئے۔ مگر مقدمہ اس روز پیش ہو کر ملتوی ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ کے ابتدائی حالات یعنی اس مقدمہ کے مقدمات حضرت صاحب کی کسی کتاب میں درج نہیں تھے۔ سو الحمد للہ کہ اس روایت میں مل گئے ہیں۔ ہاں اصل مقدمہ کا ذکر حضور نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البریہ‘‘ میں مفصّل تحریر فرمایا ہے۔ بلکہ مقدمہ کی مسل بھی درج کر دی ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب وکیل جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ لاہور کے ایک غیر احمدی وکیل ہوتے تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ اور چوہدری رستم علی صاحب جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ ایک نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے اور سلسلہ کے لئے مالی قربانی میں نہایت ممتاز تھے۔ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
{ 703} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب زلزلہ کے بعد باغ میں تشریف رکھتے تھے۔ تو آپ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم کی وہ نظم لکھنی شروع کی۔ جس میں پروردگار۔ ثمار۔ کار۔ سنار وغیرہ قوافی آتے ہیں۔ آپ نے ہمیں فرمایا۔ کہ اس طرح کے قوافی جمع کرکے اور لکھ کر ہم کو دو کہ ہم ایک نظم لکھ رہے ہیں۔ اس پر مَیں نے اور حضرت میاں صاحب نے اور اَور لوگوں نے آپ کو بہت سے قافیے اس وزن کے لکھ کر پیش کئے۔ اور زبانی بھی عرض کئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس وقت میں نے بھی بعض قافیے سوچ کر عرض کئے تھے۔ اور حضرت میاں صاحب سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مراد ہیں۔ اور زلزلہ سے مراد ۱۹۰۵ء کا زلزلہ ہے جس کے بعد آپ کئی ماہ تک اپنے باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔ یہ وہی باغ ہے جس کے قریب بعد میں مقبرہ بہشتی قائم ہوا۔
{ 704} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا۔ کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹوں کے نام طیّب اور طاہر تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تاریخی روایتوں میں اس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ایک لڑکا عبداللہ تھا۔ اور اسی کے یہ دو زائد نام طاہر اور طیّب تھے۔ اور بعض طاہر اور طیب کو دو جُدا جُدا لڑکے قرار دیتے ہیں۔ اور اس روایت سے مؤخر الذکر روایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے دو اور بیٹے قاسم اور ابراہیم بھی تھے۔ مگر سب بچپن میں فوت ہو گئے۔
{ 705} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں اور عورتوں میں نصیحت اور وعظ کے دَوران میں حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کے ابتلائوں کے قصّے اکثر سُنایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا کہ نصیحت کے لئے گذشتہ انبیاء اور صلحاء کے حالات سُناتے تھے۔
{ 706} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آقا جو نوکر کو سزا دیتا ہے۔ یا خدا تعالیٰ جو بندہ پر گرفت کرتا ہے وہ بعض اوقات صرف ایک گناہ کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ مگر بہت سی سابقہ باتیں جمع ہو کر یہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور آپ اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک حکایت بھی بیان کیا کرتے تھے۔ کہ ایک دفعہ مہارا جہ شیر سنگھ نے اپنے ایک باورچی کو کھانے میں نمک زیادہ ڈالنے کی سزا میں حکم دیا کہ اس کی سب جائیداد ضبط کرکے اسے قید خانہ میں ڈال دیا جائے۔ اس پر کسی اہلکار نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ مہاراج اتنی سی بات پر یہ سزا بہت سخت ہے۔ را جہ کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے۔ یہ صرف نمک کی سزا نہیں۔ اس کم بخت نے میرا سوبکرا ہضم کیا ہے۔
{ 707} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعائوں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔ جس کا یہ مصرع ہے۔ ؎
’’ اے خدا! اے چارۂ آزارِ ما!‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو رُوحانیت سے پُر ہے۔ مگر معروف مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں صرف مسنون دعائیں بِالْجَہر پڑھنی چاہئیں۔ باقی دل میں پڑھنی چاہئیں پس اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت صاحب نے اس وقت خاص کیفیّت کے رنگ میں اس پر اعتراض نہیں فرمایا ہو گا۔ اور چونکہ ویسے بھی یہ واقعہ صرف ایک منفرد واقعہ ہے اس لئے میری رائے میں حضرت صاحب کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہو گا۔ کہ لوگ اس طرح کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت صاحب نے اس وقت سکوت اختیار کرکے بعد میں پِیر صاحب کو علیٰحدہ طور پر سمجھا دیا ہو۔ کہ یہ مناسب نہیں۔ کیونکہ پِیر صاحب کی طرف سے اس کی تکرار ثابت نہیں۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 708} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا تھا۔ یہ خط حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ کے نام تھا۔ مگر خط کا مضمون شیخ فتح محمد صاحب کے متعلق تھا اور لفافہ پر حضرت خلیفہ اوّلؓ کا جمّوں والا پتہ درج تھا۔
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فتح محمد حصولِ بشارت کے لئے دو رکعت نماز وقت عشاء پڑھ کر اکتالیس دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے اوّل اور آخر گیارہ گیارہ دفعہ درود شریف پڑھے اور مقصد کے لئے دُعا کرکے رُو بقبلہ باوضو سورہے۔ جس دن سے شروع کریں۔ اسی دن تک اس کو ختم کریں۔ انشاء اللہ العزیز وہ امر جس میں خیر اور برکت ہے ،حالتِ منام میں ظاہر ہو گا۔ والسَّلام
خاکسار غلام احمد ۹؍ مارچ ۱۸۹۰ء
اس خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا۔ کہ:۔
بباعث ضعف و علالت فتح محمد کی طرف خط نہیں لکھا گیا۔
{ 709} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرئوف صاحب مہاجر متوطن بھیرہ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب صبح کے وقت سیر کو باہر تشریف لے گئے۔ تو اس وقت مسجد اقصٰے کے پاس ہی مَیں نے جنوں کے متعلق عرض کیا۔ کہ ’’ قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌمِّنَ الْجِنِّ ‘‘(الجنّ:۲) میں کیا واقعہ میں جن ہی تھے یا کوئی اور قوم مراد ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ یہ ایک پہاڑی قوم تھی۔ جو عمالقہ نام سے مشہور تھی۔ باقی ہم جنّات کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اگر جنّات کا انکار کیا جائے تو پھر روح کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ رُوح بھی نظر نہیں آتی۔ اس طرح فرشتوں اور خدا کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیوںکہ یہ بھی نظر نہیں آتے۔ ماسٹر عبدالرئوف صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء کا ہے۔
{ 710} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرئوف صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری سفر میں لاہور جانے لگے تو اس وقت بھائی شیر محمد صاحب کی دکان (متصل مدرسہ احمدیہ) کے پاس ایک الہام اپنی موت کے متعلق سُنایا۔ جو سارا یاد نہیں۔ مفہوم اس کا یہ تھا۔ ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ ‘‘ گویا کوچ کا وقت ہے۔ مگر مَیں نے یہ سمجھا۔ کہ اس الہام میں حضور کی قرب موت کی طرف تو اشارہ ہے مگر وقت ایسا قریب نہیں اور ابھی کچھ عمر باقی ہے۔ اس وقت اور لوگ بھی ہمراہ تھے۔ آخر کار حضور لاہور جا کر بیمار ہو گئے اور دستوں کی بیماری سے آخر مئی ۱۹۰۸ء میں اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ـ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ماسٹر عبدالرئوف صاحب کو مغالطہ ہوا ہے جو الہام حضرت صاحب کو لاہور جاتے ہوئے ہوا تھا وہ ’’ مباش ایمن از بازیٔ روزگار‘‘۔ تھا۔ ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ‘‘ کا الہام بعد کا ہے۔ جو لاہور میں ہوا تھا۔
{ 711} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک رنگون کا تاجر ابو سعید عربی حضرت صاحب سے ملنے آیا تھا۔ اور اکثر سوالات کیا کرتا تھا۔ اور آنحضرت جوابات دیا کرتے تھے۔ وہ کہتا تھا۔ کہ مَیں دہلی دربار کی غرض سے آیا تھا۔ مگر اب تو وہاں جانے کو دل نہیں کرتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ابو سعید صاحب دراصل عرب نہیں تھے مگر بعض عربی ممالک میں رہ چکنے کی و جہ سے عرب کہلاتے تھے۔
{ 712} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ میں نے مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا ہے۔ جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا۔ اور یہ خط خود شیخ فتح محمد صاحب کے نام تھا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مہربانی نامہ پہنچا۔ آپ کے تردّدات بہت طول پذیر ہو گئے ہیں۔ خداتعالیٰ رہائی بخشے شاید ایک ہفتہ ہوا مَیں نے آپ کو خواب میں دیکھا۔ گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ کہ مَیں کیا کروں۔ تو مَیں نے آپ کو یہ کہا ہے۔ خدا سے ڈر اور جو چاہے کر۔ سو آپ تقویٰ اختیار کریں۔ اللّٰہ جلّ شانُہٗ آپ کوئی راہ پیدا کر دے گا۔
خاکسار غلام احمد
از لودیانہ محلہ اقبال گنج ۱۸؍مارچ ۹۱ء
خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا:۔
از طرف عاجز حامد علی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ الہامی الفاظ جس روز آپ کا خط آیا۔ اسی روز معلوم ہوئے تھے۔
{ 713} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کے لئے جب کوئی شخص تحفہ لاتا۔ تو آپ بہت شکر گزار ہوتے تھے۔ اور گھر میں بھی اس کے اخلاص کے متعلق ذکر فرمایا کرتے اور اظہار کیا کرتے تھے۔ کہ فلاں شخص نے یہ چیز بھیجی ہے۔
{ 714} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض لوگوں کا قاعدہ تھا۔ کہ اپنی کسی ضرورت یا مصیبت کے ایام میں ہر روز دُعا کے لئے خط لکھا کرتے تھے۔ جب متواتر بلاناغہ مدّت تک ایسے خطوط کسی شخص کی طرف سے موصول ہوتے رہتے تو حضور فرمایا کرتے تھے۔ کہ اب تو ہم کو بھی اس کے لئے خاص خیال پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ اسی طرح ایک دفعہ منشی محبوب عالم صاحب لاہوری تاجر بائیسکل نے اپنے کسی مطلب کے لئے روزانہ کارڈ لکھنا شروع کر دیا۔ آخر ایک دن پڑھتے پڑھتے حضور فرمانے لگے کہ میاں محبوب عالم تو اب ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے۔ اب ہم بھی ان کے لئے خاص طور پر دعا کریں گے۔ چنانچہ دعا کی اور ان کا کام جو اپنے نکاح کے متعلق تھا بخیر و خوبی پورا ہو گیا۔
{ 715} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید جب قادیان سے رخصت ہو کر واپس وطن جانے لگے۔ تو حضرت صاحب بمعہ ایک گروہ کثیر مہمانان کے ان کو الوداع کہنے کے لئے دُور تک بٹالہ کی سڑک پر تشریف لے گئے۔ آخر جب مولوی صاحب شہید رخصت ہونے لگے۔ تو سڑک پر ہی حضرت صاحب کے قدموں پر گِر پڑے۔ اور جدائی کے غم کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں اور زار زار رونے لگے۔ حضرت صاحب نے ان کو بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور تسلّی دی اور رخصت کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر ۲۶۰ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے۔
{ 716} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیردین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرا ایک لڑکا شیر خوارگی میں فوت ہو گیا۔اس کے بعد جب مَیں قادیان آیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں شام کے قریب ٹہل رہے تھے۔ میرے السلام علیکم عرض کرنے پر فرمایا کہ تمہارا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ درخت کا پھل سب کا سب قائم نہیں رہا کرتا۔ بلکہ کچھ گِر بھی جایا کرتا ہے مگر اس سے بھی اتنا ثابت ہو جاتا ہے کہ درخت بے ثمر نہیں ہے۔ اور آئندہ کے لئے امید پیدا ہوتی ہے۔
{ 717} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں۔ یہ خطوط افسران سرکار انگلشیہ کی طرف سے ہمارے آباو اجداد کے نام ہیں۔ اور اصل کاغذات میرے پاس محفوظ ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات ان کے علاوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتب میں شائع فرما چکے ہیں۔ اور جو خود خاکسار بھی سیرۃ المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۳۳ میں درج کر چکا ہے۔
(۱)
مرزا صاحب مشفقی مہربان دوستان مرزا غلام مرتضیٰ خاں صاحب رئیس قادیان
بصد شوق ملاقات واضح ہو۔ کہ پچاس گھوڑے مع سواران زیر افسری مرزا غلام قادربرائے امداد سرکار و سرکوبی مفسدان مرسلہ آں مشفق ملاحظہ حضور سے گذرے۔ ہم اس ضروری امداد کا شکریہ ادا کرکے وعدہ کرتے ہیں۔ کہ سرکار انگریزی آپ کی اس وفاداری اور جاں نثاری کو ہرگز فراموش نہ کرے گی۔ آں مشفق اس مراسلہ کو بمراد اظہار خدماتِ سرکار اپنے پاس رکھیں۔ تاکہ آئندہ افسران انگریزی کو آپ کے خاندان کی خدمات کا لحاظ رہے۔ فقط
الراقم (مسڑ) جیمس نسبٹ (صاحب بہادر) ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
دستخط بحروف انگریزی۵۷ء مقام گورداسپور
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد ماجد تھے۔ جنہوں نے ۱۸۵۷ء کے غدر کے موقعہ پر اپنی گرہ سے پچاس گھوڑے اور ان کا سارا ساز و سامان مہیّا کر کے اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے تیار کرکے سرکار کی امداد کے لئے پیش کئے تھے۔
(۲)
از پیش گاہ (مسٹر) جیمس نسبٹ (صاحب بہادر) ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
دستخط بحروف انگریزی مہر دفتر ڈپٹی کمشنر گورداسپور
عزیز القدر مرزا غلام قادر ولد مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان
بمقابلہ باغیان نا عاقبت اندیش ۵۷ء آں عزیز القدر نے بمقام میر تھل اور ترموں گھاٹ جو شجاعت اور وفاداری سرکار انگریزی کی طرف سے ہو کر ظاہر کی ہے۔ اس سے ہم اور افسرانِ ملٹری بدل خوش ہیں۔ ضلع گورداسپور کے رئیسوں میں سے اس موقعہ پر آپ کے خاندان نے سب سے بڑھکر وفاداری ظاہر کی ہے۔ آپ کے خاندان کی وفاداری کا سرکار انگریزی کے افسران کو ہمیشہ مشکوری کے ساتھ خیال رہے گا۔ بہ جلدوئے اس وفاداری کے ہم اپنی طرف سے آں عزیز القدر کو یہ سند بطور خوشنودی عطا فرماتے ہیں۔
المرقوم یکم اگست ۵۷ء
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام قادر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے جو حضرت صاحب سے چند سال بڑے تھے اور ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے۔
(۳)
دستخط بحروف انگریزی جنرل نکلسن بہادر
تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام قادر خلف مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان۔
چونکہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے بمقابلہ باغیانِ بداندیش و مفسدان بدخواہ سرکار انگریزی غدر ۱۸۵۷ء میں بمقام ترموں گھاٹ و میر تھل وغیرہ نہایت دلدہی اور جاں نثاری سے مدد دی ہے۔ اور اپنے آپ کو سرکار انگریزی کا پورا وفادار ثابت کیا ہے۔ اور اپنے طور پر پچاس سوار معہ گھوڑوں کے بھی سرکار کی مدد اور مفسدوں کی سرکوبی کے واسطے امداداً دئیے ہیں۔ اس واسطے حضور ایں جناب کی طرف سے بنظر آپ کی وفاداری اور بہادری کے پروانہ ہذا سنداً آپ کو دے کر لکھا جاتا ہے کہ اس کو اپنے پاس رکھو۔ سرکار انگریزی اور اس کے افسران کو ہمیشہ آپ کی خدمات اور ان حقوق اور جاں نثاری پر جو آپ نے سرکار انگریزی کے واسطے ظاہر کئے ہیں۔ احسن طور پر توجہ اور خیال رہے گا۔ اور ہم بھی بعد سرکوبی و انتشار مفسدان آپ کے خاندان کی بہتری کے واسطے کوشش کریں گے۔ اور ہم نے مسٹر نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو بھی آپ کی خدمات کی طرف توجہ دلا دی ہے۔ فقط
المرقوم اگست ۱۸۵۷ئ
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس خط کے ایک ماہ بعد یعنی ماہ ستمبر ۱۸۵۷ء میں جنرل نکلسن بہادر دہلی کی فتح میں مارے گئے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات مجھے جس صورت میں ملی ہیں۔ میں نے اسی صورت میں درج کر دی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس قسم کے خطوط یا سندات فارسی یا اردو میں لکھے جاتے تھے۔ اور ممکن ہے کہ کوئی انگریزی نقل دفتر میں رہتی ہو۔ اور اصل بھجوا دیا جاتا ہو۔ واللّٰہ اعلم
{ 718} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھیں والے کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے۔ اور مَیں بھی وزیرآباد سے سیدھا گورداسپور پہنچا۔ صبح کی نماز پڑھکر حضرت لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں دبانے لگ گیا۔ میرے دبانے پر حضرت صاحب نے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور مصافحہ کے لئے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔مصافحہ کرکے فرمایا۔ حافظ صاحب آپ اچھے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا۔ کہ حضور مجھے پہچانتے ہیں۔ فرمایا۔ ’’ حافظ صاحب کیا مَیں آپ کو بھی نہیں پہچانتا؟‘‘۔ یہ پاک الفاظ آج تک میرے سینے میں محبت کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جب یاد آتے ہیں تو سینے کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ اتفاقاً اس دن جمعہ تھا۔ چوہدری حاکم علی صاحب نے عرض کیا۔ کہ حضور نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ کہ حافظ صاحب جو ہیں یہ جمعہ پڑھائیں گے۔ یہ فقرہ سُن کر میں اندر ہی اندر گھبرایا کہ مَیں اس مامور الٰہی کے آگے کس طرح کھڑا ہوں گا۔ مَیں تو گنہگار ہوں۔ الغرض جب جمعہ کا وقت آیا تو مَیں جماعت کے ایک طرف آنکھ بچا کر بیٹھ گیا۔ کہ کوئی اور جمعہ پڑھا دے گا۔ مگر جب اذان ہوئی۔ تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کہاں ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کی۔ حضور میری جرأت حضور کے آگے کھڑا ہونے کی نہیں۔ فرمایا نہیں آپ کھڑے ہو جائیں اور خطبہ پڑھیں۔ آپ کے لئے مَیں دعا کرونگا۔ آخر تعمیل حکم کے لئے ڈرتا ڈرتا کھڑا ہو گیا۔ خدا واحد لاشریک جانتا ہے کہ جب مَیں کھڑا ہو گیا تو اللہ نے ایسی جرأت پیدا کر دی اور ایسا شرح صدر ہو گیا کہ مَیں نے بے دھڑک خطبہ پڑھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کے یہ حضور کی دعا کی برکت تھی۔ اس کے بعد آج تک مَیں اپنے اندر اس دُعا کا اثر دیکھتا ہوں۔
{ 719} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد حسین خانصاحب ٹیلر ماسٹر ساکن گوجرانوالہ حال قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ تقریباً ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو ملا اور عرض کی کہ مَیں حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے آیا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی حضرت مولوی صاحب کے مطب میں بیٹھے گذری تھی کہ کسی نے اطلاع دی کہ حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور لا کر مسجد مبارک کے محراب میں حضور کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ اور حضور سے کہا۔ کہ یہ ڈاکٹر حسن علی صاحب کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ اور حضور سے ملاقات کے لئے آئے ہیں۔ حضور میری طرف متوجہ ہوئے اور بات چیت شروع کر دی۔ مَیں نے اپنے بچپن سے لے کر اس وقت تک تمام حالات سُنا دئیے۔ اثنائے گفتگو میں حضور نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ اور فرمایا۔ کہ آپ کی آنکھیں خراب ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ کہ بچپن سے ہی میری آنکھیں خراب چلی آتی ہیں۔ والد صاحب بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ بہت تکالیف برداشت کرتا رہا۔ استادوں کی بھی خدمت کی۔ ایک مرتبہ مَیں کوہ مری گیا تھا۔ تو کچھ آرام آ گیا تھا۔ پھر اس کے بعد دوبارہ آنکھیں خراب ہو گئیں۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کا کام کوہ مری اچھا چل سکتا ہے۔ آپ وہیں چلے جائیں۔ مَیں نے عرض کی۔ کہ اب مَیں سکھر میں رہتا ہوں۔ سکھر اور کوہ مری میں تقریباً پانچ چھ سو کوس کا فاصلہ ہے۔ ایک کاروباری آدمی کے لئے جگہ تبدیل کرنا سخت مشکل ہے۔ تو حضور نے فرمایا۔ کہ خدا تمہیں شفا دے گا۔ اور اس کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ وہیں مسجد میں بیٹھے بیٹھے ہی میری آنکھیں بالکل صاف ہو کر ٹھیک ہو گئیں۔ اب میری عمر ۵۶ یا ۵۷ سال کی ہے۔ اب تک مجھے عینک کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ پھر مَیں نے عرض کیا۔ کہ میرا چھوٹا بھائی بہت متعصب ہے۔ اور مَیں چاہتا ہوں۔ کہ وہ بھی احمدی ہو جائے۔ حضوردعا فرمائیں۔ حضور نے جواب میں فرمایا۔ کہ آپ کے ارادے بہت نیک ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا کرے گا۔
اس وقت میرے بھائی کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ ان کے پاس اخبار بدر گیا تو ان کے دوست مولوی محبوب عالم صاحب ان کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے کہا۔ بابو صاحب ذرا اخبار تو دکھائیں۔ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ اخبار نہیں پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ قادیان کا اخبار ہے اور اس کے دیکھنے سے آدمی پر ایک قسم کا جادو ہو جاتا ہے۔ مولوی محبوب عالم صاحب نے کہا۔ کہ مرزا صاحب تو قادیان میں بیٹھے ہیں۔ کیا ہمیں زبردستی بازو سے پکڑکر لے جائیں گے اور انہوں نے زبردستی اخبار لے لیا۔ جب پڑھا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر تھا۔ اور ساتھ ہی قرآن مجید کی آیات سے استدلال کیا ہوا تھا۔ تو ان پر فوراً ہی جادو کا سا اثر ہو گیا۔ غیر احمدی علماء کو بلایا اور ان سے گفتگو کی۔ وہ خود بھی عالم تھے۔ مگر کچھ فیـصلہ نہ ہو سکا۔مگر مجھے تار دے کر گوجرانوالہ سے بُلایا۔ جب مَیں وہاں پہنچا۔ تو مَیں نے دیکھا کہ رات کے گیارہ بجے وہ دعا میں مشغول ہیں۔ میرے جاتے ہی انہوں نے توفّی کا مسئلہ پیش کیا اور میں نے اس کا جواب دیا۔ مَیں نے کہا۔ کہ جس لفظ کی علماء کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ وہ کسی جاہل سے پوچھ لینا چاہئے گائوں کا پٹواری اور چوکیدار اور تھانے کا منشی عموماً جاہل ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہئے۔ کہ وہ جو روزمرہ متوفّی وغیرہ لکھتے ہیں۔ تو کیا ان کا مطلب مرنے والے کے متعلق یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ آسمان پر چڑھ گیا یا یہ کہ مرکر زمین میں دفن ہوا۔ جب متوفّی سے مراد آپ مرا ہوا شخص سمجھتے ہیں تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس سے زمین میں دفن ہونا مراد نہیں۔ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ بھائی ہمیں تو مرزا صاحب کے پاس قادیان لے چلو۔ اور بیعت کرا دو۔ اس پر مَیں اپنے بھائی اور مولوی صاحب موصوف اور تین اور دوستوں کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پاس حاضر ہوا۔ اور ان سب کی بیعت کرا دی۔ اور دعا کے لئے خدمت اقدس میں عرض کیا۔
پھر بعد میں جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو ایک پٹھان نے حضرت مولوی نور الدینؓ صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ متواتر چھ ماہ میں نے آپ سے نقرس کا علاج کروایا ہے۔ مگر کچھ بھی آرام نہیں آیا۔ مگر آج یہ واقعہ ہوا۔ کہ جب حضور کھڑکی سے باہر نکلے۔ تو سب لوگ استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے مگر مَیں کچھ دیر سے اُٹھا۔ تو اتفاقاً حضور کا پائوں میرے پائوں پر پڑ گیا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا۔ کہ میری نقرس کی بیماری اچھی ہو گئی ہے۔ جب نماز کے بعد حضور اندر تشریف لے جانے لگے۔ تو مَیں نے عرض کیا۔ کہ حضور ہے تو بے ادبی کی بات۔ مگر آپ میرے پائوں پر پائوں رکھ کر چلے جائیں۔ حضور نے مری درخواست پر ایسا کر دیا۔ اور اب مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل صحت ہے۔ اس پر مولوی نور الدینؓ صاحب نے جواب میں فرمایا۔ کہ بھائی مَیں تو معمولی حکیم ہی ہوں۔ لیکن وہ تو خدا کے رسول ہیں۔ ان کے ساتھ مَیں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں مَیں نے تو معمولی دوا ہی دینا تھی۔
اس واقعہ کے گواہ مولوی محبوب عالم صاحب اور میرے بھائی بابو محمد رشید صاحب اسٹیشن ماسٹر اور مستری علم دین صاحب ہیں۔
{ 720} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں قادیان میں طاعون پڑی اور مرزا نظام الدین کے خاندان کے بہت سے افراد اس طاعون میں مبتلاء ہو کر فوت ہو گئے۔ تو مرزا نظام الدین حضرت خلیفہ اولؓ کے مکان پر آئے اور دروازہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر زار زار رونے لگے۔ جب حضرت مولوی صاحب نے ہمدردی کے رنگ میں اس کا سبب دریافت کیا تو مرزا صاحب نے اسی طرح روتے ہوئے کہا۔ مولوی صاحب! کیا ہماری مصیبت کا کوئی علاج نہیں؟ مَیں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی۔ مولوی صاحب کچھ وقت خاموش رہے اور پھر فرمایا۔ مرزا صاحب مَیں خدائی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہوں۔ پھر جو افراد بیمار تھے۔ ان کے علاج معالجہ کے لئے ہمدردانہ رنگ میں مشورہ دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے اور وہ اور ان کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب ساری عمر حضرت صاحب کے سخت مخالف رہے اور ہر طرح کی ایذا پہنچائی اور سلسلہ حقہ کو مٹانے کی ہر رنگ میں کوشش کی۔ جس کا ذکر گذشتہ روایتوں میں گذر چکا ہے۔ لیکن بالآخر جب مرزا نظام الدین صاحب کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب فوت ہو گئے اور خدا کے فضل سے جماعت نے بھی اتنی ترقی کر لی تو مرزا نظام الدین صاحب نے محسوس کر لیا کہ اب یہ ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ اور بعض دوسرے لحاظ سے بھی مرزا نظام الدین صاحب کمزور ہو گئے تو انہوں نے آخری وقت میں مخالفت کی شدّت کو ترک کر دیا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس روایت میں جس طاعون کا ذکر ہوا ہے، وہ ۱۹۱۰ء میں پڑی تھی۔ جس میں مرزا نظام الدین صاحب کے بہت سے اقرباء مبتلاء ہو کر فوت ہو گئے تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 721} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں۔ یہ خطوط شہنشاہان دہلی کی طرف سے ہمارے آبائو اجداد کے نام ہیں۔ اور اصل کاغذات میرے پاس محفوظ ہیں۔ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے اور ان کے نیچے مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کا ایک عالمانہ نوٹ بھی درج کیا جاتا ہے۔ جو مولوی صاحب مرحوم نے ان خطوط کو دیکھ کر لکھا تھا۔ مولوی صاحب مرحوم علمِ تاریخ اور فارسی زبان کے نہایت ماہر اور عالم تھے۔ ترجمہ بھی مولوی صاحب موصوف کا کیا ہوا ہے۔

زبدۃ الاماثل والاقران میرزا فیض محمد خاں مستمال بودہ بداند۔ کہ چوں دریں وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سُبحانی از وفاکیشی و خیر سگالی و جاں نثاری شما مسرور ومبتہج شدہ است ـ لہذا حکم جہاں مطاع عالم مطیع شرف صدورمی یا بدکہ آں اخلاص نشان را درسلک امرائے ہفت ہزاری منضبط کردہ وجا داداہ از خطاب عضد الدولۃ مفتخر و ممتاز فرمودہ می شود ـ باید کہ در موکب فیروزی کوکب خود را موجود و حاضر ساختہ مدام بوفا کیشی و خیر سگالی بندگان عرش آشیانی ساعی و مصروف می بودہ باشد۔ فقط
تحریر بتاریخ نوز دہم شہر شوال جلوس ۴ ؁
مہر مدوّر

ترجمہ
بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خاں شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظلِ سبحانی آپ کی وفاکیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہاں مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کرکے اور جگہ دے کر عضد الدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے۔ چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوں کی وفا کیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔
۱۹؍ ماہ شوال ۴ ؁ جلوس
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرزا فیض محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے دادا تھے اور خط کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے۔ کہ یہ خط ۱۷۱۶ء میں لکھا گیا تھا۔ کیونکہ فرخ سیر ۱۷۱۳ء میں تخت پر بیٹھا تھا اور یہ خط سنہ جلوس کے بعد چوتھے سال کا ہے۔
(۲)
منشور عہد محمد شاہ بادشاہ ہندوستان
اخلاص و عقیدت د ستگاہ میرزا گل محمد مستمال بودہ بدانند۔ دریں وقت سلالۃ النجباء فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ مفصّل حقیقت شما حالی گردانید باید کہ درہرباب خاطر جمع نمودہ درامکنہ خودہا آباد و مطمئن باشند و اینجانب را متوجۂ احوال خود انگاشتہ چگونگی را ارسال دارند بکار ہائے خود بکمال خاطر جمعی مشغول و سرگرم باشند وہرگاہ احدے از عازمان متوجۂ آں سر زمین خواہد شد برمضمون تعلیقچہ اطلاع یافتہ در بارہ آں اخلاص نشان غور واقعی بعمل خواہد آورد۔

ترجمہ
اخلاص و عقیدت دستگاہ میرزا گل محمد (شاہی) دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں۔ اس وقت برگزیدہ شرفا و نجبا فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ نے خود آپ کی بیان کردہ حقیقت کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ لازم ہے کہ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنی جگہ میں آباد اور مطمئن رہیں اور ایں جانب کو اپنے حالات کی جانب متوجہ سمجھ کر اپنے حالات کی کیفیت ارسال کرتے رہیں اور اپنے کار متعلقہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ مشغول اور سرگرم رہیں۔ جب کوئی کار پرداز اس سر زمین کی طرف متوجہ ہو گا۔ تو تعلیقہ (رپورٹ) کے مضمون پر اطلاع پا کر اس اخلاص نشان کے بارہ میں واقعی غور عمل میں لایا جائے گا۔
محررہ ۲۴؍ رجب ۱۱۶۱ ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے والد تھے۔ یہ وہی عالی مرتبہ بزرگ ہیں جن کے تقویٰ اور طہارت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البرّیہ‘‘ میں بڑے تعریفی رنگ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صاحب خوارق و کرامات تھے۔
(۳)
منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد بتوجہات خاطر عالی مستمال بودہ بداند کہ دریں وقت رایات عالی وزیر آباد را رشک فروردین واردی بہشت فرمودہ فضیلت و کمالات مآب سیادت و نجابت انتساب بطالہ حسن اخلاق اورا بعرض رسانید در ہر باب خاطر خود راجمعداشت نمودہ درجائیگاہ خودہاسکونت داشتہ باشد کہ انشاء اللّٰہ تعالیٰ در حِین ورود مسکن فیروزی مامن غور وپرداخت احوال آنہا۔ بواقعی خواہدشد درکمال اطمینان و دیانتداری وکلا ئے خود را روانہ درگاہ نمایند۔
۱۲۱۱ ہجری مہر کلاں جو دریدہ ہے
ترجمہ
نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد خان خاطر عالی کی توجہات سے دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں کہ اس وقت لشکر شاہی نے وزیر آباد کو فرور دین اور اردی بہشت کا رشک بنایا ہے۔ فضیلت و کمالات مآب بٹالہ کے رہنے والے نے آپ کا حسن اخلاص عرض کیا ہے۔ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنے گھر بار میں سکونت رکھیں۔ انشاء اللہ جس وقت مسکن فیروزی مامن میں ورود ہو گا۔ اس وقت آپ کے حالات کی واقعی غوروپرداخت کی جائے گی۔ کمال اطمینان کے ساتھ اپنے وکلاء درگاہ میں روانہ کریں۔
۱۲۱۱ ؁ ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط زیادہ دریدہ ہے۔ اور بعض حصوں کا بالکل پتہ نہیں چلتا۔
(۴)
منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
عالیجاہ رفیع جائیگاہ اخلاص و عقیدت د ستگاہ گل محمد خاں بسلامت باشد بعدہٗ آنکہ عریضہ کہ دریں وقت بخصوص چگونگی احوالات و روئیداد و اخلاص و خدمت گذاری خود وغیرہ مواد کہ قلمی وارسال داشتہ بود رسید حقائق آں واضح وحالی گردید۔ عریضہ مرسلہ ترقی خواہ را در نظر بہادراں حضور فیض گنجور خاقانی گذرانیدہ شد و درجواب رقم قدر تو ام مالک مطاع اشرف بسرافرازی آں عالیجاہ شرف اصدار یافتہ کہ بزیارت آں مشرف دار بعمل خواہد آورد در ہر باب خاطر جمعداشتہ و مستعد خواہش دیوانی بودہ نویساں حالات باشد۔
بتاریخ جمادی الثانی ۱۲۱۳ ہجری مہر بیضوی جو بہت مدھم ہے
ترجمہ
عالیجاہ بلند مرتبہ اخلاص اور عقیدت کے دستگاہ رکھنے والے۔ گل محمد خاں سلامت رہو۔ بعدہٗ وہ عریضہ کہ آپ نے اپنی چگونگی حالات اور روئیداد و اخلاص و خدمت گزاری وغیرہ مواد کے خصوص میں لکھا تھا۔ اس کی حقیقت واضح ہوئی۔ اس عالیجاہ کا عریضہ حضور فیض گنجور کے بہادروں کے سامنے پیش ہو گیا۔ اس کے جواب میں اس عالیجاہ کی سرفراز کی نسبت رقم قدر توام مالک و مطاع اشرف کا حکم صادر ہوا ہے۔ مشرف دار یعنی ناظر اعلیٰ اس کو عمل میں لائے گا۔ دیوانی ضرورتوں کے مستعد ہو کر اپنے حالات لکھتے رہیں۔
محررہ ماہ جمادی الثانی ۱۲۱۳ء ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط بھی کچھ دریدہ ہے اور بعض حصے اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔
(۵)
منشور عہد عالمگیر ثانی بادشاہ ہندوستان
عمدۃ الاماثل والا قران گل محمد خاں بدانند عریضہ کہ دریں وقت بخصوص احوالات و روئیداد خود قلمی وارسال داشتہ بود رسید چگونگی آں واضح شد۔ باید کہ خاطر خود را بہر باب جمعداشت و مطمئن خاطر بودہ مشغول امورات خود و احوالاتے کہ باشد ہمہ روزہ بعرض رسانند۔
بتاریخ شہر رجب ۱۲۱۶ہجری مہر
ترجمہ
برگزیدہ اکا برو معاصر گل محمد خاں معلوم کریں کہ اس وقت آپ کے عریضہ سے جس میں خصوصیت کے ساتھ آپ نے اپنی روئیداد اور حالات قلمبند کرکے بھیجا ہے، تمام کیفیت واضح ہوئی۔ چاہئے کہ آپ ہر بات میں مطمئن اور خاطر جمع ہو کر اپنے متعلقہ امور میں مشغول رہیں اور اپنے روزمرہ کے حالات لکھتے رہیں۔
محررہ ماہ رجب ۱۲۱۶ ہجری مہر
ان خطوط کے متعلق مولوی عبید اللہ صاحب بسمل نے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا ہے۔
بِسمِ اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلّے علیٰ رسُولہ الکریم
شہنشاہ ہند محمد فرخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربار اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوتی تھی۔ کہ ہشت ہزاری کا منصب و لیعہد اور خاندانِ شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا۔ اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گل گنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا۔ تو اس کوشش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اس وقت کا نامہ نگار نعمت خاں متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے۔
’’ دوششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘
اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے۔ کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا۔ جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ہفت ہزاری شوو ہرچہ خواہی بکن یعنے ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔
دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا۔ اور اسلامی دُنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا۔ جس کے چمکتے ہوئے فرمانروائوں کو استمالتِ قلوب کی و جہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ۔ احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔
ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک۔ عماد الملک۔ خان جہاں۔ خان دَوراں کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رئو ساء کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔
مغل ایمپائر کے زرّین عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھا۔ جس کو سرسیّد کے ارادت مند آج تک اُن کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔
سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیف قلوب باتباع شاہان مغلیہ والیان ٹونک کو امیرالدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔
اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب طاب اللہ ثراہ کے نام ہے جس میں انکو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیاہے۔ وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیان ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے۔ کیونکہ فرخ سیر شہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے۔علاوہ برایں عضد الدولہ کا وہ معزز خطاب ہے جو بنو عباس کے خلفاء کی جانب سے ایک ذی شوکت سلطان عضد الدولہ دیلمی کو ملا تھا۔ جس کے خاندان کی طرف حدیث کی مشہور کتاب ’’ دیلمی‘‘ منسوب ہے۔ اس نسبت سے بھی حضرت غفران مآب کا خطاب عضد الدولہ بمقابلہ دیگر رئوساء کے خطاباتِ اعتضاد الدولہ و احتشام الدولہ وشجاع الدولہ و آصف الدولہ و سراج الدولہ و وزیر الدولہ سے اشرف و اعلیٰ ہے۔
جہاں تک خاکسار کی نظر سے بعض بعض امراء و رئوساء پنجاب کے پُرانے کاغذات اور سلاطین مغلیہ کے مناشیر گذرے ہیں۔ کوئی منشور ایسا نہیں گذرا۔ جس میں اس درجہ کا خطاب کسی رئیس خاندان کو منجانب شاہانِ مغلیہ عطا ہوا ہو۔
تیسرا لفظ:۔ امور مذکورئہ صدر کے سوا اس منشور میں خصوصیت کے ساتھ ایک حرف صاد کا درج ہے۔ جو جلی قلم سے نہایت نظر فریب خوش خط روشن سیاہی کے ساتھ ثبت ہے یہ حرف شہنشاہ محمد فرخ سیر کے خاص قلم کا ہے۔ جو ان کی خوشنودی مزاج کی دلیل ہے۔ اور منشور کی شان کو دوبالا کر رہا ہے۔ کیونکہ شاہانِ مغلیہ جس منشور کو وقیع کرنا چاہتے تھے تو اس پر اپنے دستِ خاص سے صاد کر دیتے تھے نعمت خاں عالی اپنے وقائع میں اس حرف صاد کی نسبت لکھتا ہے ؎
سماد شش صاداست از کلک فرنگی بے سخن
یعنی چھٹا حرف صاد ہے جو بادشاہ اپنے ہاتھ سے مناشیر پر ثبت کرتا ہے۔
دوسرا منشور شا ہنشاہ ہندوستان محمد شاہ کا ہے جو جلالت مآب میرزا گل محمد صاحب اَنَارَ اللّٰہُ بُرْہَانَہٗ کی طرف ہے۔ اس پر ایک مہر کا نقش ہے۔ جس کے حروف یہ ہیں۔
’’باللہ محمود فی کل فعالہ محمدؐ‘‘
غالباًیہ نقش خاص شاہی ہاتھ کی انگوٹھی کی مُہر کا ہے اور نہایت خوشخط کندہ کیا ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ پھیکا لگا ہے جس کے حروف ماند پڑ گئے ہیں۔ خاکسار نے آئی گلاس منگوا کر نہایت دقت کے بعد پڑھا ہے۔
فرخ سیر ہندوستان کے عہد میں جبکہ دارالسلطنت کے نواح و اطراف کے رئوساء کی خود سری نے سلطنت کی باگ ڈور کو ڈھیلا کر رکھا تھا۔ باوجود یکہ قادیان دہلی سے بعید فاصلہ پر تھا اور آمدورفت کے وسائل بھی کم اور راستہ بھی طویل تھا۔ مگر غفران مآب نے سلطنت کی وفاداری کو اپنے خاندان کو آل تمغا سمجھ کر ارادتمندانہ عرائض سے اپنی نجابت کا ثبوت دیا۔ جن کے جواب میں فرخ سیر نے نہایت محبت آمیز الفاظ کے ساتھ اپنا منشور مع خطاب ارسال کیا۔
اس منشور اور اس کے بعد کے مناشیر میں بلند حوصلگی اور علوہمت ثابت کرنے والی یہ بات ہے۔ کہ غفران مآب نے تقویٰ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دربار دہلی میں جانا پسند نہ کیا۔ کیونکہ اس وقت کے دربار کا نقشہ متملق اور چاپلوس اور خوشامدی اراکین سے را جہ اندر کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ملاہی و مناہی اور ارباب نشاط ڈوم ڈھاریوں سے ہر وقت دربار پُر رہتا تھا۔ غفران مآب نے پنجاب میں رہ کر سلطنت کی وفاداری کا اظہار سرمایہ دیانت سمجھا۔ مگر جاہ طلبی کو دُور ہی سے دھکا دیا۔
العظمۃ للہ کیا ہی ہمت عالی تھی کہ شریعت غرّا کو مدّنظر رکھتے ہوئے دنیاوی اعزاز کی طرف قدم نہ اٹھایا۔ ورنہ اس وقت اگر دربار میں پہنچ جاتے تو شاہی عطیّات سے مالا مال ہو جاتے اور گرانمایہ جاگیر پاتے۔
فرخ سیر کے منشور کے بعد جب نہایت غور سے مغفرت انتساب میرزا گل محمد صاحب طاب اللہ ثراہ کے اسمی جس قدر مناشیر ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے۔ تو ایک اور ہی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہ شاہانِ دہلی کے دربار سے بار بار دعوتی مناشیر صادر ہوتے ہیں۔ دہلی تو دُور سہی وزیر آباد تو دروازے پر ہے۔ مگر وہ زُہد و ورع کا دلدادہ بادشاہ کو ملنے تک نہیں جاتا۔ اس پر وفاداری کا یہ حال ہے۔ کہ متواتر عرائض بھیجے جاتے ہیں۔ اور بھیجے بھی ایسے شخص کی وساطت سے جو دربار میں بھی نہایت متّقی اور پرہیز گار مانا جاتا تھا۔ جس کو خود محمد شاہ بادشاہ جیسا رنگیلا اور شاہ عالم ثانی فضیلت مآب کمالات دستگاہ سیادت و نجابت پناہ سید حیات اللہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ الغرض جہاں میرزا گل محمد صاحب کی کرامات ،زبان زد خلائق ہیں۔ یہ بات بھی کم نہیں۔ کہ آپ نہایت متقی اور پرہیز گار اور علم دوست انسان تھے۔
ان مناشیر میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ کہ غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب اور مغفرت نصاب میرزا گل محمد صاحب نے اظہار وفا کیشی کے عرائض بھیج کر اس کے معاوضہ میں جاگیر یا منصب یا خطاب کی استدعا نہیں کی۔ کیونکہ ان مناشیر میں شاہانِ دہلی نے نہیں لکھا کہ آپ کے طلب کرنے پر یا آپ کی استدعا پر یہ خطاب یا منصب عطا کیا جاتا ہے۔ بلکہ دربار دہلی نے اپنی خوشی اور خورسندی مزاج سے خطاب اور منصب دئیے ہیں۔ اور ان عرائض کو ایسے وقت میں نعمت غیر مترقبہ سمجھا ہے۔ جس وقت اکثر نمک خوار رئوساء جوانب و اطراف میں اطاعت سے سرکوبی کر رہے تھے۔
بالآخر بآداب عرض ہے۔ کہ اوّل تو ان سب مناشیر کا فوٹو لے لیا جاوے۔ ورنہ فرخ سیر کے منشور کا عکس تو ضرور لے لینا چاہئے۔ اس کے ساتھ انگریزی اور اردو ترجمے بھی ہوں۔ اگر الفضل میں اس کی کاپیاں چھاپ دی جائیں تو جماعت کے افراد اپنے امام علیہ السلام کے اسلاف کرام کے اعزاز اور مناصب اور علو ہمت پر واقفیت حاصل کرکے ایمان کو تازہ کرلیں۔ والسلام
خاکسار عبید اللہ بسمل احمدی قادیان ۲۴؍ جنوری ۱۹۳۵ء
{ 722} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقہ سے بہت کراہت کرتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات اس کے متعلق بعض لوگوں پر ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ مگر سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی جب تشریف لاتے تھے۔ تو ان کے لئے کہدیا تھا کہ وہ بے شک حقہ پی لیا کریں۔ کیونکہ سیٹھ صاحب معمر آدمی تھے اور پُرانی عادت تھی۔ یہ ڈر تھا کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔ نیز سیٹھ صاحب بیمار بھی رہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کو ذیابیطس بھی تھا اور کاربنکل بھی ہوا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے بڑے تاجر تھے اور نہایت مخلص تھے انہوں نے ۱۸۹۳ء کے آخر میں ہندوستان کے مشہور واعظ مولوی حسن علی صاحب مرحوم کے ساتھ حضرت صاحب کی بیعت کی تھی۔ مگر افسوس کہ آخری عمر میں ان کی تجارت بہت کمزور ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا۔ کہ
’’قادر ہے وہ بارگہ جو ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔کہ یہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا اور پھر نہ سنبھلا اور آج تک کوئی شخص یہ بھید نہ پا سکا کہ اس یکرنگ فدائی پر یہ دَور کس طرح آیا۔
{ 723} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبدالمحی عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زندگی میں ایک نکاح کیا تھا۔ مگر بعد رخصتانہ انہیں اپنی بیوی پسند نہ آئی۔ جس پر حضور کی خدمت میں عربی میں خط لکھا کہ میری بیوی میں یہ یہ جسمانی نقص ہیں جن کی و جہ سے مجھے اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ حضور نے ان کے رقعہ پر ہی یہ مختصر سا فقرہ لکھ کر واپس کر دیا۔
کہ ’’اِطْفَأِ السِّرَاجَ وَافْعَلْ مَاشِئْتَ‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ چراغ بجھا لیا کرو اور پھر جو جی میں آئے کیا کرو۔مطلب یہ تھا کہ جب شادی کر لی ہے تو اب بیوی کے بعض جسمانی نقصوںکی و جہ سے اس سے بے اعتنائی برتنا ٹھیک نہیں۔ اگر دیکھنے سے رغبت پیدا نہیں ہوتی۔ تو چراغ بجھا دیا کرو۔ تاکہ نظر کام کرنے سے رک جائے اور نقص اوجھل رہیں۔ اس طرح رغبت ہو جائے گی۔ مگر افسوس ہے کہ عرب صاحب اپنے دل پر غالب نہ آسکے اور بالآخر بیوی کو طلاق دیدی۔
{ 724} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں ایک پیٹنٹ مقوی دوا بھیجی کہ حضور بہت محنت کرتے ہیں اسے استعمال فرمائیں۔ حضرت صاحب نے ایک دن استعمال کی۔ تو اسی دن پیشاب کی تکلیف ہو گئی۔ اس کے بعد حضور نے وہ دوا استعمال نہ کی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حکیم صاحب مرحوم لاہور کے رہنے والے تھے۔ اور بہت مخلص تھے۔ حضرت صاحب اکثر ان کی معرفت لاہور سے سودا منگایا کرتے تھے۔
{ 725} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ اگر کبھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسم کی عام کمزوری کے دُور کرنے کا نسخہ پوچھتا۔ تو آپ زیادہ تر یخنی اور شیرہ بادام بتایا کرتے تھے۔ اور دوائوں میں ایسٹن سیرپ یعنی کچلہ کونین اور فولاد کا شربت بتایا کرتے تھے۔
{ 726} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اوائل میں مَیں حقہ بہت پیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ پاخانہ میں بھی حقہ ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ تب جا کر پاخانہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس جالندھر تشریف لائے۔ جماعت کپور تھلہ اور یہ خاکسار بھی حاضر خدمت ہوئے۔ وعظ کے دَوران میں حقہ کی بُرائی آ گئی۔ جس کی حضور نے بہت ہی مذمت کی۔ وعظ کے ختم ہونے کے بعد خاکسار نے عرض کی۔ کہ حضور مَیں تو زیادہ حقہ پینے کا عادی ہوں۔ مجھ سے وہ نہیں چھوٹ سکے گا۔ ہاں اگر حضور دعا فرمائیں۔ تو امید ہے کہ چھوٹ جائے۔ حضور نے فرمایا۔ آئو ابھی دعا کریں سو آپ نے دُعا فرمائی اور اثناء دُعا میں حاضرین آمین آمین کہتے رہے۔ حضور نے دیر تک خاکسار کیلئے دعا کی۔ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا۔ کہ حقہ میرے سامنے لایا گیا ہے۔ مَیں نے چاہا کہ ذرا حقہ پیوں۔ جب مَیں حقہ کو مُنہ سے لگانے لگا۔ تو حقہ کی نلی ایک سیاہ پھنیر سانپ بن گئی۔ اور یہ سانپ میرے سامنے اپنے پھن کو لہرانے لگا۔ میرے دل میں اس کی سخت دہشت طاری ہو گئی۔ مگر اسی حالتِ رئویا میں مَیں نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بعد میرے دل میں حقہ کی انتہائی نفرت پیدا ہو گئی۔ اور مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے حقہ چھوڑ دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میاں فیاض علی صاحب پُرانے صحابہ میں سے تھے۔ اب چند سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں۔
{ 727} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مَیں نے ۱۸۹۰ء میں قادیان مسجد مبارک میں بیعت کی تھی۔ مجھ سے پیشتر چند گنتی کے آدمی بیعت میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت میں سوائے اپنے اور جماعت کپور تھلہ کے کسی مہمان کو مسیح موعود علیہ السلام کے دسترخوان پر نہ دیکھتا تھا۔ حضرت اقدس دستِ مبارک سے زنانہ مکان سے کھانا لے آتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر تناول فرماتے تھے اور خاکسار سوائے شاذ و نادر کے ہمیشہ ہر ایک مباحثہ اور سفر میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہے۔
{ 728} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ خاکسار نے حضور اقدس علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے مولویوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ اس لئے حضور کچھ ارشاد فرماویں۔ آپ نے فرمایا۔ کہ جب کہیں گفتگو کا موقعہ ملے۔ تو دُعا کر لیا کرنا۔ اور یہ کہدیا کرنا کہ مَیں نے حق کو پہچانا اور قبول کر لیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے ۔ کہ یہ نصیحت بہت مختصر ہے مگر اس میں تاثیرات کا خزانہ مخفی ہے۔
{ 729} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے خاکسار کا ہاتھ پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ حضور یہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ کہ مَیں ان کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ یہ تو بہت دفعہ آئے ہیں۔
{ 730} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی۔ فرمایا۔ دُعا کرونگا۔ پھر دوسرے دن اسی طرح عرض کی۔ پھر تیسرے دن بھی عرض کی۔ اس پر فرمایا۔ کہ مولوی صاحب آپ تو اس طرح سے کہتے ہیں جیسے آپ کی عمر اسی سال کی ہو گئی ہے۔ آپ کے ہاں تو بیسیوں لڑکے ہو سکتے ہیں۔ سو الحمدللہ کہ اب مَیں صاحبِ اولاد ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اکثر فرمایا کرتے تھے۔ کہ مرد کو اولاد سے جلد مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی خاص نقص نہ ہو تو اسی نوے سال تک مرد کے اولاد ہو سکتی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 731} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد عبدالرحمن صاحب مسکین فرید آبادی (برادر اکبر ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی) نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۱ء میں ایک مرتبہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس مسجد مبارک میں تھی۔ میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی فرمائش پر حضرت صاحب کی خدمت میں وہ نظم پڑھی جو کہ مَیں نے صداقت مسیح موعود علیہ السَّلام کے بارہ میں لکھی تھی۔ جس کے دو اشعار نمونۃً درج ہیں۔
مثیلِ مسیح نے جو دعو یٰ پکارا
صلیبِ نصار یٰ کیا پارا پارا
غلامانِ احمد کو آیا فرارا
گروہ پادری بس ہوا ہارا ہارا
ان اشعار کو سُن کر حضرت اقدس بہت محظوظ ہوئے اور حضور علیہ السلام نے منہ پر رومال رکھ کر بمشکل ہنسی کو روکا۔ اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی عبدالکریم صاحب اور نواب محمد علی خانصاحب بھی بہت ہی ہنسے اور خوش ہوئے۔ اسی خوشی میں مجھ کو تین کتابیں (ایام الصلح۔ الوصیت۔ مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تصنیف کردہ احادیث مسیح موعود) بطور انعام عنایت فرمائیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتب کے نام کے متعلق میاں عبدالرحمن صاحب کو سہو ہوا ہے۔ کیونکہ الوصیّت تو لکھی ہی ۱۹۰۵ء میں گئی تھی۔ یا ممکن ہے سنہ کے متعلق سہو ہوا ہو۔ نیز روایت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انعام کس نے دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ یا نواب صاحب نے دیا ہو گا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میاں عبدالرحمن بیچارے شعر کے وزن و قوافی سے واقف نہیں تھے۔ اس لئے بعض اوقات ان حدود سے متجاوز ہو جاتے تھے۔ اور الفاظ بھی عجیب عجیب قسم کے لے آتے تھے (اس لئے مجلس میں ہنسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہو گی۔ مگر بہرحال بہت مخلص تھے۔ اسی غزل کا آخری شعر یہ تھا کہ:۔
نوابَین نے جب کہ مجھ کو پکارا گیا افراتفری میں مضموں ہمارا
اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میاں عبدالرحمن صاحب یہ غزل لکھ رہے تھے تو نواب صاحب کے دو صاحبزادوں نے انہیں کسی کام کے لئے پے در پے آواز دی۔ اور اس گھبراہٹ میں ان کا مضمون اور شعر دماغ میں منتشر ہو کر رہ گئے۔ میاں عبدالرحمن صاحب نواب صاحب کے ہاں نوکر تھے۔
{ 732} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۱ء یا۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں دارالامان میں موجود تھا۔ ان دنوں میں ایک نواب صاحب حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جن کے لئے ایک الگ مکان تھا۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے۔ جن میں سے ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا۔ اور عرض کیا۔ کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کا منشاء ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے چلیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔ کہ مَیں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد مبارک میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا۔ حضور نے فرمایا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے۔ لیکن مولوی صاحب کے وجود سے یہاں ہزاروں لوگوں کو ہر روز فیض پہنچتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں۔ ایک دنیاداری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔ اس دن جب عصر کے بعد حضرت مولوی صاحب درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی و جہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے۔ وہ یہ کہ میں ہر وقت اسی کوشش میں رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے میرے آقا نے میری نسبت ایسا خیال ظاہر کیا ہے۔ کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔
{ 733} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کابل کے مہاجرین پہلے پہل ہجرت کرکے قادیان آئے تو ظہر کی نماز کے وقت کھڑکی کے پاس مَیں نے اور پٹھانوں نے حضرت صاحب کے لئے کپڑا بچھا دیا۔ لیکن حضور دوسری کھڑکی سے تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے۔ مَیں نے عرض کیا۔ کہ حضور ہم نے تو دوسری کھڑکی کے پاس کپڑا بچھایا تھا۔ حضور نے فرمایا۔ کہ چلو وہاں ہی سہی۔ اور اُٹھ کر دوسری کھڑکی کے پاس تشریف فرما ہو گئے۔
{ 734} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کے وقت حضور تشریف رکھتے تھے۔ کپور تھلہ کے ایک دوست مہارا جہ کپور تھلہ کا حال سُنا رہے تھے۔ کہ سرکار آپ سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ حضور ان کو کوئی کتاب بھیجیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ہم سرکاروں کو نہیں بھیجا کرتے۔ بلکہ غریبوں کو بھیجا کرتے ہیں اگر غریب لوگ اس پر عمل کرینگے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو ہی سرکار بنا دے گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب نے بادشاہوں اور فرمانروائوں کے نام دعوتی مراسلات بھیجے ہیں۔ کیونکہ آخر اس طبقہ کا بھی حق ہے۔ مگر اس موقعہ پر آپ نے غالباً اس لئے استغناء ظاہر کیا ہو گا کہ تجویز پیش کرنے والے نے را جہ صاحب کی تبلیغ کو ایک بہت بڑی بات سمجھا ہو گا۔ اور خیال کیا ہو گا کہ را جہ صاحب مان لیں تو نہ معلوم پھر کیا ہو جائے گا۔ جس پر حضور نے استغناء کا اظہار کرکے غرباء کے طبقہ کو زیادہ قابل توجہ قرار دیا۔
{ 735} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص عبدالحق صاحب بی۔ اے جو لدھیانہ کے ایک مولوی کا بیٹا تھا اور عیسائی ہو گیا تھا، حضور کے پاس آیا۔ اس نے دل میں کچھ سوال سوچے کہ اگر ان کے جواب میرے پوچھنے کے بغیر دے دئیے گئے تو مَیں مان لونگا۔ سو اس وقت ایسا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس میں گفتگو شروع کرکے ان سوالوں کے جواب دے دئیے۔ اور وہ شخص مسلمان ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ حضرت صاحب نے یہ بیان کر کے کہ انہیں یہ سوال درپیش ہیں کوئی تقریر فرمائی۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ایسی تقریر فرمائی جس میں ان سوالوں کا جواب خودبخود آگیا۔ اس قسم کا تصّرف الٰہی اور بھی متعدد روایتوں سے ثابت ہے۔
{ 736} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یا کسی کی درخواست پر دُعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ مُنہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی و چہرہ مُبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتا تھا۔ اور آپ آلتی پالتی مار کر دُعا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ دوزانو ہو کر دُعا فرماتے تھے۔ اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دُعا کے وقت دوزانو ہو جایا کرتے تھے۔ یہ دُعا کے وقت حضور کا ادبِ الٰہی تھا۔
{ 737} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے کئی دفعہ فرمایا کہ بندہ جب تنہائی میں خدا کے آگے عاجزی کرتا ہے اور اس سے دعا کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تو اگر اس حالت میں کوئی دوسرا اس پر مطلع ہو جائے تو اس کو اس سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے جتنی کہ اگر کسی بدکار کو کوئی عین حالتِ بدکاری میں دیکھ لے تو اُسے ہوتی ہے۔ اُسے قتل ہو جانا اور مرجانا بہتر معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اس کی اس حالت پر کوئی غیر مطلع ہو جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے یہ بات عام عبادت اور عام دُعا کے لئے نہیں ہے بلکہ تنہائی کی خاص دعا اور خشوع خضوع کی حالت کے متعلق ہے جبکہ بندہ گویا ننگا ہو کر خدا کے سامنے گِر جاتا ہے۔
{ 738} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ کہ ایک دن رسولِ خدا صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ نے پچھلی رات اپنے بستر میں نہ پایا۔ اُٹھ کر دیکھا تو آپ گھر میں موجود نہ تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی اور بیوی کے گھر میں تشریف لے گئے ہونگے چنانچہ وہ دبے پائوں تلاش کرتی ہوئی باہر نکلیں تو دیکھا کہ آپ قبرستان میں زمین پر اس طرح پڑے تھے جس طرح فرش پر کوئی چادر بچھی ہوئی ہو۔ اور خداتعالیٰ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔ ’’ سَجَدَتْ لَکَ رُوْحِیْ وَجَنَانِیْ‘‘ یعنی اے میرے خالق و مالک! میری رُوح اور میرا دِل تیرے حضور سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو بھلا یہ کسی مکار کا کام ہے۔ جب تک سچّا عاشق نہ ہو تب تک ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے تو کفّار آپ کے حق میں کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ یعنی محمد تو اپنے خدا پر عاشق ہو گیا ہے۔
{ 739} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضور سے کسی نے سوال کیا یا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لئے اول وقت اٹھنا چاہئے نہ کہ عین صبح کی نماز کے ذرا قبل۔ ایسے وقت میں تو کتّے بھی بیدار ہو جاتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول وقت سے رات کا حصہ مراد نہیں بلکہ تہجد کے وقت کا اول حصہ مراد ہے یعنی نصف شب کے جلد بعد۔ آنحضرت ﷺ کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ تہجد ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ لمبی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو صبح کی اذان سے قبل کسی قدر استراحت کا موقعہ مل جاتا تھا لیکن نوجوان بچے اگر تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی اذان سے کچھ وقت پہلے بھی اُٹھ لیا کریں تو ہرج نہیں۔
{ 740} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور احمدیہ بلڈنگس میں حضور تشریف فرما تھے کہ شرقپور بھینی سے ایک ضعیف العمر ناتواں شخص مستقیم نام حضور کے خدمت میں زیارت کے لئے آیا۔ احباب کے جُھرمٹ میں وہ حضور تک نہ پہنچ سکا اور بلند آواز سے بولا۔ حضور مَیں تو زیارت کے لئے آیا ہوں۔ حضور نے فرمایا۔ بابا جی کو آگے آنے دو۔ لیکن وہ اچھی طرح اُٹھ نہ سکا۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ بابا جی کو تکلیف ہے اور پھر حضور خود اُٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھے۔
{ 741} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ۶،۱۹۰۵ء کے جلسہ کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لئے آیا۔ اس وقت مسجد اقصیٰ چھوٹی تھی۔ مَیں نے جوتیوں پر اپنی لوئی بچھا دی۔ اور چودھری غلام محمد صاحب و میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی بھی وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آ گئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد قریب کے مکان والے آریہ نے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ کیونکہ اس کے مکان کی چھت پر بعض اور دوست نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ گالیاں دے رہا تھا۔ حضور منبر پر تشریف لے گئے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات اور لوگوں کے مظالم بیان کرنے شروع کئے۔ جس پر اکثر دوست رونے لگے۔ اسی اثناء میں مَیں کسی کام کے لئے بازار میں اُترا۔ واپسی پر دیکھا کہ بھیڑ زیادہ ہے۔ اتنے میں حضور کے یہ الفاظ میرے کان میں پڑے کہ ’’ بیٹھ جائو‘‘ جو حضور لوگوں کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔ مَیں یہ الفاظ سُنتے ہی وہیں بازار میں بیٹھ گیا۔ اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچا۔ اور حضور کی تقریر سُنی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ حدیث میں بھی ایک صحابی عبداللہ بن رواحہ کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اس قسم کی آواز سن کر گلی میں ہی بیٹھ گئے تھے۔ یہ محبت اور کمال اطاعت کی نشانی ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ احمدیّت میں اخلاص کا نمونہ عین صحابہ کے نقش قدم پر چلتا ہے۔
{ 742} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور اقدس مسیح موعود علیہ السَّلام نے جلاب لیا ہوا تھا کہ دو تین خاص مرید جن میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی تھے عیادت کے لئے اندر ہی گھر میں حاضر ہوئے۔ اس وقت خاکسار کو بھی حاضر ہونے کی اجازت فرمائی۔ خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے لگا۔ اس پر حضور اقدس نے فرمایا۔ کہ آپ میرے پاس چارپائی پر بیٹھ جائیں۔ خاکسار ’’ اَ لْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ‘‘ کو ملحوظ رکھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوقت رخصت مَیں نے بیعت کے لئے عرض کی۔ فرمایا۔ کل کر لینا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ آج جانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضور نے چارپائی پر ہی میری بیعت لی۔ اور دُعا فرمائی۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے مجھ کو مبارکباد دی کہ یہ خاص طور کی بیعت لی گئی ہے۔
{ 743} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ میں فرمایا۔ آج رات مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ رُبَّ اَغْبَرَ اشْعَثَ لَوْاَقْسَمَ بِاللّٰہِ لَاَ بَرَّہٗ۔ اور فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعداللہ لدھیانوی کی موت کے متعلق ہے۔ ز
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ کا ذکر روایت نمبر ۳۹۰ میں بھی گزر چکا ہے۔ اور عربی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات ایک گرد آلود شخص جس کے بال پریشانی کی وجہ سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں خدا کی محبت پر ناز کرکے اس کی قسم کھا کر ایک بات کہتا ہے اور باوجود اس کے کہ اس بات کا پورا ہونا بظاہر مشکل ہوتا ہے خدا اس شخص کی خاطر اسے پورا کر دیتا ہے۔ اور اس کی عزت رکھ لیتا ہے۔
{ 744} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جھنگی والے پِیر اپنے ایک بھائی کا علاج کروانے کے لئے قادیان آئے اور مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہرنا چاہا۔ مگر جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو حضور نے ان کے قیام وغیر ہ کا بندوبست اپنے ہاں کروا لیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے انہیں تین دن ٹھہرایا۔ اس و جہ سے ان کو حضور علیہ السلام کے پاس آنا پڑتا تھا۔ ایک دن مسجد مبارک میں ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ سفر کی کتنی حد ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کو سفر کی کیا ضرورت پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریدوں کے پاس جانے کو دَورہ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر فرمایا۔ اگر آپ بیٹھے رہیں تب بھی جو قسمت میں ہے مل جائیگا۔ دیکھو ہم کبھی اس نیت سے باہر نہیں گئے۔ یہاں ہی اللہ تعالیٰ سب کچھ بھیج دیتا ہے۔ اگر آپ بھی سفر نہ کریں تو دونوں کسریں (نماز اور رزق) جاتی رہیں۔
{ 745} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب یا کسی اور شخص نے ملّاں محمد بخش ساکن لاہور عرف جعفرزٹلی کا ایک کارڈ پیش کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ آریوں نے مسلمانوں کو بھی اپنے جلسہ میں مدعو کیا ہے۔ آپ حضرت مرزا صاحب کو میرا سلام کہہ دیں اور عرض کر دیویں کہ اسلام کی عزت رکھی جائے اور حضرت صاحب اس موقعہ پر ایک مضمون لکھیں اس پر حضرت صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ لوگ بڑے بے حیاء ہیں۔ ایک طرف تو ہم کو کافر کہتے ہیں اور دوسری طرف ہم کو سلام کہتے ہیں اور اسلام کی اعانت کے واسطے دعوت دیتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جعفرزٹلی ایک بڑا ہی بدگو معاند تھا۔ لیکن جب آریوں کے مقابلہ پر اپنی بے بضاعتی دیکھی اور اپنے گروہ میں کسی کو اس کا اہل نہ پایا تو ناچار حضرت صاحب کی طرف رجوع کیا کیونکہ ان لوگوں کا دل محسوس کرتا تھا کہ اگر باطل کا سر کچلنے کی کسی میں طاقت ہے تو وہ صرف حضرت صاحب ہیں۔
{ 746} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار کو اکثر موقعہ ملتا رہا ہے کہ آنحضرت کے پائوں یا بدن دبائے یا کھانے کے واسطے ہاتھ دُھلائے ۔ میاں شادی خان صاحب (حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے خسر) آپ کے خادم ہوتے تھے اور وہ آپ کے واسطے کھانا لایا کرتے تھے۔ حضرت صاحب جب روٹی کھاتے تھے تو ساتھ ساتھ روٹی کے ریزے بناتے جاتے تھے اور فراغت پر ایک خاصی مقدار ریزوں کی آپ کے سامنے سے اُٹھا کرتی تھی جو پرندوں وغیرہ کو ڈالدی جاتی۔ آپ کے کھانے میں لنگر کا شوربہ مع ترکاری ہوتا تھا۔ اکثر اوقات دہی اور آم کا اچار بھی ہوتا تھا۔ ان ایام میں آپ زیادہ تر دہی اور اچار کھایا کرتے تھے۔ خاکسار اور مولوی عبداللہ جان صاحب پشاوری اکثر آپ کا پس خوردہ کھا لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عبداللہ جان صاحب جن کا اس جگہ ذکر ہے وہ میرے نسبتی برادر یعنی میری بیوی کے حقیقی بھائی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بعد غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔
{ 747} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ حضرت اقدس جب بیعت لیتے۔ تو حضور جب یہ الفاظ فرماتے، کہ اے میرے رب! مَیں نے اپنی جان پر ظلم کئے اور مَیں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ تو میرے گناہوں کو بخش دے۔ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں، تو تمام آدمی رونے لگ جاتے تھے اور آنسو جاری ہو جاتے تھے کیونکہ حضرت صاحب کی آواز میں اس قدر گداز ہوتا تھا کہ انسان ضرور رونے لگ جاتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ الفاظ یوں یاد ہیں کہ اے میرے رب! مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مَیں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ تُو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔
{ 748} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب نے چھوٹی مسجد میں جُمعہ پڑھایا۔ حضرت صاحب بھی وہیں جمعہ میں موجود تھے۔ مولوی صاحب نے درود شریف پڑھکر خطبہ پڑھا۔ اور اس میں انہوں نے اس درود سے یہ استدلال کیا کہ حضرت ابراہیم جو ابوالانبیاء ہیں۔ ان پر تمام انبیاء اور ان کی امتیں اسی طرح صلوٰۃ اور برکت کی دعائیں پڑھتی ہیں اور اسی دُعا اور برکت کا یہ اثر ہے کہ آج ہم میں بھی ایک نبی پیدا ہوا جو ہم میں اس وقت موجود ہے۔ وہ خطبہ بہت ہی لطیف تھا۔ مَیں غور سے ٹکٹکی باندھ کر حضرت اقدس کے چہرہ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس خطبہ کا حضرت صاحب پر کیا اثر ہوتا ہے۔ لیکن حضور علیہ السلام پر اس خطبہ کا کوئی خاص اثر مَیں نے محسوس نہ کیا۔ اس دن نماز مغرب کے بعد بھی حضور کافی عرصہ تک مسجد میں بیٹھے رہے۔ مگر حضرت صاحب نے اس خطبہ کے متعلق کچھ ذکر نہ کیا۔ میر ے دل میں خیال آیا کہ حضرت صاحب کو ایک نیا مضمون ملا ہے۔ اب حضرت صاحب اس پر کوئی الگ مضمون تحریر فرمائیں گے مگر حضرت صاحب نے اپنی کسی کتاب میں اس مضمون کا ذکر تک نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس اِدھر اُدھر کی باتیں اڑا لینے والے نہ تھے بلکہ وہی کہتے تھے جو خدا آپ کو بتلاتا تھا۔
{ 749} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں نماز جنازہ خود حضور ہی پڑھاتے تھے۔ حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ آگے بڑھ جاتے تھے اور جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے جتنے بچے فوت ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ حضرت مولوی صاحب نے خود ہی پڑھائی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل نماز ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی و جہ مَیں اچھی طرح سمجھا نہیں۔ شاید کبھی حضرت صاحب نے خود مولوی صاحب سے ایسا فرمایا ہو یا شاید یہ و جہ ہو کہ چونکہ حضرت صاحب بہت رقیق القلب تھے اور نماز جنازہ میں امام کے دل پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اوّلؓ اپنے بچوں کے تعلق میں حضرت صاحب کو کوئی جذباتی صدمہ پہنچانا پسند نہ فرماتے ہوں خصوصاً جبکہ آپ جانتے تھے کہ مومنوں کے معصوم بچے بہرحال جنتی ہوتے ہیں۔
{ 750} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس کے غنائِ ذاتی کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اسی ذکر میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا حد درجہ کو پہنچا دی تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وعدہ ہے تو پھر آپ اس قدر مضطرب کیوں ہوتے ہیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ابوبکر کی معرفت سے بہت زیادہ تھی۔ اور آنحضرت ﷺ خدا کی صفتِ غنائِ ذاتی کے بہت زیادہ عارف تھے۔ مگر ابو بکرؓ کو صرف خدا کے ظاہری وعدہ کا خیال تھا۔ اس لئے جہاں ابوبکر کو خدا ئی وعدہ کی وجہ سے تسلّی تھی آنحضرت ﷺ باوجود تسلّی یافتہ ہونے کے خدا کے غنائِ ذاتی کے خیال سے بھی خائف تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فارسی شعر ہے جس کا ایک مصرع یہ ہے اور کیا خوب مصرع ہے کہ:۔
’’ہر کہ عارف تراَست ترساں تر ‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 751} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۶ء یا ۰۷ء کا واقعہ ہے کہ آریوں کا ایک اخبار ’’شبھ چنتک‘‘ قادیان سے شائع ہوتا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کثرت کے ساتھ دل آزار مضامین شائع ہوتے تھے۔ ہمیں اس اخبار کو پڑھ کر از حد غصہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس کا جواب نہ دے۔ ہم خود جواب لکھیں گے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ تالیف فرمایا۔ اس رسالہ میں اپنے نشانات پیش کرکے لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ان نشانات کے گواہ ہیں۔ اگر یہ نشانات برحق نہیں تو حلفیہ انکار کرکے اشتہار شائع کریں۔ پھر دیکھو کہ عذاب الٰہی کس طرح ان پر مُسلط ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ممکن ہے کہ یہ لوگ حق کو ٹالنے کے لئے بغیر الفاظ مبا ہلہ یا قَسَم کے ایسا اشتہار دیدیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ مؤکد بعذاب قسم کے ساتھ انکار کرکے کوئی اشتہار شائع کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ نے ان دونوں (یعنی لالہ ملاوامل و لالہ شرمپت کو) اولاد بھی دی ہوئی ہے اس لئے کہ اگر یہ قسم کھا کر اشتہار دیں گے تو ان کی اولاد پر بھی عذاب نازل ہوگا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار شبھ چنتک اپنی گندہ د ہنی میں انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور چند دن کے اندر اندر اس کا سارا عملہ طاعون کا شکار ہو گیا۔ ان لوگوں کے نام اچھرچند اور سومراج وغیرہ تھے۔
{ 752} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کے قریب شیخ عبدالرشید صاحب سوداگر چرم بٹالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے باپ نے مجھے عاق کر دیا ہے یا کر دینے والا ہے جس سے مَیں محروم الارث ہو جائونگا۔ حضور نے شیخ صاحب موصوف کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھبرائو مت۔ مجھے دُعا کے لئے یاد دلاتے رہو۔ خدا بہتر سامان کردے گا۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے بعد بٹالہ سے خبر آئی کہ شیخ صاحب کا باپ مر گیا ہے۔
{ 753} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی ثم افریقوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری بیعت کا موجب ایک مولوی صاحب ہوئے جو لاہور انجمن اسلامیہ کے سالانہ جلسہ پر پنڈال سے باہر وعظ کر رہے تھے۔ وہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لیکر حلفیہ طور پر بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب (نعوذ باللہ) کوڑھی ہو گئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ (نعوذ باللہ) نبیوں کی ہتک کرتے تھے۔ جس کو شک ہو قادیان جا کر دیکھ لے۔ خدا کی شان ہے کہ یہ سُن کر میرے دل میں قادیان جانے کی تحریک پیدا ہوئی۔ جب مَیں آیا۔ تو حضرت صاحب کو بالکل تندرست پایا۔ تب مَیں نے حضور کو سارا قصہ سُنایا۔ حضور نے ہنس کر فرمایا۔ یہ مولوی ہمارے مقابلہ میں جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں۔ تب مَیں نے آپ کی بیعت کر لی کہ مَیں ان جھوٹوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔ بیعت کے ایک سال بعد حضور کرم دین کے مقدمہ کے تعلق میں شہر جہلم میں آئے۔ برلبِ دریا جماعت جہلم نے ایک کوٹھی حضور کی رہائش کے لئے مقرر کر رکھی تھی۔ شام کے وقت جب حضور کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ تو حضور نے فرمایا۔ مَیں گوشت ایک سال سے نہیں کھاتا۔ پلائو کا ایک تھال بھرا پڑا تھا۔ مگر حضور نے خمیری روٹی کے چند لقمے شوربہ میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پتلا کرکے کھائے۔ مگر پلائو کھانے سے انکار کیا۔ اس پر ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضور تبرکاً ایک لقمہ ہی اٹھا لیں۔ اس پر آپ نے چند دانے چاولوں کے اٹھا کر منہ میں ڈالے۔ باقی چاول ہم لوگوں نے تبرک کے طور پر تقسیم کر لئے۔ دوسرے دن جب ڈپٹی سنسار چند کے سامنے وکلاء کی تقاریر ہوئیں۔ تو ساڑھے چار بجے واپسی پر غلام حیدر صاحب تحصیلدار نے حضور سے کہا کہ آج خواجہ کمال الدین صاحب نے بہت عمدہ تقریر کی ہے (خواجہ صاحب بھی اس وقت ساتھ ہی تھے) حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ابھی کیا ہے، آئندہ خواجہ صاحب کی اَور بھی اچھی تقریر ہو گی۔ سو ہم نے دیکھا کہ بعد میں خواجہ صاحب کی تقریر حضور کی دُعا کے مطابق بہت قابل تعریف ہوتی تھی۔مگر افسوس کہ خواجہ صاحب نے اسے اپنی قابلیّت کا نتیجہ سمجھا اور خلیفہ اولؓ کی وفات پر ٹھوکر کھا کر خلافت سے الگ ہو گئے۔ جہلم میں حضور کے ساتھ شہزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی تھے۔ حضور احاطہ کچہری میں ان کے ساتھ فارسی میں گفتگو فرما رہے تھے اور اردگرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں تقریر فرمائیں تاکہ عام لوگوں کو بھی کچھ فائدہ ہو۔ اس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع کر دی۔ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کے تمام فرقے مہدی کے منتظر ہیں۔ مگر مہدی نے تو بہرحال ایک شخص ہی ہونا تھا اور وہ مَیں ہوں۔ اگر مَیں شیعوں کو کہوں کہ مَیں تمہارا مہدی ہوں جو کچھ تمہاری روایات میں درج ہے۔ وہ صحیح ہے اور اسی طرح سنیّوں اور وہابیوں کو بھی کہوں تاکہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں تو یہ ایک منافقت ہے۔ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ مہدی کا نام حَکم عَدل ہے۔ وہ تو سب فرقوں کا صحیح فیصلہ کرے گا۔ جس کی غلطی ہو گی اس کو بتائے گا تب وہ سچا ہو گا۔ بس یہی و جہ ہے کہ سب فرقے ہمارے دشمن ہو گئے ہیں۔ ورنہ ہم نے ان کا اور کیا نقصان کیا ہے اور حضور دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔
اسی روز حضور نے کوٹھی پر عورتوں میں بھی ایک تقریر فرمائی۔ جس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو میں نے جو تم کو نصیحت کی ہے یہ میری آخری نصیحت ہے جس طرح کوئی مرنیوالا اپنے لواحقین کو آخری وصیت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میں واپس لوٹ کر نہ آئوں گا۔ اسی طرح مَیں بھی کہتا ہوں کہ تم پھر مجھے اس شہر میں نہ دیکھو گے۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ میری نصیحت کو دل کے کانوں سے سنو۔ اور اس پر عمل کرو۔ چنانچہ ابھی مقدمہ کی پہلی ہی تاریخ تھی اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ کتنی اور پیشیاں ہوں گی اور کتنی مرتبہ حضور کو جہلم آنا پڑے گا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس کے بعد مقدمہ ہی گورداسپور میں تبدیل ہو گیا۔ پھر حضور کو جہلم نہ جانا پڑا۔
اس کے بعد جہلم میں میری سخت مخالفت ہوئی۔ مَیں نے قادیان آ کر حضور سے افریقہ جانے کی اجازت طلب کی۔ حضور نے فرمایا۔ کہ جب انسان سچائی قبول کر لیتا ہے تو پہلے ضرور ابتلاء آتے ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس قدر ابتلائوں میں مبتلا کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے ڈر ہے کہ باہر کہیں اس سے زیادہ ابتلاء نہ آجائے۔ میرے خیال میں آپ صبر سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ایک دوست نبی بخش افریقہ سے آئے۔ مَیں نے اُن سے حالات کا تذکرہ کیا۔ وہ مجھے افریقہ لے جانے پر رضا مند ہو گئے۔ اس وقت مَیں نے حضور سے پوچھا اور حضور نے اجازت دیدی اور مَیں ان کے ہمراہ چلا گیا اور خدا نے وہاں مجھے بیوی اور بچے بھی دئیے اور ہر طرح سے اپنا فضل کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سفر جہلم ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا۔
{ 754} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ عبداللہ صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً اس جلسہ سالانہ کا ذکر ہے۔ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ میں اپنی تقریر میں اپنے آپ کو ذوالقرنین ثابت کیا تھا۔ جلسہ کے بعد ایک ایرانی بزرگ مسجد کے صحن میں حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور بزبان فارسی حضور سے سلسلہ کلام شروع تھا۔ اور چند آدمی حلقہ کئے ہوئے وہاں اس بزرگ کی گفتگو سُن رہے تھے۔ خاکسار بھی شامل ہو گیا۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ کلام جاری رہا۔ چونکہ سامعین میں سے اکثر فارسی نہ سمجھتے تھے۔ اس لئے ایک دوست نے کسی دوست کو کہا کہ آپ تو فارسی کلام اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے ذرا ہمیں بھی مطلب سمجھا دیں۔ چنانچہ اس دوست نے پنجابی میں وہ کلام سُنا دی۔ جس کا ماحصل یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے اس ایرانی بزرگ سے دریافت کیا۔ کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ جواب ملا کہ شیراز کا باشندہ ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا۔ کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آپ کو پہنچی ہیں یا وہاں احمدیہ جماعت کا کوئی فرد پہنچ گیا تھاجس نے آپ کو حضور کے دعویٰ کی تبلیغ کی؟ ایرانی بزرگ نے جواب دیا کہ نہ تو کوئی کتاب پہنچی تھی اور نہ ہی کسی مبلغ نے مجھے تبلیغ کی ہے۔ مَیں تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہاں آیا ہوں۔ اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ بعد نماز تہجد کشف میں نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ ایسی حالت میں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب ایک اور بزرگ اسی تختِ نورانی پر جس پر آنحضرت جلوہ افروز تھے ہمنشین ہیں۔ اور اس بزرگ کی شکل و شباہت حضور علیہ السلام سے تقریباً ملتی جلتی ہے۔ مَیں نے آنحضرت سے عرض کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ امام مہدی علیہ السَّلام ہیں۔ جو آج کل قادیان میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس ارشاد نبوی کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ اور مَیں اس تلاش میں لگ گیا۔ کہ قادیان کا پتہ چلے۔ چنانچہ بڑی کوشش کے بعد معلوم ہوا کہ پنجاب میں لاہور کے قریب ایک گائوں قادیان ہے اور وہاں ایک شخص نے دعویٰ مہدویت کیا ہے۔ اس مکاشفہ کی بناء پر مَیں یہاں پہنچ گیا ہوں۔ اور جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا شرف نیاز حاصل کیا تو دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔
{ 755} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیح موعود کے جلد بعد بیعت میں داخل ہوئے تھے۔ اور ابتداء میں ہر طرح کا جوش اور اخلاص دکھاتے تھے۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں حضرت صاحب نے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے بہت عزیز دوست تھے۔ ان کو نہ آتھم کے زلزلہ کے وقت ابتلاء آیا اور نہ محمدی بیگم کے نکاح کے فسخ کے وقت ابتلاء آیا۔ بلکہ ابتلاء آیا تو عجیب طرح آیا۔ یعنی حضرت صاحب جب چولہ صاحب دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابانانک تشریف لے گئے اور پھر ست بچن لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو ان صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا۔ کہ واہ یہ خوب مسیح اور مہدی ہیں جو ایسی فضول باتوں کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ بابا نانک مسلمان تھے۔ یہ کام ایسے عہدہ کے شایانِ نہیں۔ غرضیکہ وہ پھر ایسے الگ ہوئے کہ مرتے دم تک ادھر رُخ نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتاہے کہ فصیح صاحب آتھم والے مناظرہ میں ہماری طرف سے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے تھے۔ اچھے انگریزی خواں تھے مگر افسوس ہے کہ بعد میں ٹھوکر کھا گئے۔ گو مَیں نے سنا ہے کہ ٹھوکر کھانے کے بعد بھی فصیح صاحب نے کبھی عملی مخالفت نہیں کی۔ صرف الگ ہو کر خاموش ہو گئے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ فصیح صاحب کا یہ اعتراض کہ مسیح ہو کر چولہ کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں نہایت بودا اور کم فہمی کا اعتراض ہے کیونکہ چولہ کی تحقیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نہایت اہم تحقیق ہے جو ایک بڑی قوم کے متعلق نہایت وسیع اثر رکھتی ہے۔ مجھے تو اس نظارہ سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے۔ اور حضرت صاحب کی شان کی رفعت کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندوئوں اور بُدھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے بانیوں کو حضرت صاحب نے سچّے رسول ثابت کرکے مسلمانوں کی طرف کھینچ لیا۔ اور سکھّوں کے بانی کو مسلمان ثابت کرکے راستہ صاف کر دیا۔ اس کے بعد باقی ہی کیا رہا ۔
{ 756} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ڈیرہ بابا نانک (تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور) چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو یہ عاجز بھی ہمراہ تھا۔ مَیں اور شاید حافظ حامد علی مرحوم حضرت صاحب کے یکّے میں بیٹھے تھے۔ اور باقی اصحاب دوسرے یکّوں میں تھے۔ ہم علی الصبح قادیان سے روانہ ہوئے اور بٹالہ پہنچتے ہی دوسرے یکّے کئے اور سیدھے ڈیرہ نانک روانہ ہو کر دوپہر کے وقت پہنچے۔ وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے آرام کیا۔ اور عصر کے بعد حضرت صاحب چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔دس پندرہ آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب بھی تھے۔ جس کمرہ میں چولہ رکھا ہوا تھا۔ اس میں بمشکل ہم سب سما سکے۔ درمیان میں ایک بڑی ساری گٹھڑی تھی۔ جو قریباً گز بھر اُونچی ہو گی۔ چولہ صاحب اس کے اندر تھا۔ اور اس کے اوپر درجنوں قیمتی کپڑوں کے رومال چڑھے ہوئے تھے۔ جو سکھ امراء اور راجوں نے چڑھائے تھے۔ زیارت کرانے والا بڈھا مہنت وہاں اس روز موجود نہ تھا۔ اس لئے دکھلانے کا کام ایک نوجوان کے سپرد تھاجو اس کا لڑکا یا رشتہ دار تھا۔ جب بہت سے رُومال کھل چکے تو چند سکھ جو اس وقت وہاں موجود تھے وہ تو احترام کے خیال سے سرنگوں ہو گئے۔ آخر جب چولہ صاحب پر نظر پڑی تو وہ سب بالکل ہی سجدہ میں جا پڑے ۔ ہمیں چولہ صاحب کی پہلی تہہ پر صرف چند آیات اور حروف نظر آئے۔وہ لکھ لئے گئے۔ پھر مجاور سے کہا گیا۔ کہ چولہ صاحب کی دوسری طرف بھی دکھاوے۔ اُس نے پس و پیش کیا۔ کہ اتنے میں پانچ سات روپے شیخ رحمت اللہ صاحب نے اسی وقت اس کے ہاتھ میں دیدئے۔ اس پر اس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ جس پر اس نے چولہ دوسری طرف جو تہہ شدہ تھی دکھائی۔ پھر اُسے کہا گیا کہ ذرا اس کی تہہ کو کھولو۔ اس نے اسے شاید سوء ادبی خیال کیا اور تأمل کیا۔ اتنے میں شیخ صاحب نے یا کسی اور دوست نے کچھ اور روپے اس کی مٹھی میں رکھدئیے اس پر اس نے طوعاً و کرہاً ایک تہہ کھولدی۔ ہمارے دوست کاغذ پنسل لئے چاروں طرف کھڑے تھے۔ فوراً جو آیت یا حرف نظر آتے لکھ لیتے یا دوسرے کو لکھا دیتے۔ اس کے بعد مزید کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تو وہ مہنت ہاتھ جوڑنے لگا اور بہت ہی ڈر گیا۔ مگر جونہی اس کی مٹھی گرم ہوئی۔ تو ساتھ ہی اس کا دل بھی نرم ہو گیا اور اس نے ایک تہہ اور کھولدی۔ غرضیکہ اسی طرح منت خوشامد ہوتی رہی اور ہر تہہ کھولنے پر روپے بھی برستے رہے اور کئی احباب نے اپنے جوش کی وجہ سے اس نقرہ باری میں کافی حصہ لیا۔ تاکہ کسی طرح سارا چولہ نظر آ جائے۔ کیونکہ یہ شُبہ بھی تھا۔ کہ کہیں چولہ صاحب پر قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور ہندی یا گورمکھی عبارت بھی ساتھ درج نہ ہو۔ آخر جب کئی تہیں کھل چکیں ۔ تو آخری حملہ اس مہنت پر یوں ہوا کہ ہر طرف سے روپے برسنے شروع ہو گئے اور جب وہ ان کے چننے میں مشغول ہوا۔ تو کسی دوست نے پھُرتی کے ساتھ جھپٹ کر چولہ صاحب کو خود پکڑ کر سارا کھول کر حاضرین کے سامنے لٹکا دیا۔ اور اس طرح اندر اور باہر ہر طرف سے دیکھ کر معلوم ہو گیا۔ کہ سوائے قرآن مجید کی آیات کے اور کوئی عبارت چولہ صاحب پر نہیں ہے۔ مگر اس حرکت سے وہ بے چارہ سکھ تو بدحواس ہو گیا۔ ادھر اس نے روپے چننے تھے کہ کہیں وہ سینکڑوں رومالوں کے ڈھیر میں گم نہ ہو جائیں۔ ادھر اسے مسلمانوں کے ہاتھ سے چولہ صاحب کا اس طرح نکال کر اور کھول کر رکھ دینا ایسا خطرناک معلوم ہوا کہ اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ آخر ایک طرف تو وہ زبانی منّت خوشامد کرنے لگا اور دوسری طرف جلدی جلدی روپے چننے لگا۔ تاکہ پھر چولہ صاحب کو اپنے قبضہ میں کر لے۔ مگر اتنے میں ہمارا کام بھی ہو چکا تھا۔ اور آیات بھی سب نقل ہو چکی تھیں اور جو باقی سکھ زائرین تھے وہ سب سجدے میں پڑے تھے۔ اس لئے کوئی شور و شر نہ ہوا۔ صرف مجاور کی زبان پر واہ گرو اور بس جی بس کے الفاظ بطور پروٹسٹ جاری تھے۔ مگر روپے کی بارش سے اس کا دل خوش تھا کہ اتنی رقم یکمشت اسے مل گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ چولہ صاحب کے متعلق یہ ایک نہایت اہم تحقیق تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ منکشف ہوئی اور حضرت صاحب نے اپنی ایک تصنیف ست بچن میں اسے مفصّل لکھا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ ملا کر ثابت کیا ہے کہ باوا نانک صاحب ایک پاکباز مسلمان ولی تھے جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کے دل سے قائل تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے سکھ بھائیوں کو ہمارے اس عقیدہ سے ناراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے ہمارے دلوں میں باوا صاحب کی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے اور ہم انہیں دلی انشراح کے ساتھ خدا کا ایک عالی مرتبہ ولی سمجھتے ہیں اور ان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈیرہ بابا نانک کا سفر ۱۸۹۵ء میں ہوا تھا۔
{ 757} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ عبداللہ قانونگو ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی بزرگ قادیان آئے تھے۔اور کئی ماہ تک قادیان میں رہے۔ میں ان کی آمد سے تین چار ماہ بعد پھر قادیان آیا اور ان کو مسجد مبارک میں دیکھا۔ غالباً جمعہ کا دن تھا۔ بعد نمازِ جمعہ اس بزرگ نے فارسی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری بیعت قبول فرمائی جاوے ۔حضور نے فرمایا پھر دیکھا جائیگا۔ یا ابھی اور ٹھہریں۔ اس پر اس ایرانی بزرگ نے بڑی بلند آواز سے کہنا شروع کیا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ یا تو میری بیعت قبول فرمائیں یا مجھے اپنے دروازہ سے چلے جانے کی اجازت بخشیں۔ ان لفظوں کو وہ بار بار دہراتے اور بڑی بلند آواز سے کہتے تھے۔ اس وقت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے کھڑے ہو کر سورئہ حجرات کی یہ آیت پڑھی کہ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:۳) اور فرمایا کہ مومنوں کے لئے یہ ہر گز جائز نہیں کہ نبی کی آواز سے اپنی آواز کو اُونچی کریں۔ یہ سخت بے ادبی ہے۔ آپ کو یوں نہیں کرنا چاہئے لیکن وہ ایرانی بزرگ اپنا لہجہ بدلنے میں نہ آیا۔ آخر اُسے چند آدمی سمجھا کر مسجد کے نیچے لے گئے اس کے بعدمعلوم نہیں کہ وہ بزرگ یہاں رہے یا چلے گئے اور اس کی بیعت قبول ہوئی یا نہ ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے یہ وہی ایرانی صاحب معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا ذکر روایت نمبر ۷۵۴ میں ہو چکا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بیعت لینے میں توقف کیا تو شاید آپ نے اس ایرانی شخص میں کوئی کجی یا خامی دیکھی ہو گی اور آپ چاہتے ہونگے کہ بیعت سے پہلے نیّت صاف ہو جائے اور اس ایرانی نے جو حضرت صاحب کو خواب میں دیکھا تھا تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ کہ ضرور دل بھی صاف ہو چکا ہو گا کیونکہ بسا اوقات ایک انسان ایک خواب دیکھتا ہے مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اس خواب کے اثر کو قبول نہیں کرتا اور دل میں کجی رہتی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 758} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان کے جس قبرستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد دفن ہوتے رہے ہیں۔ وہ مقامی عیدگاہ کے پاس ہے۔ یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن افراد کی قبروں کا مجھے علم ہو سکا ہے ان میں سے بعض کا خاکہ درج ذیل ہے اس خاکہ میں شاہ عبداللہ صاحب غازی کی قبر بھی دکھائی گئی ہے جو ایک فقیر منش بزرگ گذرے ہیں۔ مجھے یہ اطلاع اس قبرستان کے فقیر جھنڈو شاہ سے بواسطہ شیخ نور احمد صاحب مختار عام مرحوم ملی تھی۔ اور شاہ عبداللہ غازی کے متعلق مجھے والدہ عزیزم مرزا رشید احمد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مرزا گل محمد صاحب (پڑدادا حضرت صاحب) کے زمانہ میں ایک فقیر مزاج بزرگ گذرے ہیں۔ جن کے مرنے پر مرزا گل محمد صاحب نے ان کا مزار بنوادیا تھا۔ ہماری ہمشیرہ امۃ النصیر کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے۔
{ 759} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد فضل الٰہی صاحب ریڈر سب جج درجہ اول سیالکوٹ نے ایک خط حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔ اور اس کے ہمراہ ایک حلفیہ بیان پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھرا داس کا بھجوایا تھا۔ پنڈت صاحب دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں اور کسی زمانہ میں نائب مدرس قادیان تھے۔ اور آجکل اُپ پردھان آریہ سماج دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین ایدہُ اللہ بنصرہ العزیز نے یہ خط اور اسکے ساتھ کا حلفیہ بیان خاکسار کو برائے اندراج سیرۃ المہدی بھجوا دیا تھا۔ میاں محمد فضل الٰہی صاحب کا خط درج ذیل ہے۔ اس کے بعد پنڈت دیوی رام صاحب کا حلفیہ بیان درج کیا جائیگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
بخدمت حضرت امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ:۔ میرے آقا کچھ عرصہ ہوا ایک شخص دیوی رام سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ نارووال جاتے ہوئے گاڑی میں ملا اور اس نے ذکر کیا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں کچھ عرصہ دعویٰ سے قبل رہا ہوں۔ اس نے کچھ واقعات زبانی سُنائے تھے۔ مَیں نے اس پر اپنی احمدیت کا ذکر نہ کیا اور کہا کہ مَیں تم سے پھر ملوں گا۔ حسرت تھی کہ قبل از موت اس سے اپنے آقا کے حالات سُن کر تحریر کرلوں مگر بہت عرصہ فرصت نہ ملی۔ اس سال میں نے ایک ماہ کی رخصتیں وقف کر دی تھیں۔ چونکہ مرکز سے مجھے کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس لئے مَیں نے ان رخصتوں میں یہ کام سر انجام دینا تجویز کیا۔ میں ۱۵۔ستمبر ۱۹۳۵ء کو بمعہ مولوی محمد منیر احمدی اس کے پاس گیا۔ اور بیان لف ہذا اس سے سن کر تحریر کیا۔ مَیں نے اسے اپنا احمدی ہونا نہ بتلایا تھا۔ اور نہ اس نے پوچھا تھا یہ آریہ بہت نیک سیرت ہے اور خوب ہوشیار اور حق گو ہے۔ مَیں نے اپنی عقل کے ماتحت اس پر بہت سوالات کئے اور دعویٰ سے قبل کے حالات سُنے اور قلمبند کئے۔ آخر میں مَیں نے کہا کہ پنڈت جی مَیں نے ساڑھے پانچ گھنٹے بیان میں صرف کئے۔ اور مَیں نے بہت کو شش کی ہے کہ آپ مرزا صاحب کا کوئی عیب مجھے بتاویں۔ مگر مَیں حیران ہوں کہ آپ نے میرا مطلب پورا نہ کیا۔ میرا اس سے مطلب یہ تھا کہ وہ مجھے مرزا صاحب کے خلاف موجودہ فضاء کے ماتحت مجھے مخالف مان کر کچھ بتائے گا۔ اس نے پانچ منٹ سوچ کے بعد پھر کہا کہ مَیں کیا بتائوں اگر کوئی عیب ہو تو مَیں بتائوں، جھوٹ کس طرح بولوں۔ دوران تحریر بیان مَیں نے انتہائی کوشش کی کہ مخالف حضور کے متعلق کچھ کہے۔ مگر قربان جائوں اس پیارے کی پاکیزگی پر کہ مخالف نے ایک حرف بھی نہ کہا اور میرے زور دینے پر کہا تو صرف اس قدر کہ مرزا صاحب نے بعد ازاں جب مذہبی دنیا میں آئے تو مَیں نے سُنا ہے کہ دو آدمیوں کو قتل کروا دیا تھا ایک لیکھرام کو وغیرہ۔ مَیں نے کہا۔ یہ میرے مطلب سے بعید ہے مَیں نے صرف آپ کی زندگی قبل از دعویٰ لینی ہے اور ساتھ ہی مَیں نے آپ کی عینی شہادت لینی ہے۔ ایک محقق کی حیثیّت سے مجھے بعد کے واقعات یا شنید سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر اس نے کچھ نہیں کہا۔ مَیں حضور کو تمام بیان ارسال کرتا ہوں۔ اگر حضور اس کو پڑھ کر پسند کریں تو پھر میری خواہش ہے کہ مَیں اس کو پہلے یہاں چند اخبار مقامی میں چھپوائوں اور پھر الفضل میں اشاعت ہو۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کا فوٹو بھی حاصل کروں۔ حضور بعد ملاحظہ اس کو میرے پاس واپس ارسال فرماویں۔ اگر کسی اور محقق نے جانا ہو۔ تو مجھے مطلع کیا جائے تاکہ مَیں بھی اس کے ساتھ پھر جائوں۔ میری بیوی بیمار ہے۔ اور نیز مقروض ہوں۔
حضور دُعا فرمائیں۔ والسلام خاکسار
محمد فضل الٰہی احمدی ریڈر سب جج درجہ اوّل سیالکوٹ ۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ئ۔
بیان پنڈت دیوی رام ولد متھرا داس قوم پنڈت سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور باقرار صالح عمر ۷۰ ۔۷۵سال
’’میں ۲۱؍ جنوری ۱۸۷۵،ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیا تھا مَیں وہاں چار سال رہا۔ مَیں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتا تھا۔ آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب زندہ تھے۔ مرزا غلام احمد صاحب ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ آپ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لئے مسجد خاص (مسجد اقصیٰ مراد ہے خاکسار مؤلف)میں جایا کرتے تھے۔ جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے۔ تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنا دی گئی۔
مرزا سلطان احمد صاحب پسر مرزا غلام احمد صاحب حکمت کی کتابیں اپنے دادا سے پڑھا کرتے تھے اور مَیں بھی گاہے بگاہے ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد میر ناصر نواب صاحب جو محکمہ نہرمیں ملازم تھے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر بھی خاص قادیان میں تھا اور وہ وہابی مذہب کے تھے۔ مرزا صاحب اہل سنت والجماعت کے تھے۔ کبھی کبھی دونوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا۔ تو اکثر اپنے اپنے مذہب کے متعلق بحث و مباحثہ کیا کرتے۔ مَیں بھی فارسی کی کوئی کتاب سُنانے یا میزان طب پڑھنے کے لئے پانچ بجے شام کے قریب مسجد میں چلا جایا کرتا تھا۔کچھ عرصہ بعد میر ناصر نواب صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح مرزا غلام احمد صاحب سے کر دیا۔ مرزا صاحب نے سنت سنگھ جٹ جو بوٹرکلاں کا رہنے والا تھا۔ اس کو مسلمان بنا لیا۔ پادری کھڑک سنگھ سے بھی ایک دفعہ مباحثہ ہوا۔ ۷۸ئ۔۷۷ء میں سوامی دیانند کا بھی شہرہ ہو چکا تھا۔ مرزا صاحب کا ایک تحریری مباحثہ بھی ہوا تھا۔ اخبارات میں انادی اور ورنوں کے متعلق بحث ہوتی رہی۔ آپ کی عمر اس وقت پچیس تیس سال کے درمیان تھی۔ مرزا صاحب پانچ وقت نماز کے عادی تھے۔ روزہ رکھنے کے عادی تھے۔ اور خوش اخلاق۔ متقی اور پرہیز گار تھے۔ قانون اور حکمت میں بھی لائق تھے۔ اگرچہ وکالت کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے۔ کچھ مدّت اس سے قبل سیالکوٹ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ رہے تھے۔ انہی ایام میں ایک گوپی ناتھ مرہٹہ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا۔ اس کے متعلق گورنمنٹ کا حکم تھا۔ کہ اگر اسکو تحصیلدار پکڑے تو اس کو اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈپٹی کمشنر پکڑے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ مرہٹہ مرزا صاحب کی ملازمت کے ایام میں ایک ڈپٹی کمشنر کے قابو آیا۔ اس کا بیان مرزا صاحب نے قلمبند کیا۔ کیونکہ اس مرہٹہ کا مطالبہ تھا کہ مَیں اپنا بیان ایک خاندانی معزز شریف افسر یا حاکم کو لکھوائوں گا۔ اور اس نے خاندانی عزت و نجابت کے لحاظ سے مرزا صاحب کو منتخب کیا۔ یہ حالات مرزا صاحب نے خود اپنی زبان سے سُنائے تھے اور یہ بھی سُنایا تھا کہ مَیں نے وکالت کے امتحان کی تیاری کی تھی اور بائیس امیدوار شاملِ امتحان ہوئے تھے۔ نرائن سنگھ امیدوار جو کہ میرا واقف تھا اس نے عین امتحان میں گڑ بڑ کی اور اس کا علم ممتحن کو ہو گیا۔ اور اس نے بائیس کے بائیس امیدوار فیل کر دئیے۔ کیونکہ اس امر کا شور پڑ گیا تھا۔
جب سوامی دیانند سے مباحثہ ہوتا تھا۔ تو اسی نرائن سنگھ نے مرزا صاحب کا ایک خط بند لفافہ میں جس میں دو کاغذ لکھے ہوئے تھے محکمہ ڈاک میں بھیج دئیے تھے کہ مرزا صاحب نے جرم کیا ہے۔ چنانچہ سپرنٹنڈنٹ صاحب محکمہ ڈاکخانہ جات نے مقدمہ فوجداری مرزا صاحب پر چلا کر ضلع گورداسپور اسسٹنٹ صاحب کے پاس بھیج دیا۔ مرزا صاحب ملزم ٹھہرائے گئے۔ ان دنوں مرزا صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب جو کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ مقدمہ پر ایک گدھا جس پر اخباروں کا بوجھ لدا ہوا تھا۔ جن کے نام اودھ سے اخبار ’’ رہبر ہند‘‘ آتا تھا ثبوت کے لئے لائے۔ چنانچہ ایک طرف مدعی سپرنٹنڈنٹ محکمہ ڈاک تھے اور دوسری طرف مرزا صاحب اکیلے تھے۔ اور جُرم یہ تھا کہ مرزا صاحب نے دو آرٹیکل ایک لفافہ میں بند کئے۔ اور ان کے بھائی نے چند ایک وکیل مرزا صاحب کی امداد کے واسطے کھڑے کر دئیے۔ مگر مرزا صاحب نے ان کو کہہ دیا کہ مَیں اپنے جُرم کا خود ذمہ دار ہوں اور عدالت کو جواب دُوں گا۔ چنانچہ بحث ہوئی۔ مرزا صاحب نے سپرنٹنڈنٹ سے سوال کیا کہ مجھ کو میرا جرم بتلایا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مفصل بیان کیا کہ ایک تو آپ نے مطبع میں مضمون دیا۔ دوسرے اس میں ایک رقعہ لکھا ہوا تھا۔ مرزا صاحب نے اس کے جواب میں ایک گدھے کا بوجھ ثبوت میں پیش کیا۔ کہ رقعہ جزو مضمون تھا۔ چنانچہ میرے سابقہ اخبارات کو ملاحظہ فرمایا جائے۔ کہ مَیں یہی خط لکھتا رہا ہوں۔ چنانچہ پہلے ایڈیٹر صاحب میرے مضمون ذیل کو اخبار میں چھپوا دیں اور اس کے آگے یہ مضمون ہے۔ یہ ایک جزو ہے یا کہ دو اور بہت سے اخبارات مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ کو پیش کئے۔ سامعین کثرت سے موجود تھے۔ مرزا صاحب باعزت طور پر بری ہو گئے۔ یہ واقعہ میری موجودگی کا ہے۔ نرائن سنگھ نے یہ اس لئے کیا کہ جب امتحان وکالت میں ممتحن نے تمام لڑکوں کو فیل کر دیا۔ تو تمام لڑکوں نے ممتحن سے کہا کہ یہ سب شرارت ناقل اور پوچھنے والے نرائن سنگھ کی ہے۔ تمام لڑکوں کو کیوں فیل کیا گیا ہے۔ چنانچہ نرائن سنگھ کا نام شرارت کنندہ درج کیا گیا۔ اس لئے نرائن سنگھ کو مرزا صاحب سے پرخاش تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے یہ مقدمہ مرزا صاحب کے خلاف دائر کروایا تھا۔ نرائن سنگھ اس وقت امرتسر میں تھا۔
مرزا صاحب اورنگ زیب شہنشاہ ہند کے خاندان سے تھے۔ ان کے والد صاحب کشمیر کے صوبہ دار بھی رہ چکے تھے۔ مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جاگیر آٹھ میل چوڑی تھی۔ مستورات کا پردہ بالکل ٹھیک رکھا جاتا تھا۔ حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔
مرزا غلام مرتضیٰ صاحب والد مرزا غلام احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں کشمیر سے واپس آیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد نواب یارقند نے اپنے علاج کے واسطے مراسلہ بھیجا تھا اور مَیں چند آدمی ہمراہ لے کر وہاں پہنچا۔ اور میرے استقبال کے لئے شاہی حکیم اور چند معزز عُہدیدار آئے اور مَیں نے اسلامی طریق کے مطابق نواب صاحب کو السَّلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا۔ اور اپنی رہائش کا بندوبست ایک باغ میں کرایا۔ شاہی حکماء نے میرا امتحان کرنے کے لئے ایک سوال مجھ سے کیا کہ ایک بچہ ماں کے شکم میں کس طرح چھانگا ہو جاتا ہے۔ مَیں نے اسی وقت جملہ حکماء کو کہا۔ کہ ایک سوال مجھ سے بھی حل نہیں ہو سکا۔ شاید آپ میں سے کوئی حل کر سکے۔ کہ کیا پہلے مرغی پیدا ہوئی یا پہلے انڈا پیدا ہوا۔ اس پر جملہ حکماء خاموش ہو گئے۔ اگلے دن صبح کو مَیں نے مریض کو دیکھا اور بیماری کی تشخیص کی۔ اور علاج شروع کرنے سے پہلے چند شرائط نواب صاحب سے منظور کروائیں۔ کہ اگر کوئی غلیظ چیز یا پاک چیز جس طریق پر استعمال کرائوں۔ نواب صاحب کو کرنا ہو گا اور کسی حکیم یا متعلقین میں سے کسی کو ناراض ہونے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا۔ نسخہ علاج ذیل میں درج ہے۔
ستر من بھینس کا گوبر اور کچھ لکڑی حرم سرائے کے صحن میں جمع کرائی جائے۔ اور مستورات کو پردہ کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ نواب صاحب کو برہنہ کھڑا کیا گیا اور گوبر کا چبوترہ ان کے گردا گرد کیا گیا۔ سر کے اُوپر ایک ڈھکنا رکھا گیا۔ آنکھیں نتھنے اور منہ کھلا رہا۔ گوبر کے ارد گرد باہر کی طرف لکڑی چنائی گئی اور ان کو آگ لگا دی گئی۔ نواب صاحب روتے اور چلاتے رہے۔ جب لکڑیاں جل گئیں مزدوروں نے ان کو دُور پھینکا۔ اور گوبر بھی ہٹا دیا گیا۔ جب چھ چھ انچ تک گوبر ان کے گرد رہا۔ تو مَیں نے حکماء کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔ وزراء اور اس کے متعلقین کی موجودگی میں مَیں نے وہ گوبر انکے جسم سے خود اتارا۔ اور ان دوستوں کو دکھلایا مری ہوئی جوئیں اس گوبر کے ساتھ تھیں۔ اور واپسی پر نواب صاحب نے ایک حقہ چاندی کا۔ اور ایک تھال سونے کا اور ایک لوٹا سونے کا اور ایک دُھسہ۔ ایک لنگی۔ ایک یار قندی ٹٹو اور چار بدرے نقد روپیہ بطور تحفہ کے نذر کے دئیے۔ مَیں نے اس وقت نواب سے سوال کیا کہ کیا یہ اشیاء میری حکمت کے عوض ہیں یا کہ بطور تحفہ۔ نواب صاحب نے وزیروں کی طرف اشارہ کیا کہ معقول جواب دیں۔ کچھ مدّت خاموش رہنے کے بعد بطو رتحفہ بتلایا۔ مَیں نے روپے کے بدرے واپس کر دئیے۔ اور باقی اشیاء جو تحفہ کے طور پر تھیں لے لیں۔ اور واپس چلا آیا۔ مرزا صاحب نے سوال حکماء کا یہ جواب دیا کہ جس وقت نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے۔ کل اجزائے بدن اس میں گر جاتے ہیں۔ اور اپنی اپنی مدتوں پر جیسے کہ قدرت ہے بڑھتے رہتے ہیں۔ اور وہ مادہ جو کہ بازوئوں کی طرف آتا ہے چلتے چلتے کسی خاص وجہ سے رک جائے اور وہ منتشر ہو کر دو جگہ پر تقسیم ہو کر پڑ جاتا ہے جیسا کہ پانی آتے آتے کسی تھوڑی سے رکاوٹ یا اونچائی کے سبب دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ویسے ہی اس مادہ کی خاصیّت ہے۔ کبھی نرانگشت کی طرف رکاوٹ ہو گئی۔ تو دو حصے ہو گئے اور کبھی چھنگلی کی طرف رکاوٹ ہوئی تو وہ دو ہو گئیں۔ مگر مرزا صاحب کے سوال کا جواب حکماء نے نہ دیا۔ نواب صاحب کی بیماری جسم میں جوئوں کی تھی اور مرزا صاحب کی شہرت حکمت یار قند سے سُن کر حکماء نے بلوایا تھا۔
مرزا غلام احمد صاحب کی غذا سادہ ہوتی تھی۔ آپ کے نوکر کا نام جان محمد تھا اور آپ کے استاد کا نام گل محمد تھا جو بیس روپیہ ماہوار پر دونوں بھائیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور شریفانہ برتائو تھا۔ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ متواضع اور مہمان نواز تھے۔ کبھی کبھی دیگ پکوا کر غرباء اور مساکین کو کھلاتے تھے۔ حکمت کی اجرت نہ لیتے تھے اور نسخہ لکھ کر بھاوامل برہمن پنساری کی دکان پر سے دوائی لانے کے لئے کہتے تھے۔ مرزا صاحب کا ہندوئوں کے ساتھ مشفقانہ تعلق تھا۔ مرزا صاحب ہر وقت مذہبی کتب و اخبارات کا مطالعہ کرتے اور انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔ مرزا صاحب کی خدمت میں ایک لڑکا عنایت بیگ تھا۔ اس کو میرے پاس پڑھنے کے لئے بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو دوسرے لڑکوں سے علیحٰدہ رکھنا تاکہ اس کے کان میں دوسرے لڑکوں کی بُری باتیں نہ پڑیں۔ اور یہ عادات قبیحہ کو اختیار نہ کر لے۔ مرزا صاحب بازار میں کبھی نہ آتے تھے صرف مسجد تک آتے تھے اور نہ کسی دکان پر بیٹھتے تھے۔ مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔ مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ ’’ غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے‘‘۔
اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تھا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دیدیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔ مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے۔ مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے۔ اور کسی آدمی کی نظر میں گرے ہوئے نہ تھے۔ اور مذہبی بحث میں ایک شیر ببر کی طرح ہوشیار ہوجاتے تھے۔ شائستگی اور نرمی اور شیریں کلامی سے بات کیا کرتے تھے۔ طبع کے حلیم اور بردبار تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کی طبیعت میں کبھی غصہ نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب بے نماز بھائی بندوں اور دیگر لوگوں سے نفرت کیا کرتے تھے۔ مستورات کو ہمیشہ نماز کی تلقین کیا کرتے۔ جھوٹ سے ہمیشہ نفرت کرتے تھے۔ والد صاحب کے ساتھ کبھی کبھی ضرورت کے وقت بات کرتے اور مرزا سلطان احمد کے ساتھ بھی اسی طرح کبھی کبھی ضرورت کے وقت گفتگو کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی نہیں سُنا تھا کہ مرزا صاحب کو دُنیا سے محبت ہے۔ نہ ہی اولاد سے دنیاوی محبت کرتے سُنا ہے۔ مرزا صاحب نے والد ماجد کی وفات پر کسی قسم کے رنج یا افسوس یا غصہ کا اظہار نہ کیا تھا اور نہ ہی کسی جزع فزع کا اظہار کیا تھا۔ مرزا غلام احمد صاحب کی نسبت مَیں نے کبھی نہیں سُنا تھا کہ انہوں نے چھوٹی عمر میں کوئی بُرا کام خلاف شریعت یا مذہب کیا ہو اور نہ ہی دیکھا تھا۔ عام شہرت ان کے متعلق اچھی تھی۔ مرزا صاحب کو سنگترہ اور آم اور بھُونے ہوئے دانے پسند تھے۔ حلوائی کی چیز کو کھاتے ہوئے مَیں نے کبھی نہ دیکھا۔ روٹی کھایا کرتے تھے اور روٹی موٹی ہوتی تھی۔
میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ میرے روبرو رفعِ یدین ـ آمین بالجہر۔ ہاتھ باندھنے کے متعلق ،تکبیر پڑھنے کے متعلق بحث ہوتی کہ آیا یہ امور جائز ہیں یا نا جائز ہیں۔ ان ایام میں آپ کے دوست کشن سنگھ کنگھی گھاڑا۔ شرم پت اور ملاوامل تھے۔ اور یہ لوگ مرزا صاحب کے پاس کبھی کبھی آتے تھے۔
مَیں نے ایک مرتبہ مرزا صاحب سے سوال کیا کہ دنیا واجب الوجود ہے یاممکن الوجود۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہ ظہورِ رَبِّی ہے۔ مَیں نے کہا کہ ظہور کتنی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ذہنی اور ایک خارجی۔ ذہنی کی مثال دی کہ کسی نے نظم بنا دی۔ کسی نے برتن بنا دیا۔ کسی نے نقش بنا دیا۔ خارجی یہ کہ مادہ سے کوئی چیز لے کر دوسری شکل بنا دینا۔
ایک دفعہ مَیں نے سوال کیا تھا کہ ارواح ایک دفعہ ہی پیدا کردی گئی تھیں یا مختلف وقتوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا جواب مجھے یاد نہیں رہا۔ اسی طرح ایک دفعہ مَیں نے سوال کیا کہ اگر تمام ارواح مکتی پائینگی۔ تو خدا کا خزانہ خالی ہو جائے گا۔ تو پھر خدا بے کار بیٹھے گا؟
اسی طرح ایک اور سوال کیا کہ خدا قادر ہے۔ کیا وہ کوئی اور خدا پیدا کر سکتا ہے۔ جواب فرمایا ’’نہیں‘‘ مَیں نے کہا۔ تب خدا کی قادریت ٹوٹ جاتی ہے۔ فرمایا۔ نہیں۔ کیونکہ اس کی صفت وَحْدَہٗ لَاشَرِیک کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ نہیں ہو سکتا۔
مرزا صاحب شرکاء کو ذلیل کرنا نہ چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی بُرائی چاہتے تھے۔ شرکاء گھر میں بھی مرزا صاحب کی عزت کرتے تھے۔
بحث کے متعلق جو مَیں آپ سے کبھی کبھی سوالاً جواباً کیا کرتا تھا۔ فرمایا۔ کہ دو خطوط متوازی لیں خواہ ان کو کتنی دور تک بڑھاتے چلے جائو وہ کبھی نہ ملیں گے۔ اسی طرح بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب منطق بھی جانتے تھے اور سکول میں کوئی جماعت نہ پڑھے ہوئے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو نہ کبھی بد نظری کرتے دیکھا اور نہ سُنا۔ بلکہ وہ بدنظری کو ناپسند فرماتے اور دوسروں کو روکتے تھے۔ ہمیشہ ادب کا لحاظ رکھتے تھے اور زائرین کی عزت و تکریم کرتے تھے۔ جب کبھی کوئی چیز منگواتے ،پیسے پہلے دیا کرتے تھے۔ مرزا صاحب چشم پوش تھے۔ کبھی کسی میلہ یا تماشہ یا کسی اور مجلس میں نہ جایا کرتے۔ بلکہ ان کے بیٹے شرم کی وجہ سے آپ کے پاس نہ آتے تھے۔ نوکروں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتے تھے۔ ان دنوں مرزا صاحب اکیلے صبح سویرے اور شام کو سیر کو جایا کرتے تھے۔ مَیں نے ان کو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتے دیکھا ہے۔ گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی۔ اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے۔ صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے۔ اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگر اکیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے ۔ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے۔ قمار بازی میں مشغول رہتے تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کم تھی۔ ان دنوں بڈھا فقیر چور مشہور تھا اور نہالہ برہمن اور خوشحال چند۔یہ دونوں مقدمہ باز مشہور تھے۔ نہالہ برہمن نے اپنی دونوں لڑکیاں چوری کے الزام میں قید کروادی تھیں۔ خوشحال چند پٹواری رشوت کے الزام میں قید ہو گیا تھا۔ ان دنوں نیکی۔ تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی مسلمانوں میں مشہورتھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنجوقت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا صاحب گوشہ نشین تھے۔ ہمیشہ مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ کتب کی تصانیف اور اخبار کے مضامین بھی تحریر فرماتے تھے۔ میرے ساتھ مرزا صاحب کے تعلقات دوستانہ تھے۔ آپ بڑے خندہ پیشانی سے ملنے والے۔ خوش خلق۔ حلیم الطبع۔ منکسرالمزاج تھے۔ تکبّر کرنا نہ آتا تھا۔ طبیعت نرم تھی۔ خاندان کے دوسرے افراد طبیعت کے سخت اور تند تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہ تھا۔ نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے۔ تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا کمال الدین تارک الدنیا تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین میں تمام دُنیا کے عیب تھے۔ میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی کوئی عیب نہیں کیا اور نہ کبھی مَیں نے اس وقت سُنا تھا۔ صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا۔ یہ عیب ہے ۔اس کے سوا مَیں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سُنا ہے۔
مرزا صاحب خوش شکل جوان تھے۔ خوبصورت اور میانہ قد کے تھے۔ سر پر پٹے تھے۔ مرزا صاحب بوقت کلام تھوڑا سا رُک جاتے تھے۔ یعنی معمولی سی لکنت تھی۔ مگر کلام کے سلسلہ میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ اور آپ کا رُکنا غیر موزوں نہ تھا۔ تحریر میں زبردست روانی تھی۔ صاحب قلم اور سلطان القلم تھے۔ کلام پُر تاثیر تھی۔ پیشانی کشادہ تھی۔ داڑھی چار انگشت کے قریب لمبی تھی۔ سر پر کبھی ٹوپی نہ پہنتے تھے۔ ہاں سفید پگڑی یا لنگی پہنتے تھے۔ چوغہ پہنتے تھے۔ اور گرارہ (یعنی غرارہ) بھی پہنتے تھے۔ تہہ بند بہت کم نہانے کے وقت پہنتے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو کبھی ننگے نہیں دیکھا۔ تین کپڑے ہمیشہ بدن پر رکھتے تھے مسجد میں چوغہ پہن کر آتے تھے۔ گھر کی ضروریات کا انتظام نہ خود کرتے تھے اور نہ دخل دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمد یا ان کے بھائی وغیرہ کرتے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو کبھی بیوی کا زیور یا کپڑے بنواتے یا منگواتے نہ دیکھا نہ سُنا ہے۔ کپڑا ہمیشہ سادہ موسم کے لحاظ سے ہوا کرتا تھا۔ سردی میں کبھی سیاہ رنگ کا چوغہ استعمال کرتے تھے۔ سردی میں موزے پہنتے تھے۔ انگریزی جوتی نہ پہنتے تھے۔ بلکہ دیسی جوتی ہی استعمال کرتے تھے۔ جس کمرہ میں آپ رہتے تھے۔ اسی میں کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک گھڑا پانی کا پاس ہوتا تھا۔ رہائش کے کمرہ میں ایک دری ہوتی تھی۔ صرف ایک چارپائی باہر ہوتی تھی۔ میں نے مرزا صاحب کو کبھی لیٹے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔
یہاں پنڈت دیوی رام صاحب کا بیان ختم ہوتا ہے۔ اور اس کے نیچے ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ نوٹ درج ہے:۔
’’ سن کر درست تسلیم کیا۔ میں نے مندرجہ بالا بیان خدا کو حاضر و ناظر جان کر درست اور صحیح تحریر کرا دیا ہے۔ اس میں کوئی خلاف واقعہ یا مغالطہ نہیں‘‘۔


خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنڈت دیوی رام صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب موصوف سمجھدار اور فہیم اور صداقت پسند انسان ہیں۔ کیونکہ باریک باریک باتوں کو دیکھا اور یاد رکھا ہے اور بلا خوف اظہار کر دیا ہے۔ اور فی الجملہ ساری روایت بہت صحیح اور درست ہے۔ مگر کہیں کہیں پنڈت صاحب کو خفیف سی غلطی لگ گئی ہے۔ مثلاً عمر کا اندازہ غلط ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو اتنی لمبی روایت میں جو عرصہ دراز کے واقعات پر مشتمل ہو۔ خفیف غلطی روایت کے وزن کو بڑھانے والی ہوتی ہے نہ کہ کم کرنے والی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیان ۱۹۳۵ء میں لکھا گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت جو ۱۹۳۹ء ہے پنڈت صاحب زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں۔ روایت واقعی خوب ہے۔
{ 760} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا۔ مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے۔ مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں۔ اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں۔ نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 761} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں شروع شروع میں سکھ مذہب کو ترک کرکے مسلمان ہوا۔ اور یہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے۔ تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے سپرد فرمایا تھا۔ اور مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے دینی تعلیم دیں اور خیال رکھیں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے پڑھانا شروع کر دیا۔ اور حضرت صاحب کے ارشاد کی وجہ سے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر گھر میں کھانا کھلایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد مَیں نے عرض کیا کہ آپ کو میرے آنے کی وجہ سے پردہ کی تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے اجازت دیں کہ مَیں لنگر میں کھانا شروع کردوں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔ نہیں ہمیں کوئی تکلیف نہیں۔ پھر جب میں نے اصرار کیا۔ تو فرمایا۔ تمہیں یاد نہیں؟ حضرت صاحب نے مجھے تمہارے متعلق کس طرح تاکید کی تھی۔ اب دیکھنا مجھے گناہ نہ ہو۔ مَیں نے کہا نہیں گناہ نہیں ہوتا۔ مَیں خود خوشی سے لنگر میں کھانا کھانا چاہتا ہوں۔ اس پر آپ نے مجھے اجازت دیدی۔ پھر جب کچھ عرصہ بعد میرا وقت مدرسہ میں لگ گیا۔ اور مجھے کچھ معاوضہ ملنے لگا۔ تو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا۔ کہ آپ مجھے اجازت دیں۔ کہ مَیں اپنے کھانے کا الگ انتظام کرلوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ نہیں آپ لنگر سے کھاتے رہیں اور جو آمد ہوتی ہے۔ اسے اپنی دوسری ضروریات میں خرچ کر لیا کریں۔ مگر میرے اصرار پر فرمایا۔ کہ اچھا آپ کو اصرار ہے تو ایسا کر لیں۔ گو ہماری خوشی تو یہی تھی کہ آپ لنگر سے کھانا کھاتے رہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی صاحب موصوف مدرسہ میں ایک لمبی ملازمت کے بعد اب پنشن پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اور کچھ عرصہ نواب محمد علی خانصاحب کے پاس بھی ملازم رہے ہیں۔ بہت نیک اور صالح بزرگ ہیں۔
{ 762} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں مسلمان ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد جبکہ مَیں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پائوں دبا رہا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ تم شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ مَیں نے کہا۔ حضرت میری تو کوئی گذارہ کی صورت نہیں ہے۔ مَیں شادی کیسے کروں۔ اور مَیں ابھی پڑھتا بھی ہوں۔ فرمایا نہیں تم شادی کر لو۔ خدا رازق ہے۔ مَیں نے شرماتے ہوئے کہا۔ کہاں کر لوں؟ فرمایا کہ جو مرزا افضل بیگ قصور والے کی بہن بیوہ ہوئی ہے اس سے کر لو۔مَیں نے عرض کیا۔ حضرت وہ تو بیوہ ہے۔ فرمایا۔ تو کیا ہرج ہے۔ ابھی اس کی عمر زیادہ نہیں۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی بیوہ عورتوں سے شادی کی ہے۔ مگر مجھے دل میں انقباض تھا۔ آخر حضرت صاحب کا اصرار دیکھ کر میں راضی ہو گیا۔ اور خدا کے فضل سے میں نے اس شادی سے ایسا سُکھ پایا کہ شاید ہی کسی نے پایا ہو گا۔
{ 763} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ انگلستان نے مجھے ایک مضمون لکھ کر لندن سے ارسال کیا تھا۔ اس مضمون میں وہ حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’ الفضل مورخہ ۱۱؍ جون ۱۹۳۳ء میں سید احمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے متعلق بہت سے مفید حوالے جمع کئے ہیں اور مکرمی مولوی اللہ دتا صاحب نے اپنی کتاب تفہیماتِ ربّانیہ میں ص۱۰۰ سے ص۱۱۲ تک آپ کی عمر کے متعلق عالمانہ بحث کی ہے۔ لیکن دونوں صاحبوں نے دراصل مخالفین کے اعتراضات کو مدّنظر رکھا ہے۔ سیّد صاحب نے اہلحدیث مجریہ ۲۶؍ مئی ۱۹۳۳ء اور مولوی صاحب نے عشرہ کاملہ کا جواب دیا ہے۔ میرے نزدیک آپ کی عمر کا سوال ایسا ہے کہ اُسے مستقل حیثیت سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
عمر کے متعلق الہامات:۔ الہام ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْنَزِیْدُ عَلَیْہِ سَنِیْنًا وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا (اربعین نمبر ۳ طبع دوم صفحہ ۲۶۔ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ طبع دوم صفحہ۲۹) اور الہام وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ (ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اول صفحہ ۶۳۵۔۶۳۴) کا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل الفاظ میںبیان فرمایا ہے:۔
’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو ۷۴ اور ۸۶ کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۹۷) پس اگر آپ کی عمر شمسی یا قمری حساب سے اس کے اندر اندر ثابت ہو جائے تو یہ الہامات پورے ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء و ۱۸۲۲ء کے اندر ثابت ہو جائے۔ تو کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ پیدائش کا تعیّن :۔ یقیناً ہماری طرف سے جو کچھ اس بارہ میں لکھا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے الہامات پورے ہو گئے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعیّن ایک بالکل الگ سوال ہے۔ اس لئے دیکھنا چاہئے کہ ان الہامی حدود کے اندر اندر بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معیّن کی جا سکتی ہے۔
یہ یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی کیونکہ حضور فرماتے ہیں:۔ ’’عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳)
اسی طرح غالباً ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کوئی یاد داشت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کی عمر کے لکھنے کا کوئی طریق نہ تھا۔ ایسی صورت میں اصل تاریخ پیدائش کا فیصلہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو کسی کے پاس کوئی ایسی مستند تحریر مل جائے۔ جس میں تاریخ پرانے زمانہ کی لکھی ہوئی ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخالفین کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ زیادہ میلان کس سن کی طرف ہے۔
پیشتر اس کے کہ مختلف تحریرات پر اس طرح نظر ڈالی جائے۔ دو تین امور قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی مندرجہ ذیل تحریر سے ’’مجھے دکھلائو کہ آتھم کہاں ہے اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ۳) یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آتھم ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو مرا تھا۔ (انجام آتھم صفحہ ۱) اس لئے آپ کی عمر ۷۶ سال ہوئی۔ درست نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں اپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے وہ ایسا نہیں کہ صرف اسی حوالہ کو لے کر نتیجہ نکالا جائے۔ آتھم کے مقابلہ میں جس امر پر آپ زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ ہم دونوں پر قانونِ قدرت یکساں مؤثر ہے ‘‘۔ (اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیہ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ئ)
پھر فرماتے ہیں۔ ’’ ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانونِ قدرت کے نیچے ہیں‘‘۔ (اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ) عمر کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے۔ وہ اس طرح ہے۔ ’’ اگر آتھم صاحب ۶۴ برس کے ہیں تو یہ عاجز قریباً ۶۰ برس کا ہے‘‘۔ (اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیہ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ئ)
پھر فرماتے ہیں۔ ’’ اور بار بار کہتے ہیں (یعنی آتھم صاحب) کہ میری عمر قریب ۶۴ یا ۶۸ برس کی ہے ۔۔۔ دیکھو میری عمر بھی تو قریب ۶۰ برس کے ہے‘‘۔ (اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ) پھر فرماتے ہیں۔ ’’ آپ لکھتے ہیں کہ قریب ۷۰ برس کی میری عمر ہے۔ اور پہلے آپ اس سے اسی سال کے کسی پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر ۶۴ برس کے قریب ہے۔ پس مَیں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ۔ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں۔ کہ شاید مَیں فوت نہ ہو جائوں۔ مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ ۶۴ برس کے ہیں۔ تو میری عمر بھی قریباً ۶۰ برس کے ہو چکی ہے‘‘۔
(اشتہار انعامی ۳ ہزار روپیہ مورخہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۶ئ)
پس ان واضح تحریروں کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر آتھم کے بالکل برابر نہیں قرار دی جا سکتی۔ بلکہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں۔ ’’ بہتیرے سو سو برس زندہ رہتے ہیں مگر عبداللہ آتھم کی جیسا کہ ’’نور افشاں‘‘ میں لکھا گیا ہے صرف اب تک ۶۴ برس کی عمر ہے جو میری عمر سے صرف چھ یا سات برس زیادہ ہے۔ ہاں اگر مسیح کی قدرت پر بھروسہ نہیں رہا۔۔۔۔۔ مرنے کا قانونِ قدرت ہر ایک کے لئے مساوی ہے۔ جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں۔ ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون و فساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں۔ ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں‘‘ ۔
(انوارالاسلام حاشیہ صفحہ۳۶۔۳۷)
پس مَیں سمجھتا ہوں۔ کہ آتھم کے مقابلہ میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک موٹا دہاکوں کا اندازہ ہے۔ اصل غرض آپ کی عمر کو معیّن کرنا نہیں۔ بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ زندہ رکھنا اور مارنا خدا کے اختیار میں ہے اور قانونِ قدرت کے اثر کے لحاظ سے دونوں کی عمروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
دوسرا امر جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’ جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی۔ تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ ۶۸ و براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۰۵ اور آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۴۸)
لیکن جہاں تک مجھے علم ہے آپ نے یہ کہیں نہیں فرمایا‘‘۔ سب سے پہلا الہام قریباً ۳۵ برس سے ہو چکا ہے‘‘۔ یہ اندازہ لگانا کہ چونکہ اربعین ۱۹۰۰ء میں تالیف ہوئی۔ اس لئے آپ کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ثابت ہوئی۔ درست نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا۔ کہ ثَمَانِیْنَ حَوْلًا والا الہام سب سے پہلا الہام ہے اور نہ یہ کہ سب سے پہلا الہام۔۔۔۔۔ چالیس برس کی عمر میں ہوا۔
تیسرا امر یہ ہے کہ ایک کتاب کی کسی عبارت کو اس کتاب کی تاریخ اشاعت سے ملا کر نتیجہ نکالتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عبارت کے لکھے جانے کی تاریخ اور کتاب کی تاریخ اشاعت میں بہت بڑا فرق ممکن ہے۔ مثلاً نزول المسیح اگست ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی ہے لیکن اس کا صفحہ ۱۱۷۔ اگست ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا۔ جیسا کہ اسی صفحہ پر لکھا ہے ’’آج تک جو ۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء ہے‘‘۔ البتہ اشتہارات اور ماہواری رسائل کی صورت اور ہے ان کی تاریخ اشاعت پر نتیجہ نکالنے میں غلطی کا کم احتمال ہے۔ حقیقۃ الوحی ایک ضخیم کتاب ہے اس کے صفحہ ۲۰۱ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر اس وقت ۶۸ سال کی ہے ‘‘۔ یہاں ظاہر ہے کہ لفظ ’’ اس وقت‘‘ سے کتاب کی تاریخ اشاعت فرض کر لینا نہایت غلط ہو گا۔ کیونکہ اشاعت کی تحریر ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء کتاب پر لکھی ہوئی ہے۔
چوتھی بات قابلِ غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر شمسی حساب مدّنظر رکھتے تھے یا قمری۔ سو اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ عام طور پر آپ کا طریق اپنی تصانیف اشتہارات اور خطوط میں ملک کے رواج کے مطابق شمسی حساب اور تاریخ کا شمار تھا۔ گو قمری سَن بھی کہیں کہیں درج کیا گیا ہے۔ مگر کثرت سے عموماً شمسی طریق کو ہی آپ مدّنظر رکھتے تھے۔ اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا اندازہ بیان فرمایا ہے۔ وہاں شمسی سال ہی مراد لئے جائینگے قمری نہیں۔ خواہ کہیں کہیں قمری سَن بھی آپ نے بیان فرما دیا ہے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’جب میری عمر ۴۰ برس تک پہنچی تو خداتعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا‘‘۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ ’’ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں خدا تعالیٰ کیطرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) گویا کہ ۱۲۹۰ھ میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی۔ آپ کی وفات ۱۳۲۶ء میں ہوئی۔ گویا قمری حساب سے پورے ۳۶ برس آپ شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے ممتاز رہے اور شمسی حساب سے ۳۵ سال۔ اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۳ء ثابت ہوئی۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۹۷ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر ۷۰ برس کے قریب ہے ‘‘۔ یہ کتاب اندرونی شہادت سے ثابت ہے۔ کہ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی۔ (سیّد احمد علی صاحب نے جو حوالہ اس ضمن میں دیا ہے وہ درست نہیں۔ گو دُوسرے مقامات سے یہ ثابت ہے) اس لئے آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء معلوم ہوئی۔
ریویو بابت نومبر، دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۷۹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر ۷۰ سال کے قریب ہے۔ حالانکہ ڈوئی صرف ۵۵ سال کی عمر کا ہے۔‘‘ اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۷۱ پر فرماتے ہیں۔ ’’ میری طرف سے ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا۔جس میں یہ فقرہ ہے کہ ’’ مَیں عمر میں ۷۰ برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے‘‘۔
ان دونوں حوالوں سے نتیجہ نکالتے وقت ایک تیسرا حوالہ بھی جو اسی کے متعلق ہے۔ مگر کچھ پہلے کا ہے۔ مدّنظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے ’’ میری عمر غالباً ۶۶ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے‘‘۔ (ریویو اردو ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ۷۰ برس کے قریب‘‘ سے مراد آپ کی یہ ہے کہ ’’۶۶ سال سے کچھ زیادہ‘‘ اگر اس وقت آپ کی عمر ۷ ۶سال سمجھی جائے تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء بنی۔
کتاب البریہ سے جو عبارت سیرۃ المہدی حصہ اول میں نقل کی گئی ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری۔ ایک طرف ان کا دُنیا سے اٹھایا جانا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا۔ کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ مکالمات الٰہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۷۰میں آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو ۱۸۷۶ء میں قرار دیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے۔ اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے۔ کہ نزول المسیح صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۸ پر آپ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ آج تک جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے۔ مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو ۲۸ برس ہو چکے ہیں۔‘‘ گویا یہ واقعہ ۱۸۷۴ء کا ہے۔ اس میں سے ۴۰ نکالیں۔ تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۴ء ثابت ہوتی ہے۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ کہ آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء سے پہلے پہلے ہی ہے۔ اس کے بعد یا ۱۸۳۹ء کسی صورت میں بھی صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا۔
کتاب البرّیہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا۔ اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ مَیں نے انکے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا‘‘ اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ ۵۴۳۔۵۴۴ پر بھی آپ یہی فرماتے ہیں۔ ’’ سو اس کے متعلق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۱۶ء کے قریب را جہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگیا تھا(سیرۃ المہدی حصہ اول روایت نمبر۱۲۹) اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ ’’ رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا۔ غلام مرتضیٰ کو واپس بلا لیا۔ اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اُسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہارا جہ کی فوج میں شامل ہو گیا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے۔ کشمیر ۱۸۱۹ء میں فتح ہوا۔ اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے۔ کہ گو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم قادیان میں واپس آ گئے تھے۔ مگر قادیان کے اردگرد کے گائوں ابھی تک نہیں ملے تھے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان میں واپس آئے۔ اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے۔ کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔ سو ہمارے دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۷۵،۱۷۶ حاشیہ)
پشاور ۱۸۲۳ء میں رنجیت سنگھ کے ماتحت آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصائب کا سلسلہ گو ختم ہو گیا تھا مگر ابھی فراخی نہیں شروع ہوئی تھی۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو اکثر فوجی خدمات پر باہر رہنا پڑتا ہو گا اور گھر کا گزارہ تنگی ترشی سے ہوتا ہو گا۔ حتیّٰ کہ غالباً ۱۸۳۳ء کے قریب انہوں نے کشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔ جس کی طرف آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی صفحہ۵۴۳ میں اشارہ کیا گیا ہے اور غالباً ۳۴۔۱۸۳۳ء میں رنجیت سنگھ نے اپنے مرنے سے پانچ سال پہلے قادیان کے اردگرد کے پانچ گائوں ان کی جدّی جاگیر کے ان کو واپس کر دئیے۔ اس وقت وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات بھی کر چکے تھے۔ اور ان کا حق بھی ایک طرح دوبارہ قائم ہو گیا تھا۔ پس اس حساب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۳۴۔ ۱۸۳۳ء کے قریب ماننی پڑتی ہے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکھرام کا جو حوالہ سیّد احمد علی صاحب نے درج کیا ہے۔ اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۶ء بنتی ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے حوالوں سے ۱۸۲۹ء اور ۱۸۳۳ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کا علم ہونا چاہئے۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا ہے۔ ان کے اشاعت السنہ ۱۸۹۳ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش ۱۸۳۰ء کے قریب بنتی ہے۔
غرض ۱۸۳۶ء انتہائی حد ہے۔ اس کے بعد کا کوئی سن ولادت تجویز نہیں کیا جا سکتا ۔بحیثیت مجموعی زیادہ تر میلان ۱۸۳۳ء اور ۱۸۳۴ء کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ شرف مکالمہ مخاطبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ معین ہیں۔ اور یہ واقعی ایک اہم واقعہ ہے۔ جس پر تاریخ پیدائش کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ۱۲۹۰ھ ایک تاریخ ہے اور اس حساب سے ۱۸۳۳ء کی پیدائش ثابت ہوتی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ آپ کے والد ماجد کے انتقال کا ہے۔ انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے متعلق جو رائے ہے وہ بھی زیادہ وزن دار سمجھنی چاہئے۔ سو اس کے متعلق آپ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ اور اپنے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۴ء میں معین فرما دی۔ خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ ۳۴۔۱۸۳۳ء صحیح ولادت قرار دیا جا سکتا ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالصَّواب‘‘ اس جگہ درد صاحب کا مضمون ختم ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ لندن نے یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر اور تاریخ پیدائش کی تعیین کے متعلق لند ن سے ارسال کیا تھا اور یہ مضمون اخبار الفضل ۳۔ستمبر ۱۹۳۳ء میں شائع ہو چکا ہے۔ مضمون بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہوا ہے مگر جیسا کہ میں روایت نمبر ۶۱۳ میں لکھ چکا ہوں مجھے اس تحقیق سے اختلاف ہے کیونکہ میری تحقیق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۱۳؍فروری ۱۸۳۵؁ء بنتی ہے۔ اور درد صاحب نے جو ہمارے دادا صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴؁ء لکھی ہے۔ یہ بھی میری تحقیق میں درست نہیں۔ بلکہ صحیح تاریخ ۱۸۷۶؁ء ہے جیسا کہ حضرت صاحب نے سرکاری ریکارڈ کے حوالہ سے کشف الغطاء میں لکھی ہے۔ لیکن ایسے تحقیقی مضامین میں رائے کا اختلاف بھی بعض لحاظ سے مفید ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اس مضمون کے نتیجے اور اس کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے مَیں نے مکرمی درد صاحب کے اس محققانہ مضمون کو بعینہٖ درج کر دیا ہے۔
{ 764} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً رات کو سونے سے پہلے دبوایا کرتے تھے۔ کبھی خود باہر سے خدام میں سے کسی کو بُلا لیتے تھے۔ مگر اکثر حافظ معین الدین عرف مانا آیا کرتے تھے۔ مَیں بھی سوتے وقت کئی دفعہ دبانے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک دن فرمانے لگے۔ میاں تم نے مدّت سے نہیں دبایا۔ آئو آج ثواب حاصل کر لو۔
{ 765} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات گرمی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُشت پر گرمی دانے نکل آتے تھے تو سہلانے سے اُنکو آرام آتا تھا۔ بعض اوقات فرمایا کرتے۔ کہ میاں ’’جلُون‘‘ کرو۔ جس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ انگلیوں کے پوٹے آہستہ آہستہ اور نرمی سے پشت پر پھیرو۔ یہ آپ کی اصطلاح تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ’’جلون‘‘ ایک پنجابی لفظ ہے جس کے معنی آہستہ آہستہ کھجلانے کے ہیں۔
{ 766} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو دفعہ بیعت کی۔ ایک دفعہ غالباً ۱۸۹۶ء میں مسجد اقصیٰ میں کی تھی۔ اس وقت میرے ساتھ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم نے بیعت کی تھی۔ دوسری دفعہ گھر میں جس دن حضرت ام المؤمنین نے ظاہری بیعت کی اسی دن مَیں نے بھی کی تھی۔ حضرت ام المؤمنین کی بیعت آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر لی تھی۔ باقی تمام مستورات کی صرف زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم قصور کے رہنے والے تھے اور بہت مخلص تھے۔ لاہور کے مشہور ایڈووکیٹ خان بہادر مولوی غلام محی الدین صاحب انہی کے لڑکے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ باپ کے بعد وہ جماعت سے قطع تعلق کر چکے ہیں۔
{ 767} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اتنی بلند تھی کہ اگر کبھی مسجد مبارک کی چھت پر جوش کے ساتھ تقریر فرماتے تو آپ کی آواز باغ میں سُنائی دیتی تھی۔ نیز جب آپ تصنیف فرمایا کرتے تو اکثر اوقات ساتھ ساتھ اونچی آواز میں خاص انداز سے اپنا لکھا ہوا پڑھتے بھی جاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ ابتداء میں بہت آہستہ آواز سے تقریر شروع فرماتے تھے۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ آپ کی آواز بہت بلند ہو جاتی تھی۔ اور باغ سے وہ باغ مراد ہے جو قادیان سے جنوب کی طرف ہے جس کے ساتھ مقبرہ بہشتی واقع ہے اور آپ کا اپنے لکھے ہوئے کو پڑھناگنگنانے کے رنگ میں ہوتا تھا۔
{ 768} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد خاکسار مؤلف کو مخاطب کرکے تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
(ا) سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۷۰میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات کا نقشہ دیتے ہوئے آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت کا زمانہ ۱۸۸۴ء تحریر کیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’حافظ صاحب بلکہ تمام علماء اسلام اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الٰہیہ درج ہیں۔ اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گذر چکے ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیا گیا ہے۔ اور نیز الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا اور امرتسر میں ایک مُہر کن سے کھدوایا گیا تھا وہ انگشتری اب تک موجود ہے۔۔۔۔۔۔ اور جیسا کی انگشتری سے ثابت ہوتا ہے یہ بھی چھبیس برس کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔ حافظ صاحب کی یہ مجال تو نہ ہوئی کہ اس امر کا اظہار کریں۔ جو اکیس سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے۔‘‘ (دیکھو اربعین طبع اوّل مطبوعہ دسمبر ۱۹۰۰ء نمبر ۳ صفحہ ۷۔۸)
اس تصریح کی رو سے اوّل براہین احمدیہ حصہ چہارم کا زمانہ ۱۸۷۹ء چاہئے۔ دوم الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا زمانہ ۱۸۷۴ء چاہئے۔ چنانچہ اس کی تصدیق نزول المسیح صفحہ ۱۱۶ سے بھی ہوتی ہے۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے اپنے والد ماجد کی وفات ۱۸۷۴ء میں قرار دی ہے۔ اور اسی کتاب کے صفحہ۲۰۷ میں ۱۸۷۵ء میں قرار دی ہے۔ اور اسی وقت وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا الہام ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر سیرۃ المہدی میں آپ کی تحقیق سے حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں قرار دی گئی ہے اور براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں قرار دی گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اربعین میں حضرت صاحب نے اشاعت براہین کا زمانہ محض تخمینی طور پر لکھا ہے اور کوئی معیّن سن بیان نہیں کیا یا شاید اس سے براہین کی اشاعت مراد نہ ہو بلکہ محض تصنیف مراد ہو۔ کیونکہ بہرحال یہ یقینی ہے اور خود براہین میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ براہین حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی۔ باقی رہا دادا صاحب کی وفات کی تاریخ اور الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق کا سوال۔ سو بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تحریروں میں ایسا ہی لکھا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دوسری تحریروں سے دادا صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ثابت ہوتی ہے(دیکھو کشف الغطائ) اور چونکہ سرکاری ریکارڈ بھی اسی کا مؤید ہے۔ اس لئے مَیں نے اسے ترجیح دی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی تحریر میں ۱۸۷۴ء حضرت صاحب نے محض یاد کی بناء پر لکھا ہے اس لئے ذہول ہو گیا ہے جیسا کہ تاریخوں کا اختلاف بھی یہی ظا ہر کرتا ہے۔ مگر بہرحال صحیح سن ۱۸۷۶ء ہے۔ اور چونکہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق کا الہام یقینی طور پر دادا صاحب کی وفات سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے متعلق بھی ۱۸۷۶ء کی تاریخ ہی درست سمجھی جائیگی۔ واللّٰہ اَعلم۔
(ب) حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ یہ ان الہاموں سے پہلا الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کی‘‘ (مراد الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق ہے) گویا پہلا الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق قرار دیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۹، ۲۱۰)
مگر آپ نے ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ والے الہام کو اول قرار دیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حقیقۃ الوحی کے حوالہ سے یہ مراد ہے کہ یہ الہام وہ پہلا الہام تھا جو مَیں نے پورا ہوتے دیکھا نہ یہ کہ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے یہ پہلا الہام تھا۔ بہرحال جب ایک طرف یہ ثابت ہے کہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق والا الہام ۱۸۷۶ء کا ہے اور دوسری طرف ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا الہام حضرت صاحب نے براہین احمدیہ میں صراحت کے ساتھ ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں نازل ہونا بیان کیا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ یہ الہام پہلے کا ہے اور مَیں اسی کو پہلا الہام سمجھتا رہا ہوں۔ ہاں اب تذکرہ کی اشاعت نے اس معاملہ کو پھر قابلِ تحقیق بنا دیا ہے۔ جہاں نزول المسیح کے حوالہ سے بعض الہاموں کو ۱۸۶۸؁ء سے بھی پہلے کا ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ نزول المسیح کے تاریخی اندازے تخمینی ہیں اور یقینی نہیں کہ صحیح ہوں۔ واللّٰہ اَعْلَم۔
(ج) آپ کی تحقیق سے تصنیف و اشاعت استفتاء و سراج منیر ۹۷ء میں وقوع پذیر ہوئی ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ۵۵ اس امر کا مثبت ہے کہ سراج منیر کی تصنیف مارچ ۸۶ء سے پہلے شروع ہو گئی تھی اور اس اشتہار مورخہ یکم مارچ میں اس رسالہ (سراج منیر) کو قریب الاختتام قرار دے کر صرف چند ہفتوں کا کام باقی رہنا ظاہر کیا گیا ہے۔ اور اگر اشتہار کی طباعت اول کی تاریخ (آخر اشتہار سے) رکھی جاوے تو ۲۰؍فروری ۸۶ء ظاہر ہوتی ہے اور اُسی جگہ اِسی اشتہار کی تاریخ طباعت بار دوم ۱۸۹۳ء ظاہر کی گئی ہے۔ اور اسی اشتہار کی دوبارہ اشاعت پر نوٹ حاشیہ صفحہ ۵۵ پر اس امر کا اظہار ہے کہ اس رسالہ سراج منیر کی تصنیف واقعی پہلے ہو چکی تھی اور اشاعت بے شک بعد میں ہوئی ہے۔ نیز تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۹۴ کے اشتہار سے بھی سراج منیر کی تصنیف پہلے کی ثابت ہے۔ نیز تبلیغ رسالت صفحہ ۱۲۴ حصہ اوّل میں بھی سراج منیر کی اشاعت کو اس لئے ملتوی رکھنا ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ ہنوز بشیر اوّل کے متعلق مفصل علم نہ ہوا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب کا یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ جس سراج منیر کی تصنیف کا ذکر ابتدائی کتابوں اور اشتہاروں میں آتا ہے وہ اور تھی جو طبع نہیں ہوئی۔ اور جو سراج منیر ۱۸۹۷ء میں آکر شائع ہوئی وہ اور ہے چنانچہ خود مؤخرالذکر سراج منیر میں متعدد جگہ اس کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ کتاب ۱۸۹۷ء میں لکھی گئی تھی۔ مثلاً ملاحظہ ہوں صفحہ ۱۷، ۲۱، ۴۸، ۷۴۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب نے اوائل میں ایک کتاب سراج منیر لکھنے کا ارادہ کیا تھا اور غالباً کچھ حصہ لکھا بھی ہو گا۔ مگر وہ طبع نہیں ہوئی۔ اور پھر اس کے بعدآپ نے ۱۸۹۷ء میں ایک اور رسالہ سراج منیر کے نام سے لکھ کر شائع فرما دیا۔ واللّٰہ اعلم۔
(د) آنجناب نے ’’ تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی‘‘ ۱۹۰۷ء میں قرار دی ہے۔ حالانکہ حقیقۃ الوحی ہی کے صفحات صفحہ۶۷، ۳۹۲ و تتمہ صفحہ ۵، ۶، ۲۳، ۲۶، ۳۲ حاشیہ، ۳۳ شروع و صفحہ۳۹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء تصنیف ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ بلکہ یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو حقیقۃ الوحی کاتب نے بھی لکھ لی تھی اور پھر تتمہ حقیقۃ الوحی البتہ جنوری ، فروری، مارچ و اپریل ۱۹۰۷ء میں لکھا گیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ درست ہے کہ حقیقۃ الوحی کا معتدبہ حصہ واقعی ۱۹۰۶ء میں لکھا گیا تھا مگر تصنیف کی تکمیل ۱۹۰۷ء میںہوئی تھی۔ اور میری یہی مراد تھی مگر غلطی سے صرف ۱۹۰۷ء کی طرف ساری کتاب کو منسوب کر دیا گیا۔
{ 769} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۷۰میں سنین کے لحاظ سے جو واقعات درج ہیں۔ ان میں سے بعض میں مجھے اختلاف ہے۔ جو درج ذیل ہے:۔
۱۔ (الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی وفات کی تاریخ ۲۰۔ اگست ۱۸۷۵ء تحریر فرمائی ہے (دیکھو نزول المسیح صفحہ ۲۰۷) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۷۶ء درج ہے۔ پھر ایک اور جگہ حضرت صاحب نے اپنے والد کی وفات جون ۱۸۷۴ء لکھی ہے (نزول المسیح صفحہ۱۱۶)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت صاحب کی تحریر کا اختلاف ظاہر کر رہا ہے کہ آپ نے یہ تاریخیں زبانی یاد داشت پر قیاساً لکھی ہیں۔ مگر مَیں نے جو تاریخ لکھی ہے وہ سرکاری ریکارڈ سے لکھی ہے۔ اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ ۱۸۷۶ء ہی درست ہے۔ اور خود حضرت صاحب کی کتاب کشف الغطاء میں بھی یہ سرکاری حوالہ درج ہے۔
(ب) پھر میر صاحب فرماتے ہیں کہ اسی ضمن میں یہ بھی عرض ہے کہ حضرت صاحب نے نزول المسیح کے صفحہ ۲۳۲ میں جو تاریخ اس خط کی لکھی ہے جو پٹیالہ سے لکھ کر بھیجا گیا تھا وہ ۱۸۸۷ء ہے مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ ۹۲ء کا واقعہ ہے جبکہ ہم پٹیالہ میں تھے اور میاں محمد اسحٰق صاحب دو سال کے تھے ۔ ۸۷ء میں تو وہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اور ہم ۹۱ء میں پٹیالہ تبدیل ہو کر گئے تھے۔ اسی طرح حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۲ میں حضور نے سفر جہلم ۱۹۰۴ء میں لکھا ہے۔ مگر یہ سفر ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارے میں ذہول ہوا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ باتیں میر صاحب نے یونہی ضمناً بیان کر دی ہیں ورنہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۶۷ سے انہیں تعلق نہیں ہے۔
(۲) حضرت صاحب نے اپنے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ۱۸۸۱ء میں لکھی ہے۔(نزول المسیح صفحہ ۲۲۵) اور آپ نے سیرۃ المہدی میں ۸۳ء لکھی ہے۔ اور اسی طرح ایک اور جگہ حضرت صاحب نے ان کی وفات ۸۷ء میں لکھی ہے۔ (نزول المسیح صفحہ ۲۱۷)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا۔ جیسا کہ اختلاف سنین سے ظاہر ہے۔ مگر میرا اندراج سرکاری ریکارڈ پرمبنی ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہی درست ہے۔
(۳) آپ نے سُرخی کے چھینٹوں والا واقعہ سیرۃ المہدی حصہ دوم میں ۱۸۸۴ء میں لکھا ہے مگر حضرت صاحب اس کو تقریباً ۱۸۸۷ء میں لکھتے ہیں۔ (نزول المسیح صفحہ ۲۲۶)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا اندازہ تو بہرحال درست معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صاحب نے بھی اسے یونہی تخمینی رنگ میں لکھا ہے۔البتہ ممکن ہے کہ تذکرہ کا اندراج درست ہو جو ۱۸۸۵ء ہے (دیکھو تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۱۳۱) مگر مجھے ابھی تک اسی طرف میلان ہے کہ یہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔
(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا دہلی کا نکاح ۱۸۸۵ء میں بیان کیا ہے (نزول المسیح صفحہ ۲۰۸) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۸۴ء درج ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے خیال میں ۱۸۸۴ء ہی درست ہے۔ کیونکہ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھے اس کی معین تاریخ بتائی تھی۔ مگر حضرت صاحب نے محض تخمیناً لکھا ہے۔ جیسا کہ نزول المسیح کے اکثر تاریخی اندازے تخمینی ہیں۔
(۵) حضرت صاحب نے مسیح ہونے کا اعلان بجائے ۱۸۹۱ء کے جیسا کہ سیرۃ المہدی میں لکھا گیا ہے ۱۸۹۰ء میں کیا تھا۔ اس کے متعلق میرا ثبوت یہ ہے کہ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۷۹ مکتوب نمبر ۵۷ جو حضرت صاحب نے ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء کو تحریر فرمایا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کئی مولوی مجھے ضال اور جہنّمی کہتے ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہتے ہیں۔ کہ مَیں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اُترنا ثابت کر دونگا۔ پس صرف تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام ہی ۹۰ء میں تصنیف نہیں ہوئی۔ بلکہ اعلان دعویٰ مسیحیّت بھی ۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری مراد اس اعلان سے اشاعت تھی۔ اور چونکہ اس کی تحریری اشاعت بذریعہ رسالہ فتح اسلام ۱۸۹۱ء میں ہوئی تھی۔ اس لئے مَیں نے اسے ۱۸۹۱ء میں رکھا ہے۔ گو یہ درست ہے کہ ویسے زبانی طور پر اور خطوط کے ذریعہ اعلان ۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا۔
(۶) ۱۸۹۱ء کے واقعات میں آپ نے وفات عصمت کے بعد سفر امرتسر نہیں لکھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
(۷) ۱۸۹۱ء میں سفر پٹیالہ کو آپ نے وفات عصمت سے پہلے تحریر فرمایا ہے۔ حالانکہ الٹ لکھنا چاہئے تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا صحیح علم نہیں ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔
(۸)آپ نے ۱۸۹۴ء کے واقعات میں حضرت صاحب کا سفر چھائونی فیروز پور نہیں لکھا۔ حضرت صاحب اس سال ہمارے ہاں ایک دو روز کے لئے تشریف لائے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
(۹) شروع ۱۸۹۵ء میں جب مَیں قادیان مڈل کا امتحان دے کر آیا تھا۔ تو حضرت صاحب نے قریباًتین ماہ مجھے ایک ہزار عربی فقرہ بنا کر یاد کرایا تھا۔ پِیر سراج الحق صاحب میرے ہم سبق تھے۔ مگر حضرت صاحب قریباً بیس فقرے روزانہ مجھے چاشت کے وقت لکھوا دیتے تھے اور دوسرے دن سن لیتے تھے۔ اور پھر لکھوا دیتے تھے۔ آپ نے ان اسباق کا ذکر ۱۸۹۹ء کے واقعات میں کیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم غالباً مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعہ ہوا تھا۔ لیکن چونکہ میر صاحب ۱۸۹۵ء کے متعلق یقین ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے غالباً ایسا ہی ہو گا۔ اور منن الرحمن کی تصنیف کا زمانہ بھی جو ۱۸۹۵ء ہے اسی کی تائید کرتا ہے۔
(۱۰) ۱۸۹۵ء میں آپ نے تصنیف و اشاعت ست بچن اور تصنیف و اشاعت آریہ دھرم کو الگ الگ کرکے لکھا ہے۔ حالانکہ پہلے ایڈیشن میں یہ دونوں کتب اکٹھی ایک جلد میں شائع کی گئی تھیں۔ اور ایک ہی دن ان کی اشاعت ہوئی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں تھا۔
(۱۱) آپ نے ۱۸۹۶ء کے واقعات میں لکھا ہے۔ ’’ تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی۔ نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور۔‘‘ میرے نزدیک یوں چاہئے۔ ’’ تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور ‘‘۔ بس اس سال یہی دو باتیں ہوئیں۔ مضمون قلمی تحریر تھا۔ جو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے آخر دسمبر میں سُنایا۔ جلسہ میں سنانے کے لئے یہ مضمون پِیر سراج الحق صاحب نے خوشخط قلمی لکھا تھا۔ پھر ۱۸۹۷ء میں رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب میں وہ پہلی دفعہ شائع ہوا۔ پس اشاعت ۹۷ء میں ہوئی۔ ہاں اگر جلسہ میں پڑھے جانے سے مراد اشاعت ہے۔ تو ٹھیک ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اشاعت سے میری مراد اس کا پبلک میں پڑھا جانا تھی۔ گو یہ درست ہے کہ اس کی طباعت ۱۸۹۷ء میں ہوئی تھی۔
(۱۲) ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آپ نے جلسہ جوبلی شصت سالہ ملکہ وکٹوریہ کا ذکر نہیں کیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے یہ ذہول ہوا ہے۔ میر صاحب کا بیان درست ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی پر قادیان میں جلسہ ہوا تھا۔
(۱۳) آپ نے ۱۹۰۱ء میں دو ماہ تک مسلسل نمازیں جمع کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی درست ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک نمازیں جمع ہوئی تھیں۔ گو سنہ کے متعلق مجھے کوئی ذاتی علم نہیں تھا۔ مگر اب مَیں نے دیکھ لیا ہے کہ یہی سنہ درست ہے۔
(۱۴) ۱۹۰۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللّٰہ بنصرہ العزیز کے نکاح و شادی کا ذکر ہے۔ مَیں دونوں موقعوں پر شریک تھا۔ نکاح کے لئے ہم رڑکی گئے تھے۔ اور رخصتانہ کے لئے ہم ایک لمبے عرصہ کے بعد آگرہ میں گئے تھے۔ یہ یاد نہیں۔ کہ یہ ایک سال کے ہی دو واقعات ہیں یا کہ سنہ بدل جاتا ہے۔
(۱۵) ۱۹۰۶ء میں وفات نصیر احمد کا ذکر نہیں کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر سہواً رہ گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا بچہ نصیر احمد ۱۹۰۶ء میں پیدا ہو کر اسی سال کے دوران میں فوت ہو گیا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میر صاحب نے جو نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۶۷ کے متعلق لکھا ہے اس کے علاوہ اسی روایت کے متعلق ایک نوٹ مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد کا بھی روایت نمبر ۷۶۸ میں گذر چکا ہے۔ نیز خاکسار اپنی طرف سے عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۵ء میں شہب آسمانی کے گرنے کا واقعہ بھی قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۴ء میں کسوف خسوف کا واقعہ قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۲ء میں نکاح محمدی بیگم ہمراہ مرزا سلطان محمد بیگ اور آغاز میعاد پیشگوئی قابل ذکر ہے اور ۱۹۰۱ء میں تصنیف و اشاعت اشتہار ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ کا اندراج ہونا چاہئے۔
{ 770} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد طفیل صاحب ساکن دھرم سالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ان سے لالہ ڈھیرو مل صاحب گھڑی ساز نے بذریعہ تحریر بیان کیا تھا۔ کہ:۔
’’مجھے ایک واقعہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی صداقت کا یاد ہے جو کہ میرے دوست پنڈت مُولا رام صاحب ہیڈ کلرک ڈسٹرکٹ بورڈ دھرمسالہ نے جو کہ ہوشیارپور کا رہنے والا تھا، مجھ سے ذکر کیا تھا۔ پنڈت صاحب موصوف کا میرے ساتھ دوستانہ سلوک تھا۔ وہ ہر بات جو قابلِ ذکر ہوتی تھی۔ میرے ساتھ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو زلزلہ آیا۔ جس سے دھرم سالہ وکانگڑہ تباہ ہوا تھا۔ وہ زلزلہ ۶ بجکر ۴ منٹ پر ہوا تھا۔ زلزلہ ہونے سے ۵ منٹ پیشتر پنڈت مولا رام صاحب نے میرے ساتھ ذکر کیا تھا۔ کہ کل شام کا مرزا صاحب موصوف کا خط آیا ہوا ہے۔ رات کو مَیں پڑھ نہ سکا۔ ابھی پڑھ رہا ہوں۔ مرزا صاحب کی تحریر زیادہ دلچسپ ہوتی ہے اور علمی ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ اور توجہ سے پڑھا کرتا ہوں۔ اور جب کبھی کسی امر کے متعلق کوئی سوال مجھے درپیش ہوتا ہے تو مَیں مرزا صاحب کی خدمت میں لکھدیا کرتا ہوں۔ ان کی طرف سے مجھے ایسا جواب آتا ہے کہ اس کے پڑھنے سے میرے تمام شکوک دُور ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آج بھی میرے ایک سوال کا جواب مرزا صاحب موصوف کی طرف سے آیا ہے اور مَیں اس کو پڑھ رہا تھا۔ کہ زلزلہ آ گیا۔ میں خط پڑھتے پڑھتے اپنے مکان سے باہر نکل آیا۔ اور مرزا صاحب کے خط کی بدولت میری جان بچ گئی۔ چنانچہ جس وقت مَیں نے پنڈت صاحب موصوف کو باہر دیکھا۔ مرزا صاحب کا خط ان کے ہاتھ میں تھا۔ یہ ذکر پنڈت صاحب نے مجھ سے کیا جو کہ بالکل صحیح ہے اور ساتھ ہی مَیں بھی اس بات پر اعتقاد رکھتا ہوں۔ کہ جو کلام مرزا غلام احمد صاحب کرتے تھے۔ وہ خدا سے علم پا کر کرتے تھے۔ اور آپ واقعی خدا رسیدہ انسان تھے۔ لہذا یہ سچے کلمات محمد طفیل و محمد حسین ٹیلر ماسٹر جن کا تعلق جماعت احمدیہ قادیان سے ہے۔ ان کی خواہش پر قلمبند کرتا ہوں۔
کاتب محمد طفیل احمدی دھرم سالہ
(دستخط) لالہ ڈھیرو مل گھڑی ساز بقلم خود مورخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جس کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۳۵میں ماسٹر نذیر خان صاحب کی زبانی ہو چکا ہے۔ یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے پنڈت مولا رام صاحب کو اپریل ۱۹۰۵ء میں ایک خط لکھا تھا۔ جس میں یہ تحریر فرمایا تھا۔ کہ خدا کا عذاب بالکل سر پر ہے اور گھنٹوں اور منٹوں اور سیکنڈوں میں آنے والا ہے اور لطف یہ ہے کہ پنڈت صاحب اس خط کو پڑھ ہی رہے تھے یا پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء والا زلزلہ آ گیا جس نے ضلع کانگڑہ میں خطرناک تباہی مچائی اور ہزاروں انسان ہلاک ہو گئے اور لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیداد خاک میں مل گئی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 771} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل و ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ غالباً ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء کا ذکر ہے۔ خاکسار راقم تحصیل دار بندوبست کے سرشتہ میں بطور محرر کام کرتا تھا۔ چونکہ بندوبست کا ابتداء تھا اور عملہ بندوبست ابھی تھوڑا آیا ہوا تھا۔ تحصیلدار بندوبست صرف دو ہی آئے ہوئے تھے۔ اس لئے دو تحصیلوں کا کام تحصیلدار صاحبان کے سپرد تھا۔ جن تحصیلدار صاحب کے ماتحت خاکسار کام کرتا تھا۔ ان کے سپرد تحصیل بٹالہ اور گورداسپور کا کام تھا۔ تحصیل بٹالہ میں موضع رترچھتر المعروف مکان شریف میں ایک بزرگ حضرت امام علی شاہ صاحب گذرے ہیں۔ دُور دُور تک لوگ ان کے معتقد ہیں۔ اور اکثر دیہات میں آپ کے مریدوں نے بہت کثرت کے ساتھ اپنی اراضیات بزرگ موصوف کے نام منتقل کر دی ہوئی ہیں۔ اس وراثت کے متعلق شاہ صاحب مذکور کی اولاد میں باہمی تنازعہ ہو گیا۔ جناب میر بارک اللہ صاحب جو ان دنوں گدی نشین تھے ۔ وہ ایک خاص حصہ رقبہ میں سے بعض وجوہات کے ماتحت اپنے چھوٹے بھائی میر لطف اللہ شاہ صاحب کو حصہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس پر میر لطف اللہ شاہ صاحب نے تقسیم اراضی کا مقدمہ تحصیلدار بندوبست کے محکمہ میں دائر کر دیا۔ اس مقدمہ کی پَیروی کے لئے دونوں بھائی ہمارے محکمہ میں تاریخ مقررہ پر عموماً آیا کرتے تھے۔ اتفاقاً ایک دن جو جمعہ تھا۔ تحصیلدار صاحب کا مقام کوٹ ٹو ڈرمل جو قادیان کے قریب ہے ، ہوا۔ اور اسی دن شاہ صاحبان کی پیشی تھی۔ اس لئے ہر دو صاحبان کوٹ ٹوڈرمل تشریف لائے۔ خاکسار بغرض ادائیگی جمعہ باجازت تحصیلدار صاحب قادیان آیا۔ اور جمعہ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیّت میں پڑھا۔ جمعہ سے فارغ ہو کر جب حضور گھر تشریف لیجا رہے تھے تو ابھی اسی دروازہ میں تھے جس میں بالعموم آپ مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ کہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میر لطف اللہ شاہ مکان شریف والے حضور کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں۔ حضور اجازت فرمائیں تو وہ آئیں ۔ حضور نے اجازت دی۔ اور آپ وہیں مسجد مبارک میں اس دریچہ کے ساتھ جو جانب شمالی گوشہ مغربی سے گلی میں کھلتا ہے۔ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ خاکسار کو بھی حضور کے پاس ہی بیٹھنے کا موقعہ مل گیا۔ میر لطف اللہ شاہ صاحب تشریف لائے اور حضور کے سامنے جنوبی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس وقت مسجد مبارک کوچہ کے بالائی حصہ پر ہی واقعہ تھی اور ابھی اس کی توسیع نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس کا عرض بہت تھوڑا تھا۔ حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ رونق افروز تھے۔ اور شاہ صاحب سامنے جنوبی دیوار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
حضور نے شاہ صاحب سے دریافت فرمایا۔ کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے مقدمہ کا سارا ماجرہ بیان کیا۔ اس سارے طویل قصہ کو سُننے کے بعد حضور نے فرمایا۔ شاہ صاحب جب انسان دنیا کو چھوڑتا ہے اور مولا کریم کی طرف اس کی توجہ مبذول ہو جاتی ہے تو وہ آگے آگے دوڑتا ہے اور دُنیا اس کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہے۔ لیکن جب انسان خدا سے منہ موڑ لیتا ہے اور دنیا کے پیچھے پڑتا ہے۔ تو اس وقت دنیا آگے آگے دوڑتی ہے اور وہ پیچھے پیچھے جاتا ہے۔ مطلب حضور کا یہ تھا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ کے بزرگ دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کے بن گئے تھے۔ تو دنیا کی جائدادیں خودبخود اُن کی طرف آگئیں۔ اور اب آپ نے خُدا سے وہ تعلق قائم نہ رکھا اور انہیں جائدادوں پر گر گئے۔ تو اب وہی جائدادیں آپ کے لئے نصب العین ہو گئی ہیں۔ اور آپ کی ساری توجہ دُنیا طلبی میں صرف ہو رہی ہے۔ مگر پھر بھی جائدادیں ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں۔ اس وقت شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا کی جائے۔ حضور نے دُعا کی اور شاہ صاحب واپس مکان شریف چلے گئے۔ اس وقت مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل بھی وہاں موجود تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ رتر چھتر یعنی مکان شریف ڈیرہ بابا نانک کے قریب ہے اور اس وقت اِس کے گدّی نشین صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سخت مخالف ہیں۔ مگر ان میں سے خدا نے ایک نیک وجود احمدیت کو بھی دے رکھا ہے۔ میری مراد لیفٹیننٹ ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب ہیں۔ جو اسی خاندان میں سے ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں۔
{ 772} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا۔ مصافحہ کیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا۔ جو عام طور پر رائج ہے۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے۔
{ 773} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگرچہ صدقہ اور زکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گذارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تو اس حالت میں اگر کوئی سیّد بھوکا مرتا ہو اور کوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوٰۃ یا صدقہ میں سے دیدیا جائے۔ ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے۔
{ 774} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کے دَوران میں ایک دفعہ مجھے خواب آیا۔ کہ اس پیشگوئی کی میعاد کے مطابق عبداللہ آتھم کے مرنے کا آخری دن یہ ہے۔ خواب میں وہ دن بھی بتایا گیا۔ اس وقت مَیں خواب میں بہت غور سے سورج کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کہیں عبداللہ آتھم کے مرنے سے پہلے سُورج غروب نہ ہو جائے اور خواب میں مَیں نے دیکھا کہ سورج غروب ہونے کے عین قریب ہو گیا۔ اور عبداللہ آتھم کے مرنے کی کوئی خبر نہ آئی۔ پھر مَیں نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَنَۃً پڑھنا شروع کیا۔ مگر سورج غروب ہو گیا اور پھر بھی کوئی خبر نہ آئی۔ اس کے بعد مَیں بیدار ہو گیا۔ اور یہ خواب حضرت صاحب کو سُنایا۔ حضور نے حساب لگا کر فرمایا کہ ہاں آخری دن تو وہی بنتا ہے۔ جو آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا۔ کہ مَیں بھی جب اس کے متعلق دعا کرتا ہوں۔ تو دُعا میں پورے طور پر توجہ قائم نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت آتھم پہلی میعاد میں نہ مرا۔ اور اسے خدائی الہام کے مطابق کہ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ مہلت مل گئی۔
{ 775} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ ابھی چھوٹی مسجد وسیع نہ ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہر یا عصر کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے اوربیٹھ گئے۔ اس وقت ایک مَیں تھا اور ایک اور شخص تھا۔ اس وقت حضور نے فرمایا۔ ’’خداتعالیٰ کے حسن و احسان کا مطالعہ کرنے سے خداتعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حسن سے مراد خداتعالیٰ کے صفات حسنہ ہیں۔ اور احسان سے مراد ان صفاتِ حسنہ کا ظہور ہے یعنی خداتعالیٰ کے وہ انعام و افضال جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کی محبت کے یہی دو بڑے ستون ہیں۔
{ 776} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں تھے کہ مَیں حاضر خدمت ہوا۔ حضور نے فرمایا کہ اس وقت اشتہار طبع کرانے کی ضرورت ہے کیا اس کے لئے آپ کی جماعت ساٹھ روپے کا خرچ برداشت کر لے گی۔ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ اور فوراً کپور تھلہ واپس آ کر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی۔ اور احبابِ جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا۔ اور ساٹھ روپے لے کر میں اُڑ گیا۔ اور لدھیانہ جا کر حضور کے سامنے یہ رقم پیش کر دی۔ چند روز بعد منشی اروڑا صاحب لدھیانہ آ گئے۔ مَیں وہیں تھا۔ ان سے حضور نے ذکر فرمایا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی ہے۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کی کہ حضور نے مجھے یا جماعت کو تو پتہ بھی نہیں۔ حضور کس امداد کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس وقت منشی اروڑا صاحب کو اس بات کا علم ہوا کہ مَیں اپنی طرف سے روپیہ دے آیا ہوں۔ اس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوئے کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتلایا۔ مَیں ثواب سے محروم رہا۔ حضرت صاحب سے بھی عرض کی۔ حضور نے فرمایا۔ منشی صاحب خدمت کرنے کے بہت سے موقعے آئیں گے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔ مگر اس بناء پر منشی صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپور تھلہ کی جماعت ایک خاص جماعت تھی۔ اور نہایت مخلص تھی۔ ان میں سے تین دوست خاص طور پر ممتاز تھے۔ یعنی میاں محمد خان صاحب مرحوم۔ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب۔ اوّل الذکر بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اور ثانی الذکر خلافت ثانیہ میں فوت ہوئے اور مؤخر الذکر ابھی تک زندہ ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں تا دیر سلامت رکھے اور ہر طرح حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم منشی ظفر احمد صاحب کے اس اخلاص کے اظہار میں تین لطافتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو رقم جماعت سے مانگی گئی تھی وہ انہوں نے خود اپنی طرف سے پیش کر دی۔ دوسرے یہ کہ پیش بھی اس طرح کی کہ نقد موجود نہیں تھا تو زیور فروخت کرکے روپیہ حاصل کیا۔ تیسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جتایا تک نہیں کہ مَیں خود اپنی طرف سے زیور بیچ کر لایا ہوں۔ بلکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے رہے کہ جماعت نے چندہ جمع کرکے یہ رقم بھجوائی ہے۔ دوسری طرف منشی اروڑے خاں صاحب کا اخلاص بھی ملاحظہ ہو کہ اس غصہ میں منشی ظفر احمد صاحب سے چھ ماہ ناراض رہے کہ اس خدمت کے موقعہ کی اطلاع مجھے کیوں نہیں دی۔ یہ نظارے کس درجہ روح پرور ،کس درجہ ایمان افروز ہیں۔ اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درود اور لاکھ لاکھ سلام ہو کہ تیرا ثمر کیسا شیریں ہے۔ اور اے محمدی مسیح کے حلقہ بگوشو! تم پر خدا کی لاکھ لاکھ رحمتیں ہوں کہ تم نے اپنے عہد اخلاص و وفا کو کس خوبصورتی اور جاں نثاری کے ساتھ نبھایا ہے۔
{ 777} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں جب مَیں قادیان جاتا تو اس کمرے میں ٹھہرتا تھا۔ جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس میں سے ہو کر حضرت صاحب مسجد میں تشریف لے جاتے تھے ایک دفعہ ایک مولوی جو ذی علم شخص تھا۔ قادیان آیا۔ بارہ نمبردار اس کے ساتھ تھے۔ وہ مناظرہ وغیرہ نہیں کرتا تھا بلکہ صرف حالات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ ایک مرتبہ رات کو تنہائی میں وہ میرے پاس اس کمرہ میں آیا۔ اور کہا کہ ایک بات مجھے بتائیں کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا۔ ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہونگے۔ اور وہ وقت رات کا ہی ہو سکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں۔ مَیں نے کہا مولوی محمد چراغ اور مولوی معین الدین ضرور آپ کے پاس رات کو رہتے ہیں۔ یہ علماء رات کو ضرور امداد کرتے ہیں۔ حضرت صاحب کو میری یہ آواز پہنچ گئی۔ اور حضور اندر بہت ہنسے۔ حتی کہ مجھ تک آپ کی ہنسی کی آواز آئی۔ اس کے بعد مولوی مذکور اُٹھ کر چلا گیا۔اگلے روز جب مسجد میں بعد عصر حسب معمول حضور بیٹھے تو وہ مولوی بھی موجود تھا۔ حضور میری طرف دیکھ کر خودبخود ہی مسکرائے اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ ’’ اُن علماء کو اِنہیں دکھلا بھی تو دو‘‘ اور پھر ہنسنے لگے۔ اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ حضور نے سُنایا اور وہ بھی ہنسنے لگے۔ میں نے چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا۔ چراغ ایک بافندہ اَن پڑھ حضرت صاحب کا نوکر تھا۔ اور معین الدین صاحب ان پڑھ نابینا تھے۔ جو حضرت صاحب کے پَیر دبایا کرتے تھے۔ وہ شخص ان دونوں کو دیکھ کر چلا گیا۔ اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر آیا اور حضور سے عرض کیا کہ مجھے بیعت فرما لیں۔ اب کوئی شک و شبہ میرے دل میں نہیں رہا۔ اور اس کے بارہ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بیعت ہو گئے۔ حضرت صاحب نے بیعت اور دعا کے بعد ان مولوی صاحب کو مسکراتے ہوئے فرمایا۔ کہ یہ مٹھائی منشی صاحب کے آگے رکھدو کیونکہ وہی آپ کی ہدایت کا باعث ہوئے ہیں۔
{ 778} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ لاہور میں غالباً وفات سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے دست زیادہ آ گئے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے تین قطرے کلوروڈین کے پی لئے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر رہتی تھی۔ مگر آخری مرض میں جہاں تک مجھے یاد ہے صرف وفات والے دن سے قبل کی رات اسہال لگے تھے۔ مگر ممکن ہے۔ کہ ایک دو روز پہلے بھی معمولی شکایت پیدا ہو کر پھر دب گئی ہو۔
{ 779} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے پِیر منظور محمد صاحب بیان کرتے تھے۔ کہ ایک دن میری مرحومہ اہلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر سے آئیں اور کہنے لگیں کہ آج حضرت صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) کو بلا کر فرمایا۔ ’’ جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گے‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ واقعہ یاد نہیں۔ مگر اس روایت سے مجھے ایک خاص سرور حاصل ہوا ہے کیونکہ مَیں بچپن سے محسوس کرتا آیا ہوں کہ مجھے ناول خوانی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوئی۔ نہ بچپن میں نہ جوانی میں اور نہ اب۔ بلکہ ہمیشہ اس کی طرف سے بے رغبتی رہی ہے حالانکہ نوجوانوں کو اس میں کافی شغف ہوتا ہے اور خاندان میں بھی بعض افراد کبھی کبھی ناول پڑھتے رہے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت صاحب نے کسی کو ناول پڑھتے دیکھا ہوگا۔ یا کسی اور وجہ سے اِدھر توجہ ہوئی ہو گی۔ جس پر بطریق انتباہ مجھے یہ نصیحت فرمائی۔ اور الحمدللہ مَیں حضرت صاحب کی توجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اس لغو فعل سے محفوظ رہا۔
{ 780} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین نے ایک دن سُنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی۔ وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑ رہی تھی۔ حضور کو دبانے بیٹھی۔ چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی۔ اس لئے اُسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو مَیں دبا رہی ہوں۔ وہ حضور کی ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا۔ بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی۔ ’’ ہاں جی تدّے تے تہاڈی لتّاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں ایں۔‘‘ یعنی جی ہاں جبھی تو آج آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تو اس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمہاری حس کمزور ہو رہی ہے اور تمہیں پتہ نہیں لگا کہ کس چیز کو دبا رہی ہو۔ مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھانو مذکورہ قادیان کے ایک قریب کے گائوں بسرا کی رہنے والی تھی۔ اور اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھی مخلصہ اور دیندار تھی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 781} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے کہ کہیں سے ایک بہت بڑا لو ہے چینی کا پیالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا۔ جس کی بڑائی کی وجہ سے معلوم نہیں اہل بیت نے یا خود حضرت صاحب نے اس کا نام کاسۃ المسیح رکھ دیا اور اسی نام سے وہ مدتوں مشہور رہا۔ ان دنوں حضرت صاحب کو کچھ پھنسیوں وغیرہ کی تکلیف جو ہوئی۔ تو آپ نے ایک نسخہ جس میں مُنڈی بُوٹی۔ مہندی۔ عناب۔ شاہترہ۔ چرأتہ اور بہت سی اور مصفّی خون ادویات تھیں اپنے لئے تجویز کیا۔ یہ ادویہ اس ’’کاسۃ المسیح‘‘ میں شام کو بھگوئی جاتیں اور صبح مَل کر اور چھان کر آپ اس کے چند گھونٹ پی لیتے اور دوسروں سے بھی کہتے کہ پیو یہ بہت مفید ہے۔ یہ خاکسار اکثر اس کو اپنی ہاتھ سے تیار کرتا تھا۔ اس لئے تھوڑا سا پی بھی لیتا تھا۔ مگر اس میں بدمزگی۔ ہیک اور تلخی کمال درجہ کی تھی۔ اکثر لوگ تو پینے سے ہی جی چراتے۔ اور جو ایک دفعہ پی لیتے وہ پھر پاس نہ پھٹکتے تھے۔ مگر حضور خود اس کو مدّت تک پیتے رہے۔ بلکہ جسے کوئی تکلیف اس قسم کی سُنتے اسے اس میں سے حصہ دیتے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے یہ خیال کرکے کہ یہ ایک بہت عمدہ دوا ہو گی۔ اسے پینے کی خواہش ظاہر کی۔ جس پر حضرت صاحب نے ان کو چند گھونٹ بھجوا دئیے۔ مگر اس کو چکھ کر مولوی صاحب مرحوم کی حالت بدل گئی اور انہوں نے اپنی فصیح و بلیغ زبان میں اس کی وہ تعریف کی کہ سُننے والے ہنس ہنس کر لوٹ گئے۔ مگر حضور علیہ السلام کی طبیعت ایسی تھی کہ کیسی ہی بدمزہ ،تلخ اور ناگوار دوا ہو۔ آپ کبھی اس کے استعمال سے ہچکچاتے نہ تھے اور بلا تأمّل پی لیتے تھے۔
{ 782} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ عمامہ کا شملہ لمبا چھوڑتے تھے۔ یعنی اتنا لمبا کہ سُرین کے نیچے تک پہنچتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میر صاحب موصوف کی روایت بہت پختہ ہوتی ہے۔ مگر جہاں تک مجھے یاد ہے آ پ کا شملہ بے شک کسی قدر لمبا تو ہوتا تھا مگر اتنا لمبا نہیں ہوتا تھا کہ سُرین سے نیچے تک جا پہنچے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 783} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حسن ظنی کی تاکید میں ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر سُنایا کرتے تھے اور وہ حکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک دفعہ تکبّر سے توبہ کی اور عہد کیا کہ مَیں آئندہ اپنے تئیں سب سے ادنیٰ سمجھا کرونگا۔ ایک دفعہ وہ سفر پر گیا اور ایک دریا کے کنارے پہنچ کر کشتی کی انتظار کرنے لگا۔ اس وقت اس نے کچھ فاصلہ پر دیکھا کہ ایک آدمی اور ایک عورت بیٹھے ہیں۔ اور غالباً وہ بھی کشتی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک بوتل ہے۔ کبھی اس میں سے ایک گھونٹ وہ مرد پی لیتا ہے اور کبھی عورت پیتی ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے دل میں کہا۔ کہ یہ دونوں کس قدر بے حیاء ہیں کہ دریا کے گھاٹ پر لوگوں کے سامنے بے حجاب بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ ان سے تو مَیں بہرحال اچھا ہوں۔ اتنے میں دریا کے پار کی طرف سے کشتی کنارے کے قریب آئی اور لہر کے صدمہ سے الٹ گئی۔ اس میں چھ آدمی تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر وہ عورت کا ساتھی اُٹھا اور دریا میں کود پڑا۔ اور ایک ایک کرکے پانچ آدمیوں کو نکال لایا۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اب آپ بھی اس چھٹے آدمی کو نکالیں یا دور دور بیٹھے دوسروں پر ہی بدظنی کرنا جانتے ہیں۔ سُنئے یہ عورت میری والدہ ہے اور اس بوتل میں پینے کا پانی ہے جو ہم نے سفر میں محفوظ کر رکھا ہے۔ یہ سُن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور بد ظنی سے توبہ کی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی بزرگ ہو گا جسے کشفی صورت میں اس شخص کے اندرونہ کا علم ہو گیا ہو گا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قصہ محض نصیحت اور عبرت کے لئے وضع کیا گیا ہو۔
{ 784} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے خدا پر نیک ظن رکھے۔تمام غلط عقائد کی جڑ اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدَاکُمْ (حٰمٓ السجدہ:۲۴) یعنی اے کافرو! تم نے جو بد ظنی خدا پر کی اسی نے تم کو ہلاک کیا۔ اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ یعنی خدا فرماتا ہے کہ جس طرح میرا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے مَیں اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتا ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث نہایت وسیع المعانی اور لطیف المعانی ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔
{ 785} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا کہ بعض اوقات ہمارے اپنے دو آدمی ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کا آپس میں جھگڑا یا مقدمہ ہوتا ہے۔ اور دونوں نذر دیتے ہیں۔ اور دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ مقدمہ ان کے حق میں فتح ہو۔ ہم دونوں کی نذر قبول کر لیتے ہیں۔ اور خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ان میں سے جو سچا ہو اور جس کا حق ہو اُسے فتح دے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پِیر کا مرید کی نذر ردّ کرنا مرید کے لئے موت سے بڑھ کر ہوتا ہے اس لئے سوائے اس کے کہ کسی پر کوئی خاص ناراضگی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب کی نذر قبول فرما لیتے تھے اور سب کے لئے دعا کرتے تھے اور ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں دعا فائدہ پہنچاتی تھی۔ کسی کو فتح کے رنگ میں اور کسی کو اور رنگ میں۔
{ 786} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں مَیں اور اہلیہ بابو شاہ دین رات کو پہرہ دیتی تھیں۔ اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا۔ کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دینا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوتے سُنے اور آپ کو جگا دیا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ ان ایام میں عام طور پر پہرہ پر مائی فجوّ۔ منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی رسول بی بی صاحبہ میری رضاعی ماں ہیں اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کی بیوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم تھے۔ مولوی عبدالرحمن صاحب ان کے داماد ہیں۔
{ 787} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں قادیان میں تھا اور اُوپر سے رمضان شریف آگیا۔ تو مَیں نے گھر آنے کا ارادہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں سارا رمضان یہیں رہیں۔ مَیں نے عرض کی۔ حضور ایک شرط ہے کہ حضور کے سامنے کا جو کھانا ہو وہ میرے لئے آ جایا کرے۔ آپ نے فرمایا۔ بہت اچھا۔ چنانچہ دونوں وقت حضور برابر اپنے سامنے کا کھانا مجھے بھجواتے رہے۔ دوسرے لوگوں کو بھی یہ خبر ہو گئی اور وہ مجھ سے چھین لیتے تھے۔ یہ کھانا بہت سا ہوتا تھا۔ کیونکہ حضور بہت کم کھاتے تھے۔ اور بیشتر حصہ سامنے سے اسی طرح اٹھ کر آجاتا تھا۔
{ 788} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی کبھی دورانِ سر کی تکلیف ہو جاتی تھی۔ جو بعض اوقات اچانک پیدا ہو جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب گھر میں ایک چارپائی کو کھینچ کر ایک طرف کرنے لگے تو اس وقت آپ کو اچانک چکّر آ گیااور آپ لڑکھڑا کر گرنے کے قریب ہو گئے۔ مگر پھر سنبھل گئے۔ یہ اس صحن کا واقعہ ہے جس میں اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حرم اوّل رہتے ہیں۔
{ 789} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر براہین احمدیہ کی طباعت دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو کتاب کی طباعت کے دیکھنے کے بعد مجھے فرمایا۔ میاں رحیم بخش چلو سیر کر آئیں۔ جب آپ باغ کی سیر کر رہے تھے تو خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت آپ سیر کرتے ہیں۔ ولی لوگ تو سُنا ہے شب و روز عبادتِ الٰہی کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ولی اللہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مجاہدہ کش جیسے حضرت باوا فرید شکر گنج۔ اور دوسرے محدّث جیسے ابوالحسن خرقانی ۔محمد اکرم ملتانی۔ مجدّد الف ثانی وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کے ولی بڑے مرتبہ کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بکثرت کلام کرتا ہے۔ مَیں بھی ان میں سے ہوں۔ اور آپ کا اس وقت محدثیّت کا دعویٰ تھا۔ اور فرماتے تھے کہ محدّث بھی ایک طرح نبی ہوتا ہے۔ اس کی وحی بھی مثل وحی نبی کے ہوتی ہے۔ اور آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطَانُ فِیْ اُمْنِیَّتِہٖ (الحج:۵۳) الخ میں نبی کے ساتھ ایک قرا ء ت میں محدّث کا لفظ بھی آیا ہے۔ اور اس کی وحی محفوظ ہوتی ہے۔ الغرض جب آپ کی یہ کلام خاکسار نے سُنی۔ تو عرض کیا کہ آپ میری بیعت لے لیں۔ آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تھے۔ فرمایا کہ بیعت تو دلی اعتقاد کا نام ہے۔ اگر تمہارا دلی اعتقاد اور پورا ایمان ہے تو تم بیعت میں ہو۔ غرض خاکسار تو اس وقت سے ہی آپ کی بیعت میں تھا۔ پھر جب حضور سے اجازت لے کر طالب علمی کے واسطے ہندوستان گیا۔ اور ایک مدت تک وہاں رہا۔ اور جب کانپور سے آ کر دہلی طب پڑھتا تھا۔ تو حضور دہلی تشریف لے گئے۔ اس وقت میرا آپ پر یہی اعتقاد رہا۔ پھر جب مَیں پنجاب میں آیا۔ تو اپنے والد کو جو بوڑھے تھے۔ بیعت میں داخل کروایا۔ اور بیوی و دیگر رشتہ داروں کی بیعت بھی کروائی اور آپ کے ہر الہام و وحی پر میرا ایمان تھا کہ وہ صادق ہے۔ رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے آپ کو مرتبہ نبوت ملا تھا تا کہ خدمت قرآن اور احیاء اسلام آپ کے ہاتھ سے ہو اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ جو کچھ آپ کا دعویٰ تھا وہ سچ ہے۔ میری پیدائش سمت بکرمی ۱۹۱۴ کی ہے اور ۱۸۵۷ عیسوی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی رحیم بخش صاحب اب کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔ ان کا گائوں تلونڈی جھنگلاں قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے۔ اور خدا کے فضل سے اس گائوں کا بیشتر حصہ احمدی ہے۔
{ 790} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک عرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہوا افریقہ کے بندروں کے اور افریقن لوگوں کے لغو قصے سُنانے لگا۔ حضرت صاحب بیٹھے ہوئے ہنستے رہے۔ آپ نہ تو کبیدہ خاطر ہوئے اور نہ ہی اس کو ان لغو قصوں کے بیان کرنے سے روکا کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کی دلجوئی کے لئے اخیر وقت تک خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔
{ 791} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ علیل تھی۔ مگر جب آپ نے سیر فرماتے وقت دیکھا کہ بہت سے لوگ آ گئے ہیں اور سننے کی خواہش سے آئے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ دوست سُننے کی نیت سے آئے ہیں۔ اس لئے اب اگر کچھ بیان نہ کروں تو گناہ ہو گا۔ لہذا آج کچھ بیان کرونگا۔ اور فرمایا۔ لوگوں میں اطلاع کر دیں۔
{ 792} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ ہم اپنے گائوں میں دو شخص احمدی ہیں۔ کیا ہم جمعہ پڑھ لیا کریں۔ حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کیوں مولوی صاحب؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا۔ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے۔ اور حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دو شخص بھی جماعت ہیں۔ لہذا جائز ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا کہ فقہاء نے کم از کم تین آدمی لکھے ہیں۔ آپ جمعہ پڑھ لیا کریں۔ اور تیسرا آدمی اپنے بیوی و بچوں میں سے شامل کر لیا کریں۔
{ 793} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی۔ اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر رونق افروز تھے۔ مَیں نے عرض کی کہ بعض لوگوں نے میرے سامنے اعتراض کیا تھا کہ پنڈت لیکھرام اور عبداللہ آتھم کی پیشگوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ انسانی دماغ اور منصوبہ کا نتیجہ تھیں۔
میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئیاں ظاہری عوارض اور کمزوریوں کی بناء پر ہوتیں۔ تو حضور اس طرح پیشگوئی کرتے۔ کہ لیکھرام جو جوان اور مضبوط اور تندرست انسان ہے۔ اگر یہ رجوع کر لے تو بچایا جائے گا اور یہ کہ عبداللہ آتھم جو بوڑھا اور عمر رسیدہ ہے یہ بہرحال مرے گا۔ مگر حضور نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان عوارض ظاہری اور تقاضائے عمر کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی کہ لیکھرام اگرچہ نوجوان اور مضبوط ہے مگر وہ مر جائیگا اور عبداللہ آتھم اگرچہ بوڑھا ہے لیکن وہ اگر رجوع کر لے تو بچایا جائے گا۔ اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ واقعی یہ اچھا استدلال ہے پھر فرمایا کہ دراصل پیشگوئی کے اعلان کے بعد عبداللہ آتھم نے جلسہ گاہ مباحثہ میں ہی رجوع کر لیا تھا اور منہ میں انگلی ڈال کر کہا تھا کہ میں نے تو حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کو دجّال نہیں کہا۔ حالانکہ وہ ایسا کہہ چکا تھا۔
{ 794} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ محمد بخش صاحب بھنگالوی مہاجر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ مارچ ۱۹۰۷ء میں مَیں اور مولوی محمد صاحب آف مزنگ لاہور براستہ بٹالہ قادیان پیدل چل کر آئے تھے۔ چونکہ مولوی محمد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بہنوئی اور کڑم (یعنی سمدھی) تھے۔ اس لئے ہم رات کو بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی مسجد میں ٹھہرے۔ مولوی محمد حسین صاحب ہمیں شام کو مسجد میں ملے اور کہا کہ صبح مل کر جانا۔ کیونکہ مَیں نے ایک دو پیغام مرزا صاحب کو بھیجنے ہیں۔ مگر ہم کو نہ تو روٹی کے لئے پوچھا اور نہ ہی رات کو سونے کے لئے کہا۔ چنانچہ ہم شیخ نبی بخش صاحب ٹھیکیدار کے ہاں رات کو ٹھہرے اور صبح بعد نماز فجر جب ہم قادیان کو روانہ ہونے لگے۔ تو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب قادیان والے راستہ کے موڑ تک جو بٹالہ کے بوچڑ خانہ کے نزدیک ہے ہمیں آ کر ملے اور ہمیں یہ دو پیغام دئیے۔
۱۔ مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہو گا۔
۲۔ ایم عبدالرشید کو مرزا صاحب کہہ دیں کہ ان کے والد صاحب کو جو روپیہ میرے پاس جمع ہے وہ حساب کرکے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں۔ باقی جب اس کے بھائی بالغ ہوں گے۔ تو وہ اپنے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں گے۔
ہم بروز جمعہ حضرت صاحب سے بعد نماز جمعہ مسجد مبارک میں ملے اور بعد مصافحہ ہر دو پیغام حضور کی خدمت میں عرض کر دئیے۔ پہلے پیغام کا جواب حضرت صاحب نے یہ دیا۔ کہ امید نہیں کہ اب مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکا پیدا ہو۔ اگر ہو بھی جائے تو میری اور ان کی مثال ایسی ہو گی جیسے کہ ایک بادشاہ ہو جس کے پاس بڑا خزانہ ہو اور ایک شخص کے پاس صرف ایک پیسہ ہو۔ چونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالہ کی اہلیہ ان دنوں اپنی لڑکی کے پاس مولوی محمد صاحب کے گھر مزنگ گئی ہوئی تھی۔ تو تخمیناً عرصہ ایک ماہ کے بعد مولوی محمد صاحب نے مزنگ سے مجھے خط لکھا۔ کہ مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ یعنی جو پیشگوئی لڑکے کی تھی وہ غلط نکلی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد صاحب اب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے لڑکے شیخ عبدالعزیز صاحب مشہور شخص ہیں جو حکومت پنجاب کے ماتحت پریس برانچ کے انچارج رہے ہیں۔ مگر احمدی نہیں ہوئے اور شیخ عبدالرشید صاحب والے معاملہ کے متعلق مَیں نے خود شیخ صاحب موصوف سے پوچھا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے معتقد تھے اور آپس میں بہت تعلقات تھے اور میرے والد نے مولوی صاحب کو کچھ روپیہ دے رکھا تھا مگر پھر مولوی صاحب باوجود مطالبہ کے اس روپے کو واپس کرنے میں نہیں آتے تھے اور والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے بھی ٹالتے رہے۔ آخر میں نے تو زور دے کر آہستہ آہستہ وصولی کر لی۔ مگر میرے غیر احمدی بھائیوں سے مولوی صاحب نے کہہ کر روپیہ معاف کرالیا۔
{ 795} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری مسجد (یعنی مسجد مبارک) کو اللہ تعالیٰ نے نوح کی کشتی کا مثیل ٹھہرایا ہے۔ سو یہ شکل میں بھی کشتی کی طرح ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصلی مسجد مبارک کی بالائی منزل کشتی کی طرح ہی تھی یعنی لمبی زیادہ تھی اور چوڑی بہت کم اور اس کے پہلو میں شہ نشین تھا۔ بعد کی توسیع میں وہ قریباً مربع شکل کی بن گئی ہے۔
{ 796} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پِیر منظور محمد صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام احمدیہ چوک میں کھڑے تھے تو مولوی برہان الدین صاحب جہلمی مرحوم نے عرض کیا کہ حضرت کچھ ایسا ہو کہ اندر کُھل جائے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ تھے۔ بادشاہ نے ان کو بلوا بھیجا کہ مَیں تم کو اپنا وزیر بنانا چاہتا ہوں۔ اس بزرگ نے یہ قطعہ بادشاہ کو لکھ کر بھیج دیا۔ ؎
چوں چتر چنبری رُخِ بختم سیاہ باد
آید اگر بدل ہوسِ تختِ چنبرم
زاں دَم کہ یافتم خبراز ملکِ نیم شب
صد ملکِ نیمروز بیک جو نمی خرم
اس بادشاہ کے چتر کا رنگ سیاہ تھا۔ اور اس کے ملک کا نام ملک نیمروز تھا اور بادشاہ کا لقب چنبر تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان فارسی اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر مَیں چنبر بادشاہ کے تخت کی ہوس کروں تو میرے بخت کا منہ بھی چنبر کے چتر کی طرح سیاہ ہو جائے۔ جس وقت سے مجھے ملک نیم شب (یعنی عبادت و تہجدگزاری) پر آگاہی ہوئی ہے۔ اس وقت سے میرا یہ حال ہے کہ مَیں ایک سو ملک نیمروز کو ایک جَو کے دانہ میں بھی خریدنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ آپ ملک نیم شب کی طرف توجہ دیں ۔اس سے آپ کا اندر خود بخود کُھل جائے گا۔
{ 797} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمدؐ صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خبر قادیان پہنچی تو اسے سُن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ابتلاء ہے۔
{ 798} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے ایام میں ایک دوائی تریاق الٰہی تیار کرائی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ایک بڑی تھیلی یاقوتوں کی پیش کی۔ وہ بھی سب پسوا کر اس میں ڈلوا دئیے۔ لوگ کوٹتے پیستے تھے۔ آپ اندر جا کر دوائی لاتے اور اس میں ملواتے جاتے تھے۔ کونین کا ایک بڑا ڈبہ لائے اور وہ بھی سب اسی کے اندر الٹا دیا۔ اسی طرح وائینم اپی کاک کی ایک بوتل لا کر ساری الٹ دی۔ غرض دیسی اور انگریزی اتنی دوائیاں ملا دیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرمانے لگے کہ طبّی طور پر تو اب اس مجموعہ میں کوئی جان اور اثر نہیں رہا۔ بس روحانی اثر ہی ہے۔ ان دنوں میں جو مریض بھی حضور کے پاس آتا۔ خواہ کسی بیماری کا ہو۔ اُسے آپ یہی تریاق الٰہی دیدیتے۔ اور جہاں طاعون ہوتی وہاں کے لوگ حفظ ماتقدم کے لئے مانگ کر لے جاتے تھے۔ ایک شخص کے ہاں اولاد نہ تھی اور بہت کچھ طاقت کی کمزوری بھی تھی۔ اس نے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپ نے اُسے تریاق الٰہی بھی دی اور دعا کا وعدہ بھی فرمایا۔ پھر اس کے ہاں اولاد ہوئی۔ اس دوائی کا ایک کنستر بھرا ہوا گھر میں تھا۔ جو سب اسی طرح خرچ ہوا۔ کبھی کسی کو اس کے دینے میں بخل نہ کیا۔ حالانکہ قریباً دو ہزار روپیہ کے تو صرف یاقوت ہی اس میں پڑے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کنستر مَیں نے بھی دیکھا تھا۔ ایک پورا کنستر تھا جو مُنہ تک بھرا ہوا تھا بلکہ شاید اس سے بھی کچھ دوائی بڑھ رہی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق ہوتا تھا کہ علاج میں کسی ایک دوائی پر حصر نہیں کرتے تھے بلکہ متعدد ادویہ ملا دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ معلوم نہیں خدا نے کس میں شفا رکھی ہے بلکہ بعض اوقات فرماتے تھے کہ ایک دوائی سے بعض کمزور لوگوں میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کا فضل عموماً پردے کے پیچھے سے آتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص مقام کی بات ہے ورنہ طبّی تحقیق کرنے والوں کے لئے علیحدہ علیحدہ چھان بین بھی ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ اشیاء کے خواص معیّن ہوسکیں۔
{ 799} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مدتوں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے۔ کبھی پلائو اور زردہ پکتا تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ان دونوں چیزوں کو ملا لیا کرتے۔آپ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملا کر نہیں کھا سکتے۔ کبھی مولوی صاحب مرحوم کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضور فوراً دسترخوان پر سے اٹھ کر بیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندر چلے جاتے اور اچار لے آتے۔
{ 800} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمد صاحب نے ایک دن سنایا کہ بشیر اوّل کے عقیقہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر سبز عمامہ تھا۔اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کے دوسرے نکاح کے وقت حضور بھی شامل مجلس ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے سر پر زری کا کلاہ تھا۔ اور گورداسپور کے مقدمہ میں زری دار لنگی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کا دوسرا نکاح خود پِیر صاحب کی ہمشیرہ سے ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ عام طور پر حضرت صاحب کے سر پر سفید ململ کی پگڑی ہوتی تھی جس کے اندر نرم رومی ٹوپی ہوا کرتی تھی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 801} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اللہ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ کی الوہیّت توڑنے کے لئے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’ بھر جائی کانییٔ سلام آکھناں واں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیّت ہے ،نہ کہ مریم کی صدّیقیت کا اظہار۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنجابی کا معروف محاورہ ’’ بھابی کانییٔ سلام ‘‘ ہے۔ اس لئے شاید مولوی صاحب کو الفاظ کے متعلق کچھ سہو ہو گیا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ منشا نہیں تھا کہ نعوذ باللہ حضرت مریم صدیقہ نہیں تھیں بلکہ غرض یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ کے ذکر سے خدا تعالیٰ کی اصل غرض یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو انسان ثابت کرے۔
{ 802} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں نماز جمعہ کے لئے مسجد اقصیٰ میں تمام لوگ سما نہ سکتے تھے۔ تو کچھ لوگ جن میں خوا جہ کمال الدین صاحب بھی تھے۔ ان کوٹھوں پر (جو اَب مسجد میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے ہندوئوں کے گھر تھے) نماز ادا کرنے کے لئے چڑھ گئے۔ اس پر ایک ہندو مالک مکان نے گالیاں دینا شروع کر دیں کہ تم لوگ یہاں شوربا کھانے کے لئے آ جاتے ہو اور میرا مکان گرانے لگے ہو۔ غرضیکہ کافی عرصہ تک بدزبانی کرتا رہا۔ نماز سے سلام پھیرتے ہی حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ سب دوست مسجد میں آجائیں۔ چنانچہ دوست آ گئے اور بعد جمع صلوٰتین حضور علیہ السلام منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط تقریر فرمائی۔ جس میں قادیان کے آریوں پر تحدّی فرماتے ہوئے فرمایا کہ اور لوگ اگر بچ جائیں تو ممکن ہے۔ مگر قادیان کے آریہ نہیں بچ سکتے۔ اور اس وقت حضور علیہ السلام کی طبیعت میں اس قدر جوش تھا کہ اثنائے تقریر میں آپ بار بار عصائے مبارک زمین پر مارتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصاء کو زمین پر مارنے سے یہ مراد نہیں کہ لٹھ چلانے کے رنگ میں مارتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چھڑی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ اُسے آپ کبھی کبھی زمین سے اٹھا کر اس کے سم سے زمین کو ٹھکراتے تھے۔ جیسا کہ عموماً جوش کے وقت ایسا شخص کرتا ہے جس کے ہاتھ میں چھڑی ہو۔
{ 803} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک سالانہ جلسہ پر حضور علیہ السلام کے لئے مسجد اقصیٰ کے صحن میں اندرونی دیوار کے ساتھ ہی منبر بچھایا گیا۔ چونکہ احباب سے مسجد کے باہر کا مشرقی حصہ بھی بھرا ہوا تھا۔ جونہی حضور علیہ السلام نے اپنا ایک قدم مبارک منبر پر رکھا ایک شخص نے جو اب غیر مبائع ہے۔ آواز دی کہ حضور مسجد کے باہر کی طرف زیادہ لوگ ہیں۔ منبر باہر کی طرف درمیان صحن میں رکھا جائے۔ حضور علیہ السلام نے اپنا پائوں مبارک اٹھا لیا۔ اس پر اندر مسجد سے دوسرے شخص نے جو وہ بھی اب غیر مبائع ہے آواز دی کہ حضور مسجد کے اندر بہت سے لوگ ہیں ان کو آواز نہ آئے گی۔ منبر یہیں رہے۔ مگر ایک سیالکوٹ کے چوہدری صاحب نے جو کہ مبایعین میں سے ہیں اس کو منع کیا۔ اور منبر درمیان صحن میں رکھا گیا۔
{ 804} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے اپنے دادا، بابا چٹو کو قادیان میں لا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور ان کو سمجھائیں۔ فرمایا کہ پیر فرتوت ہے۔ اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ قریشی صاحب کے دادا صاحب سیر میں نہیں گئے تھے۔ بلکہ قریشی صاحب بھی ان کی رہائش کے انتظام میں مشغول تھے اور ساتھ نہیں گئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قریشی صاحب کے دادا بابا چٹو اہل قرآن تھے۔ جنہیں لوگ چکڑالوی کہتے ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے اسی عقیدہ پر ان کی وفات ہوئی تھی۔
{ 805} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بواسطہ مولوی شیر علی صاحب مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میراں بخش سودائی نے بڑی مسجد سے آتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نام لے کر آواز دی کہ ’’ اوئے غلام احمدا ‘‘ آپ اسی وقت کھڑے ہو گئے۔ اور فرمایا ’’جی‘‘ اس نے کہا ’’ او سلام تے آکھیا کر ‘‘ آپ نے فرمایا ’’ السلام علیکم ‘‘ اس نے کہا ’’ معاملہ ادا کر ‘‘ حضور نے جیب میں سے رومال نکال کر جس میں چونی یا اٹھنّی بندھی ہوئی تھی کھول کر اُسے دیدی۔ وہ خوش ہو کر گھوڑیاں گانے لگا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میراں بخش قادیان کا ایک باشندہ تھا اور پاگل ہو گیا تھا۔ بوڑھا آدمی تھا اور قادیان کی گلیوں میں اذانیں دیتا پھرتا تھا۔ مَیں نے اسے بچپن میں دیکھا ہے۔ وہ بعض اوقات خیال کرتا تھا کہ مَیں بادشاہ ہوں اور مجھے لوگوں سے معاملہ کی وصولی کا حق ہے۔
{ 806} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طور پر امام صلوٰۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجہر نمازوں میں بِسْمِ اللّٰہ بالجہر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے۔ اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں۔ مگر خود آپ کا اپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے اسے اکثر اختیار کیا ہے۔
{ 807} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتاتا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا، حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میری مدد کی جائے۔ مجھ پر قرضہ ہے۔ آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں۔ اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جو ارسال ہے۔
{ 808} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے مختلف حصوں میں رہائش تبدیل فرماتے رہتے تھے۔ سال ڈیڑھ سال ایک حصہ میں رہتے۔ پھر دوسرا کمرہ یا دالان بدل لیتے۔ یہاں تک کہ بیت الفکر کے اُوپر جو کمرہ مسجد مبارک کی چھت پر کھلتا ہے اس میں بھی آپ رہے ہیں۔ اور ان دنوں میں گرمی میں آپ کی اور ا ہل بیت کی چارپائیاں اوپر کی مسجد میں جو صحن کی صورت میں ہے بچھتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جس زمانہ کا ہوش ہے میں نے آپ کو زیادہ تر اس کمرہ میں رہتے دیکھا ہے جس میں اب حضرت اماں جان رہتی ہیں جو بیت الفکر کے ساتھ شمالی جانب واقع ہے۔
{ 809} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میری پہلی شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفاخانہ میں ملازم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق خط و کتابت ہوتی تھی۔ مَیں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا۔ آپ نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو پھر بھی تم اس جگہ کو منظور کر لو۔ اگر اس کے اخلاق پسندیدہ نہ ہوئے۔ تو مَیں انشاء اللہ اس کے لئے دعا کروں گا۔ جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے۔
حضور کے خط کی نقل یہ ہے:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء
عزیزی میر محمدؐ اسمٰعیل سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ:۔ مَیں نے تمہارا خط پڑھا۔ چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہو اس کو پیش کیا جائے۔ اس لئے مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو طرح طرح کی بدچلنیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نسل خراب ہو گئی ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ بڑی بڑی تلاش کے بعد بھی اجنبی لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے کئی بد نتیجے نکلتے ہیں۔ بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے باپ یا دادوں کو کسی زمانہ میں آتشک تھی اور کئی مدت کے بعد وہ مرض ان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیوں کے باپ دادوں کو جذام ہوتا ہے تو کسی زمانہ میں وہی مادہ لڑکیوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض میں سل کا مادہ ہوتا ہے۔ بعض میں دِق کا مادہ اور بعض کو بانجھ ہونے کی مرض ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں اپنے خاندان کی بدچلنی کی وجہ سے پورا حصہ تقویٰ کا اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ ایسا ہی اور بھی عیوب ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے تعلق پکڑنے کے وقت معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن جو اپنی قرابت کے لوگ ہیں۔ ان کا سب حال معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے میری دانست میں آپ کی طرف سے نفرت کی وجہ بجُز اس کے کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ بشیرالدین کی لڑکی دراصل بد شکل ہے یا کانی یعنی یک چشم ہے یا کوئی ایسی اور بدصورتی ہے جس سے وہ نفرت کے لائق ہے لیکن بجُز اس کے کوئی عذر صحیح نہیں ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکیوں کے اپنے والدین کے گھر میں اور اخلاق ہوتے ہیں اور جب شوہر کے گھر آتی ہیں تو پھر ایک دوسری دُنیا ان کی شروع ہوتی ہے۔ ماسوا اس کے شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ عورتوں کی عزت کرو اور ان کی بد اخلاقی پر صبر کرو اور جب تک ایک عورت پاک دامن اور خاوند کی اطاعت کرنے والی ہو۔ تب تک اس کے حالات میں بہت نکتہ چینی نہ کرو۔ کیونکہ عورتیں پیدائش میں مردوں کی نسبت کمزور ہیں۔ یہی طریق ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بد اخلاقی برداشت کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی عورت کو تیر کی طرح سیدھی کردے وہ غلطی پر ہے۔ عورتوں کی فطرت میں ایک کجی ہے۔ وہ کسی صورت سے دُور نہیں ہو سکتی۔ رہی یہ بات کہ سیّد بشیر الدین نے بڑی بداخلاقی دکھلائی ہے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں۔ ان کی بد اخلاقی قابلِ افسوس نہیں۔ جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بد اخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں سچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو جو نازونعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے۔ ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں۔ جس کے اخلاق معلوم نہیں۔ اور وہ اس بات میں بھی سچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں۔ کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارہ میں ہر ایک کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑکی پیدا ہوئی۔ تو تم بھی ایسا ہی کرو گے۔ لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں۔ ہاں جب تمہارا نکاح ہو جائے گا۔ اور لڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہو جائیں گے تو وہ تم پر قربان ہو جائیں گے ۔ پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانائی نہیں۔ غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو۔ اور اس کو قبول کر لو۔ اور اگر ایسا تم نے کیا تو مَیں بھی تمہارے لئے دُعا کروں گا۔ اپنے کسی مخفی خیال پر بھروسہ مت کرو۔ جوانی اور ناتجربہ کاری کے خیالات قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ موقعہ کو ہاتھ سے دینا سخت گناہ ہے۔ اگر لڑکی بد اخلاق ہو گی تو مَیں اس کے لئے دعا کر دوں گا کہ اس کے اخلاق تمہاری مرضی کے موافق ہو جائیں گے اور سب کجی دُور ہو جائے گی۔ ہاں اگر لڑکی کو دیکھا نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ اول اس کی شکل و شباہت سے اطلاع حاصل کی جائے۔ لڑکپن اور طفولیت کے زمانہ کی اگر بدشکلی بھی ہو تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔اب شکل و صورت کا زمانہ ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ شکل پر تسلّی کر کے قبول کر لینا چاہئے۔ مولود بے شک پڑھے۔ آخر وہ تمہارا ہی مولود پڑھے گی۔ حرج کیا ہے۔ والسلام مرزا غلام احمد
(آخر صفحہ کے بعد) مکرریہ کہ اس خط کے پڑھنے کے بعد صاف لفظوں میں مجھے اس کا جواب ایک ہفتہ کے اندر بھیج دیں۔ والدعا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خط بیاہ شادی سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق ایک نہایت ہی قیمتی فلسفہ پرمبنی ہے اور یہ جو حضرت صاحب نے خط کے آخر میں مولود کے متعلق لکھا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ممانی صاحبہ اپنے والدین کے گھر میں غیر احمدیوں کے رنگ میں مولود پڑھا کرتی تھیں۔ اور غالباً ان کے والد صاحب کو اصرار ہو گا کہ وہ بدستور مولود پڑھا کریں گی۔ جس پر حضرت صاحب نے لکھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ جب لڑکی بیاہی گئی اور خاوند کے ساتھ اس کی محبت ہو گئی تو پھر اس نے ان رسمی مولودوں کو چھوڑکر بالآخر گویا خاوند کا ہی مولود پڑھنا ہے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ اور اب تو خدا کے فضل سے ہماری ممانی صاحبہ احمدیؐ ہو چکی ہیں۔
{ 810} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا تھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
عزیز مبارک احمد ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء بقضاء الٰہی فوت ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہم اپنے ربّ کریم کی قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں۔ تم بھی صبر کرو۔ ہم سب اس کی امانتیں ہیں اور ہر ایک کام اس کا حکمت اور مصلحت پرمبنی ہے۔ والسلام
مرزا غلام احمدؐ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کہنے کو تو اس قسم کے الفاظ ہر مومن کہہ دیتا ہے۔ مگر حضرت صاحب کے مُنہ اور قلم سے یہ الفاظ حقیقی ایمان اور دلی یقین کے ساتھ نکلتے تھے اور آپ واقعی انسانی زندگی کو ایک امانت خیال فرماتے تھے اور اس امانت کی واپسی پر دلی انشراح اور خوشی کے ساتھ تیار رہتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ہمارے حقیقی ماموں ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح خط و کتابت فرماتے تھے۔ ان کی پیدائش ۱۸۸۱ء کی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کا ذکر انجام آتھم کے ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں ۷۰ نمبر پر کیا ہے مگر چونکہ سیّد محمد اسمٰعیل دہلوی طالب علم کے طور پر نام لکھا ہے۔ اس لئے بعض لوگ سمجھتے نہیں۔ ست بچن میں بھی ان کا نام انہی الفاظ میں درج ہے۔
{ 811} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑ میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پہلے کوئی کنوآں نہ تھا۔ نہ مہمان خانہ میں کوئی کنوآں تھا۔ اس وقت پانی دو کنوئوں سے آیا کرتا تھا۔ ایک تو عمالیق کے دیوان خانہ میں تھا اور دوسرا تائی صاحبہ مرحومہ کے گھر کے مردانہ حصہ میں تھا۔ ایک دفعہ ہر دو جگہ سے حضرت صاحب کے سقّہ کو گالیاں دے کر ہٹا دیا گیا۔ اور پانی کی بہت تکلیف ہو گئی۔ گھر میں بھی اور مہمان خانہ میں بھی۔ اس پر حضرت صاحب نے ایک خط لکھا اور عاجز کو فرمایا۔ کہ اس خط کی کئی نقلیں کردو۔ چنانچہ مَیں نے کر دیں۔ وہ خط حضور نے مختلف احباب کو روانہ فرمائے۔ جن میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کا نام مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اس خط میں مخالفین کے پانی بند کرنے کا ذکر لکھ کر یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمارا اپنا کنوآں ہونا چاہئے تاکہ ہماری جماعت پانی کی تکلیف سے مخلصی پائے اور کنویں کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی۔ اس کے بعد سب سے پہلے حضور کے گھر کے اندر کنوآں بنایا گیا۔ یہ اندازاً ۱۸۹۵ء یا ۱۸۹۶ء کا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے بعد وہ دوسرا کنوآں بنا تھا جو مدرسہ احمدیہ کے جانبِ شمال اور احمدیہ چوک کے پاس ہے۔ اس سے پہلے قادیان کی آبادی میں حضرت صاحب کے قبضہ میں صرف مسجد اقصیٰ والا کنوآں تھا۔ مگر وہ کسی قدر دور تھا اور چند سیڑھیاں چڑھ کر اس تک پہنچنا پڑتا تھا۔
{ 812} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کی وجہ سے گورداسپور بمعہ اہل و عیال ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن آپ کی پُشت پر ایک پھنسی نمودار ہوئی۔ جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ خاکسار کو بلایا اور دکھایا اور بار بار پوچھا کہ یہ کاربنکل تو نہیں۔ کیونکہ مجھے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ مَیں نے دیکھ کر عرض کی کہ یہ بال توڑ یا معمولی پھنسی ہے۔ کاربنکل نہیں ہے۔
دراصل حضرت صاحب کو ذیابیطس اس قسم کا تھا جس میں پیشاب بہت آتا ہے مگر پیشاب میں شکر خارج نہیں ہوتی۔ اور یہ دورے ہمیشہ محنت اور زیادہ تکلیف کے دنوں میں ہوتے تھے۔ اور بکثرت اور بار بار پیشاب آتا تھا۔ اور یہ ایک عصبی تکلیف تھی۔ اور بہت پیشاب آ کر سخت ضعف ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ کسی ڈاکٹر نے عرض کیا کہ پیشاب کا ملاحظہ شکر کے لئے کرالینا چاہئے۔ فرمانے لگے نہیں۔ اس سے تشویش زیادہ ہو گی۔ اس خاکسار نے بھی کیمیاوی ملاحظہ نہیں کیا تھا۔ مگر ہمیشہ کے حالات دیکھ کر تشخیص کی تھی کہ مرض نروس پالیوریا ہے۔ مگر حضرت صاحب کی ایک تحریر سے مجھے علم ہوا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پیشاب میں شکر بھی پائی گئی تھی۔
{ 813} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی۔ اس کے نکاح کا ذکر ہوا۔ تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دیدی اور نکاح ہو گیا۔ دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکار کر دیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں۔ ابھی صبر کرے۔ پھر اگر کسی طرح گذارہ نہ ہو تو خلع ہو سکتا ہے۔ اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کرکے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے۔ (یعنی قوتِ رجولیّت بالکل معدوم ہے) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دیدی۔ مگر احتیاطاًایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی۔ بالآخر خلع ہو گیا۔
{814} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب پشاوری نے مجھ سے ایک روز بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خادم پیرا نامی ہوتا تھا۔ اس سے حضرت اقدس کی موجودگی میں کسی نے دریافت کیا کہ تو حضرت صاحب کو کیا مانتا ہے؟ پیرا کہنے لگا کہ ’’تھوڑے دناں توں کہندے ہن کہ مَیں مسیح آں‘‘ یعنی تھوڑے عرصہ سے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ جواب سن کر مسکرانے لگے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیرا ایک پہاڑی ملازم تھا اور بالکل جاہل اور نیم پاگل تھا۔ مگر بعض اوقات پتہ کی بات بھی کر جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ اس سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بٹالہ کے سٹیشن پر کہا کہ تمہارے مرزا صاحب نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جو جھوٹا ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ پیرے نے جواب دیا۔ مولوی صاحب مَیں تو کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ مگر مَیں اتنا جانتا ہوں کہ لوگوں کو بہکانے کے لئے آپ کی بٹالہ کے سٹیشن پر آ آ کر جوتیاں بھی گھِس گئی ہیں مگر پھر بھی دنیا مرزا صاحب کی طرف کھچی چلی آتی ہے۔
{ 815} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے واسطے تشریف لے جاتے اور بازار میں سے گذرتے تو بعض ہندو دکاندار اپنے طریق پر ہاتھ جوڑکر حضور علیہ السلام کو سلام کرتے اور بعض تو اپنی دکان پر اپنے رنگ میں سجدہ کرنے لگتے۔ مگر حضرت صاحب کو خبر نہ ہوتی۔ کیونکہ آپ آنکھیں نیچے ڈالے گذرتے چلے جاتے تھے۔ ایک دن مستری صاحب نے بعض عمر رسیدہ ہندو دکانداروں سے دریافت کیا۔ کہ تم مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہو جو سجدہ کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ یہ بھگوان ہیں، بڑے مہاپرش ہیں۔ ہم ان کو بچپن سے جانتے ہیں۔ یہ خدا کے بڑے بھگت ہیں۔ دُنیا بھر کو خدا نے ان کی طرف جھکا دیا ہے۔ جب خدا ان کی اتنی عزّت کرتا ہے تو ہم کیوں نہ ان کی عزّت کریں۔ مستری صاحب نے بیان کیا کہ جب سے قادیان میں آریہ سماج قائم ہوئی ہے۔ تب سے آریوں نے ہندوئوں کو غیرت اور شرم دلا کر اور مجبور کرکے ایسی حرکات تعظیمی سے روک دیا ہے مگر ان کے دل حضرت صاحب پر قُربان تھے۔ اور وہ آپ کی بے حد عزت کرتے تھے۔ مستری صاحب کا بیان ہے کہ مَیں نے متعدد مرتبہ قادیان کے ہندوئوں سے حضرت صاحب کے حالات دریافت کئے مگر کبھی کسی ہندو نے حضرت صاحب کا کوئی عیب بیان نہیں کیا۔ بلکہ ہر شخص آپ کی تعریف ہی کرتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مستری صاحب کو تفصیلی حالات کا علم نہیں ہے اور نہ وہ قادیان کے سب ہندوئوں سے ملے ہیں۔ قادیان کے ہندوئوں کا ایک طبقہ قدیم سے مخالف چلا آیا ہے اور گو یہ درست ہے کہ وہ حضرت صاحب میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے مگر مخالفت میں انہوں نے کبھی کمی نہیں کی البتہ بیشتر حصہ پُرانے سناتنی طریق پر ہمیشہ مؤدب رہا ہے۔
{ 816} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لنگر خانہ میں ایک شخص نان پز اور باورچی مقرر تھا۔ اس کے متعلق بہت شکایات حضور کے پاس پہنچیں۔ خصوصاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی طرف سے بہت شکایت ہوئی۔ حضور نے فرمایا۔ دیکھو وہ بے چارہ ہر روٹی کے پیچھے دو دفعہ آگ کے جہنم میں داخل ہوتا ہے (یعنی تندور کی روٹی لگاتے وقت) اور اتنی محنت کرتا ہے۔ اگر آپ کوئی واقعی دیانتدار باورچی مجھے لا دیں۔ تو میں آج اسے نکال دوں ۔ اس مطالبہ پر سب خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کوئی شخص واقعی اعلیٰ درجہ کا متقی امین اور دیانت دار ہو تو خدا اسے اس حالت میں رکھتا ہی نہیں کہ اُسے ایسی ادنیٰ نوکری نصیب ہو۔ اُسے تو غیب سے عزت و رزق ملتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد خدا نے اس شخص کو حضرت مسیح موعودؑ کی برکت اور ان کی خدمت کے طفیل عزت کی زندگی عطا کی اور رزق وافر سے حصہ دیا۔
{ 817} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے۔ میرے لئے دُعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔ مَیں دُعا کروں گا۔ اور فرمایا آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّلؓ) سے اطریفل زمانی بھی لے کر کھائیں۔ الحمدللہ کہ اس کے بعد آج تک خاکسار کو پھر کبھی یہ عارضہ نہ ہوا۔
{ 818} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن سیر کے وقت حضور علیہ السَّلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو بعض مخفی باتیں بھی بتلائی تھیں جن کے اظہار کرنے کی اجازت آپ کو صرف بعض خاص لوگوں میں تھی۔ اور عام لوگوں میں وہ ظاہر نہیں کی گئیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں تو یہ آیا ہے کہ یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ۔ الآیۃ (المائدہ:۶۸) یعنی اے رسول جو کچھ خدا نے تجھ پر نازل کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو کسی ایسی بات کے چھپانے کی ہدایت نہیں ہوئی جو کسی شرعی حکم کی حامل تھی یا اس کو شریعت کی تشریح سے تعلق تھا۔ ورنہ بعض انتظامی امور میں یافتن سے تعلق رکھنے والی باتوں میں ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر اخفاء کا حکم ہوا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے اور حضرت صاحب کے الہاموں میں بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 819} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی گھر میں ننگے پَیر بھی پھر لیتے تھے۔ خصوصاً اگر پختہ فرش ہوتا تھا تو بعض اوقات ننگے پائوں ٹہلتے بھی رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے جاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا انداز بالکل بے تکلفانہ تھا اور زندگی نہایت سادہ تھی۔
{ 820} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب عملاً بھی اس حدیث کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 821} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ تسبیح پڑھنے کے متعلق یہ قصہ سُنایا۔ کہ کوئی عورت کسی پر عاشق تھی۔ وہ ایک ملاّ کے پاس اپنی کامیابی کے لئے تعویذ گنڈا لینے گئی۔ ملاّں اس وقت تسبیح پڑھ رہا تھا۔ عورت نے پوچھا۔ مولوی جی! یہ کیا کر رہے ہو؟ مولوی جی کہنے لگے۔ مائی اپنے پیارے کا نام لے رہا ہوں۔ وہ عورت حیران ہو کر کہنے لگی۔ ملاّں جی! نام پیارے کا اور لینا گِن گِن کر ۔یعنی کیا کوئی شخص معشوق کا نام بھی گن گن کر لیتا ہے؟ وہ تو بے اختیار اور ہر وقت دل اور زبان پر جاری رہتا ہے۔ اس قصہ سے حضرت صاحب کا منشاء یہ تھا کہ ایک سچے مومن کے لئے خدا کا ذکر تسبیح کی قیود سے آزاد ہونا چاہئے۔
{ 822} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے اور شادی بیاہ وغیرہ کی جو رسوم رائج ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام ان کو اہلحدیث کی طرح کلی طور پر ردّ نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے جو مشرکانہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی توجیہہ فوائد کی نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اِس اِس فائدہ یا ضرورت کے لئے یہ رسم ایجاد ہوئی ہے مثلاًنیوتہ (جسے پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں)امداد باہمی کے لئے شروع ہوا۔ لیکن اب وہ ایک تکلیف دہ رسم ہو گئی ہے۔
{ 823} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے۔ یعنی یہ دونوں آپس میں چُھو جاتے تھے۔
{ 824} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب اور شیخ غلام رسول صاحب متوطن کشمیر بیان کرتے تھے کہ ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر ایک ہی دستر خوان پر جملہ اصحاب کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔ اور اس صورت میں کشمیری اصحاب کو بھی اسی مقدار میں کھانا ملتا تھا جتنا کہ دیگر اصحاب کو۔ اس پر ایک دن مسیح موعود علیہ السلام نے کھانے کے منتظم کو حکم دیا کہ کشمیر کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کو بہت کھانا دیا کرو۔ اس پر ہم کو زیادہ کھانا ملنے لگا۔
{ 825} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی قطب الدین صاحب ساکن شُرط علاقہ کشمیر بیان کرتے تھے کہ جب مَیں احمدی ہوا تو چونکہ ابتدا میں شُرط میں کوئی اور احمدی نہ تھا۔ لہٰذا میری مخالفت شروع ہوئی۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مخالفت کی نسبت ایک خط ارسال کیا اور دعا کے لئے درخواست کی۔ جس کا جواب حضور علیہ السلام نے یہ رقم فرمایا کہ صبر کرو۔ وہاں بھی بہت لوگ ایمان لائیں گے۔ خوا جہ عبدالرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعد میں اگرچہ شُرط والے لوگ تو ابھی تک ایمان نہیں لائے۔ لیکن اس کے بالکل متصل گائوں موسومہ کنیہ پورہ ۱ ؎سارے کا سارا احمدی ہو گیا۔ اور علاقہ میں کئی اور جگہ احمدیت پھیل گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوا جہ صاحب جلدی کرتے ہیں۔ اگر حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہے تو تسلّی رکھیں شُرط بھی بچ نہیں سکتا۔
{ 826} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسرِ موعود کی پیشگوئی شائع فرمائی تو آپ کی زندگی میں ہی ایک شخص نور محمد نامی جو پٹیالہ کی ریاست میں کہیرو گائوں کا رہنے والا تھا پسرموعود ہونے کا مدعی بن بیٹھا اور بعض جاہل طبقہ کے لوگ اس نے اپنے مرید کر لئے۔ سُنا ہے یہ لوگ قادیان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور ایک دفعہ ان کا ایک وفد قادیان بھی آیا تھا۔ انہوں نے حضرت صاحب کو سجدہ کیا۔ مگر حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا۔ وہ لوگ چند روز رہ کر واپس چلے گئے۔ اور پھر نہیں دیکھے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مجانین اور غالی لوگوں کا وجود ہر قوم میں ملتا ہے۔
{ 827} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کو ایک دفعہ الہام ہوا تھا۔ کہ ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن‘‘۔
اُس سال سے مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ہر بہار کے موسم میں ایک نہ ایک حملہ سخت سردی کا ضرور ہو جاتا ہے۔
{ 828} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ جو حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھجواتے ہوئے خدا نے حکم دیا تھا کہ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْیَخْشٰی(طٰہٰ:۴۵) اس میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کا بہت لحاظ کیا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نصیحت کی ہے کہ یہ بادشاہ ہے اس لئے اس کے ساتھ اس کے رتبہ کے موافق نرمی اور ادب سے گفتگو کی جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی یہ نکتہ بیان کیا کرتے تھے اور غالباً انہوں نے حضرت صاحب سے ہی سُنا ہو گا۔ واللہ اعلم۔
{ 829} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ ایک شخص زنبور کو آیت وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْن پڑھ کر ہاتھ سے پکڑ لیا کرتا تھا اور اس کو تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ نیز فرمایا کہ بعض بچے کھیل کے طور پر ایک سُوا پنڈلی کے گوشت میں سے آر پار چھید کر نکال دیا کرتے تھے۔
{ 830} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب سرسید احمد خاں صاحب نے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ دُعا محض ایک عبادت ہے ورنہ اس کی وجہ سے خدا اپنی قضا و قدر کو بدلتا نہیں۔ جو بہرحال اپنے مقررہ رستہ پر چلتی ہے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے ایک رسالہ ’’برکات الدعا‘‘ تصنیف کرکے شائع فرمایا اور اس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دعا محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں خدا اپنی قضا و قدر کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسلامی تعلیم کے ماتحت ثابت کیا کہ اس بارے میں سرسیّد کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ جب یہ کتاب چھپ کر تیار ہو گئی تو آپ نے اس کا ایک نسخہ سرسیّد کو بھی بھجوایا۔ جس پر سرسیّد نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایک خط لکھا۔ اور اس خط میں معذرت کے طریق پر لکھا کہ مَیں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں اس لئے مجھ سے غلطی ہوئی اور یہ کہ جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے وہی درست ہو گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل روحانی معاملات میں ذاتی تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے سرسیّد نے کئی باتوں میں غلطی کھائی ہے۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ سرسیّد مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور یہ بھی ان کی سعادت تھی کہ متنبہ کئے جانے پر انہوں نے قبولیّت دعا کے مسئلہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ مگر معجزات وغیرہ کے معاملہ میں ان کا عام میلان آخر تک قائم رہا۔ کہ اہل مغرب کے اعتراض سے مرعوب ہو کر فوراً تاویلات کی طرف مائل ہونے لگتے تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا۔ کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ سرسیّد اور حضرت مسیح موعود کی مثال ایسی ہے کہ جب اسلام پر کوئی اعتراض ہو تو سرسیّد کی حالت تو ایسی نظر آتی ہے کہ گویا ہاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ نہیں سرکار! اسلام نے تو ایسا نہیں کہا۔ اسلام کا تو یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ایسی ہے کہ اعتراض ہونے پر گویا تلوار لے کر سامنے تن جاتے ہیں کہ جو کچھ اسلام نے کہا ہے وہی ٹھیک ہے اور جو تم کہتے ہو وہ غلط اور جھوٹ ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ بہت ہی لطیف اور درست مثال دی ہے اور یہ مثال سجتی بھی انہی کی زبان سے ہے کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق فرماتے ہیں:۔
مدّتے در آتشِ نیچر فرو افتادہ بود
ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
{ 831} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چچیرا بھائی مرزا کمال الدین تھا۔ یہ شخص جوانی میں فقراء کے پھندے میں پھنس گیا تھا۔ اس لئے دُنیا سے کنارہ کش ہو کر بالکل گوشہ گزین ہوگیا مگر وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح حضرت صاحب سے پرخاش نہ رکھتا تھا۔ علاج معالجہ اور دَم تعویذ بھی کیا کرتا تھا۔ اور بعض عمدہ عمدہ نسخے اس کو یاد تھے۔ چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ میاں محمد اسحاق کے علاج کے لئے ان سے ہی گولیاں اور ادویہ وغیرہ منگایا کرتی تھیں اور حضرت صاحب کو بھی اس کا علم تھا۔ آپ بھی فرماتے تھے کہ کما ل الدین کے بعض نسخے اچھے ہیں۔ اب مرزا کمال الدین کو فوت ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں مگر ان کے تکیہ میں اب تک فقیروں کا قبضہ ہے۔ عرس بھی ہوتا ہے مگر کچھ رونق نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے تین لڑکے تھے۔ سب سے بڑے مرزا امام الدین تھے جو بہت لانبے اور وجیہہ شکل تھے اور مخالفت میں بھی سب سے آگے تھے۔ ان کی لڑکی خورشید بیگم صاحبہ ہمارے بڑے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد میں آئی تھیں۔ اور عزیزم مرزا رشید احمد انہی کے بطن سے ہیں۔ دوسرے بھائی مرزا نظام الدین تھے جن کی نسل سے مرزا گل محمد صاحب ہیں اور تیسرے بھائی مرزا کمال الدین تھے جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ ہمیشہ مجرد رہے۔ مرزا کمال الدین مخالفت میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
{ 832} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں نواب محمد علی خان صاحب نے قادیان میں ایک فونوگراف جس کے ریکارڈ موم کے سیلنڈروں کی طرح گول ہوتے تھے منگایا تھا۔ اس میں حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اپنا لیکچر بھرا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید بھرا۔ اسی طرح دیگر احباب نے نظمیں اور اذان وغیرہ بھریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اُسے سُنا۔ چونکہ اس وقت وہ عجوبہ چیز تھی۔ لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت نے بمعہ دیگر چند اہل ہنود کے اسے دیکھنا اور سُننا چاہا اور چونکہ نواب صاحب سے براہ راست ان کا تعلق نہ تھا اور حضرت صاحب پر ان کو دیرینہ تعلق کا دعویٰ تھا۔ اس لئے انہوں نے حضرت صاحب سے ہی درخواست کی۔ حضور نے ایک اردو نظم تیار کرکے مولوی عبدالکریم صاحب کو دی کہ ریکارڈ میں بھر دیں۔ چنانچہ ان کو وہ نظم اور دیگر ریکارڈ سُنائے گئے۔ یہ تبلیغی نظم درثمین میں درج ہے۔ اس زمانہ کے ریکارڈ چونکہ موم کے ہوتے تھے۔ اس لئے مرور زمانہ سے ان کے نقش خراب ہو گئے اور اب صاف سُنے نہیں جا سکتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی نظم ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ :۔
آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں یہ آلہ گراموفون کہلاتا ہے۔ اور اس کے ریکارڈ توے کی طرح چپٹے ہوتے ہیں اور صرف کارخانوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔
{ 833} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔ جب آپ فوت ہوئے۔ تو مَیں اور ایک اور احمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتّے لینے گئے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتّے لانے کے لئے کہا تھا۔ مَیں روتا جا رہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیں وہاں سے پتّے توڑ کر لایا تھا۔ گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب کو غسل ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے دیا تھا۔
{ 834} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ایک دوست سے یہ واقعہ سُنا ہے کہ جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب۔ جب ای۔ اے۔ سی کا امتحان دینے کے لئے لاہور گئے تو جہاں دوسرے امیدوار مقیم تھے وہاں ہی مرزا صاحب ٹھہر گئے۔ ان امیدواروں میں سے کوئی بی۔اے تھا اور کوئی ایم۔اے تھا اور کوئی ایل ایل بی تھا۔ ان ایام میں ایک رات مرزا سلطان احمد صاحب ذرا جلدی لیٹ گئے۔دوسرے امیدوار ابھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو سویا ہوا سمجھ کر آپس میں مذاق شروع کر دیا۔ کہ ان مرزا صاحب کو بھی امتحان کا شوق چرایا ہے۔ ایسے ایسے قابل لوگوں کو تو پاس ہونے کی امید نہیں اور یہ خواہ مخواہ امتحان میں آکودے۔ ان کی یہ گفتگو سن کر مرزا صاحب نے دل میں کہا۔ کہ مَیں حضرت والد صاحب کو دعا کے واسطے کہہ تو آیا ہوں۔ اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ضرور دعا کرینگے۔ خدا کرے کہ مَیں کامیاب ہو جائوں تاکہ ان لوگوں کے مذاق کا جواب مل جائے۔ انہی خیالات میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح کو آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے اور آپ نے مرزا سلطان احمد کو ہاتھ سے پکڑ کرکرسی پر بٹھا دیا ہے۔ یہ خواب دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ اور انہوں نے خود ہی اس خواب کی تعبیر کی کہ مَیں ضرور کامیاب ہو جائونگا۔ اتنے میں دیگر امیدوار بھی بیدار ہو گئے۔ اور مرزا سلطان احمد صاحب نے ان کو کہا کہ دیکھو رات تم لوگ میرا مذاق اُڑا رہے تھے۔ اب تم دیکھنا کہ مَیں ضرور کامیاب ہو کر آئوں گا اور تم دیکھتے رہ جائو گے۔ انہوں نے ازراہِ مذاق کہا۔ کہ کیا آپ کو بھی اپنے والد صاحب کی طرح الہام ہوتا ہے۔ مرزا سلطان احمد صاحب نے کہا۔ بس اب تم دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب اس امتحان میں بفضلہ کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ مرزا صاحب اس وقت حضرت صاحب کی بیعت میں داخل نہ تھے۔ مگر ان کو حضور کی دُعا اور وحی پر یقین اور ایمان تھا۔ چنانچہ اس سے پہلے مرزا صاحب نے تحصیلداری میں کامیابی کے واسطے بھی حضرت صاحب سے دعا کرائی تھی اور پھر تحصیلدار ہو گئے تھے۔ مَیں نے سُنا ہے کہ اس وقت انہوں نے پہلے ماہ کی تنخواہ حضرت صاحب کے پاس بھیجی۔ کہ میری طرف سے لنگر خانہ میں بطور چندہ آپ قبول فرمائیں۔ مگر آپ نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا یہ نعمت صرف احمدی لوگوں کے لئے ہے۔ ایک غیر احمد ی کا چندہ اس میں نہیں لیا جا سکتا۔ اگر تم دینا چاہتے ہو تو سکول میں دیدو۔ کیونکہ اس میں تمہارا بیٹا بھی پڑھتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس واقعہ کے متعلق کوئی ذاتی علم نہیں ہے اور نہ کوئی اور اطلاع ہے اس لئے مَیں اس کی صحت یا عدم صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر اس قدر بات مجھے بھی معلوم ہے جو سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر۲۰۸ میں گذر چکی ہے کہ ایک دفعہ جب تحصیلداری کے امتحان کے لئے مرزا سلطان احمد صاحب نے حضرت صاحب کو دُعا کے لئے لکھا تھا تو حضرت صاحب نے ناراضگی کے ساتھ ان کا رقعہ پھینک دیا تھا کہ بس دُنیا کا خیال ہی غالب رہتا ہے۔ مگر اسی رات حضرت صاحب کو خدا نے الہام کیا کہ ’’ ہم اس کو پاس کردینگے‘‘۔ چنانچہ وہ کامیاب ہو گئے۔
{ 835} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ چند لوگوں نے ایک احمدی سے مباحثہ کے دَوران میں کہا کہ مرزا صاحب کا اپنا بیٹا ان کو نبی نہیں مانتا۔ پہلے اس کو منائو پھر ہم سے بات کرنا۔ یہ بات بڑھی اور مرزا سلطان احمد کی شہادت پر فیصلہ قرار پایا۔ چنانچہ وہ احمدی اور ان کے مخالف مرزاسلطان احمد صاحب کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ مرزا صاحب یعنی اپنے والد صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟ مرزا سلطان احمد صاحب نے جواب دیا کہ مَیں نے بنی اسرائیل کے انبیاء کا حال پڑھا ہے۔ اگر وہ ان حالات کی بناء پر نبی کہلانے کے مستحق ہیں تو میرے والد صاحب ان سے بہت زیادہ نبی کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس پر کسی نے کہا کہ پھر آپ ان کو مان کیوں نہیں لیتے۔ جواب دیا کہ میں دنیا داری میں گرفتار ہوں اور مَیں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیعت کر لینے کے بعد بھی میرے اندر دنیا کی نجاست موجود رہے۔ اس سے ایک عقلمند یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ غیر احمدی ہونے کے ایام میں بھی مرزا سلطان احمد صاحب دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کی کس قدر عزت کرتے تھے۔ اپنے مقدس باپ کا اثر ان کے اندر اس قدر موجود تھا کہ نائب تحصیلدار کے بعد تحصیلدار۔ پھر ای۔ اے۔ سی پھر افسر مال پھر ڈپٹی کمشنر وغیرہ رہے مگر کسی جگہ آج تک مرزا صاحب سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، نہ ظلم کیا نہ جھوٹ بولا اور نہ رشوت قبول کی۔ بلکہ ڈالی تک قبول نہ کرتے تھے۔ یہ تمام خوبیوں کا مجموعہ انہیں وراثتاًباپ سے ملا تھا۔ نہ صرف اس قدر بلکہ ان کے بچوں میں بھی فطرتاً یہ باتیں موجود ہیں۔ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے بھی سرکاری ملازم ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ان کے دفتر والے ماتحت اور افسر بلکہ ہمسایہ تک ان کے چلن اور اخلاق کے مدح خواں ہیں۔
اسی ضمن میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ایک زمانہ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب۔ میاں محمد اسحٰق صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب تالاب کے کنارے بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔ گو مَیں بچہ تھا۔ مگر میری فطرت میں تحقیق کا مادہ تھا۔ کھڑے ہو کر گھنٹوں دیکھتا کہ یہ لوگ کھیل میں گالی گلوچ یا جھوٹ یا فحش کلامی بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر مَیں نے ان حَضرات کو دیکھا کہ کبھی کوئی جھگڑا نہ کرتے تھے۔ حالانکہ کھیل میں اکثر جھگڑا ہو جایا کرتا ہے۔
اسی طرح اکثر دفعہ مَیں میاں بشیر احمد صاحب و میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ شکار کے لئے جایا کرتا تھا۔ دونوں حضرات کے پاس ایک ایک ہوائی بندوق ہوا کرتی تھی اور پرندوں کا شکار کرتے تھے۔ ہر جگہ میرا یہ مقصد ہوتا تھا کہ مَیں دیکھوں کہ ان لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں۔
پھر حضرت میاں محمود احمد صاحب مغرب کے بعد اکمل صاحب کی کوٹھڑی میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور مَیں بھی وہاں بیٹھا رہتا تھا۔ شعر و شاعری اور مختلف باتیں ہوتی تھیں۔ مگر مَیں نے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ دیکھی۔ بلکہ ان کی ہر بات حیرت انگیز اخلاق والی ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب پیغام پارٹی خصوصاً شیخ رحمت اللہ صاحب نے مجھے کہا۔ کہ میر صاحب! آپ میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) اور اکمل کی پارٹی میں بہت بیٹھا کرتے ہیں۔ ذرا پتہ لگائیں کہ یہ بدر میں آجکل کوئل۔ بلبل اور فاختہ کیسی اُڑتی ہیں۔ اس زمانہ میں قاضی اکمل صاحب کی اس قسم کی اکثر نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ چنانچہ میں رات دن اس امر کی تلاش میں رہتا کہ مجھے کوئی بات مل جائے تو مَیں پیغام پارٹی کو اطلاع دوں۔ مگر مَیں جس قدر حضرت میاں صاحب کی صحبت میں رہا کُوْ نُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن کا کرشمہ مجھ پر اثر کرتا چلا گیا۔ان لوگوں کا خیال تھا کہ میاں محمود احمد صاحب ،میاں محمد اسحاق صاحب اور قاضی اکمل مل کر کوئی خاص ایجی ٹیشن پھیلا رہے ہیں۔ کیونکہ ان دنوں میں میاں محمد اسحٰق صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا خلیفہ انجمن کے ماتحت ہے یا خلیفہ کے ماتحت انجمن ہے گو میاں محمد اسحاق صاحب کم عمر کے تھے۔ مگر ان کا دماغ اور ذہن بڑے غضب کا تھا۔ غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصاحب اور رشتہ دار اور اولاد ہر ایک اس قدر گہرے طور پر حضرت صاحب کے رنگ میں رنگین ہو گئے تھے کہ بے انتہا جستجو کے بعد بھی کوئی آدمی ان میں کوئی عیب نہ نکال سکتا تھا۔ میں خود پیروں کے خاندان میں پیدا ہوا ہوں۔ اور پیروں فقیروں سے بیحد تعلقات اور رشتہ داریاں ہیں۔ مجھے اس کے متعلق ایک حد تک تجربہ ہے۔ وہ لوگ اپنے مریدوں میں بیٹھ کر جس قدر اپنی بزرگی جتاتے ہیں۔ اسی قدر وہ درپردہ بدچلن اور بد اخلاق ہوتے ہیں کہ اپنے نفس، زبان،ہاتھ اور دل و آنکھ پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح ان کی اولاد اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اور جو دکھاوا ہوتا ہے وہ سب دکانداری کی باتیں ہوتی ہیں۔
{ 836} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔محمد خاں صاحب ساکن گِل منج نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کثرت سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنے لگے۔ تو ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مسجد اقصیٰ میں لیکچر دیا۔ تین گھنٹہ تک تقریر فرماتے رہے۔ اس روز لاہور کے کئی آدمی بھی موجود تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بھی یہیں تھے۔ اور قادیان کے ہندو بھی مسجد میں موجود تھے۔ اس تقریر میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھاکہ مَیں اکیلا ہی بٹالہ جایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی میرے ساتھ ملاوامل اور شرم پت بھی جایا کرتے تھے۔ انہیں ایام میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو کہا کہ مَیں تیری طرف آنے کے لئے لوگوں کے راستہ کو کثرت استعمال سے ایسا کر دُونگا کہ ان میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ مگر تم نے دل میں گھبرانا نہیں۔ خدا خود تیرا سارا سروسامان تیار کرے گا۔ یہ خیال نہ کرنا کہ مَیں لوگوں کو رہائش کی جگہ اور کھانا کہاں سے مہیّا کرکے دُوں گا۔ آپ نے فرمایا۔ اب دیکھ لو کہ خدا نے کس طرح میرے لئے سازوسامان تیار کر دیا ہے کہ جتنے مہمان بھی آتے ہیں ان کا گذارہ بخیر و خوبی ہوتا ہے۔ مگر قادیان کے لوگوں نے مجھے نہ مانا۔ پھر اسی وقت جبکہ حضور یہ تقریر فرما رہے تھے مَیں کسی ضرورت کے لئے مسجد سے نیچے اُترا تو مجھے دو سکھ ملے۔ ایک اندھا تھا اور دوسرا جوان عمر تھا۔ انہوں نے کچھ سنگترے اور سودا سلف خریدا ہوا تھا۔ اندھے سکھ نے دوسرے کو کہا کہ ادھر سے چلو۔ ذرا شلوگ بانی سن لیں۔ پھر وہ دونوں مسجد کے اُوپر چڑھ گئے اور مَیں بھی ان کے پیچھے مسجد میں واپس آ گیا۔ اور وہ لوگوں میں آ کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں اندھا سکھ بولا۔ ’’ بھائیو۔ پیاریو۔ مترو۔ میری اک عرض وا‘‘ اس کا انداز یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تقریر میں رخنہ ڈال کر اپنے مذہب کے متعلق کچھ پرچار کرنا چاہتا ہے۔ جس پر قریب کے لوگوں نے اسے روک دیا کہ بولو نہیں وعظ ہو رہا ہے۔ دو منٹ کے بعد پھر اس اندھے نے پہلے کی طرح کہا۔ پھر لوگوں نے اُسے روک دیا۔ اس پر نوجوان سکھ نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔ اس وقت پولیس کا انتظام تھا اور محمد بخش تھانیدار بھی آیا ہوتا تھا۔ لوگوں نے تھانیدار کو کہا کہ دو سکھ مسجد میں گالیاں نکال رہے ہیں۔ تھانہ دار اس وقت مرزا نظام الدین کے دیوان خانہ میں کھڑا تھا۔ اور دو سپاہی اس کے ساتھ تھے۔ وہ گئے تو اُن سکھوں کو پکڑ کر دیوان خانہ میں لے گئے۔ حضرت صاحب کے تقریر ختم کرنے کے دو گھنٹہ بعد کسی شخص نے آ کر بتایا۔ کہ تھانیدار نے ان سکھوں کو مارا ہے۔ حضرت صاحب نے اسی وقت فرمایا کہ تھانیدار کو کہو کہ ان کو چھوڑ دے۔ اس پر اس تھانیدار نے ان سکھوں کو چھوڑ دیا۔
{ 837} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانگی زندگی بھی اللہ تعالیٰ ہی کے کاموں میں گذرتی تھی۔ ہر وقت یا تحریر کا کام ہوتا تھا یا غور و فکر اور ذکر الٰہی کا۔ کبھی میں نے حضور کو اپنے بچوں سے لاڈ کرتے نہیں دیکھا باوجود یکہ ان سے آپ کو بہت محبت تھی۔ اور کبھی کسی خادمہ کو کوئی حکم دیتے بھی نہیں دیکھا۔ حضور گھر میں بھی زیادہ کلام نہ کرتے تھے۔ سنجیدہ اور متین رہتے تھے۔ آپ بہت کم سوتے تھے۔ اور بہت کم کھانا کھاتے تھے اور بعض اوقات ساری ساری رات لکھتے رہتے تھے۔ اندرون خانہ میں بھی نہایت سادہ رہتے تھے۔ یہ سب خانگی امور ایسے ہیں۔ جو خدا کے فضل سے میرے دل میں کَالنَّقْشِ فِی الْحَجَر ہیں اور بفضلہ تعالیٰ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی بلا آنحضور علیہ السلام پر ایمان لانے سے مجھے نہیں روک سکتی۔ کیونکہ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔
{ 838} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر گوہر الدین صاحب جب انٹرنس کے امتحان میں پہلی دفعہ ناکام ہوئے۔ تو انہوں نے میرے روبرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں اپنی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے دعا کے لئے التجا کی۔ حضور نے نہایت الفت اور محبت سے دلجوئی کے طور پر مندرجہ ذیل جواب خط کی پُشت پر ارقام فرمایا:۔
’’السلام علیکم ایک روپیہ پہنچا۔ جزاکم اللہ تعالیٰ
خدا تمہیں پھر کامیاب کرے۔ اس میں خداتعالیٰ کی حکمت ہے۔ مَیں تمہارے دین اور دُنیا کے لئے دُعا کروں گا۔ کچھ غم نہ کرو۔ خدا داری چہ غم داری۔ پھر پاس ہو جائو گے۔‘‘
یہ خط برادرم ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس اب تک محفوظ ہے۔ چنانچہ وہ دوسرے سال انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اب بفضلہ تعالیٰ برہما میں سب اسسٹنٹ سرجن ہیں اور بہت عزت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب سکول کے بچوں کو بھی کس محبت کے ساتھ یاد فرماتے تھے۔
{ 839} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مارچ ۱۹۰۸ء میں جب ہم طلباء انٹرنس کے امتحان کے لئے امرتسر جانے لگے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت حاصل کرنے کے لئے حضور کے مکان پر حاضر ہوئے۔ جب حضور کو اطلاع کرائی گئی تو دروازہ پر پہنچتے ہی حضور نے فرمایا۔ ’’ خدا تم سب کو پاس کرے‘‘ اس کے بعد ہم نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحہ کیا۔ ایک لڑکا مسمی عطا محمد بعد میں دوڑتا ہوا آیا۔ اس وقت حضور ہمیں رخصت فرما کر چند قدم اندرون خانہ میں جا چکے تھے۔ تو عطا محمد مذکور نے حضور کا پیچھے سے دامن پکڑ کر زور سے کہا۔ ’’حضور مَیں رہ گیا ہوں‘‘۔ اس پر حضور مڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوئے۔ اور مصافحہ کرکے اس کو بھی رخصت کیا۔ یہ دوست اب سب اسسٹنٹ سرجن ہیں۔
خوا جہ عبدالرحمن صاحب نے مزید بیان کیا کہ اس سال سولہ طلباء انٹرنس کے امتحان میں شامل ہوئے تھے۔ جن میں سے کئی ایک تو اسی سال پاس ہو گئے۔ اور باقی کچھ دوسرے سال پاس ہوئے اور بعض جو پھر بھی پاس نہ ہوئے۔ وہ بھی بحمدا للہ مسیح موعود علیہ السَّلام کی دُعا سے اچھی حیثیت میں ہیں۔ اور اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں خوش زندگی گذار رہے ہیں۔
{ 840} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) ابتداء میں مدرسہ ہائی سکول میں لوئر پرائمری میں داخل کرائے گئے۔ تو ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب ہائی سکول کے بورڈنگ میں تشریف لائے اور حافظ غلام محمد صاحب (سابق مبلغ ماریشس) سے فرمانے لگے۔ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السَّلام نے میاں بشیر احمد کو بورڈنگ میں داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ ان کا خیال رکھا کریں۔ خاکسار بھی اس وقت پاس ہی کھڑا تھا۔ میر صاحب نے میرے متعلق فرمایا کہ یہ میاں صاحب کا بستہ گھر سے لایا اور لے جایا کرے گا۔ صاحبزادہ صاحب اس کے بعد دن کو بورڈنگ میں ہی رہا کرتے تھے۔ اور رات کو گھر چلے آتے تھے۔ اور مَیں بستہ بردار غلام تھا۔ حضرت ام المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ ماہوار کچھ نقدی بھی عطا فرماتی تھیں۔ مگر میرا اصل معاوضہ حضور کی خوشنودی اور دعا تھی۔
 
Top