محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 681} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتداء میں مَیں نے حضرت صاحب سے بھی کچھ پڑھا ہے۔ ایک فارسی کی کتاب تھی۔ وہ پڑھی تھی۔ لالہ ملاوامل۔ شرم پت اور کشن سنگھ بھی پڑھتے تھے۔ ملاوامل وشرم پت حکمت پڑھتے تھے اور کشن سنگھ قانون کی کتاب پڑھتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ ملاوامل اور لالہ شرم پت کا ذکر حضرت صاحب کی اکثر کتابوں میں آچکا ہے اور کشن سنگھ قادیان کا ایک باشندہ تھا جو سکھ مذہب کو بدل کر آریہ ہو گیا تھا۔ مگر کیس رہنے دئیے تھے۔ اس لئے اُسے لوگ کیسوں والا آریہ کہتے تھے۔ اب ان تینوں میں سے صرف لالہ ملاوامل زندہ ہیں۔ محررہ ۳۸؍ ۱۰؍ ۱۰
{ 682} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہو گئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جا کر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
{ 683} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں۔ مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی و جہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس قسم کے واقعات دوسرے لوگوں سے بھی سُنے ہیں کہ دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اس طرح پیش آتے تھے جس طرح انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت ہے۔ مگر جب مخالفت ہوئی تو اُسے بھی انتہا تک پہنچا دیا۔
{ 684} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی۔ اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اُسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہا۔ کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامتِ منافق یا علامتِ یہود کونسا لفظ فرمایا۔ مگر آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ضرور نکلے تھے کہ منافق یا یہود۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اور اُسے ناپسند فرماتے تھے۔
{ 685} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت اقدس نے مینار کی بنیاد رکھوائی تو اس کے بعد کچھ عمارت بن کر کچھ عرصہ تک مینار بننا بند ہو گیا تھا۔ اس پر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ اگر سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دے دیویں تو دس ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا اور مینار تیار ہو جائے گا۔ اور ان دوستوں کے نام مینار پر درج کئے جائینگے ہم تینوں بھائیوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم مع والد یکصد روپیہ مل کر ادا کر سکتے ہیں۔ اگر حضور منظور فرمائیں۔ تو حضور نے بڑی خوشی سے منظور فرمایا۔ اور ہم نے سو روپیہ ادا کر دیا۔
{ 686} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مدّ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا۔ کہ دیہات کی ہرکس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے (کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) اسی طرح آپ کو شہتیر والا مکان ناپسند تھا اور فرماتے تھے کہ ایسی چھت خطرناک ہوتی ہے۔ خود اپنی رہائش کے دالان کی چھت جس میں چار شہتیر تھے بدلوا کر صرف کڑیوں والی چھت ڈالوائی تھی۔ اسی طرح آپ نے لدھیانہ سے دہلی جاتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں کرنال والی لائن سے سفر کیا۔ کیونکہ دوسری طرف سے راستہ میں دو دفعہ دریا کا پُل آتا تھا۔ اور ان دنوں میں کچھ حادثات بھی ریلوں کے زیادہ ہوئے تھے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بھتیجے نے جو ایک نشہ باز اور خطرناک آدمی تھا۔ حضور کو ایک خط تحریر کیا۔ اور اس میں قتل کی دھمکی دی۔ کچھ دن بعد وہ خود قادیان آ گیا۔ آپ نے جب سُنا تو حضرت خلیفہ اولؓ کو تاکیداً کہلا بھیجا کہ اسے فوراً رخصت کر دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اُس کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکڑی کے شہتیر ہوتے تھے۔ جن سے یہ خطرہ ہوتا تھا۔ کہ اگر شہتیر ٹوٹے تو ساری چھت گر جائے گی۔ مگر آجکل لوہے کے گاڈر نکل آئے ہیں۔ جو بہت محفوظ ہوتے ہیں۔
{ 687} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ نماز پر زور دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنوار کر پڑھنے سے یہ مراد ہے کہ دل لگا کر پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے۔ اور نماز میں خشوع خضوع پیدا کیا جائے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں ایسی کیفیت پیدا کرلے تو وہ گویا ایک مضبوط قلعہ میں آ جاتا ہے۔
{ 688} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی۔ اس بیچاری کو سل کی بیماری تھی۔ جب وہ فوت ہو گئی تو اس کا ایک دوپٹہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے یاد دہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آ ہنی سلاخ سے بندھوا دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ڈاکٹرنی مرحومہ بہت مخلصہ تھی اور اس کی و جہ سے ڈاکٹر صاحب کا اخلاص بھی ترقی کر گیا تھا۔
{ 689} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۹۳ء تک گول کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا۔ پھر اس میں پریس آ گیا۔ جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا۔ اور کاتب بھی اسی جگہ مسودات کی کاپیاں لکھا کرتا تھا اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا۔ ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے۔ ۹۵ء میں حضرت والد صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر قادیان آگئے اور چونکہ اس وقت پریس اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے۔ اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا صحن بھی بنا لیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ گول کمرہ اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک کے قریب احمدیہ چوک پر واقع ہے اس کے ماتھے کی دیوار گول ہے۔ ابتداء زمانہ خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی کئی سال تک اس میں اپنا دفتر رکھا تھا۔
{ 690} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب قادیان کی فصیل کی جگہ پر مکانات بنے تو سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو کوٹھڑیاں شمالی جانب تعمیر ہوئیں۔ وہ بڑا کمرہ جو اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا موٹر خانہ ہے۔ یہ ضیاء الاسلام پریس کے لئے بنا تھا اور اس کے ساتھ کا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا۔ جس میں حضرت خلیفہ اولؓ مدت العمر مطب کرتے رہے۔ اس کے ساتھ شمالی جانب دو کوٹھڑیاں بنیں۔ ایک شرقی جانب جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا کتب خانہ رہتا تھا اور دوسری غربی جانب جس میں خاص مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور دیگر معزز مہمان ان ایام میں اسی کوٹھڑی میں ٹھہرتے تھے۔
{ 691} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اپنے خاندانی حالات کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے۔ جن میں سے مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:۔
(۱) کتاب البریہ ص۱۳۴ تا ۱۶۸ حاشیہ۔
(۲) ازالہ اوہام ـ بار اوّل۔ ص ۱۱۹ تا ۱۳۳ حاشیہ۔
(۳) آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ ص ۴۹۸ و ص ۵۴۱۔
(۴) استفتاء عربی۔ ص ۷۷۔
(۵) لجۃ النور ــ۔ ص۶ تا ۱۱۔
(۶) تریاق القلوب بار اول۔ ص ۳۵ حاشیہ و ص ۶۴ و ضمیمہ نمبر ۳ منسلکہ کتاب مذکور۔
(۷) کشف الغطاء ـص ۲ تا ۷۔
(۸) شہادت القرآن بار دوم۔ ص ۸۴ تا ۸۸۔
(۹)تحفہ قیصریہ۔ ص ۴ و ص ۱۸، ۱۹۔
(۱۰) ستارہ قیصرہ ۔ص ۳۔
(۱۱) اشتہار ۱۰۔ دسمبر ۱۸۹۴ء و اشتہار ۲۴۔ فروری ۱۸۹۸ء وغیرہ
{ 692} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے۔ یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں۔ تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’ مع اہل بیت‘‘ کے الفاظ بھی زائد کئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۹۷، ۱۸۹۶ء میں تیار کی تھی۔ اور اسے ضمیمہ انجامِ آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا۔ کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳، اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے۔
(دیکھو ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۰ تا۴۵)
{ 693} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ طاعون دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گی کہ یا تو یہ گناہ کو کھا جائے گی اور یا آدمیوں کو کھا جائے گی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ معنوی رنگ میں طاعون کے اندر وہ دوسرے عذاب بھی شامل ہیں جو خدا کی طرف سے اپنے مسیح کی تائید کے لئے نازل ہوئے یا آئندہ ہوں گے۔
{ 694} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک د فعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ بسا اوقات اگر کوئی شخص اس گورنمنٹ کے آگے سچ بولے تو وہ پکڑا جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے سامنے سچ بولے تو چھوٹ جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی دنیوی اور آسمانی حکومتوں میں یہ ایک بڑا لطیف فرق ہے اور یہ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ دنیوی حکومتیں بسا اوقات جھوٹ کو ترقی دینے والی بن جاتی ہیں حالانکہ آسمانی حکومت جھوٹ کو مٹاتی ہے۔
{ 695} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی کرم دین جہلمی کے مقدمہ کے دَوران میں لالہ آتما رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں بعض سوالات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کرم دین نے اپنے اپنے عقائد بیان کئے تھے۔ اس بیان کی مصدّقہ نقل میرے پاس موجود ہے۔ جس میں ایک نقشہ کی صُورت میں جوابات درج ہیں۔ یہ جوابات جو بعض اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ بصورت ذیل ہیں:۔
عقائد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
مستغیث (یعنی مولوی کرم دین) کا جواب
۱۔حضرت عیسٰے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔
۱۔ عیسٰے علیہ السلام زندہ ہیں۔
۲۔ حضرت عیسٰے علیہ السَّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتار لئے گئے تھے۔
۲۔ نہیں
۳۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان پر مع جسمِ عنصری نہیں گئے۔
۳۔ گئے
۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان سے نہیں اُترینگے اور نہ کسی قوم سے وہ لڑائی کریں گے۔
۴۔ آسمان سے اُتریں گے۔ اگر لڑائی کی ضرورت ہو گی تو لڑائی کریں گے۔ اگر امن کا زمانہ ہو گا تو نہیں کریں گے۔
۵۔ ایسا مہدی کوئی نہیں ہو گا جو دُنیا میں آ کر عیسائیوں اور دُوسرے مذاہب والوں سے جنگ کرے گا۔ اور غیر اسلام اقوام کو قتل کرکے اسلام کو غلبہ دے گا۔
۵۔ مہد ی علیہ السلام آئیں گے اور ایسے زمانہ میں آئیں گے جب بدامنی اور فساد دُنیا میں پھیلا ہو گا۔ فسادیوں کو مٹا کر امن قائم کریں گے۔
۶۔ اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام پھیلانے کیلئے لڑائی کرنا بالکل حرام ہے۔
۶۔ اس زمانہ میں برٹش انڈیا میں جہاد کرنا حرام ہے۔
۷۔ یہ بالکل غلط ہے کہ مسیح موعود آ کر صلیبوں کو توڑتا اور سؤروں کو مارتا پھرے گا۔
۷۔ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔
۸۔ مَیں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود اور امام زمان اور مجدّد وقت اور ظلی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔
۸۔ میں نہیں مانتا۔
۹۔ مسیح موعود اس امت کے تمام گذشتہ اولیاء سے افضل ہے۔
۹۔ مسیح موعود مرزا صاحب نہیں اور نہ وہ کسی سے افضل ہیں۔
۱۰۔ مسیح موعودمیں خدا نے تمام انبیاء کے صفات اور فضائل جمع کر دئیے ہیں۔
۱۰۔ مرزا صاحب نہ مسیح موعود ہیں۔ اور نہ ان میں اوصافِ نبوّت میں سے کوئی ہیں۔
۱۱۔ کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔
۱۱۔ بحث طلب ہے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے نہیں ہونا چاہئے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے ہو گا۔
۱۳۔ ا متِ محمدیہ کا مسیح اور اسرائیلی مسیح دو الگ الگ شخص ہیں اور مسیح محمدیؐ اسرائیلی مسیح سے افضل ہے۔
۱۳۔ مسیح ایک ہی ہے اور وہ اسرائیلی ہے۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے کوئی حقیقی مُردہ زندہ نہیں کیا۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے مُردے زندہ کئے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺکا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ نہیں ہوا۔
۱۵۔ آنحضرت کا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ ہوا۔
۱۶۔ خدا کی وحی آنحضرت ﷺ کے ساتھ منقطع نہیں ہوئی۔
۱۶۔ منقطع نہیں ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ عدالت کے ان سوالوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے جو جوابات دئیے ہیں۔ وہ سب کے سب اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ اور آپ کے جوابات سے نبوّت اور افضلیت بر مسیحِ ناصری وغیرہ کے مسائل بھی خوب واضح ہو جاتے ہیں۔
{ 696} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المؤمنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے۔ کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو۔ تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ مَیں نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا۔ کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکّر آ جایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔
{ 697} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔
{ 698} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں۔ نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔ عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔ جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔ تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔ اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ بسا اوقت ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔
{ 699} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی زمانہ میں حافظ معین عرف مانا حضرت صاحب کے پاس اکثر آیا کرتا تھا۔ مَیں جب حضرت صاحب کا کھانا لاتا۔ تو آپ اُسے رکھ لیتے اور فرماتے کہ حافظ مانا کے لئے بھی کھانا لائو۔ مَیں اس کے لئے عام لنگری کھانا (یعنی زمیندارہ کھانا) لاتا۔ جب وہ آ جاتا۔ تو آپ حافظ مانے کو فرماتے کھانا کھائو اور خود بھی اپنا کھانا شروع کر دیتے۔ آپ بہت آہستہ آہستہ اور بہت تھوڑا کھاتے تھے۔ جب معین الدین اپنا کھانا ختم کر لیتا۔ تو آپ پوچھتے کہ اور لو گے؟ جس پر وُہ کہتا۔ کہ جی، ہے تو دیدیں۔جس پر آپ اپنا کھانا جو قریباً اسی طرح پڑا ہوتا تھا۔ اُسے دیدیتے تھے۔ آپ چوتھائی روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ اور سالن دال بہت کم لگاتے تھے مگر اکثر اوقات سالن دال ملا لیا کرتے تھے۔ اس طرح مانا سب کچھ کھا جاتا تھا۔ ان ایام میں بالعموم سہ پہر کے بعد آپ مجھے ایک پیسہ دیتے کہ اس کے چنے بھُنوا لائو۔ مَیں بھُنوا لاتا۔ پھر تھوڑے سے دانے کھا کر پانی پی لیتے۔ اور ایک پیسہ کے دانے کئی دن تک کام آتے رہتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ معین الدین جو اب کئی سال ہوئے فوت ہو چکا ہے ایک نابینا شخص تھا۔ مگر نہایت مخلص شخص تھا حضرت صاحب کے پائوں دبایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی حضرت صاحب کو پنجابی شعر بھی سُنایا کرتا تھا۔ اور گو غریب تھا مگر چندہ بہت باقاعدہ دیتا تھا۔
{ 700} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کے ایّام میں آخری مرحلہ پر خوا جہ کمال الدین صاحب نے گورداسپور سے ایک خط حضرت صاحب کے نام دیا اور زبانی بھی کہا کہ یہ عرض کر دینا کہ حکام کی نیّت بد ہے۔ حضور دعا فرمائیں۔ مَیں وہ خط لے کر قادیان آ گیا۔ وہ خط حضور نے پڑھ لیا۔ مَیں نے زبانی بھی عرض کیا مگر حضورنے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر عرض کی۔ پھر جواب نہ ملا۔ پھر تیسری دفعہ عرض کرنے پر مسکرا کر فرمایا۔ کہ مَیں ایسے کاموں کے لئے دعا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص حالت اور خاص مقامِ محبت کی بات ہے۔ ورنہ آپ سے بڑھ کر دُعا کس نے کرنی ہے۔ دراصل آپ کا منشاء یہ تھا کہ مَیں خدا کے دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔ اگر اس خدمت میں مجھ پر کوئی ذاتی تکلیف وارد ہوتی ہے تو مَیں اس کے لئے دُعا نہیں کرونگا کیونکہ خدا خود دیکھ رہا ہے۔ وہ میری حفاظت فرمائے گا اور اگر اس کے منشاء کے ماتحت مجھ پر کوئی تکلیف ہی آنی ہے تو بے شک آئے مَیں اس کے برداشت کرنے میں راحت پائوں گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ ملاوامل اور لالہ شرم پت کا ذکر حضرت صاحب کی اکثر کتابوں میں آچکا ہے اور کشن سنگھ قادیان کا ایک باشندہ تھا جو سکھ مذہب کو بدل کر آریہ ہو گیا تھا۔ مگر کیس رہنے دئیے تھے۔ اس لئے اُسے لوگ کیسوں والا آریہ کہتے تھے۔ اب ان تینوں میں سے صرف لالہ ملاوامل زندہ ہیں۔ محررہ ۳۸؍ ۱۰؍ ۱۰
{ 682} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہو گئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جا کر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
{ 683} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں۔ مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی و جہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس قسم کے واقعات دوسرے لوگوں سے بھی سُنے ہیں کہ دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اس طرح پیش آتے تھے جس طرح انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت ہے۔ مگر جب مخالفت ہوئی تو اُسے بھی انتہا تک پہنچا دیا۔
{ 684} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی۔ اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اُسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہا۔ کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامتِ منافق یا علامتِ یہود کونسا لفظ فرمایا۔ مگر آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ضرور نکلے تھے کہ منافق یا یہود۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اور اُسے ناپسند فرماتے تھے۔
{ 685} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت اقدس نے مینار کی بنیاد رکھوائی تو اس کے بعد کچھ عمارت بن کر کچھ عرصہ تک مینار بننا بند ہو گیا تھا۔ اس پر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ اگر سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دے دیویں تو دس ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا اور مینار تیار ہو جائے گا۔ اور ان دوستوں کے نام مینار پر درج کئے جائینگے ہم تینوں بھائیوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم مع والد یکصد روپیہ مل کر ادا کر سکتے ہیں۔ اگر حضور منظور فرمائیں۔ تو حضور نے بڑی خوشی سے منظور فرمایا۔ اور ہم نے سو روپیہ ادا کر دیا۔
{ 686} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مدّ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا۔ کہ دیہات کی ہرکس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے (کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) اسی طرح آپ کو شہتیر والا مکان ناپسند تھا اور فرماتے تھے کہ ایسی چھت خطرناک ہوتی ہے۔ خود اپنی رہائش کے دالان کی چھت جس میں چار شہتیر تھے بدلوا کر صرف کڑیوں والی چھت ڈالوائی تھی۔ اسی طرح آپ نے لدھیانہ سے دہلی جاتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں کرنال والی لائن سے سفر کیا۔ کیونکہ دوسری طرف سے راستہ میں دو دفعہ دریا کا پُل آتا تھا۔ اور ان دنوں میں کچھ حادثات بھی ریلوں کے زیادہ ہوئے تھے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بھتیجے نے جو ایک نشہ باز اور خطرناک آدمی تھا۔ حضور کو ایک خط تحریر کیا۔ اور اس میں قتل کی دھمکی دی۔ کچھ دن بعد وہ خود قادیان آ گیا۔ آپ نے جب سُنا تو حضرت خلیفہ اولؓ کو تاکیداً کہلا بھیجا کہ اسے فوراً رخصت کر دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اُس کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکڑی کے شہتیر ہوتے تھے۔ جن سے یہ خطرہ ہوتا تھا۔ کہ اگر شہتیر ٹوٹے تو ساری چھت گر جائے گی۔ مگر آجکل لوہے کے گاڈر نکل آئے ہیں۔ جو بہت محفوظ ہوتے ہیں۔
{ 687} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ نماز پر زور دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنوار کر پڑھنے سے یہ مراد ہے کہ دل لگا کر پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے۔ اور نماز میں خشوع خضوع پیدا کیا جائے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں ایسی کیفیت پیدا کرلے تو وہ گویا ایک مضبوط قلعہ میں آ جاتا ہے۔
{ 688} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی۔ اس بیچاری کو سل کی بیماری تھی۔ جب وہ فوت ہو گئی تو اس کا ایک دوپٹہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے یاد دہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آ ہنی سلاخ سے بندھوا دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ڈاکٹرنی مرحومہ بہت مخلصہ تھی اور اس کی و جہ سے ڈاکٹر صاحب کا اخلاص بھی ترقی کر گیا تھا۔
{ 689} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۹۳ء تک گول کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا۔ پھر اس میں پریس آ گیا۔ جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا۔ اور کاتب بھی اسی جگہ مسودات کی کاپیاں لکھا کرتا تھا اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا۔ ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے۔ ۹۵ء میں حضرت والد صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر قادیان آگئے اور چونکہ اس وقت پریس اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے۔ اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا صحن بھی بنا لیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ گول کمرہ اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک کے قریب احمدیہ چوک پر واقع ہے اس کے ماتھے کی دیوار گول ہے۔ ابتداء زمانہ خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی کئی سال تک اس میں اپنا دفتر رکھا تھا۔
{ 690} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب قادیان کی فصیل کی جگہ پر مکانات بنے تو سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو کوٹھڑیاں شمالی جانب تعمیر ہوئیں۔ وہ بڑا کمرہ جو اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا موٹر خانہ ہے۔ یہ ضیاء الاسلام پریس کے لئے بنا تھا اور اس کے ساتھ کا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا۔ جس میں حضرت خلیفہ اولؓ مدت العمر مطب کرتے رہے۔ اس کے ساتھ شمالی جانب دو کوٹھڑیاں بنیں۔ ایک شرقی جانب جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا کتب خانہ رہتا تھا اور دوسری غربی جانب جس میں خاص مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور دیگر معزز مہمان ان ایام میں اسی کوٹھڑی میں ٹھہرتے تھے۔
{ 691} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اپنے خاندانی حالات کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے۔ جن میں سے مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:۔
(۱) کتاب البریہ ص۱۳۴ تا ۱۶۸ حاشیہ۔
(۲) ازالہ اوہام ـ بار اوّل۔ ص ۱۱۹ تا ۱۳۳ حاشیہ۔
(۳) آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ ص ۴۹۸ و ص ۵۴۱۔
(۴) استفتاء عربی۔ ص ۷۷۔
(۵) لجۃ النور ــ۔ ص۶ تا ۱۱۔
(۶) تریاق القلوب بار اول۔ ص ۳۵ حاشیہ و ص ۶۴ و ضمیمہ نمبر ۳ منسلکہ کتاب مذکور۔
(۷) کشف الغطاء ـص ۲ تا ۷۔
(۸) شہادت القرآن بار دوم۔ ص ۸۴ تا ۸۸۔
(۹)تحفہ قیصریہ۔ ص ۴ و ص ۱۸، ۱۹۔
(۱۰) ستارہ قیصرہ ۔ص ۳۔
(۱۱) اشتہار ۱۰۔ دسمبر ۱۸۹۴ء و اشتہار ۲۴۔ فروری ۱۸۹۸ء وغیرہ
{ 692} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے۔ یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں۔ تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’ مع اہل بیت‘‘ کے الفاظ بھی زائد کئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۹۷، ۱۸۹۶ء میں تیار کی تھی۔ اور اسے ضمیمہ انجامِ آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا۔ کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳، اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے۔
(دیکھو ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۰ تا۴۵)
{ 693} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ طاعون دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گی کہ یا تو یہ گناہ کو کھا جائے گی اور یا آدمیوں کو کھا جائے گی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ معنوی رنگ میں طاعون کے اندر وہ دوسرے عذاب بھی شامل ہیں جو خدا کی طرف سے اپنے مسیح کی تائید کے لئے نازل ہوئے یا آئندہ ہوں گے۔
{ 694} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک د فعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ بسا اوقات اگر کوئی شخص اس گورنمنٹ کے آگے سچ بولے تو وہ پکڑا جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے سامنے سچ بولے تو چھوٹ جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی دنیوی اور آسمانی حکومتوں میں یہ ایک بڑا لطیف فرق ہے اور یہ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ دنیوی حکومتیں بسا اوقات جھوٹ کو ترقی دینے والی بن جاتی ہیں حالانکہ آسمانی حکومت جھوٹ کو مٹاتی ہے۔
{ 695} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی کرم دین جہلمی کے مقدمہ کے دَوران میں لالہ آتما رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں بعض سوالات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کرم دین نے اپنے اپنے عقائد بیان کئے تھے۔ اس بیان کی مصدّقہ نقل میرے پاس موجود ہے۔ جس میں ایک نقشہ کی صُورت میں جوابات درج ہیں۔ یہ جوابات جو بعض اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ بصورت ذیل ہیں:۔
عقائد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
مستغیث (یعنی مولوی کرم دین) کا جواب
۱۔حضرت عیسٰے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔
۱۔ عیسٰے علیہ السلام زندہ ہیں۔
۲۔ حضرت عیسٰے علیہ السَّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتار لئے گئے تھے۔
۲۔ نہیں
۳۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان پر مع جسمِ عنصری نہیں گئے۔
۳۔ گئے
۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان سے نہیں اُترینگے اور نہ کسی قوم سے وہ لڑائی کریں گے۔
۴۔ آسمان سے اُتریں گے۔ اگر لڑائی کی ضرورت ہو گی تو لڑائی کریں گے۔ اگر امن کا زمانہ ہو گا تو نہیں کریں گے۔
۵۔ ایسا مہدی کوئی نہیں ہو گا جو دُنیا میں آ کر عیسائیوں اور دُوسرے مذاہب والوں سے جنگ کرے گا۔ اور غیر اسلام اقوام کو قتل کرکے اسلام کو غلبہ دے گا۔
۵۔ مہد ی علیہ السلام آئیں گے اور ایسے زمانہ میں آئیں گے جب بدامنی اور فساد دُنیا میں پھیلا ہو گا۔ فسادیوں کو مٹا کر امن قائم کریں گے۔
۶۔ اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام پھیلانے کیلئے لڑائی کرنا بالکل حرام ہے۔
۶۔ اس زمانہ میں برٹش انڈیا میں جہاد کرنا حرام ہے۔
۷۔ یہ بالکل غلط ہے کہ مسیح موعود آ کر صلیبوں کو توڑتا اور سؤروں کو مارتا پھرے گا۔
۷۔ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔
۸۔ مَیں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود اور امام زمان اور مجدّد وقت اور ظلی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔
۸۔ میں نہیں مانتا۔
۹۔ مسیح موعود اس امت کے تمام گذشتہ اولیاء سے افضل ہے۔
۹۔ مسیح موعود مرزا صاحب نہیں اور نہ وہ کسی سے افضل ہیں۔
۱۰۔ مسیح موعودمیں خدا نے تمام انبیاء کے صفات اور فضائل جمع کر دئیے ہیں۔
۱۰۔ مرزا صاحب نہ مسیح موعود ہیں۔ اور نہ ان میں اوصافِ نبوّت میں سے کوئی ہیں۔
۱۱۔ کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔
۱۱۔ بحث طلب ہے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے نہیں ہونا چاہئے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے ہو گا۔
۱۳۔ ا متِ محمدیہ کا مسیح اور اسرائیلی مسیح دو الگ الگ شخص ہیں اور مسیح محمدیؐ اسرائیلی مسیح سے افضل ہے۔
۱۳۔ مسیح ایک ہی ہے اور وہ اسرائیلی ہے۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے کوئی حقیقی مُردہ زندہ نہیں کیا۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے مُردے زندہ کئے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺکا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ نہیں ہوا۔
۱۵۔ آنحضرت کا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ ہوا۔
۱۶۔ خدا کی وحی آنحضرت ﷺ کے ساتھ منقطع نہیں ہوئی۔
۱۶۔ منقطع نہیں ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ عدالت کے ان سوالوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے جو جوابات دئیے ہیں۔ وہ سب کے سب اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ اور آپ کے جوابات سے نبوّت اور افضلیت بر مسیحِ ناصری وغیرہ کے مسائل بھی خوب واضح ہو جاتے ہیں۔
{ 696} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المؤمنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے۔ کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو۔ تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ مَیں نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا۔ کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکّر آ جایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔
{ 697} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔
{ 698} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں۔ نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔ عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔ جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔ تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔ اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ بسا اوقت ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔
{ 699} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی زمانہ میں حافظ معین عرف مانا حضرت صاحب کے پاس اکثر آیا کرتا تھا۔ مَیں جب حضرت صاحب کا کھانا لاتا۔ تو آپ اُسے رکھ لیتے اور فرماتے کہ حافظ مانا کے لئے بھی کھانا لائو۔ مَیں اس کے لئے عام لنگری کھانا (یعنی زمیندارہ کھانا) لاتا۔ جب وہ آ جاتا۔ تو آپ حافظ مانے کو فرماتے کھانا کھائو اور خود بھی اپنا کھانا شروع کر دیتے۔ آپ بہت آہستہ آہستہ اور بہت تھوڑا کھاتے تھے۔ جب معین الدین اپنا کھانا ختم کر لیتا۔ تو آپ پوچھتے کہ اور لو گے؟ جس پر وُہ کہتا۔ کہ جی، ہے تو دیدیں۔جس پر آپ اپنا کھانا جو قریباً اسی طرح پڑا ہوتا تھا۔ اُسے دیدیتے تھے۔ آپ چوتھائی روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ اور سالن دال بہت کم لگاتے تھے مگر اکثر اوقات سالن دال ملا لیا کرتے تھے۔ اس طرح مانا سب کچھ کھا جاتا تھا۔ ان ایام میں بالعموم سہ پہر کے بعد آپ مجھے ایک پیسہ دیتے کہ اس کے چنے بھُنوا لائو۔ مَیں بھُنوا لاتا۔ پھر تھوڑے سے دانے کھا کر پانی پی لیتے۔ اور ایک پیسہ کے دانے کئی دن تک کام آتے رہتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ معین الدین جو اب کئی سال ہوئے فوت ہو چکا ہے ایک نابینا شخص تھا۔ مگر نہایت مخلص شخص تھا حضرت صاحب کے پائوں دبایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی حضرت صاحب کو پنجابی شعر بھی سُنایا کرتا تھا۔ اور گو غریب تھا مگر چندہ بہت باقاعدہ دیتا تھا۔
{ 700} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کے ایّام میں آخری مرحلہ پر خوا جہ کمال الدین صاحب نے گورداسپور سے ایک خط حضرت صاحب کے نام دیا اور زبانی بھی کہا کہ یہ عرض کر دینا کہ حکام کی نیّت بد ہے۔ حضور دعا فرمائیں۔ مَیں وہ خط لے کر قادیان آ گیا۔ وہ خط حضور نے پڑھ لیا۔ مَیں نے زبانی بھی عرض کیا مگر حضورنے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر عرض کی۔ پھر جواب نہ ملا۔ پھر تیسری دفعہ عرض کرنے پر مسکرا کر فرمایا۔ کہ مَیں ایسے کاموں کے لئے دعا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص حالت اور خاص مقامِ محبت کی بات ہے۔ ورنہ آپ سے بڑھ کر دُعا کس نے کرنی ہے۔ دراصل آپ کا منشاء یہ تھا کہ مَیں خدا کے دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔ اگر اس خدمت میں مجھ پر کوئی ذاتی تکلیف وارد ہوتی ہے تو مَیں اس کے لئے دُعا نہیں کرونگا کیونکہ خدا خود دیکھ رہا ہے۔ وہ میری حفاظت فرمائے گا اور اگر اس کے منشاء کے ماتحت مجھ پر کوئی تکلیف ہی آنی ہے تو بے شک آئے مَیں اس کے برداشت کرنے میں راحت پائوں گا۔