محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 361} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کوامام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجودسورۃ فاتحہ کوضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتااس کی نمازنہیں ہوتی ۔کیونکہ بہت سے بزرگ اوراولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاو ت ضروری نہیں سمجھتے تھے۔اور میں ان کی نمازو ںکوضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہوکر اس کی تلاوت کو سننا چاہیے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہیے ۔اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجوداس عقیدہ کے آپ غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جوشخص سورۃ فاتحہ نہیںپڑھتا اس کی نمازنہیں ہوتی۔
{ 362} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیاکہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیدا ہوئی تھی اور بشیر اوّل اتوارسے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود (یعنی حضرت خلیفہ ثانی)ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم (یعنی یہ خاکسار )جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کے نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شائد پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دُعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے(شدائد والے )اثر سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثیرات اور افاضۂ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تا ثیرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں ۔
{ 363} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس سفارش کی کہ مولوی یار محمدؐ صاحب کومدرسہ میں بطور مدرس کے لگالیا جاوے ۔مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور تو ان کی حالت کو جانتے ہیں ۔حضرت صاحب مسکراکر فرمانے لگے کہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں مگر پھر بھی لگا لینا چاہیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی یار محمد صاحب ایک بڑے مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کوبہت محبت تھی مگر چونکہ ان کے اندر ایک خاص قسم کادماغی نقص تھا اس لئے غالباً اسے مد نظر رکھتے ہوئے مولوی محمدعلی صاحب نے حضرت صاحب کی سفارش پر یہ الفاظ عرض کئے ہوںگے ۔لیکن بایں ہمہ حضرت صاحب نے ان کے لگائے جانے کی سفارش فرمائی جو شائد اس خیال سے ہوگی کہ ایک تو ان کیلئے ایک ذریعہ معاش ہوجائیگا اور دوسرے شائد کام میں پڑنے سے ان کی کچھ اصلاح ہوجاوے۔اور یہ جو حضرت صاحب نے فرمایاکہ میں ان کو آپ سے بدتر جانتا ہوں۔ یہ اس لئے تھا کہ مولوی یار محمد صاحب کی اس دماغی حالت کا نشانہ زیادہ تر خودحضرت مسیح موعود ؑ رہتے تھے ۔ اور بہترکی جگہ بدتر کا لفظ استعمال کرناغالباًمعاملہ کی اصل حقیقت کو ظاہرکرنے کیلئے تھااور شائد کسی قدر بطور مزاح بھی ہو۔
{ 364} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دائی کو بلا کر اس سے شہادت لی تھی کہ آپ کی ولادت توام ہوئی تھی اور یہ کہ جو لڑکی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے تھے اور پھر اس کے تحریری بیان پر اس کے انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کروایا تھا اور بعض دوسری بو ڑھی عورتوں کی شہادت بھی درج کروائی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے دن چاند کی چودھویںتاریخ کو ہوئی تھی ۔
{ 365} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی کی زبانی سُنا ہے کہ ایک دفعہ کوئی انگریزی خوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ عربی زبان میں مفہوم کے ادا کرنے کے لئے انگریزی کی نسبت زیادہ طول اختیار کرنا پڑتا ہے۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ اچھا آپ انگریزی میں ’’ آب من‘‘ کے مفہوم کو کس طرح ادا کریں گے ؟اس نے جواب دیا کہ اس کے لئے ’’مائی واٹر‘‘کے الفاظ ہیں۔حضرت صاحب نے فرمایاکہ عربی میں صرف ’’مائی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔خاکسار عرض کرتاہے۔کہ یہ صرف ایک وقتی جواب بطورلطیفے کا تھا ۔ورنہ یہ نہیں کہ حضرت صاحب کے نزدیک صرف یہ دلیل اس مسئلہ کے حل کے لئے کافی تھی۔
{ 366} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضرہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں ۔اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کردی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا ۔اس کے جوا ب میںجو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے ۔اس وقت مولوی عبد اللطیف صا حب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہو ں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کوسمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ۔اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے ۔فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا ۔
{ 367} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا۔کہ انبیاء کے متعلق بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ہسٹیریا کا مرض ہوتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ انبیاء کے حواس میں چونکہ بہت غیرمعمولی حدت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لئے نا واقف لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل وہ ہسٹیریا نہیں ہوتا بلکہ صرف ظاہری صورت میں ہسٹیریا سے ملتی جلتی حالت ہوتی ہے ۔ لیکن لوگ غلطی سے اس کا نا م ہسٹیریا رکھ دیتے ہیں ۔
{ 368} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵جون ۱۸۹۸ء ہے ۔زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے ۔اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:۔
’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا ۔بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہو ں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں ۔ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہو نہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دونگا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سر کاری فصل خریف ۱۹۵۵(بکرمی )سے مر تہنہ دے گی اور پیدا وار لے گی ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویزکردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
{ 369} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خا ن صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اورحضرت صاحب نے مہر نامہ کوباقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعدہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمدؐ عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہواتو مہر (۱۵۰۰۰)مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا ۔لیکن ہم تینو ں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہو گئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہو کر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا ۔در اصل مہر کی تعدادزیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کااحتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میںیہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگو ں کی شہادتیںاس پر ثبت ہو جاویں۔کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے ۔پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے۔
{ 370} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا ۔ آپ نے وہ بال ایک کُھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کوسر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت ا لدُّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا ۔اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدُعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دُعا کی تحریک رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت ا لدُّعا میں لٹکی رہی ۔لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی ۔
{ 371} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتر وا دیا کرتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں۔جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھانا عُجب اور تکبر پیدا کرتا ہے ۔لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے ۔اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے ۔منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتر وا دینی مناسب ہے۔جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے ۔اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے۔مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتر وانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت ﷺ کے ارشادکے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے۔
{ 372} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُناہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن در اصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں ۔مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا۔چکروں کاآنا ۔ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا ۔ گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہوناکہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشا ن ہونے لگنا وغیر ذالک۔یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اور ہسٹیریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہے اور انہی معنو ں میں حضرت صاحب کو ہسٹیریا یا مراق بھی تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری جگہ جو مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ جو بعض انبیاء کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ہسٹیریا تھا یہ ان کی غلطی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ حس کی تیزی کی وجہ سے ان کے اندر بعض ایسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہسٹیریا کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ اس لئے لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب جو کبھی کبھی یہ فرمادیتے تھے کہ مجھے ہسٹیریا ہے یہ اسی عام محاورہ کے مطابق تھاورنہ آپ علمی طورپر یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہسٹیریا نہیں۔بلکہ اس سے ملتی جلتی علامات ہیںجوذکاوت حس یا شدت کار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمدؐ اسماعیل صاحب ایک بہت قابل اور لائق ڈاکٹر ہیں ۔چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوتے تھے اور ڈاکٹری کے آخری امتحان میں تمام صوبہ پنجاب میں اوّل نمبر پر رہے تھے اور ایّام ملازمت میں بھی ا ن کی لیاقت و قابلیت مسلّم رہی ہے ۔اور چونکہ بوجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی رشتہ دار ہونے کے ان کو حضرت صاحب کی صحبت اور آپ کے علاج معالجہ کا بھی بہت کافی موقعہ ملتا رہتا تھا اس لئے ان کی رائے اس معاملہ میںایک خاص وز ن رکھتی ہے جو دوسری کسی رائے کو کم حاصل ہے۔
{ 373} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پریو نہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے ۔اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوںتو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے۔نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثا نی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلانا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزو ں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے ۔
{ 374} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جمعہ مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا ۔ چونکہ شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت صاحب کے اہل وعیال بھی سفر میں ساتھ تھے ۔اس لئے حضرت صاحب مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے مجھے ٹھہرا گئے تھے ۔چنانچہ آپ کی واپسی تک میں نے مکان کا پہرا دیا اور میں نے دل میں یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رخ نہیں کرنے دوں گا ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ میرے چچا ایک خوب مضبوط آدمی تھے اور ہمارے خاندان میں انہوں نے سب سے پہلے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی ۔
{ 375} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے ۔حضرت مولوی صاحب کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تا ویل کی ضرورت نہیں ۔اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے ۔اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صا حب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ پس اس موقعہ پر بھی آنحضرت ﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شا مل کر لیا تا کہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نزول ملائکہ کی حقیقت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب ’’توضیح مرام‘‘’’ازالہ اوہام ‘‘اور خصو صاً ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں مفصل بحث فرمائی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے سے پہلے سر سیّد احمد خان مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف مائل تھے اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصر فات کی تا ویل فرمادیا کرتے تھے اور ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا اور خالص پر تو نبوت سے طبیعت متاثر ہوتی گئی ۔
{ 376} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔کہ آتھم کے مباحثہ کے قریب ہی کے زمانہ میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک ملازم لڑکے مسمی چراغ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیاکہ باہر دو میمیں آئی ہیـں ۔حضرت صاحب اس وقت چھت کے صحن پر ٹہل رہے تھے۔فرمایا کیوں آئی ہیں؟اس نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہہ دیاکہ بحث کرنے کے لئے آئی ہیں۔حضور فوراً اپنا چغہ پہن کر اور عصا ہا تھ میں لے کر نیچے اُترے اور احمدیہ چوک میں تشریف لے گئے۔جب ان میموں نے حضور صاحب کو دیکھا تو کہا کہ مرزا صاحب ہم نے فلاں گاؤں میں جانا ہے ہمارے لئے کوئی سواری کا انتظام کر دیں ۔ موجودہ یکہ کو ہم یہیں چھوڑ دیں گے ۔حضرت صاحب نے کسی خادم کو اس کاانتظام کرنے کا حکم دیا اور خود واپس گھر میں تشریف لے آئے۔در اصل ان میموں نے بطور رئیس قصبہ کے آپ سے یہ امداد مانگی تھی مگر چراغ نے یہ سمجھ کر کہ حضور ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات میں مصروف رہتے ہیں اپنی طرف سے یہ اجتہاد کر لیا کہ یہ میمیں بھی اسی کام کے لئے آئی ہیں۔
{ 377} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صا حب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کیلئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے ۔اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہا تھ ایک نیا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی ۔گھر میں تلاش سے معلوم ہواکہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دھلاکرتہ موجود نہیں ۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہا ںکا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے ۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے ۔ چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دیدیا گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالباً یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی ۔لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہو تا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا ہو امیلا بے دھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کر تے ہوئے گھر میںپہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کرتہ دیدیا گیا۔
{ 378} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پائوں کے تلے کیطرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کابٹن دوسر ے کا ج میں لگا ہوا ہوتا تھا ۔اور بعض اوقات کو ئی دوست حضور کیلئے گر گابی ہدیۃً لا تا تو آپ بسا اوقات دایاں پائوں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے ۔اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجا تا ہے ۔
{ 379} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا ۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے ۔ بار ہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے ۔
{ 380} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈا کٹر میر محمد ؐ اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔
{ 362} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیاکہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیدا ہوئی تھی اور بشیر اوّل اتوارسے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود (یعنی حضرت خلیفہ ثانی)ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم (یعنی یہ خاکسار )جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کے نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شائد پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دُعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے(شدائد والے )اثر سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثیرات اور افاضۂ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تا ثیرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں ۔
{ 363} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس سفارش کی کہ مولوی یار محمدؐ صاحب کومدرسہ میں بطور مدرس کے لگالیا جاوے ۔مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور تو ان کی حالت کو جانتے ہیں ۔حضرت صاحب مسکراکر فرمانے لگے کہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں مگر پھر بھی لگا لینا چاہیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی یار محمد صاحب ایک بڑے مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کوبہت محبت تھی مگر چونکہ ان کے اندر ایک خاص قسم کادماغی نقص تھا اس لئے غالباً اسے مد نظر رکھتے ہوئے مولوی محمدعلی صاحب نے حضرت صاحب کی سفارش پر یہ الفاظ عرض کئے ہوںگے ۔لیکن بایں ہمہ حضرت صاحب نے ان کے لگائے جانے کی سفارش فرمائی جو شائد اس خیال سے ہوگی کہ ایک تو ان کیلئے ایک ذریعہ معاش ہوجائیگا اور دوسرے شائد کام میں پڑنے سے ان کی کچھ اصلاح ہوجاوے۔اور یہ جو حضرت صاحب نے فرمایاکہ میں ان کو آپ سے بدتر جانتا ہوں۔ یہ اس لئے تھا کہ مولوی یار محمد صاحب کی اس دماغی حالت کا نشانہ زیادہ تر خودحضرت مسیح موعود ؑ رہتے تھے ۔ اور بہترکی جگہ بدتر کا لفظ استعمال کرناغالباًمعاملہ کی اصل حقیقت کو ظاہرکرنے کیلئے تھااور شائد کسی قدر بطور مزاح بھی ہو۔
{ 364} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دائی کو بلا کر اس سے شہادت لی تھی کہ آپ کی ولادت توام ہوئی تھی اور یہ کہ جو لڑکی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے تھے اور پھر اس کے تحریری بیان پر اس کے انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کروایا تھا اور بعض دوسری بو ڑھی عورتوں کی شہادت بھی درج کروائی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے دن چاند کی چودھویںتاریخ کو ہوئی تھی ۔
{ 365} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی کی زبانی سُنا ہے کہ ایک دفعہ کوئی انگریزی خوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ عربی زبان میں مفہوم کے ادا کرنے کے لئے انگریزی کی نسبت زیادہ طول اختیار کرنا پڑتا ہے۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ اچھا آپ انگریزی میں ’’ آب من‘‘ کے مفہوم کو کس طرح ادا کریں گے ؟اس نے جواب دیا کہ اس کے لئے ’’مائی واٹر‘‘کے الفاظ ہیں۔حضرت صاحب نے فرمایاکہ عربی میں صرف ’’مائی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔خاکسار عرض کرتاہے۔کہ یہ صرف ایک وقتی جواب بطورلطیفے کا تھا ۔ورنہ یہ نہیں کہ حضرت صاحب کے نزدیک صرف یہ دلیل اس مسئلہ کے حل کے لئے کافی تھی۔
{ 366} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضرہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں ۔اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کردی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا ۔اس کے جوا ب میںجو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے ۔اس وقت مولوی عبد اللطیف صا حب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہو ں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کوسمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ۔اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے ۔فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا ۔
{ 367} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا۔کہ انبیاء کے متعلق بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ہسٹیریا کا مرض ہوتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ انبیاء کے حواس میں چونکہ بہت غیرمعمولی حدت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لئے نا واقف لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل وہ ہسٹیریا نہیں ہوتا بلکہ صرف ظاہری صورت میں ہسٹیریا سے ملتی جلتی حالت ہوتی ہے ۔ لیکن لوگ غلطی سے اس کا نا م ہسٹیریا رکھ دیتے ہیں ۔
{ 368} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵جون ۱۸۹۸ء ہے ۔زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے ۔اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:۔
’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا ۔بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہو ں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں ۔ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہو نہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دونگا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سر کاری فصل خریف ۱۹۵۵(بکرمی )سے مر تہنہ دے گی اور پیدا وار لے گی ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویزکردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
{ 369} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خا ن صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اورحضرت صاحب نے مہر نامہ کوباقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعدہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمدؐ عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہواتو مہر (۱۵۰۰۰)مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا ۔لیکن ہم تینو ں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہو گئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہو کر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا ۔در اصل مہر کی تعدادزیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کااحتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میںیہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگو ں کی شہادتیںاس پر ثبت ہو جاویں۔کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے ۔پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے۔
{ 370} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا ۔ آپ نے وہ بال ایک کُھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کوسر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت ا لدُّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا ۔اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدُعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دُعا کی تحریک رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت ا لدُّعا میں لٹکی رہی ۔لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی ۔
{ 371} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتر وا دیا کرتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں۔جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھانا عُجب اور تکبر پیدا کرتا ہے ۔لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے ۔اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے ۔منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتر وا دینی مناسب ہے۔جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے ۔اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے۔مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتر وانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت ﷺ کے ارشادکے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے۔
{ 372} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُناہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن در اصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں ۔مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا۔چکروں کاآنا ۔ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا ۔ گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہوناکہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشا ن ہونے لگنا وغیر ذالک۔یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اور ہسٹیریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہے اور انہی معنو ں میں حضرت صاحب کو ہسٹیریا یا مراق بھی تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری جگہ جو مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ جو بعض انبیاء کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ہسٹیریا تھا یہ ان کی غلطی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ حس کی تیزی کی وجہ سے ان کے اندر بعض ایسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہسٹیریا کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ اس لئے لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب جو کبھی کبھی یہ فرمادیتے تھے کہ مجھے ہسٹیریا ہے یہ اسی عام محاورہ کے مطابق تھاورنہ آپ علمی طورپر یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہسٹیریا نہیں۔بلکہ اس سے ملتی جلتی علامات ہیںجوذکاوت حس یا شدت کار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمدؐ اسماعیل صاحب ایک بہت قابل اور لائق ڈاکٹر ہیں ۔چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوتے تھے اور ڈاکٹری کے آخری امتحان میں تمام صوبہ پنجاب میں اوّل نمبر پر رہے تھے اور ایّام ملازمت میں بھی ا ن کی لیاقت و قابلیت مسلّم رہی ہے ۔اور چونکہ بوجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی رشتہ دار ہونے کے ان کو حضرت صاحب کی صحبت اور آپ کے علاج معالجہ کا بھی بہت کافی موقعہ ملتا رہتا تھا اس لئے ان کی رائے اس معاملہ میںایک خاص وز ن رکھتی ہے جو دوسری کسی رائے کو کم حاصل ہے۔
{ 373} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پریو نہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے ۔اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوںتو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے۔نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثا نی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلانا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزو ں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے ۔
{ 374} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جمعہ مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا ۔ چونکہ شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت صاحب کے اہل وعیال بھی سفر میں ساتھ تھے ۔اس لئے حضرت صاحب مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے مجھے ٹھہرا گئے تھے ۔چنانچہ آپ کی واپسی تک میں نے مکان کا پہرا دیا اور میں نے دل میں یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رخ نہیں کرنے دوں گا ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ میرے چچا ایک خوب مضبوط آدمی تھے اور ہمارے خاندان میں انہوں نے سب سے پہلے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی ۔
{ 375} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے ۔حضرت مولوی صاحب کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تا ویل کی ضرورت نہیں ۔اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے ۔اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صا حب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ پس اس موقعہ پر بھی آنحضرت ﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شا مل کر لیا تا کہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نزول ملائکہ کی حقیقت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب ’’توضیح مرام‘‘’’ازالہ اوہام ‘‘اور خصو صاً ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں مفصل بحث فرمائی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے سے پہلے سر سیّد احمد خان مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف مائل تھے اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصر فات کی تا ویل فرمادیا کرتے تھے اور ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا اور خالص پر تو نبوت سے طبیعت متاثر ہوتی گئی ۔
{ 376} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔کہ آتھم کے مباحثہ کے قریب ہی کے زمانہ میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک ملازم لڑکے مسمی چراغ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیاکہ باہر دو میمیں آئی ہیـں ۔حضرت صاحب اس وقت چھت کے صحن پر ٹہل رہے تھے۔فرمایا کیوں آئی ہیں؟اس نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہہ دیاکہ بحث کرنے کے لئے آئی ہیں۔حضور فوراً اپنا چغہ پہن کر اور عصا ہا تھ میں لے کر نیچے اُترے اور احمدیہ چوک میں تشریف لے گئے۔جب ان میموں نے حضور صاحب کو دیکھا تو کہا کہ مرزا صاحب ہم نے فلاں گاؤں میں جانا ہے ہمارے لئے کوئی سواری کا انتظام کر دیں ۔ موجودہ یکہ کو ہم یہیں چھوڑ دیں گے ۔حضرت صاحب نے کسی خادم کو اس کاانتظام کرنے کا حکم دیا اور خود واپس گھر میں تشریف لے آئے۔در اصل ان میموں نے بطور رئیس قصبہ کے آپ سے یہ امداد مانگی تھی مگر چراغ نے یہ سمجھ کر کہ حضور ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات میں مصروف رہتے ہیں اپنی طرف سے یہ اجتہاد کر لیا کہ یہ میمیں بھی اسی کام کے لئے آئی ہیں۔
{ 377} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صا حب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کیلئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے ۔اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہا تھ ایک نیا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی ۔گھر میں تلاش سے معلوم ہواکہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دھلاکرتہ موجود نہیں ۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہا ںکا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے ۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے ۔ چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دیدیا گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالباً یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی ۔لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہو تا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا ہو امیلا بے دھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کر تے ہوئے گھر میںپہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کرتہ دیدیا گیا۔
{ 378} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پائوں کے تلے کیطرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کابٹن دوسر ے کا ج میں لگا ہوا ہوتا تھا ۔اور بعض اوقات کو ئی دوست حضور کیلئے گر گابی ہدیۃً لا تا تو آپ بسا اوقات دایاں پائوں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے ۔اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجا تا ہے ۔
{ 379} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا ۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے ۔ بار ہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے ۔
{ 380} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈا کٹر میر محمد ؐ اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔