محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 476} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض خاص فقرات حضور کی زبان پر اکثر جاری رہتے تھے۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے۔ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ـ لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَیْنِ۔ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سے فقرہ نمبر ۲ کا ترجمہ بھی اکثر سُنا ہے یعنی مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا۔
{ 477} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں سے بیعت صرف زبانی لیتے تھے۔ ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیتے تھے۔ نیز آپ بیعت ہمیشہ اُردو الفاظ میں لیتے تھے۔ مگر بعض اوقات دہقانی لوگوں یا دیہاتی عورتوں سے پنجابی الفاظ میں بھی بیعت لے لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے پتہ لگتا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺبھی عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے اُن کے ہاتھ کو نہیں چُھوتے تھے۔ دراصل قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ عورت کو کسی غیر محرم پر اظہارِ زینت نہیں کرنا چاہئے۔ اسی کے اندر لمس کی ممانعت بھی شامل ہے۔ کیونکہ جسم کے چُھونے سے بھی زینت کا اظہار ہو جاتا ہے۔
{ 478} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِلَیْہ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک دُنب یعنی دُم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے۔ اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے۔ اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دُعا مانگے اور استغفار کرے تاکہ اس حیوانی دُم سے بچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنا رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں غالباً یہ لفظی لطیفہ بھی مدِ نظر ہے کہ ذنب یعنی گناہ حقیقۃً ایک دُنب یعنی دُم ہے۔ جو انسان کی اصلی فطرت کے خلاف اس کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے۔ گویا جس طرح ذنب اور دُنب یعنی دُم کے الفاظ اپنی ظاہری صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اسی طرح ان میں معنوی مشابہت بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{479} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مَیں گھوڑی سے گِر پڑا۔ اور میری دا ہنی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس لئے یہ ہاتھ کمزور ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مَیں قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ حضور نے پوچھا۔ شاہ صاحب آپ کا کیا حال ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ کی انگلیاں کمزور ہو گئی ہیں اور اچھی طرح مٹھی بند نہیں ہوتی۔ حضور دعا فرمائیں کہ پنجہ ٹھیک ہو جائے۔ مجھ کو یقین تھا کہ اگر حضور نے دعا فرمائی تو شفا بھی اپنا کام ضرور کرے گی۔ لیکن بلاتامل حضور نے فرمایا۔ کہ شاہ صاحب ہمارے مونڈھے پر بھی ضرب آئی تھی جس کی وجہ سے اب تک وہ کمزور ہے۔ ساتھ ہی حضور نے مجھے اپنا شانہ ننگا کرکے دکھایا اور فرمایا کہ آپ بھی صبر کریں۔ پس اس وقت سے وہی ہاتھ کی کمزوری مجھ کو بدستور ہے اور مَیں نے سمجھ لیا کہ اب یہ تقدیر ٹلنے والی نہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے اصحاب سے کس قدر بے تکلف تھے کہ فوراً اپنے شانہ ننگا کرکے دکھا دیا۔ تاکہ شاہ صاحب اسے دیکھ کر تسلّی پا ئیں۔
{ 480} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھتے تھے۔ کہ یا حضرت! ہم کونسا وظیفہ پڑھا کریں؟ تو حضور فرماتے کہ الحمدللہ اور درودشریف اور استغفار اور دُعا پر مداومت اختیار کرو اور دعا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کثرت سے پڑھا کرو۔
{481} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ مَیں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادرؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کراکر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ آئو ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہو کر قد ناپیں۔ پھر انہوں نے میرے بائیں طرف کھڑے ہو کر کندھے سے کندھا ملایا۔ تو اس وقت دونوں برابر برابر رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ اوائل زمانہ کا رؤیاء ہو گا۔ کیونکہ بعد میں تو آپ کو وہ روحانی مرتبہ حاصل ہوا کہ ا متِ محمدیہ میں آپ سب پر سبقت لے گئے۔ جیسا کہ آپ کا یہ الہام بھی ظاہر کرتا ہے کہ ’’آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا‘‘۔ اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا بھی ہے کہ مجھے اس امت کے جملہ اولیاء پر فضیلت حاصل ہے۔
{ 482} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی نظم لکھتے اور ایسے موقعہ پر کسی اردو لفظ کی تحقیق منظور ہوتی۔ تو بسا اوقات حضرت امّ المومنینؓ سے اس کی بابت پوچھتے تھے۔ اور زیادہ تحقیق کرنی ہوتی تو حضرت میر صاحب یا والدہ صاحبہ سے بھی پوچھا کرتے تھے۔ کہ یہ لفظ کس موقعہ پر بولا جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحب چونکہ دہلی کی تھیں اس لئے روز مرّہ کے اردو محاوروں میں انہیں زیادہ مہارت تھی۔ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فائدہ اٹھا لیتے تھے مگر یہ استعانت صرف روزمرہ کے محاورہ تک محدود تھی۔ ورنہ علمی زبان میں تو حضرت صاحب کو خود کمال حاصل تھا۔
{ 483} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے اور صحیح طریق کسی زبان کے سیکھنے کا یہ نہیں ہے کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے۔ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُسے بولا جائے۔ بولنے سے ضروری صرف و نحو خود آجاتی ہے۔ چنانچہ اسی لئے اس خاکسار کو ۱۸۹۵ء میں حضرت صاحب نے قریباً ایک ہزار فقرہ عربی کا مع ترجمہ کے لکھوایا۔ روزانہ پندرہ بیس کے قریب فقرے لکھوا دیتے۔ اور دوسرے دن سبق سُن کر اَور لکھوا دیتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالباً صرف بولنے اور عام استعداد پیدا کرنے کے لئے ہے۔ ورنہ علمی طور پر عربی زبان کی مہارت کے لئے صرف و نحو کا علم ضروری ہے۔
{484} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ان مسائل میں جن میں حلّت و حرمت کا سوال درپیش ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ یہ یاد رکھنا چاہئے۔ کہ شریعت نے اصل اشیاء کی حلّت رکھی ہے۔ سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو۔ باقی اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ پر منحصر ہے۔ نیت درست ہو تو عمل مقبول ہو جاتا ہے۔ درست نہ ہو تو ناجائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا۔ کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو ،اکثر صورتوں میں آپ الاعمال بالنیات پر بنیاد رکھتے تھے۔ اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دُہرا دیتے تھے۔
{ 485} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور سے کسی بچہ نے پوچھا۔کہ کیا طوطا حلال ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم طوطا کھانے کے لئے مار لیا کریں۔ حضور نے فرمایا۔ میاں حلال تو ہے۔ مگر کیا سب جانور کھانے کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ خدا نے سب جانور صرف کھانے ہی کے لئے پیدا نہیں کئے۔ بلکہ بعض دیکھنے کے لئے اور دُنیا کی زینت اور خوبصورتی کے لئے بھی پیدا کئے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے بھی یہی فرمایا تھا کہ سارے جانور نہیں مارا کرتے کیونکہ بعض جانور خدا نے زینت کے طور پر پیدا کئے ہیں۔ لیکن خاکسار کی رائے میں کسی جانور کی کثرت ہو کر فصلوں وغیرہ کے نقصان کی صورت ہونے لگے تو اس کا انسداد کرنا اس ہدایت کے خلاف نہیں ہے۔
{ 486} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نماز میں آنکھیں کھول کر توجہ قائم نہیں رہتی۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ آنکھوں کو خوابیدہ رکھا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا۔
{487} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی تھی۔ تو ان دنوں میں مَیں قادیان آیااور جب مَیں جانے لگا تو وہ اسی(۸۰) صفحہ تک چھپ چکی تھی۔ مَیں نے اس حصہ کتاب کو ساتھ لے جانے کے لئے عرض کیا۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اعتراض کیا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہو ،دی نہیں جا سکتی۔ تب حضور نے فرمایا۔ جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی صاحب کو دے دو۔ اور لکھ لو کہ پھر اور بھیج دی جائے گی۔ اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا۔ جب تک کہ مکمل نہ ہو جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حضور کی شفقت تھی۔ کہ اپنے مخلصین کی خواہش کو ردّ نہیں فرماتے تھے ورنہ حضور جانتے تھے کہ جب تک کوئی کتاب مکمل نہ ہو جائے اس کی اشاعت مناسب نہیں ہوتی اور بعض جہت سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیٹھی غلام نبی صاحب اب فوت ہو چکے ہیں۔ چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور راولپنڈی میں دکان کرتے تھے۔ نہایت مخلص اور یک رنگ تھے۔
{ 488} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بابو محمد عثمان صاحب لکھنوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۹۱۸ء میں قادیان گیا تھا۔ اور چونکہ لالہ بڈھامل کا ذکر اکثر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے۔ اس لئے مَیں نے ان سے ملنا چاہا۔ایک دن بورڈنگ سے واپسی پر بازار میں اُسکے پاس گیا۔ اور ایک دکان پر جا کر اس سے ملاقات کی۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل عمر میں دیکھا ہے۔ آپ نے ان کو کیسا پایا۔ کہنے لگا۔ کہ میں نے آج تک مسلمانوں میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اس پر مَیں نے کہا۔ کہ آپ نے ان کے دعویٰ کو کیوں قبول نہ کیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا۔ یہ ذکر جانے دیجئے ۔یہ لمبی بحث ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی کتب میں زیادہ ذکر لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت صاحبان کا آتا ہے اس لئے مَیں خیال کرتا ہوں کہ بابو صاحب کو نام کی غلطی لگی ہے۔ غالباً وہ لالہ ملاوامل صاحب سے ملے ہونگے جو اب تک زندہ ہیں۔
{ 489} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۴ء میں مَیں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا۔ ان سب کا مضمون یہ تھا۔ کہ مَیں زبان سے تو بے شک خدا تعالیٰ کا اور حشر و نشر کا مُقِرّ ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امرِ واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جا گزین ہو جاوے وغیرہ وغیرہ۔ دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا۔ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے۔ آپ یہاں آجاویں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ اَتٰی اِلَیَّ شِبْرًا الخ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہو گیا۔
{ 490} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام سے عرض کی۔ کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھا کرو۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سے فقرہ نمبر ۲ کا ترجمہ بھی اکثر سُنا ہے یعنی مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا۔
{ 477} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں سے بیعت صرف زبانی لیتے تھے۔ ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیتے تھے۔ نیز آپ بیعت ہمیشہ اُردو الفاظ میں لیتے تھے۔ مگر بعض اوقات دہقانی لوگوں یا دیہاتی عورتوں سے پنجابی الفاظ میں بھی بیعت لے لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے پتہ لگتا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺبھی عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے اُن کے ہاتھ کو نہیں چُھوتے تھے۔ دراصل قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ عورت کو کسی غیر محرم پر اظہارِ زینت نہیں کرنا چاہئے۔ اسی کے اندر لمس کی ممانعت بھی شامل ہے۔ کیونکہ جسم کے چُھونے سے بھی زینت کا اظہار ہو جاتا ہے۔
{ 478} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِلَیْہ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک دُنب یعنی دُم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے۔ اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے۔ اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دُعا مانگے اور استغفار کرے تاکہ اس حیوانی دُم سے بچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنا رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں غالباً یہ لفظی لطیفہ بھی مدِ نظر ہے کہ ذنب یعنی گناہ حقیقۃً ایک دُنب یعنی دُم ہے۔ جو انسان کی اصلی فطرت کے خلاف اس کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے۔ گویا جس طرح ذنب اور دُنب یعنی دُم کے الفاظ اپنی ظاہری صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اسی طرح ان میں معنوی مشابہت بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{479} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مَیں گھوڑی سے گِر پڑا۔ اور میری دا ہنی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس لئے یہ ہاتھ کمزور ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مَیں قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ حضور نے پوچھا۔ شاہ صاحب آپ کا کیا حال ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ کی انگلیاں کمزور ہو گئی ہیں اور اچھی طرح مٹھی بند نہیں ہوتی۔ حضور دعا فرمائیں کہ پنجہ ٹھیک ہو جائے۔ مجھ کو یقین تھا کہ اگر حضور نے دعا فرمائی تو شفا بھی اپنا کام ضرور کرے گی۔ لیکن بلاتامل حضور نے فرمایا۔ کہ شاہ صاحب ہمارے مونڈھے پر بھی ضرب آئی تھی جس کی وجہ سے اب تک وہ کمزور ہے۔ ساتھ ہی حضور نے مجھے اپنا شانہ ننگا کرکے دکھایا اور فرمایا کہ آپ بھی صبر کریں۔ پس اس وقت سے وہی ہاتھ کی کمزوری مجھ کو بدستور ہے اور مَیں نے سمجھ لیا کہ اب یہ تقدیر ٹلنے والی نہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے اصحاب سے کس قدر بے تکلف تھے کہ فوراً اپنے شانہ ننگا کرکے دکھا دیا۔ تاکہ شاہ صاحب اسے دیکھ کر تسلّی پا ئیں۔
{ 480} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھتے تھے۔ کہ یا حضرت! ہم کونسا وظیفہ پڑھا کریں؟ تو حضور فرماتے کہ الحمدللہ اور درودشریف اور استغفار اور دُعا پر مداومت اختیار کرو اور دعا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کثرت سے پڑھا کرو۔
{481} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ مَیں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادرؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کراکر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ آئو ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہو کر قد ناپیں۔ پھر انہوں نے میرے بائیں طرف کھڑے ہو کر کندھے سے کندھا ملایا۔ تو اس وقت دونوں برابر برابر رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ اوائل زمانہ کا رؤیاء ہو گا۔ کیونکہ بعد میں تو آپ کو وہ روحانی مرتبہ حاصل ہوا کہ ا متِ محمدیہ میں آپ سب پر سبقت لے گئے۔ جیسا کہ آپ کا یہ الہام بھی ظاہر کرتا ہے کہ ’’آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا‘‘۔ اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا بھی ہے کہ مجھے اس امت کے جملہ اولیاء پر فضیلت حاصل ہے۔
{ 482} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی نظم لکھتے اور ایسے موقعہ پر کسی اردو لفظ کی تحقیق منظور ہوتی۔ تو بسا اوقات حضرت امّ المومنینؓ سے اس کی بابت پوچھتے تھے۔ اور زیادہ تحقیق کرنی ہوتی تو حضرت میر صاحب یا والدہ صاحبہ سے بھی پوچھا کرتے تھے۔ کہ یہ لفظ کس موقعہ پر بولا جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحب چونکہ دہلی کی تھیں اس لئے روز مرّہ کے اردو محاوروں میں انہیں زیادہ مہارت تھی۔ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فائدہ اٹھا لیتے تھے مگر یہ استعانت صرف روزمرہ کے محاورہ تک محدود تھی۔ ورنہ علمی زبان میں تو حضرت صاحب کو خود کمال حاصل تھا۔
{ 483} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے اور صحیح طریق کسی زبان کے سیکھنے کا یہ نہیں ہے کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے۔ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُسے بولا جائے۔ بولنے سے ضروری صرف و نحو خود آجاتی ہے۔ چنانچہ اسی لئے اس خاکسار کو ۱۸۹۵ء میں حضرت صاحب نے قریباً ایک ہزار فقرہ عربی کا مع ترجمہ کے لکھوایا۔ روزانہ پندرہ بیس کے قریب فقرے لکھوا دیتے۔ اور دوسرے دن سبق سُن کر اَور لکھوا دیتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالباً صرف بولنے اور عام استعداد پیدا کرنے کے لئے ہے۔ ورنہ علمی طور پر عربی زبان کی مہارت کے لئے صرف و نحو کا علم ضروری ہے۔
{484} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ان مسائل میں جن میں حلّت و حرمت کا سوال درپیش ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ یہ یاد رکھنا چاہئے۔ کہ شریعت نے اصل اشیاء کی حلّت رکھی ہے۔ سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو۔ باقی اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ پر منحصر ہے۔ نیت درست ہو تو عمل مقبول ہو جاتا ہے۔ درست نہ ہو تو ناجائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا۔ کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو ،اکثر صورتوں میں آپ الاعمال بالنیات پر بنیاد رکھتے تھے۔ اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دُہرا دیتے تھے۔
{ 485} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور سے کسی بچہ نے پوچھا۔کہ کیا طوطا حلال ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم طوطا کھانے کے لئے مار لیا کریں۔ حضور نے فرمایا۔ میاں حلال تو ہے۔ مگر کیا سب جانور کھانے کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ خدا نے سب جانور صرف کھانے ہی کے لئے پیدا نہیں کئے۔ بلکہ بعض دیکھنے کے لئے اور دُنیا کی زینت اور خوبصورتی کے لئے بھی پیدا کئے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے بھی یہی فرمایا تھا کہ سارے جانور نہیں مارا کرتے کیونکہ بعض جانور خدا نے زینت کے طور پر پیدا کئے ہیں۔ لیکن خاکسار کی رائے میں کسی جانور کی کثرت ہو کر فصلوں وغیرہ کے نقصان کی صورت ہونے لگے تو اس کا انسداد کرنا اس ہدایت کے خلاف نہیں ہے۔
{ 486} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نماز میں آنکھیں کھول کر توجہ قائم نہیں رہتی۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ آنکھوں کو خوابیدہ رکھا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا۔
{487} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی تھی۔ تو ان دنوں میں مَیں قادیان آیااور جب مَیں جانے لگا تو وہ اسی(۸۰) صفحہ تک چھپ چکی تھی۔ مَیں نے اس حصہ کتاب کو ساتھ لے جانے کے لئے عرض کیا۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اعتراض کیا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہو ،دی نہیں جا سکتی۔ تب حضور نے فرمایا۔ جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی صاحب کو دے دو۔ اور لکھ لو کہ پھر اور بھیج دی جائے گی۔ اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا۔ جب تک کہ مکمل نہ ہو جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حضور کی شفقت تھی۔ کہ اپنے مخلصین کی خواہش کو ردّ نہیں فرماتے تھے ورنہ حضور جانتے تھے کہ جب تک کوئی کتاب مکمل نہ ہو جائے اس کی اشاعت مناسب نہیں ہوتی اور بعض جہت سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیٹھی غلام نبی صاحب اب فوت ہو چکے ہیں۔ چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور راولپنڈی میں دکان کرتے تھے۔ نہایت مخلص اور یک رنگ تھے۔
{ 488} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بابو محمد عثمان صاحب لکھنوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۹۱۸ء میں قادیان گیا تھا۔ اور چونکہ لالہ بڈھامل کا ذکر اکثر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے۔ اس لئے مَیں نے ان سے ملنا چاہا۔ایک دن بورڈنگ سے واپسی پر بازار میں اُسکے پاس گیا۔ اور ایک دکان پر جا کر اس سے ملاقات کی۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل عمر میں دیکھا ہے۔ آپ نے ان کو کیسا پایا۔ کہنے لگا۔ کہ میں نے آج تک مسلمانوں میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اس پر مَیں نے کہا۔ کہ آپ نے ان کے دعویٰ کو کیوں قبول نہ کیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا۔ یہ ذکر جانے دیجئے ۔یہ لمبی بحث ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی کتب میں زیادہ ذکر لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت صاحبان کا آتا ہے اس لئے مَیں خیال کرتا ہوں کہ بابو صاحب کو نام کی غلطی لگی ہے۔ غالباً وہ لالہ ملاوامل صاحب سے ملے ہونگے جو اب تک زندہ ہیں۔
{ 489} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۴ء میں مَیں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا۔ ان سب کا مضمون یہ تھا۔ کہ مَیں زبان سے تو بے شک خدا تعالیٰ کا اور حشر و نشر کا مُقِرّ ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امرِ واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جا گزین ہو جاوے وغیرہ وغیرہ۔ دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا۔ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے۔ آپ یہاں آجاویں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ اَتٰی اِلَیَّ شِبْرًا الخ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہو گیا۔
{ 490} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام سے عرض کی۔ کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھا کرو۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا ہے۔