• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے۔ اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں۔ چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میںنے اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی یہ تھی ۔
؎ الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(۱) بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے ۔ اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں۔ اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں ۔ میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(۳) ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(۶) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا ۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(۷) ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔
{1167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے۔ اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔
{1168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر۹شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔
{1169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔
{1170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی ۔ مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔ اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔
{1171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔
(۱) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹دن۱۲گھنٹے ۴۴منٹ اور قریباً۷؍۶ء ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہورہاہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں۔
(۲) یکم محرم1ھ کا دن جمعہ تھا ۔ جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب تو فیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1ھ کو جمعہ کا دن تھا۔
(۳) یہ تقویمی نقشہ مختلف واقعات زمانہ گذشتہ وزمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا۔ اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۱۴شوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے۴۴۲۸۸۳ہوئے ۔ جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴شوال ۱۲۵۰ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ہوتے ہیں۔ اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب۴۴۲۸۷۰ہوتا ہے ۔ اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے۱۳دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد۴۴۲۸۸۳ہوتی ہے ۔اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے ۔ پس جو دن یکم محرم ۱ ھ کو تھا وہی دن۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کو تھا۔ سو چونکہ یکم محرم۱؍ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے۱۴؍شوال۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا۔ نیز۱۳؍فروری۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے ۔ کیونکہ قمری مہینہ کااوسط ۵۳۰۵۸۸۷۱۵ء ۲۹دن یعنی۲۹دن ۱۲گھنٹے ۴۴منٹ ۶۲۵۰۰÷۵۴۰۶۱؍۲ہوتی ہے ۔ اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ماہ کا ہوتا ہے ۔ جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب۲۷۵۹۱۰۰۶ئ۳۷۹۱۷(دن ) ہوتا ہے ۔ جس کی اعشاریہ کی کسر کو( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں۔ یعنی عرصہ۵۴۱۵ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھااور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے۔ پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا۔ اس لئے ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر۶۱۳میں درج ہے ۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴؍شوال۱۲۵۰؍ھجری بمطابق۱۳؍فروری۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ثابت کی گئی ہے ۔
{1172} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔
{1173} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ،جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔
{1174} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے۔ تو انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔
{1175} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ’’ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب‘‘ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔
{1176} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میںنے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوںنے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ۔ منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔ خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباًساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے ۔ اور بعض اور اصحاب بھی تھے ۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ۔ ’’یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ‘‘
{1177} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحا ق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے۔ اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے میںنے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا۔ وہ فوت ہوچکا ہے ۔
{1178} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی۔ جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا۔
{1179 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے۔یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا۔ میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا۔ راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ رتھ خوب ہلتی تھی۔ اس حالت میں حضور نے دو تین شعربنائے ۔
{1180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو ابھی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ،صرف ہم تینوں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ ۔ شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ ’’اس پاک زاد دا کی پُچھ دے او‘‘ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی۔ اور بڑے مرز اصاحب صفائی اور چھڑکاؤ کرا رہے تھے ۔ تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ۔ بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے ۔ اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے ۔مرزا صاحب نے کہا ۔ آؤ دیکھ لو ایہہ حال ہے اسدا۔ میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں ؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخد ا سمجھتے تھے۔
{1181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فوت ہوا۔ تو میںنے اسی دن ،جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ’’ہاں میںنے دعا کی تھی‘‘ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہوکر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے۔ کیونکہ اس میں خد اتعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
{1182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے ۔ڈریس کے بعد جب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ گھوڑے سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی۔ میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا۔
{1183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آ ف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الر حمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہو اتھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کرچکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی۔ لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے۔ جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضرہوئی۔ میں بھی موجود تھا۔ اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو وکیل احمدی نے عرض کیا۔ کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہوگئے۔ بریت نہ ہوئی۔ حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہوگیا۔ اور نہایت سادگی سے فرمایا ’’یہ شتاب کار لوگ ہیں۔ ان کو انجام دیکھنا چاہئے ۔ ‘‘ چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہوگئے ۔
{1184} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد حسین صاحب پنشنردفتر قانون گو نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا ۔ کہ جنوری۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام احمدیہ چوک سے باہرسیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کادوسرادن ہے ۔ ہمارے لئے خداتعالیٰ نے نشان پورا فرمایا۔ اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن خد اتعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے ۔
{1185} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۱۹۰۵ء میں مَیں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا۔ حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا۔ حضور کا ہاتھ بھاری اور پُر گوشت تھا۔
{1186} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالباً۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہوگئے ۔ حضور کے گردا گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جو سب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلا یا ہے ۔ اس چھوٹی مسجد(مبارک) سے لے کر بڑی مسجد(اقصیٰ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائیداً بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے ۔ کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی۔ اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔‘‘
{1187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبراسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے۔ قادیان آیا تھا۔ میں بھی باغ میں تھا ۔ پیغمبراسنگھ میرے پاس آیا ۔ میںنے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ایں ۔ جاؤ لیاؤ میں پیواں ۔ میں خاموش ہورہا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنادو۔ اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو۔میںنے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پوچھوں۔ تب میںنے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبراسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنا دو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا۔ تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا۔ بنادو شاید مسلمان ہو جائے ۔ چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا۔ اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کانام لکھا۔ یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے۔ پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبراسنگھ کو دے دیا ۔ چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبراسنگھ مسلمان ہوگیا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد میںنے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بناکر دے دو شاید مسلمان ہوجائے ۔ تو یہ سن کر پیغمبراسنگھ بہت خوش ہوا۔ اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی ۔ میںنے کہا ۔ہاں کیاسی ۔
{1188} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی۔ جس دن یہ الہام ہوا۔ تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے ۔ اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔‘‘ چنانچہ مائی تابی جو اسّی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی۔
{1189} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔ جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔ جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی ۔
{1190} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدنور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دئیے تھے۔ شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا۔ حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا۔ میںنے عرض کیا ۔ حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہوتو مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں۔ ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا کہ میںنے رنج کے وقت میں شعرگوئی کی فرمائش کیوں کردی ۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی ۔ تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی ۔ جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کردیتا تھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1191} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم جب بیمارتھے تو ان کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تشویش اور فکر کاعلم ہوتا رہتا تھا۔ جب صاحبزادہ صاحب فوت ہوگئے تو سردار فضل حق صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم اور بندہ بخیال تعزیت قادیان آئے۔ لیکن جب حضور مسجد میں تشریف لائے ۔ تو حضور حسب سابق بلکہ زیادہ خوش تھے۔ صاحبزادہ مرحوم کی وفات کا ذکر آیا تو حضور نے فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا۔ میرے مولا کی بات پوری ہوئی ۔ اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ لڑکا یا توجلدی فوت ہوجائے گا یا بہت باخد اہوگا۔ پس اللہ نے اُس کو بلا لیا۔ ایک مبارک احمد کیا۔ اگر ہزار بیٹا ہو اور ہزار ہی فوت ہوجائے ۔ مگر میرامولا خوش ہو۔ اس کی بات پوری ہو۔ میری خوشی اسی میں ہے ۔ یہ حالات دیکھ کر ہم میں سے کسی کو افسوس کے اظہار کی جرأت نہ ہوئی۔
{1192} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب پنشنر کلر ک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں ایک امرتسری دوست نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے ۔ اس کے لئے بددعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ نہیں ۔وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر اُن لوگوں میں بھی ہوجاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کے لئے کھاد کاکام دے رہے ہیں۔ بدبُو سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔
{1193 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کہ ڈونگے دالان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاپی پڑھ رہے تھے ۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ اطلاع آئی کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر پولیس آئے ہیں۔ حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے۔ چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں کی آخری اوپر کی سیڑھی پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اندر کی طرف کھڑ اتھا۔ حضرت صاحب کودیکھ کر اس نے ٹوپی اتاری اور کہا کہ مجھے لیکھرام کے قتل کے بارہ میں تلاشی کا حکم ہوا ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا تلاشی میں میں آپ کو مدددوں گا۔ تب حضرت صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر اندر ڈونگے دالان میں گئے۔ میں بھی اندر گیا۔ دالان میں ہم صرف چاروں تھے۔ دالان کے شمال مغربی کونے میں ڈھائی تین گز مربع کے قریب لکڑی کا ایک تخت بچھا تھا ۔ اس پر کاغذات کے پندرہ بیس بستے بندھے پڑے تھے۔ انسپکٹر نے دونوں ہاتھ زور سے بستوں پر مارے، گرد اٹھی۔ انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا جس کا مطب یہی معلوم ہوتا تھا کہ کسی قدر گرد ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت سے ان کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس دونوں مغرب کی طرف منہ کئے تخت کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں کا منہ بستوں کی طرف تھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کئے مغربی دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ حضرت صاحب مشرقی دیوار کے ساتھ دالان کی لمبائی میں اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی بادشاہ ٹہلتا ہے۔ لکڑی ہاتھ میں تھی اور درمیان سے پکڑی ہوئی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر کی پشت حضرت صاحب کی طرف تھی۔ انسپکٹر سپرنٹنڈنٹ سے باتیں تو کرتا تھا ۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ جو انگریز تھا (شاید لیمار چنڈ اس کانام تھا) اس کا دھیان بالکل حضرت صاحب میں تھا۔ میں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ہوکر جنوب کی طرف جاتے تو وہ کنکھیوں سے خفیف سا سر پھیر کر حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ اور جب حضرت صاحب اس کے پیچھے سے ہوکر شمال کی طرف جاتے تو سر پھیر کر پھر کنکھیوں سے حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ وہ بار با ر یہی کچھ کرتا رہا۔ انسپکٹر کی طرف اس کا دھیان نہ تھا۔ پھر تجویز ہوئی کہ باقی مکان کی تلاشی لی جائے ۔
عصر کے بعد گول کمرہ کے باہر کھلے میدان میں کرسیاں بچھائی گئیں۔ ایک پر سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ۔ اس کی دائیں طرف انسپکٹر تھا۔ بائیں طرف حضرت صاحب کرسی پر تھے۔ سامنے اس کے اور سپرنٹنڈنٹ سے پرے محمد بخش تھانیدار بٹالہ تھا۔ حاکم علی سپاہی متعینہ قادیان سپرنٹنڈنٹ کو رومال ہلا رہا تھا۔ درمیان میں زمین پر وہی بستے جو ڈونگے دالان کے تخت پر رکھے ہوئے تھے۔ پڑے تھے ۔ محمد بخش نے ایک کاغذ ایک بستے میں سے نکالا اور مسکراتا ہوا کہنے لگا کہ یہ دیکھئے ثبوت۔ انسپکٹر نے اس کاغذ کو لے کر پڑھا اور کہا یہ تو ایک مرید کی طرف سے پیشگوئی کے پورا ہونے کی مبارکباد ہے اور کچھ نہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کاغذ واپس بستے میں ڈال دیا گیا۔ محمد بخش نے پھر ایک اور کاغذ نکالا وہ بھی اسی قسم کا تھا۔ جو واپس بستہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح کئی کاغذ دیکھے گئے اور واپس کئے گئے ۔ آخر کار دو کاغذ جن میں سے ایک ہندی میں لکھا ہو اتھا۔ اور دوسرا مرزا مام الدین کا خط محمدی بیگم کے متعلق تھا، لے کر عملہ پولیس واپس چلا گیا۔ ایک دو ماہ بعد ایک سکھ انسپکٹر پولیس آیا اور وہی دونوں کاغذ واپس لایا۔ حضرت صاحب نے اس کو ڈونگے دالان میں بلا لیا۔ آداب عرض کرنے کے بعد اس نے ہندی کا خط حضرت کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو جناب کا آٹے وغیرہ کے متعلق دوکاندار کا ٹونبو ہے اور یہ دوسرا کاغذ کس کا ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ۔مرزا مام الدین کا ہے ۔ انسپکٹر نے کہا کہ اس کے متعلق مرزا ا مام الدین سے پوچھنا ہے کہ کیا یہ تمہارا ہے ۔ اس لئے مرزاامام الدین کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ آدمی بھیج کر مرزا امام الدین کو بلوایا گیا ۔ انسپکٹر نے اس کو خط دکھا کر کہا کہ کیا یہ آپ کا خط ہے ؟ اُس نے صاف انکار کردیا کہ میرا نہیں ۔ تب انسپکٹر نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر مرزا ا مام الدین کو دیا کہ آپ لکھتے جائیں ،میں بولتا جاتا ہوں۔ انسپکٹر نے اس خط کی صرف دو سطریں لکھوائیں۔ پھر امام الدین کے ہاتھ سے لے کر اس کا لکھا ہوا کاغذ لے کر اصل خط کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھنے لگا۔ میں جھٹ انسپکٹر کی کرسی کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور ان دونوں خطوں کو میںنے دیکھ کر انسپکٹر کو کہا کہ یہ دیکھئے قادیان کا نون یا کے اوپر ڈالا گیا ہے اور گول نہیں بلکہ لمبا ہے ۔ اور دوسری تحریر میں بھی بالکل ویسا ہی ہے۔ اور یہ دیکھئے لفظ ’’باریمیں‘‘ کو ’’بارہ میں‘‘ لکھا ہوا ہے اور دوسری تحریر میں بھی ’’بارہ میں‘‘ ہے ۔ مجھے ساتھ لے جائیے۔ میں ثابت کردوں گا کہ یہ دونوں تحریریں ایک شخص کے ہاتھ کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر انسپکٹر نے اس خط کو ہاتھ سے پکڑکراوندھا اپنی ران پر مارتے ہوئے کہا کہ ـ’’لجانا کتھے اے پتہ لگ گیا‘‘ جوں ہی انسپکٹر نے یہ کہا تو مرزا امام الدین خود ہی بول پڑا کہ یہ خط میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا ہے ۔ سب لوگ جو کھڑے تھے اس کے جھوٹ پر سخت انگشت بدندان ہوئے کہ ابھی اس نے کہا تھا کہ یہ خط میرا نہیں۔ اب کہتا ہے کہ یہ خط میرا ہے ۔ تب انسپکٹر کھڑا ہوگیا اور حضرت صاحب کو وہ خط دے کر جانے کے لئے رخصت طلب کی ۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ میں بطور نج محمدی بیگم کی پیشگوئی کی نسبت جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نواڑی پلنگ کے اوپر کھڑے تھے اور انسپکٹر نیچے زمین پر کھڑا تھا ۔ اسی حالت میں کھڑے کھڑے حضرت صاحب نے تمام قصہ سنایا۔ تب انسپکٹر سلام کر کے رخصت ہوکر واپس چلا گیا۔
{1194} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ ان کے لئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے۔ چنانچہ ایک بوتل امرتسر یا لاہور سے منگوائی گئی۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی۔ میںنے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تشریف لائے ۔ اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ انہوںنے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے ۔ میںنے کہا کیا کروگے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے۔ پھر ہاتھ دھو لئے ۔
{1195} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں سر کی لیکھ (جو جُوں سے چھوٹی ہوتی ہے) بڑے پاور کی خوردبین میں رکھ کر حضور علیہ السلام کو دکھانے کے لئے لے گیا۔ حضور نے دیکھنے کے بعد فرمایا۔ آؤ میاں بارک اللہ! (مرزا صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم )تمہیںعجائبات قدرت دکھلائیں۔ اس وقت حضور ڈونگے دالان میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔
{1196} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم حجرے میں بیماری کی حالت میں پڑے تھے۔ حجرے کے باہر برآمدہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے۔ اور حضور کے سامنے نصف دائرہ میں چند ڈاکٹر صاحبان اور غالباً حضرت خلیفہ اول بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں پورٹ وائن کی وہی بوتل جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کے لئے منگائی گئی تھی پڑی ہوئی تھی۔ میاں مبارک احمد صاحب کے علاج کے لئے دواؤں کی تجویز ہورہی تھی میں بھی ایک طرف کو بیٹھا تھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا! کہ یہ جو حافظ کہتا ہے ۔
آں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائث خواند
اشھی لنا واحلی من قبلۃ العذارٰی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعر میں حافظ نے ام الخبائث ترک دنیا کو کہا ہے اور تلخ اس لئے کہا کہ ترک دنیا سے ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی کے جوڑ اور بند اکھاڑ ے جائیں اور ام الخبائث اس لئے کہا کہ جس طرح ماں جننے کے بعد تمام آلائشوں کو باہرنکال دیتی ہے ۔ اسی طرح ترک دنیا بھی انسان کی تمام روحانی آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے ۔ قبلۃ العذارٰی سے مراد ہے دنیا کی عیش وعشرت ۔ پس حافظ صاحب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کو حاصل کرنے کی نسبت ہمیں ترک دنیا زیادہ پسندیدہ ہے ۔
{1197} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کانگڑہ والے زلزلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چلے گئے تھے۔ انہی دنوں باغ میں حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ ’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت ‘‘عصر کی نماز جب ہوچکی ۔ دوست چلے گئے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مصلّٰی پر بیٹھے رہے۔ میں ان کے پاس مصلے کے کنارہ پرجابیٹھا، اور کہا کہ سنا ہے کہ آج یہ الہام ہوا ہے ۔ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن کسی قسم کی بات نہ کی۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ میرے خیال میں تین بڑے آدمی یہ تھے۔ حضرت خلیفہ اول ، مولوی عبد الکریم صاحب ، مولوی محمد احسن صاحب ، چند روز بعد مولوی عبد الکریم صاحب کی پشت پر ایک پھنسی نکلی جو بڑھتے بڑھتے کاربنکل بن گئی۔ غرض اس الہام کے بعد قریباً ڈیڑھ ماہ میں مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوگئے اور پیشگوئی نہایت صاف طور پر پوری ہوئی۔
{1198} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی۔اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک مرتبہ مدرسہ احمدیہ کے مکان میں جہاں پہلے ہائی سکول ہوا کرتا تھا۔ ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا ۔ بعد میں آپ کی تحریک سے حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ہفتہ وار ایک ایک گھنٹہ لیکچر طلباء کے سامنے دیا کرتے تھے۔ اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا۔ ہم جو تصانیف کرتے ہیں۔ یہ علماء زمانہ کے مقابلہ اور مخاطبت میں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو طلباء نہیںسمجھ سکتے۔ ان دنوں ان کے کورس بھی اتنے لمبے ہیں کہ طلباء کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ تالیفات کو پڑھنے کی فرصت پاسکیں۔ اس لئے میں یہی کہتا ہوں اور پھر پھر کہتا ہوں کہ سکولوں کے ماسٹر صاحبان میری کتابوں کے چند صفحات مطالعہ کر لیا کریں اور ان کا خلاصہ سہل اور آسان الفاظ میں طلباء کے روبرو بیان کردیا کریں۔ تاکہ ہماری باتیں طلباء کے دل ودماغ میں نقش ہوجائیں۔ ورنہ جو کتب مولویوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں وہ بچوں کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔
{1199} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیاکہ دوران قیام مقدمہ کرم دین حضور علیہ السلام کچہری گورداسپور کی عمارت کے متصل پختہ سڑک کے کنارے ٹالیوں کے نیچے دری کے فرش پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے ۔ حضور لیٹے ہوئے تھے۔ اور سڑک کی طرف پشت تھی۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور وہ اپنی کوٹھی کو اسی طرف سے جاتاتھا۔ میںنے دیکھا کہ وہ اس گروہ کی طرف دیکھتا ہوا جاتا تھا۔ اور ہماری جماعت سے کوئی تعظیماً کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ میںنے یہ دیکھ کر حضرت سے عرض کی کہ حضور! ڈپٹی کمشنر ادھر سے ہمارے قریب سے گزرتا ہے اور کل بھی اس نے غور سے ہم لوگوں کی طرف دیکھا ۔ آج بھی ہم میں سے کوئی تعظیم کے لئے نہیں اُٹھا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ حاکم وقت ہے ۔ ہمارے دوستوں کو تعظیم کے لئے کھڑا ہونا چاہئے ۔ پھر اس کے بعد ہم برابرتعظیماً کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور اس کے چہرہ پر اس کے احساس کا اثر معلوم ہوتا تھا۔ اسی مقدمہ کے دوران ایک مرتبہ حضور گورداسپور کی کچہری کے سامنے ٹالیوںکے سایہ کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عدالت کا اوّل وقت تھا۔ اکثر حکام ابھی نہیں آئے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا ۔چلئے ۔جج خد ابخش صاحب سے مل آئیں۔ میں ان کے ہمراہ جج صاحب کے اجلاس میں چلا گیا۔ وہ خود اوران کے پیشکار (ریڈر) محمد حسین جن کولوگ محمد حسین خشکی کے نام سے ذکر کیا کرتے تھے۔ اجلاس میں تھے۔ غالباً اور کوئی نہ تھا۔ محمد حسین نے خواجہ صاحب سے مقدمہ کرم دین کا ذکر چھیڑا۔ غالباً وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور کہا کہ مرزا صاحب نے یہ کیا کیا کہ مقدمہ کا سلسلہ شروع کر لیا ہے ۔ صلح ہوجانی چاہئے۔ جج صاحب نے بھی خواجہ صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب کی شان کے خلاف ہے ۔ مقدمہ بازی بند ہوناچاہئے اور باہمی صلح آپ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت سے اس بارہ میں ضرور کہیں اور میری جانب سے کہیں۔ خواجہ صاحب نے کہاکہ خواہش تو میری بھی یہی ہے اور یہ اچھا ہے ۔میں آپ کی طرف سے حضرت کی خدمت میں عرض کروں گا۔ یہ کہہ کر خواجہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے مجھ سے کہا کہ آپ بھی میری تائید کیجئے گا۔ میں خاموش رہا۔ جب اجلا س سے ہم باہر آگئے۔ تو میںنے کہا کہ اس بارہ میں میں آپ کی تائید نہیں کرسکتا۔ مجھ سے یہ توقع نہ رکھئے۔ خواجہ صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ جج صاحب نے کہاہے کہ مقدمہ کرنا حضرت کی شان کے خلاف ہے اور صلح ہوجاناہی اچھا ہے اور مجھے تاکید کی ہے کہ حضور سے عرض کروں ۔ حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ اورفرمایا آپ نے کیوں نہ کہہ دیا کہ صلح اس معاملہ میں ناممکن ہے ۔ کرم دین کاالزام ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوں۔ پس یہ توخدا کے ساتھ جنگ ہے اور خدا پر الزام ہے ۔ نبی صلح کرنے والا کون ہوتا ہے اور اگر میں صلح کرلوں تو گویا دعویٰ نبوت کوخود جھوٹا ثابت کردوں ۔ دیر تک حضرت اس معاملہ میں کلام فرماتے رہے اور چہرہ پر آثار ناراضگی تھے یہاں تک کہ کھڑے ہوگئے اور ٹہلنے لگے۔
{1200} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک صاحب عبد المحی عرب قادیان میں آئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا۔ چنانچہ میں قادیان آیا۔ اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل وتائید سے ۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا۔ حضور نے فرمایا یہ تو اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے ۔ ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے۔ میںتو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خد ا مجھ سے لکھوائے ۔ اس پر میںمہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کو لکھی۔ جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا۔ جوویسا ہی تھا ۔ چنانچہ میں داخل بیعت ہوگیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1201} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولابخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمعہ اہل بیت وخدام امرتسر تشریف لائے۔ امرتسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کے مرد زیادہ ہوں گے ۔ مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لئے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لئے تجویز کیا۔ حضور نے آتے ہی پہلے مکان کودیکھا اور اس تقسیم کو ناپسند فرمایا اور بڑے حصے کو زنانہ کے لئے مخصوص فرما لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو صنف نازک کے آرام کا بہت خیال رہتا تھا۔
{1202} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے ۔ اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل( جس کانام اب بندے ماترم ہال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اورآگے ہوئے۔ پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے ۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی۔ اس پرلوگوںنے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام۔ روزے نہیں رکھتے۔ اور بہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی۔ اور حضور اس میں داخل ہوگئے ۔ لوگوںنے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ مگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا۔ کہ ’’اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادتا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کومارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے ۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کوکہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا ۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبد الخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا۔ تو حضور نے فرمایا! کہ مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پید اکردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے ۔
{1203} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں دیکھا۔ کہ حضور بمثل دیگر اصحاب کے بے تکلف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور اس میں ایک اجنبی کے واسطے کوئی امتیاز ی رنگ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن بعد فراغت نماز ظہر یا عصر حضور مسجد سے نکل کر گھر کے متصلہ کمرہ میں داخل ہوئے جہاں حضور نے جوتا اتارا ہوا تھا۔ میںنے دیکھا کہ حضور کا دھیان جوتا پہنتے ہوئے جوتے کی طرف نہ تھا بلکہ پاؤں سے ٹٹول کر ہی اپنا جوتا پہن رہے تھے۔ اور اس وقت حضرت مولوی نورا لدین صاحب سے مخاطب تھے۔ مولوی صاحب حضور کے سامنے قدرے خمیدہ ہوکر نہایت مودّب کھڑے تھے۔ اور کوئی اپنا خواب حضور کو سنا رہے تھے ۔ وہ خواب نہایت اطمینان سے سن کر حضور نے فرمایا کوئی فکر نہیں ۔ مبشر ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے ۔میںنے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی صاحب نہایت ادب ونیاز سے کھڑے ہوئے تھے اور نگاہیں ان کی زمین کی طرف تھیں۔ بات کرتے ہوئے کسی کسی وقت نظر سامنے اٹھاکر حضور کو دیکھ لیتے اور پھر آنکھیں نیچی کر کے سلسلہ کلام چلاتے جاتے تھے۔
{1204} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ غالباً۱۹۰۷ء میں امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہمشیرہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جو میری ننھیال کی طرف سے رشتہ دار بھی ہے۔ ایک کاغذ کا پُرزہ دیا تھا جو ردی کے طور پر تھا۔ لیکن چونکہ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین ایدھااللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی عبارتیں تھیں ۔ اس لئے میں نے اس کو تبرکاً نہایت شوق سے حاصل کیااور محفوظ رکھا۔ پھر کسی وقت وہ کاغذ مجھ سے پس وپیش ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ کسی کتاب میں پڑا ہوا ہے یا گم ہوگیا ہے ۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہے ۔ لیکن چونکہ اس کے ساتھ ایک واقعہ کا تعلق ہے۔ جو مجھے ا مۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ نے خود سنایا تھا اس بے تکلفانہ لکھی ہوئی عبارت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے تعلق باللہ اور تقویٰ وطہارت وعبادات میں شغف پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس لئے میں اس کا ذکر کرنا اور تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ امۃ الرحمن صاحبہ جن دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے دیکھا اور خاکسار سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ نے یہ تجربہ کرنا چاہا کہ دیکھیں آنکھیں بند کر کے کاغذ پر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ پرزہ کاغذ پکڑ کر اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حسب ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی اور جو مجھے حرف بحرف بخوبی یاد ہے ۔ اور مجھے اس کے متعلق ایسا وثوق ہے کہ اگر وہ پرزہ کاغذ کبھی دستیاب ہوجاوے تو یقینا یہی الفاظ اس پر لکھے ہوئے ہوںگے۔ حضور نے آنکھیں بند کرنے کی حالت میں لکھا تو یہ لکھا کہ
’’انسان کو چاہئے کہ ہر وقت خد اتعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنج وقت اس کے حضور دعا کرتا رہے۔‘‘
دوسری جگہ اسی حالت میں حضرت اماں جان کی تحریر کردہ عبارت حسب ذیل تھی۔
’’محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اس کو کچھ نہ کہے۔‘‘ ’’مبارک احمد بسکٹ مانگتا ہے ۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ان سے شکستہ اور پختہ خط میں صاف طور پر پڑھی جاتی تھی اور باوجود آنکھیں بند کر کے لکھنے کے اس میں سطر بندی مثل دوسری تحریرات کے قائم تھی۔ لیکن حضرت اُم المومنین کے حروف اپنی جگہ سے کچھ اوپر نیچے بھی تھے اور سطر بندی ان کی قائم نہ رہی تھی۔ لیکن خاص بات جس کا مجھے ہمیشہ لطف آتا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے گھر میں بے تکلفانہ بیٹھے ہوئے بھی اگر اچانک بے سوچے کوئی بات حضور کو لکھنی پڑتی ہے تو وہ نصیحتانہ پاک کلمات کے سوا اور کوئی نہیں سوجھی۔ اور ادھر حضرت اُم المومنین کی عبارت ایسی ہے جوکہ ماحول کے حالات کے مطابق ان کے ذہن میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ماموروں اور دوسروں میں ہوا کرتا ہے ۔
{1205} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مجلس میں مولوی محمد علی صاحب بھی موجو دتھے۔ اس وقت مولوی صاحب مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں زر جرمانہ وصول کر کے آرہے تھے۔ اور مہتمم خزانہ کے ساتھ ان کی جو گفتگو مقدمہ اور واپسی جرمانہ کے متعلق ہوئی تھی۔ وہ حضور کو سنا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جس مجسٹریٹ نے اس مقدمہ میں جرمانہ کیا تھا ۔ اپیل منظور ہونے پر وہی افسر مہتمم خزانہ ہوگیا تھا جس سے زر جرمانہ ہم نے واپس لینا تھا۔ چنانچہ ہم پہلے اس کے مکان پر (کچہری کے وقت سے پہلے)گئے اور اس سے ذکر کیا کہ ہم توجرمانہ واپس لینے کے واسطے آئے ہیں۔ اس پر وہ مجسٹریٹ بہت نادم سا ہوگیا ۔ اور اس نے فوراً کہا کہ آپ کو وہ رقم نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے لئے خود مرزا صاحب کی دستخطی رسید لانا ضروری ہے ۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ وہ رسید تو میں مرزا صاحب سے لکھوا لایا ہوں ۔ پھر اس مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر بھی یہ رقم آپ کو نہیں دی جاسکتی۔ جب تک آپ کے پاس مرز اصاحب کی طرف سے اس امر کا مختار نامہ موجود نہ ہو۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ بھی میں لے آیاہوں۔ اسے لاجواب ہوکر کہنا پڑا کہ اچھا کچہری آنا۔ اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب نے مسیح موعودعلیہ السلام کے حضور ایک یہ فقرہ بھی سیشن جج صاحب منظور کنندہ اپیل کی باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور اس سیشن جج نے تو اس قدر زور کے ساتھ حضور کی بریت اور تائید میں لکھا ہے کہ اگر ہم میں سے بھی کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا تو شاید اتنی جرأت نہ کرسکتا۔ یہ جملہ حالات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نہایت خوشی کی حالت میں سنتے رہے تھے ۔
{1206} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ)حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آج کل ام طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کاایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دئیے جس سے بعض لوگوںنے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کانام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ علاوہ ازیںحضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ دراصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا۔ اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کانام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کانام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا۔ نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہو اہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کاکو رہتی ہے جو مرز اسلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی۔
{1207} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کوٹھے پر کھڑے تھے۔ اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ’’ہائے او میریا بچیا‘‘ حضرت صاحب نے دادی کو سختی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا۔ وہ خدا کا مال تھا جسے وہ لے گیا اور فرمایا یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے ۔ منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں نظام الدین کا ایک لڑکا فوت ہوا تھا جس پر ان کا گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہو اتھا۔ سو حضرت صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہوگیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دینگے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں۔ لوگوں کاہمارے ساتھ واسطہ پڑنا ہے ۔ مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق ا لقلوب کا صفحہ چالیس نکال کرد یکھو۔ مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے۔ دیکھا تو ا س کے چالیسویں صفحہ پر حضرت صاحب نے مبارک احمد کے متعلق لکھا ہو اتھا کہ اس کے متعلق مجھے جوالہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تویہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا خیر اب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جومبارک احمد کی کھلاوی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا۔ اس پر اس کانام ہی دادی مشہور ہوگیا۔ بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی۔ نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ مبارک احمد۱۹۰۷ء میں فوت ہوا تھا جب کہ اس کی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی۔
{1208} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کے لئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا ۔ جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا۔ میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو ،ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضور نے مجھے فرمایا۔ آپ بھی آجائیں ۔ چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت حضور نے مولوی صاحب سے لنگرکے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیااور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے بہت فکر مندہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کااندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے ۔ اسی ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میںلاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے اس کے بعد میں کہیں اور چلاجاؤں گا اور قادیان نہیں جائوں گا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضور نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گذار کر پھر قادیان جائوں گا مگر اب میںسمجھتا ہوں کہ اس سے غالباً حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آگیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا ۔ واللہ اعلم
{1209} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے مولوی قطب الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت مانگی کہ وہ حضور کے کسی مزارعہ دخیلکار سے کچھ زمین خرید لیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ حقوق کامعاملہ ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کو اجازت دوں تو پھر دوسروں کو بھی اجازت دینی ہوگی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان میں کچھ رقبہ تو ہمارا مقبوضہ مملوکہ ہے یعنی اس کی ملکیت بھی ہماری ہے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مگر پیشتر رقبہ ایسا ہے کہ وہ ملکیت ہماری ہے لیکن وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مزارعین کے قبضہ میں ہے جنہیں ہم بلا کسی خاص قانونی وجہ کے بے دخل نہیں کرسکتے اور نسل بعد نسل انہی کا قبضہ چلتا ہے اور ہمیں ان کی آمد میں سے ایک معین حصہ ملتا ہے ۔ یہ لوگ موروثی یادخیلکار کہلاتے اور وہ مالکان کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ کی زمین فروخت نہیں کرسکتے ۔ مولوی قطب الدین صاحب نے انہی میں سے کسی کی زمین خریدنی چاہی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت نہیں دی اور واقعی عام حالات میں ایسی اجازت دینا فتنہ کا موجب ہے۔ کیونکہ اول تو اگر ایک احمدی کو اجازت دی جائے تو دوسروں کوکیوں نہ دی جائے ۔ دوسرے: زمینوں کے معاملات میں بالعموم تنازعات پیش آتے رہتے ہیں اور مالکان اور مزارعان موروثی کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ان حالات میں اگر ہمارے دخیلکاروں سے جو بالعموم غیر مسلم اور غیر احمدی ہیں، احمدی ووست زمینیں خرید لیں تو پھر ہمارے احمدی احباب کے درمیان تنازعات اورمقدمات کاسلسلہ شروع ہوجانے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم دلوں میں میل آنے کا احتمال ہے۔ ان حالات میں حضرت صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی اور اسی کی اتباع میں آپ کے بعد ہم بھی اجازت نہیں دیتے بلکہ اسی قسم کے وجوہات کی بناء پر ہم عموماً ان دیہات میں بھی اجازت نہیں دیتے جن میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں اور ایسے دیہات تین ہیں یعنی ننگل اور بھینی اور کھارا۔ گویا قادیان میں تو ہمارا خاندان مالک ہے اور دوسرے لوگ موروثی یا دخیلکار ہیں اور ننگل ،بھینی اور کھارا میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں۔
{1210} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور ؑ کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا کہ ’’ قرأت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے ۔‘‘ میںنے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نما زہوجاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز توہوجاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدوں سورۃ الحمدخلف امام نماز نہ ہوتی ہوتو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لو گ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہوجاتے۔ نمازدونوں طرح سے ہوجاتی ہے ۔ فرق صرف افضلیت کا ہے ۔ ‘‘ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی ۔
{1211} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب ،ساکن چک ایمرچھ کشمیر نے کہ ’’میں نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنا یہ رویاء بیان کیا :
کئی درختوں کی قطار ہے جن پر گھونسلے ہیں اور ان میں خوبصورت پرندے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ مسیح موعودکی جماعت ہے ‘‘
{1212} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام شائع فرمائے تو ان کے سرورق پر مرسل یزدانی کا فقرہ حضور کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مرزاصاحب خود کو مرسل یزدانی تحریر کرتے ہیں ۔ میںنے معترض کو کہا کہ ممکن ہے کہ مطبع والوں نے لکھ دیاہو(کیونکہ شیخ نور احمد صاحب کے مطبع ریاض ہندامرتسر میں رسائل موصوفہ طبع ہوئے تھے) جب میں قادیان آیا تویہ ذکر میںنے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ حضور ؑ نے بلا تأمل جواباً فرمایا:’’میری اجازت کے بغیر مطبع والے کس طرح لکھ سکتے تھے۔‘‘
{1213} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم ساکن ایمرچھ نے کہ ایک دن سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جو صبح کے وقت سیر کونکلے تو مولوی عبد اللہ صاحب حال وکیل کشمیر نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنی رویاء بیان کی کہ میںنے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور میں ا س کے کنارے کھڑاہوں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ ’’اس کا پانی کیسا تھا؟‘‘ مولوی صاحب نے جواب دیا ’’میلا پانی تھا‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ دریاسے مراد دل ہے ۔‘‘ راقم ھٰذا کو یہ یاد نہیں رہا کہ میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے یہ کہا تھا یا نہیں ؟ کہ حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اصلاح نفس کی تلقین فرمائی تھی یا نہ ؟ ۱؎

۱؎ مولوی عبداللہ صاحب وکیل آخر عمر میں بہائی ہو گئے تھے۔ (ناشر)
{1214} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا (سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا)مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا۔ شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا۔
{1215} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میاں فقیر خان صاحب مرحوم ساکن اندور کشمیر (ملازم حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم جاگیرداریاڑی پورہ کشمیر) نے ،راجہ صاحب موصوف کی بینائی بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ جب وہ قادیان گئے تو جب کبھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے باغ میں بیدانہ کے ایام میں جاتے تو حضور علیہ السلام راجہ صاحب موصوف کے آگے خود اچھے اچھے دانے بیدانہ یا شہتوت میں سے چن کر رکھتے۔ راقم عاجز کرتا ہے کہ راجہ صاحب موصوف مہمان خانہ میں رہتے تھے اور حضور علیہ السلام مہمان خانہ آکر راجہ صاحب کو بھی سیر میں شریک فرماتے تھے۔
{1216} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا ’’لڑکے کے عقیقہ کے لئے دوبکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘ میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے ۔ ایک بکرا کے جواز کا فتوی ٰ نہ دیا ۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں۔
{1217} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیمار مہمانوں کی بعض اوقات عیادت فرماتے تھے ۔ راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم کی بھی مہمان خانہ میں آکر عیادت فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میاں ضیاء الدین صاحب مرحوم طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بورڈنگ میں عیادت فرمائی تھی۔
{1218} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ بمعہ اصحاب اس راستہ کی طرف جو یکوں ٹمٹموں کا راستہ متصل محلہ خاکر وبان بٹالہ کو جاتا ہے ۔ سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر راستہ کے ایک طرف درخت کیکر کسی کا گرا ہوا تھا ۔ بعض دوستوں نے اس کی خورد شاخیں کاٹ کر مسواکیں بنالیں۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ اس وقت حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے(اس وقت دس بارہ سال عمر تھی) ایک مسواک کسی بھائی نے ان کو دے دی اور انہوںنے بوجہ بچپن کی تکلفی کے ایک دفعہ کہا کہ ابا تسیں مسواک لے لو۔ حضور علیہ السلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ یہی کہا۔ حضور علیہ السلام نے پھرجواب نہ دیا ۔ سہ بارہ پھر کہا کہ ابا مسواک لے لو ۔ تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’پہلے یہ بتاؤ کہ مسواکیں کس کی اجازت سے لی گئی ہیں ؟ اس فرمان کو سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں۔
{1219 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ومغفور ساکن گاگرن کشمیر نے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی نے دریافت کیا ۔ حضور ! درود شریف کس قدر پڑھنا چاہئے ؟ حضور نے فرمایا ۔’’ تب تک پڑھنا چاہئے کہ زبان تر ہوجائے۔‘‘
{1220} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ قیام مقبرہ بہشتی سے پہلے فوت ہوئے اور اس قبرستان میں جو شہیدوں کے تکیہ کے قریب جانب شرق قادیان قدیم واقعہ ہے بطور امانت حسب الارشاد حضرت اقدس مدفون ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اس طرف سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر مولوی صاحب موصوف کی قبر پرکھڑے ہوکر معہ اصحاب ہمراہیان ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1221} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ میاں عبد الکریم صاحب مرحوم حیدر آبادی کو میرے روبرو دیوانہ کتے نے بورڈنگ ہائی سکول (جو اس وقت اندرون شہر تھا اور جواب مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ ہے ) کے صحن میں بوقت دن کاٹا تھا۔ میرے سامنے ہی اسے کسولی بھیجا گیاتھا۔ وہاں سے علاج کرا کے جب مرحوم واپس قادیان آیا۔ تو چند روز کے بعد اسے ہلکاؤ ہوگیا۔ اس پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کسولی کے افسران کو تار دیا کہ عبد الکریم کو ہلکاؤ ہوگیا ہے۔ کیا علاج کیا جائے ؟ انہوںنے جواب دیا
‏Sorry`nothing can be done for Abdul Karim
افسوس! عبد الکریم کے لئے اب کچھ نہیںہوسکتا۔ تب عبد الکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان کے ایک مکان میں علیحدہ رکھا گیا۔ اور مکرم معظم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور خاکسار ا س کے پاس پہرہ کے لئے اپنی مرضی سے لگائے گئے۔ ہم دونوں بھی اس کے پاس جانے سے ڈرتے تھے ۔ بہر حال سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت الحاح سے عبد الکریم کے لئے دعائیں کیں ۔ ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو ہر گز زہر دے کر نہ مارا جائے ۔ اسے بادام روغن بھی استعمال کراتے رہے ۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی دعاؤں کی برکت سے اسے شفاء دی۔
{1222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میںنے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بعض اپنی کمزوریوں کا ذکر کیا اور عرض کی کہ بعض وقت طبیعت کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گویا طبیعت میں نفاق آگیا ہے ۔ حضور ؑ نے زور دار الفاظ کے لہجہ میں فرمایا کہ ’’نہیں نہیں کچھ نہیں۔ چالیس سال تک تو نیکی اور بدی کا اعتبار ہی نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کہ کہ مجھے پے درپے دو خوابیں دہشت ناک آئی ہیں ۔فرمایا۔ سناؤ۔ میںنے عرض کی کہ’’ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خنزیر پر سوار ہوں اور وہ نیچے سے بہت تیز بھاگتا ہے مگر میں اس کے اوپر سے گرا نہیں ہوں۔ اسی اثناء میں ایک بچہ خنزیر مری گردن سے پیچھے کی طرف سے چمٹتا ہے ۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ اس کو گردن سے نیچے گرادوں مگر وہ جبراً میری گردن سے چمٹتا ہے اسی حالتے میں میری آنکھ کھل گئی۔
دوسری خواب یہ ہے کہ ایک نامعلوم سا آدمی میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ میں اور یہ دونوں نصرانی ہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں خوابیں اچھی ہیں۔ چنانچہ خواب اول کے متعلق فرمایا کہ تم کسی عیسائی پر فتح یاب ہوگے ۔ مگر بچہ خنزیر کے متعلق کوئی تعبیر نہ فرمائی ۔ اور دوسری خواب کے متعلق فرمایا (اور ایک کتاب علم تعبیر کی بھی سامنے رکھ لی تھی) کہ ایسی خواب کا دیکھنے والا اگر اہلیت رکھتا ہوتو بادشاہ ہوجاوے گا۔ کیونکہ نصرانی نصرت سے نکلا ہے یعنی نصرت یافتہ۔ اور نصاریٰ نصرانی آج دنیا کے بادشاہ ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بادشاہی کی اہلیت نہیں رکھتا تو بڑا متمو ّل ہوجاوے گا۔ اس کے چند روز بعد مجھے بمقام ڈہری والہ داروغہ برائے تصدیق انتقال اراضی زر خرید واقعہ سیکھواں کے لئے جانا پڑا۔ بر مکان چوہدری سلطان ملک صا حب سفید پوش( اب ذیلدار ہیں) ایک عیسائی نبی بخش کے نام کے ساتھ میری مذہبی گفتگو چھڑ گئی ۔ آخر وہ عیسائی مغلوب ہوکر تیزی میں آگیا۔ دفعیہ کے طور پر میں نے بھی اس پر تیزی کی ۔ اس میں بھی وہ مغلوب ہوگیا ا س مجلس میں ایک شخص سوچیت سنگھ نام ساکن چھینا تحصیل گورداسپور جو سکھ مذہب کو ترک کر کے آریہ مذہب اختیار کرچکا تھا ۔ موجو دتھا۔ وہ اس عیسائی کا حامی بن گیااور مجھ پر تیزی کرنے لگا۔ تااس عیسائی کو مشتعل کرے مگر وہ عیسائی بالکل خاموش رہا۔ میںنے اس سکھ آریہ کو کہا کہ میںنے اس کو دفعیہ کے طور پر کہا ہے ۔ ابتداء میںنے نہیں کی مگر وہ سکھ آریہ اشتعال دہی سے باز نہ آیا حتیّٰ کہ اس کو استغاثہ فوجداری عدالت میں دائر کرنے کا اشتعال دلانے سے بھی باز نہ آیا مگر وہ عیسائی باوجود اس سکھ آریہ کے بھڑکانے کے خاموش رہا۔ تب مجھ کو بچہ خنزیر یاد آگیا جو میری گردن سے چمٹتا تھا ۔ احادیث نبویہ میں مسیح موعودعلیہ السلام کے فعل یقتل الخنزیر کی تصدیق بھی ہوگئی ۔
{1223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پسند نہیں فرماتے تھے کہ احمدی طلباء عیسائی کالجوں میں داخل ہوں ۔ جب خاکسار اور شیح عبد العلی صاحب بھیروی حال ای اے سی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے انٹرنس میں بفضل خدا پاس ہوئے ۔ اس وقت عبد العلی موصوف نے مجھے یہ بات لاہور میں بتائی کہ حضرت صاحب کرسچن کالج لاہور میں احمدی طلباء کا داخلہ پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ عبد العلی صاحب نے کسی کانام بھی بتایاتھا کہ اسے حضور علیہ السلام نے کرسچن کالج لاہور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ( غالباً فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر کا نام یا اپنا ہی ؟) خاکسار کو بھی حضورنے اسلامیہ کالج لاہور ہی میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوگیا تھا ۔ بعد میں علی گڑھ کالج چلا گیا۔
{1224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے وقت ایک دفعہ قادیان کا لنگر خانہ گورداسپور منتقل کیا گیا تھا یعنی قادیان میں لنگر خانہ بند کیا گیا اور گورداسپور میں لگایا گیا۔ وہ ایام کرم دین کے مقدمہ کے تھے ۔ جبکہ مجسٹریٹ عمداً نزدیک نزدیک تاریخیں رکھتا تھا تاکہ حضرت صاحب علیہ السلام کو تکلیف ہو ۔ ہم چند طلباء گورداسپور چلے گئے تھے۔
{1225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ لوگ حضور علیہ السلام کے حج کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ طواف کرتے دیکھا ہے۔ ہم تو دجال کے پیچھے پڑے ہیں اس کو ساتھ لے کر حج کریں گے۔
نوٹ: پہلے علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ دجال کا طواف کعبہ ایسا ہے جیسے چور (سارق) کسی مکان میں نقب زنی کے لئے گشت کر لے اور مسیح موعودعلیہ السلام کا طواف جیسے کوتوال چوروں کے تعاقب میں گشت کرتا ہے ۔
{1226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں شمس الدین صاحب (غیر احمدی) سابق سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے کہ دعویٰ سے پہلے ہم چند شرفاء لاہور سے قادیان اس غرض سے جاتے تھے کہ سیاسی امور میں حضور علیہ السلام ہماری راہنمائی فرماویں۔ لیکن حضور علیہ السلام نے اس وقت کی حکومت کے خلاف ہم کو کبھی بھی کچھ بات نہ کہی ۔ پس ہم نے پھر قادیان جانا ہی چھوڑ دیا۔
{1227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے اور بھائی فضل محمد صاحب ساکن ہرسیاں (جو مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ کے والد ہیں) نے مشورہ کیا کہ قادیان میں دوکان تجارت کھولیںاور حضور علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے لئے قادیان آئے۔ حضور علیہ السلام غالباً نما زظہر پڑھ کر اندر تشریف لے جارہے تھے کہ ہم نے سوال کردیا اور اپنی تجویز پیش کردی۔ حضور علیہ السلام اس صحن میں کھڑے ہوگئے جو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے مسجد کو آویں تو ایک سیڑھی ابھی باقی رہتی تھی کہ ایک دروازہ اندر جانے کو کھلتا تھا اور آگے چھوٹا ساصحن جسے عبور کر کے حضور اندر گھر میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں صحن میں ایک چوبی سیڑھی لگی ہوئی تھی اس کے اوپر کے مکان میں حضرت خلیفہ اولؓ رہا کرتے تھے ۔ اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ بھی اس چوبی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر مکان کو جارہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے ان کو بھی بلالیا اور فرمایا کہ ’’ میاں خیر الدین وغیرہ یہاں دوکان کھولنا چاہتے ہیں۔ کیا اعتبار ہے کہ دوکان میں خسارہ ہو یا نفع ہو؟ اچھا اگر خسارہ پڑے گا تو دوکان چھوڑ دیں گے۔ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔ بعد ش ہم نے مشورہ کیا کہ ہم کو امید نہیں ہے کہ منافع ہو۔ بہتر ہے کہ دوکان کھولنے کا ارادہ ترک کردیں ۔ چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ۔
{1228} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ساکن گاگرن کشمیر نے کہ جب میں۹۸۔۱۸۹۷ء میں قادیان گیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کشمیر واپس آنے کی اجازت مانگی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’یہاں ہی ٹھہرو اور قرآن شریف پڑھو۔‘‘ پھر میںکچھ عرصہ اور ٹھہرا۔ اس کے بعد پھر میں نے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے ذریعہ درخواست کی کہ میرے دو لڑکے سری نگر میں مشرکوں کے پاس ہیں اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کا کچھ بندوبست کروں ۔ چنانچہ مجھے اجازت دی گئی اور پھر تم دونوں بھائیوں کو (عبد القادر وعبد الرحمن) قادیان لے آیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
{1229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب پہلے حنفی تھے پھر اہل حدیث ہوئے اس وقت وہ اپنے دوست مولوی محمد حسن صاحب مرحوم ساکن آسنور (والد مولوی عبد الواحد صاحب )کو کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اب بڑے موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کوئی ایسی جماعت اور نکل آئے جو ہم کو بھی مشرک گردانے ۔ والد صاحب فرماتے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مُردوں (کو زندہ کرنے والے) اور پرندوں کا خالق مانتے ہیں۔ لیکن جب میرے کانوں نے یہ شعر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا سنا
ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب! یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے ؟
اس وقت مجھے ہوش آیا اور میںنے تم دونوں بھائیوں کو سری نگر اپنے ماموں کے پاس چھوڑا اورقادیان پیدل چلا گیا۔ اور وہاں بیعت سے مشرف ہوا۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ علی ذالک
{1230} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا۔ حضور ؑ گھر میں معہ احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا ۔ میرے لئے بھی کھانا آگیا ۔جب کھانا رکھا گیا تو رکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی ۔ تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے ۔ میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہوں سے خدا تعالیٰ کا شکریہ کرتے ہوئے کہتا ہوں ۔ الحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1231} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں پادری مارٹن کلارک امرتسر نے حضور ؑ کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا ۔ اول عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر سے حضور ؑ کے خلاف ورانٹ جاری ہوکر گورداسپور پہنچا لیکن جلد ہی واپس ہوگیا ۔ چوہدری رستم علی صاحبؓ ان دنوں گورداسپور میں بعہدہ کورٹ انسپکٹر مقرر تھے ۔ انہوںنے منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی (پٹواری سیکھوانی) کو اطلاع دی۔ وہ فوراً سیکھواں آئے ۔ میں بھی سیکھواں سے شامل ہوا۔ قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں اطلاع کی گئی ۔ حضور علیہ السلام نے اندر ہی بلا لیا۔ حاضر خدمت ہوکر خط چوہدری رستم علی صاحب مرحوم والا پیش کردیا۔ خط پڑھ کر فرمایا (قریب ہی ایک دریچہ تھا جس کے آگے بیٹھ کر حضور علیہ السلام تحریر کاکام کیا کرتے تھے)اس دریچہ کے باہر سے خواب یا کشف میں معلوم ہوا کہ بجلی آئی ہے لیکن واپس ہوگئی(چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وارنٹ امرتسر سے جاری ہوا پھر حکام کو غلطی خود معلوم ہوگئی اور واپس کرایا گیا) پھر دوبارہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل ہوگیا اور خد انے عزت کے ساتھ بری کیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1232} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آپ (حضرت صاحب ) نماز عموماً دوسرے کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ میںنے اس قدر طویل عرصہ میں دو دفعہ حضور علیہ السلام کی اقتدا میں نما زپڑھی ہے ۔
(۱) قبل دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز۔ ایک رکعت میں سورۃ وَالتِّین پڑھی تھی لیکن بہت دھیمی آواز میں جو مقتدی بہ مشکل سن سکے۔
(۲) دوسری دفعہ مولوی کرم الدین والے مقدمات میں گورداسپور کو جاتے ہوئے بڑی نہر پر ظہر کی نماز حضور علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی تھی ۔
{1233} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران مقدمات مولوی کرم الدین ،مَیں بعض کاموں کی وجہ سے سولہ سترہ روز کے بعد جب قادیان پہنچا ۔ حضور علیہ السلام دریچہ بیت الفکر سے جو مسجد مبارک میں کھلتا تھا تشریف لائے اور دیکھتے ہی مجھ کو فرمایا کہ ’’بڑی دیر کے بعد آئے۔‘‘ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کو اپنے خدام کو جلد یا بدیر آمدورفت کے متعلق خیال رہتا تھا۔
{1234} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ نے ایک جلسہ کیااور اس کانام ’’جلسۃ الدعا‘‘ رکھا (یہ جلسہ عید گاہ قدیمی متصل قبرستان غربی جانب از قادیان کیا تھا) جلسہ مذکورہ میں حضور ؑ نے تقریر فرمائی کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کی جنگ ہوگی اوریاجوج ماجوج روس اور انگریز (برطانیہ) دونوں قومیں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ جب یہ جنگ ہوگی اس وقت ہم زندہ ہوں گے یا نہیں ؟ اس لئے میں آج ہی دعا کر چھوڑتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزقوم کو فتح دے ۔ آمین ۔
{1235} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیاسی شورش کے متعلق فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا۔ سوائے قادیان کے کہیں امن نہ ہوگا۔‘‘
{1236} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلی دفعہ میں (بادل ناخواستہ ) بیعت کرکے واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ قادیان شریف کو لوگ بڑا بُرا کہتے ہیں اور میں نے تو وہاں اس جگہ سوائے قرآن شریف اور دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا۔ سب لوگ رات دن یاد الٰہی میں مشغول ہیں ۔ بس میں نے اس خیال کو مد نظر رکھ کر نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پید اکرنے والے رب ! میرے محسن! میں تیر ا بندہ ہوں ،گنہگار ہوں ،بے علم ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے ؟ اس وقت دنیا میں کسی فرقے میں مجھے نہیں معلوم کہ کون فرقہ راستی پر ہے ؟ پس اے میرے پید اکرنے والے ! میں اس وقت اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں کہ تو مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہو۔ تا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ اے میرے مولا! جب تو مجھے قیامت کو پوچھے گا تو میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ ! میں بے علم تھا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حضور رکھ دیا تھا اور بار بار یہی عرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے ! مجھے صحیح رستہ بتااور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش۔ کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا بزازی وغیرہ خریدنے کے لئے گیا تو میں پہلے اُس دوست محمد اکبر صاحب کے پاس ملاقات کے لئے چلا گیا تو وہا ں بھی یہی باتیں شروع ہوگئیں ۔ انہوںنے ذکر کیا کہ کل ایک سیٹھ صاحب مدراس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں ۔ چنانچہ ایسی ایسی باتوں پر میرے دل میں ایسا جوش پید اہوا کہ میںنے اس دوست یعنی محمد اکبر صاحب کو کہا کہ اس روز آپ نے میر ا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میںشامل ہونے کے لئے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور میرا دل نہیں چاہتا تھا ۔ آج مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں جوش پید اہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے توبہ کرکے بیعت میں داخل ہوتا ہوں ۔ اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے اور جب میں بیعت کر کے گھر میں پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور اب خالی آرہے ہیں تو میرے دل میں وہی خیال گذرا کہ شاید ناراض نہ ہوجاویں ۔ مگر میںنے اس کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جاکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کر آیا ہوں ۔اس پر انہوںنے کچھ نہ کہا۔
{1237} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد ملک بسو صاحب کے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے رہنے والے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم جولی اور بچپن کے دوست تھے۔ ان کی بھتیجی کا رشتہ ان کے بھانجے شاہ چراغ کے ساتھ ہوا اور اس کی شادی پر میں قادیان گیا تھا ۔ اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی ۔ شاہ صاحب نے مجھ کو قریباً ایک ہفتہ وہاں رکھا۔ اُن دنوں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اولؓ مسجد اقصیٰ میں عصر کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ شاہ صاحب کے حسب ہدایت میں درس سننے جایا کرتا تھا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبح کے وقت سیر کو جایا کرتے تھے ۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ بہت سے آدمیوں کا ایک ہجوم بھی ہو اکرتا تھا ۔ میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ سیر کو کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ مسجد مبارک ان دنوں چھوٹی سی ہوا کرتی تھی اور حضور ؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر مذہبی باتیں اور دینی مسائل کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی۔ سیر میں بھی حضور علیہ السلام چلتے چلتے تقریر فرمایا کرتے تھے۔
{1238} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب امیر حبیب اللہ والی ٔ کابل کے حکم سے شہید کئے گئے ۔ ان کے ذکر پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اگر سلطنت کابل نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس سلطنت کی خیر نہیں ہے ۔ ‘‘
{1239} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںفضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں دوبارہ بیعت کر کے واپس گھر گیا تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد میری بیوی نے ایک خواب سنایا کہ آج میں خواب میں حج کو جارہی ہوں اور بہت لوگ بھی حج کو جارہے ہیں اور وہ جگہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی جانب ہے جس طرف حج کو جارہے ہیں ۔ جب میں حج کی جگہ پر پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ۔ دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ چھوٹی عمر کا وہاں بیٹھا ہے اور اس کے ارد گرد بہت مٹھائیاں پڑی ہیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اپنا بچہ جو کچھ عرصہ ہوئے فوت ہوگیا تھا یاد آیا۔ تو اس بچہ نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور بچہ دے گا جو اچھا ہوگا ، نیک ہوگا اور بہت باتیں کیں۔ جو مجھے یاد نہیں رہیں۔ خیر اس نے یعنی میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال میں وہ قادیان شریف ہی ہے ۔ پس مجھے بھی قادیان شریف لے چلو۔ چنانچہ میں نے اس کو قادیان شریف میں لاکر بیعت میں داخل کردیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ۔ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے قادیان شریف جانے سے نہ روکیں اور میں کوئی چیز نہیں چاہتی۔ صرف میری یہی خواہش ہے ۔ چنانچہ اس میری بیوی کو اس قدر محبت قادیان شریف سے ہوئی کہ اس کو وہاں اپنے گاؤں میں رہنا نہایت ناپسند ہوا اور اس وقت تک اپنی آمدورفت نہ چھوڑی جب تک قادیان شریف میں اپنا مکان نہ بنوالیا اور مکان بنا کر قریباً دوسال آباد ہوکر اس دار فانی کو چھوڑ کر مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
{1240} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہرقسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے ۔ عام طور پر حضور ؑ کی نسبت دریافت کرتا تھا ۔ ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں۔ ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کرسکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاںہیں ؟تو وہ کہاکرتے تھے کہ مسجد میں جاکردیکھ ۔اگر وہاں نہ ملے تو ناامید نہ ہوجا نا ۔ ملے گا بہر حال مسجد میں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1241} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی(آمین) بذریعہ الہام تعلیم فرمائی تو حضور علیہ السلام نے ایک روز ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر ایک قسم کی مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ بجائے واحد کے بصورت جمع بھی اس کا استعمال جائز ہے ۔ یہ ان دنوں میں حضرت صاحب پر جناب الٰہی سے نازل ہوئی تھی جن ایام میں مقدمات ہونے والے تھے یا شروع ہوگئے تھے۔
{1242} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اپنی خواب بیا ن کی جو یہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک میدان میں یاایک مکان میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے سر پر سبز دستار ہے اور ہاتھ میں کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ’’برکت بی بی !فلاں جگہ ایک تھان ریشمی سبز رنگ کا پڑا ہے۔ اٹھا لاؤ۔ اور وہ کتاب جو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے وہ مولوی نور الدین صاحبؓ کو دے دی اور مولوی صاحب کے سر پر سفید پگڑی ہے اور چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ کتاب حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ کو دے دی اور میاں صاحب کے سر پر سبز ریشمی پگڑی ہے ۔ وہ کچھ لمبی خواب تھی جو انہوںنے بتلائی۔ یہ خواب انہوں نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو اسی وقت سنائی تھی ۔ جب حضرت خلیفہ صاحب اوّلؓ کا انتقال ہوا تھا ۔ تو اس وقت حضرت ام المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو بتاوے ۔ چنانچہ حضرت ام المومنین کو وہ خواب یاد کرائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ وہ خواب تو مجھے یاد ہے ۔
{1243} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ سیدنا مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے ‘‘ نیز فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاًرکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے ۔ ‘‘ نیز فرمایا کہ ’’ رکوع وسجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ ‘‘
{1244} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہوگیا اور ا س کے دو چھوٹے بچے اور لڑکی اور اس کی بیوی پیچھے رہ گئی۔ میں اس کے لئے قضا کاکام کرتا رہا اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی ہے اس کو دیتا رہا۔ چنانچہ میںنے اور میری بیوی نے اس کی لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھائیں ۔ جب لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے واسطے مسجد میں گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں آج عید کی نما زپڑھاؤں گا ۔ میںنے اس کو کہا کہ ہماری نما زتمہارے پیچھے نہیں ہوتی ۔ تُو ہمیشہ پیچھے پڑھتا رہا ہے۔ آج تو کیوں پڑھائے گا ؟ اس کے ساتھیوں نے اس کو کہا کہ تمہاری قضاء لے لے گا۔ اس پر اس ملا نے کے بچے نے زور دیا کہ آج میں ہی نما زپڑھاؤں گا۔ اس بات پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا اس کو ایک مکا مارا۔ میںنے اس کو منع کیااور سب کو ساتھ لے کر اپنی جگہ حویلی میںنماز اد اکی اور جب میں جمعہ پڑھنے کے لئے اپنی عادت کے مطابق قادیان شریف آیا تو دیکھا کہ میاں عبد الرحیم حجام مسجد میں کھڑا ہے ۔ میںنے پوچھا کہ اس جگہ کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کو مہندی لگانی ہے اور اندر اجازت کے لئے کہلا بھیجا ہے ۔ میںنے یہی موقعہ پایااور وہاں کھڑا ہوگیا۔ جب اجازت ہوئی تو میں بھی اندر چلا گیا ۔ حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ مصافحہ کیااور پا س بیٹھ گیا۔ میںنے وہ سارا قصہ عید والا سنایا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صبر کرو۔ یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہوجاوینگی۔‘‘ ا س کے علاوہ اور بہت باتیں ہوتی رہیں جو یا دنہیں رہیں ۔ چنانچہ اب وہ مسجد اللہ کے فضل وکرم سے احمدیوں کے پاس ہے ۔
{1245} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید محمدعلی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں لاہور میں محکمہ جنگلات میں ملازم تھا۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ومرزاغلام احمد صاحب اور ان کے بڑے بھائی میرے پاس آکر ٹھہرے۔ اُن دنوں میں ان کا ایک مقدمہ چیف کورٹ پنجاب میں درپیش ہونا تھا۔ وہ مقدمہ حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب اپنی کھوئی ہوئی جائیداد لینے کی اپیل تھی۔ اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوچکا تھا۔ مقدمے کی پیروی کے بعد حضور ؑ کے والد صاحب اور بڑے بھائی واپس تشریف لے گئے اور مرز ا غلام احمد صاحب کو عدالت سے حکم سننے کے لئے چھوڑ گئے ۔ میرے ایک دوست ملک بسو صاحب رئیس لاہور تھے۔ (جو خاکسار ملک غلام محمد کے والد صاحب تھے) ان کی گاڑی آجایا کرتی تھی اور حضرت صاحب کو چیف کورٹ میں لے جاتی تھی اور پھر چار بجے ان کو واپس لے آتی تھی۔ ایک روز ایک یادو بجے کے قریب حضرت صاحب ؑ پیدل تشریف لارہے تھے۔ میںنے دور سے دیکھا تو ان کا چہرہ نہایت بشاش تھااور بڑے خوش خوش آرہے تھے۔ میںنے دریافت کیا کہ آپ جلدی آگئے ہیں اور گاڑی کا انتظار نہیں کیا ۔ بڑی خوشی سے فرمانے لگے ’’آج حکم سنایا گیا ہے اس واسطے جلدی آگیا ہوں ۔ گاڑی کا انتظار نہیں کیا۔ ‘‘ میںنے کہا بہت خوش ہیں مقدمہ جیت لیا ہوگا اور میںنے ان کے چہرہ سے دیکھ کر بھی یہی محسوس کیا کہ مقدمہ جیت لیا ہوگا لیکن حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’وہی بات پوری ہوئی جو میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پہلے فرمائی ہوئی تھی یعنی ’’مقدمہ ہارا گیا‘‘ اور میرے مولیٰ کی بات پوری ہوئی۔ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میںنے دل میں کہا کہ باپ کا تو بیڑا غرق ہوگیا ہے اور یہ خوش ہورہے ہیں ۔
{1246} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا۔ قادیان میں دیر تک رہا تھا۔ ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے۔‘‘ پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہوکر خاموش ہوگیا اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا ۔ فرمایا کہ ’’کیا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایلچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کاسارا مال مویشی عطا کردیا تھا وغیرہ ۔ اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی۔ ‘‘
{1247} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورعلیہ السلام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے اور میں بھی ساتھ تھا۔ جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میںنے جھٹ آگے ہوکر عرض کی کہ ’’پہلے بزرگ، اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو ا س پر وہ بزرگ اپنے منہ کی لب لگا دیا کرتے تھے اور اس کو شفا ہوجاتی تھی۔ حضور علیہ السلام میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر میری آنکھوں پر دَم کردیا۔ آج تک قریبا ً پینتیس برس ہوگئے ہیں میری آنکھوں میں کبھی پھنسی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے میں نہیں آئیں ۔ الحمد للّٰہ
{1248} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابامیراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا۔ اس سے بھی میں حضرت صاحب ؑ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور ؑ بچپن میں اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جھولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے ۔
{1249} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دعا کے متعلق کچھ سوال ہوا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دعاہی مومن کا ہتھیار ہے ۔ دعا کو ہر گز چھوڑنا نہیں چاہئے ۔بلکہ دعا سے تھکنا نہیں چاہئے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دعا کی مثال حضور علیہ السلام نے کوئیں کی دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی قریب پہنچتا ہے تو تھک کر ناامید ہوکر چھوڑ دیتا ہے ۔ اگر وہ ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اس کا مقصود حاصل ہوجاتا اور کامیاب ہوجاتا۔ اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور ناکام رہتا ہے ۔
{1250} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دکان میں فخر الدین ملتانی بیٹھتا تھااور ا س کے جانب شرق میں مولوی کرم الٰہی بزاز کھاروی بیٹھتا ہے اور درمیان میں دروازہ آمدورفت چھوڑ کر جانب شرق متصل میں وہ دکان جس میں عبد الرحیم فالودہ والا بیٹھتا ہے یہ کل جگہ ویران اور منہدم پڑی تھی۔ مرز انظام الدین وغیرہ ہر موقعہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی یہی خیال ان کو تھا ۔ ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ا س جگہ پر ایک دن میں مکان تیار کیا جائے ۔ ‘‘ چنانچہ مرزا خد ابخش صاحب نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں سیکھواں سے کچھ آدمی فوراً لاؤ۔ چنانچہ دس بارہ آدمی سیکھواں سے قادیان پہنچ گئے اور مکان تیار ہونا شروع ہوگیا ۔ چونکہ حضرت صاحب شامل تھے اس لئے تمام لوگ جماعت کے (اس وقت ابھی جماعت برائے نام ہی تھی) کام میں مشغول تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی میںنے دیکھا کہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر معمار وں کو دیتے تھے۔ ایک ہی دن میں مکان تیار ہوگیا۔ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ اس نظارہ کو دیکھتے تھے لیکن طاقت نہ تھی کہ کسی کو آکر روک سکیں۔ شام کے بعد مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے حضور مرز ا خد ابخش صاحب نے واقعات پیش کئے اور کامیابی کا اظہار کیا گیا۔ اور سیکھواں سے آدمی پہنچنے کا ذکر کیا گیا۔ الحمد للہ علٰی ذالک
{1251} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں میاں منظور علی شاہ صاحب ولد سید محمد علی شاہ صاحب کی بسم اللہ کی تقریب پر جو مولوی نور الدین صاحبؓ نے کرائی تھی، گیا تھا۔ حسب دستور میں مولوی صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کبھی کبھی سیر کو بھی جایا کرتا تھا ۔ میں تقریباً پندرہ بیس دن وہاں رہا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جس زمانہ میں ڈاکٹر عبد الحکیم (جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا) قرآن شریف کا ترجمہ کر کے لایا ہواتھا۔ حضرت صاحب سیر کوجاتے تھے اور وہ سناتا جاتا تھا۔ حضور علیہ السلام سنتے جاتے تھے اور بعض دفعہ کچھ فرمایا بھی کرتے تھے ۔
{1252} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبد الغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پا کر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور ؑمیں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟ ‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور !یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں ‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دینی نہیں چاہئے ۔
{1253} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مشکلات کیا چیز ہیں؟ دس دن کوئی نما زتہجد پڑھے۔ خوا ہ کیسی ہی مشکل ہو خداتعالیٰ حل کردے گا ۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ)
{1254} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری عمر چونکہ بڑھ رہی تھی ۔ میںنے دعا کرنی شروع کی کہ یا خداوند کریم ! اگر یہ (یعنی حضرت مسیح موعود ) سچا ہے اور میںنے اس کی بیعت نہ کی تو میں جہالت کی موت مروں گا اور اگر یہ سچا نہ ہوا تو میرے اسلام میں فرق آئے گا۔ تُو ہی اپنے فضل سے مجھے صحیح رستہ دکھادے ۔ میںیہ دعا مدت تک کرتا رہا۔ حضور ؑ لاہور تشریف لایا کرتے تھے ایک دفعہ حضور ؑ کا لیکچربریڈلا ہال میں ہو اتھا۔ لوگوںنے حضور ؑ کی گاڑی پر اینٹیں ماریں لیکن پولیس اپنی حفاظت میں حضور ؑ کو خیریت سے لے آئی۔ پھر خد اتعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میںنے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
{1255} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا ،گورداسپور میں پیشی تھی ۔ جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضور ؑ لیٹ گئے اور میں حضور ؑ کے پاؤں دبا رہا تھااور بہت سی باتیں حضور ؑ کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میںنے عرض کیا کہ حضور ! ؑمجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے ۔ حضور ؑ اس کا نام رکھ دیویں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’پہلے کانام کیا ہے ؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے۔ تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ’’عبد الرحیم ‘‘ رکھ دو۔
{1256} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کا واقعہ ہے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ؓکے سوال کے جواب میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کی کوئی باریک حکمت ہے کہ مجھے دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں اور ایک نیچے کے حصہ میں۔ اوپر کے حصہ میں تو وہ دَوری بیماری ہے جو ہمیشہ کوئی ہفتہ عشرہ خالی نہیں جاتا جو دورہ کرتی رہتی ہے جس سے دل میں ضعف اور دردسر اور نبض بالکل ساکت ہوجاتی ہے وغیرہ اور نیچے کے حصہ میں بیماری ذیابیطس ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میںنے ان کی نسبت توجہ بھی کی تھی تو یہی جواب ملا کہ یہ بیماری لا علاج ہے لیکن فضل خد اشامل حال رہے گا اور فرمایا کہ ’’کیا عجیب پیشگوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے نازل ہوگا۔وہ یہی اشارہ ہے۔ ورنہ کون سمجھ سکتا ہے کہ آسمان پر کپڑا بنایا جاتا ہے جس سے مسیح کو زرد چادریں دی جاویں گی۔ اور حدیث میں جو دو زرد چادروں کاذکر ہے۔ دراصل انسان کے لئے دو ہی چادریں پردہ پوشی کے لئے کافی ہیں۔ ایک تہ بند اور دوسری اوپر کی چادرکافی ہوسکتی ہے۔‘‘
{1257} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھااور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میںنے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور ؑ عشاء کی نما زکے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں ۔‘‘ یعنی نما زعشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں ۔
{1258} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کو ٹیکہ کے متعلق ذکر چل پڑا۔ فرمایا کہ ’’ٹیکہ ضرور کرانا چاہئے۔ یہ بڑا مفید ہے کیونکہ بعض اوقات چیچک سے لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بیماری ہے ۔ تین دفعہ جس کا ٹیکہ کیا جائے وہ چیچک سے محفوظ رہتا ہے (۱) بچپن میں (۲) پھر قریباً آٹھ سال کی عمر میں (۳) پھر سولہ سترہ سال کی عمر میں۔ فرمایا کہ اگرٹیکہ کرنے والے آویں تو مبارک احمد کو ٹیکہ کرایا جائے ۔ پہلے تینوں لڑکوںکا ٹیکا کرایا ہے کسی کو چیچک نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور فیض احمد صاحب نیٹِو ڈاکٹر نے عرض کیا کہ آج قادیان میں ٹیکا کرنے والے آئے ہوئے ہیں۔ اُن سے دریافت کریں گے۔ اگر جاگ مل گیا تو خود ہی اچھی طرح ٹیکہ کر لیویں گے ۔انشاء اللہ ۔
{1259} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل احمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام مسجد اقصیٰ میںکچھ تقریر فرما رہے تھے۔ دوران تقریر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جس کام کے واسطے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر چالیس آدمی بھی ہوجاویں تو میں بڑی کامیابی حاصل کرلوں یا اپنے مقصود کو حاصل کرلوں۔‘‘ ایسا ہی کوئی لفظ تھا جو مجھے اس وقت یا دنہیں رہا۔ اس وقت میرے بائیں جانب حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ بیٹھے تھے۔ جب حضور ؑکے مبارک منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضر ت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہائے افسوس! لوگ اس مبارک وجود کو کیا کہتے ہیں ۔یہ جھوٹ بولنے والا منہ ہے ؟
اس کے بعدجب تقریر ختم ہوئی تو سب لوگ اپنے اپنے مکانوں کی طرف جارہے تھے ۔ چنانچہ میں بھی اٹھ کر چلا جب مسجد اقصیٰ سے نیچے اترے تو میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جاملا۔ آپ کے ساتھ اُن کا ایک شاگرد جارہاتھا۔ اس وقت شاگرد نے حضور مولوی صاحب سے سوال کیا کہ حضور ؑ! آج جو حضرت اقدس ؑ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری جماعت سے چالیس آدمی بھی میری مرضی کے مطابق ہو جاویں تو میں کامیاب ہوجاؤں ۔حضور آپ فرماویں کہ ہم کیا گناہ کر رہے ہیں ؟ نما زپڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، کوئی بھی بُراکام نہیں کرتے۔ وہ کیا کام ہے جو حضرت صاحب کرانا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کی مرضی کے مطابق ہوجاویں ۔ اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں! ہے تو، بیشک آپ اچھا کام کرتے ہیں مگر اگر آج ہی آپ کو لنگر سے روٹی نہ ملے تو پھر آپ کو پتہ لگے۔ کیا کیا آپ منصوبہ بازی کرتے ہیں ۔
{1260} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے چند یوم قبل حضور علیہ السلام نے لاہور میں امراء کی دعوت کی تھی اور تقریر بھی فرمائی تھی۔ حضور ؑلاہور احمدیہ بلڈنگس میں تشریف لائے ہوئے تھے ۔ جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوکر بیٹھا تھا۔ حضور ؑ سنتیں پڑھ رہے تھے۔ میںنزدیک ہی حضور ؑ کی دائیں طرف بیٹھا ہو ا تھا۔ حضور ؑنے سلام پھیرتے وقت یا سلام کے معاًبعد میری طرف دیکھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو حضور ؑ کی آنکھوں کی روشنی سمجھیں یا جلال سمجھیں یا نور سمجھیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو۔ اس نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1261} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے وہاں حضرت اقدس ؑ مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کانام عبد الغنی ، دوسرے کا نام ملک غنی، تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر۴۵سال کی ہوگی یا ہے ۔ اس کے بعد میں بیدار ہوگیا۔ جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف میں جمعہ کے واسطے آیا تو رات اسی جگہ یعنی قادیان شریف ہی رہا۔ شام کے بعد جب حضور ؑ مسجد کے اوپر نماز کے بعد گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے ،بیٹھے تو کچھ صحابی اور بیٹھے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں اور میں بھی حضور ؑ کے قدموں میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ چنانچہ میںنے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ؑ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور ؑ مجھے بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہونگے ۔ پہلے کانام عبد الغنی دوسرے کانام ملک غنی اور تیسرے کانام پتال غنی رکھنااور آپ کی عمرپنتالیس برس کی ہوگی یا ہے ۔‘‘ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ فضل محمد پھر بتلاؤ کہ پہلے کانام کیااور دوسرے کا نام کیا ہے میںنے جب دوبارہ بتایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ میاں ! پھر بتلاؤ تو میںنے حضور ؑ سے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تو مذاق کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم ہورہاہے ۔ حضور مسکرا کربولے کہ ’’آپ کو کیا غم ہے؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میری عمر اس وقت ۲۸یا۳۰برس کی ہے اور باقی تھوڑی رہ گئی ہے اور میںنے حضور علیہ السلام کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ قادرہے وہ دگنی کردیا کرتا ہے ۔‘‘ (اور حقیقت میں ان کی عمر دگنی ہو گئی تھی)
{1262} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ اپنے خادموں کی جدائی(وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے۔ چنانچہ جس روز میاں محمداکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے ۔وہ جمعہ کا دن تھا۔ مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری (جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نما زجمعہ حضور ؑ کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کے لئے عرض کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آج محمد اکبر فوت ہوگیا ہے۔ اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی۔‘‘
{1263} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی (گجرات) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور میرے والد صاحب جن کا نام محمد حیات تھااور ایک اور دوست جن کا نام غلام محمد صاحب احمدی (جو اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجو دہیں ) اپنے گاؤں چوکنانوالی ضلع گجرات پنجاب سے غالباً۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس ؑ کی زیارت کے لئے دارالامان میں حاضر ہوئے تھے اور مسجد مبارک میں ظہر کی نما زکے لئے گئے تا بیعت بھی ہوجائے اور نماز بھی حضرت اقدس ؑ کے ہمراہ ادا کرلیں اور زیارت بھی نصیب ہو۔ گو اس سے پہلے کئی سال آپ کی تحریر ی بیعت سے بندہ شرف یافتہ تھاجس کا سنہ یاد نہیں۔ لیکن زیارت کاشرف حاصل نہ تھا۔ چنانچہ ایک شخص نے جو کہ ہمارے ہی ضلع کے تھے فرمایا کہ آپ لوگوںنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کرنی ہو تو مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے وقت سب سے پہلے حاضر ہوجاؤ۔ وہ دوست بھی مہمان خانہ میں موجو دتھے۔ چنانچہ ہم ہر سہ اشخاص وضو کر کے مسجد مبارک میں چلے گئے ۔ ہم سے پہلے چند ایک دوست ہی ابھی حاضر ہوئے تھے جن میں ہم شامل ہوگئے اور سب دوست اس بدر منیر چودھویں کے چاند کی زیارت اور درشن کا عاشقانہ وار انتظار کر رہے تھے جن میں کمترینان بھی شامل تھے۔ بندہ عین اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گیاجہاں سے حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ تھوڑی انتظار کے بعد اس آفتاب ہدایت نے اپنے طلوع گاہ سے اپنے منور چہرہ کو دکھا کرہمارے دلوں کی زمین پر سے شکوک وشبہات کی تاریکیوں کو پاش پاش کر کے جملہ نشیب وفراز عملی واخلاقی کو دکھا دیااور اپنے درشنوں سے بہرہ ور فرمایا۔ حضور ؑ کے مسجد میں قدم رکھتے ہی بندہ عاشقانہ وار آپ سے بغل گیر ہوگیااور کئی منٹوں تک حضور ؑکے سینہ مبارک سے اپناسینہ لگا کر بغل گیر رہا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو میںنے خود ہی دل میں آپ کو تکلیف ہونے کے احسا س کو پاکر اپنے آپ کو آپ سے الگ کیا(یہ واقعہ بیان کرنے کی غرض محض آپ ؑ کے اسوۂ حسنہ پر تبصرہ ہے ) پھر حضور اپنی نشست گاہ میں جو مسجد مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ تھی تشریف لے گئے۔ ان دنوں مسجد مبارک ایک ایسے تنگ مگر لمبے کمرہ کی صورت میں تھی جس کا یہ عالم تھا کہ ہرصف میں غالباً چھ یا سات آدمی دوش بدوش کھڑے ہوسکتے ہوں گے۔ اور اپنی نشست گاہ پر فروکش ہوئے۔
{1264} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضور ؑ نما زپڑھ کر گھر کو تشریف لے جارہے تھے جب مسجد سے نکل کر دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میں نے کچھ عرض کرنی ہے ۔ حضور وہاں ہی بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھ گیااور پاؤں دباتا رہا۔ بہت دیرتک باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اس وقت کچھ خوابیں اپنی اور کچھ خوابیں بیوی کی عرض کیں اور کچھ دینی ودنیاوی بھی باتیں ہوتی رہیں اور بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہے ۔ میںنے خیال کیا کہ حضور ؑ نے تو خواہ کتنا ہی وقت گذر جاوے، کچھ نہیں کہنا اور آپ کا میں قیمتی وقت کیوں خرچ کررہاہوں ۔چنانچہ بہت دیر کے بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھ کو اجازت فرماویں۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’بہت اچھا جاؤ۔‘‘
{1265} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رکھا گیا۔ جس وقت حضور ؑ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے باہر تشریف لائے ۔ میں اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے جو میدان ہے وہاں کھڑا تھا۔ اس وقت آپ اگر چہ ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے لیکن چہرہ مبارک سے عیاں ہورہا تھا کہ آپ اندر سے روتے ہوئے آرہے ہیں۔
{1266} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا۔ جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگرد طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔ا لسلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا ، حضور ؑ نے پوچھا کہ ’’اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آؤ میرے ساتھ چلو‘‘ اور وہ اندر چلے گئے ۔
{1267} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے خواب میں دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی گود میں بیٹھی ہوں۔ اس وقت میں ایسی محبت سے بیٹھی ہوں جیسے کی ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہو اہے ۔ اس وقت حضور ؑ نے اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا کہ میں برکت بی بی تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم نماز تیمم سے پڑھ لیا کرو۔ بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے بیمارکو کسی حالت میں بھی غسل جائز نہیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتاہوں وہ یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے گا جو صالح ہوگا۔ چنانچہ میںنے یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بمعہ نذرانہ بدست شیخ حامدعلی صاحب اندر گھر میں بھیج دی ۔ جب وہ لڑکا پید اہوا تو حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’صالح محمد ‘‘رکھا۔
{1268} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمدالدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی ضلع گجرات (پنجاب) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسجد مبارک میں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھتے ہوئے باتوں کے دوران میں (غالباً آپ ہی کے الفاظ ہیں) ایک مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مگر گالیوں سے بھری ہوئی چٹھی کے پڑھنے جانے پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ا س کو مطبع میں بھیج کر چھپوادیا جائے یا بھیج کر چھپوادو ۔تاکہ اس کا شاید بھلا ہوجائے ۔ فقط
{1269} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس رو زعبد اللہ آتھم عیسائی والی پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اس سے دوسرے دن جب کچھ سورج نکل آیا تو
حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے اور جہاں اب مدرسہ احمدیہ کا دروازہ آمدورفت بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے سامنے ہے اور اس کے جنوب وشمال کے کمرے جن میں طلباء پڑھتے ہیں ۔یہ جگہ سب کی سب سفید پڑی ہوئی تھی ۔ کوئی مکان ابھی وہاں نہیں بنا تھا۔ چارپائیاں یا تخت پوش تھے۔ ان پر حضور علیہ السلام مع خدام بیٹھ گئے اور اسی پیشگوئی کا ذکر شروع کردیا کہ ’’خدا نے مجھے کہا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے رجوع کر لیا ہے۔ اس لئے اس کی موت میں تاخیر کی گئی ہے ۔‘‘ اس وقت آپؑ کے کلام میں عجیب قسم کا جوش اور شوکت تھی اور چہرہ مبارک کی رنگت گلاب کے پھول کی طرح خوش نما تھی اور یہ آخری کلام تھاجو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے آپ نے فرمایااور یہ بھی فرمایا کہ ’’حق یہی ہے کہ جو خد انے فرمایا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے ۔‘‘
{1270} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۱۸۶۳ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا۔ ان کاغذوں میں جن کی تاریخ اگست اور ستمبر۱۸۶۳ء کی ہے ،یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے ۔
{1271} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم نواب محمد علی خاںصاحب مرحوم سے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وصیت ملی ہے جو حضور نے اپنی وفات سے نو دن قبل یعنی۰۴؍مارچ۱۹۱۴ء کو تحریرفرمائی اور اس پر نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے موجودہ امیر غیر مبائعین کی گواہی درج کرا کے اور اس وصیت کو مجلس میں مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوا کر نواب محمد علی خان صاحب کے سپرد فرما دی جو مجھے اب نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اپنی ہمشیرہ سے ملی ہے اور میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے خط کو اور اسی طرح گواہوں کے دستخط کوپہچانتا ہوں۔ وصیت جس کا عکس یعنی چربہ درج ذیل کیا جاتا ہے یہ ہے ۔


{1272} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر۶۳۲بیان کردہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب میں غلطی واقع ہوگئی ہے ۔ صحیح روایت خود ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کی ہے یہ ہے کہ سال۱۹۰۰ء کاواقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہ عاجز(شیخ نیاز محمدصاحب )حضرت سیدہ ام المومنین سلمھا اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کپڑا بطور تحفہ لایا۔ اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں پیش کردیں۔ کیونکہ اس عاجز کو حجاب تھا۔ ان ایام میں مسجد مبارک کی توسیع ہورہی تھی اور اس لئے نماز ایک بڑے کمرے میں جو اَب حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے مکان میں شامل ہے ،ہوتی تھی۔ نماز ظہر کے وقت جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت خلیفہ اول نے اس عاجز کو آگے بلا کر وہ کپڑ احضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پیش کیا۔ حضور نے قبول فرما کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ نماز کے بعد حضور وہ کپڑ الے کر اوپر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نانا جان مرحوم ہنستے ہوئے باہر تشریف لائے اور پوچھا کہ میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کہاں ہے ۔ یہ عاجز اس وقت نفلوں میں التحیات پڑھ رہاتھا۔ حکیم مولوی محمدالدین صاحب مرحوم امیر جماعت گوجرانوالہ نے اس عاجز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے ۔ حضرت نانا جان وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج حضرت اقدس بہت خوشی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ام المومنین ؓ کو ایک کپڑا دے کر فرمایا کہ محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر ہمارے کپڑوں کی تلاشی کرائی تھی اس کا لڑکا ہمارے واسطے یہ تحفہ لے کر آیاہے ۔ حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس کی اس غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر میں اس لڑکے کو ملنے آیاہوں ۔ اتنے میں یہ عاجز نفل پڑھ کر حضرت ناناجان سے ملا تو وہ اس عاجز سے نہایت محبت سے ملے اور پھرآخر عمر تک اس عاجز سے خاص شفقت فرماتے رہے ۔
اس کے کچھ عرصہ بعداس عاجز کی اہلیہ قادیان آئیں تو حضرت سیدہ اُم المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ تمہارے میاں (خاوند) ایک کپڑا بطور تحفہ میرے لئے لائے تو حضرت صاحب اس دن بہت خوشی سے اندر تشریف لائے اور کپڑا دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑ اکون لایا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ اس تھانیدار کے بیٹے نے دیا ہے جس نے ہمارے کپڑوں کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے موقع پر کرائی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی ایمان افروز نظارہ ہے جو دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا کہ عرب سرداروں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں گزار دی مگر خدا نے انہی کی اولادوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈال کر ان کے خلاف اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گواہ بنادیا۔
{1273} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر۵۰۸میں جو حافظ نور محمد صاحب کی طرف سے درج ہے میں جس عرب صاحب کے متعلق حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ان کی شادی مالیر کوٹلہ سے ہوئی تھی اس کے متعلق خاکسار نے لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عرب قادیان میں آکر رہے تھے ان کا نام عبدالمحی تھااور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرادی تھی۔ اور میں نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت میں انہی عرب صاحب کاذکر ہے تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے ۔ سو اس روایت کے متعلق محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ عبدالمحی عرب نہیںتھے بلکہ محمد سعید عرب شامی تھے جو یہاں آئے اور ایک عربی رسالہ بھی انہوںنے لکھا تھا۔ اور ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی اور عبدالمحی صاحب تو بہت عرصہ بعد قادیان آئے تھے ۔

{1274} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادرنسبتی عزیز عبد الرحمن خان نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے متعلق میں مولوی صاحب موصوف کو لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ کریم
محبی مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھااور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا۔ بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے ۔نمازاور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں ۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد
چونکہ دونو کی عمر چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا۔
(اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء درج ہے )

{1275} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماںجان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پید اہوئی۔ بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا۔ تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے ۔ شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی۔ تم (یعنی خاکسار مرز ا بشیر احمد) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے ۔ شریف بھی اسی دلان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں۔ مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پید اہواجوغربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے ۔ امۃ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امۃ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پید اہوئی ۔
{1276} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے اس کمرہ میں پیدا ہوئے تھے جو نچلی منزل میں ہمارے کنوئیں والے صحن کے ساتھ شمالی جانب ملحق ہے ۔
{1277} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان ام المومنین نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری بڑی بہن اس وقت انبالہ میں پیدا ہوئی تھی اور لدھیانہ میں فوت ہوئی ۔اس کی قبر لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں ہے اور ایک احمدی سپاہی (سابقہ خاوند زوجہ بابو علی حسن صاحب سنوری) کے بیٹے کی قبر کے ساتھ ہے ۔ شوکت بھی لدھیانہ میں فوت ہوئی اور قبرستان حرم سرائے شاہ زادگان لدھیانہ میں ہے ۔
{1278} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا(۱)حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (۲)مولوی محمد احسن صاحب امروہوی(۳)میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۴)مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری(۵)ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آف لاہور(۶)ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (۷)شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (۸)سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی(۹)ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (۱۰)مولوی محمد علی صاحب ایم اے (۱۱)سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی (۱۲)مفتی محمد صادق صاحب ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیااس فہرست میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اس وقت فوت ہوچکے تھے بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑ ا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں۔ پھر فرمایا۔ کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں اور اوپر کے نام بیان فرمائے۔ اس موقعہ پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں ۔ آپ نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات۱۹۰۵ء کے آخر میں ہوئی تھی۔
٭٭٭٭٭
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5 ۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
{1279 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آمنہ بیگم والدہ محمود احمد نے بذریعہ تحریر بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب مجھ سے بیان کیا کہ میرے والدین نے۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط میری بیعت کرائی تھی۔بعد میں جب میں قادیان آئی توحضور کے ہاتھ پر بیعت کی چونکہ حضورؑ نے ہی میری شادی کروائی تھی۔شادی کے بعد زیورات وغیرہ کا کچھ جھگڑا ہو گیا مقدمہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ہوا اس لئے ہمیں حضور علیہ السلام نے قادیان ہی بلوالیا۔ میں قادیان آئی اور دو دن حضور ؑ نے اپنے ہی گھر میں رکھا دونوں وقت لنگر خانہ سے کھانا آتا تھالیکن پھر کبھی حضور ؑ اپنے پاس سے بخوشی تبرک کے طور پر بھی بچا ہوا کھانا بھیج دیتے تھے ۔ہم جس دن آئے اسی دن ہی واپس جانے لگے تھے لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ’’ جب تک تمہارے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا ،یہیں پر رہو۔‘‘ چنانچہ ہم دودن رہے ۔جب فیصلہ ہمارے حق میں ہوگیا تو حضور علیہ السلام نے میرا زیور مجھے واپس دے دیا اور نہایت ہی محبت سے فرمانے لگے کہ’’ بی بی تمہیں دو دن اس لئے رکھا گیا تھا کہ لڑکیوں کو زیور سے بہت محبت ہوتی ہے اور تمہارا زیور اس لئے لے لیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم چلی جاتی اور زیور تمہار ا فیصلہ ہونے تک یہیں رہتا اور تمہیں رنج ہوتا ۔اب تمہارا زیور دے کر تمہیں جانے کی اجازت دیتے ہیں ۔‘‘
{1280} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب بشیر اوّل یا غالباً بشیر ثانی (یعنی سیدنا حضرت خلیفہ ثانی) کا عقیقہ ہوا تو گول کمرے میں احباب کو کھانا کھلایا گیا تھا اس روز مَیں اور میرے بھائی صاحب میاںامام الدین جو مولوی جلال الدین صاحب شمس کے والد ہیں قادیان میں تھے اور دعوت میں شامل نہیں ہوئے تھے چونکہ ہماری قریبی رشتہ داری قادیان میں تھی اس لئے جب ہم قادیان آتے تھے تووہاں سے ہی کھانا وغیرہ کھایا کرتے تھے اور وہ ہمارے بڑے خاطر گزار تھے ۔ حسب معمول عقیقہ کے روز ہم نے وہاں سے ہی کھانا کھایا تو ان کی ہمسایہ عورت نے کہا کہ آتے تو اُدھر ہیں اور کھانا یہاں سے کھاتے ہیں حالانکہ اُ س عورت پر ہمارے کھانے کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔خواہ مخواہ اُ س نے بات منہ سے نکالی اس کی بات کا اثر ضرور ہم پر ہوا اور کوئی جواب اس کو نہ دیا گیا اور اپنے گاؤں چلے گئے۔جب دوسری دفعہ قادیان آئے اور حضرت صاحبؑ کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور علیہ السلام نے بہت التفات اور محبت سے زور دار الفاظ میں فرمایا۔کہ’’دیکھو تم ہمارے مہمان ہو جب قادیان آیا کرو تو کھانا ہمارے ہاں کھایا کرو۔اور کسی جگہ سے مت کھانا کھاؤ۔‘‘ ہم حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے ۔الحمد للّٰہ علٰی ذالک ـ
{1281 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بی بی رانی موصیہ والدہ عزیزہ بیگم موصیہ زوجہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان نے بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی۔چونکہ میری لڑکی عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان میں تھیں ۔اس واسطے مجھ کو بھی۱۹۰۲ء میں قادیان آنے کی رغبت ہوئی میرے ساتھ میری چھوٹی لڑکی تھی۔جب حضرت صاحب صبح کوکسی وقت سیر کو باہر باغ کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو میں بھی اکثر اوقات ساتھ جاتی تھی۔بوجہ معمر ہونے کے اور دیر ہو جانے کے باتیں یاد نہیں رہیں ۔ہاں البتہ یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ صبح کے وقت جب حضرت صاحب کھانا کھا رہے تھے میں بھی آگئی ،میری چھوٹی لڑکی نے رونا شروع کیا ۔ حضرت صاحب ؑ نے دریافت کیا تو عرض کی ،روٹی مانگتی ہے ۔آپؑ نے روٹی منگوا کر دی مگر لڑکی چپ نہ ہوئی ۔حضور علیہ السلام کے دوبارہ دریافت کرنے پر عرض کیا کہ یہ وہ روٹی مانگتی ہے جو حضور ؑ کھا رہے ہیں تب حضور ؑ نے وہ روٹی دی جو حضورؑکھا رہے تھے ۔سو لڑکی نے وہ روٹی جو تھوڑی تھی لے لی اور چپ کر کے کھانے لگ گئی ۔حضورؑ کا یہ کریمانہ وفیاضانہ کام مجھ کو یاد ہے کہ حقیقۃ الوحی میں جو واقعہ غلام محی الدین لکھو کے کا درج ہے وہ یوں ہے کہ حضورؑ نے چوہدری فتح محمدصاحب سیال کو فیروزپور ہمارے گھر بھیجا تھا کہ موضع لکھو کے جاکر ان کے گھر کے حالات دریافت کر کے آویں ۔چنانچہ عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب اور میں بمعیت میرے لڑکے ،مسمی نور محمد مرحوم کے موضع لکھو کے جا کر تحقیق کر کے آئے تھے وہ واقعہ ہماری زبانی ہے ۔ میری لڑکی عزیزہ بیگم کو بہت حالات یاد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔میرا لڑکا نور محمد بہشتی مقبرہ میں کتبہ نمبر۱۰۰کے مطابق فوت ہوچکا ہے ۔
{1282} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ عبد العزیز سابق پٹواری سیکھواں نے بواسط لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرا لڑکا محمد شفیع تھا وہ بیمار ہو گیا میں نے حضورؑ کی خدمت میں جاکر عرض کی اور حضرت ام المومنین نے بھی سفارش کی کہ ان کا ایک ہی لڑکا ہے آپ دعا کریں ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’انشاء اللہ دعا کرونگا۔‘‘ اور پھر مجھے دوائی بھی دی ۔دوائی منگنیشیا تھا۔ فرمایا۔ ’’ابھی گھول کر پلا دو اور پھر مجھے بھی اطلاع دے دینا۔‘‘ چنانچہ وہ میں نے لا کر پلایا جس سے جلد ہی آرام آگیا میں نے جا کر اطلاع دی کہ حضور اب آرام آگیا ہے۔اس وقت یہی طریق تھا کہ جب کوئی تکلیف ہو تو فوراً حضورؑ کی خدمت میں عرض کر دیتے ۔ حضور علیہ السلا م فوراً تکلیف کے رفع کا انتظام کر دیتے۔
{1283} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ جب میں پہلے پہل اپنے والد خلیفہ نور الدین صاحب کے ساتھ قادیان آئی تو جس طرف اب سردارالنساء رہتی ہے حضرت صاحب ؑ کا کچھ مکان ہوتا تھا اور میاں بشیر احمدؐ صاحب والے مکان میں لنگر خانہ ہوتا تھا جس میں میاں غلام حسین روٹیاں پکایا کرتا تھا ۔سالن گھر میں پکا کرتا تھا اور آٹا بھی گھر میں گندھتا تھا۔ جب روٹی پک کر آتی تو سالن برتنوں میں ڈال کر باہر بھیجا جاتا ۔ برتن ٹین کے کٹورے اور لوہے کے خوانچے ہوتے تھے۔ کھانا مسجد مبارک میں بھیجا جاتا اور حضور علیہ السلام سب مہمانوں کے ساتھ مل کرکھاتے ۔
{1284} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سیٹھ صاحب کہیں سے آئے تھے ان کے لئے پلاؤ پکتا تھا اور اسی طرح ایک کشمیری ہوتا تھا اس کے لئے حضورعلیہ السلام کچھ سادہ چاول پکواتے ۔ پلاؤ عائشہ بنت شادی خان صاحب پکاتی اور خشکہ میری والدہ پکاتی تھیں ۔پُھلکے بھی وہی پکایا کرتی تھیں ۔
{1285} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے چندہ کی تحریک فرمائی تو میں قادیان میں آیا اور آپؑ اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر جو میدان ہے اس میں ٹہل رہے تھے ۔میں نے کچھ چندہ پیش کیا اور آئندہ کے لئے عرض کی کہ میں موازی چار آنے ماہوار دیتا رہونگا انشاء اللہ ۔ حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ چندہ دائمی ہے‘‘ ۔میں نے عرض کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ چندہ دائمی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ ہمیشہ اد اکرتا رہونگا ۔سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزا ر شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ چندہ کو باقاعدہ ادا کرتاچلا آیا ہوں بلکہ زیادتی چندہ کی بھی توفیق دی (صَدَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔ وَیُربِی الصَّدَقَات)
{1286} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ساتھ میری ایک چھوٹی لڑکی تھی جس کا نام صغریٰ تھا۔ مکی کی چھلیاں حضرت اُم المومنین (امان جان) کے پاس دیکھ کر لڑکی نے خواہش کی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’جلد دو۔ زمینداروں کی لڑکیاں ایسی چیزوں سے خوش ہوتی ہیں‘‘ تو آپ نے لڑکی کو چھلی دے دی ۔
{1287} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’جب منشی صاحب نے بیعت کی توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام نبی بخش سے عبد العزیز رکھ دیا اور فرمایا۔’’نبی کسی کو نہیں بخش سکتا‘‘۔
{1288} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ۱۹۰۳ء میں قادیان سالانہ جلسہ پر آئی ۔شام کا وقت تھا ۔ڈاکٹر صاحب اور میرے بھائی اقبال علی صاحب میرے ساتھ تھے ۔حضور علیہ السلام اس وقت اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔مجھ سے پوچھا۔’’راستہ میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تھی‘‘ ۔ میں نے کہا نہیں ۔فرمایا’’کتنے دن کی چھٹی ملی ہے‘‘۔ میں نے کہا دس دن کی ۔پھر فرمایا ۔’’راستہ میں سردی لگتی ہو گی‘‘۔ میری گود میں عزیزہ رضیہ بیگم چند ماہ کی تھی۔ آپ نے فرمایا چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنابڑی ہمت کاکام ہے‘‘ حضورؑ مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب (اس وقت وہ لنگر خانہ کے افسر اعلیٰ تھے)آئے اور فرمایا ۔حضرت مہمان توکثرت سے آگئے ہیں ،معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا۔حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’میرصاحب! آپ نے یہ کیا کہا؟آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے، جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا ،پھر ایسی بات نہ کریں‘‘ ۔ میر صاحب سبحان اللہ،سبحان اللہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے ۔
{1289} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین والے مقدمات چل رہے تھے ۔تین اشخاص گورداسپور میں آئے انہوںنے بیعت کی اور بتایا کہ وہ بنارس کے رہنے والے ہیں ۔بعد ش بتکرار انہوں نے کہا کہ حضور ؑ ہمارے جانے کی دیر ہے، بنارس سے بہت لوگ حضور ؑ کی جماعت میں داخل ہونگے۔پہلی دفعہ تو حضورؑ خاموش رہے۔ جب تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ ہمارے جانے کی دیر ہے بہت لوگ بیعت کرینگے توحضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم اپنی خیر مانگو خدا جانے لوگ تمہارے ساتھ کیسے پیش آئیں گے۔‘‘(ان تینوں میں ایک معمر اور وجیہہ بھی تھا) خد اجانے پھر کبھی ان کومیں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا گزری ؟ واللّٰہُ اَعْلَمُ
{1289} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگر خانہ میں بھیجا جاوے۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا ۔
{1290} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرز امحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان پر ٹھہری ۔ تیسرے دن حضرت بیوی جی صاحبہ مجھے حضرت صاحب ؑ کے پاس لے گئیں۔ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا۔’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت اماں جان نے کہا کہ مرزا فتح محمد صاحب کی بہو اور مرزا محمود بیگ صاحب کی بیوی ہیں اور پٹی سے آئی ہیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ہم جانتے ہیں مرزا صاحب سے ہماری خط وکتابت ہے‘‘۔ پھر میں چلی آئی دوسرے دن میری بیعت ہوئی ۔حضور ؑ جو لفظ فرماتے وہ اماں جان دہراتی جاتی تھیں اور میں بھی ان کے ساتھ کہتی جاتی۔اس وقت نیچے جو بڑا دالان ہے اس میں بیٹھے تھے حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ ’’ آپ کی نندوں کا رشتہ ہوگیا ‘‘ ؟میں نے کہا ’’جی نہیں ‘‘ میرا بھائی دیر سے بیمار تھا میرے خاوند نے کہا کہ حضور ؑ سے اجازت لے کر چلو تمہارا بھائی بیمار ہے ۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’کوئی خطرہ کی بات نہیں ‘‘ ۔پھر ہم دو ماہ بعد پٹی چلے گئے ۔
{1291} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مولوی عبد الکریم صاحب ؓ نے یہ آیت لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ (المائدۃ:۷۹) پڑھ کر تقریر کی تو بعد نماز جمعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دوران خطبہ میں الہام ہوا ہے کہ ’’ وزیر آباد پر بھی *** پڑ گئی‘‘۔٭( اَللّٰہُمَّ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔آمین)
{1292} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ضرورت امام پر مضمون لکھو(جماعت ابھی تھوڑی تھی) اکثر احباب نے جو کچھ خواندہ تھے مضامین لکھے۔میں نے بھی لکھا جب مضامین جمع ہو گئے تو بعد ش حضور علیہ السلام شام وعشاء کے درمیان سنا کرتے تھے۔جس روز میرا مضمون پڑھا گیا تو میں موجود نہ تھا۔ مولوی قطب الدین صاحب طبیب قادیان نے مجھے کہا کہ تمہارے مضمون کو سن کر حضرت صاحب ؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’ ہے تو وہ جاٹ جیسا لیکن مضمون بہت اچھا لکھا ہے ۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ تحریر مضمون کے وقت مجھے دعا کی توفیق مل گئی تھی ورنہ علمی خوبی مجھ میں کوئی نہ تھی نہ اب ہے ۔الحمد للہ ـ
{1293} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارا زمینداری کاکام تھا ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی ،فصل خراب ہوگئی، دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے ۔
ادھر حضرت صاحب کے مختار ،حامد علی صاحب معاملہ لینے کے لئے آگئے ۔سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں ۔ معاملے کے واسطے اگر بیچ دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا ؟حامد علی صاحب نے

٭ تذکرہ میں اس الہام کے الفاظ یوں مندرج ہیں ’’ یہ *** ابھی وزیر آباد میں برسی ہے‘‘ (تذکرہ صفحہ 268ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ئ)
جاکر حضرت صاحبؑ کی خدمت میں اسی طرح کہہ دیا۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’اچھا! اگلے سال معاملہ لے لینا۔اس وقت رحم کرو‘‘۔ چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہوگئے ۔آپؑ غرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے ۔
{1294} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنے قدیمی مکان کے دروازہ کے آگے کوچہ میں جو جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے گھر کو نکل جاتا ہے بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ غلام مصطفیٰ وشیخ غلام محمد( یہ نوجوان تھے) جو بٹالہ کے رہنے والے تھے موجود تھے ۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ رسول کریم ﷺ کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی(یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں )
{1295} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کر م دین والے مقدمات چل رہے تھے ایک روز حضورؑ یکہ پر گورداسپور سے قادیان روانہ ہوئے۔ہم تینوں بھائی یعنی میاں جمال الدین ومیاں امام الدین صاحب اور خاکسار راقم یکہ کے ساتھ کبھی بھاگ کر اور کبھی تیز قدمی سے چل کر قادیان پہنچ گئے۔اس روز کھانا ہم نے مسجد مبارک میں ہی کھایا اور حضورؑ نے براہِ شفقت بعض اشیاء خوردنی خاص طور پر اندر سے ہمارے لئے خادمہ کے ہاتھ ارسال فرمائیں ۔الحمد للّٰہ علی ذالک
{1296} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔میں اپنے گاؤں اوجلہ میں تھی اور وہ دن طاعون کے تھے ۔ مجھ کو بخار ہو گیا اور کچھ آثار گلٹی کے بھی نمودار ہو گئے ۔وہاں سے حضورؑ کی خدمت میں عریضہ تحریر کر کے مفصل حال کی اطلاع دی ۔ حضورعلیہ السلام نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’میں انشاء اللہ دعا کرونگا۔مکان کو بدل دینا چاہئے۔‘‘ چنانچہ مکان بدلا گیا۔ خدا وند کریم نے ہر ایک طرح سے محفوظ رکھا۔
{1297} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب تین ماہ کی رخصت لے کر آگرہ سے قادیان آئے۔آگرہ میں خورمے بہت عمدہ اور بڑے بڑے بنتے تھے۔حضورؑ کو بہت پسند تھے ڈاکٹر صاحب جب آتے تو حضرت صاحبؑ کے لئے خورمے ضرور لاتے تھے ۔حضور علیہ السلام نے صبح سے کھانا نہیں کھایا ہو ا تھا۔ عصر کے وقت میں آئی۔ آپ بہت خوش ہوئے۔مجھ سے سفر کا حال پوچھتے رہے ۔ اماں جان نے کہا کہ کھانا تیار ہے آپ نے فرمایا ۔’’ طبیعت نہیں چاہتی‘‘ پھر حضرت اماں جان نے کہا کہ ’’مراد خاتون تو آپ کے لئے آگرہ سے خورمے لائی ہیں ‘‘۔پہلے تو آپ بہت خوش ہوئے پھر فرمایا۔’’ یہ مجھے بہت پسند ہیں لاؤ میں کھاؤں‘‘۔ جب سامنے لائے گئے تو فرمایا۔ ’’ اُف اتنے بہت سے ‘‘۔ حضور ؑ نے کھائے اور کہا ۔’’ یہ میرے لئے رکھو میں پھر کھاؤں گا‘‘۔ میرا اتنا دل خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔پھر میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا وہ بھی بہت خوش ہوئے ۔کتنی دیر تک آسمان کی طرف منہ کر کے سبحان اللّٰہ ، سبحان اللّٰہ پڑھتے رہے۔
{1298} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک عورت جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کر کے حضور ؑ کے گھر آئی۔وہ اس وقت پہنچی جبکہ حضورؑ کا تمام کنبہ کھانا کھا چکا تھا۔حضورؑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں؟ اس نے کہا ’’ نہیں‘‘ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہوکر کہنے لگے کہ’’ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ۔ یہی تو میرے بال بچے ہیں ‘‘۔ حضورؑ نے خود کھانا منگوا کر اُسے کھلایا۔
{1299} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام کے حضور ذکر ہو اکہ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد زمین پڑی ہوئی ہے اور لوگوں نے قبضہ کیا ہو اہے ۔اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ مسجداپنی زمین لے لی گی۔‘‘
{1300} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میاں جان محمد صاحب(جو میرے ماموں تھے اور مخلص تھے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے جب اپنے۳۱۳ ،صحابہ کی فہرست تیار فرمائی اس وقت میاں جان محمد صاحب فوت ہوچکے تھے۔حضور علیہ السلام نے ان کا نام فہرست مذکور میں درج فرما کر ان کے اخلاص کا اظہار فرما دیا) ۔نے ذکر کیا کہ جہاں مسجد اقصیٰ بنائی گئی ہے ۔سکھ حکومت میں یہ جیل خانہ تھا اور ایک کاردار حکومت کرتا تھا ۔ جب انگریزی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت یہ زمین نیلام کی گئی۔ہندوؤں کا ارادہ تھا کہ یہ زمین خرید کر اس پر گوردوارہ بنایا جائے ۔لیکن حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو یہ خیال تھا کہ یہاں مسجد بنائی جائے ۔چونکہ دو قوموں میں مقابلہ ہونا تھا، معلوم نہیں کہ بولی کہاں تک بڑھ جائے ،اس لئے ان کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کہاں تک بولی دی جائے تو حضرت مرزا صاحب موصوف نے فرمایا کہ ’’بس میری طرف سے یہ جواب ہے کہ آخری بولی میرے نام پر ختم ہو۔خواہ کہاں تک بولی جائے ‘‘ ہندو سات سو روپیہ بولی دے کر ٹھہر گئے۔آخری بولی حضرت موصوف مرحوم کے نام پر ختم ہوگئی۔
نوٹ:- خد اجانے حضرت موصوف مرحوم نے کس جوش وغیرت ملّی سے اس زمین کو خرید کر مسجد کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ قبولیت مسجد شہادت دیتی ہے کہ کس پاک نیت سے یہ کام کیا گیا ہے کہ خدا کا پاک نبی مسیح موعودؑ اس میں نماز پڑھتا رہا۔اب آپ ؑ کی جماعت مستفید ہورہی ہے وغیرہ۔یا اللہ بانی مسجد پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور فضل نازل فرما۔آمین
{1301} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔راجو زوجہ فقیر محمد قادر آباد نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان مجھ سے بیان کیا کہ میری ساس جس کو حضرت صاحبؑ ’’ ہَسّو ‘ ‘ کہا کرتے تھے۔پہلی دفعہ مجھے حضور علیہ السلام کے سلام کے لئے لے گئی۔حضورؑ نے پوچھا کہ ہسّو! یہ تیری درانی ہے یا بہو ہے ؟ حضورؑ نے بالآخر مبارک باد دی اور دعا دی اور فرمایا۔ ’’ یہ رشتہ کہاں سے لیا ہے ؟‘‘۔۔۔۔حضور علیہ السلام ہمارے برتنوں میں ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھا لیا کرتے تھے۔ حضور ؑکا لباس بہت سادہ ہوتا تھا اور بال سرخ چمکیلے تھے ۔سر پر پگڑی باندھتے۔کُرتے کے اوپر چوغہ پہنتے یا کوٹ۔ اور شرعی پائجامہ پہنتے۔جوتا سادہ ہوتا۔ہاتھ میں سوٹی رکھتے۔
{1302} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو اور مائی بھانو صاحبہ قادر آبا دنے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنکھا ہلا رہی تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضورؑ نمازپڑھنے کا ثواب ہوگا؟ تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ نہ ثواب ہوگا نہ عذاب ہوگا۔پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے ۔‘‘ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی ۔ایک دفعہ ایک مباحثہ میں جمع کی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ’’ مکان تیار کرو۔آپ کی سیدوں میں شادی ہوگی‘‘۔ اس پر لوگوں نے بہت ٹھٹھا اڑایا مگر ہمارے سامنے ایسا ہی واقعہ ہوا ۔پھر حضرت ؑ کو الہام ہوا کہ ’’آپ کے گھر ایک لڑکا ہوگا جو اسلام میں بہت ہوشیار ہوگا‘‘ پھر ہمارے گاؤں کی مسجد میں گئے اور دریافت فرمایا کہ ’’کون کون نماز پڑھتا ہے؟ اور کون کون نہیں پڑھتا؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے جیب سے ایک کاپی نکالی اور فرمایاکہ’’ ان کے نام لکھاؤ ۔اس پر حضرت ام المومنین سلمھا اللّٰہ نے فرمایا کہ ’’آپ نام کیوں لکھتے ہیں ؟ تو حضور علیہ السلام نے کاپی جیب میں ڈال لی اور نام نہ لکھے ۔اب خدا کے فضل سے سب (نماز) پڑھتے ہیں ۔
{1303} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحبؑ ہمیشہ جماعت کے ساتھ باہر کھانا کھایا کرتے تھے اور آپ ؑ وہی کھانا کھایا کرتے تھے جو سب کے لئے پکتا تھا۔بچوں سے بہت محبت واخلاق سے پیش آیا کرتے تھے ۔ عورتوں کو ہمیشہ نماز کی ادائیگی کے متعلق تاکید بہت کرتے تھے۔
{1304} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں ۔ جب میں قادیان آتی تو حضورؑ مجھ کو کہتے تھے کہ’’ تم ہمارے مہمان ہو ۔ہمارے مکان پر رہو‘‘۔ میں تو شرم کے مارے چپ رہتی اور ڈاکٹر صاحب سے کہلاتی ۔حضور ؑ دس روز کی رخصت ہے ،یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔حضور فرماتے۔’’ کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیںگی‘‘۔ فوراً آدمی میری اماں کی طرف بھیج دیتے ۔کہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں رہیں آپ بھی یہاں رہیں۔چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھاوجہ فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں۔میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں۔بہو گھر میں اکیلی ہے میں نہیں آسکتی۔ لیکن حضرت صاحب فرماتے’’ نہیں ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں۔‘‘ کھانا لنگر خانہ سے آتا۔حضورؑ کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے کھانا عمدہ ہو۔کریم بخش باورچی کھانا پکایا کرتا تھا جو کہ روز آکر پوچھا کرتا۔لنگر والے روزانہ آکر پوچھتے آپ کے لئے کیا پکایا جائے ؟ پھر آپ علیہ السلام خود پوچھتے’’ کھانا خراب تو نہیں تھا ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے ‘‘ ؟ کہنا نہیں حضورؑ کوئی تکلیف نہیں ۔پھر بھی حضورؑ کی تسلی نہ ہوتی ۔گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے۔تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضور ؑ کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے تھے اور اپنی ملازمہ سے کہتے تھے۔’’دیکھو ڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پُھلکے پکا کر بھیجا کرو‘‘۔ روز کھانے کے وقت حضور ؑ آواز دے کر پوچھتے۔’’ صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کے لئے پُھلکے بھیج دئیے؟‘‘ تو وہ کہتی ۔بھیجتی ہوں ۔تو فرماتے ’’جلدی کرو ،وہ کھانا کھا چکے ہونگے‘‘۔ حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کاخیال رکھتی ہے۔
{1305} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ کے ہاں چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں ۔ جن میں سے صرف میں زندہ رہی اور باقی تمام فوت ہوگئے۔لیکن۱۵سال کی عمر میں مجھے دق کا مرض شروع ہو گیا ۔ حتیّٰ کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا ۔اس مایوسی کی حالت میں میر ے والد مجھے قادیان شریف لائے اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کے لئے عرض کی ۔ حضور ؑ نے ایک خط لکھ کر میرے والد کو دیا اور فرمایا کہ’’ میں دعا کرتا ہوں اور تم یہ خط مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ) کو دو ۔وہ اس لڑکی کا علاج کرینگے۔‘‘چنانچہ اس کے بعد مجھے صحت ہوگئی۔میری شادی ہوئی اور حضورؑ کے فرمانے کے بموجب بچے پیدا ہوئے۔
{1306} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اس زمانہ میں قادیان آئی جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی تھی۔ میں حضرت کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتی تھی ۔آپ ؑ کے کمرے کے درمیان میز رکھی ہوئی تھی ۔آپؑ ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔دوات میز پر رکھی ہوتی۔ جب میز کے پاس سے گزرتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔دو عورتیں میرے ساتھ تھیں ۔نیز ہمارے ساتھ ایک مرد بھی تھا۔اُ س نے ہمارے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر ہمارے ہاتھ بھیجا کہ یہ مستورات جو آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہلیہ مولوی جلال الدین صاحب ضلع گجرات کی ہیں اور دوسری اہلیہ محمدالدین صاحب ۔ دونوں عورتوں کا نام تو حضورؑ نے پڑھ لیا جب تیسری کی باری آئی تو حضور ؑ کمرے سے باہر نکل آئے اور دروازے کی چوکھٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور فرمایا۔’’ وہ مولوی فضل الدین صاحب کی بیوی ہیں‘‘۔ تین بار حضور ؑ نے یہی الفاظ دہرائے ۔انگنائی میں حضرت اُم المومنین صاحبہ تشریف رکھتی تھیں۔بیوی صاحبہ ہنس پڑیں ۔فرمایا’’لوگوں کو کیا پتہ بیوی صاحبہ کہاں ہیں‘‘ ؟ جب اذان ہوئی تو آپؑ نے فرمایا ۔’’لڑکیو! اذان ہوگئی ہے نماز پڑھو‘‘ ۔چونکہ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھی تھی۔حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ’’ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھنی کچھ دن عورتوں کے لئے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ نماز نہیں پڑھتیں۔‘‘
{1307} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ایام مقدمات مولوی کرم الدین میں ایک روز نصف شب گورداسپور پہنچے۔چونکہ حضور علیہ السلام بڑے محتاط تھے۔ فرمایا کہ’’شاید عدالت ضمانت طلب کرے۔میاں فضل الٰہی نمبردار فیض اللہ چک کو بلایا جائے ‘‘ چنانچہ اُسی وقت میں اور میر ابھائی میاں امام الدین صاحب لالٹین ہاتھ میں لے کر فیض اللہ چک کو چل پڑے اور قبل از نماز صبح پہنچ گئے اور میاں فضل الٰہی صاحب کو ساتھ لے کر قبل از کچہری گورداسپور پہنچ گئے لیکن اس روز عدالت نے ضمانت طلب نہ کی ۔
{1308} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہوگیا تھا موسم گرما تھا۔پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ(کنوئیں) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے۔لہٰذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔
{1309} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا۔فرمایاکہ ’’ یہ جائز نہیں ہے‘‘۔میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلاً ایک کاشتکار ہے۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے ۔سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سپاہی سر پر کھڑا ہے۔بجز سود خور ،کوئی قرض نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟فرمایا’’مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اور سودی قرضہ نہ لیوے۔‘‘
{1310} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد بڑھئی نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ ’’میرا باپ مجھے سنایا کرتا تھا کہ ایک دفعہ مرزا صاحب ایک کوٹھے پر سے گر پڑے ہم آپ کی خبر گیری کو گئے ۔آپ کو جب کچھ ہوش آئی تو فرمایاکہ ’’دیکھو کہ نماز کا وقت ہوگیاہے‘‘ ؟۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1311} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ حضرت اقدس ؑ ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے ۔حضورؑ ہمارے مکان میں تشریف رکھتے تھے۔اس وقت میں نے حضور کی بیعت کی ۔میرے ساتھ عبد الرشید صاحب کے سب خاندان نے بھی بیعت کی ۔آپ نے فرمایا ’’ تم سوچ سمجھ لو ۔تمہارے سب رشتہ دار وہابی ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’حضور میں نے خوب سوچ لیا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ کل جمعہ کے روز بیعت لوں گا، آج رات اور سوچ لو‘‘۔ جمعہ کے دن آپ نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ ‘‘ میرصاحب کی بیوی کو بلا لاؤ‘‘ میں گئی تو حضور نے بڑی محبت سے میری بیعت لی۔میرے ساتھ میرا ایک رشتہ دار محمد احمد بھی تھا ۔اس نے بھی بیعت کی ۔ بیعت کرنے کے وقت دل بہت خوش ہوا۔بعد میں حضورؑ نے بہت لمبی دعا فرمائی۔
{1312} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا ۔میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اور حضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں ۔ آپؑ نے فرمایا۔’’شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔گاڑی لائیں‘‘۔ میر صاحب نے کہا ۔حضور! گاڑی کیا کرنی ہے ؟ آپ نے فرمایا’’قطب صاحب جانا ہے‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپؑ نے فرمایا’’دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا‘‘۔ میر صاحب کی اپنی فٹن بھی تھی ،دو گاڑیاں اور آگئیں۔ہم سب حضرت صاحبؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے۔آپؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑسے پوچھا، آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں ؟ آپؑ نے فرمایا ’’ ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں ‘‘۔پھرآپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔ وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں توعورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ان لوگوں نے حضور ؑ کو کھانے کے لئے کہا۔حضورؑ نے فرمایا ’’ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں آپ کی مہربانی ہے‘‘۔ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا پھر حضورعلیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔
{1313} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۲ء میں بابو صاحب کو تین ماہ کی رخصت ملی تو ہم ڈیڑھ ماہ قادیان میں رہے۔میں صبح ہی حضرت صاحب کو ملنے آئی تو دادی سے پوچھا۔حضرت صاحب کہاں ہیں؟ دادی نے کہا اس وقت حضور ؑ سوگئے ہیں ۔تمام رات جاگتے رہے۔رات بارش کا طوفان تھا۔حضورؑ نے فرمایا۔’’ خدا جانے کوئی عذاب نہ آجائے۔‘‘ تمام رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے۔اب نماز کے بعد سوگئے ہیں ۔ اس لئے میں واپس آگئی۔پھر ایک بجے گئی تو حضورؑ اس وقت ڈاک دیکھ رہے تھے ۔آپؑ نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو فرمایا۔’’دیکھو ! ہم نے ڈاک کھولی تو نوٹ یہاں پر ہی گرپڑے اب مل گئے ہیں کسی نے دیکھے نہیں‘‘ ۔ میں ہر روز جاتی اور پنکھا جھل کر چلی آتی۔ شرم کی وجہ سے کبھی حضور ؑ سے بات نہ کی۔
{1314} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب مہر سنگھ بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی حضورؑ کے حکم سے ہوئی تھی۔میں رخصت ہو کر قادیان ہی آئی تھی اور میری والدہ ساتھ تھیں۔حضرت صاحب کے گھر میں ایک سرد خانہ ہوتا تھا اس میں ہم سب رہا کرتے تھے۔جب میں حضور ؑ کو وضو کراتی تو حضور علیہ السلام ’’جزاکم اللہ‘‘ کہا کرتے ۔حضورؑ لکھا بہت کرتے تھے۔جب بیٹھ کر لکھتے تو ہم حضورؑ کے کندھے دبایا کرتے تھے۔حضورؑ اکثرٹہل کر لکھا کرتے تھے درمیان میں ایک میز رکھی ہوتی اور اس پر ایک دوات پڑی رہتی تھی۔حضورؑ لکھتے لکھتے ادھر سے آتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔پھر ادھر جاتے تو قلم سیاہی میں ڈبو لیتے او ر جب پڑھتے تو اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے اور جو کچھ لکھتے اس کو دہراتے جاتے۔
{1315} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ جو۱۹۰۵ء میں آیا تھا۔ اس وقت ہم موضع سیکھواں جو ہماراحلقہ تھا میں سکونت رکھتے تھے۔زلزلہ آنے کے بعد میںکچھ گھی لے کر قادیان میں آئی اس وقت حضورؑ باغ میں معہ خدام سکونت رکھتے تھے۔حضورؑ نے پوچھا کہ’’ میاں عبد العزیز نہیں آئے؟۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضورؑ ان کا کوئی افسر آیا ہوا تھا اس واسطے نہیں آسکے۔
{1316} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت میاں مبارک احمد فوت ہوئے تو دادی آئی(میاں شادی خان کی بیوی) اور اماں جی کے گلے مل کر رونے لگی۔تو حضورؑ حجرے سے گھبرا کر باہر نکلے اور کہنے لگے۔’’ یہ مکان رونے کا نہیں ہے بلکہ ہنسنے کا ہے۔‘‘
{1317} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادر آباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ پہلے جب میاں جان محمد کشمیری نے بیعت کی تھی۔پھر مولوی صاحب نے ۔ مَیں اس وقت لڑکی تھی۔میری عمر اب اسی(۸۰) سال کی ہے۔جب حضرت صاحبؑ ڈھاب بھروانا چاہتے تو ہندو سکھ آتے، کہیاں اور ٹوکریاں چھین لیتے۔آپؑ کے مکان کے پیچھے لابھا کھڑا ہو کر گالیاں دیتا رہا۔آپ نے اپنی جماعت کو فرمایاکہ’’چپ رہو‘‘ چھ ماہ کے بعد وہ لابھا ہندو گُڑ کے کڑاہ میں گر کر مر گیا۔اس کے بعد لیکھرام ،آریوں کے ساتھ آپؑ کا مباحثہ ہوتا رہا۔
{1318} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام سیر کو آئے تو دیکھا راستہ جو پہلے خراب تھا۔نیا بنا ہوا ہے ۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’ یہ کس نے بنایا ہے ؟‘‘ ہم نے کہا حضورؑ آپ کی اسامیوں نے۔آپ بہت خوش ہوئے اور ہنسے ۔
ایک بار حضورؑتشریف لائے تو میں نئی کنک(گندم) بھنا کر لے گئی۔آپ نے اپنے ساتھ جو تھے ان کو بانٹ دی ۔ خود بھی چکھی اور خوش ہوئے ۔جب حضورؑ سیر کو آیا کرتے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے۔ ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور علیہ السلام کبھی بُرا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے۔
{1319} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ہم نے قادیان میں مکان بنانا شروع کیا۔ دیواریں وغیرہ بنوائیں تو مرزا نظام الدین نے آ کے گرا دیا۔ اس پر حضور ؑ پُر نور نے فرمایا کہ ’’ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا مکان پھر اور کہیں بن جائے گا‘‘ ۔ جب نواب مبارکہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۔ مَیں قادیان میں ہی تھی۔ حضرت اُم المومنین کو کچھ تکلیف تھی ، حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ خدا نے شفا بخشی۔ آپ ؑ نے ان کی پیدائش پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
{1320} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔چار دن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا۔’’ سفر میں روزہ تو نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں ۔حضور ؑنے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ہم روزہ رکھیں گے۔آپ ؑنے فرمایا ’’ بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ حضورؑ! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔آپؑ نے فرمایا۔’’اچھا ! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیںگے۔‘‘ ہم نے خیال کیاکشمیری پراٹھے خد اجانے کیسے ہونگے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے (جوکہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں ۔ حضورؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے۔’’ اچھی طرح کھاؤ‘‘۔مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضورؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں ،روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی توحضور ؑ نے فرمایا کہ’’ اور کھاؤ ابھی بہت وقت ہے۔ فرمایاقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)۔اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیںابھی وقت بہت ہے۔مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضورؑ کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں۔میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لونگا یا میری بیوی لے لیں گی۔مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔
{1321} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ صاحبہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت اندازاً تین سال کی تھی۔میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امۃ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں۔ چونکہ حضورؑ بہت تیز رفتار تھے۔اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے۔ تو امۃ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ’’ ابا کے ساتھ ساتھ چلو‘‘۔اس پرمیں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہنا۔ اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا ۔آپ نے فرمایا ۔’’ اچھا! ہم دعاکریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیںمگر تھکا ن محسوس نہ ہوتی۔
{1322} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی۔اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی۔اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ جو دو عورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکر مائی تابی ایسا کہتی ہے۔ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے ۔ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کر دیں ۔جلال الدین نے وہ رقعہ حضورؑ کے سامنے پیش کردیا ۔رقعہ پڑھتے ہی حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ نے فوراً مائی تابی کو بلایا اور فرمایا۔ تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہو۔تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخوستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے‘‘۔ مائی تابی نے ہم سے اور حضرت صاحبؑ سے معافی مانگی۔اس کے بعد مائی تابی اور ہم بہت اچھی طرح رہتے رہے۔
{1323} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کا ذکر ہے کہ چار پائیوں کی ضرورت تھی تو جلسہ والے ہم سب گھر والوں کی چارپائیاں لے گئے۔آپ ؑکو معلوم ہو اتو آپؑ نے میاں نجم الدین صاحب مرحوم مغفور کو بلا کر فرمایا۔’’ فضل بیگم کی چارپائی کیوں لے گئے ہو؟ کیا وہ مہمان نہیں؟ بس ان کی چارپائی جہاں سے لائے ہو وہیں پہنچا دو‘‘۔ وہ بیچارے لا کر بچھا گئے۔
{1324} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضرت صاحب ؑ باغ میںتشریف لے گئے تھے ۔میں نواب صاحب کے کام کرتا تھا ۔جب اذان ہوگئی تو ہم سب نماز کے لئے گئے ۔حضرت صاحب بھی تشریف لائے ۔آپؑ کچھ باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا۔حضور! شرمپت آپ کا دوست ہے اور وہ مسلمان نہیں ہوا؟ حضرت صاحبؑ نے فرمایا۔’’ وہ مسلمان نہیں ہو گا مگر مصدق ہو جائے گا‘‘۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے پوچھا کہ حضورؑ مصدق کا کیا مطلب ہے ۔آپؑ نے فرمایا’’ کہ میری سب باتوں کا یقین کر لے گا‘‘۔
{1325} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت ام المومنین مجھ سے دریافت کرتی تھیں کہ تمہارا گاؤں تو اوجلہ ہے تم سیکھواں کیوں رہتے ہو؟حضورؑ نے فرمایا ۔’’ میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ چونکہ میاں عبدالعزیز کی ملازمت پٹوار سیکھواں میں ہے اور پٹواری کو مع عیال حلقہ میں رہنے کا حکم ہے اس واسطے ان کو سیکھواں میں رہنا پڑتا ہے ۔‘‘
{1326} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پید اہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ’’بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے! ‘‘اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ ’’نذیر احمد‘‘۔میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدس ؑ کو سنادیا۔ جب میرے ہاں لڑکا پید اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ’’ وہی نام رکھو جوخدا نے دکھایا ہے۔‘‘ جب میں چلّہ نہا کر گئی تو حضورؑ کو سلام کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔آپ نے فرمایا۔’’انشاء اللہ‘‘ پھر حضورعلیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا۔’’ ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اور آگیا ہے‘‘۔
{1327} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب اکثر گھر میں ٹہلا کرتے تھے۔جب تھک کر لیٹ جاتے تو ہم لوگ حضورؑ کو دبانے لگ جاتے ۔آپ کو اکثر ضعف ہوجاتا تھا ۔اس وقت حضورؑ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے اور جس قدر عورتیں وہاں ہوتیں ان سب کو بھی دعا کے لئے فرماتے تو ہم سب دعا کرتے۔حضورؑ بہت ہی خوش اخلاق تھے اور بڑی محبت سے بات کیا کرتے تھے۔جوکوئی حضورؑ سے اپنی تکلیف بیان کرتی حضورؑ بڑی ہمدردی کا اظہار کرتے اور دعا فرماتے۔
{1328} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میرے باپ کا خط آیا میری دو چھوٹی بہنیں تھیں جن کی منگنی پیدا ہوتے ہی میری ماں نے اپنے بھائی کے گھر کر دی تھی۔ جب وہ جوان ہوئیں تو میرے چچا نے نالش کر دی کہ لڑکیوں کا نکاح تو میرے لڑکوں سے ہوچکا ہے۔میرے باپ نے خط میں تمام حال لکھا تھااور دعا کے لئے عرض کی تھی۔میں خط لے کر حضورؑ کے پاس آئی ۔حضورؑ سب بال بچوں کو لے کر باغ میں سیر کو گئے ہوئے تھے۔میں بیٹھی رہی ۔جب حضورؑ تشریف لائے تو جس حجرے میں حضورؑ بیٹھا کرتے تھے چلے گئے۔میں نے دروازہ میں سے عرض کیا کہ حضورؑ! یہ خط میرے باوا جی کا آیا ہے اور سب معاملہ عرض کیا۔حضورؑ نے خط لے کر پڑھا اور سب حال بھی سنا کہ چچوں نے جھوٹا مقدمہ کر دیا ہے ۔فرمایا’’ اچھا ہم دعا کریں گے۔‘‘ دس بارہ دن کے بعد پھر خط آیا کہ چچوں نے مقدمہ کیا تھا واپس لے لیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے کہ ہماری غلطی تھی ۔حضورؑ سن کر بہت خوش ہوئے اور کئی بار زبان مبارک سے ’’الحمد للّٰہ‘‘ فرمایا ۔اس کے بعد ہم رخصت لے کر چلے گئے۔
{1329} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمدؐ صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ نے کچھ دوائیاں ایک لڑکی کے سپرد کی ہوئی تھیں کہ مجھے کھانے کے بعد دے دیا کرو۔ چونکہ آپ مہندی بھی لگاتے تھے اس لئے گرم پانی کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ دونوں کام اس لڑکی کے سپرد تھے۔وہ اکثر بھول جاتی تھی اس لئے یہ کام آپ نے میرے سپرد کر دئے تھے۔میں نے اچھی طرح سرانجام دیا۔ایک دفعہ جب میں بیمار ہوئی تو حضورؑ نے آکر فرمایا۔’’صفیہ! کیا حال ہے؟‘‘ چونکہ حضور علیہ السلام کھانا کھا چکے تھے اس لئے میں نے عرض کی ۔حضورؑ ! اب تو بہت اچھا ہے مگر حضورؑ دوائی کھا لیویں۔حضورؑ نے فرمایاکہ’’ صفیہ کو بات خوب یاد رہتی ہے۔‘‘
{1330} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو ومائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک میراسی کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحبؑ بچپن میں پڑھنے کی طرف بہت متوجہ رہتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے۔کبھی گھر سے جا کر کھانا اٹھا لاتے۔گھر والوں کو معلوم ہوتا کہ آپؑ تمام کھانا لے گئے ہیں۔ اس پر آپؑ کے والد صاحب فرماتے کہ ان کو کچھ نہ کہا کرو۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1331} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان میں بواسطہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے مائی فجو کے ہاتھ بلایا۔ حضور علیہ السلام اس وقت بیت الفکر میں بیٹھے تھے۔ میں دروازہ میں آکر بیٹھ گئی۔ میں نے عرض کی کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم جائیں کیونکہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایاکہ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خداتعالیٰ پھر لے آئے گا۔ فی امان اللہ ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
{1332} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں کئی بار بیعت کرنے کو گئی۔ہم چار عورتیں تھیں ۔جب حضرت صاحب عصر کے بعد باہر سے تشریف لائے تو فرمایاکہ ’’ تُم یُوں بیٹھی ہو جس طرح بٹالہ میں مجرم بیٹھے ہوتے ہیں‘‘۔ ہم سب کی بیعت لی۔ میں نے اپنے لڑکے اسکول میں داخل کرائے ہوئے تھے ۔استادنے مارا۔میں نے جاکر حضورؑ کے پاس شکایت کی ۔آپ ؑنے فرمایا ’’اب نہیں مارینگے۔تم کوئی فکر نہ کرو۔‘‘ میں نے کہا حضور یتیم لڑکا ہے ۔اسکول والوں نے فیس لگا دی ہے۔ فرمایا’’ فیس معاف ہوجائے گی۔ علاوہ اس کے ایک روپیہ ماہوار جیب خاص سے مقرر فرمایا۔میں نے عرض کی کہ حضور یہ بورڈنگ میں نہیں جاتا،روتا ہے ۔آپؑ نے فرمایا ’’کچھ حرج نہیں گھر میں ہی رہے‘‘۔
{1333} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہا کہ میری پھوپھی صاحبہ(حضرت مصلح موعود کی تائی)نے ہمیں بتایا کہ ایک بار حضرت صاحب ؑ چالیس دن تک ایک کمرہ میں رہے۔گھر والے کچھ کھانا بھیج دیتے کبھی آپؑ کھا لیتے کبھی نہ کھاتے۔جب چالیس دن کے بعد باہر تشریف لائے تو آپؑ نے فرمایا۔ خد اتعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ ’’جو بھی دنیا کی نعمتیں ہیں وہ میں سب تم کو دوں گا۔ دو ردراز ملکوں سے لوگ تیرے پاس آویں گے‘‘۔ تو ہم سب ہنستے تھے۔ اب دیکھو وہ سب باتیں پوری ہوگئیں۔
{1334} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا۔’’ عرق مکو کی بوتل لاؤ‘‘ ۔ میں لے گئی۔ آپ اکثر ٹہلا کرتے تھے۔آپ کی چابیوں کا گُچھا ازار بند میں بندھا ہوا ہوتا تھاجو کہ لاتوں سے لگتا رہتا تھا۔میری لڑکیاںزندہ نہیں رہتی تھیں ۔ جب یہ چھٹی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ ہے تو میں اس کو لے کر حضور کی خدمت میں گئی۔حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’حضرت جی! اس کی لڑکیاں زندہ نہیں رہتیں۔مر جاتی ہیں ۔آپؑ دعا کریں کہ یہ زندہ رہے اور اس کانام بھی رکھ دیں‘‘۔ حضور علیہ السلام نے لڑکی کو گود میں لے کر دعا کی اور فرمایا۔’’ اس کا نام جیونی ہے۔‘‘ چونکہ جیونی اس نائن کا نام بھی تھا جو خادمہ تھی ۔ میں نے کہا کہ حضورؑ جیونی تو نائن کا نام بھی ہے ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’جیونی کے معنی ہیں زندہ رہے۔اس کا اصل نام عائشہ ہے‘‘۔ اب یہ میری چھٹی لڑکی خد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے۔
{1335} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اللہ جوائی صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب وطن گجرات گولیکی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرا سب خاندان احمد ی تھاصرف میں ہی غیراحمدی تھی۔میری دیورانی نے ایک روز کہا کہ امام مہدی آیا ہو اہے اسے مان لو۔میں نے جواب دیا کہ میرا امام مہدی آسمان سے اترے گا۔میں اسے مانوں گی تمہارا آگیا ہے تم اس کو مان لو،میں نہیں مانتی۔میں نے ان دنوں میں نماز بھی چھوڑ دی تھی محض اس لئے کہ احمدیوں کے گھر میں نماز پڑھنے سے میری نماز ضائع ہو جاوے گی۔اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ’ایک سڑک بہت لمبی چوڑی ہے اس پر بہت سے آدمی پھاوڑے لئے کھڑے ہیں اور سب سے آگے میں ہوں ۔ایک شخص سفید کپڑے اور سفید داڑھی والا خوبصورت درمیانہ قدہے۔وہ شخص یہ آواز دے رہاہے کہ احمدیوں کا ٹولہ آرہاہے۔ دوزخ کی نالیں بند کردو ۔ یہ آواز اس شخص نے دو دفعہ دی ۔ایک اور شخص دراز قد سیاہ فام جس کے سر پر سرخ ٹوپی تھی۔اٹھا اس نے بڑے بڑے ڈھکنے ہاتھ میں پکڑ کر دروازوں کو بند کر دیا۔آگے ایک دروازہ ہے میں اس میں سے گزری۔تو دیکھا کہ اس میں اندر سبز رنگ کے نہایت خوبصورت درخت ہیں اور گھاس کا بھی بہت ہی سبزہ ہے ۔اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔میں نے صبح اٹھ کر نماز شروع کر دی ۔میری دیورانی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج تونے نماز کس لئے پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ میں آج امام مہدی پر ایمان لے آئی ہوں ۔
{1336} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی عبدالغنی صاحب نومسلم تھے۔میں تین سال کی تھی کہ ابا فوت ہوگئے تھے۔میرے چھ بھائی تھے اور میں اکیلی ان کی بہن تھی کہ ہم یتیم ہو گئے تھے۔میں اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں ڈاکٹر اقبال علی غنی اور منظور علی صاحب مرحوم سے بڑی تھی۔ہم امرتسر میں رہتے تھے۔میرے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور فیض علی صابر جب جوان ہوئے تو مشرقی افریقہ چلے گئے تھے اور وہیں احمدی ہوگئے تھے۔
میں کوئی بارہ سال کے قریب عمر کی ہوںگی کہ بھائی فیض علی صابر صاحب کو دو تین دن کے واسطے گھر امرتسر آنے کا موقع ملا ۔وہ اتفاق اس طرح ہوا کہ ان کی اور ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم مغفور کی نوکری یوگنڈا ریلوے کے مریض قلیوں اور ملازموں کو جو بیمار ہو کر کام کے لائق نہیں رہے تھے واپس بمبئی تک پہنچانے کی لگی۔ان کے جہاز نے ایک ہفتہ قیام کے بعد بمبئی سے واپس ممباسہ کو جانا تھا اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر یہ دونوں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کرنے کے واسطے روانہ ہو پڑے۔رات کو بارہ بجے امرتسر گھر پہنچے صبح کو قادیان چلے گئے ۔دوسرے دن بیعت کرکے آئے اور واپس بمبئی چلے گئے ۔
{1337} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری والدہ مکرمہ مرحومہ مدفونہ بہشتی مقبرہ نمبر۱۳۰بہت نیک پاک اور عبادت گزار تھیں،جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے احمدی ہوگئے ہیں تو اس لحاظ سے کہ وہ نیک ہوگئے ہیں اور نماز روزہ کے پابند بھی ہوگئے ہیں وہ خوش تھیں۔لیکن ہمارے ہمسایہ اور رشتہ دار ان کو ڈراتے تھے کہ تیرے بیٹے کافر ہوگئے ہیں۔مرزا صاحب کی نسبت طرح طرح کے اتہام لگاتے اور بکواس کرتے تو وہ رویا کرتی تھیں اور دعا مانگتی تھیں۔ کہ اللہ کریم! ان کی اولاد کو سیدھے رستہ پر رکھے۔ میرے دل میں اس وقت سے کچھ اثر یا ولولہ احمدیت کا ہوگیا تھا جسے میں ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ رشتہ دار مخالف تھے۔ان کے بہکانے سے والدہ بھی مخالف ہی معلوم ہوتی تھیں۔اتفاق یہ ہوا کہ بھائی فیض علی صاحب صابر قریباً ایک سال کے بعد بیمار ہوجانے کے وجہ سے ملازمت چھوڑ کر واپس آگئے۔گھر میں کوئی نگران بھی نہ تھااس لئے بھی دوسرے بھائیوںنے ان کو بھیج دیا۔ان دنوں میرے دوسرے دو بھائی مظہر علی طالب اور منظر علی وصال بھی افریقہ چلے گئے ہوئے تھے۔بھائی فیض علی صاحب صابرجب واپس آئے تو قادیان آتے جاتے رہتے تھے اور گھر میں وہاں کے حالات سنایا کرتے تھے جس سے مجھے تو گو نہ تسلی ہوتی لیکن والدہ ماجدہ مرحومہ کو مخالفوں نے بہت ڈرایا ہو اتھا ۔
{1338} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مرادخاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے گھر میں پرانے رسم ورواج اور پردہ کی بڑی پابندی تھی۔ کنواریوں کو سخت پابندی سے رکھا جاتا تھا۔اچھی وضع کے کپڑے، مہندی ،سرمہ اور پھول وغیرہ کا استعمال ان کے لئے ناجائز تھا۔ ایک مرتبہ بھائی صاحب چھوٹے بھائیوں کے واسطے کوٹوں کا کپڑا لائے۔میرے دل میں خیال پیدا ہو کہ میں بھی اس کی صدری بنا سکتی بچپن کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی بچوں سے اسی طرح کا علیٰ قدر مراتب ہوتا ہے۔میںنے خیال کیا کہ اگر حضرت صاحب ؑ سچے ہیں تو خدا کرے اس کپڑے میں سے کوٹوں کی وضع کے بعد میری صدری کے قابل کپڑا بچ جاوے۔ چنانچہ جب کپڑا بچ گیا تو میں حیران تھی۔میرا دل صدری پہننے کو چاہتا تھا مگر زبان نہیں کھول سکتی تھی۔ پھر میںنے دعا کی اگر حضرت مرزا صاحب سچے ہیں تومیری صدری بن جائے۔ اور ڈرتے ڈرتے اماں جی سے کہا کہ میں اس کی صدری بنالوں ؟ یہ سن کر وہ سخت خفا ہونے لگیں کہ لڑکیاں بھی کبھی صدری پہنا کرتی ہیں؟ اس وقت بھائی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ بول پڑے کہ کونسی شریعت میں لڑکیوں کو صدری پہننا منع ہے؟ اس پر والدہ صاحبہ نے وہ کپڑا میری طرف پھینک دیا ۔میں نے کاٹ کر کے شام تک اس کی صدری سی لی۔ جس میں دو جیب بنالئے تھے۔ جب اس کو پہنا تو خیا ل ہوا کہ جیب خالی نہ ہوناچاہئے اس پر پھر خیال آیا کہ اگر حضرت مرزاصاحب ؑ سچے ہیں تو مجھے کہیں سے ایک روپیہ بھی مل جاوے۔اللہ کریم نے اس کوبھی پورا کردیا۔مجھے ایک روپیہ بھائی نے خود ہی دے دیا۔
{1339} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’ ہمارے ہاں سوہانجنے کا اچار بیٹھ جایا کرتا ہے ‘‘۔ منشی نبی بخش صاحب نے کہا ۔’’میری بیوی سوہانجنے کا اچار بہت اچھا ڈالتی ہے‘‘ اس پر حضرت صاحب نے حضرت ام المومنین سے کہہ کر مجھ سے تین چار چاٹیاں اچار کی ڈالوئیں اور وہ بہت اچھا رہا۔
{1340} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم آگرہ میں تھے وہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم صبح کو اٹھے تو بہت گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔اسی حالت میں ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے جب دو بجے واپس آئے تو ویسے ہی پریشان سے تھے۔پوچھا کہ کوئی خط حضورؑ کا قادیان سے آیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ فرمایا کہ حضرت اقدس کا خط کئی دن سے نہیں آیا۔خدا کرے خیریت ہو۔طبیعت بہت پریشان ہے۔میںکھانا لائی تو آپ ٹہل رہے تھے کہا،دل نہیں چاہتا ۔جب حضرت صاحب کے خط کو دیر ہوجاتی تو ڈاکٹر صاحب بہت فکر کرتے اور گھبراہٹ میں ٹہلا کرتے اور کہتے خد اکرے حضور ؑ کی صحت اچھی ہو۔ابھی ٹہل رہے تھے کہ قادیان سے حضور ؑ کا تار آیا۔ جس میں لکھا تھاکہ حضرت اُم المومنین کی طبیعت خراب ہے ۔آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر چلے آئیں ۔ مجھے کہا ،دیکھا میری پریشانی کا یہی سبب تھا۔مجھے کہا کہ مجھے بھوک نہیںہے ۔میرے واسطے سفر کا سامان درست کرو۔میں صاحب سے رخصت لے آئوں ۔ دعا کرنا کہ رخصت مل جاوے۔ ایک گھنٹہ کے بعد دس یوم کی رخصت لے کر قادیان چلے گئے ۔ ان دنوں میں صاحبزادی امۃ الحفیظ سلمہا پید اہونے والی تھیں۔ اس لئے حضرت اُم المومنین کی طبیعت ناساز تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو حبشی حلوہ جو حضرت اُم المومنین نے خود بنایا تھا ۔آپ کو راستہ میں ناشتہ کے واسطے دیا تھا ،ساتھ لائے اور مجھے بطور تبرک کے دیا ۔
{1341} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ صاحبہمنشی قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی کے چھ ماہ بعدمجھے میرا خاوند قادیان میں لایا اور ایک خط لکھ کر دیا کہ یہ حضرت صاحب کے پاس لے جاؤ۔میں خط لے کر گئی۔ حضورؑ نے وہ خط پڑھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ’’تمہارے میاں ڈاکٹر ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں حضورؑ ! آپ نے فرمایا ’’کیا حکیم ہیں ‘‘ میں نے عرض کیا نہیں حضورؑ ۔آپ ؑ نے فرمایا ۔’’پھروہ کس طرح کہتے ہیں کہ تمہارے ہاں اولادنہیں ہوگی۔ تمہارے ہاں اتنی اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکو گی‘‘اس واقعہ کے نو یا دس ماہ بعد مجھے ایک لڑکا پیدا ہوا ا وراس وقت میں سولہ بچوں کی ماں ہوں ۔ جن میں سے آٹھ بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1342} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز صاحب زوجہ چوہدری مولابخش صاحب چونڈے والے سر رشتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ۶؍مئی۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی۔میں بڑے دلان میں آکر اتری تھی۔ میں پہلے آٹھ یوم رہی تھی ۔میری گود میں لڑکا تھا ۔حضرت اماں جان نے پوچھا ۔اس کا کیانا م ہے؟ میں نے عرض کیا ۔’’مبارک احمد‘‘ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے مبارک کانام رکھ لیا ہے۔حضورؑ نے مسکرا کر فرمایا کہ’’جیتا رہے۔‘‘
مجھے بچپن سے ہی نماز روزہ کا شوق تھا۔ جب میں بیعت کر کے چلی گئی تو مجھے اچھی اچھی خوابیں آنے لگیں۔ میرے خواب میرے خاوند مرحوم کاپی میں لکھتے جاتے ۔جب ایک کاپی لکھی گئی تو حضور ؑ کی خدمت میں اس کو بھیجا اور پوچھا کہ حضورؑ! یہ خوابیں کیسی ہیں ؟ رحمانی ہیں یا شیطانی ؟ حضور علیہ السلام نے لکھ بھیجا تھا کہ ’’یہ سب رحمانی ہیں ۔‘‘
{1343} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی ۔پہلے جب میں اپنے خاوند مرحوم مغفور کے ساتھ قادیان میں آئی تھی تومیں آنگن میں بیٹھی تھی۔ جمعہ کا دن تھا ،حضور علیہ السلام نے مہندی لگائی ہوئی تھی اور کمرے میں سے تشریف لائے تھے ۔مجھے فرمایا کہ’’ تم رحیم بخش کی بیوی ہو ؟ میرے ساتھ چھوٹی بچی تھی۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’ یہ تمہاری لڑکی ہے ؟‘‘ فرمایا ’’تمہارا کوئی لڑکا بھی ہے ‘‘ میں نے عرض کیا کہ نہیں ،صرف یہی لڑکی ہے۔ ’’اچھا‘‘ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔
{1344} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی خادمہ ککے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بھائی حامد علی صاحب کے پیٹ میں تلی تھی۔ وہ حضور علیہ السلام سے علاج کرانے آتے تھے۔جب اچھے ہوگئے تو حضور ؑ کے خادم بن کر یہاں ہی رہ گئے اور اپنی بیوی کو بھی بلا لیا۔ حافظ نور محمد صاحب والد رحمت اللہ شاکر بھی قادیان آگئے ۔حضورؑ نے حافظ نور محمد صاحب کے والدصاحب سے کہا کہ ’’اپنا بیٹا ہمیں دے دو۔‘‘ مگر اس نے کہا کہ میر اایک ہی بیٹا ہے، آپ کو کس طرح دے دوں ۔ یہ آٹھویں دن حاضر ہو جایا کرے گا۔ حافظ حامد علی صاحب پانچ بھائی تھے ۔یہ دونوں حافظ تھے ۔ (حضور ؑ نے) قرآن مجید سننے کے واسطے ان کو اپنی خدمت میں رکھ لیاتھا۔
{1345} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب فنانشل کمشنر صاحب دورہ کی تقریب پر قادیان تشریف لائے تھے تو حضرت اقدسؑ نے جماعت کے معززین کو طلب فرمایا تھا تو ڈاکٹر صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی بذریعہ تار طلب کیا تھا ۔ وہ تین یوم کی رخصت لے کر آئے تھے ۔میں قادیان میں ہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے حضورؑ کے قدموں سے جد ا رہنا مصیبت معلوم ہوتا ہے، میرا دل ملازمت میں نہیں لگتا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’سر دست ملازمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ۔تم ایک سال کے واسطے آجاؤ ۔اکٹھے رہیں گے ۔ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ وہ حضور ؑسے اجازت لے کر ایک سال کی رخصت حاصل کر کے قادیان آگئے ۔
{1346 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خربوزے رکھے تھے تو میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سرور سلطان صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا بشیر احمد صاحب کہنے لگیں ۔’’نظر نہیں آتا ۔کیا ہے ؟‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا کہ’’نرمی سے بولا کرو اگر تم پٹھانی ہو تو وہ مغلانی ہے اس لئے محبت سے پیش آیا کرو۔‘‘
{1347} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمیں پانی کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف تھی ۔ہم سب گاؤ ں کے آدمیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ وہ کنواں لگوادیں ۔حضرت صاحب ؑ، اور بہت سے آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ اس وقت کوٹھیوں کے آگے جو رستہ ہے اس رستے سیر کو جارہے تھے ۔جب واپس ہمارے گاؤں کے قریب آئے تو لوگوں نے عرض کی کہ حضور ؑ پانی کی تکلیف ہے۔آپ ؑنے فرمایا ’’انشاء اللہ بہت پانی ہوجائے گا۔‘‘ اس وقت گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے ۔
{1348} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے وطن میانی میں تھی کہ میرے لڑکے اسحق کو جس کی عمر اس وقت دو سال کی تھی۔ طاعون کی دو گلٹیاں نکل آئیں ۔ان دنوں یہ بیماری بہت پھیلی ہوئی تھی ۔ہم بہت گھبرائے اور حضرت ؑ کے حضور دعا کے لئے خط لکھا۔لڑکا اچھا ہو گیا تو ایک ماہ کے بعد میں اس کو لے کر قادیان آئی اور اس کو حضورؑ کے سامنے پیش کیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو طاعون نکلی تھی۔ حضورؑ اس وقت لیٹے ہوئے تھے ۔سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور فرمایا ۔’’اس چھوٹے سے بچہ کو دو گلٹیاںنکلی تھیں ؟ ‘‘ اب خدا کے فضل سے وہ بچہ جوان اور تندرست ہے۔
{1349} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صفیہ ! گرم پانی کا لوٹا پائخانہ میں رکھو۔‘‘ مجھ سے کچھ تیز پانی زیادہ پڑگیا ۔جب حضورؑ باہر آئے تو مجھے کہا ۔ ’’ ہاتھ کی پشت کرو‘‘ اور پانی ڈالنا شروع کیا اور ہنستے بھی جاتے تھے ۔پھر فرمایا ۔’’ پانی تیز لگتا ہے‘‘ ؟ میں نے کہا لگتا تو ہے ۔آپ ؑ نے فرمایا ’’اتنا تیز پانی نہیں رکھنا چاہئے ۔‘‘
{1350} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن آپؑ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی ۔کئی طرح کے پھل لیچیاں ،کیلے ،انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دئے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ۔ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضورؑ نے اماں جان کو فرمایا کہ برکت کو وائی برنم دے دو۔ اس کے رحم میں درد ہے (ایکسٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے ۔) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی ۔حضورؑ نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح کو پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1351 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی۔آپؑ نے فرمایا کہ ’’برکت بی بی ! لو یہ درثمین پڑھا کرو۔‘‘
دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہوگیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو اَور عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آگیا ہے۔میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ ’’جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے ۔‘‘ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا۔ میںنفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی ۔یا اللہ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی ۔ حضور ؑ کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی ۔’حضورؑ مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضورؑ کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسو س کرتی ہوں، حالانکہ نہیں آنی چاہئے کیونکہ حضورؑ تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں ۔آپؑ سے نہ عرض کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔ پھر میں نے حضورؑ کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’وہ کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ‘‘۔ میں لے آئی آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’ جو عورت ایسا خواب دیکھے ۔تو اگر وہ حاملہ ہے تولڑکا پید اہوگا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘ میںنے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دوااور دعا سے حمل ہے۔آپؑ نے فرمایا ۔’’اب انشاء اللہ لڑکا پید اہوگا۔‘‘
{1352} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص جس کے سپرد گائے بھینس وغیرہ کا انتظام تھا وہ چوری سے چیزیں بھی نکال کر گھر کو لے جایا کرتا تھا۔ میاں کریم بخش صاحب نے اس کو منع کیاکہ بھئی تو اس طرح چیزیں نہ نکالا کرمگر وہ لڑ پڑا۔ میں نے جاکر حضور علیہ السلام کو بتایا کہ وہ اس طرح سے کرتا ہے میاں کریم بخش نے اس سے کہا تو وہ لڑپڑا۔ حضور علیہ السلام نے اس کوکہا ۔’’ہم ایسے آدمی کو نہیں چاہتے۔‘‘
{1353} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں سیر کو گئیں ۔ ( یہ باغ حضرت کی ملکیت تھا جو ڈھاب کے پار ہے ) اس میں صرف آم ،جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت تھے ۔کوئی پھول پھلواری اور ان کی کیاریاں وغیرہ زیبائش کا سامان نہیں تھا۔بالکل تنہا وہ باغ تھا،توحضور علیہ السلام نے سب کو جامن کھلائے ۔ایک بار حضور ؑ نے چڑوے ریوڑیاں کھلائیں ،حضرت اُم المومنین بھی ساتھ ہوتی تھیں ،چھابڑی والے بعض اوقات وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔
{1354} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب کی بیوی نے حضرت اُم المومنین صاحبہ سے پوچھا کہ نورجان نے ایسا ارائیوں والا لباس پہناہوا ہے۔ آپ اس کو اپنی نند کیوں کہتی ہیں ۔آپ نے کہا کہ اس کے بھائی سے پوچھو ۔ پھر آپؑ سے پوچھا۔آپؑ نے فرمایا۔ کہ ’’صرف لباس کی وجہ سے ہم بہن کو چھوڑ دیں ؟ یہ خود سادگی پسند کرتی ہیں ۔ پہلے ایسا ہی لباس ہوتا تھا‘‘۔
{1355} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بھائی صاحب فیض علی صاحب صابر کا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اقبال علی غنی اور منظور علی کو قادیان میں تعلیم دلائیں جس کے متعلق انہوںنے بصد مشکل والدہ ماجدہ مرحومہ کو راضی کیا اور جب اس طرح یہ دونوں چھوٹے بھائی قادیان چلے گئے تو کچھ اس خیال سے کہ والدہ کو ان کی جدائی شاق ہوگی اور کچھ بھائی صاحب کی بار بار تحریک سے کہا کہ میںنے بھی قادیان رہنا ہے اور قرآن مجید پڑھنا ہے ،آپ بھی چلیں اور وہاں حالات دیکھیں ۔والدہ مرحومہ اس وعدہ پرراضی ہوئیں کہ وہ صرف چند یوم کے واسطے جائیں گی اور الگ مکان میں رہیں گی اور کہ ان کو حضرت صاحبؑ کے گھر جانے وغیرہ کے واسطے ان کی خلاف مرضی ہر گز مجبور نہ کیا جاوے۔ چنانچہ بھائی صاحب نے ایک مکان خوجہ کے محلہ میں مراد و ملانی کا جو شیخ یعقوب علی تراب کے مکان کے ساتھ گلی کے کونے پر تھا، کرایہ پر لے لیا۔ اور مجھے اور حضرت بوبو جی(اماں جی ) کولے آئے ۔ میں نے کبھی ریل نہ دیکھی تھی ۔بوبوجی کو راستہ میں یکہ اور کچی سڑک کے باعث بہت تکلیف ہوئی ۔چکر آئے اور قے بھی ہوگئی ۔اس مکان پر پہنچ کر وہ تو مصلّے پر لیٹ گئیں ،میں نماز سے فارغ ہو کر کھانا پکانے میں لگ گئی۔ بھائی صاحب نماز پڑھنے چلے گئے ۔بوبوجی نے اس گھبراہٹ میں ہی نما زپڑھی۔ قبلہ کی جانچ بھی نہ کی ۔ نماز کے بعد وہیں غنودگی میں لیٹے تھے کہ بھائی صاحب آگئے۔ والدہ بوبوجی نے اچانک بیدار ہو کر کہا کہ میں نے ابھی ایک بزرگ سفید ریش کو دیکھا ۔جن کے ہاتھ میں عصا تھا۔ انہوںنے تین دفعہ فرمایا ،’’یا حضرت عیسیٰ ؑ‘‘ اس پر بھائی صاحب نے کہا کہ بوبو جی آپ کو تو آتے ہی بشارت ہو گئی ہے اب آپ کو زیادہ تأمل بیعت میں نہیں کرنا چاہئے ‘‘۔
{1356} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم کو مراد وملانی کے مکان میں رہتے ہوئے چند دن گزر گئے تو ہمسائیوں کی عورتیں گھر میں آنے جانے لگیں اور ان کو معلوم ہو اکہ بوبو جی کو لوگوںنے ڈرایا ہو اہے تو باوجود یکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھیں مگر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب میں کوئی بات خوف کرنے کی نہیں ہے۔ وہ تو بچپن سے ہی ہم جانتی ہیں بہت نیک پاک ہے نمازی پرہیز گار ہے۔
بوبوجی کو مخالفوں نے یہاں تک ڈرایا ہوا تھا کہ اگر تو جاتی ہے تو اپنی لڑکی کو ساتھ نہ لے جا۔ مرزا جادو گر ہے وہ اپنے مریدوں کو ایسا قابو کر لیتا ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنی عزتوں کی بھی پروا نہیں کرتے ۔لیکن جب بوبوجی کا ڈر ہمسائیوں کے ملنے اور قادیان میں دو تین ہفتہ تک رہنے سے کچھ کم ہو ا۔تو ان کو حضرت صاحب کے گھر جانے کی جرأت ہوگئی ۔ایک دن وہ چند ہمسائییوں کو لے کر دل کڑا کر کے حضرت اقدسؑ کے گھر گئیں ۔حضرت اقدسؑ کو دیکھ کر انہوں نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہے جس کو انہوں نے پہلے دن کشف میں دیکھا تھا۔
{1357} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’دوسرے دن بوبو جی مجھے ساتھ لے کر گئیں ۔تو پہلے قدرت اللہ خان کی بیوی سے ملے۔ اونچے دالان کے سامنے تخت پوش پر جہاں ڈاکٹرنی اور اُمّ حبیبہ بیٹھی ہوئی تھیں ہمیں بٹھا دیا اور ہم سے پتہ معلوم کر کے حضرت اقدسؑ کو اطلاع دی کہ مہمان عورتیں آئی ہیں ۔ حضرت اقدس ؑ اور اُم المومنین تشریف لے آئے ۔بوبوجی نے پردہ کیا ۔ ڈاکٹر نی نے کہا کہ اللہ کے نبی سے پردہ نہیں کرنا چاہئے ۔مگر انہوں نے کہا کہ مجھے شرم بھی آتی ہے اور پردہ کا رواج بھی ہمارے گھر میں زیادہ ہے ۔حضرت کے دریافت کرنے پر جب حضور ؑ کو معلوم ہو اکہ یہ ڈاکٹر فیض علی صاحب کی والدہ ہیں تو آپ ؑنے فرمایا کہ کہاں ٹھہرے ہواور کب سے آئے ہو؟ والدہ نے عرض کیا کہ پندرہ دن ہوئے ہیں ۔ہم مراد وملانی کے مکان میں رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ۔’’ کھانے کا کیا انتظام ہے؟‘‘ بوبو جی نے کہا کہ خود پکالیتے ہیں ۔فرمایا کہ’’ا فسوس کی بات ہے کہ ہمارے مہمان ہو کر خود کھانا پکائیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ قادیان میں جو مہمان آتا ہے وہ ہمارا ہی مہمان ہو تا ہے ۔ آپ کو ڈاکٹر فیض علی نے نہیں بتایا ؟‘‘ بوبوجی نے کہا ہم پانچ چھ آدمی ہیں ۔حضور علیہ السلام کو تکلیف دینا منا سب نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے گھر سے ہی کھانا کھائیں ۔فرمایا کہ’’دادی کہاں ہیں ؟‘‘ دادی نے کہا ۔’’حضور جی! میںکولے کھڑی آں‘‘۔ فرمایا ’’ان کے ساتھ جاکر گھر دیکھ لو اور دونوں وقت کھانا پہنچا آیا کرو اور پوچھ لیا کرو کہ کوئی تکلیف تو نہیںہے ۔‘‘ میرے متعلق پوچھا کہ ’’ کیا یہ فیض علی کی لڑکی ہے ؟‘‘ بوبوجی نے بتایا کہ یہ میری لڑکی ہے ۔ فیض علی کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔پوچھا ’’عمر کیا ہے ؟‘‘ بوبوجی نے بتایاچودہ سال۔اس وقت دادی اور فجو ہمیں گھر چھوڑنے آئیں ۔کھانا لنگر سے آنے لگا۔لنگر ابھی گھر میں ہی تھا۔وہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے۔ مہمانوں کا کھانا زردہ ،پلاؤ وغیرہ بھی گھر ہی پکتا تھا۔حضرت اُم المومنین صاحبہ کھانا خود تقسیم فرماتی تھیں ۔ چند یوم کے بعد بوبوجی اور میں نے بیعت کر لی ۔ بیعت مغرب کے بعد اونچے دالان کے ساتھ والے چھوٹے کمرے میں کی تھی۔ اس میں کھوری بچھا کر اوپر ٹاٹ کے ٹکڑے بچھائے ہوئے تھے اوردونوں طرف لکڑی کے دو صندوق تھے ایک پر موم بتی جل رہی تھی اور حضور علیہ السلام کچھ تحریر فرما رہے تھے ۔جگہ تنگ تھی ۔ہم ددنوں دروازہ میں بیٹھ گئیں حضور علیہ السلام نے بیعت لی اور دعا فرمائی ۔
{1358} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم بیعت کر کے امرتسر واپس چلے گئے ۔ میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی۔ ایک سال کے بعد میرے بڑے بھائی علی اظفر صاحب مرحوم نے افریقہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ ’’میری بہن کے رشتہ کا حضور ؑ کو اختیار ہے ، حضورؑ اس کے ولی ہیں ،جہاں حضورؑ کی منشاء ہو ،رشتہ کر دیں ‘‘۔ اور اسی مفہوم کا ایک خط بھائی فیض علی صاحب صابر کو بھی لکھ دیا۔پھر حضور علیہ السلام نے بھائی صاحب کو تحریر فرمایا کہ ’’آپ کے بڑے بھائی نے ہمیں ہی لڑکی کا سربراہ بنادیا ہے ،ان کاخط آیا ہے۔ ہم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو پسند کرتے ہیں ۔ ان کو دیکھ لو اور چاہو تو ان سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح کر دو۔ مگر بہتر ہو کہ پہلے ان کو اپنی ہمشیرہ دکھا بھی دو‘‘ ۔
{1359} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر خلیفہ صاحب مرحوم ومغفور فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈاکٹر فیض علی صاحب کی طرف ایک تحریر دی جس میں رشتہ کا لکھا تھا۔آپ رقعہ لے کرامرتسر گئے۔امرتسر میں آپ کو حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ مل گئے ۔آپؓ نے دریافت فرمایاکہ’’ کیسے آئے ہو؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا تو حضرت نانا جانؓ نے کہا کہ ’’لاؤ رقعہ مجھے دو تم تو بڑے بھولے ہو۔کوئی اپنے رشتہ کا پیغام خود بھی لے جاتا ہے ؟ ہم خود پیغام لے کر جائیں گے ۔‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ رقعہ حضرت میرصاحبؓ کے سپرد کر کے خود لاہور چلے گئے ۔
{1360} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر فیض علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری ہمشیرہ کے رشتہ کا رقعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے خود خلیفہ صاحب کو دیا تھا ۔چونکہ پہلے مجھ سے ان کا تعارف نہ تھا۔ یوں بھی شرمندگی سے وہ خود میرے پاس نہیں آئے اور حضرت میر صاحب نانا جانؓ کو بھیج کر خود لاہور چلے گئے تھے ۔ میں دوسرے دن یہ ہدایت نامہ لے کر پہلے ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ کے پاس چھاؤنی میاں میر (لاہور) میں گیا۔ڈاکٹر صاحب رقعہ دیکھ کر بہت خوش بھی ہوئے ہونگے۔ فرمایا۔حضرت اقدس ؑ کاحکم سر آنکھوں پر ہے ۔ پھر میں آگے لاہور حویلی پتھراں والی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے پا س چلا گیا ۔میں نے ان سے کہا کہ ’’دیکھنا ہے تو چل کر دیکھ لو۔مگر سیرت جو نہایت ضروری ہے اسے کس طرح دیکھ کر معلوم کروگے(میں نے کچھ ایسا ہی کہا تھا) مگر شاید وہ خود جا کر دیکھنے میں بھی شرمساری محسوس کرتے ہونگے۔ واللّٰہ اعلم
انہوں نے کہا کہ میں نے صورت وسیرت کے متعلق سن لیا ہے اور تمہارے چھوٹے بھائیو ں کو بھی جو قادیان میں پڑھتے ہیں دیکھا ہے اور مجھے ہر طرح سے تشفی ہے ۔اس وقت تجویز یہ ہوئی کہ غالباً کل یا پرسوں قادیان پہنچ جاویں اور نکاح ہوجاوے۔چنانچہ میں اور ڈاکٹر صاحب وقت پر قادیان میں پہنچ گئے ۔ جب نکاح پڑھا جارہاتھا تو یہ دریافت کرنے پر کہ مہر کیا مقرر ہو اہے میں نے کہہ دیا۔جس نے یہ نکاح پڑھوایا ہے مہر کا بھی اس کو علم ہو گا اس پر حضرت اقدس فِدَاہُ اُمِّیْ وَاَبِیْ نے مبلغ ۔؍۲۰۰ روپے حق مہر مقرر فرمادیا۔یہ نکاح بفضلہ تعالیٰ بہت مبارک ہو ا۔خد ا کی باتیں خدا ہی جانے ۔شاید یہ میری اس نیک نیتی کا ثمر تھا کہ میں اپنی بہن کو محض نیک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ عنہ کے خواہ مخواہ گلے مڑھنا چاہتا تھا جس نے اس کے ایک دوسال بعد ہی لڑائی میں شہید ہوجانا تھا۔اللہ کریم نے مجھے ایک اور نیک نفس اور ایسا متقی انسان دے دیا جو بہر صورت نعم البدل تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت صاحب نے اس وقت مجھے کہا تھا جبکہ حضورؑ کو مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب کے لئے رشتوں کی ضرورت تھی۔اس وقت فرمایا تھا کہ ’’ تم اپنے بھائیوں سے بھی مشورہ کرلو۔‘‘ بھائی میرے افریقہ میں تھے ۔ان سے مشورہ کرتے ہوئے ایک دو مہینے ڈاک کے لگ جاتے مگر اس مرتبہ ویسا نہیں فرمایا ۔گویا یہ ایک تقدیر مبرم تھی ۔اَلْحَمْدُ للّٰہِ عَلٰی ذٰلِک
{ 1361 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کی وفات کے بعد ) حضور مسیح موعود علیہ السلام فِدَاہُ اُمِّی وَاَبِیْ اس جگہ جہاں ام ناصراحمد سلمہا کا آنگن ہے چارپائی پر بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔حضرت ام المومنین پاس ہوتی تھیں ۔حضرت ؑ اس طرح خوشی ہنسی باتیں کرتے تھے گویا کوئی واقعہ رنج اور افسوس کا ہوا ہی نہیں ۔عورتیں تعزیت کے واسطے آتیں تو حضور علیہ السلام کو اس حال میں راضی دیکھ کر کسی کو رونے کی جرأت نہ ہوتی اور حیران رہ جاتیں ۔
{1362} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضور علیہ السلام کو وضو کرانے لگی ۔عصر یا ظہر کا وقت تھا ۔میری لڑکی نے مجھے کہا کہ اماں ! یہ امام مہدی ہیں ؟میںنے کہا ہاں اس پر حضور ؑنے دریافت فرمایا کہ ’’یہ لڑکی کیا کہتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضورؑ ! یہ لڑکی پوچھتی ہے کہ امام مہدی یہی ہیں ؟ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ہاں ! میں امام مہدی ہوں ۔‘‘
حضور ؑ نے حکم دیا کہ انکے واسطے گوشت منگواؤ۔حضرت خلیفہ اول ؓ کی بیوی صاحبہ نے مجھے کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔حضورؑ کی خاص توجہ تمہارے حال پر ہے۔
{1363} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میرے خاوند رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری بیوی بیمار ہے اس کے رحم میں درد رہتا ہے ۔حضرت اقدسؑ نے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ ’’ہاں‘‘ حضورؑ نے فرمایا ’’اچھا میں علاج کروں گا۔‘‘ اس کے بعد ہم واپس چلے گئے ۔جب آٹھ دن کے بعد میں پھر آئی تو گلابی کمرہ کے آگے کھڑی ہوئی تھی کہ حضور علیہ السلام تشریف لائے ۔میں نے السلام علیکم کہا حضور ؑ نے فرمایا ’’وعلیکم السلام ‘‘ اور نہایت محبت اور شفقت سے فرمایا:۔ ’’ برکت آگئی ہے ‘‘؟ اماں جان نے فرمایا :اپنے علاج کے واسطے آئی ہے ۔حضورؑ نے فرمایا ’’نہیں وہ دین کی محبت رکھتی ہے ۔‘‘
{1364} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضورؑ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ’’ تم اپنے ہمسائیوں کو جانتی ہو؟‘‘ میں نے کہا ’ خوب واقف ہوں۔ مغل مرزا محمد علی مرحوم تھے ۔ہمارا بہت آنا جانا تھا۔فرمایا کہ محمد علی بیمار ہے میں دوا بنا دیتا ہوں اس کو پہنچا دو۔رستہ میں گرا تو نہیں دو گی؟ میں نے کہا ’جی میں سیانی بیانی رستہ میں بھلا گرا دو ں گی؟‘‘ پھر دوا شیشی میں ڈال دی اور نشان لگا دئیے اور فرمایا کہ ’’ جا کرکیا کہو گی ؟‘‘ میں نے کہا کہ میں کہوں گی کہ مسیح موعود ؑ نے بھیجی ہے۔ پھر پوچھا ’’ مائی تابی تیری کیا لگتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ میری خالہ لگتی ہے ۔دریافت فرمایا کہ ’’ سگی خالہ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ میری ماں کی خالہ زاد بہن۔ پھر میں دوا دینے چلی گئی ۔پھر ایک دن آئی تو پوچھا کہ ’’ گابو تیری کیا لگتی ہے ؟‘‘ میں نے کہا کہ بھاوج ہے۔ آپؑ ہی نے توشادی کروائی تھی۔ اس کی ماںرشتہ دینے سے انکار کرتی تھی حضور ؑ نے پھر رشتہ کروادیا تھا۔
مائی تابی کی نواسی (برکت) کو حضور ؑ نے مودی خانہ کی چابی دی اور اس کی ذمہ داری لگا دی کہ وہی چیزیں نکال کر دیا کرے ۔
{1365} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میرے خاوند مرحوم ومغفور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کے گھٹنوں میں درد تھا وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر قادیان آئے تھے ۔درد بھی تھا لیکن یوں بھی ان کو کمال رغبت اس بات کی تھی کہ جہاں تک ہوسکے حضورؑ کے قدموں سے لگے رہیں ۔جب ہم آئے تو میری والدہ قادیان کے پرلے سرے پر ریتی چھلہ کی طرف ملاوامل کے مکان میں رہتی تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے حضورؑ سے اجازت طلب کی کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ بھی ہے ۔اس وقت عزیزہ رضیہ بیگم سلمہا ۳سال کی تھیں اور سیدہ رشیدہ مرحومہ ایک سال دو ماہ کی ہوگئی تھی۔ان کی والدہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں ۔ہمیں اجازت عطا فرمائی جاوے حضور ؑ نے فرمایا ۔ ’’نہیں تم میرے پاس ہی رہو تمہاری خوشدامن بھی تمہارے پاس آجاویںگی ‘‘۔چنانچہ اسی وقت مائی فجو کو بھیج کر انہیں بلا دیا۔
{1366} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو جب گھٹنوں میں درد تھا او ر وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تو حضور ؑ نے ہمیں گول کمرہ رہنے کو دیا۔دوسرے دن جب حضورؑ صبح کو سیر کے واسطے حسب معمول تشریف لے جارہے تھے تو ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’ یہ مکان آپ کے لئے ہے اور آپ کا ہی ہے‘‘ جب ڈاکٹر صاحب سیر سے واپس آئے تو اس قدر خوش تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتی ۔آپ خوشی سے جھومتے تھے اور حضرت اقدسؑ کی خوشنودی مزاج کے حصول پر تسبیح وتحمید کرتے تھے۔ جب رخصت ختم ہونے لگی اور صلاح الدین کی ولادت قریب تھی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کتنے دن آپ کی رخصت میں باقی ہیں ؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ ’’ صرف بیس دن ‘‘۔پھر دریافت فرمایا کہ ’’ تمہارے علم ڈاکٹری کی روسے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن ہیں ‘‘ ؟تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ۹؍دن معلوم ہوتے ہیں ۔حضورؑ نے فرمایا’’ اچھا ! ہم آپ کا اندازہ بھی دیکھ لیں گے اور دعا بھی کریں گے کہ آپ کی موجودگی میں ہی لڑکا پیدا ہوجائے‘‘ ۔
{1367} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ صلاح الدین کی ولادت سے ایک دو دن قبل میری والدہ نے سموسے پکائے اور کچھ ان میں سے تھالی میں لگا کر رومال سے ڈھانپ کر حضور ؑ کی خدمت میں لے گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ کیا لائی ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی کہ سموسے ہیں ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ میں نے خیال کیا تھا کہ لڑکا پیدا ہونے پر پتاشے لائی ہو‘‘ حضور علیہ السلام جب ایسا ذکر ہو تا تھا لڑکا ہی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ٹھیک نودن گزرنے پر لڑکا پیدا ہوا تو حضورؑ بہت خوش ہوئے نام ’’ صلاح الدین ‘ ‘ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب آپ کا حساب بھی ٹھیک نکلا ‘‘ ۔
{1368} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’صلاح الدین ‘‘ کے عقیقہ کے وقت ڈاکٹر صاحب نے دو بکرے منگوائے ۔میں نے کہا کہ کچھ مٹھائی بھی منگوا لو۔میں نے منت مانی ہے کہ لڑکا ہو گا تو مٹھائی تقسیم کروں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقیقہ کرنا تو سنت ہے۔ لڈو بانٹنے بدعت نہ ہوں ؟ حضورؑ سے پوچھ لیا جاوے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ خوشی کے موقعہ پر شیرینی بانٹنی جائز ہے ‘‘۔پہلے دو بکرے کئے گئے تھے پھر ایک اور کیا گیا تھا ۔دوسرے دن کچھ گوشت بازار سے بھی منگایا گیا تھا تاکہ تقسیم پوری ہوجاوے۔ اس وقت مٹھائی چار سیر روپیہ کی تھی جو کہ اٹھارہ روپیہ کی منگوا کر تمام گھروں میں اور دفاتر ومہمانخانہ وغیرہ سب جگہ تقسیم کی گئی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ اگرایک سو روپیہ کی مٹھائی بھی ہوتو پوری نہیں ہوگی ۔صلاح الدین سلمہ نود ن کا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو فرخ آباد ملازمت پر حاضر ہونے کا حکم آگیا ۔ آپؓ کا دل حضور کے قدموں سے جد اہونے کو نہیں چاہتا تھا مگر مجبوری تھی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’جاؤ‘‘۔
{1369} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں دوبارہ۱۹۰۳ء میں قادیان آئی اور وہ اگست کا مہینہ تھا۔ پشاور سے انگور کے ٹوکرے آئے ہوئے تھے ۔آپ نے امۃ الرحمن قاضی عبد الرحیم صاحب کی ہمشیرہ کو فرمایا ۔ ’’پارسل کھولو۔‘‘ انگور کچھ خراب تھے ۔ آپ بھی پاس بیٹھ ہوئے تھے ۔امۃ الرحمن سب کو دیتی رہی ،جب مجھے دینے لگی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ برکت کو میں خود دوں گا۔‘‘ پھر آپ نے چینی کی رکابی میں ڈال کر مجھے دئیے ۔میں وہ انگور شام کو تلونڈی لے کر چلی گئی ‘‘۔
{1370} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کو اس طرف توجہ تھی کہ جماعت میں عربی بول چال کا رواج ہو۔چنانچہ ابتدا میں ہم لوگوں کو عربی فقرات لکھ کر دئیے گئے تھے جو خاص حدتک یاد کئے گئے تھے بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی یاد کراتے تھے ۔میرا لڑکا( مولوی قمر الدین فاضل ) اس وقت چار پانچ سال کاتھا جب میں اسے کہتا۔’’ اِبْرِیْق‘‘ تو فوراً لوٹا پکڑ لاتا ۔( قمر الدین کی پیدائش بفضل خدا مئی۱۹۰۰ء کی ہے ) مگر کچھ عرصہ یہ تحریک جاری رہی بعد میں حالات بدل گئے اور تحریک معرض التوا میں آگئی ۔
 
Top