محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{1166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے۔ اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں۔ چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میںنے اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی یہ تھی ۔
؎ الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(۱) بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے ۔ اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں۔ اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں ۔ میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(۳) ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(۶) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا ۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(۷) ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔
{1167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے۔ اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔
{1168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر۹شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔
{1169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔
{1170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی ۔ مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔ اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔
{1171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔
(۱) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹دن۱۲گھنٹے ۴۴منٹ اور قریباً۷؍۶ء ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہورہاہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں۔
(۲) یکم محرم1ھ کا دن جمعہ تھا ۔ جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب تو فیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1ھ کو جمعہ کا دن تھا۔
(۳) یہ تقویمی نقشہ مختلف واقعات زمانہ گذشتہ وزمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا۔ اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۱۴شوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے۴۴۲۸۸۳ہوئے ۔ جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴شوال ۱۲۵۰ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ہوتے ہیں۔ اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب۴۴۲۸۷۰ہوتا ہے ۔ اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے۱۳دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد۴۴۲۸۸۳ہوتی ہے ۔اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے ۔ پس جو دن یکم محرم ۱ ھ کو تھا وہی دن۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کو تھا۔ سو چونکہ یکم محرم۱؍ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے۱۴؍شوال۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا۔ نیز۱۳؍فروری۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے ۔ کیونکہ قمری مہینہ کااوسط ۵۳۰۵۸۸۷۱۵ء ۲۹دن یعنی۲۹دن ۱۲گھنٹے ۴۴منٹ ۶۲۵۰۰÷۵۴۰۶۱؍۲ہوتی ہے ۔ اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ماہ کا ہوتا ہے ۔ جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب۲۷۵۹۱۰۰۶ئ۳۷۹۱۷(دن ) ہوتا ہے ۔ جس کی اعشاریہ کی کسر کو( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں۔ یعنی عرصہ۵۴۱۵ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھااور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے۔ پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا۔ اس لئے ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر۶۱۳میں درج ہے ۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴؍شوال۱۲۵۰؍ھجری بمطابق۱۳؍فروری۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ثابت کی گئی ہے ۔
{1172} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔
{1173} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ،جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔
{1174} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے۔ تو انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔
{1175} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ’’ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب‘‘ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔
{1176} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میںنے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوںنے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ۔ منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔ خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباًساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے ۔ اور بعض اور اصحاب بھی تھے ۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ۔ ’’یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ‘‘
{1177} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحا ق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے۔ اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے میںنے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا۔ وہ فوت ہوچکا ہے ۔
{1178} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی۔ جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا۔
{1179 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے۔یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا۔ میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا۔ راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ رتھ خوب ہلتی تھی۔ اس حالت میں حضور نے دو تین شعربنائے ۔
{1180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو ابھی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ،صرف ہم تینوں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ ۔ شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ ’’اس پاک زاد دا کی پُچھ دے او‘‘ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی۔ اور بڑے مرز اصاحب صفائی اور چھڑکاؤ کرا رہے تھے ۔ تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ۔ بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے ۔ اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے ۔مرزا صاحب نے کہا ۔ آؤ دیکھ لو ایہہ حال ہے اسدا۔ میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں ؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخد ا سمجھتے تھے۔
{1181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فوت ہوا۔ تو میںنے اسی دن ،جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ’’ہاں میںنے دعا کی تھی‘‘ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہوکر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے۔ کیونکہ اس میں خد اتعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
{1182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے ۔ڈریس کے بعد جب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ گھوڑے سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی۔ میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا۔
{1183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آ ف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الر حمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہو اتھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کرچکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی۔ لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے۔ جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضرہوئی۔ میں بھی موجود تھا۔ اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو وکیل احمدی نے عرض کیا۔ کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہوگئے۔ بریت نہ ہوئی۔ حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہوگیا۔ اور نہایت سادگی سے فرمایا ’’یہ شتاب کار لوگ ہیں۔ ان کو انجام دیکھنا چاہئے ۔ ‘‘ چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہوگئے ۔
{1184} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد حسین صاحب پنشنردفتر قانون گو نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا ۔ کہ جنوری۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام احمدیہ چوک سے باہرسیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کادوسرادن ہے ۔ ہمارے لئے خداتعالیٰ نے نشان پورا فرمایا۔ اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن خد اتعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے ۔
{1185} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۱۹۰۵ء میں مَیں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا۔ حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا۔ حضور کا ہاتھ بھاری اور پُر گوشت تھا۔
{1186} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالباً۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہوگئے ۔ حضور کے گردا گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جو سب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلا یا ہے ۔ اس چھوٹی مسجد(مبارک) سے لے کر بڑی مسجد(اقصیٰ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائیداً بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے ۔ کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی۔ اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔‘‘
{1187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبراسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے۔ قادیان آیا تھا۔ میں بھی باغ میں تھا ۔ پیغمبراسنگھ میرے پاس آیا ۔ میںنے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ایں ۔ جاؤ لیاؤ میں پیواں ۔ میں خاموش ہورہا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنادو۔ اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو۔میںنے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پوچھوں۔ تب میںنے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبراسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنا دو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا۔ تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا۔ بنادو شاید مسلمان ہو جائے ۔ چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا۔ اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کانام لکھا۔ یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے۔ پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبراسنگھ کو دے دیا ۔ چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبراسنگھ مسلمان ہوگیا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد میںنے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بناکر دے دو شاید مسلمان ہوجائے ۔ تو یہ سن کر پیغمبراسنگھ بہت خوش ہوا۔ اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی ۔ میںنے کہا ۔ہاں کیاسی ۔
{1188} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی۔ جس دن یہ الہام ہوا۔ تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے ۔ اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔‘‘ چنانچہ مائی تابی جو اسّی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی۔
{1189} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔ جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔ جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی ۔
{1190} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدنور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دئیے تھے۔ شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا۔ حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا۔ میںنے عرض کیا ۔ حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہوتو مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں۔ ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا کہ میںنے رنج کے وقت میں شعرگوئی کی فرمائش کیوں کردی ۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی ۔ تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی ۔ جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کردیتا تھا۔
؎ الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(۱) بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے ۔ اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں۔ اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں ۔ میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(۳) ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(۶) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا ۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(۷) ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔
{1167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے۔ اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔
{1168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر۹شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔
{1169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔
{1170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی ۔ مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔ اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔
{1171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔
(۱) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹دن۱۲گھنٹے ۴۴منٹ اور قریباً۷؍۶ء ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہورہاہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں۔
(۲) یکم محرم1ھ کا دن جمعہ تھا ۔ جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب تو فیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1ھ کو جمعہ کا دن تھا۔
(۳) یہ تقویمی نقشہ مختلف واقعات زمانہ گذشتہ وزمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا۔ اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۱۴شوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے۴۴۲۸۸۳ہوئے ۔ جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴شوال ۱۲۵۰ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ہوتے ہیں۔ اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب۴۴۲۸۷۰ہوتا ہے ۔ اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے۱۳دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد۴۴۲۸۸۳ہوتی ہے ۔اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے ۔ پس جو دن یکم محرم ۱ ھ کو تھا وہی دن۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کو تھا۔ سو چونکہ یکم محرم۱؍ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے۱۴؍شوال۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا۔ نیز۱۳؍فروری۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے ۔ کیونکہ قمری مہینہ کااوسط ۵۳۰۵۸۸۷۱۵ء ۲۹دن یعنی۲۹دن ۱۲گھنٹے ۴۴منٹ ۶۲۵۰۰÷۵۴۰۶۱؍۲ہوتی ہے ۔ اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ماہ کا ہوتا ہے ۔ جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب۲۷۵۹۱۰۰۶ئ۳۷۹۱۷(دن ) ہوتا ہے ۔ جس کی اعشاریہ کی کسر کو( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں۔ یعنی عرصہ۵۴۱۵ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھااور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے۔ پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا۔ اس لئے ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر۶۱۳میں درج ہے ۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴؍شوال۱۲۵۰؍ھجری بمطابق۱۳؍فروری۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ثابت کی گئی ہے ۔
{1172} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔
{1173} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ،جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔
{1174} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے۔ تو انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔
{1175} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ’’ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب‘‘ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔
{1176} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میںنے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوںنے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ۔ منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔ خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباًساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے ۔ اور بعض اور اصحاب بھی تھے ۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ۔ ’’یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ‘‘
{1177} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحا ق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے۔ اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے میںنے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا۔ وہ فوت ہوچکا ہے ۔
{1178} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی۔ جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا۔
{1179 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے۔یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا۔ میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا۔ راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ رتھ خوب ہلتی تھی۔ اس حالت میں حضور نے دو تین شعربنائے ۔
{1180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو ابھی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ،صرف ہم تینوں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ ۔ شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ ’’اس پاک زاد دا کی پُچھ دے او‘‘ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی۔ اور بڑے مرز اصاحب صفائی اور چھڑکاؤ کرا رہے تھے ۔ تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ۔ بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے ۔ اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے ۔مرزا صاحب نے کہا ۔ آؤ دیکھ لو ایہہ حال ہے اسدا۔ میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں ؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخد ا سمجھتے تھے۔
{1181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فوت ہوا۔ تو میںنے اسی دن ،جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ’’ہاں میںنے دعا کی تھی‘‘ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہوکر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے۔ کیونکہ اس میں خد اتعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
{1182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے ۔ڈریس کے بعد جب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ گھوڑے سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی۔ میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا۔
{1183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آ ف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الر حمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہو اتھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کرچکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی۔ لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے۔ جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضرہوئی۔ میں بھی موجود تھا۔ اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو وکیل احمدی نے عرض کیا۔ کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہوگئے۔ بریت نہ ہوئی۔ حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہوگیا۔ اور نہایت سادگی سے فرمایا ’’یہ شتاب کار لوگ ہیں۔ ان کو انجام دیکھنا چاہئے ۔ ‘‘ چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہوگئے ۔
{1184} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد حسین صاحب پنشنردفتر قانون گو نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا ۔ کہ جنوری۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام احمدیہ چوک سے باہرسیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کادوسرادن ہے ۔ ہمارے لئے خداتعالیٰ نے نشان پورا فرمایا۔ اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن خد اتعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے ۔
{1185} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۱۹۰۵ء میں مَیں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا۔ حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا۔ حضور کا ہاتھ بھاری اور پُر گوشت تھا۔
{1186} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالباً۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہوگئے ۔ حضور کے گردا گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جو سب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلا یا ہے ۔ اس چھوٹی مسجد(مبارک) سے لے کر بڑی مسجد(اقصیٰ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائیداً بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے ۔ کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی۔ اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔‘‘
{1187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبراسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے۔ قادیان آیا تھا۔ میں بھی باغ میں تھا ۔ پیغمبراسنگھ میرے پاس آیا ۔ میںنے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ایں ۔ جاؤ لیاؤ میں پیواں ۔ میں خاموش ہورہا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنادو۔ اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو۔میںنے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پوچھوں۔ تب میںنے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبراسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنا دو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا۔ تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا۔ بنادو شاید مسلمان ہو جائے ۔ چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا۔ اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کانام لکھا۔ یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے۔ پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبراسنگھ کو دے دیا ۔ چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبراسنگھ مسلمان ہوگیا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد میںنے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بناکر دے دو شاید مسلمان ہوجائے ۔ تو یہ سن کر پیغمبراسنگھ بہت خوش ہوا۔ اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی ۔ میںنے کہا ۔ہاں کیاسی ۔
{1188} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی۔ جس دن یہ الہام ہوا۔ تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے ۔ اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔‘‘ چنانچہ مائی تابی جو اسّی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی۔
{1189} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔ جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔ جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی ۔
{1190} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدنور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دئیے تھے۔ شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا۔ حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا۔ میںنے عرض کیا ۔ حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہوتو مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں۔ ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا کہ میںنے رنج کے وقت میں شعرگوئی کی فرمائش کیوں کردی ۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی ۔ تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی ۔ جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کردیتا تھا۔